ہماری پانچ دن کی بادشاہت:: محمد خلیل الرحمٰن

ایک دن ایک غریب ماشکی دریا کے کنارے اپنے مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا کہ ایک قافلے کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس گروہ میں ایک صاحبِ جلال شخصیت بھی موجود تھیں۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے اس ماشکی کو بلوا بھیجا۔ اب سوال و جواب ہوئے۔

صاحبِ جلال: کیوں میاں سقّے ،تمہارا کیا نام ہے؟
ماشکی: (ہاتھ جوڑ کر) "نظام" حضور!
صاحبِ جلال: بہت خوب۔ اچھا تو میاں نظام کیا تم ہمیں دریا پار کرنے کے لیے ان جگہوں کی نشاندھی کرسکتے ہو، جہاں دریا اُتھلا ہو، زیادہ گہرا نہیں ہو تاکہ ہم اپنے گھوڑوں سمیت دریا پار کرسکیں.
ماشکی: جی ہاں، کیوں نہیں!


یہ ماشکی تاریخ میں نظام سقّہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ہوا یوں کہ یہ صاحبِ جلال شخصیت بادشاہ ہمایوں تھے جو اس وقت شیر شاہ سوری سے شکست کھاکر دلی واپس لوٹ رہے تھے۔ بعد میں جب ہمایوں نے تختِ دلی پر دوبارہ قبضہ کیا تو اس سقے کو اور اس کی مدد کو نہ بھولے۔ اسے دربار میں بلایا اور اسے خلعتِ فاخرہ عنایت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بادشاہ بننے کی طفلانہ خواہش بھی یوں پوری کی کہ اس کے سر پر تاج رکھا اور ایک دن کی بادشاہت عنایت فرمائی!


ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ ہم نے کب کسی بادشاہ کو دریا پار کروایا لیکن جب ہم سب لڑکے ایک وفد کی شکل میں اپنے کلاس ٹیچر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ کیا ہم بھی ایک دن کے لیے بادشاہ بن سکتے ہیں یعنی بحیثیت استاد اپنی کلاس کو پڑھا سکتے ہیں, تو وہ کمال شفقت کا معاملہ فرماتے ہوئے یوں گویا ہوئے، " کیوں نہیں! تیاری کیجیے۔”


جو قارئین اب سے چالیس پینتالیس سال پہلے کے اردو میڈیم سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار سے واقف ہیں ہمارے اس واقعے پر ضرور چونک اٹھّے ہوں گے۔ لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمارے اساتذہ نہایت شفیق، محنتی اور بچوں پر بھروسہ کرنے والے تھے۔


ادھر ہم دوستوں میں سے کس کے ذہن کی یہ برین ویو تھی یہ تو یاد نہیں لیکن جوں ہی یہ تجویز ہم دوستوں کے سامنے آئی، ہم نے کمرِ ہمت باندھ لی اور ریاض صاحب کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے۔


ریاض صاحب کی رضا پائی تو پھولے نہ سمائے اور یہی استدعا بمع راضی نامہ دوسرے اساتذہ کی خدمت میں بھی پیش کردیا۔


جب کلاس ٹیچر راضی تھے تو دوسروں کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ سب اساتذہ نے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی تو ہم نے سب ہم خیال ہم جماعتوں کا اجلاس بلوالیا۔ ہم ان دنوں جماعت دہم کے طالبِ علم تھے۔ نیز ہمارے دو بھائی محمد حفیظ الرحمٰن اور محمد ریاض الرحمٰن جماعت نہم کے ہونہار شاگردوں میں سے تھے۔ انہیں اور جماعت نہم کے کچھ مزید طالب علموں کو بھی بلالیا اور یوں ہماری مجلسِ عاملہ مکمل ہوئی اور اس کا پہلا اجلاس شروع ہوا۔


سب سے پہلا مرحلہ مضامین کی تقسیم کا تھا۔ ہمیں اردو بہت بھاتی تھی لہٰذا ہم نے اپنے پڑھانے کے لیے بھی اردو ہی کو چن لیا۔ مسعود آفتاب کو انگریزی بہت اچھی آتی تھی اسی لیے وہ انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ اسی طرح جاوید اختر، طلعت و عشرت اور ان کے چھوٹے بھائی اکبر ، محمد حفیظ الرحمٰن ریاض الرحمٰن اور باقی سب نے اپنے پسندیدہ مضامین چُن لیے۔ ہم نے طے کر لیا کہ ہر روز ایک سبق اپنے گھر سے تیار کرکے لے آئیں گے۔ اسکول دوپہر کا تھا، شام کو چھٹی ہوئی تو ہم سب ایک کلاس میں جمع ہوگئے اور ایک ایک لڑکا اپنی باری پر سامنے آکر تختۂ سیاہ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سبق پڑھانے کی مشق کرنے لگا۔


یونہی دن گزرتے رہے اور ہماری تیاری زوروں پر جاری رہی۔ کوئی دن جاتا تھا کہ ہم ریاض صاحب و دیگر اساتذہ کے پاس جاکر آپ ہی تیاری مکمل ہونے کا اعلان کردیتے کہ اس دوران ایک عجیب واقعہ ہوا۔ بہت دنوں سے گورنمنٹ اسکولوں کے اساتذہ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کررہے تھے۔ اپنے اس جاری احتجاج کا کوئی اثر نہ دیکھ کر بادلِ ناخواستہ انہوں نے مکمل ہڑتال کا فیصلہ کرلیآ۔

اگلے دن ہم اسکول پہنچے تو تمام اساتذہ اسٹاف روم میں جمع تھے۔ ایک استاد جناب طیب صاحب نے چپکے سے ہم چند طلباء کو اسٹاف روم میں طلب کیا۔ ہم ہمیشہ کی طرح ڈرتے ڈرتے اسٹاف روم میں داخل ہوئے۔ دوتین اساتذہ نے ہمیں اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا اور اپنے بنائے ہوئے پروگرام کے مطابق کلاسوں میں جاکر پڑھانے کا مشورہ دیا۔ گویا یوں چپ چپاتے اساتذہ نے پورا اسکول ہمارے حوالے کردیا۔ نہ کوئی شور شرابہ ہوا اور نہ کوئی بدنظمی۔ اساتذہ ہڑتال پر اسٹاف روم تک محدود ہوگئے اور ہم سب دوستوں نے مقررہ ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنی اپنی مقررہ کلاسوں میں جاکر پڑھانا شروع کردیا۔ ایک پیریڈ ختم ہوا۔ گھنٹہ بجا تو ہم نے اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کلاسیں تبدیل کیں اور پڑھانا جاری رکھا۔ یہ ہم چھوٹے اساتذہ اور اسکول کے دیگر بچوں کے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا۔ آج بچے طالب علم اور بچے ہی استاد تھے۔ ہم ہی پر کیا موقوف ہماری مجلسِ عاملہ کے تمام ممبران جو گزشتہ ایک ہفتے کی پریکٹس سے پہلے ہی کچھ سیکھ چکے تھے، منجھے ہوئے اساتذہ کی طرح اپنے فرائض ادا کیے۔ گھنٹہ بجتا رہا ، چھوٹے اساتذہ کلاسیں تبدیل کرتے رہے۔ دیگر طلباء حیران تھے کہ ان کے اپنے ساتھی یوں اعتماد کے ساتھ سامنے آکر نہ صرف پڑھارہے تھے، مشکل باتوں کو اپنے الفاظ میں سمجھارہے تھے بلکہ تختۂ سیاہ کا بھی بخوبی استعمال کررہے تھے۔


چھٹی کی گھنٹی بجی تو طلبا ایک مسرت انگیز حیرت اپنے چہروں پر سجائے اپنی کلاسوں سے نکلے اور گھروں کو روانہ ہوئے۔ اساتذہ نے ننھے اساتذہ کو کلاس روم میں ایک بار پھر جمع کیا۔ ان کے آج کے کام کی خوب تعریف کی اور اگلے دن کے لیے بھی اسی طرح اسکول سنبھالنے کی ہدایت کے ساتھ ہمیں گھر روانہ کیا۔ ہم اپنے آج کے کارناموں اور اساتذہ کی تعریف سن کر خوشی سے پھولے نہ سمائے اور آنے والے کل کے لیے ملنے والے اسائینمنٹ کی خوشی دل میں سجائے اسکول سے روانہ ہوئے۔ یوں اساتذہ کی ہڑتال کا پہلا دن کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔


اگلے دن بھی یہی روٹین رہا۔ البتہ یہ دن فیس کی وصولی کا دن تھا۔ آج گورنمنٹ کے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے کلاس روم ہی میں فیس کی مد میں آٹھ آنے وصول کیے جانے تھے۔ یہ کام ذرا مشکل تھا لہٰذا کلاس ٹیچر اساتذہ اپنے احتجاج کو جاری رکھتے ہوئے ہماری مدد کے لیے ساتھ بیٹھ گئے اور ہمیں سمجھاتے رہے۔ یوں یہ مشکل مرحلہ بھی آسان ہوا۔


تیسرے دن یہ حیرت انگیز کہانی انسپکٹر آف اسکولز تک جا پہنچی تو وہ صورتِ حالات کا بغور جائزہ لینے کے لیے خود دوڑے چلے آئے۔ اسکول انتظامیہ کو اس کی بھنک ملی تو ہیڈ ماسٹر صاحب اور نائب ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی اپنے کمرے چھوڑدئیے اور ان پر بھی ہمارا قبضہ ہوگیا۔ مسعود آفتاب ہیڈ ماسٹر بنے اور بڑے ٹھسے کے ساتھ ہیڈ ماسڑی کے فرائض سر انجام دئیے، ہم بھولتے ہیں ،عشرت وارثی شاید نائب ہیڈ ماسٹر بن بیٹھے اور اسی طرح عادف کو اسکول کے گیٹ پر چوکیداری کے لیے بٹھادیا گیا۔ انسپکٹر آف اسکولز جب دورے پر اسکول پہنچے تو گیٹ بند پایا۔ عارف نے انہیں اندر داخلے کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔ "ارے بھئی میں انسپکٹر آف اسکولز ہوں" انہوں نے خوشدلی سے اپنا تعارف کروایا پر عارف ٹس سے مس نہ ہوا۔ دور سے یہ نظارہ دیکھا تو ایک استاد دوڑے آئے اور یوں اس دن انسپکٹر صاحب کو اسکول میں داخلے کی اجازت ملی۔ انہوں نے خوشی خوشی سارے اسکول کا دودہ کیا اور اپنی آنکھوں سے ننھے منے اساتذہ کو کلاسیں لیتے ہوئے دیکھا تو باغ باغ ہوگیے۔


یہ تو بہت تھا ۔ پریس رپورٹروں کو بھنک ملی تو اگلے دن وہ بھی اپنے کیمروں سمیت آدھمکے۔ تصویریں لیں، نوٹس بنائے اور اگلے دن کراچی کے اخباروں کو سجادیا۔ جنگ، ڈان، حریت سمیت پانچ اخباروں نے اس خبر کو اپنے صفحات کی زینت بنایا کہ اساتذہ کی ہڑتال کے دوران کراچی کے دو گورنمنٹ اسکولوں میں بچوں نے خود تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ گورنمنٹ سیکنڈری اسکول نمبر دو جیکب لائنز کراچی ان دو اسکولوں میں سے ایک تھا۔

یوں ایک دن کا خواب دیکھتے دیکھتے ہم نے پورے پانچ دن اپنے اسکول پر راج کیا۔ یہ واقعہ ہماری زندگی کا ایک سنہرا باب ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پارٹی تو بنتی ہے!
ان تاریخوں کے اخبار بھی محفوظ ہوتے اور یہاں شامل ہوتے تو کسی کو شک کی گنجائش نہیں ہوتی۔
 
پارٹی تو بنتی ہے!
ان تاریخوں کے اخبار بھی محفوظ ہوتے اور یہاں شامل ہوتے تو کسی کو شک کی گنجائش نہیں ہوتی۔
تسلیمات!

اخباروں کے تراشے ایک عرصے تک ہمارے ساتھ تھے، پھر امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں خرد برد ہوگئے۔ کچھ تصاویر البتہ سینے سے لگاکر رکھی ہیں جو پیشِ خدمت ہیں۔
گر ‌قبول ‌افتد ‌زہے ‌عزو ‌شرف​
 
IMG_20180806_121718.jpg


چھوٹے اساتذہ ایک دن کے ہیڈ ماسٹر کے ساتھ ان کے کمرہ میں
 
سر بہت خوب ،
کیا ہی زبردست یاداشت محفل میں شریک کی ہے ۔بہت اچھا لگا پڑھا کر اور تصویریں دیکھ کر ،اگر یقین مستحکم ہو تو انسان کے بس سے کوئی کام دور نہیں ۔
آپ کو ہمارے جانب سے بہت بہت خراج عقیدت ،سلامت رہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہت بہت بہت ہی خوووووووب!
آپ کا ذہن شروع ہی سے ماشاءاللہ تخلیقی تھا۔ بہت زبردست تجربہ ہے۔ تصاویر دیکھنا بہت خوشگوار ہے۔
شریکِ محفل کرنے کے لئے شکریہ۔
 

فہیم

لائبریرین
واہ جی واہ!
مزہ آگیا آپ کی بادشاہت کا اور تصاویر نے اس مزے کو دو بالا کردیا:)
 

یاسر شاہ

محفلین
واہ صاحب واہ ! وہ بھی ایک دور تھا ' وہ بھی کچھ لوگ تھے - وہ بھی کیا لوگ تھے 'وہ بھی کیا دور تھا -واہ صاحب واہ !

عمدہ تحریر -
 
سر بہت خوب ،
کیا ہی زبردست یاداشت محفل میں شریک کی ہے ۔بہت اچھا لگا پڑھا کر اور تصویریں دیکھ کر ،اگر یقین مستحکم ہو تو انسان کے بس سے کوئی کام دور نہیں ۔
آپ کو ہمارے جانب سے بہت بہت خراج عقیدت ،سلامت رہیں ۔

جزاک اللہ۔ آپ کو پڑھا کر اچھا لگا، ہمیں بھی آپ کو پڑھ کر اچھا لگا۔ خوش رہیے!!!
 
بہت بہت بہت ہی خوووووووب!
آپ کا ذہن شروع ہی سے ماشاءاللہ تخلیقی تھا۔ بہت زبردست تجربہ ہے۔ تصاویر دیکھنا بہت خوشگوار ہے۔
شریکِ محفل کرنے کے لئے شکریہ۔
جزاک اللہ بٹیا! آپ کو اچھا لگا، ہماری محنت سپھل ہوئی۔ اس سپھلتا کا کارن آپ محفلین ہی ہیں!!!
 
بہت ہی زبردست! تصویریں دیکھ کر اور بھی اچھا لگا. چچا جان آپ کہاں ہیں ان میں؟
شکریہ بٹیا! دائیں سے بائیں سب سے پہلے ہم ہی ہیں۔ مزید یہ کہ ان دوستوں میں سے چار سے ہمارا اب تک ربطہ ہے۔ یہ چاروں اب بھی ہمارے بہترین دوستوں میں سے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top