آنکھ مچولی

فرقان احمد

محفلین
aankh-micholi-e1488864740899.jpg

depositphotos_94918262-stock-video-a-little-boy-playing-hide.jpg
شاید ہی کوئی بچہ ایسا ہو گا جو بچپن میں آنکھ مچولی کے کھیل سے لطف اندوز نہ ہوا ہو۔ ہے تو یہ روایتی کھیل، تاہم اسے ایک عالم گیر کھیل کہہ سکتے ہیں کیوں کہ ہر تہذیب و ثقافت میں آنکھ مچولی سے مماثل کھیل موجود رہے ہیں۔ یہ روایتی کھیل کب وجود میں آیا او ر اس نے ارتقائی عمل کیسے طے کیا؛ اس حوالے سے تاریخ ہمیں کسی حتمی صداقت کی طرف لے کر نہیں جاتی مگر عام قیاس یہی ہے کہ یہ کھیل ہائیڈ اینڈ سیک Hide and Seek کے نام سے یورپ کے کچھ علاقوں سے شروع ہوا۔ خیال رہے کہ یورپ کے بعض علاقوں میں یہ روایت ہوا کرتی تھی کہ موسم بہار کی آمد پر لوگ قریبی جنگلوں میں چلے جاتے اور درختوں کے جھنڈ میں گھس جاتے اور ان پھولوں اور پرندوں کی تلاش میں لگ جاتے جو بہار کی آمد کی علامت سمجھے جاتے تھے اور ان کا نظارہ صرف موسم بہار ہی ہی ممکن ہوتا تھا۔ جب یہ افراد ڈھیر سارے پھولوں اور پرندوں کو جمع کر لیتے تو انہیں رہائشی علاقوں میں واپس لے جاتے تاکہ سب کو آمدِ بہار کا یقین ہو جائے۔ان پھولوں اور پرندوں کو درختوں کے جھنڈ میں کھوجنا ہی آنکھ مچولی کہلاتا تھا۔

یہ
تو تھی آنکھ مچولی کے کھیل کی روایت کی بات۔اب کچھ تفصیلات اس کھیل کے بارے! یہ کھیل بہت سادہ اور آسان ہے۔ بچے تو گھر کے اندر رہ کر بھی اسے کھیل سکتے ہیں۔ چاہے تو بڑے بھی اس میں شامل ہو جائیں۔ اس گیم کو کھیلنے کی کئی صورتیں مروج ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی ایک کھلاڑی کو چھوتی یا کھوجی قرار دیا جاتاہےیعنی چھونے والا، تلاش کرنے والا۔ اگر گھر میں یہ کھیل کھیلا جائے تو ڈھونڈنے والا کھلاڑی گھر سے باہر چلا جاتاہے اور اس دوران تمام کھلاڑی کسی نہ کسی جگہ چھپ جاتے ہیں۔ ایک مختصر وقفے کے بعد کھوجی ان کھلاڑیوں کو تلاش کرتا ہے۔ جو کھلاڑی اس کو نظر آجائے وہ کھلاڑی لامحالہ اگلی باری میں کھوجی کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ سب سے آخر میں چھوا جانے والا کھلاڑی کھیل کے اس راؤنڈ کا فاتح ٹھہرتاہے؛ یوں یہ کھیل مسلسل جاری رہتاہے۔ یہ کھیل اگر اندھیرے یا کم روشنی میں کھیلا جائے تو زیادہ لطف رہتا ہے کیوں کہ اس طرح کھلاڑیوں کو خود کو چھپانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ اگر گھر کے باہر کھلے میدان میں رات کے وقت اندھیرے میں کھوجی نام کے ساتھ باقی کھلاڑی کو ڈھونڈے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چھونے والا کھلاڑی چھوئے جانے والے کوغلط نام کے ساتھ پکارتا ہے تو اسے ہلکی سی چپت بھی کھانا پڑ سکتی ہے۔

آنکھ مچولی کی ایک قسم، 'راجے دی بیٹی' لڑکیوں میں ازحد مقبول رہی ہے جس کے بول بھی کافی حد تک ڈرامائی انداز کے ہیں۔ ان میں سے جو لڑکی چھوتی کے فرائض سرانجام دیتی ہے، وہ باقی کھلاڑیوں کو بآواز بلند پکار تی ہے۔
لُک چھپ جانا، مکئی دا دانا، راجے دی بیٹی، آئی جے! یعنی وہ اپنی ہم جولیوں کو ایک انداز میں یہ پیغام دیتی ہے کہ میرے آنے سے پہلے خبردار ہو جاؤ میں تمہیں ضرور ڈھونڈ نکالوں گی۔ اس پکار کو سنتے ہی باقی کھلاڑیوں کو چھپ چھپا جانے کا موقع مل جاتاہے۔چھپنے کے فوراً بعد یہ لڑکیاں یوں جواب دیتی ہیں۔ آجا ۔۔۔!!!اور یوں کھوجی کھلاڑی آواز کی سمت کا اندازہ کرتے ہوئے چھپنے والیوں کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ کھوجی کھلاڑی پوچھتی جاتی ہے۔۔۔آجاؤں۔۔۔اسے جواب ملتاہے۔۔۔آجا۔۔۔پھر وہ پوچھتی ہے ۔۔۔کتنے بجے۔۔۔جواب ملتا ہے ۔۔۔بارہ بجے۔۔۔اگلا سوال ہوتا ہے۔۔۔دن کے یا رات کے۔۔۔جواب آتا ہے ۔۔۔رات کے۔۔۔مکالمہ آگے چلتا ہے اور چھوتی کھلاڑی پوچھتی ہے ۔۔۔کسے چھولوں ۔۔۔جواب آتاہے۔۔۔مجھے چھو لو۔۔۔یوں اس مکالمے کا سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ ڈھونڈنے والی لڑکی کسی ایک لڑکی کا کھوج نہ لگا لے اور یوں اگلی باری میں ڈھونڈنے کی ذمہ داری سب سے پہلے چھوئے جانے والی لڑکی کے سر پر عائد ہو جاتی ہے۔بعض دفعہ یوں بھی ہوتاہے کہ آنکھ مچولی کے کھیل میں ایک کھلاڑی منزل قرار دے دی جاتی ہے۔ منزل سمجھی جانے والی کھلاڑی باری دینے والی لڑکی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر باقی کھلاڑیوں کو چھپنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور چھپنے والی لڑکیاں ڈھونڈنے والی لڑکی کو جَل دے کرمنزل تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی اگر باری دینے والی لڑکی کسی لڑکی کو چھو لے تو یہ چھوئی جانے والی لڑکی اگلی باری میں کھوجی کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ آنکھ مچولی کے کھیل میں تبدیلیاں بھی آتی رہی ہیں۔ آج کل بچے گلی محلوں میں اس کھیل کو جدت آمیز طریقے سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ نہ تو آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوتی ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کو نام کے ساتھ تلاش کیا جاتاہے۔ اس میں کچھ تو لوڈشیڈنگ کا کرشمہ ہے اور کچھ اندھیری گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کی عدم تنصیب یا ان برقی قمقوں کی خرابی۔ بہرحال جو بھی ہو بچے آج بھی بھرپور انداز میں اس کھیل سے محظوظ ہوتے ہیں اور بچپن اور لڑکپن کی انمول خوشیاں اپنے دامن میں سمیٹتے نظر آتے ہیں جو حسین یادوں کی صورت میں ان کے لاشعور میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ جو ہادیہ صاحبہ ہیں، یہ کچن کا بالکل رُخ نہیں کرتی ہیں! :) ساری ذمہ داریاں آج کل سین خے کے سپرد ہیں ۔۔۔! عدنان بھیا تو اِن دنوں دکھیا قسم کے کلام کی شراکت میں مصروف رہتے ہیں۔ سوچا، ہم بھی مصروفیت تلاش کر لیں!
 

ہادیہ

محفلین
یہ جو ہادیہ صاحبہ ہیں، یہ کچن کا بالکل رُخ نہیں کرتی ہیں! :) ساری ذمہ داریاں آج کل سین خے کے سپرد ہیں ۔۔۔! عدنان بھیا تو اِن دنوں دکھیا قسم کے کلام کی شراکت میں مصروف رہتے ہیں۔ سوچا، ہم بھی مصروفیت تلاش کر لیں!
"صاحبہ" کہہ کر خود ہی بتادیا نا آپ نے کہ یہ جو "صاحب اور صاحبہ" قسم کے لوگ ہوتے ہیں یہ "کچن" کا رخ نہیں کرتے:laugh:
میں تو آج کل گھر کے کچن کا رخ نہیں کرتی:heehee:
سین خے سس کو بہت کچھ آتا بنانا ۔۔۔ مجھے ایسا کچھ نہیں آتا۔ :(
 
"صاحبہ" کہہ کر خود ہی بتادیا نا آپ نے کہ یہ جو "صاحب اور صاحبہ" قسم کے لوگ ہوتے ہیں یہ "کچن" کا رخ نہیں کرتے:laugh:
میں تو آج کل گھر کے کچن کا رخ نہیں کرتی:heehee:
سین خے سس کو بہت کچھ آتا بنانا ۔۔۔ مجھے ایسا کچھ نہیں آتا۔ :(
آپ بگھارنے کی ماہر ہو۔:D
باتیں
 

ہادیہ

محفلین
آپ سے بگھارنے کی ماہر ہو۔:D
باتیں
:cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry:
فرقان احمد بھائی دیکھ رہے ہیں آپ۔۔۔ میں نے اب بولا ہی نہیں کرنا۔۔ پہلے جو دو چار ممبرز بولتے ہیں نہیں بلکہ لکھتے ہیں ان پر بھی یہ الزام۔۔احتجاج ہے ہمارا بھی۔۔ میں بھی نہیں بولتی اب:(:(:(
 

فرقان احمد

محفلین
:cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry:
فرقان احمد بھائی دیکھ رہے ہیں آپ۔۔۔ میں نے اب بولا ہی نہیں کرنا۔۔ پہلے جو دو چار ممبرز بولتے ہیں نہیں بلکہ لکھتے ہیں ان پر بھی یہ الزام۔۔احتجاج ہے ہمارا بھی۔۔ میں بھی نہیں بولتی اب:(:(:(
دل کے بہت اچھے ہیں عدنان میاں! :) اس لیے یہ آنسوؤں کا سمندر دیکھ کر خود بھی شروع ہو جائیں گے، اس لیے، پلیز رونا بند کر دیں۔ :) ان کو کون چپ کروائے گا؟
 

سین خے

محفلین
فرقان بھائی اور ہادیہ ، آپ دونوں کا بہت شکریہ یاد فرمانے کا :)
فرقان بھائی بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔ :) بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ہم کزنز جب بھی کھیلتے تھے تو جو بیچارہ یا بیچاری کھوجی بنتا تھا، ہم اس کی پیٹھ پر ایک عدد کاغذ چپکا دیتے تھے جس پر کافی شاندار قسم کے کمنٹس موصوف یا موصوفہ کے لئے درج ہوتے تھے۔ جن کو پڑھ کر بعد میں ہم سب بہت دیر تک ہنستے رہتے تھے :) ہائے بڑے اچھے دن تھے۔ نہ کوئی فکر، نہ کوئی پریشانی :)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت زبردست
بچپن میں تو شاید اتنا نہیں کھیل پائے آنکھ مچولی یا لُکن میٹی۔ مگر اب اکثر جب سب اکٹھے ہوتے ہیں اور بچوں نے کھیلنا ہوتا ہے کوئی کھیل تو ان کی پسند آنکھ مچولی ہی ہوتا ہے۔ ہم بھی ساتھ ہو لیتے ہیں ۔
 
Top