وہابیوں پر تنقید کرتے ہوئے بریلوی مکتب کے بانی احمد رضا خان بریلوی کہتے ہیں :
الا یایها الساقی ادرکا ساو ناولها
که بر یادِ شهِ کوثر بنا سازیم محفلها
بلا بارید حُبِّ شیخِ نجدی بر وهابیه
که عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکل‌ها
وهابی گرچه اخفا می کند بغضِ نبی لیکن
نهان کی ماند آن رازی کزو سازند محفلها
(احمد رضا خان بریلوی)

آگاہ باش اے ساقی جام کو گردش میں لا اور دے تاکہ شاہِ کوثر کی یاد میں محفلوں کی بنیاد رکھیں. وہابیوں پر شیخِ نجد(وہابی فرقے کا بانی محمد بن عبد الوہاب) کی محبت نے بلا برسائی کہ عشق پہلے آسان نظر آتا ہے لیکن بعدا مشکلیں درپیش ہوتیں ہیں. وہابی اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغض کو چھپاتا ہے لیکن وہ راز کب پوشیدہ رہے جس کی بدولت محفلیں برپا کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تنم گُلی ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است

(علامه اقبال لاهوری)
میرا تن جنّتِ کشمیر کے گُلزار کا ایک گُل ہے۔۔۔ [جبکہ میرا] دل حریمِ حِجاز سے، اور [میری] نوا شیراز سے ہے۔

× میں مصرعِ اول میں 'گل' کو 'گِل' (خاک، آب آمیختہ خاک) سمجھ رہا تھا، لیکن بیشتر قابلِ اعتماد جگہوں پر یہ 'گُل' کے طور پر تعبیر ہوتا نظر آیا ہے، لہٰذا اُسی لفظ و معنی کو ترجیح دی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آن که بالایی گُزیند پست باشد عشق در
آن که پستی را گُزید از مجلسِ سامی‌ست آن

(مولانا جلال‌الدین رومی)
جو شخص بلندی [اور بالانشینی] کو مُنتخَب کرتا ہے وہ عشق میں پست ہوتا ہے، جبکہ جس شخص نے پستی کو مُنتخَب کیا، وہ [اِک] بُلند مرتبہ و عالی مجلس سے تعلق رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای صبا تبریز رو سجده بِبر کان خاکِ پاک
خاکِ درگاهِ حیات‌انگیزِ ربّانی‌ست آن

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے بادِ صبا! تبریز [کی جانب] جاؤ، [اور اُس شہر کو] سجدہ کرو کیونکہ وہ خاکِ پاک، حیات انگیز و خُدائی درگاہ کی خاک ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
غازى به دستِ پورِ خود شمشیرِ چوبین مى‌دهد
تا او در آن اُستا شود شمشیر گیرد در غزا

(مولانا جلال‌الدین رومی)
غازی اپنے فرزند کے دست میں [کھیلنے کے لیے] چوبی شمشیر دیتا ہے، تاکہ وہ اُس میں اُستاد ہو جائے، اور کافروں کے خلاف جنگ میں [اصلی] شمشیر پکڑے۔
× چوب = لکڑی؛ چوبی/چوبیں = لکڑی سے بنی ہوئی
 
آخری تدوین:
زان شب که یار کرد نگاهی بسوی دل
دیگر بسوی خویش ندیدیم روی دل


جس شب سے یار نے ایک نگاہ دل کی طرف کی ہے ہم نے دل کا چہرہ اپنی طرف نہیں دیکھا۔

نظیری نیشاپوری
 

حسان خان

لائبریرین
صائب از عُمر همین کام تمنّا دارد
که ز هند آید و در خاکِ نجف وا اُفتد

(صائب تبریزی)
'صائب' کو [اپنی] عُمر سے [فقط] اِسی آرزو کی تمنّا ہے کہ وہ ہند سے [بیرون] آ جائے اور خاکِ نجف پر [آسودگی کے ساتھ کمر کے بل] دراز لیٹ جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صائب از هندِ جگرخوار بُرون می‌آیم
دست‌گیرِ من اگر شاهِ نجف خواهد شد

(صائب تبریزی)
اے صائب! اگر شاہِ نجف (حضرتِ علی) میرا دستگیر ہو جائے گا تو میں ہندِ جگرخوار سے بیرون آ جاؤں گا۔

× روایات کے مطابق ہِند بنت عُتبہ نے غزوۂ اُحُد میں حضرتِ حمزہ بن عبدالمُطّلب کا جگر کھایا تھا، اُسی کی مناسبت سے دیارِ ہند کو بھی مندرجۂ بالا بیت میں جگرخوار (یعنی ظالم و ستمگر و بدبخت وغیرہ) کہا گیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ صفی صفوی کی مدح میں کہے گئے قصیدے سے دو ابیات:
رواجِ مذهبِ اِثناعشر به عُهدهٔ توست
بِکوش و دست ازین شیوهٔ سُتوده مدار
به تیغِ عدل یکی کن چهار مذهب را
سفینهٔ نبوی را ز چارموجه برآر

(صائب تبریزی)
اِثناعشَری مذہب کا رواج تمہارے ذِمّے ہے۔۔۔ [اِس کی] کوشش کرو اور اِس مُستحسَن و لائقِ ستائش طرزِ [عمل] سے دست مت کھینچو۔۔۔ [اپنی] تیغِ عدل سے چار مذہبوں کو ایک کر دو۔۔۔ سفینۂ نبوی کو بحری گِرداب و طوفان سے بیرون نکال دو۔

× چار مذہبوں سے اہلِ سُنّت کے چار فقہی مذاہب مُراد ہیں۔ بیتِ دوم میں شاعر پادشاہ سے کہہ رہے ہیں کہ چار سُنّی مذاہب کو ایک جعفری شیعی فقہی مذہب میں یکجا کر دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ صفی صفوی کی مدح میں کہے گئے قصیدے سے چند ابیات:
به درگهِ تو که دولت‌سرایِ اقبال است
چرا پناه نیارند خُسروانِ کِبار؟
که از حمایتِ جدِّ تو مُلک‌باختگان
رسیده‌اند به معراجِ سلطنت بِسیار
ازین جناب مدد خواست میرزا بابر
چو تنگ گشت بر او از سپاهِ دُشمن کار
چراغِ بختِ هُمایون ازین اُجاق گرفت
زبانه‌ای و جهان‌گیر گشت دیگربار

(صائب تبریزی)
تمہاری درگاہ میں - کہ جو اقبال مندی و خوش بختی کی دولت سرا و بارگاہ ہے - عظیم پادشاہان کیوں پناہ نہ لیں؟ کہ تمہارے اجداد کی حمایت سے کئی مملکت باختہ پادشاہان معراجِ سلطنت پر پہنچے ہیں۔۔۔ [مثلاً] جب سپاہِ دُشمن کے باعث میرزا ظہیرالدین بابر پر کار تنگ ہو گیا تھا (یعنی وہ جب مشکل میں مبتلا ہو گیا تھا) تو اُس نے اِس درگاہ سے مدد چاہی تھی۔۔۔ ہُمایوں کے بخت کے چراغ نے اِس آتش دان سے اِک شعلہ لیا تھا اور [نتیجتاً] وہ دوبارہ جہاں گیر ہو گیا تھا۔

× ظہیرالدین بابر نے ماوراءالنہری اُزبک پادشاہوں کے خلاف شاہ اسماعیل صفوی سے اتّحاد کیا تھا، جبکہ نصیرالدین ہُمایوں شیر شاہ سوری سے شکست یاب ہونے کے بعد شاہ طہماسب صفوی کے پاس پناہ گُزیں ہو گیا تھا اور پھر اُس کی مدد سے دوبارہ تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شاہ صفی صفوی کی مدح میں کہی گئی ایک بیت:
تویی دوازدهُم از نژادِ شیخ صفی
جهان چگونه نگیری به عدل مهدی‌وار؟

(صائب تبریزی)
تم شیخ صفی[الدین اردَبیلی] کی نسل سے بارہویں ہو (یعنی تم اُن کے بارہویں خلَف و جانشین ہو)۔۔۔ پس تم مہدی کی مانند عدل کے ساتھ دُنیا کو کیسے نہ فتح کر لو گے؟ (یعنی اگر تم مہدی کی مانند عدل کے ذریعے جہان کو فتح کر لو تو کوئی تعجّب خیز چیز نہیں ہے۔)

× اِس بیت میں اہلِ تشیُّع کے اُس عقیدے کی جانب اشارہ ہے جس کے مطابق اثناعشَری شیعوں کے امامِ دوازدہُم مہدی اپنے عدلِ جہاں گیر کے ذریعے دُنیا کو فتح کر لیں گے۔ شیخ صفی‌الدین اردَبیلی اُن شیخ کا نام تھا جنہوں نے صفوی صوفی سلسلے کا آغاز کیا تھا، اور اُن ہی کی نسل میں سے ایک خلَف شاہ اسماعیل صفوی نے صفوی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شیعی نُقطۂ نظر سے حضرتِ علی کی مدح میں کہی گئی بیت:
چون لباسِ کعبه بر اندامِ بُت، زیبنده نیست
جز تو بر شخصِ دگر نامِ امیرالمؤمنین

(صائب تبریزی)
جس طرح لباسِ کعبہ بُت کے بدن پر مُناسب و سزاوار نہیں ہے، اُسی طرح آپ کے سوا کسی دیگر شخص پر امیرالمؤمنین کا لقب زیب نہیں دیتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که از اُستا گُریزد در جهان
او ز دولت می‌گُریزد این بِدان

(مولانا جلال‌الدین رومی)
جان لو کہ دُنیا میں جو بھی شخص مُعلِّم سے [دُور] بھاگتا ہے، وہ [گویا] خوش بختی و اقبال مندی سے [دُور] بھاگتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فخرِ شہرِ ہِرات و دیارِ خُراسان حضرتِ امیر علی شیر نوائی (رح) نے اپنی تُرکی کتاب محبوب القلوب میں ایک جا مولانا جلال‌الدین رومی (رح) کے بارے میں یہ لکھا ہے:
"ینه قایلِ «مثنویِ معنوی»، غوّاصِ بحرِ یقین مولانا جلال‌الدین، یعنی مولویِ رومی‌دور که، مقصدلری نظم‌دین اسرارِ اِلٰهی اداسی و معرفتِ نامُتَناهی املاسی‌دین اۉزگه یۉق‌تور."
"علاوہ بریں، «مثنویِ معنوی» کے نظم کُنندہ اور بحرِ یقین کے غوّاص مولانا جلال‌الدین، یعنی مولویِ رومی ہیں، کہ شاعری سے جن کا مقصد اسرارِ الٰہی کو بیان کرنے اور معرفتِ لامُتَناہی کو اِملاء کرنے کے بجز کچھ نہ تھا۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُشّاقِ زمان عاشقِ گیسویِ سیه‌فام
من عاشقم اندوه و غم و جور و جفا را

(قولۏوی‌زاده اسعد)
عُشّاقِ زمانہ گیسوئے سیاہ فام کے عاشق ہیں۔۔۔ [جبکہ] میں غم و اندوہ اور جور و جفا کا عاشق ہوں۔

× شاعر کا تعلق بوسنیا کے پایتخت سرائے بوسنا (سرائیوو) سے تھا، اور یہ فارسی غزل سرائے بوسنا سے نکلنے والے تُرکی جریدے 'وطن' میں رُومی تقویم کے مطابق ۹ کانونِ ثانی (جنوری)، ۱۸۸۵ء کو شائع ہوئی تھی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
باید کہ سرے در نظرش ہیچ نیرزد
آں کس کہ نہد در طلبِ وصلِ تو پائے


شیخ سعدی شیرازی

ضروری ہے کہ اُس کی نظروں میں سر کی کوئی بھی قدر و قیمت و اہمیت و وقعت نہ ہو، وہ جو کہ تیرے وصال کی طلب میں پاؤں رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فلک سرگشته از سودایِ عشق است
جهان پُرفتنه از غوغایِ عشق است

(عبدالرحمٰن جامی)
فلک عشق کے جنون سے سرگشتہ ہے (یعنی فلک کا سر جنونِ عشق کے باعث گھومتا ہے)۔۔۔ دنُیا عشق کے شور و غوغا کے سبب پُرآشوب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ عبدالرحمٰن جامی کی مثنوی «یوسف و زُلیخا» سے دو ابیات:
ز یادِ عشق عاشق تازگی یافت
ز ذکرِ او بُلند‌آوازگی یافت
اگر مجنون نه مَی زین جام خوردی
که او را در دو عالَم نام بُردی

(عبدالرحمٰن جامی)
عشق کی یاد سے عاشق نے تازگی پائی، اور اُس کے ذکر سے [عاشق نے] شُہرت و ناموَری پائی۔۔۔ اگر 'مجنون' اِس جام سے شراب نہ پیتا تو دو جہاں میں کون اُس کا نام لیتا؟
 

حسان خان

لائبریرین
بِحمدِالله که تا بودم درین دَیر
به راهِ عاشقی بودم سبُک‌سَیر

(عبدالرحمٰن جامی)
الحمدللہ! کہ میں جب سے اِس خراب آبادِ دُنیا میں ہوں، میں [ہمیشہ] راہِ عاشقی میں تیز رفتار رہا ہوں۔ (یعنی ہمیشہ راہِ عاشقی میں مہارت کے ساتھ چلتا رہا ہوں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی کی کتاب 'بہارستان' کے ایک قِطعے کا منظوم تُرکی ترجمہ:
(قطعه)
اگر سعدی یاراتمېش من‌دن اوول «گۆلۆستان»،
سعد ابنِ زنگی اۆچۆن وورموش اۏنا هر رنگی.
من‌سه "باهاریستان‍"ې اۏ شاه اۆچۆن یازمېشام،
قول اۏلماغا لاییق‌دیر اونا سعد ابنِ زنگی.

(رحیم سُلطانۏف)
اگر سعدی نے مجھ سے قبل 'گُلستان' کو تخلیق کیا تھا، اور سعد بن زندگی کے لیے اُس کو ہر ایک رنگ سے مُنقّش و رنگارنگ کیا تھا۔۔۔ تو میں نے 'بہارستان' کو اُس شاہ (سُلطان حُسین بایقرا) کے لیے لِکھا ہے کہ سعد بن زنگی جس کا غُلام ہونے لائق ہے۔

Əgər Sə'di yaratmıs məndən əvvəl "Gülüstan",
Sə'd ibni Zəngi üçün vurmuş ona hər rəngi.
Mənsə "Baharistan"ı o şah ücün yazmışam,
Qul olmağa layiqdir ona Sə'd ibni Zəngi.


× مندرجۂ بالا قِطعہ چودہ ہِجوں کے ہِجائی وزن میں ہے۔
«گُلستانِ سعدی» کی پیروی میں لکھی گئی عبدالرحمٰن جامی کی کتاب «بہارستان» کے مُقدِّمے سے ایک قِطعہ:
(قطعه)
«گُلستان» گرچه سعدی کرد از این پیش
به نامِ سعد بن زنگی تمامش
«بهارستانِ» من نام از کسی یافت
که باشد سعد بن زنگی غُلامش

(عبدالرحمٰن جامی)
اگرچہ سعدی شیرازی نے اِس [«بہارستان»] سے قبل [تر] «گُلستان» کو سعد بن زنگی کے نام پر تمام و مُکمّل کیا تھا۔۔۔ [لیکن] میری «بہارستان» نے اُس شخصیت (یعنی: سُلطان حُسین بایقرا) سے نام پایا ہے کہ سعد بن زنگی جس کا غُلام ہے۔ (یعنی اگرچہ سعدی کو اوّلیت کا شرَف حاصل ہے، لیکن میرا حامی و مُربّی سعدی کے حامی و مُربّی کا آقا ہے اور اُس سے افضل ہے۔)

× سعد بن زنگی شیخ سعدی کے زمانے میں فارْس کا اتابَکی حاکم تھا، جب کہ سُلطان حُسین بایقرا حضرتِ جامی کے دور میں خُراسان کا تیموری فرماں روا تھا۔
 
آخری تدوین:
Top