دہشت گردی کا انمٹ نقش: قندوز میں دینی مدرسے کی تقریب دستار بندی پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری

آصف اثر

معطل
کیا تصاویر دینے کے بعد ہی ہماری ”ہمدردی“ اور ”انسانیت“ کا جذبہ بیدار ہوگا اور ہم کہیں گے واقعی بڑا ظلم ہوا۔ اور فیس بُک کے اکاؤنٹ کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو۔
دراصل شیطانی ذہنیت اتنی راسخ ہوچکی ہے کہ ہمدردی کے بجائے الٹا اُن معصوموں کی لاشوں پر اپنی منافقت کے تیر برسائے جاتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
29790814_10212040004742308_5057373941122497824_n.jpg
 

زیک

مسافر
زیک آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ معتبر ہی سورس ہونا چاہیے۔ میں نے ابھی بی بی سی اور ڈان وغیرہ متعدد پیجز کو چیک کیا ہے مگر وہاں تو یہ خبر سرے سے ہی غائب ہے۔
باقی تصاویر اصلی ہوں یا نہ ہوں، ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمیں تو خبر سے غرض ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ:
آپ ہی دیکھیں کہ ایک اتنی افسوس ناک خبر کو ان ویب سائٹس نے سرے سے اڑا دیا۔ کیا اتنے ہی امریکی بچوں کی یکبارگی موت پر بھی ان سائٹس کا یہی رویہ ہوتا؟؟؟
کیا یہ دو رخا رویہ مضحکہ خیز نہیں ہے؟
اب ایسے میں کوئی "معتبر سورس" کہاں سے لائے!
نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ پر کل خبر دیکھی تھی۔ باقیوں کا نہیں کہہ سکتا کہ انہیں باقاعدگی سے نہیں پڑھتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
معروف تجزیہ نگار عاصم اللہ بخش لکھتے ہیں:

کسی زمانہ میں ایک کہاوت پڑھی تھی، " ہر پیدا ہونے والا بچہ یہ الوہی پیغام لاتا ہے کہ خدا اب بھی انسان سے مایوس نہیں". بچے کی معصومیت ، اس کا بھولپن اس بات کی امید جگاتے ہیں کہ انسان اب بھی اپنا وہ مقام پا سکتا ہے جو اسے فرشتوں پر فضلیت بخشتا ہے.

لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے بھیس میں چھپے درندوں نے خدا کی اس امید کو اپنے ہاتھوں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے. عراق، شام، لیبیا، یمن ہر جگہ یہی کہانی ہے. خود ہمارے خطہ میں باجوڑ کے مدرسے سے شروع ہونے والی بربریت ختم ہونے میں نہیں آ رہی. اطلاعات کے مطابق کل قندوز میں ایک مدرسہ پر امریکی/ افغان فورسز کی بمباری میں 100 سے زیادہ بچے شہید ہو گئے.

اتنا بڑا ظلم اور اس پر واحد ردعمل جو سامنے آنے کی توقع ہے کہ یہ "Collateral Damage" تھا. یا یہ کہ "دہشت گرد" اس مدرسے کو Human Shield کے طور پر استعمال کر رہے تھے.

یہ Collateral Damage نہیں، یہ ہی اصل نقصان ہے. اس طرح کے واقعات کو تکنیکی غلطی قرار دے کر بھلایا نہیں جا سکتا. اس پر یک آواز ہو کر احتجاج کرنا ہو گا ... ہر مصلحت سے بلند ہو کر. یہ کسی اور پر نہیں خود پر احسان ہے .... خدا کی امید ٹوٹ گئی تو پھر کچھ باقی نہیں بچے گا.
 

سین خے

محفلین

شاہد بھائی ۲۰۱۷ کی رپورٹس ہیں اور 2017 ابھی کچھ مہینے پہلے ہی اختتام کو پہنچا ہے۔ 16 سالوں میں امریکن ائیر اسٹرائکس دسمبر 2017 میں سب سے زیادہ ہوئے ہیں

wAfghanAIRstrikes.jpg


A new U.S. air blitz in Afghanistan isn’t stopping for winter. But will it stop the Taliban?

دوسری بات جس یو این کی رپورٹ کی طرف میرا اشارہ تھا وہ فروری ۲۰۱۸ کی ہے۔ دوبارہ لنک دے رہی ہوں

Afghanistan: 10,000 civilian casualties in 2017 - UN report suicide attacks and IEDS caused high number of deaths and injuries

ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت بمباری بڑھی ہے اور ہزاروں شہری اموات واقع ہوئی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قندوز کے مقتول حفاظ
آصف محمود
فلسطین میں لاشے گرنے کا دکھ ابھی صحیح طریقے سے محسوس بھی نہ ہوا تھا کہ کشمیر خوں میں نہا گیا ۔ کشمیر کی تکلیف کا احساس ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ قندوز میں ہمارے بچوں کو کاٹ کر پھینک دیا گیا۔
آنکھوں میں چمک اور سینوں میں قرآن کا نور لیے یہ کتنے پیارے وجود تھے ، قندوز کے ایک مدرسے میں لوتھڑوں کی صورت جو بکھر گئے۔ سمجھ نہیں آ رہی ان معصوم لاشوں کا ماتم کیا جائے یا اس قتل عام پر اختیار کی گئی مجرمانہ خاموشی پر۔ امریکہ سے کیا گلہ کہ اس کی تو تاریخ ہی خون میں بھیگی ہے ، سوال یہ ہے کہ وہ خواتین و حضرات کہاں ہیں جو حقوق انسانی تخلص کرتے ہیں اور روشن خیالی کے وہ مدہوش ملنگ کدھر گئے جو دھمال ڈال ڈال کر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا تو مذہب ہی انسانیت ہے؟ مسلمانوں کی معمولی معمولی غلطیوں پر غرانے والا یہ طبقہ اس وقت گونگا شیطان کیوں بن جاتا ہے جب مسلمانوں پر قیامت ٹوٹتی ہے۔ ان طلباء کی بات کریں تا کہا جاتا ہے یہ افغانستان کا مسئلہ ہے۔ بھئی اگر یہ سو سے زیادہ لاشے افغانستان کا مسئلہ ہے تو بامیان کے مجسموں کو کیوں روتے ہو وہ آپ کی نانی اماں کے شوہر کے مجسمے تو نہیں تھے۔

’لر او بر یو افغان‘ کے نعرے لگانے والے قوم پرست بھی خاموش ہیں۔ قوم کے نام پر ’لر‘ میں تو اودھم مچا دیا جاتا ہے لیکن جب بات ’ بر‘ کی آتی ہے تو چونکہ ساتھ ایک عدد امریکہ بھائی جان بھی نظر آ رہے ہوتے ہیں اس لیے قوم پرستی کا غبارہ ان دیکھے اندیشوں کا تصور کر کے وہیں پھٹ جاتا ہے۔ وہ کوئی چادر پوش ہو یا اس تکلف سے بے نیاز ، تمام بطل حریت کی زبان برفاب ہو جاتی ہے اور وہ ایک حرف مذمت بھی ادا نہیں کر پاتے۔

قندوز کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ یہ ایک تاریخ ہے۔یہ 1996ء کی بات ہے۔میڈیلین البرائٹ امریکہ کے ٹی وی پروگرام 60منٹ میں مدعو تھیں۔میزبان نے سوال کیا:
’’ عراق پر امریکی پابندیوں سے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے مر چکے ہیں،کیا اتنی بھاری قیمت دی جانی چاہیے؟‘
‘اعلیٰ مغربی تہذیب کی علمبردار عورت کا جواب تھا:’
’ جی ہاں یہ ایک مناسب قیمت ہے،دی جانی چاہیے۔‘‘


مدہوش ملنگوں کا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عالم مد ہوشی میں وہ صرف مجاوری کرتے ہیں حقائق سے انہیں تبخیر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ان ملنگوں کے رویے دیکھ کر کیتھرین گراہم یاد آ جاتی ہیں۔کیتھرین واشنگٹن پوسٹ کی مالک تھیں۔1988میں انہوں نے سی آئی اے میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’ہم بڑی گندی اور خطرناک دنیا میں رہتے ہیں۔کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے۔‘‘( بحوالہ ولیم بلم، کلنگ ہوپ، صفحہ 121)

چنانچہ اب تلخ حقیقت یہ ہے کہ الا ماشا اللّٰہ دنیائے دانش کیتھرین کے فکری فرزندوں سے بھری پڑی ہے جو صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے ۔

آپ فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر اور سینیٹر راجر گراؤڈی کی کتاب’’ دی فاؤنڈنگ متھز آف اسرائیلی پالیسی‘‘ پڑھیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کہ کس طرح راجر نے جب عام لوگوں کو ان ’ کچھ چیزوں‘ کا بتانا چاہا تو مغربی میڈیا نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ہمارے ملنگ ڈگڈگی بجاتے ہیں کہ مغربی تہذیب آزادی رائے کی بڑی قائل ہے اور مسلمانوں کو ابھی تک بقائے باہمی کے آداب کا علم نہیں۔جھوٹ کے یہ لشکری اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ نام چامسکی جیسا آدمی چیخ اٹھتا ہے’’حقائق بہت کڑوے ہیں۔صرف یہی نہیں کہ تعلیم یافتہ اور معقول لوگوں کو سچائی سے دور کر دیا گیا ہے بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بد ترین حالات کہ ذمہ داری مظلوموں پر ڈال دی گئی ہے۔‘‘

دنیا کو قوانین کا درس دینے والے امریکہ نے بین الاقوامی قانون کو سب سے زیادہ پامال کیا ہے ۔بین الاقوامی قوانین اور ضابطے کبھی اس کی روہ میں حائل نہیں ہو سکے۔امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچی سن ریاست کے رہنما اصول کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں۔انٹر نیشنل لاء جائے جہنم میں۔مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے ماہرین کیا کہتے ہیں‘‘
( بحوالہ،بل ڈلن،یو ایس۔اے روگ سٹیٹ،27اکتوبر2002۔دی ٹراؤزر رولرز)


ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا:
’’ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی مرد عورت اور بچے کو قتل نہ کیا جائے،تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے یا اسے غائب نہ کر دیا جائے اور امریکہ اس ظلم میں شریک نہ ہو‘‘( بحوالہ نام چامسکی ،روگ سٹیٹس۔۔۔باب10)

دنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت کر نے والا امریکہ ملالہ جیسے چند واقعات کی آڑ میں اپنی تہذیبی برتری ثابت کر کے خود کو انسان دوست قوت کے طور پر متعارف کراتا نظر آتا ہے تو رچرڈ ریویز یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا:
’’ہم امریکی اپنی رہنمائی کے حوالے سے بے ہودہ اور واہیات باتیں علی الاعلان کرتے ہیں‘‘

اسی سفاک رویے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ولیم بلم لکھتے ہیں:
’’بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کہ اس کی قیادت بے رحم ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسیٹسلشمنٹ میں صرف انہی کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم،بے شرم اورڈھیٹ ہوں‘‘
( بحوالہ ولیم بلم ،کلنگ ہوپس،یو ایس ملٹری اینڈ سی آی اے انٹر ونشنز سنس ورلڈ وار ٹو، کامن کیج پریس، صفحہ 83)


امریکہ نے ابھی تک’’کنونشن آن دی رائٹس آف چائلڈ‘‘یعنی بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق نہیں کی۔دل چسپ بات یہ کہ اس کنونشن کے سات آرٹیکلز خود امریکہ نے لکھے تھے جن میں سے تین براہِ راست امریکی آئین میں سے لیے گئے اور خود صدر ریگن نے تجویز کیے تھے۔
( بحوالہ،نینسی ۔ای۔واکر، کیتھرین بروکس، لارنس ایس رائٹسمین، Children Rights in the United States: In Search of National Policy ، (ایس اے جی ای) 199، صفحہ 40 1-)

افغانستان کو اس نے امن کے نام پر برباد کردیا ۔ یہی نہیں بلکہ آدمی حیرت اور صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے جب وہ یہ خبر سنتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی مرنے والے معصوم شہریوں کے اعضاء کاٹ کر’’یادگار‘‘کے طور پر محفوظ کر لیتے ہیں اور فخر سے دوستوں کو دکھاتے ہیں ۔
جرمن روزنامے ’’درسپیگل(Der Speigal)اور امریکی میگزین’’رولنگ سٹون‘‘ (Rolling Stone)نے ایسی تصاویر بھی شائع کیں جن میں امریکی فوجی مقتول افغانوں کی لاشوں کے پاس فاتح کے طور پر کھڑے ہیں جن کے سر کاٹے جاچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان سروں کی یہ فوجی ٹرافیاں بناتے ہیں ۔جیسے شکاری کبھی ہرن شکار کرکے ٹرافیاں بناتے تھے۔
(بحواالہ، ایشین ٹریبون، یشین ٹریبون، US War Crimes In Afhanistan: Severed Human Heads Brandished25 اپریل 2011ء )


ایشین ٹریبیون(Asian Tribune)کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں تعنیات’’ففتھ سٹرائکربرگیڈ‘‘کے ’’تھرڈ پلاٹون‘‘کی’’براوو کمپنی‘‘کے ایک فوجی کارپورل جرمی مارلوک (Jermy Marlock)نے ایک پندرہ سالہ نہتے افغان لڑکے گل مدین کو قتل کرنے کے بعد اس کی انگلی یاد گار کے طور پر اپنے پاس محفوظ کرلی( بحوالہ ،ایشین ٹریبیون،25 اپریل2011)

ان تمام حقائق کے باوجود ملنگوں کا دعوی یہی ہے کہ مسلمانوں کو تہذیب نہیں آتی۔ وہ جاہل ہیں اور ان کا رویہ انسان دوست نہیں۔
 

سین خے

محفلین
زیک آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ معتبر ہی سورس ہونا چاہیے۔ میں نے ابھی بی بی سی اور ڈان وغیرہ متعدد پیجز کو چیک کیا ہے مگر وہاں تو یہ خبر سرے سے ہی غائب ہے۔
باقی تصاویر اصلی ہوں یا نہ ہوں، ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمیں تو خبر سے غرض ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ:
آپ ہی دیکھیں کہ ایک اتنی افسوس ناک خبر کو ان ویب سائٹس نے سرے سے اڑا دیا۔ کیا اتنے ہی امریکی بچوں کی یکبارگی موت پر بھی ان سائٹس کا یہی رویہ ہوتا؟؟؟
کیا یہ دو رخا رویہ مضحکہ خیز نہیں ہے؟
اب ایسے میں کوئی "معتبر سورس" کہاں سے لائے!

کیا میں نے پیچھے ڈان، بی بی سی وغیرہ کی خبریں شئیر نہیں کی ہیں؟؟
 
کیا میں نے پیچھے ڈان، بی بی سی وغیرہ کی خبریں شئیر نہیں کی ہیں؟؟
جی آپی۔ سوری کہ میں نے بعد میں دیکھیں۔
میں نے عرض کیا تھا کہ ان کے پیج پر آج نہیں ملیں۔
اہم خبریں کتنی دیر بعد ہٹائی جاتی ہیں ان کے سرورق سے؟
کوئی تازہ اپڈیٹس آج بھی دی ہیں انہوں نے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور ناظم اعلیٰ مولانا حنیف جالندھری نے کہا ہے کہ قندوز مدرسہ پر حملہ دنیا کے امن اور تعلیم پر حملہ ہے معصوم کلیوں کو کچل کر ظلم کی انتہا کردی گئی تکمیل قرآن کریم کی بابرکت تقریب پر بارود کی بارش انسانیت اور انسانی حقوق کی تذلیل ہے اقوام متحدہ اور عالمی برادری دہرے معیار کا خاتمہ کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے افغانستان کے صوبہ فندوز میں مدرسے پر بمباری اور معصوم طلباء کی شہادتوں پر انپے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ اس عظیم سانحہ پر میڈیا کی خاموشی اور بے حسی افسوسناک ہے بلاتفریق مذہب و ملک دنیا بھر کی انصاف پسند لوگ اس واقعہ پر صدائے احتجاج بلند کریں انہوں نے کہا کہ بے گناہوں کے قتل عام سے دنیا میں قیام امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ‘ وفاق المدارس کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک اور اسلامی دنیا ظلم و ستم کی اس روش کی روک تھام کیلئے اپنا کردار ادا کریں انہوں نے اس واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نہتے اور بے گناہ شہریوں پر بمباری انسانیت دشمنی کی بدترین مثال ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ملتان میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کا افغانستان کے صوبے قندوز میں مدرسہ پر ہونے والے حملے کے خلاف احتجاجی مظاہر ہ کیا گیا۔ جس میں جمعیت اہلحدیث کے صوبائی ناظم علامہ سید خالد محمود ندیم ، جماعت اہلسنت کے رہنما علامہ ڈاکٹر محمد ارشد بلوچ، محکمہ اوقاف کے زونل خطیب علامہ قاضی بشیر احمد گولڑوی، پاکستان علماء کونسل کے رہنما علامہ ابوبکر عثمان الازہری، پاکستان عزاداری کونسل کے رہنما علامہ سید مجاہد عباس گردیزی، علامہ عبد الحنان حیدری، علامہ رمضان چشتی، پاکستان عوامی تحریک کے صوبائی رہنما رائو محمد عارف رضوی، سلیم درباری سمیت دیگر نے شرکت کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ افغانستان کے صوبے قندوز میں مدرسہ میں جاری جلسہ دستار بندی پر امریکی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے 101 حفاظ بچوں کی شہادت افسوس ناک ہے، جس کی شدید مذمت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں انسان سمجھ کر ہی ان بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام پر آواز بلند کرتیں، انہوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ اُمت امسلہ انسانیت کے قاتل امریکہ کے خلاف متحد ہوکر ان کو انجام تک پہنچائے تاکہ اُمت مسلمہ ان کی شیطانیوں سے محفوظ رہ سکے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ماؤں کی مسکراہٹ اور خوشی کے آنسو غم کے آنسو کب بن گئے انہیں احساس تک نہیں ہوگا، ان کی پتھرائی آنکھیں اپنے سپوتوں کے انتظار میں پھڑک رہی ہوں گی، انہیں اپنی سونی گود کو دلاسہ دینے کے لیے کوئی نہیں ہوگا، مائیں اب کس کو چھاتی سے لگا کر دل کی ٹھنڈک حاصل کریں گی، بہنیں کس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خوشی کے لمحات شیئر کریں گی۔ قندوز کے اس سانحے نے جس میں سو سے زائد معصوم کو درندوں نے اپنی آہنی پنجوں کا شکار بنا لیا آخر ان کے دل کس پتھر سے بنے ہیں جو ان معصوموں پر ترس نہیں کھائے، ظالموں اور دشمنوں کو ان معصوموں سے کس چیز کا خطرہ رہا ہوگا؟ کیا قرآن کریم کی تلاوت اس کی حلاوت اور مٹھاس سے خطرہ تھا؟ آخر انسانیت کیوں گونگی بن چکی ہے۔ ان معصوموں کے حق میں نام نہاد مفکرین اور ملحدیں کیوں چپ سادھے ہوئے ہیں، کیا ان معصوموں کی جان جان نہیں، ان کا دل دل نہیں تھا۔۔۔ ہر ایک کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ آخر خطا کیا ہے ان معصوموں کا؟ شاید پوری انسانیت جواب نہ دے سکے۔

الفاظ نہیں جن سے اس کربناک اور جانکاہ حادثہ کو بیان کیا جاسکے، یہ ہمارے معصوموں کی طرح اپنی ماؤں کے دل جگر تھے۔۔۔۔ کیا یہ ظالم اہنے بچوں کو ایک طمانچہ مارنے والے پر خاموش رہ سکتے ہیں ؟ بڑی امیدیں وابستہ رہی ہوں گی ماؤں کی ان معصوم حفاظ کرام سے، ساری امیدیں آرزویں اور خوشی پل بھر میں آنسو کی بوند میں تبدیل ہوگئے۔ ۔۔ سینے میں دل رکھنے والے انسان کا دل پٹ پڑا آنکھوں سے بے ساختہ آنسو اور دل سے دعائیں نکل رہی ہے۔ یہ عندلیب و بلبل اب جنت میں اڑ رہے ہوں گے۔
 
Top