خیال اور سوچ ؟

محمد وارث

لائبریرین
بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں:

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
شاعروں سے شاید کوئی بیر ہے آپ کا، آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ یہ مصرع ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ اپنی نوجوانی میں یہ غزل بھی سماعت فرماتے رہے ہونگے جو ذہن نے فَٹ سے نکال کر حاضر کر دیا لیکن نہ جانے کن بڑے بوڑھے کا نام لگا دیا آپ نے۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
سائنسدانوں کے مطابق انسانی دماغ کائنات کی پیچیدہ ترین شے ہے۔ دل تو اسکے مقابلے میں ایک معمولی سا پمپ ہے جو شریانوں میں کلیسٹرول، فیٹ اور دیگر کچرہ جم جانے پر کمزور و ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اسکے مقابلہ میں انسانی دماغ بلڈ برین بیریئر اور دیگر قدرتی حفاظتی تدابیر کی وجہ سے محفوظ رہتا ہے۔ اسکی قوت اور اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ حرکت قلب بند ہو جانے کے بعد بھی دماغ کئی کئی منٹ تک زندہ رہتا ہے۔ یعنی انسان کے پاس شعور ہوتا ہے بیشک وہ جسمانی طور پر مر چکے ہوں
چلو جی گل ہی مک گئی ۔ ۔ ۔ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ۔ ۔ ۔ جو چیرا تو۔ ۔ ۔ ۔باقی اوپر شاہد صاحب نے تفصیل دی ہوئی ہے۔ ۔ ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
شاعروں سے شاید کوئی بیر ہے آپ کا، آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ یہ مصرع ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ اپنی نوجوانی میں یہ غزل بھی سماعت فرماتے رہے ہونگے جو ذہن نے فَٹ سے نکال کر حاضر کر دیا لیکن نہ جانے کن بڑے بوڑھے کا نام لگا دیا آپ نے۔ :)
وارث بھائی آپ نے ابھی تک حصہ نہیں ڈالا۔ ۔ ۔۔
 

اکمل زیدی

محفلین
ارے بھیا! خیالات سوچ کے تابع ہوتے ہیں اور ہماری سوچ مختلف طرح کے خیالات اور تجربات وغیرہ کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔ ہم روزمرہ محاورے میں یہ تراکیب ادل بدل کر کے بولتے ہیں اس لیے ایک لحاظ سے ان میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے اور انہیں باہم مترادف تصور کیا جا سکتا ہے۔
اگر مترادف ہیں تو پھر ان میں جنگ کیوں رہتی ہے ۔ ۔۔ دل و دماغ میں۔ ۔ یعنی ایک دوسرے سے مباحثے کی حالت میں کیوںرہتے ہیں ؟
 

اکمل زیدی

محفلین
زیدی صاحب میں ایسے "موضوعی" معاملات سے دُور رہنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ کیونکہ ایسے معاملات میں میرا دماغ کچھ اور کہتا ہے اور میرا دل کچھ اور! :)
چلیں جی اچھا ہے ۔ ۔ ۔ بڑی ہوشیاری سے آپ نے حصہ ڈال ہی دیا۔ ۔ ۔ تضاد بیان کرکے ۔ ۔ ۔ :)
 
اکمل بھیا آپ کی لڑی اب چوتھے صفحہ میں داخل ہوگئی ہے ،محفلین نے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کیا مگر ایک سوال جو میرے خیال میں آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے پوچھنا ضروری ہے وہ کسی نے آپ سے نہیں پوچھا کہ آپ کا سوال ظاہری حالت کے حوالے سے ہے یا روحانی حالت کے حوالے سے ؟
یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے کی متضاد ہیں ،میرے خیال سے شاید ہی آپ کو کسی کا جواب مطمئن کر سکے ۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہ

محفلین
اس میں کیا شک ہے؟ ہم کم عمر بچوں کو اور ان بڑوں کو جو بچوں جیسی سوچ رہتے ہیں اکثر سوچ میں ناپختگی کا طعنہ اسی لئے دیتے ہیں۔ کیونکہ خیالات بدلے جا سکتے ہیں۔ سوچ پختہ ہوتی ہے۔
مثال: اگر آپ طبعی طور پر منطق، لاجک، فلسفہ و سائنس وغیرہ کے گرویدہ ہیں تو آپکے ذہن میں بھوت پریت اور دیگر غیرمرئی خیالات نہیں آ سکتے۔ اسکے برعکس سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق و تدبر سچ تسلیم کرنے والی سوچ بڑی آسانی سے ان چیزوں میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ غیر پختہ سوچ کی علامت ہے۔

صحیح ۔۔ یعنی خیالات بدل سکتے ہیں مگر سوچ پختہ ہوتی ہے ؟
 

اکمل زیدی

محفلین
اس میں کیا شک ہے؟ ہم کم عمر بچوں کو اور ان بڑوں کو جو بچوں جیسی سوچ رہتے ہیں اکثر سوچ میں ناپختگی کا طعنہ اسی لئے دیتے ہیں۔ کیونکہ خیالات بدلے جا سکتے ہیں۔ سوچ پختہ ہوتی ہے۔
مثال: اگر آپ طبعی طور پر منطق، لاجک، فلسفہ و سائنس وغیرہ کے گرویدہ ہیں تو آپکے ذہن میں بھوت پریت اور دیگر غیرمرئی خیالات نہیں آ سکتے۔ اسکے برعکس سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق و تدبر سچ تسلیم کرنے والی سوچ بڑی آسانی سے ان چیزوں میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ غیر پختہ سوچ کی علامت ہے۔
یہاں پر ایسی کوئی ریٹنگ نہیں ہے جس میں آدھا متفق آدھا غیر متفق ہو شروع کی بات آپ کی صحیح ہے مگر مثال میں آپ پھسل گئے
 

شاہد شاہ

محفلین
جسے آپ جنگ یا کشمکش کہہ رہے ہیں، عام زبان میں اسے ضمیر یا دل کی آواز کہا جاتا ہے۔ جیسے نیک اور مثبت کام کرنے پر ذہنی سکون ملتا ہے جسکا دل و دیگر اعضا اچھا اثر قبول کرتے ہیں۔ یہی حال جسم کا جرائم و گناہ وغیرہ کرتے وقت ہوتا ہے۔ دل اسوقت سخت ذہنی تناؤ کی وجہ سے تکلیف میں ہوتا ہے۔ اس تکلیف سے دماغ کو سگنل جا رہے ہوتے ہیں کہ یہ جو کام آپ کرنے جا رہے ہیں اسکے سنگین نتائج نکلیں گے۔ اس خوف کی حالت کو انسان دل کی آواز یا ضمیر سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ سارا معاملہ دماغ سے اٹھ کر وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ دل صرف وارننگ کیلئے معاون کا کام کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق عادی مجرموں، گناہگاروں، اور دیگر سایکوپیتھک انسانوں میں یہ تکلیف دہ خوف پیدا کرنے والا قدرتی سسٹم غیر فعال ہوتا ہے۔ عرف عام میں ہم ایسے انسانوں کے دلوں کو مردہ یا کالا کہہ دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں انہیں کوئی دماغی یا ذہنی بیماری ہوتی ہے۔
 

ہادیہ

محفلین
درست ہے۔ سائنس کی رو سے سوچنے کے عمل کو خیال کہا جاتا ہے

صحیح پہنچے ہیں۔ دماغ آپکی مکمل ہارڈ ڈسک اور سی پی یو ہے۔ جبکہ دل یعنی ریم یہ طے کرتا ہے کہ ایک وقت میں کتنے احساسات، جذبات، خیالات وغیرہ ہینڈل کئے جا سکتے ہیں۔ اسی لئے حد سے زیادہ دماغی دباؤ پر یہ اکثر قیں ہو جاتا ہے۔
رہندے نیئں تسی وڈے سائنسدان۔۔ ویسے آپ کے مطابق دل و دماغ ہارڈ ڈسک اور ریم وغیرہ ہیں۔۔ تو آپ نے اسے کمپیوٹر بنا دیا۔۔ اینڈ کمپیوٹرز آر سٹوپڈ۔۔ایک بار پڑھا تھا۔۔:rollingonthefloor:
 

محمد وارث

لائبریرین
Top