خند و ملاحت

کچھ اسی طرح کا واقعہ کسی مشہور فارسی شاعر کے بارے میں پڑھا تھا کہ ایک مبتدی سے شاعر نے آکر انہیں اپنا کلام سنایا اور کہنے لگا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کلام کو جلی خط میں لکھوا کر شہر دروازے پر لٹکوادوں تاکہ ہر خاص و عام اس سے مستفیض ہوسکے ۔ انہوں نے جواب دیا : اگر کلام کے ساتھ ساتھ شاعر کو بھی لٹکادیا جائے تو لوگ اور زیادہ مستفیض ہوں گے ۔
جس واقعہ کا آپ ذکر کر ہے ہیں وہ بھی مولانا عبدالرحمن جامی کے ساتھ ہی پیش آیا تھا،
لکھنے والی تھی لیکن اب آپ نے لکھ دیا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کاتبین کا یہ فائدہ ضرور تھا کہ ہر غلطی ان کے سر منڈھ دی جاتی تھی۔

آپ کی اس بات پر ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا ۔ ایک صاحب ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے ۔ انہوں نے بیرے کو بلایا اور شکایت کی کہ سالن میں سے بٹن نکلا ہے ۔ بیرا پڑھا لکھا آدمی تھا ۔ پلیٹ کی طرف دیکھ کر بولا : جناب کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ بٹن نہیں مٹن ہوگا ۔
 
استاد ذوق بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے اور غالب سے نوک جھونک رہتی تھی۔
مرزا غالب محل کے راستے میں کہیں بیٹھ گئے جب ذوق قریب سے گذرے تو مززا غالب نے کہا ، بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا ،
ذوق نے بادشاہ شکایت کردی ، طلبی ہوئی اور پوچھا کہ طنز کیوں کرتے ہو آپ ، جواب دیا حضور میری مجال کہ ایسی حرکت کرو ، میں تو غزل کا مقطع لکھ رہا تھا !
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
 
استاد ذوق بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے اور غالب سے نوک جھونک رہتی تھی۔
مرزا غالب محل کے راستے میں کہیں بیٹھ گئے جب ذوق قریب سے گذرے تو مززا غالب نے کہا ، بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا ،
ذوق نے بادشاہ شکایت کردی ، طلبی ہوئی اور پوچھا کہ طنز کیوں کرتے ہو آپ ، جواب دیا حضور میری مجال کہ ایسی حرکت کرو ، میں تو غزل کا مقطع لکھ رہا تھا !
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
ویسے سید عمران بھائی بالآخر مایوس ہو چکے ہیں، ورنہ ان کی توجہ کے لیے کافی سامان موجود تھا اس مراسلہ میں۔
 
موبائل ٹائپو اور املا کی غلطی دو مختلف امر ہیں۔ :)
املا کی غلطی پر بھی موبائل ٹائپو کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔
اعراب کی غیر موجودگی کو املا کی غلطی نہیں کہا جاسکتا جب تک اعراب غلط نہ ہوں۔
 

سید عمران

محفلین

یاز

محفلین
واٹس ایپ سے موصول و منقول
ہمارے استاد ریاض مجید صاحب کے پاس ایک لڑکا اپنی غزل دکھانے کو لایا تو انہوں نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے اردو شاعری میں نیا اضافہ قرار دیا...... اس لڑکے نے وہ غزل حلقہ ارباب ذوق کے تنقیدی اجلاس میں پیش کر دی..... پھر اس غزل کی جو دھجیاں بکھریں کہ الأمان والحفیظ..... وہ منہ بسورے استاد ریاض مجید صاحب کے پاس آیا کہ "سر جی! آپ نے تو کہا تھا کہ بڑی اچھی غزل ہے"........... ریاض مجید صاحب نے اس وقت تاریخی جملہ کہا اور فرمایا:

"بیٹا! اگر ماں لاڈ پیار میں چندا کہ دے تو

" مقابلہء حسن" میں نہیں چلے جایا کرتے ہیں"...............
 
ایک زمانے میں لکھنؤ میں گھروں میں چاٹ بیچنے کے لئے خوانچے والے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کسی خوانچہ فروش کو ساغر خیامی نے روکا اور اس سے کہا۔ ’’آٹھ آنے کی چاٹ دے دو۔‘‘
اس نے چاٹ دے دی اور ساغر صاحب نے چاٹ کھالی۔ جب پیسے دینے کا وقت آیا تو خوانچہ والے نے آٹھ آنے کے بجائے ایک روپیہ رکھ لیا۔ ساغر صاحب بگڑ کر بولے۔ ’’آٹھ آنے واپس کرو۔‘‘
وہ بولا۔ ’’چاٹ ایک روپے کی تھی۔‘‘
ساغر صاحب نے کہا۔ ’’میں نے آٹھ آنے کی مانگی تھی تو تم نے ایک روپے کی کیوں دی؟‘‘
اس پر چاٹ والا بولا۔ ’’کیا کروں میاں مجھے کم سنائی دیتا ہے۔‘‘ ساغر صاحب بولے۔ ’’کم سنائی دیتا ہے یا زیادہ؟ کم سنائی دیتا تو چار آنے کی دیتے.
 
لکھنئو میں ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ جب بات کرنی ہو تو تشبیہات, استعارات, محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو..
ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے. انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔

ایک شاگرد اجازت لے کر کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے یوں گویا ہوا:

"حضور والا..!! یہ بندہ ناچیز حقیر فقیر, پر تقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہے. وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں..

چند ثانیے قبل میری چشم نارسا نے ایک اندوہناک منظر کا مشاھدہ کیا کہ ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے افقی سمت میں بلند ہو کر چند لمحے ہوا میں ساکت و معلق رہا اور پھر آ کر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہو گیا. اگر اس فتنہ و شر کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضور والا کی جان والا شان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں.."
اور اتنی دیر میں استاد محترم کی دستار ان کے بالوں سمیت جل کر بھسم ہو چکی تھی..
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top