کچھ باتیں۔۔ میرے سکول کے حوالے سے:)

جب تک ان درندوں کو سزائیں نہیں ہوں گی یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
یہی اصل نکتہ ہے۔
اس کا حل قانون کی عملداری میں ہی ہے۔ جب مجرم کو خوف ہو گا کہ اسے اس کے جرم کی کڑی سزا ملے گی، تب ہی وہ جرم سے بچے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ نظام اور قانون ظالم کا محافظ اور دوست ہے۔ لاقانونیت اوپر سے نیچے تک سرائیت کر چکی ہے۔
جرم کے خاتمے کے لیے مجرم میں سزا کا خوف پیدا ہونا ضروری ہے۔
بچوں کی تربیت اپنی جگہ ضروری اور اہم ہے، مگر ان کو ظالم سے بچانے کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی کا نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔
 

سین خے

محفلین
یہی اصل نکتہ ہے۔
اس کا حل قانون کی عملداری میں ہی ہے۔ جب مجرم کو خوف ہو گا کہ اسے اس کے جرم کی کڑی سزا ملے گی، تب ہی وہ جرم سے بچے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ نظام اور قانون ظالم کا محافظ اور دوست ہے۔ لاقانونیت اوپر سے نیچے تک سرائیت کر چکی ہے۔
جرم کے خاتمے کے لیے مجرم میں سزا کا خوف پیدا ہونا ضروری ہے۔
بچوں کی تربیت اپنی جگہ ضروری اور اہم ہے، مگر ان کو ظالم سے بچانے کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی کا نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔

لاقانونیت تو اپنی جگہ ہے ہی پر یہاں ہمارے معاشرے کا ایک اور بھیانک روپ دیکھنے میں آیا تھا۔ کم از کم سب مل کر بائیکاٹ تو اس فیملی کا کر سکتے تھے نا؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ صرف وہ گھرانے جن کے بچوں کے ساتھ ہوا اور ہم کو ملا کر ایک دو اور گھرانوں نے ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی۔ باقی سب ملتے تھے آنا جانا لگا رہتا تھا۔

ہمارے یہاں تو بلکہ الٹا خدا معاف کرے کہ victim blaming شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں کی یہ غلطی ماں باپ کی یہ غلطی۔ ان درندوں کو نہ کہ سزائیں دلوانے کی کوشش کی جائے، ان کے خلاف تحریکیں چلائی جائیں ہمارے یہاں اخباروں میں مظلوم کی الٹی غلطیاں گنوائی جاتی ہیں۔ یہ ہے ہمارا معاشرتی رویہ!
 
لاقانونیت تو اپنی جگہ ہے ہی پر یہاں ہمارے معاشرے کا ایک اور بھیانک روپ دیکھنے میں آیا تھا۔ کم از کم سب مل کر بائیکاٹ تو اس فیملی کا کر سکتے تھے نا؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ صرف وہ گھرانے جن کے بچوں کے ساتھ ہوا اور ہم کو ملا کر ایک دو اور گھرانوں نے ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی۔ باقی سب ملتے تھے آنا جانا لگا رہتا تھا۔
ہمارے معاشرے میں بزدلی، بے حسی اور خود غرضی رچ بس چکی ہے۔ جب تک میرا گھر ظالم کے شر سے محفوظ ہے، میں اس کے خلاف بولنے سے کتراؤں گا، اس خوف کے ساتھ کہ میں بولا تو میں بھی شر کی زد میں آ جاؤں گا۔
یہ نہیں جانتا کہ شر اور ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو جلد یا بدیر میرا گھر بھی اسی چنگاری کی لپیٹ میں آئے گا۔
ہمارے یہاں تو بلکہ الٹا خدا معاف کرے کہ victim blaming شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں کی یہ غلطی ماں باپ کی یہ غلطی۔ ان درندوں کو نہ کہ سزائیں دلوانے کی کوشش کی جائے، ان کے خلاف تحریکیں چلائی جائیں ہمارے یہاں اخباروں میں مظلوم کی الٹی غلطیاں گنوائی جاتی ہیں۔ یہ ہے ہمارا معاشرتی رویہ!
ہم اپنے مزاج میں کوفیوں سے بڑھ گئے ہیں۔ جملہ شاید تلخ ہے، مگر حقیقت اس سے زیادہ تلخ۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہمارے بہاولپور کے ایک قریبی شہر کے ایک نجی سکول میں ابھی کچھ دن پہلے آٹھ سالہ بچے کے ساتھ ایسا ہی ایک اندوہناک واقعہ ہوا۔ اخبار میں کوئی خبر نہیں دیکھی۔ اس لیے معلوم نہیں کہ ان اساتذہ( اس لفظ کی جگہ بندہ کون سا لفظ ان ظالموں کے لیے استعمال کرے۔ بلکہ لفظ ظالم بھی بہت چھوٹا سا لفظ معلوم ہوتا ہے ۔) کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی یا نہیں۔
بچے کو لینے آنے والا وقت پہ نہ پہنچ سکا تھا۔آہ!
بچوں کے ذہن پہ اس طرح جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ نجانے کب تک ساتھ رہتے ہیں۔ شاید ساری زندگی۔
 

زیک

مسافر
میرے خیال میں اساتذہ کے تربیتی کورسز ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔تو ان کو اس طرح کی تربیت بھی دی جانی چاہیے کہ وہ بچوں کی اس معاملہ میں کس طرح راہنمائی کریں۔
بیٹی کے سکول میں رضاکارانہ کام کرنے کے لئے بھی اس معاملے کی ٹریننگ لینی ہوتی ہے اور قانوناً لازمی ہے کہ رضاکار بھی ایسی کوئی حرکت کے آثار دیکھیں تو فوراً رپورٹ کریں
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
بہت مفید بحث چل رہی ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں بچوں کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے مسئلے یعنی ایبیوزر کے سدباب اور معاشرے میں ایسے عناصر کو نیوٹرلائز کرنے پر کام کرنا چاہیے۔ مثلاً اپنے تمام جاننے والوں کے ساتھ اس طرح کے مسائل پر گفتگو کی جائے، انہیں مشورے اور تجاویز دینے کے ساتھ ساتھ ان کی بھی سُنی جائے۔ علاقے میں موجود مذہبی، سیاسی اور تعلیمی میدان میں سرگرم شخصیات سے بات کی جائے۔ انہیں احساس دلایا جائے کہ آج اگر کسی اور کا بچہ ہے تو کل خدا نخواستہ ہم میں سے بھی کسی کا ہوسکتاہے۔
خصوصاً ملکی سطح پر انٹرنیٹ پر موجود شہوت انگیز مواد کو فی الفور رفع کیا جائے۔ علاقے کی سطح پر موبائل شاپس اور دیگر ڈاؤن لوڈنگ سینٹر پر اس کی روک تھام بھی بہت ضروری ہے۔ میڈیا کے بے لگام اور بے حیا کرداروں کو منظر سے مکمل ہٹایا اور سزا دی جائے۔ تب ہی یہ مسئلہ رُکے گا وگرنہ صرف بچوں کو سمجھانے سے یہ مسئلہ کبھی بھی ختم یا خاطر خواہ کم نہیں ہوسکتا۔ بچے نفسیاتی طور پر بہت ہی کمزور ہوتے ہیں۔ اُنہیں ذرا سا بھی لالچ یا دھمکا ڈرا کر پسلایا جاتاہے۔ ٹی وی کا کینسر، مخلوط نظام تعلیم اور اسمارٹ فونز کا تباہ کُن استعمال ہماری نئی نسل کو بہت زیادہ بگاڑ رہی ہے جس کے ثمرات وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھیں گے۔ شریعتِ مطہرہ پر خود عمل کرکے اور اس سےہر شخص کو آگاہ کرکے یہ سب مسائل خود بخود ختم کیےجاسکتے ہیں۔
 

ہادیہ

محفلین
بہنا اگلے دن کےلئے مدرسے کا وقت ہورہا ہے اب تو جاگ جاؤ۔ کہاں بہت ساری باتیں اور کہاں ابھی تک محو استراحت!!!
سوری بھائی صبح سناؤں گی ناں۔۔ مجھے سونے کا وقت ہی نہیں ملا۔۔ امی واپس آگئی ہیں تو تعزیت کے لیے آج دور دور کے رشتے دار آئے ہوئے تھے۔۔
 

ہادیہ

محفلین
کافی دنوں سے کچھ لکھ نہیں پائی۔۔
سکول میں جاب کے دوران ایک بات زیادہ سمجھ آئی ہے پڑھائی کے جو مسائل ہیں سو تو ہیں۔۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں۔۔ان میں ایک بھیانک مسئلہ "غربت" ہے۔۔
کل میں اور میری ایک کولیگ نے پورے گاؤں کا سروے کیا۔۔ بہت سے بچے ایسے تھے جو سکول آنہیں رہے تھے۔ان کو بھی واپس لانے کے لیے۔۔ اور کچھ نیو انرولمنٹ کے لیے۔۔ خیر گورنمنٹ جاب میں یہ ایشو تو چلتے ہی رہتے ہیں۔۔ سب سے بڑا پرابلم بچوں کے والدین کو موٹیویٹ کرنا ہے۔۔
ایک گھر میں گئے۔۔ وہاں کے مرد حضرات ہمیں دیکھ کر ہی کہتے استانیاں آگئیاں۔۔بچے لین۔۔بچی کی والدہ سے پوچھا کہ بچی کو کیوں نہیں بھیج رہے آپ سکول۔۔ کہتی کام کرنا زیادہ آسان۔۔ کہتی جب پیٹ خالی ہوتو پڑھائی کسے اچھی لگتی۔۔ہمیں بھی لالچ ہوجاتا ہے کہ چلو کچھ آسرا بن جائے گا۔۔ میں نے کہا کیا آپ کو یہ اچھا نہیں لگے گا۔۔ کہ آپ کی بچی بھی پڑھ لکھ جاائے۔۔عقل تمیز شعور آجائے۔۔پھر بجائے اس کے یہ اس طرح کے کام کرے۔۔ہماری طرح یا اس سے اچھی کوئی جاب حاصل کرلے۔۔ کہتی نا نا ہم نے کونسا نوکری کروانی۔۔
اب یہ کانسپٹ لوگوں کے دماغوں میں بہت زیادہ ہے۔۔ لوگوں کے خیال میں پڑھا صرف اس لیے جاتا کہ نوکری کرنی۔۔ورنہ نہیں۔۔ورنہ تعلیم کا کوئی بھی ہماری زندگی میں عمل دخل نہیں۔۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ واقعی جب انسان پڑھ جاتا ہے تو جاب بھی کرنا چاہتا ہے۔۔ لیکن یہ تعلیم کے مقصد کا ایک حصہ تو ہوسکتا ہے پورا مقصد تو نہیں۔۔
 

ہادیہ

محفلین
میں نے کل یہ بات سروے کے دوران بہت زیادہ محسوس کی کہ جاب کرنے والی لڑکیوں کے بارے میں وہاں کے لوگوں کی رائے اچھی نہیں ۔۔لیکن ایک عورت نے ہمارے منہ پہ کہا کہ گورنمنٹ آپ کو اتنی تنخواہیں جو دیتی ہے اسی لیے آپ آتی ہیں۔۔ میں نے کہا چلیں مان لیا ہم اسی لیے آتی ہیں۔۔ مگر ہمارے ساتھ ایک مقصد بھی ہوتا ہے۔۔ اور وہ ہے تعلیم شعور دینا بچوں کو۔۔ اچھے برے کی تمیز سکھانا۔۔پھر گورنمنٹ بھی تو آپ لوگوں کی حالت بدلنے کے لیے ہم پہ پیسا خرچ کرتی ہے۔۔ گورنمنٹ کا مقصد بھی تو یہی ہے کہ وہ ہمیں تنخواہ دیں تاکہ ہم ایسے پسماندہ علاقوں میں آکر بچوں کو پڑھائیں۔۔
 

ہادیہ

محفلین
ایک آدمی کے گھر صبح فرسٹ ٹائم ہم لوگ گئے تھے۔۔جب واپسی پہ سٹاپ کی طرف جارہے تھے تو اسی گھر کے پاس سے گزرے۔۔تو ان کے آدمی دیکھ کر جان بوجھ کر کمنٹس کرنے لگے اونچی آواز سے کہ
آبیبیاں شاید قطرے پلون والیاں وا۔۔۔۔(یہ عورتیں شاید پولیو کے قطرے پلانے والی ہیں۔۔)
 

ہادیہ

محفلین
والدین تو والدین بچوں کے اپنے دماغ اس بات پہ بہت پختہ ہیں کہ کام کرنا زیادہ آسان ۔۔لیکن پڑھنا مشکل ہے۔۔ کام سے پیسے ملتے ۔۔پڑھنے سے کون پیسے دیتا ہے۔۔اور کام بھی پتہ کیا کرتے ہیں ۔۔اینٹیں بنواتے۔۔بھٹے پہ کام کرتے ۔۔
 

ہادیہ

محفلین
ایک آدمی نے اچھی خاصی بحث بھی کی ہمارے ساتھ کہ آپ لوگ چار چھے مہینے بعد یہاں سے چلی جائیں گی پھرکون پڑھائے گا۔ یہاں کوئی پڑھائی کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔۔ اصل میں پہلے جو ماحول ہوتا تھا سرکاری سکولز میں ۔۔بچوں سے کام کروایا جاتا تھا۔۔ اور ٹیچرز ناصرف سکول بلکہ اپنے گھروں کا بھی کام کرواتے تھے۔۔ اب یہی بات ان کے دماغوں میں بیٹھ چکی ہے کہ وہاں پڑھائی ہوتی نہیں بلکہ کام کروائے جاتے ہیں۔۔ ہم نے کہا آپ کے گاؤں میں سکول ہے۔۔سکول خود وزٹ کریں۔۔دیکھیں وہاں کیا ماحول ہے۔۔ پہلے 1 ٹیچر تھیں۔ اب 6 ہیں۔۔ اور ہم لوگ بچوں کو پڑھانے آتی ہیں۔۔اپنی روزی حلال کرنی ہے ۔۔ہمیں اس بات کا احساس ہے۔۔ لیکن آپ پہلے دور کو بھول جائیں تب ہم لوگ نہیں تھے یہاں۔۔آپ اب کی بات کریں۔۔ اگر اب یہ صورتحال آپ کو کہیں نظر آئے تو دیکھیے۔۔اور ہمارا تو تعلق بھی یہاں سے نہیں ہے۔۔ نا ہمارے گھر یہاں ہیں۔۔ تو ہم کیوں بچوں سے گھروں کا کام کروائیں گی ۔۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔۔ ہم لوگوں کے پاس کوئی ملازم نہیں ہے۔۔ ہم نے خود ایک لڑکا اس کام کے لیے رکھا ہوا ہے۔۔جو گیٹ پہ ڈیوٹی دیتا اور صفائی کرتا ہے۔۔ اب بچے بریک ٹائم ریپر وغیرہ ڈسٹ بن میں پھینکنے کے بجائے نیچے پھینک دیتے ہیں خاص کر نرسری کلاس۔۔تو وہ ضرور بچوں سے کہنا ہوتا ہے کہ اٹھائیں۔۔ اس سے ان میں یہ تمیز پیدا ہوتی ہے کہ ہم نے اپنے سکول کو صاف رکھنا ہے۔۔
برین واشنگ بہت مشکل کام ہے ۔۔ اور میرا اپنا دماغ اچھا خاصہ واش ہوگیا۔۔
تنقید اور تعریف دونوں کل ہمیں ملی۔۔ کچھ عورتیں اتنی عزت سے ملیں کہ یہ ہمارے بچوں کی استاد ہیں۔۔اس بات کی خوشی بھی ہوئی۔۔ میرا پہلا تجربہ تھا۔۔ پہلی بار بولنا بحث کرنا ،قائل کرنا مشکل ضرور لگا مگر کافی کچھ سیکھا بھی:)
 

ہادیہ

محفلین
کل کے وزٹ کے بعد یہی سوچا ہے کہ صرف باتوں سے کوئی قائل ہوتا بھی نہیں ہے۔۔ ہمارے سکول کا مین پرابلم بلڈنگ کا ہے۔۔ خیر وہ تو گورنمنٹ کا کام ہے۔۔ دیکھیں کب منظوری ہوتی۔۔ البتہ درخواست چھٹیوں سے پہلے کی دی ہوئی ہے۔۔
اب ہمارے پاس صرف ایک کمرہ ہے۔۔ اسی میں سوچا ہے کہ بچوں کے لیے کچھ انٹرٹینمنٹ کو مواقع فراہم کیے جائیں۔۔ دو کا سوچا ہے۔۔آپ لوگ اپنی رائے لازمی دیں اس بارے میں
1: کلاس روم میں ایک LED ٹی وی لگا دیا جائے۔۔ نرسری کلاس کے لیے۔۔ اب اس کے لیے ٹائم مینجمنٹ کا ایشو بھی ہوگا۔۔ اس کے لیے سوچا ہے چھوٹے بچوں کو چھٹی 11:30 پہ ہوجاتی ہے۔۔ چھٹی سے پندرہ منٹ پہلے یا صبح فرسٹ ٹائم کسی طرح ان کے لیے ٹائم سیٹ کریں گے۔۔لیکن ٹائم تب کا ہی سیٹ کریں گے جب دوسری کلاسز ڈسٹرب نا ہوں۔۔
2: سکول میں ایک جھولا لگا دیا جائے۔۔(جھولے کے لیے تو گراؤنڈ سیٹ کروانے کا کام شروع بھی کروا دیا ہے۔۔)
یہ کام ہمارے اختیار میں ہیں۔۔یہ ہم کرسکتے ہیں۔۔ :)
تفریح کے مواقع ہونگے تو والدین بھی بھیجیں گے اور بچے بھی شوق سے آئیں گے۔۔
 

م حمزہ

محفلین
کل کے وزٹ کے بعد یہی سوچا ہے کہ صرف باتوں سے کوئی قائل ہوتا بھی نہیں ہے۔۔ ہمارے سکول کا مین پرابلم بلڈنگ کا ہے۔۔ خیر وہ تو گورنمنٹ کا کام ہے۔۔ دیکھیں کب منظوری ہوتی۔۔ البتہ درخواست چھٹیوں سے پہلے کی دی ہوئی ہے۔۔
اب ہمارے پاس صرف ایک کمرہ ہے۔۔ اسی میں سوچا ہے کہ بچوں کے لیے کچھ انٹرٹینمنٹ کو مواقع فراہم کیے جائیں۔۔ دو کا سوچا ہے۔۔آپ لوگ اپنی رائے لازمی دیں اس بارے میں
1: کلاس روم میں ایک LED ٹی وی لگا دیا جائے۔۔ نرسری کلاس کے لیے۔۔ اب اس کے لیے ٹائم مینجمنٹ کا ایشو بھی ہوگا۔۔ اس کے لیے سوچا ہے چھوٹے بچوں کو چھٹی 11:30 پہ ہوجاتی ہے۔۔ چھٹی سے پندرہ منٹ پہلے یا صبح فرسٹ ٹائم کسی طرح ان کے لیے ٹائم سیٹ کریں گے۔۔لیکن ٹائم تب کا ہی سیٹ کریں گے جب دوسری کلاسز ڈسٹرب نا ہوں۔۔
2: سکول میں ایک جھولا لگا دیا جائے۔۔(جھولے کے لیے تو گراؤنڈ سیٹ کروانے کا کام شروع بھی کروا دیا ہے۔۔)
یہ کام ہمارے اختیار میں ہیں۔۔یہ ہم کرسکتے ہیں۔۔ :)
تفریح کے مواقع ہونگے تو والدین بھی بھیجیں گے اور بچے بھی شوق سے آئیں گے۔۔
آپ کی یہ روداد سنکر دل کرتا ہے بہت سی باتیں لکھوں۔ لیکن وقت کی کمی کے باعث اس وقت ایک دو باتیں عرض کرتا ہوں۔ باقی کل۔ ان شاء اللہ۔

ٹی وی کے بجائے اگر ایک کمپیوٹر کا انتظام ہو تو بہت بہتر ہے۔ انٹرٹینمنٹ بھی ہوگا۔ دلچسپی بھی بڑھے گی اور سیکھنے کو بھی بہت مل سکتا ہے۔ جھولے کا خیال اچھا ہے تاہم احتیاط کی زیادہ ضرورت ہے خاص کر ایسے ماحول میں جس کا آپ نے ذکر کیا۔

ایک اور بات۔ آپ کو یہ تہیہ کرنا ہے کہ آپ کو اپنے حصہ کی ذمہ داری ہر صورت نبھانی ہے۔ نتیجہ کی پرواہ ہرگز نہ کریں۔ کامیابی اللہ کے ہاتھ میں۔ وہ جس قدر چاہے آپ کو عطا کرے۔ کسی کے منفی رویہ کو خاطر میں نہ لائیں۔

کچھ تو لوگ کہیں گے۔ لوگوں کا کام ہے کہنا۔ آپ کا صبر آپ کی ہمت اور مستقل مزاجی ایسے ہتھیار ہیں جو آپ کے ہر حریف کو آپ کےبسامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کردیں گے۔ سب سے اہم بات۔ اللہ سے ہمیشہ دعا کرتے رہیں ۔

اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کل کے وزٹ کے بعد یہی سوچا ہے کہ صرف باتوں سے کوئی قائل ہوتا بھی نہیں ہے۔۔ ہمارے سکول کا مین پرابلم بلڈنگ کا ہے۔۔ خیر وہ تو گورنمنٹ کا کام ہے۔۔ دیکھیں کب منظوری ہوتی۔۔ البتہ درخواست چھٹیوں سے پہلے کی دی ہوئی ہے۔۔
اب ہمارے پاس صرف ایک کمرہ ہے۔۔ اسی میں سوچا ہے کہ بچوں کے لیے کچھ انٹرٹینمنٹ کو مواقع فراہم کیے جائیں۔۔ دو کا سوچا ہے۔۔آپ لوگ اپنی رائے لازمی دیں اس بارے میں
1: کلاس روم میں ایک LED ٹی وی لگا دیا جائے۔۔ نرسری کلاس کے لیے۔۔ اب اس کے لیے ٹائم مینجمنٹ کا ایشو بھی ہوگا۔۔ اس کے لیے سوچا ہے چھوٹے بچوں کو چھٹی 11:30 پہ ہوجاتی ہے۔۔ چھٹی سے پندرہ منٹ پہلے یا صبح فرسٹ ٹائم کسی طرح ان کے لیے ٹائم سیٹ کریں گے۔۔لیکن ٹائم تب کا ہی سیٹ کریں گے جب دوسری کلاسز ڈسٹرب نا ہوں۔۔
2: سکول میں ایک جھولا لگا دیا جائے۔۔(جھولے کے لیے تو گراؤنڈ سیٹ کروانے کا کام شروع بھی کروا دیا ہے۔۔)
یہ کام ہمارے اختیار میں ہیں۔۔یہ ہم کرسکتے ہیں۔۔ :)
تفریح کے مواقع ہونگے تو والدین بھی بھیجیں گے اور بچے بھی شوق سے آئیں گے۔۔
LED لگوائیں اور ضروری نہیں کہ چھٹی کے بعد کا وقت رکھیں۔ نرسری پریپ بلکہ پہلی دوسری جماعت کے بچوں کو ویڈیوز اور تصویروں کے ساتھ پڑھائیں۔ بچوں کے سیکھنے اور سمجھنے کی رفتار کئی گنا ہو جائے گی۔ دلچسپی بھی پیدا ہو گی۔ اردو، انگریزی، حساب، جنرل نالج ہر موضوع پر ، ہر سطح کے لیے آپ کو ڈھیروں ڈھیر مواد مل جائے گا۔
جھولے والا آئیڈیا بہت اچھا ہے۔ چھوٹے بچے ہیں تو swing اور slide اچھے رہیں گے اور وہ بھی عمر کے حساب سے خریدیے گا۔ چھوٹے بچوں کے خوب رنگ دار اور اچھے ربڑ/پی وی سی کے جھولے بہتر رہتے ہیں۔ لوہے کے جھولوں سے زخمی ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
اسی طرح آپ باہر کی دیواروں پر پینٹ بھی کر سکتے ہیں مختلف کارٹون، اقوال، پھول وغیرہ۔
پھر بچوں سے مل کر کوئی campaign بھی کروائی جا سکتی ہے جو کمیونٹی میں سکول کا اچھا تاثر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
 

ہادیہ

محفلین
السلام علیکم۔ کافی عرصے سے کچھ لکھ نہیں پائی۔۔ اورسچ پوچھیں تو لکھنے کو دل ہی نہیں چاہا۔۔ بہت سی وجوہات ہیں۔۔ خیر آج لکھنے پہ مجبور ہوئی ہوں ۔۔ دل بہت پریشان ہے۔۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔۔ کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے ہم بچوں کی اخلاقی تربیت کس طرح سے کریں ۔۔ ؟ کہ ان کا ذہن بے حیائی اور برے خیالات سے پاک ہوجائے۔۔؟
میں سمجھتی تھی اگر اساتذہ اپنا فرض اچھے طریقے سے ادا کریں ۔۔بچوں کے ساتھ اخلاقی معاملات میں کوئی نرمی کا مظاہرہ نا کریں تو بہت سی معاشرتی برائیوں سے ہم بچوں کو بچا سکتے ہیں ۔۔لیکن ایسا نہیں ہے۔۔ بچے کچھ باتوں کو صرف سکول کی حد تک ہی فولو کرتے ہیں کیونکہ وہاں استاد کا ڈر ہوتا ہے ۔۔ لیکن گھر میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ۔۔شاید ہم بچوں کو بہتر طریقے سے بتا نہیں پارہے یا ان کا ماحول انہیں بدل نہیں پا رہا ۔۔
 
Top