سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عباس اعوان

محفلین
جسٹس شوکت صدیقی نے کیونکہ آپ کی دل لگتی نہیں کہی تھی اس لیے اس کا حوالہ تو میں نہیں دوں گا۔ البتہ اگر ایک اور لڑی میں میرا یہ مراسلہ قابل قبول ہو تو آپ کےسوال (یہ حکم کس نے دیا) کا کسی حد تک جواب دے سکتا ہے۔ لیکن آپ کو کیونکہ ثبوت وغیرہ چاہیے ہوتے ہیں تو اس لیے آپ بے شک تسلیم نا کیجیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ خلائی مخلوق ہمیشہ سے ہی عدلیہ کے کندھوں پر بندوق رکھ کر فائر مارتی رہی ہے اس لیے آپ کو ہائیکورٹ تو نظر آئے گی لیکن بندوق والا نہیں۔
عدلیہ کو سابقہ حکومتوں نے کمزور کیا تا کہ وہ اپنی مرضی کے فائر چلوا سکیں۔
عدلیہ کو اتنا طاقتور بنانا چاہیے تھا کہ کوئی ان کے کندھے پر بندوق نہ رکھ سکے، چاہے وہ بندوق خلائی مخلوق کی ہو یا پولیس کی۔
 
یہ ذیل میں چیک کریں کہ کنٹرول کس کے پاس ہے۔
Organization_zps5yac7pq5.png

History_zpsk9ic3k3p.png

MNC_zpspzffppkp.png


وفاقی وزارت برائے انسداد منشیات خود کہہ رہی ہے کہ اے این ایف ان کی ہے۔ اے این ایف والے خود کہہ رہے ہیں کہ وہ متعلقہ وزارت کے ماتحت ہیں، لیکن آپ ان کو کہیں اور کا بتا رہے ہیں۔ :)
بہت اچھا کیا کہ آپ اس طرف آگئے۔
پچھلے مراسلے میں اس بابت بھی مزید لکھنا چاہ رہا تھا لیکن پھر سوچا کہ نا لکھوں اس طرح آپ کو مزید مطالعہ کا موقع مل جائے گا، سو رہنے دیا۔

یہی تو رونا ہے کہ انتظامی کنٹرول کسی اور کے پاس ہوتا ہے اور احکامات کسی اور کے چل رہے ہوتے ہیں۔ سویلین سپریمیسی کا ہی تو پھڈا چل رہا ہے۔ کیا آپ بتا پائیں گے کہ خلائی مخلوق کس کے انتظامی کنٹرول میں آتی ہے اور احکامات کس کے مانتی ہے ؟
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے یار سویلین سُپریمیسی بہت ہی ضروری شے ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں لوگ باگ نواز شریف جیسے شخص کو بھی ہیرو بنا دیتے ہیں۔
 
عدلیہ کو سابقہ حکومتوں نے کمزور کیا تا کہ وہ اپنی مرضی کے فائر چلوا سکیں۔
معذرت کہ آپ آدھا سچ بولتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کو ڈکٹٹیروں نے سب سے زیادہ کمزور کیا، جب ان سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے گئے۔ جب پی سی اوز کے تحت حلف اٹھائے گئے تب عدلیہ کمزور ہوئی۔
 

عباس اعوان

محفلین
بہت اچھا کیا کہ آپ اس طرف آگئے۔
پچھلے مراسلے میں اس بابت بھی مزید لکھنا چاہ رہا تھا لیکن پھر سوچا کہ نا لکھوں اس طرح آپ کو مزید مطالعہ کا موقع مل جائے گا، سو رہنے دیا۔
میں نے یہ لنک پڑھ کر ہی آپ کی نذر کیے تھے۔
ملاحظہ ہو۔

 

عباس اعوان

محفلین
معذرت کہ آپ آدھا سچ بولتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کو ڈکٹٹیروں نے سب سے زیادہ کمزور کیا، جب ان سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے گئے۔ جب پی سی اوز کے تحت حلف اٹھائے گئے تب عدلیہ کمزور ہوئی۔
کیا جمہوری حکومتوں نے عدلیہ کو مضبوط کیا ؟
 
ویسے یار سویلین سُپریمیسی بہت ہی ضروری شے ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں لوگ باگ نواز شریف جیسے شخص کو بھی ہیرو بنا دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہر وہ آواز جو سویلین سپریمیسی کے حق میں اٹھے گی اسے ہرجمہوریت پسند سپورٹ کرے گا۔
اور یہ بھی سچ ہے کہ ڈکٹیٹروں اور طالع آزماؤں کے حاشیہ بردار ہر اس آواز کو جھٹلائیں گے جس سے سویلین سپریمیسی کو تقویت ملے۔
آج اگر نواز شریف نے آواز بلند کی ہے تو کل کوئی عمران خان جیسا بھی آواز بلند کر سکتا ہے۔ جمہوریت پسند تب بھی اس آواز میں آواز ملائیں گے۔
 

عباس اعوان

محفلین
معذرت کہ آپ آدھا سچ بولتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کو ڈکٹٹیروں نے سب سے زیادہ کمزور کیا، جب ان سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے گئے۔ جب پی سی اوز کے تحت حلف اٹھائے گئے تب عدلیہ کمزور ہوئی۔
نہیں کیا۔
بلکہ فون کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے۔
آپ کی بات کو آدھا سچ اسے لیے مانا تھا۔
ان جمہوری رہنماؤں کو لولے لنگڑے ادارے خوش آتے ہیں کہ ان کی لوٹ مار کو روک نہ سکیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں ہر وہ آواز جو سویلین سپریمیسی کے حق میں اٹھے گی اسے ہرجمہوریت پسند سپورٹ کرے گا۔
اور یہ بھی سچ ہے کہ ڈکٹیٹروں اور طالع آزماؤں کے حاشیہ بردار ہر اس آواز کو جھٹلائیں گے جس سے سویلین سپریمیسی کو تقویت ملے۔
آج اگر نواز شریف نے آواز بلند کی ہے تو کل کوئی عمران خان جیسا بھی آواز بلند کر سکتا ہے۔ جمہوریت پسند تب بھی اس آواز میں آواز ملائیں گے۔

سویلین سُپریمیسی کے لئے آواز بلند کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ یہ لوگ عوامی خدمت کرتے ۔ عوام کے دلوں میں گھر کرتے۔ اختیارات کے ارتکاز کے بجائے اداروں کو مضبوط کرتے۔ جو بات کوئی شخص اپنے عمل سے ثابت نہیں کر سکتا اُس کی زبان کا کیا بھروسہ کیا جائے۔ بہر کیف آئے تو یہ بھی ڈکٹیٹر کے سہارے ہی تھے نا۔
 
سویلین سُپریمیسی کے لئے آواز بلند کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ یہ لوگ عوامی خدمت کرتے ۔ عوام کے دلوں میں گھر کرتے۔
جو لوگ کل انھیں ووٹ ڈالیں گے کیا وہ ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو ان کے فلسفے، نظریات اور کاموں کو سپورٹ کررہے ہوں گے ؟

اختیارات کے ارتکاز کے بجائے اداروں کو مضبوط کرتے۔ جو بات کوئی شخص اپنے عمل سے ثابت نہیں کر سکتا اُس کی زبان کا کیا بھروسہ کیا جائے
کوئی کسی پر زبردستی نہیں کر سکتا کہ اس پر بھروسہ کر لو اور اس پر نا کرو یہ تو فِری وِل ہے۔
بہر کیف آئے تو یہ بھی ڈکٹیٹر کے سہارے ہی تھے نا۔
جی، بجا فرمایا ۔۔۔ کیا 40 سال ڈکٹیٹر شپ کے دور میں لوگ سیاست کرنا چھوڑ دیتے ؟
 
ان جمہوری رہنماؤں کو لولے لنگڑے ادارے خوش آتے ہیں کہ ان کی لوٹ مار کو روک نہ سکیں۔
بصد احترام یہ جملہ اسی پراپیگنڈا کمپین کا حصہ ہے جو خلائی مخلوق کسی زرخرید صحافی یا اینکر نما کے ذریعے مسلسل عوام کے کانوں میں انڈیلتی رہتی ہے۔ اسی اینکر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سب سویلین رہنماؤں کو معذرت بلڈی سویلین راہنماؤں کو چور ہیں، ڈاکو ہیں کے القابات سے نوازتا رہے تاکہ عوام سیاستدانوں سے مکمل بدظن رہیں اور انھیں ہمیشہ گندہ ہی سمجھے۔

ہر زر خرید صحافی اور اینکر اپنے پروگرام کو خلائی مخلوق کی تعریف و توصیف کے جملوں سے مزین کیے رکھتا ہے اور ایک کمپین سال کے 365 دن چلتی ہی رہتی ہے۔ لمبی لمبی جذباتی حب الوطنی سے بھری تحریریں فیس بک،واٹس ایپ پر گردش کروائی جاتی ہیں تاکہ عوام میں ڈی ایچ اے اور عسکری برانڈز کے مالکوں سے محبت بڑھے اور وہ ان کے گن گاتے ، شکریہ راحیل شریف کے ہیش ٹیگ چلاتے رہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top