اردو اشعار کی تشریحات

کیا کوئی اس شعر کی تشریح کر دے گا وہ بھی مشکل الفاظ کے معانی کے ساتھ جیسے کہ (زلف کاسرہونا) وغیرہ!
آہ کو چاہئے اک عمر اثر کے ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
 
یہ محفل نوجوانوں کے لئے موزوں و ممدود ہو گی جو اشعار تو پڑھتے ہیں لیکن ا س کو سمجھنا محال گردان کر اردو شاعری سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں! اس برائے مہربانی اس محفل میں بھر پور حصہ لیں!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شعر کی تشریح کوئی بھی شروع کرسکتا ہے۔۔۔ پابندی نہیں ۔۔۔
ایک کوشش میری طرف سے:
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
۔۔۔
آہ اثر کرے، اس کے لیے وقت درکار ہے اور وہ وقت بہت طویل ہے۔
زلف کا سر ہونا ۔۔۔ اسے یوں سمجھئے جیسے شاعر نے زلف کو پہاڑ سے تشبیہ دی ہے جسے سر کرنے کے لیے اتنا وقت درکار ہے کہ شاعر کو اپنی زندگی میں یہ کام ہوتا نظر نہیں آتا۔
تاہم یہ بات دلیل کے اعتبار سے درست معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی آج کے دور میں ایسا شعر کہا جاتا تو تنقید شدید ہوتی ۔۔۔
 
شعر کی تشریح کوئی بھی شروع کرسکتا ہے۔۔۔ پابندی نہیں ۔۔۔
ایک کوشش میری طرف سے:
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
۔۔۔
آہ اثر کرے، اس کے لیے وقت درکار ہے اور وہ وقت بہت طویل ہے۔
زلف کا سر ہونا ۔۔۔ اسے یوں سمجھئے جیسے شاعر نے زلف کو پہاڑ سے تشبیہ دی ہے جسے سر کرنے کے لیے اتنا وقت درکار ہے کہ شاعر کو اپنی زندگی میں یہ کام ہوتا نظر نہیں آتا۔
تاہم یہ بات دلیل کے اعتبار سے درست معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی آج کے دور میں ایسا شعر کہا جاتا تو تنقید شدید ہوتی ۔۔۔
شاندار! بہت اعلٰی شاہد بھائی! ، اچھے سے تشریح کی آپ نے ، شکری جناب!
 

اکمل زیدی

محفلین
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا - کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا

تشریح درکار ہے ۔۔۔
 
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا - کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
نقش سے مراد تصویر ہے۔ شوخی ہماری ادبی روایت میں صرف شوخ ہونا نہیں بلکہ محبوب کی ستم گری بھی کسی قدر اس کے مفہوم میں شامل ہو گئی ہے۔ فریادی مطلب فریاد کرنے والا۔ تحریر کا مطلب لکھائی نہ سمجھیے۔ مصوری بھی تحریر میں شامل کیجیے۔ دونوں قلم کا کمال ہیں۔
شاعر سوال کرتا ہے کہ تصویر کس کے قلم یا تحریر کی شوخیوں کی بابت فریاد کر رہی ہے۔
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
زمانہءِ قدیم کے ایران میں رسم تھی کہ فریادی بادشاہ کے دربار میں کاغذ کی پوشاک پہن کر آتے تھے۔ یعنی کاغذ پہن لینے کا مطلب ہی یہ تھا کہ موصوف پر کوئی ستم ٹوٹا ہے جس کی داد رسی مقصود ہے۔
پیرہن مطلب لباس۔ پیکرِ تصویر یعنی تصویر کا ہیولیٰ۔ تصویر کا بدن۔
اب مصرعِ ثانی پر غور کیجیے۔ عام طور پر تصویر کاغذ پر بنتی ہے۔ شاعر نے نکتہ پیدا کیا ہے کہ ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔
اب پورے شعر کا مفہوم دیکھیے۔
ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔ یعنی ہر تصویر فریادی ہے۔ ہر نقش کسی کی شوخی یا ستم گری کے بارے میں شکایت کر رہا ہے۔ آخر یہ تصویریں، یہ نقوش کس کے قلم کی شوخی کی چوٹ کھائے ہوئے ہیں؟
نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ شعرا عام طور پر اپنے دواوین کا آغاز حمد و نعت سے کرتے ہیں۔ مرزا نے یوں تو نہیں کیا مگر دیوان کے پہلے شعر میں اردو کی بلیغ ترین حمد کہہ دی ہے۔
حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اس شعر کی لطافت کا جواب نہیں۔ تصویریں کاغذ پر بنتی ہیں۔ کوئی مصور چاہے یا نہ چاہے مگر اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر گویا ایک فریادی ہے جو کسی عظیم تر مصور کی شوخیءِ تحریر کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ ستم یا ظلم وغیرہ سے متعلق کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جو مالکِ حقیقی کی ذات کے شایان نہ ہو۔ شوخی کہا ہے۔ جو محبوبوں کی صفت ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
نقش سے مراد تصویر ہے۔ شوخی ہماری ادبی روایت میں صرف شوخ ہونا نہیں بلکہ محبوب کی ستم گری بھی کسی قدر اس کے مفہوم میں شامل ہو گئی ہے۔ فریادی مطلب فریاد کرنے والا۔ تحریر کا مطلب لکھائی نہ سمجھیے۔ مصوری بھی تحریر میں شامل کیجیے۔ دونوں قلم کا کمال ہیں۔
شاعر سوال کرتا ہے کہ تصویر کس کے قلم یا تحریر کی شوخیوں کی بابت فریاد کر رہی ہے۔
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
زمانہءِ قدیم کے ایران میں رسم تھی کہ فریادی بادشاہ کے دربار میں کاغذ کی پوشاک پہن کر آتے تھے۔ یعنی کاغذ پہن لینے کا مطلب ہی یہ تھا کہ موصوف پر کوئی ستم ٹوٹا ہے جس کی داد رسی مقصود ہے۔
پیرہن مطلب لباس۔ پیکرِ تصویر یعنی تصویر کا ہیولیٰ۔ تصویر کا بدن۔
اب مصرعِ ثانی پر غور کیجیے۔ عام طور پر تصویر کاغذ پر بنتی ہے۔ شاعر نے نکتہ پیدا کیا ہے کہ ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔
اب پورے شعر کا مفہوم دیکھیے۔
ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔ یعنی ہر تصویر فریادی ہے۔ ہر نقش کسی کی شوخی یا ستم گری کے بارے میں شکایت کر رہا ہے۔ آخر یہ تصویریں، یہ نقوش کس کے قلم کی شوخی کی چوٹ کھائے ہوئے ہیں؟
نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ شعرا عام طور پر اپنے دواوین کا آغاز حمد و نعت سے کرتے ہیں۔ مرزا نے یوں تو نہیں کیا مگر دیوان کے پہلے شعر میں اردو کی بلیغ ترین حمد کہہ دی ہے۔
حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اس شعر کی لطافت کا جواب نہیں۔ تصویریں کاغذ پر بنتی ہیں۔ کوئی مصور چاہے یا نہ چاہے مگر اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر گویا ایک فریادی ہے جو کسی عظیم تر مصور کی شوخیءِ تحریر کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ ستم یا ظلم وغیرہ سے متعلق کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جو مالکِ حقیقی کی ذات کے شایان نہ ہو۔ شوخی کہا ہے۔ جو محبوبوں کی صفت ہے۔

راحیل فاروق... صاحب ...بہت نادم ہوں آپ کو دیر سے جواب دینے پر....اسکے بعد بہت شکریہ آپ کے اتنی بہترین تشریح کرنے کا بات بہت واضح ہوگئی ۔۔ اب ...نوازش ...
 

مزمل اختر

محفلین
شعر بہت پسند آیا
پہلے مصرعہ کی تشریح درکار ہے

*عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا*

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
مرزا غالب
 
شعر بہت پسند آیا
پہلے مصرعہ کی تشریح درکار ہے

*عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا*

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
مرزا غالب

جہاں سے تخلیق ہوئی ہے وہیں ساری تکلیفوں کا حل بھی ہے ۔

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا۔ ۔
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ ۔

غالب کہہ رہے ہیں کہ اک قطرے کے لیے اس سے بڑھ کر فخر اور خوش نصیبی کی کوئی بات نہیں کہ وہ اپنے اصل یعنی دریا سے مل جائے۔اور مل کر اُس کا حصہ بن جائے یعنی جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ جائیں۔لیکن ہر قطرے کا نصیب ایسا نہیں ہوتا ۔کچھ خاک میں نِیست و نابود بھی ہو جاتے ہیں ۔ ۔
اس پہلو سے غالب کہتے ہیں کہ جو انسان عشقِ حقیقی کی راہ پر رنج و الم اُٹھائے گا اور اُس راہ پہ بے خوف بڑھتا جائے گا۔اور درد کی پرواہ نہ کرے گا وہی کامیاب ہو گا۔یعنی درد جب حد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو انسان کی روح نکل جاتی ہے اور وہ نجات پاجاتا ہے ۔موت وہ دوا ہے جو انسان کو آرام پہنچاتی ہے اور سچے عاشق کو خدا سے ملا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس شعر میں اور بھی بہت ساری باتیں ہیں اور بہت سارے پہلو ہیں لیکن وہ ابھی زیرِ بحث نہیں لاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔
اس شعر میں جو بات تھی وہی ذیل کے اس شعر میں بھی ہے کہ ہر قطرے کا نصیب نہیں ہوتا کہ دریا بن جائے ۔ ۔ ۔
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے۔ ۔ملاحظہ فرمائیے :-

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے ۔ ۔
کام اچھا ہے وہی جس کا کہ مال اچھا ہے۔ ۔
 

مزمل اختر

محفلین
جہاں سے تخلیق ہوئی ہے وہیں ساری تکلیفوں کا حل بھی ہے ۔

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا۔ ۔
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ ۔

غالب کہہ رہے ہیں کہ اک قطرے کے لیے اس سے بڑھ کر فخر اور خوش نصیبی کی کوئی بات نہیں کہ وہ اپنے اصل یعنی دریا سے مل جائے۔اور مل کر اُس کا حصہ بن جائے یعنی جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ جائیں۔لیکن ہر قطرے کا نصیب ایسا نہیں ہوتا ۔کچھ خاک میں نِیست و نابود بھی ہو جاتے ہیں ۔ ۔
اس پہلو سے غالب کہتے ہیں کہ جو انسان عشقِ حقیقی کی راہ پر رنج و الم اُٹھائے گا اور اُس راہ پہ بے خوف بڑھتا جائے گا۔اور درد کی پرواہ نہ کرے گا وہی کامیاب ہو گا۔یعنی درد جب حد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو انسان کی روح نکل جاتی ہے اور وہ نجات پاجاتا ہے ۔موت وہ دوا ہے جو انسان کو آرام پہنچاتی ہے اور سچے عاشق کو خدا سے ملا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس شعر میں اور بھی بہت ساری باتیں ہیں اور بہت سارے پہلو ہیں لیکن وہ ابھی زیرِ بحث نہیں لاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔
اس شعر میں جو بات تھی وہی ذیل کے اس شعر میں بھی ہے کہ ہر قطرے کا نصیب نہیں ہوتا کہ دریا بن جائے ۔ ۔ ۔
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے۔ ۔ملاحظہ فرمائیے :-

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے ۔ ۔
کام اچھا ہے وہی جس کا کہ مال اچھا ہے۔ ۔

ارے واہ
یہ تو کمال ہوگیا
مرحبا مرحبا

آپ کو اندازہ نہیں ہوگا کہ آپ نے کتنی جامع اور بہترین تشریح کی ہے ، میں بتا نہیں سکتا اس تشریح کے بعد میری کیا حالت ہے یہاں تکہ کہ یہ عاجز کا پسندیدہ شعر ہوگیا ہے ، اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ فرمائے . ڈھیر ساری محبتیں آپ کے لیے
 
جہاں سے تخلیق ہوئی ہے وہیں ساری تکلیفوں کا حل بھی ہے ۔

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا۔ ۔
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ ۔

غالب کہہ رہے ہیں کہ اک قطرے کے لیے اس سے بڑھ کر فخر اور خوش نصیبی کی کوئی بات نہیں کہ وہ اپنے اصل یعنی دریا سے مل جائے۔اور مل کر اُس کا حصہ بن جائے یعنی جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ جائیں۔لیکن ہر قطرے کا نصیب ایسا نہیں ہوتا ۔کچھ خاک میں نِیست و نابود بھی ہو جاتے ہیں ۔ ۔
اس پہلو سے غالب کہتے ہیں کہ جو انسان عشقِ حقیقی کی راہ پر رنج و الم اُٹھائے گا اور اُس راہ پہ بے خوف بڑھتا جائے گا۔اور درد کی پرواہ نہ کرے گا وہی کامیاب ہو گا۔یعنی درد جب حد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو انسان کی روح نکل جاتی ہے اور وہ نجات پاجاتا ہے ۔موت وہ دوا ہے جو انسان کو آرام پہنچاتی ہے اور سچے عاشق کو خدا سے ملا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس شعر میں اور بھی بہت ساری باتیں ہیں اور بہت سارے پہلو ہیں لیکن وہ ابھی زیرِ بحث نہیں لاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔
اس شعر میں جو بات تھی وہی ذیل کے اس شعر میں بھی ہے کہ ہر قطرے کا نصیب نہیں ہوتا کہ دریا بن جائے ۔ ۔ ۔
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے۔ ۔ملاحظہ فرمائیے :-

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے ۔ ۔
کام اچھا ہے وہی جس کا کہ مال اچھا ہے
واہ عمدہ تشریح فہیم ملک
 

احمد محمد

محفلین
آج پہلی دفعہ یہ لڑی نظر سے گذری۔ بہت اچھی لڑی ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔

مندرجہ ذیل اقتباسات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کچھ وضاحت کرنا چاہوں گا۔

کیا کوئی اس شعر کی تشریح کر دے گا وہ بھی مشکل الفاظ کے معانی کے ساتھ جیسے کہ (زلف کاسرہونا) وغیرہ!
آہ کو چاہئے اک عمر اثر کے ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

زلف کا سر ہونا ۔۔۔ اسے یوں سمجھئے جیسے شاعر نے زلف کو پہاڑ سے تشبیہ دی ہے جسے سر کرنے کے لیے اتنا وقت درکار ہے کہ شاعر کو اپنی زندگی میں یہ کام ہوتا نظر نہیں آتا۔
تاہم یہ بات دلیل کے اعتبار سے درست معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی آج کے دور میں ایسا شعر کہا جاتا تو تنقید شدید ہوتی ۔۔۔

جو لوگ کبوتر پالتے ہیں وہ اس اختراع سے بخوبی واقف ہیں۔ جب کوئی نیا کبوتر خرید کر لایا جاتا ہے تو اس کے پر کاٹ دئیے جاتے ہیں تا کہ نئے آشیانے سے مانوس ہونے کے عرصہ میں یہ اُڑ کر چلا نہ جائے اورجب تک اس کے پر واپس نہیں آتے اس دوران یہ اختراع استمعال ہوتی ہے کہ "ابھی کبوتر سر نہیں ہوا". مطلب پوری طرح اُڑنے کے قابل نہیں ہوا۔

اس شعر میں میں شاعر نے "سر ہونا" یعنی پوری طرح اُڑان بھرنے کے قابل ہونے کو محبوب کے مکمل جوان ہونے سے تشبیح دی ہے۔ سمجھ تو آگئی ہو گی مگر پھر بھی مکمل وضاحت کے لیے مزید عرض ہے کہ:-

شاعر نے کسی ایسے نابالغ (ٹین ایج) پری چہرہ اور خوبصورت کی شوخیاں و انداز دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا اور سوچا کہ ابھی سے ہی اس کے ناز نخروں کا جواب نہیں ہے تو جب یہ محبوب جوان ہوگا تب کیا عالم ہوگا۔ اور پھر ساتھ ہی اپنی ڈھلتی عمر کا سوچ کر آہ بھری کہ جب یہ جوان ہوگا تب پتہ نہیں اسے دیکھنے کے لیے میں زندہ بھی رہوں گا یا نہیں۔

اب اس شعر کو دوبارہ پڑھیں

آہ کو چاہیے اک عمر (مزید کئی سال) اثر (جوان) ہونے تک

کون جیتا ہے (پتہ نہیں تب تک میں زندہ بھی ہوں گا نہیں) تیری زلف کے سر (تیرے پوری طرح جوان) ہونے تک۔

تشریح غیر میعاری لگے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
 

احسن سلطان

محفلین
"ہمیں جبکہ اپنا بنا لیا تو ربط کس لئے ہم سے کم یہ حجاب کیا،یہ گریز کیوں،رہیں سامنے تو وہ کم سے کم غمِ آرزو،غمِ جستجو،غمِ امتحاں،غمِ جسم و جاں مری زندگی..."


(•ان اشعار کی تشریح بتا سکتا ہے کوئی پلیز
مجھے اس کے بارے میں اس لحاظ سے جاننا کہ یہ عشق مجازی ہے یا حقیقی!!)
 

سید عمران

محفلین
"ہمیں جبکہ اپنا بنا لیا تو ربط کس لئے ہم سے کم یہ حجاب کیا،یہ گریز کیوں،رہیں سامنے تو وہ کم سے کم غمِ آرزو،غمِ جستجو،غمِ امتحاں،غمِ جسم و جاں مری زندگی..."


(•ان اشعار کی تشریح بتا سکتا ہے کوئی پلیز
مجھے اس کے بارے میں اس لحاظ سے جاننا کہ یہ عشق مجازی ہے یا حقیقی!!)
یہ اشعار بظاہر تو عشق حقیقی کے پس منظر میں کہے گئے ہیں۔۔۔
لیکن طرز بالکل مخلوق سے شکوہ شکایت والا رکھا گیا ہے۔۔۔
جو اللہ تعالیٰ کی شان و عظمت کے خلاف ہے۔۔۔
جیسے پہلے مصرع میں شکایت کی گئی کہ خدا نے ربط بڑھا کر کم کرلیا۔۔۔
جبکہ اللہ تعالیٰ تو ربط نہ رکھنے والوں کے رجوع کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔
اور جو ربط بڑھا کر پیچھے ہٹتا ہے اسے مخاطب کرتے ہیں فاین تذھبوں، فاین ترجعون، فاین تؤفکون۔۔۔
یعنی ہم سے منہ موڑ کے کہاں چل دئیے، الٹے پاؤں کیوں پھر گئے۔۔۔
اسی طرح ایک آدھ کے سوا باقی اشعار بھی اپنی وفا اور خدا کی جفا کا شکوہ لیے ہوئے ہیں!!!
 
احباب سخن محترم لکھاری اور قاری حضرات السلام علیکم!
میں نیا نیا میدان سخن میں اترا ہوں مجھے اوزان کا بلکل علم نہیں ہے مجھے سخن کی گردانیں نہیں آتیں بس الفاظ گھیر کر خود کو مطمئن کرتا ہوں یہ میری ابتدائی کوششوں میں سے ایک ادنی سی کوشش ہے قبلہ راہنمائی فرما دی۔۔
میں اس فورم پہ نیا ہوں آج پہلی حاضری ہے تو صاحبان اعلی ظرفی کا مظاہرہ کر کے کانٹ چھانٹ کر دیں
ممنون۔۔۔انشاء چوہدری
رخصت یار بھی کیا قیامت کی گھڑی ہے
میری نازک طبع اور سزا بہت بڑی ہے

وہ شہر میں نہیں ہے تو طبیعت کو کیا ہوا
پہلے بے کلی تھی آج شدت کی تھرتھری ہے

یہ جو صندوق مقفل ہے ناں میرے دوست۔
اس میں خط نہیں ، میری زندگی پڑی ہے

موت مشکل کشا ہے بے سہاروں کے واسطے
اذیت جینے کی میاں ہم ںپہ بہت کڑی ہے۔

میں تو خوگر غم ہوں سہہ جاؤں گا شاید
مگر اے بچھڑنے والے مجھے تیری پڑی ہے

روک تو لیتا شاید اس کو جانے سے انشاء
میں کیا کروں اجل رہ روکے کھڑی ہے۔
انشاء چوہدری
 
Top