محترمہ مریم افتخار صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

عثمان

محفلین
مندرجہ ذیل امور پہ اپنے خیالات کا اظہار کیجئے۔
۔۔ گلوبل وارمنگ
اس کے متعلق کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مجھے کیا کہنا چاہئیے کیونکہ آپ نے کوئی سپیسفک سوال پوچھنے کی بجائے اوور آل خیالات کے اظہار کا کہا ہے۔
چلئے میں پوچھ لیتا ہوں۔ کیا آپ کے خیال میں گلوبل وارمنگ کے مدنظر بڑا گوشت کھانا کم کر دینا چاہیے؟
 
سوشل میڈیا کے متعلق بہت سی تنقید نظر سے گزرتی رہتی ہے مگر جو خالصتا میرا خیال ہے اس کے بارے میں وہ بہت نیک ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کچھ سال قبل ایک آدھ بار ایسے ہوا کہ میں حیرت سے رو پڑی کہ کس قدر خوب صورت ایجاد ہے۔ میری بچپن سے لے کر آج تک کی ہر سہیلی سے میں کنیکٹڈ ہوں، میں ایک وقت میں بہت سے موضوعات پر روزمرہ کے معمول کے طور پر معلومات بھی لے سکتی ہوں، جس جس سے کنیکٹ رہنا چاہوں ڈائریکٹلی یا ان ڈائریکٹلی رہ سکتی ہوں، دوسرے ملکوں کے لوگوں سے (کسی خاص موضوع پر) آسانی سے بات کر سکتی ہوں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ بہت سے نقصانات بھی آئے ہیں، کنسنٹریشن کی کمی ، روحانی سکون کی کسی حد تک کمی یا اور بھی ہو سکتے ہیں مثلا گلوبل ویلیج میں آ کر کم سیکیور ہونا، آزادی اظہار کے نام پر جان بوجھ کر اپنی توپوں کا دہانہ کسی تعمیری مقصد کے بغیر کھولنا، دوسروں کی ترقی پر جلدی حسد کرنا کیونکہ دوسرے بھی کبھی کبھی سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ بتاتے ہیں اور پہلوں کا کڑھنے کا ریٹ بھی اس لیے بڑھتا ہے کہ کہاں کسی کی بات کبھی جا کر پتا لگنی تھی کہاں اب ہر وقت اور بہت کچھ وغیرہ۔ مگر میرے خیال میں سوشل میڈیا پیالہ ہی ہے اور اتنی پرکھ آپ کو دے دیتا ہے جتنی اور کسی طریقے سے نہیں آ سکتی اگر آپ پرکھ لینا چاہیں، اگر کچھ اور لینا چاہیں تو وہ بھی دے گا۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ پیالے میں کیا پئیں۔

اردو محفل بھی ایک سوشل میڈیا ہے اور اس کے معاملے میں بھی کبھی کبھی حیرت سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ میں کیسے آگئی! میں واقعی شاید کسی فورم پر کبھی نہ ہوتی اگر مجھے نہ لایا جاتا۔ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا اور اب پھر لکھتی ہوں کہ میں بہت سے اداروں سے وابستہ رہی ہوں اور اب بھی ہوں مگر اردو محفل سے ان سب اداروں سے زیادہ سیکھا ہے اور سیکھ رہی ہوں۔ یہ محض الفاظ ہی نہیں بلکہ اپنے اندر ایک مکمل داستان ہیں جو لفظوں میں بیان ہونے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالی ہماری محفل کو ہر بلا سے محفوظ رکھے اور اس پر اسی طرح اتنے مختلف ممالک، خیالات اور عادات کے لوگ ہوں تاکہ سیکھنے کا مارجن بڑھے۔ مجھے اردو محفل سے محبت ہے! :)
 

سین خے

محفلین
اس بارے میں دو باتیں ہی‍ں
ایک تو یہ کہ یہ کسی ایک ادارے کی بات میں نہیں کر رہی. کلاس کے سبھی سٹوڈنٹس کو ایک جیسے استاد ملتے ہیں مگر سب اسے اور طرح سے لیتے ہیں جیسا کہ اوپر سر ظہور والی اور اسی کلاس کے آج اوسم اوسم والی مثال میں نے دی. لہزا غالب گمان ہے کہ میرا ذہن ہی ایسا ہے اس میں اساتذہ کا کوئی قصور نہیں. مجھ میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالی کا دیا ہوا ہے اور جو برائیاں اور کوتاہیاں ہیں وہ خالصتا میری ہیں. میں اپنے اساتذہ کی انتہا سے بھی زیادہ عزت کرتی ہوں اور میرے سامنے کوئی ان کو یوں نہیں کہہ سکتا چاہے مجھے کہہ لے کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ میں زندگی اپنی آسودگی کے لیے اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے جی رہی ہوں. کوئی مجھے جو بھی سمجھے یا کہے، کچھ فرق سرے سے پڑتا ہی نہیں حتی کہ اس انٹرویو میں بھی کسی حوالے سے اس نیت سے کچھ فیبریکیٹ نہیں کیا گیا کہ مجھے اچھا سمجھا جاوے. جو ہوں اپنے لیے ہوں. آپ مجھے بے حد عزیز ہیں لٹرلی اور بھی یہاں بہت سے لوگ اور اسی لیے خلوص دل سے اپنی کم علمی اور مزید تحقیق کی گنجائش کا اعتراف کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ مجھے سکھا دیا جائے. آپ سے بھی کہتی ہوں کہ میری استاد کا رتبہ پائیے اور مجھے راہ راست پر لائیے میں مکمل طور پر تیار ہوں یا میرے اساتذہ کے بارے میں مت فرمائیے!

دوسری بات یہ ہے کہ انٹرویوز آج تک میں نے جو سنے ہیں ان میں اس طرح کی بات نہیں ہوتی.

بہر حال آئی مائینڈ اٹ!



:)

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں آپ سے معذرت چاہتی ہوں اگر آپ کو میرا سوال ناگوار گزرا ہے۔ میرا صرف اور صرف سوال کرنے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ آیا آپ کے اساتذہ مذہب کے پوئنٹ آف ویو سے سائنس کو کتنا پڑھا رہے ہیں اور اگر پڑھا رہے ہیں تو کیا کسی نے کبھی بیچ کے راستے کی بات کی ہے یا نہیں۔ اس سے زیادہ میری کھوج کو کوئی مقصد نہیں تھا :) اور نا ہی میرا مقصد خدا نا کرے آپ کے اساتذہ کو تنقید کا نشانہ بنانا تھا۔ میرا ایسا کوئی ارادہ کبھی بھی نہیں تھا۔

یہ میں نے صرف معلومات کے لئے پوچھا تھا کہ دوسرے شہروں کی یونیورسٹیوں میں کس طرح مذہب کو لے کر سائنس پڑھائی جا رہی ہے کیونکہ اگر میں یہاں کراچی کی بات کروں تو میرے اپنے گھر میں کافی بایولوجسٹس پائے جاتے ہیں اور ان کے بھی کافی یونیورسٹیز کے دوست احباب وغیرہ ہیں تو کبھی ایسی کوئی بات سننے میں آئی نہیں۔

صرف یہی بات تھی :) میں آپ سے ایک بار پھر معذرت چاہتی ہوں

جہاں تک میرا آپ کو پڑھانے کی بات ہے تو جناب میں قرآن کے حوالے سے کسی کو بھی تعلیم دینے سے بے انتہا گھبراتی ہوں۔ میں صرف علماء کی تحقیقات پر بھروسہ کرتی ہوں۔ وہ الگ بات ہے کہ صرف کسی ایک پر توکل نہیں کرتی بلکہ کوشش ہوتی ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے عالم کی بات سنوں کیونکہ غلطیاں تو علماء سے بھی ہو سکتی ہیں :)

میں نے اب تک ارتقاء پر ڈاکٹر اسرار احمد کے ہی دلائل سنے ہیں اور کہیں کہیں ان کی بھی بات سمجھ نہیں آئی ہے سو میری معلومات تو بہت ہی ناقص ہیں۔ ارادہ ہے اور بھی اسکالرز کی تحقیق اس پر پڑھوں :)
 

نایاب

لائبریرین
ماشاء اللہ
کیا خوب مصاحبہ ہو رہا ہے ۔ ابھی سارا پڑھ پانا مشکل ہے ۔ کاپی کر بعد میں پڑھوں گا ۔اگر وقت اور نیٹ نے اجازت دی تو محترم بٹیا سےاپنا علم بڑھانے کو کچھ پوچھنے کی جسارت کروں گا ۔
بہت دعائیں
 

La Alma

لائبریرین
مریم افتخار اگر عمومی سطح پر بات کی جائے تو بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ عورت کے دائرہ کار کو لے کر ابھی تک تذبذب کا شکار ہے ۔ ایک اکثریتی طبقہ عورت کو اس کی آزادی جو کہ اس کا پیدائشی اور فطری حق ہے، دینے کو تیار نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کے پیچھے جو بھی معاشرتی، سماجی ، مذہبی، نفسیاتی یا دیگر عوامل کارفرما ہیں، یہاں پر ان کا تذکرہ مقصود نہیں۔ عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جس بلند مقصدِ حیات کو لے کر زندگی میں آگے بڑھا جاتا ہے۔ معاشی مسابقت کی اس دوڑ میں وہ جوش، جذبہ اور جنون سب ہوا ہو جاتا ہے۔ مرد تو جُوں تُوں کر کے اپنے نصب العین کی حفاظت کا انتظام کر لیتا ہے کیونکہ نسبتًا اسے اندرونی خاندانی دباؤ کا کم سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن عورت کے لیے اپنے نظریات، فکر اور سوچ کی حفاظت نہایت مشکل امر ہے۔
قصہء مختصر اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں اور ذہانت سے نوازا ہے۔ اس نعمت ِ خداوندی کی قدرکرنا آپ پر فرض ہے۔ اگر آپ کو اپنے خوابوں سے پیار ہے اور مستقبل میں واقعی عملی طور پر کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں تو شریکِ زندگی کا انتخاب نہایت سوچ سمجھ کر اور پوری ذمہ داری سے کیجیے گا تاکہ بعد کی خانگی مزاحمتوں، نامناسب رویوں، جبری سمجھوتوں، بیکار کے کمپرومائزز اور ذہنی اذیت اور مشقت سے بچا جا سکے۔ میری دعا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی آپ کا مقدر ہو اور خدا آپ کو دونوں جہان میں سرخرو کرے ۔ گڈ لک۔
 
کسی زمانے میں اس بات پر دلگرفتہ ہوتی تھی کہ سائنس کا تقریبا سارا حصہ انگریزی زبان میں ہے اور انگریزی ایسی بڑی مجبوری ہے کہ پہلے یہ سمجھو پھر سائنس کو سمجھنے کے قابل ہوؤ گے اور پھر ہماری زبان کے دامن میں سائنس کیوں نہیں؟ ایک دفعہ بڑا جوش اٹھا بہت سی سائنسی کتب کے اردو تراجم کرنے کا مگر جلد ہی بیٹھ گیا. اس کی وجہ یہ تھی کہ شاید اس میں محنت زیادہ صرف ہو اور اس کا فائدہ اس سے کم ہو جتنی میں توقع کرتی ہوں تاہم اگر کوئی اور بھی اس پر کام کرنا چاہتا ہو اور کوئی ٹیم سی بن جائے تو عملی طور پر اسے شروع کرنے میں خوشی محسوس ہوگی
میں سبھی پڑھنے والوں سے شئیر کرنا چاہو‍ں گی کہ یہ اس انٹرویو کی ایچیومنٹ ہے کہ ایسی ٹیم نے مجھ سے رابطہ قائم کر لیا ہے. :)
 

نایاب

لائبریرین
ماشاء اللہ
محترم مریم افتخار بٹیا اس مصاحبہ کی گفتگو میں مستقبل کی اک ایسی دانشور جھلک رہی ہے ۔ جو امید کا عصا اور یقین کا سہارا لیئے سوچ و فکر و وجدان کو رہنما رکھتے اپنے علم کو عمل بنانے کی راہ پرخار میں حالت سفر میں ہے ۔ اک دن منزل پر کھڑی مسکرائے گی ضرور ۔ ان شاء اللہ
اللہ سوہنا آپ کی راہوں کو آسان فرماتے آپ کی منزل کو آپ کے لیئے آسان فرمائے آمین
علامہ اقبال
اپنے role کی وجہ سے. :)
یہ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا مراد ہے آپ کی ۔ ؟ علامہ اقبال کا کون سا رول ؟
کیا پیغام ہے اس کا ؟ مصنف کیا چاہتا ہے اپنے قاری سے ؟
'یاخدا از قدرت اللہ'
اس کی کہانی کیا ہے ؟ کیا کہنا چاہا ہے مصنف نے ؟
بہت دعائیں
 
بے حد شکریہ محترمی!
جوابات دینے میں تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
یہ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا مراد ہے آپ کی ۔ ؟ علامہ اقبال کا کون سا رول ؟
علامہ اقبال کا شمار نا صرف اردو کے بہترین شعرا میں ہوتا ہے بلکہ ان سے زیادہ (میری نظر میں) کسی کا کردار عملی طور پر اہم نہیں۔ ان کی شاعری کی ایک سمت ہے، ان کی شاعری میں مایوسی نہیں یا محض روایتی مضامین نہیں۔ میں باقی شعرا کو بھی اچھا سمجھتی ہوں اور پسند کرتی ہوں مگر اقبال کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس میں صرف ان کا اس وقت کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے میں کردار ہی شامل نہیں بلکہ اب بھی اتنا وقت گزر جانے کے باوجود ہمارے لیے وہی کردار ہے۔ میرے انٹرویو میں آپ نے شاید کافی دفعہ اب تک پڑھ لیا ہوگا کہ مجھے فلاں وقت اتنی حیرت ہوئی کہ ورطہ حیرت میں ڈوب گئی، آنکھ تک بھر آئی وغیرہ وغیرہ۔ مجھے عمومی طور پر کوئی بیرونی عوامل چاہے جتنے بھی اچانک یا غیر متوقع طور پر آئیں کبھی حیران نہیں کرتے لیکن جب میں خود کسی پرانی چیز کو بھی بہت گہرائی میں سوچنے بیٹھوں تو ایسی ایسی حیرت میری منتظر ہوتی ہے کہ اللہ کی امان! اقبال کے اور میرے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے کہ میں اب بھی دنگ رہ جاتی ہوں ان کے اشعار پر اور جو چیز مجھے عمل پر ابھارے میں اسی وقت اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہوں (چاہے پھر بیٹھ جاؤں) ، اقبال کے اشعار اکثر مجھے ایک دم اٹھا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ :)
 
کیا پیغام ہے اس کا ؟ مصنف کیا چاہتا ہے اپنے قاری سے ؟
جب میں نے اس کتاب کا نام لیا کہ پہلی بار پڑھنے میں سب سے زیادہ پسند آئی تو اس کے بعد کافی دفعہ سوچا کہ فلاں کتاب کیوں نہ کہی اور فلاں کیوں نہ۔ وجہ اس کی یہ ہے شاید ہی ایسی کوئی کتاب ہو جو استاد نہ رہی ہو۔ جس سے کچھ نہ کچھ سیکھا نہ ہو۔ کچھ کتابوں میں انداز بیان خوب ہوتا ہے، کچھ میں مقصد۔ جن میں کچھ بھی خوب نہ ہو ان میں کوئی ایک بات تو ہوتی ہے جو کسی اور کتاب میں نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ بہت ہی مشکل ہے کہ کوئی ایک نام لیا جائے۔ کچھ اور کتابیں بھی مجھے شاید حد سے زیادہ پسند ہیں مگر 'مصحف' کا نام اس لیے لیا کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کتاب کو پڑھنے سے قبل واقعی علم نہ تھا کہ قرآن کریم کو اس انداز میں بھی پڑھا جاتا یا جا سکتا وغیرہ ہے۔ شاید چار پانچ سال قبل جب یہ کتاب پڑھی تھی اور اس کے بعد دوبارہ بھی نہیں پڑھی مگر اس کتاب سے مجھے علم ہوا کہ اس طرح بھی پڑھتے ہیں قرآن پاک کو اور پھر مصنفہ نے ہی میرے استفسار پر مجھے وہ راستہ (تفہیم قرآن) کا ایک سال کا کورس بتایا جس کے بعد میں بھی اس ہیروئن کی طرح قرآن پاک کی تفہیم کے قابل ہو جاؤں اور مختلف مواقع پر اپنے مختلف مسائل کا حل بھی قرآن کریم سے سمجھ سکوں، تاہم میں نے کئی بار وہ کورس شروع کیا لیکن تاحال مکمل نہیں کر پائی ہوں۔ :)
 
اس کی کہانی کیا ہے ؟ کیا کہنا چاہا ہے مصنف نے ؟
بہت سی تحاریر ہیں۔ اس وقت میں نے انٹرویو کو ایک فی البدیہہ مصاحبہ ہی تصور کیا تھا اور زیادہ سوچ سمجھ کر جوابات منتخب نہیں کیے تھے۔ ان دنوں بہت عرصے بعد 'یاخدا' افسانہ یاد آیا اور پھر ذہن سے نکلنا بھول گیا۔ یہ ہجرت کے وقت ایک عورت کی کہانی ہے جسے غیر مسلموں نے 'مسلمان' ہونے کے جرم کے باعث نہ بخشا اور جب اس قدر قربانیوں کے بعد وہ بہت ارمانوں سے پاکستان آئی کہ اس کے لیے تو اس نے سب کچھ قربان کیا ہے اور یہی تو اس کی دھرتی ماں، اس کے لیے سر چھپانے کی جگہ اور محافظ ہے تو اس کے ساتھ 'مہاجر' سمجھ کر، 'بے سہارا عورت' سمجھ کر اور خدا جانے کیا کیا سمجھ کر غیروں سے بھی بڑھ کر بدترین سلوک کیا گیا۔
:)
 

نایاب

لائبریرین
اقبال کے اور میرے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے کہ میں اب بھی دنگ رہ جاتی ہوں ان کے اشعار پر اور جو چیز مجھے عمل پر ابھارے میں اسی وقت اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہوں (چاہے پھر بیٹھ جاؤں) ، اقبال کے اشعار اکثر مجھے ایک دم اٹھا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ :)
وقت نکال جواب دینے پر بہت شکریہ بہت دعائیں
اقبال بڑا اپدیشک ۔۔۔۔۔۔
کیا جناب اقبال کو مرد میداں کہا جا سکتا ہے ؟
یقین واثق ہےکہ آپ نے جناب اقبال کی سوانح ضرور پڑھ رکھی ہوگی ۔
کیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جناب اقبال " گفتار کے غازی " تھے ۔۔۔۔ ؟
بہت دعائیں
 
جب میں نے اس کتاب کا نام لیا کہ پہلی بار پڑھنے میں سب سے زیادہ پسند آئی تو اس کے بعد کافی دفعہ سوچا کہ فلاں کتاب کیوں نہ کہی اور فلاں کیوں نہ۔ وجہ اس کی یہ ہے شاید ہی ایسی کوئی کتاب ہو جو استاد نہ رہی ہو۔ جس سے کچھ نہ کچھ سیکھا نہ ہو۔ کچھ کتابوں میں انداز بیان خوب ہوتا ہے، کچھ میں مقصد۔ جن میں کچھ بھی خوب نہ ہو ان میں کوئی ایک بات تو ہوتی ہے جو کسی اور کتاب میں نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ بہت ہی مشکل ہے کہ کوئی ایک نام لیا جائے۔ کچھ اور کتابیں بھی مجھے شاید حد سے زیادہ پسند ہیں مگر 'مصحف' کا نام اس لیے لیا کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کتاب کو پڑھنے سے قبل واقعی علم نہ تھا کہ قرآن کریم کو اس انداز میں بھی پڑھا جاتا یا جا سکتا وغیرہ ہے۔ شاید چار پانچ سال قبل جب یہ کتاب پڑھی تھی اور اس کے بعد دوبارہ بھی نہیں پڑھی مگر اس کتاب سے مجھے علم ہوا کہ اس طرح بھی پڑھتے ہیں قرآن پاک کو اور پھر مصنفہ نے ہی میرے استفسار پر مجھے وہ راستہ (تفہیم قرآن) کا ایک سال کا کورس بتایا جس کے بعد میں بھی اس ہیروئن کی طرح قرآن پاک کی تفہیم کے قابل ہو جاؤں اور مختلف مواقع پر اپنے مختلف مسائل کا حل بھی قرآن کریم سے سمجھ سکوں، تاہم میں نے کئی بار وہ کورس شروع کیا لیکن تاحال مکمل نہیں کر پائی ہوں۔ :)
ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گی۔ میرے نزدیک اپنی ہوش کے اول روز سے ہی خدا جانے کیوں اس بات کی بہت اہمیت رہی ہے کہ کسی نے کوئی کام کس عمر میں کیا! مجھے یاد ہے کہ آج سے دس سال قبل لکھنے کا جنون اور گول سر پر سوار تھا، کچھ لکھا بھی مگر کئی حوالوں سے خاصی حوصلہ شکنی کی گئی ( میں کسی کے کہنے سے عمومی طور پر اپنا حوصلہ کم نہیں ہونے دیتی ) مگر یہ آج سے غالبا دس سال قبل کی بات ہے مجھے ہمیشہ کہا جاتا رہا کہ تعلیم مکمل کر لو، کچھ بن جاؤ، پھر جو شوق پورے کرنے ہوں کر لینا۔ دل میں ہمیشہ آتا رہا کہ پھر شوق رہیں گے یا روز دبانے کی وجہ سے مر جائیں گے؟ مگر جو سب سے قابل ذکر بات مجھے یاد ہے کہ میں کہا کرتی تھی وہ یہ ہے کہ جب میں لکھوں گی یا اپنے شوق پورے کرنے شروع کروں گی تب اس بات کی وہ اہمیت تو نہ ہوگی نا کہ ایک نہم جماعت کی بچی نے یہ کیا۔ خود میری نظر میں بھی ! تمام مشاہیر میں سے محمد بن قاسم ہمیشہ پسندیدہ ترین رہے اور وجہ سب سے بڑھ کر یہی کہ سترہ سال کی عمر میں اتنے بڑے فاتح تھے اور پھر اطاعت امیر میں جان دے دی۔
'مصحف' کی مصنفہ کا معاملہ بھی کچھ یوں ہے کہ مجھ سے بمشکل دو تین سال بڑی ہیں غالبا اور اب تک دس کتب کی مصنفہ ہیں اور وہ کتب کچھ ایسی غیر معیاری نہیں جتنا ٹھیٹھ اردو دان طبقہ انہیں کہتا ہے۔ ہر انسان اپنا معیار خود بناتا ہے اور اسے بنانا بھی چاہیے، مجھے روایتی لوگ زیادہ پسند نہیں۔ نمرہ احمد نے 'قراقرم کا تاج محل' سیکنڈ ائیر میں لکھا اور وہ ان کی پہلی کتاب نہ تھی۔ شاید دوسری تیسری ہوگی۔ میرے لیے یہ اہم ہے کہ کس نے کس عمر میں کوئی کام کیا اور آج سے کافی سال قبل (مصحف کی اشاعت کا سال یاد نہیں مگر میں نے غالبا 2014 میں اتفاقا پڑھا تھا) جب نمرہ نے وہ لکھا تو شاید وہ ٹین ایجر تھیں مگر اس کے باوجود اس جیسا ناول اور کسی مصنف نے نہیں لکھا۔ جس کا سارا محور ہی قرآن تھا اور اس پر اتنی اچھی کہانی بنی اور قارئین کے ایک بڑے طبقے کی سوچ کا دھارا موڑا۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
جس کا سارا محور ہی قرآن تھا اور اس پر اتنی اچھی کہانی بنی اور قارئین کے ایک بڑے طبقے کی سوچ کا دھارا موڑا۔ :)
سچ کہا آپ نے نمرہ اور عمیرہ نے اچھے ناول لکھے جن کی اشاعت بھی خوب ہوئی ۔کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ ناول اس قدر طاقتور بیانئے کے حامل ہیں کہ اکثر ٹین ایجرز بچیوں کو رہبانیت کی جانب دھکیل دیتے ہیں ۔ عمل سے دور کرتے صرف اللہ سوہنے کو اپنی ملک بنانے کی خواہش میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔گویا ٹرک بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں ۔ نہ وہ بتی ہاتھ آئے نہ اللہ دکھے ۔۔؟
بہت دعائیں
 
وقت نکال جواب دینے پر بہت شکریہ بہت دعائیں
اقبال بڑا اپدیشک ۔۔۔۔۔۔
کیا جناب اقبال کو مرد میداں کہا جا سکتا ہے ؟
یقین واثق ہےکہ آپ نے جناب اقبال کی سوانح ضرور پڑھ رکھی ہوگی ۔
کیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جناب اقبال " گفتار کے غازی " تھے ۔۔۔۔ ؟
بہت دعائیں
میں نے سکول کے زمانے میں ان کی زندگی پر کتب پڑھی تھیں، اب من و عن تو کچھ یاد نہیں مگر یہاں شاعر کی بات ہو رہی ہے تو ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ جس طرح کہانی میں ہر کسی کا ایک مختلف اور اہم کردار ہوتا ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے بھی ہر کسی کے لیے ایک مختلف اور اہم کردار منتخب کیا ہے کائنات کے تانوں بانوں میں موجود (اگر زوم ان کریں تو کئی کہانیوں اور اگر زوم آؤٹ کریں تو ایک ہی ) کہانی کے لیے۔ ہم سب انٹر کونیکٹڈ ہیں اور خواہ بظاہر کسی سے کتنے ہی دور ہوں اور کبھی ملے بھی نہ ہوں مگر ایک دوسرے کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں۔ مثلا یہ ہو سکتا ہے کہ افریقہ میں کسی نے ایک دن باس سے ان بن کی وجہ سے دفتر سے چھٹی کی اور لگا انڈا ابالنے اور اس ابلنے کے نتیجے میں بننے والے آبی بخارات چلتے چلتے یہاں آگئے اور عین اس وقت میرے سر پر برسے جب میرے ہاتھ میں ایک چٹ پر میری زندگی کا سب سے اہم رابطہ نمبر درج تھا۔ اس ایک قطرے نے اسے مٹا ڈالا، اگر اس افریقی کا باس اسے نہ ڈانٹتا تو۔۔۔۔۔۔ ہاں! یوں ہونا تھا تو یوں ہوا اگر وہ نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا مگر کہانی تو وہی رہی نا ہمارے انٹر کنیکٹڈ ہونے کی اور لکھنے والے کی۔ اقبال کا رول اگر ایک شاعر کا تھا اور اس کا کام عملی رو دوڑانا تھا تو ان کے اشعار ابھی بھی یہ کام باقی شعرا کے کلام سے بہتر کر رہے ہیں۔ عمل کرنے کی انہوں نے بھی اپنی سی کوشش تو کی ہوگی مگر میں نے اپنی زندگی سے تو کم از کم یہی سیکھا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے خلاف زیادہ دیر تک چل نہیں پاتا( مجھے یاد ہے کہ میں نے جب پہلی بار The shawshank redemption مووی دیکھی تو سارا دن کھڑی رہی، کھڑی رہی! اس دن میں نے وہ وہ کام کیے جو شاید میں کر ہی نہ سکتی تھی اور اتنا زیادہ کام کیا کہ بیٹھنا گناہ محسوس ہو رہا تھا، حالانکہ مووی یہ کہتی تھی کہ روز تھوڑا تھوڑا کرو لیکن سب سے اہم بات یہ کہتی تھی کہ حوصلہ نہ ہارو، لگے رہو! میں کام میں جتی رہی مگر کب تک؟ آخر پھر مریم پہ آ گئی! تاہم جس طرح کہتے ہیں نا کہ ہر زہر کا تریاق ہے مگر کان میں ایک بار گئی ہوئی بات کا نہیں، بالکل اسی طرح بہت زیادہ جلدی نہیں مگر آہستہ آہستہ ہم جو خود میں لانا چاہتے ہیں بنتے جاتے ہیں What you are thinking, you are becoming کے مصداق ۔ اقبال کے متعلق میں کیا کہہ سکتی ہوں کہ کوئی قابل ذکر واقعہ تو ذہن میں نہیں، ہاں البتہ گفتار کے غازی بھی سبھی لوگ نہیں ہوتے، حتی کہ سبھی لوگ پوزیٹویٹی پھیلانے والے بھی کب ہوتے ہیں! وہ جو بھی تھے اور انہیں جو بھی کام سونپا گیا تھا، بہتر انداز میں کر گئے۔ ویسے ہسٹری میں بعض لوگ انہیں درویش وغیرہ بھی کہتے رہے ہیں اور درویش مرد میدان ہوتا ہے مگر منہ سے خود کو کردار کا غازی بن نہ سکا ہی کہتا ہے۔ وللہ اعلم :)
 
سچ کہا آپ نے نمرہ اور عمیرہ نے اچھے ناول لکھے جن کی اشاعت بھی خوب ہوئی ۔کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ ناول اس قدر طاقتور بیانئے کے حامل ہیں کہ اکثر ٹین ایجرز بچیوں کو رہبانیت کی جانب دھکیل دیتے ہیں ۔ عمل سے دور کرتے صرف اللہ سوہنے کو اپنی ملک بنانے کی خواہش میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔گویا ٹرک بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں ۔ نہ وہ بتی ہاتھ آئے نہ اللہ دکھے ۔۔؟
بہت دعائیں
عمیرہ صاحبہ مجھے زیادہ پسند نہیں ہیں۔ دور حاضر کی خواتین لکھاریوں میں مجھے نمرہ احمد اور سمیرا حمید پسند ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ نے یہ سوال پہلے بھی ایک بار کیا تھا کہ رہبانیت کو ترقی مل رہی ہے؟ مجھے علم نہیں کہ مذکورہ مصنفہ پر آپ کا مطالعہ کتنا ہے۔ میں نے ان دونوں کی ہر ہر تحریر پڑھی ہے۔ بلکہ میری یہ عادت ہے (خدا جانے اچھی یا بری) کہ مجھے ایک بار جو ہستی کسی بھی حوالے سے پسند آ جائے پھر اس کے متعلق ریسرچ میں 'پنڈ پہنچ جاتی ہوں'۔ کم از کم مجھے کسی واحد جگہ پر بھی یوں محسوس نہیں ہوا کہ اس سے رہبانیت کے پروموٹ ہونے کا کوئی شائبہ تک ہے، بلکہ ان دونوں نے جو مجھے پسند ہیں ہر لحاظ سے عمل بڑھانے کی اور عمل کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی ہے (میری نظر میں)۔ آپ کا اپنا نظریہ بھی ہو سکتا ہے مگر میں یہ محض اس لیے نہیں کہہ رہی کیونکہ مجھے وہ پسند ہیں بلکہ ان کے متعلق میرا مشاہدۃ خام تو یہی کہتا ہے اور خود میں بھی اپنے متعلق یہ نہیں سمجھتی کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ عمل سے دور اور رہبانیت کے قریب آئی ہوں۔ :)
 
Top