نظر لکھنوی غزل: عطائے ساقی فطرت ہے کیا حکیمانہ ٭ نظرؔ لکھنوی

عطائے ساقی ِفطرت ہے کیا حکیمانہ
ہر اک کو بخششِ مے ہے بقدرِ پیمانہ

اسی خمار کی مے ہے، وہی ہے پیمانہ
کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ

امنگ و آرزو و شوق و حسرت و ارماں
نہ ہوں جو دل میں تو دل کیا ہے ایک ویرانہ

سکوں ہے دل کو مرے سجدہ ہائے باطل پر
گراں ہے مجھ پہ مگر اف نمازِ دو گانہ

اب آ، اے پردہ نشیں کیوں تجھے تامل ہے
درونِ سینہ ہے دل اور دلِ نہاں خانہ

یہی کمالِ ترقی ہے دورِ حاضر کا
ہمہ خصائلِ انساں ہوئے بہیمانہ

جنوں منافیِ ہوش و حواس کب ہے نظرؔ
کمالِ ہوش بناتا ہے تجھ کو دیوانہ

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
بہت خوب صورت غزل۔ بہت سی داد قبول فرمائیے۔



کیا واقعی یہ غزلیں دادا حضور ہی کے دیوان سے ہیں؟ یا ہر روز آپ اپنا ہی تازہ کلام عنایت فرماتے ہیں۔ یوں لا محدود غزلوں کا خزانہ تو آپ کے ہاتھ آنے سے رہا، جسے آپ یوں تڑپاتڑپا کر ایک ایک غزل باہر نکال رہے ہوں!!!
 
بہت خوب صورت غزل۔ بہت سی داد قبول فرمائیے۔
جزاک اللہ
کیا واقعی یہ غزلیں دادا حضور ہی کے دیوان سے ہیں؟ یا ہر روز آپ اپنا ہی تازہ کلام عنایت فرماتے ہیں۔ یوں لا محدود غزلوں کا خزانہ تو آپ کے ہاتھ آنے سے رہا، جسے آپ یوں تڑپاتڑپا کر ایک ایک غزل باہر نکال رہے ہوں!!!
ہاہا۔ ہم کہاں کے دانا تھے وغیرہ وغیرہ :)
جی یہ کلام دادا جی کا ہی ہے۔ ٹائپ تو کب کا کر چکا ہوں۔ کافی حد تک یہاں پیش بھی کر چکا ہوں۔ ایک بزرگوار کو تبصرہ کا کہا ہوا ہے، اور ان کی جانب سے تاخیر کے سبب ای بک بھی رکی ہوئی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ای بک آنے سے پہلے تمام غزلیات یہاں پوسٹ کر دوں گا۔
 
Top