پہاڑ ، دشت ، سمندر ٹھکانے دریا کے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
چھ سات سال پرانی ایک غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میں تو اسے سرکلر فائل میں ڈال چکا تھا لیکن برادرم محمد تابش صدیقی کی فرمائش اور ہمت افزائی پر یہاں لگارہا ہوں ۔ یہ غزل اس دور کی ہے جب میں نے مختلف مظاہر فطرت مثلاً ہوا ، بادل، پانی وغیرہ کو ردیف بنا کر کچھ غزلیں لکھی تھیں ۔ شاید کوئی کام کا شعر نکل آئے ۔ جس کا ساری داد بیداد صدیقی صاحب قبلہ کے کھاتے میں جائے گی ۔ :):):)



پہاڑ ، دشت ، سمندر ٹھکانے دریا کے
زمیں کو رنگ ملے ہیں بہانے دریا کے

کبھی سمندروں گہرا ، تو ہے کبھی پایاب
بدلتے رہتے ہیں اکثر زمانے دریا کے

سفینہ سب کا سمندر کی سمت میں ہے رواں
مگر لبوں پہ مسلسل ترانے دریا کے​

نہیں چٹان کے سینے پہ یوں ہی چادرِ آب
ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے

بھنور کی آنکھ میں آنکھیں یہ ہم نے کیا ڈالیں
ہمی پہ جم گئے سارے نشانے دریا کے

ہمی کو رہنا ہے تشنہ کنارِ دریا پر
تمام جشن بھی ہم کو منانے دریا کے

لہو بہے کہ سیاہی فرات و دجلہ میں
مرے زوال کے قصے ، فسانے دریا کے


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۱​






 
خ
چھ سات سال پرانی ایک غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میں تو اسے سرکلر فائل میں ڈال چکا تھا لیکن برادرم محمد تابش صدیقی کی فرمائش اور ہمت افزائی پر یہاں لگارہا ہوں ۔ یہ غزل اس دور کی ہے جب میں نے مختلف مظاہر فطرت مثلاً ہوا ، بادل، پانی وغیرہ کو ردیف بنا کر کچھ غزلیں لکھی تھیں ۔ شاید کوئی کام کا شعر نکل آئے ۔ جس کا ساری داد بیداد صدیقی صاحب قبلہ کے کھاتے میں جائے گی ۔ :):):)



پہاڑ ، دشت ، سمندر ٹھکانے دریا کے
زمیں کو رنگ ملے ہیں بہانے دریا کے

کبھی سمندروں گہرا ، تو ہے کبھی پایاب
بدلتے رہتے ہیں اکثر زمانے دریا کے

سفینہ سب کا سمندر کی سمت میں ہے رواں
مگر لبوں پہ مسلسل ترانے دریا کے​

نہیں چٹان کے سینے پہ یوں ہی چادرِ آب
ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے

بھنور کی آنکھ میں آنکھیں یہ ہم نے کیا ڈالیں
ہمی پہ جم گئے سارے نشانے دریا کے

ہمی کو رہنا ہے تشنہ کنارِ دریا پر
تمام جشن بھی ہم کو منانے دریا کے

لہو بہے کہ سیاہی فرات و دجلہ میں
مرے زوال کے قصے ، فسانے دریا کے


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۱​






وب صورت، دل کو لبھانے والی نئی ردیفیں آپ ہی کا خاصہ ہیں صاحب۔ داد قبول فرمائیے ، گرچہ اکسانے والے محمد تابش صدیقی بھائی ہی ہوں
 
بھنور کی آنکھ میں آنکھیں یہ ہم نے کیا ڈالیں
ہمی پہ جم گئے سارے نشانے دریا کے

ہمی کو رہنا ہے تشنہ کنارِ دریا پر
تمام جشن بھی ہم کو منانے دریا کے

لہو بہے کہ سیاہی فرات و دجلہ میں
مرے زوال کے قصے ، فسانے دریا کے
بہت عمدہ ظہیر بھائی

محبتوں پر شکر گزار ہوں۔
 

فاخر رضا

محفلین
بہت عمدہ ظہیر بھائی

محبتوں پر شکر گزار ہوں۔
تابش آپ مدیریت کا صحیح حق ادا کررہے ہیں. دوسرے مدیروں سے بھی کہیے کہ کچھ positive activity دکھائیں. مدیر کا اصل کام ہی معیاری ادب کی ترویج ہے. صرف قدغن لگانا کوئی خوبی نہیں. آپ تنقید بھی اچھی طرح handle کررہے ہیں ماشاءاللہ. آپ اسی طرح بڑھتے رہیں اور دیگر کو بھی سمجھائیں. میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کو چیف ایڈیٹر بنوا دوں تعریفیں کرکر کے
 

فاخر رضا

محفلین
اکمل زیدی اپنے رنگ پر آتے ہوئے گول پر گول کررہے ہیں. اب دیکھنا یہ ہے کہ ایمپائر اس پر کیا رسپانس دیتے ہیں. آجکل محفل پر صرف ایک ہی رنگ کے پھول پودے پائے اور برداشت کئے جاتے ہیں. ذرا سنبھل کے
 

اکمل زیدی

محفلین
اکمل زیدی اپنے رنگ پر آتے ہوئے گول پر گول کررہے ہیں. اب دیکھنا یہ ہے کہ ایمپائر اس پر کیا رسپانس دیتے ہیں. آجکل محفل پر صرف ایک ہی رنگ کے پھول پودے پائے اور برداشت کئے جاتے ہیں. ذرا سنبھل کے
فاخر بھائی ۔ ۔ ۔ رنگ تو جو تھا وہی رہے گا۔ ۔ ۔ ہاں رنگ کے ساتھ تھوڑا سا ڈھنگ بدلنے کی کوشش میں ہوں ۔۔۔۔دیکھیں کیا گذرتی ہے ۔ ۔ ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دارے شعر اچھے ہیں مگر مقطع سب پر نمبر لے گیا
جی فاخر بھائی ، آخری شعر میں اپنی حسرت ناک تاریخ کی طرف ہی اشارہ ہے ۔صدیوں پہلے سے آج دن تک فرات و دجلہ ہماری بے بسی ہی دیکھ رہے ہیں ۔ اس پر اور کہا ہی کیا جاسکتا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زبردست
ظہیر صاحب مجھے لگتا ہے میں باقاعدہ آپ کا فین ہوتا جا رہا ہوں :)
لئیق بھائی ، بہت محبت ہے آپ کی !! اللہ آپ کو دین و دنیا کی تمام نعمتیں بدرجۂ کمال عطا فرمائے ۔ آمین۔ بہت ممنون ہوں اس پذیرائی پر !
 
چھ سات سال پرانی ایک غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میں تو اسے سرکلر فائل میں ڈال چکا تھا لیکن برادرم محمد تابش صدیقی کی فرمائش اور ہمت افزائی پر یہاں لگارہا ہوں ۔ یہ غزل اس دور کی ہے جب میں نے مختلف مظاہر فطرت مثلاً ہوا ، بادل، پانی وغیرہ کو ردیف بنا کر کچھ غزلیں لکھی تھیں ۔ شاید کوئی کام کا شعر نکل آئے ۔ جس کا ساری داد بیداد صدیقی صاحب قبلہ کے کھاتے میں جائے گی ۔ :):):)



پہاڑ ، دشت ، سمندر ٹھکانے دریا کے
زمیں کو رنگ ملے ہیں بہانے دریا کے

کبھی سمندروں گہرا ، تو ہے کبھی پایاب
بدلتے رہتے ہیں اکثر زمانے دریا کے

سفینہ سب کا سمندر کی سمت میں ہے رواں
مگر لبوں پہ مسلسل ترانے دریا کے​

نہیں چٹان کے سینے پہ یوں ہی چادرِ آب
ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے

بھنور کی آنکھ میں آنکھیں یہ ہم نے کیا ڈالیں
ہمی پہ جم گئے سارے نشانے دریا کے

ہمی کو رہنا ہے تشنہ کنارِ دریا پر
تمام جشن بھی ہم کو منانے دریا کے

لہو بہے کہ سیاہی فرات و دجلہ میں
مرے زوال کے قصے ، فسانے دریا کے


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۱​






بہت خوب
 
Top