کچھ باتیں۔۔ میرے سکول کے حوالے سے:)

ہادیہ

محفلین
بس پھر بسم اللہ سلام سے ہی کریں۔۔۔
سلام کے سلسلے میں بچوں کو تین باتیں سکھائیں (ان باتوں پر بڑوں کو تو اور بھی زیادہ عمل کرنا چاہیے۔۔۔)

۱)۔۔۔۔بچوں کو پہلا سبق واضح انداز میں سلام کرنے کا دیں۔۔۔
ساما لیکم، سائی کُم، سلاما علیکم جیسے مجہول اندا ز کی اصلاح کریں۔۔۔
اور بچوں سے واضح انداز میں ’’الف‘‘ ، ’’س‘‘ پر تشدید اور ’’ل‘‘ وغیرہ صحیح سے ادا کروائیں۔۔۔

۲)۔۔۔۔بچوں کو سلام کی فضیلت بتائیں کہ ۔۔۔
سلام کرنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو دس۔۔۔
تو ہمیں زیادہ ثواب کی طرف بڑھنا چاہیے۔۔۔
جب کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہوجاتا ہے، چاہے وہ جواب نہ سن سکتا ہو، مثلاً بہرا ہو، یا راستے میں سلام کرکے اتنا آگے بڑھ گیا ہو کہ آپ کی آواز اس تک نہ جائے، یا تحریر میں سلام لکھا ہو۔ آپ کو منہ سے وعلیکم السلام ضرور کہنا ہے۔۔۔
اور جب ہم سلام کرتے ہیں تو اصل میں دعا دیتے ہیں کہ اللہ تمہیں سلامتی کے ساتھ رکھے۔۔۔
اور سلامتی کا مطلب ہے کہ ایمان کی سلامتی بھی رہے، جسم و جان کی سلامتی بھی رہے اور مال کی سلامتی بھی رہے۔۔۔
ایمان کی سلامتی یہ کہ اسلام پر قائم رہیں۔۔۔
جسم و جان کی سلامتی کا مطلب یہ کہ ہر قسم کے حادثات، جسمانی معذوریوں، بڑی بڑی لاعلاج اور خطرناک بیماریوں سے حفاظت رہے۔۔۔
ہر وقت ڈاکٹروں، ہسپتالوں کے چکر لگانے سے جان چھوٹ جائے ۔۔۔
اور مال کی سلامتی یہ کہ اتنا بڑا مالی نقصان نہ ہوجائے کہ فقر و فاقے کی نوبت آکر کھانے پینے کے لالے پڑجائیں۔۔۔
اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اٹھائیں۔۔۔

اگر کوئی کہے کہ سلام کرنے سے تو دوسرے کو یہ فضیلتیں حاصل ہوں گی، ہمیں کیا ملے گا؟ تو اسے بتائیں کہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی مسلمان دوسرے کو دعا دیتا ہے تو ایک فرشتہ کہتا ہے کہ یااللہ اس نے جو اپنے بھائی کے لیے مانگا ہے آپ اسے بھی وہی نعمت عطا فرمائیں۔ چوں کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں اور یہ دعا دینے کی ڈیوٹی خود اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمے لگائی ہوتی ہے لہٰذا ان کی دعا رد ہوتی ہی نہیں، سب قبول ہی قبول ہے۔۔۔

۳)۔۔۔۔ بچوں کو یہ ساری فضیلتیں حاصل کرنے کے لیے کثرت سے سلام کرنے کی ترغیب دیں۔۔۔
گھر میں جتنی بار بھی داخل ہوں سلام کریں، گھر کے افراد جب بھی سامنے آئیں سلام کریں، گھر میں مہمان آئیں یا کسی کے گھر مہمان بن کر جائیں سب سے پہلے سلام کریں، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں چاہے جان پہچان والے ہوں یا اجنبی۔۔۔
بڑے تو بڑے چھوٹوں کو بھی سلام میں پہل کریں۔کئی صحابہ نے کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سلام کرلیں ، مگر کسی کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور آپ ہمیشہ سلام کرنے میں پہل کرجاتے ، چاہے وہ چھوٹے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔
ماشاء اللہ ۔۔زبردست۔۔ بہت اچھی باتیں بتائیں۔۔ قابل غور بات سب سےپہلے یہی ہے کہ اکثر لوگ سلام کرتے وقت الفاظ کی ادائیگی بگاڑ دیتے ہیں ۔متفق اس بات کا یقینا خود بھی خیال رکھنا چاہیئے اور بچوں کو بھی سیکھانا چاہیئے۔۔ جزاک اللہ خیرا

آج کل جو رجحان چلا ہے کہ ملتے وقت تو سلام کرتے ہیں لیکن جدا ہوتے وقت خدا حافظ یا اللہ حافظ کہتے ہیں۔۔۔
اگرچہ یہ بھی دعا ہے اور دعا دینا بری بات نہیں لیکن اس کی وجہ سے سلام کرنے کا عمل چھوٹ گیا جس کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔۔۔
لہٰذا بچوں کو رخصت ہوتے وقت بھی سلام کرنا سکھائیں کہ اس سے دعا بھی ملے گی اور سنت پر عمل کرنے کا ثواب بھی ۔۔۔
سنگل عمل سے ڈبل فوائد!!!
یہ تو میری بھی بہت پرانی عادت ہے۔ ملتے وقت السلام علیکم اور جاتے وقت اللہ حافظ کہنا۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ اس طرف توجہ دلانے کا۔۔ ان شاء اللہ آئندہ سے ایسا ہی ہوگا۔۔جزاک اللہ خیرا
 

ہادیہ

محفلین
ہماری اتنی عزت افزائی ؟ آج ہی بیگم کو یہ کمنٹ دکھاتا ہوں :)
بسم اللہ کریں سرجی۔۔:D:sneaky:

آپ کی مرضی
ہم کئی ایسے کمنٹ دکھا اور سنوا چکے، کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔:-(
شاباش۔۔ حوصلہ نہیں دینا آپ نے ۔۔:ROFLMAO:

الٹا جو کچھ سننے کو ملتا ہے، وہ یہاں نہیں لکھ سکتے۔ :p
تابش بھائی تُسی وی۔۔۔:p

ویسے نوبت ابھی یہاں تک نہیں پہنچی۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
واہ ۔۔کیا دعا دی ہے۔۔:sneaky:
خرم صاحب کے ارادوں کو پست کردیا دونوں بھائیوں نے۔۔ کیا تھا تھوڑی دیر اور اس خوش فہمی میں گزار لینے دیتے۔۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

ہادیہ

محفلین
بہت اچھے!
آپ نئے نئے تجربات کر رہی ہیں جو اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ آپ مسلسل بہتری کی طرف بڑھنا چاہتی ہیں۔ اس جوش اور ولولے کی حفاظت کیجیے گا۔
ایریٹیشن زیادہ ہو جائے تو ایریٹیشن کو انجوائے کرنا شروع کر دیں، پھر دیکھیں یہ کیسے بھاگتی ہے۔
اللہ آپ کی مشکلات آسان فرمائے۔ آمین
ایریٹیشن کو انجوائے کیسے کرتے ہیں بھلا؟
آمین ثم آمین۔۔ جزاک اللہ خیرا
 

ہادیہ

محفلین
بہت عمدہ لڑی۔ نہ صرف اساتذہ کے لیے، بلکہ والدین کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔
ہمارے ایک مربی ہیں۔ ان کا انداز یہ ہے کہ جب بھی کوئی گفتگو شروع کرتے ہیں تو مثال سے کرتے ہیں۔ اور مثال بھی سامنے موجود کسی چیز کی لیتے ہیں۔ مثلاً پین اٹھا کر اس سے مثال دے دی۔ پانی کا گلاس اٹھا لیا اور اس سے متعلق کسی مثال سے بات شروع کی۔
اس سے ہوتا یہ ہے کہ سامعین کی توجہ بھی مرکوز ہو جاتی ہے، بات سمجھ بھی آتی ہے اور موضوع کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔
یہ غالباً اسی قسم کی بات ہے، جس کی جانب عاطف بھائی نے اشارہ کیا ہے۔ کہ موضوع سے پہلے موضوع کی طرف لے کر آنا۔ پھر موضوع پر گفتگو شروع کرنا۔

ابتدائی اسباق پر پہلے بات ہو چکی ہے۔ ان میں ایک اہم سبق اور شامل کر لیں۔ وقت کی پابندی۔ جب بحیثیت استاد یا والدین آپ وقت کی پابندی کریں گے تو بچے آپ سے سیکھیں گے۔
متفق ۔۔وقت کی پابندی واقعی سب سے مشکل کام ہے۔۔۔ اس سلسلے میں کوشش ضرور کرسکتی ہوں۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔۔
 

ہادیہ

محفلین
میں ٹیچر تو نہیں لیکن جو تھوڑا بہت پڑھایا ہے تو ہائی سکول کے بچوں کو پڑھانا سب سے مشکل لگا۔ ان کی توجہ حاصل کرنا اور رکھنا اتنا آسان نہیں جتنا چھوٹے بچوں کا ہے اور نہ وہ یونیورسٹی کے بچوں کی طرح سیلف موٹیویٹڈ ہوتے ہیں
میں تو یہی کہتی ہوں "سرکاری سکول کے بچوں " کو پڑھانا بہت مشکل کام ہے۔ چاہے وہ پرائمری لیول ہو ، مڈل یا ہائی۔۔
 

ہادیہ

محفلین
ہادیہ بہنامیں آپ کی اس سلسلے میں زیادہ مدد تو نہیں کر پاوں گا البتہ آپ جس کلاس کے جس کورس سے متعلق سوال کریں گی ان شا اللہ اس حوالے سے بچوں کی تربیت کو مدنظررکھتے ہوئے کچھ مشورے دینے کی ضرور کوشش کروں گا۔
واہ واہ زبردست۔۔ آپ نے تو اچھی خاصی مدد کردی۔۔ مجھے تو بہت سے نئے آئیڈیاز ملے۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔۔اب جس بھی ٹاپک یا مضمون میں مجھے مشکل پیش آئے گی۔ ان شاء اللہ میں ضرور اسے ڈسکس کروں گی ۔۔ بہت شکریہ۔۔ جزاک اللہ خیرا
 
واہ واہ زبردست۔۔ آپ نے تو اچھی خاصی مدد کردی۔۔ مجھے تو بہت سے نئے آئیڈیاز ملے۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔۔اب جس بھی ٹاپک یا مضمون میں مجھے مشکل پیش آئے گی۔ ان شاء اللہ میں ضرور اسے ڈسکس کروں گی ۔۔ بہت شکریہ۔۔ جزاک اللہ خیرا
لمبے عرصے تک میرا ایک مشغلہ یہ بھی رہا ہے کہ پڑھانے سے قبل جس ٹاپک کو پڑھانا ہو اس کا نام لکھ کر ساتھ .PPT لکھ کر سرچ کرلیتا ہوں بہت عمدہ پریزینٹیشنز بنی بنائی مل جاتی ہیں اور بعض تو اتنی کام کی ہوتی ہیں کہ خود کئی نئے آئیڈیاز ملتے ہیں ان سے۔ اب یو ٹیوب نے بہت سے مسائل حل کردئیے ہیں اس سے بھی مدد لے سکتے ہیں
 

ہادیہ

محفلین
لمبے عرصے تک میرا ایک مشغلہ یہ بھی رہا ہے کہ پڑھانے سے قبل جس ٹاپک کو پڑھانا ہو اس کا نام لکھ کر ساتھ .PPT لکھ کر سرچ کرلیتا ہوں بہت عمدہ پریزینٹیشنز بنی بنائی مل جاتی ہیں اور بعض تو اتنی کام کی ہوتی ہیں کہ خود کئی نئے آئیڈیاز ملتے ہیں ان سے۔ اب یو ٹیوب نے بہت سے مسائل حل کردئیے ہیں اس سے بھی مدد لے سکتے ہیں
ویری یونیک آئیڈیا۔۔ زبردست۔۔۔۔۔:thumbsup::thumbsup::thumbsup:
 
میں نے تقریباً ہر عمر کے لوگوں کو پڑھایا ہے اور ہمیشہ اچھا رزلٹ رہا ہے الحمد للہ۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب آپ کسی بھی طالبعلم کی دلچسپی اس کے متعلقہ مضمون میں پیدا کردیتے ہیں تو اس کے لیے سمجھنا اور پڑھنا آسان ہوجاتا ہے۔ اپنے بیٹے کو پڑھانے کے لیے میں کارٹون کہانیوں کی مدد لیتا ہوں، پنجم تک کے بچوں کو کچھ عرصہ پڑھانے کا موقع ملا ان کے لیے میں پریکٹیکل سامان مثلاً ریاضی کے یے مختلف باکسز، کاغذ کے چھوٹے بڑے ٹکڑے اور کچھ بے کار سامان لے کر اسے جمع، نفی ، ضرب تقسیم کرتا رہتا تھا اس طرح وہ با آسانی چیزوں کو سمجھ جاتے تھے۔ نہم دہم کی کیمسٹری اور بائیو جو بچوں کو سب سے مشکل لگتی ہے اس کے لیے میرے پاس او لیول اور اے لیول کی سی ڈیز ہوتی تھیں ان سے ایٹم اور ان سے بننے والے مالیکیولز، ہابرڈائزیشن وغیرہ کو تھری ڈی پکٹورل ماڈلز کے ساتھ اور سٹیپ بائی سٹیپ سمجھایا جاتا تھا اس لیے بچے با آسانی سمجھ لیتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ صابن بنانا، سافٹ ڈرنک تیار کرنا، سرکہ بنانا وغیرہ ایسے بہت سارے کام بھی بچوں کو پڑھاتے ہوئے کروا دیا کرتا تھا۔ اس سے بچوں کی اتنی دلچسپی بڑھ جاتی تھی کہ سمجھنے سمجھانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ ایک بار تو بڑا کمال ہوا اور وہ یہ کہ کلاس کے دوران ایک دوست کی کال آئی اور ان سے کیچپ کی ریسپی کی بابت بات ہوئی(ان دنوں مجھے نجانے کیوں کچن ریسپیز میں بہت دلچسپی تھی اور پیزا، کیچپ، کیک رس، فروٹ کیک وغیرہ بنانے کے بہت سے ناکام و کامیاب تجربے کرتا رہتا تھا) تو ایک بچے نے سن لیا اور کہا سر ہمیں بھی سکھائیں۔ میں نے انھیں ریسپی لکھوائی اور اس سلسلے میں اپنی مما کی مدد کرنے کو کہا ۔۔۔۔اگلے دن بچے اتنے سارے کیچپ بچے لے کر آئے کہ مزہ آگیا۔اسی طرح سافٹ ڈرنک میں کیا کیا استعمال ہوتا ہے، اس کے انگریڈینٹس کو اردو میں کیا کہتے ہیں اور اسے کیسے بناتے ہیں، جب یہ پڑھایا تو اگلے دن بچے اپنی اپنی سافٹ ڈرنکس لےکر کلاس میں موجود تھے (چونکہ یہ کچھ خطرناک کام تھا اس لیے میں نے اس کے بعد انھیں اس سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی)۔ بائیو پڑھاتے ہوئے میں نے ہمیشہ پریکٹیکل کو اہمیت دی اور ریسکیو ٹریننگ کا بڑا حصہ انھیں بھی سمجھانے کی کوشش کی جیسے بلڈ پریشر چیک کرنا، نبض چیک کرنا، پٹی کرنا وغیرہ وغیرہ بلکہ انجکشن لگانا بھی سکھایا تھا۔ اردو پڑھاتے ہوئے میں تمام نعوت، حمود، ملی نغمات وغیرہ وغیرہ کو ہمیشہ گا کر اور بچوں کو ساتھ گوا کر پڑھاتا تھا۔مزے داری کی بات یہ کہ طرزیں ہم کلاس میں خود بناتے تھے،اسی طرح مکالمے کے لیے باقاعدہ کلاس میں دو بچوں کا مکالمہ اور ایسی بہت سارے مکالمے، کہانیوں کے لیے بچوں کے ڈرامے وغیرہ کی تیاری کروانے سے بچوں کو رٹا نہیں لگوانا پڑتا تھا۔
بڑی کلاسز میں ایم اے اور اعزازی طور پرایم فل کو پڑھایا اور مجھے لگا کہ انھیں پڑھانا اس حوالے سے تو مشکل نہیں کہ بہت زیادہ پریزینٹیشن یا پریکٹیکل کرنا مشکل ہے البتہ اس حوالے سے یہ کام مشکل ہے کہ زیادہ تر بچے پڑھنے کے لیے تیار ہی نہ ہوتے تھے(زیادہ تعداد ملازمت پیشہ ان افراد کی ہوتی جو جن کا مقصد محض ایم فل الاونس لینا ہوتاتھا)۔ اس کے لیے بس یہ کیا کہ ہر ٹاپک کو اتنی بار اور اتنی شدت سے (شدت مطلب بار بار اصرار) سے پڑھایا اور کراس کویسچن کیے کہ بچوں کے دماغ میں تیس چالیس فیصد بھی رہ جائے تو کافی ہے۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس لیول پر ڈائریکٹ پریزینٹیشن سے بچے گھبراتے ہیں اس لیے ایک سے زیادہ ٹاپکس دے کر ان میں سے کسی ایک پر کبھی پانچ سطور اور کبھی دس سطور لکھوا لیا کرتا۔ اس سے خاطر خواہ نتائج نکلے۔ میرے خیال میں کسی بھی درجے کے بچوں کو پڑھانا یا سمجھانا ہو جب تک آپ ان کی دلچپسی اس میں پیدا نہیں کرتے، آپ کے لیے انھیں پڑھانا اور ان کے لیے پڑھنا مشکل ہے۔ جو لوگ دلچسپی پیدا کیے بنا ربوٹ کی طرح اپنا لیکچر دے کر یا نوٹس لکھوا کر گم ہوجاتے ہیں مجھے ہمیشہ ان سے چڑ رہتی ہے۔ یا پھر وہ لوگ جو اچھے استاد تو ہیں لیکن ان کی زبان و بیان بہت مشکل ہے ان سے بھی خوامخواہ کی چڑ ہونے لگتی ہے اور کلاس کی دلچسپی محض حاضری پوری ہونے تک ہی رہ جاتی ہے۔
ہادیہ بہنامیں آپ کی اس سلسلے میں زیادہ مدد تو نہیں کر پاوں گا البتہ آپ جس کلاس کے جس کورس سے متعلق سوال کریں گی ان شا اللہ اس حوالے سے بچوں کی تربیت کو مدنظررکھتے ہوئے کچھ مشورے دینے کی ضرور کوشش کروں گا۔
بہت عمدہ
 

فرقان احمد

محفلین
  • حوصلہ افزائی بچے کے لیے توانائی کا ٹانک ہے۔
  • بچوں کو سمجھانا ہو تو مثالوں کے ذریعے سمجھایا جائے۔
  • کبھی کبھار انعام کا اعلان بھی کر دیا جائے تو بچے زیادہ فعال اور متحرک ہو جائیں گے۔
  • ڈانٹ ڈپٹ سے حتی المقدور گریز لازم ہے۔
  • طالب علموں کو زیادہ سے زیادہ سوال کرنے پر ابھارا جائے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
کیا حال ہیں محفلین؟ میں نے یہ تھریڈ اس لیے شروع کیا ہے کہ یہاں اپنے سکول کی باتیں شیئر کیا کروں گی اور آپ سب سے مفید مشورے بھی لیا کروں گی۔ یہاں بہت قابل اور صاحب علم لوگ موجود ہیں۔میں چاہتی ہوں میں یہاں باتیں ڈسکس کیا کروں آپ سب سے۔۔ اور آپ مجھے بتا سکیں کہ کہاں اساتذہ کا رویہ ٹھیک ہے اور کہاں پہ ایسا ہونا چاہیے جو بچوں کی بہتری میں معاون ثابت ہوسکے۔۔
چھٹیاں ختم ہوچکی ہیں۔ کل آخری چھٹی ہے۔ اس کے بعد پھر سے سکول جانا شروع کردینا ہے ۔ میں چاہتی ہوں۔۔میں اپنی تربیت یہاں کرسکوں ۔۔اور سیکھ سکوں کس طرح سے ہم بچوں کی بہترین انداز میں تربیت کرسکتے ہیں ۔۔
اس کے لیے جاسمن آپی، فرحت کیانی آپی، سید عمران صاحب، م حمزہ صاحب اور ان کے علاوہ جو بھی یہاں پہ تجربہ کار صاحبان موجود ہیں۔۔ امید ہے ہمارا ساتھ اس حوالے سے اچھا رہے گا:):):)
بہت دلچسپ سلسلے کا آغاز کیا ہے ہادیہ۔ میں نے ابھی یہ تین صفحے پڑھنے ہیں لیکن سوچا پہلے رسید کے طور پر چھوٹا سا جواب لکھ دوں۔ پھر تسلی سے پڑھ کر اپنے محدود مشاہدے کی بنیاد پر کچھ شیئر کرنے کی کوشش کروں گی ان شاءاللہ
آپ نے چونکہ سکول ٹیچنگ کی بات کی تو جلدی سے دو ٹپس
1۔ بچوں کو خود سے مانوس کریں۔ خصوصا سکول کے لیے استاد ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے اور آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ اکثر بچے ماں باپ کی بجائے استاد کی بات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اگر گھر میں والدین کہہ دیں کہ یہ چیز ایسے نہیں ایسے پڑھنی یا کرنی ہے تو بچہ چاہے استاد نے غلط ہی کیوں نہ بتایا ہو اور والدین اس چیز میں کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں، استاد کو غلط ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور ویسا ہی کرتا ہے جیسے استاد نے بتایا ہو۔
چھوٹے علاقوں میں جہاں مائیں سارا دن کھیتی باڑی یا دیگر کاموں میں اس بڑی طرح مصروف رہتی ہیں کہ چاہنے کے باوجود خود کو صاف ستھرا نہیں رکھ پاتیں، وہاں بچہ ٹیچر کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز اور سلیقے سے پہننے اوڑھنے سے بہت متاثر ہوتا ہے اور گھر جا کر اپنی ماں کو بھی ویسا ہی کرنے کو کہتا ہے سو بالواسطہ آپ والدین کی بھی تربیت کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں سلیقہ لانے کا ایک ذریعہ بن جاتے ہیں۔
بچوں کو صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالنے اور حوصلہ افزائی کے لیے سٹوڈنٹ آف دا ڈے/ویک/منتھ/ایئر کا ٹائٹل دیں۔ اس بچے کا نام بورڈ پر نمایاں طور پر لکھیں۔ اسے اپنا اسسٹنٹ بنائیں آپ دیکھیں گی کہ بچے استاد کی توجہ اور قربت حاصل کرنے کے لیے کیسے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے اور کلاس کا ماحول زیادہ مثبت ہو گا۔
اس وقت دنیا آپ کی ہتھیلی پر ہے۔ آپ لے پاس بلا مبالغہ ہزاروں مثالیں ہیں انٹرنیٹ پر۔ کلاس لیول وائز سبق کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو پہلا سٹاپ۔۔خان اکیڈمی کو رکھیں۔
فی الوقت اتنا ہی۔ مزید تفصیل بعد میں ان شاءاللہ
 
میں نے کرکے دیکھا اور سمپل ایڈیشن کی مجھے بہت ساری پریزینٹیشنز فائلز مل گئیں ۔۔
اور معلوم ہے ناں کہ پاور پوائنٹ سافٹ وئیر میں جب یہ پریزینٹیشن کھلے گی تو آپ نے صرف ایف 5 کا بٹن دبانا ہے جس سے سلائیڈ شو شروع ہوجائے گا ؟
 

ہادیہ

محفلین
کبھی کبھار انعام کا اعلان بھی کر دیا جائے تو بچے زیادہ فعال اور متحرک ہو جائیں گے۔
انعام کا سلسلہ میری سسٹر نے سب سے پہلے شروع کیا تھا۔ جیسا کہ بتا چکی ہوں کہ میری تقرری اسی سکول میں کچھ ماہ کے بعد ہوئی جہاں میری سسٹر پہلے سے پڑھا رہی تھی۔ جب سسٹر نے انعام کا سلسلہ شروع کیا تو اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایم فل میتھیس کرچکی ہے۔ اور کافی زیادہ تجربہ ہے کالج اور سکولز میں پڑھانے کا۔۔ اس نے یہی کمی محسوس کی تھی کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کم ہوتی ہے۔۔ جب میں گئی اسی سکول میں۔۔ پھر اس نے تھوڑی ہمت باندھی کہ کوئی جو مرضی کہتا رہے۔ میرے ساتھ میری بہن ہے ہم ملکر اس کو کامیاب بنائیں گی۔ میں نے وہاں صرف تقریبا تین ماہ پڑھایا ہے ابھی۔ اور ہم نے ایک پلان کیا۔ جس کے مطابق بچوں کو ہر ماہ کے اینڈ میں پرائز دینا ہے ۔ اور دینا ہر ٹیچر نے اپنی اپنی کلاس کو خود ہی۔۔
مثلا اگر میں سائنس کا مضمون پڑھاتی ہوں تو پورے ماہ میں جتنے بھی ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ آخر میں ان کے مارکس کاؤنٹ کرلیے۔ پھر جس بچے کے زیادہ ہوئے اس کے حساب سے فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کو دے دیے۔
نمبر ٹو پہ۔۔ اسمبلی میں جو بچہ سب سے اچھا اور صاف ستھرا ہوکر آئے گا اسے ملے گا۔۔
شروع شروع میں کچھ تنقید سننے کو ملی۔۔ مگر الحمد اللہ ۔۔ جس دن چھٹیاں ہونی تھی اس دن ہم بہنوں کے ساتھ باقی تمام ٹیچرز بھی ملکر اپنی اپنی کلاس کو کاپیز، کلر پنسلز، پنسلز، ربڑ، شارپنر وغیرہ وغیرہ دے رہی تھیں۔۔
انعام میں ہم نے لینی وہی چیزیں جو ان بچوں کے کام آسکیں۔۔اس کا کریڈٹ میری بہن کو جاتا ہے ۔۔۔اس نے تمام ٹیچرز کی برین واشنگ کی تھی۔۔
 

ہادیہ

محفلین
بہت دلچسپ سلسلے کا آغاز کیا ہے ہادیہ۔ میں نے ابھی یہ تین صفحے پڑھنے ہیں لیکن سوچا پہلے رسید کے طور پر چھوٹا سا جواب لکھ دوں۔ پھر تسلی سے پڑھ کر اپنے محدود مشاہدے کی بنیاد پر کچھ شیئر کرنے کی کوشش کروں گی ان شاءاللہ
آپ نے چونکہ سکول ٹیچنگ کی بات کی تو جلدی سے دو ٹپس
1۔ بچوں کو خود سے مانوس کریں۔ خصوصا سکول کے لیے استاد ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے اور آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ اکثر بچے ماں باپ کی بجائے استاد کی بات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اگر گھر میں والدین کہہ دیں کہ یہ چیز ایسے نہیں ایسے پڑھنی یا کرنی ہے تو بچہ چاہے استاد نے غلط ہی کیوں نہ بتایا ہو اور والدین اس چیز میں کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں، استاد کو غلط ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور ویسا ہی کرتا ہے جیسے استاد نے بتایا ہو۔
چھوٹے علاقوں میں جہاں مائیں سارا دن کھیتی باڑی یا دیگر کاموں میں اس بڑی طرح مصروف رہتی ہیں کہ چاہنے کے باوجود خود کو صاف ستھرا نہیں رکھ پاتیں، وہاں بچہ ٹیچر کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز اور سلیقے سے پہننے اوڑھنے سے بہت متاثر ہوتا ہے اور گھر جا کر اپنی ماں کو بھی ویسا ہی کرنے کو کہتا ہے سو بالواسطہ آپ والدین کی بھی تربیت کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں سلیقہ لانے کا ایک ذریعہ بن جاتے ہیں۔
بچوں کو صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالنے اور حوصلہ افزائی کے لیے سٹوڈنٹ آف دا ڈے/ویک/منتھ/ایئر کا ٹائٹل دیں۔ اس بچے کا نام بورڈ پر نمایاں طور پر لکھیں۔ اسے اپنا اسسٹنٹ بنائیں آپ دیکھیں گی کہ بچے استاد کی توجہ اور قربت حاصل کرنے کے لیے کیسے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے اور کلاس کا ماحول زیادہ مثبت ہو گا۔
اس وقت دنیا آپ کی ہتھیلی پر ہے۔ آپ لے پاس بلا مبالغہ ہزاروں مثالیں ہیں انٹرنیٹ پر۔ کلاس لیول وائز سبق کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو پہلا سٹاپ۔۔خان اکیڈمی کو رکھیں۔
فی الوقت اتنا ہی۔ مزید تفصیل بعد میں ان شاءاللہ
واہ واہ۔۔ زبردست۔۔ بھئی میں نے اپنے اساتذہ بالکل صحیح چنے ہیں۔۔ ماشاء اللہ ۔۔
آپ کی دی گئی ہدایات پہ ضرور ضرور عمل ہوگا۔۔ان شاء اللہ تعالیٰ
 

ہادیہ

محفلین
ابھی تو میں اپنی آسائنمنٹ بنا کر فری ہوئی ہوں۔۔ سائبر لاز۔۔ اففف۔۔۔دماغ کی دہی بنی ہوئی ہے۔۔
 
Top