حمام بارگرد

حاتم کا سر حجام کے آہنی شکنجے میں بُری طرح کسّا ہوا تھا- شدید خواہش کے باوجود وہ کسی بھی سمت دیکھنے سے قاصر تھا- اس کے سر پر جو شخص اُسترا لیکر سوار تھا شکل و صورت سے ہی کوئ انتہا پسند یا انتہائ دائیں بازو کا حجام دکھائ دیتا تھا
حمام بارگرد کا طلسمی آئینہ ایک سوُکھی ٹاہلی کے خشک تنّے پر لٹکا ہوا تھا- حاتم کسمسا کر جب بھی ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کرتا ، سنگ دِل حجام جبڑے سے پکڑ کر فوراً اس کا مونہہ ٹاہلی کی طرف کر دیتا
وجہ اس حُسنِ سلوک کی شہزادی حُسن بانو کا تیسرا سوال تھا کہ
اُس حجام کی خبر لاؤ جو یہ نعرہ لگاتا ہے …. تین بار کھوتا کھایا ہے ، چوتھی بار کھانے کی ہمّت نہیں
حاتم اس سوال کو لے کر ہر اس شخص کے پاس گیا جو شکل و صورت سے حجام نظر آتا تھا ، مگر اوّل تو کوئ یہ ماننے کو تیّار ہی نہ تھا کہ وہ نائ ہے- سب اپنے تئیں “ہیئر ڈریسر” بتلاتے تھے
دوسرا کھوتے کے سوال پر ہر شخص انکار میں سر ہلا کر کہتا
تینوں تکلیف اے … اسی جو مرجی کھائیے
بعد جواب کنندگان تو سیخ پاء ہو کر نیاموں سے اُسترے نکال لائے اور حاتم کا سرقلم کر کے حمام سے رُخصت کیا-ایک خودکش قسم کا حجام تو ایسا پھٹّا کہ حاتم کی مونچھیں تک اُڑا کر رکھ دیں
حاتم مونہہ چھپائے ایک مسافرخانے جا نکلا- رات وہاں گزاری اور صبح سویرے اللہ کا نام لیکر دوبارہ نکل کھڑا ہوا
لاہور کی شاہ عالمی مارکیٹ سے لیکر ٹھوکر نیاز بیگ تک کئ روز دھکّے کھانے کے بعد بھی خرخور کا سراغ نہ مل سکا- ایک روز یونہی دھکے کھاتا کھاتا وہ بازارِ حسن جا نکلا- اس نے ایک تاریک ، ٹھٹھرتی کوٹھڑی دیکھی جس کے آگے چمڑے کے تولیے لٹکے تھے- باہر ایک سال خورہ بورڈ نصب تھا
میاں والی سرد حمام
حاتم نے فوراً غسلِ جنابت کی نیّت فرمائ اور واسطے حجامت کے حمام میں داخل ہوگیا- اندر ایک پیرِ مرد فارغ بیٹھا استرے لگا رہا تھا
حاتم نے کہا
ہرچند کہ پراگندہ طبعی ہی فقر کی پہچان ہے ، مگر اس درویش کو نہائے ایک مدّت ہو چلی ہے ، چلّو بھر آبِ تازہ میّسر ہو تو ارادے کو عملی جامہ پہنایا جاوے
حجام فوراً اپنی جگہ سے اُٹھا ، باہر سے ایک اوجھڑی نماء تولیہ لا کر حاتم کو پیش کیا پھر ایک کالا صابن تھماتے ہوئے کہا
آقا !!! اندیشہ ہائے زیست کو دِلِ مضطرب سے نکال کر نہائیے کہ غسلِ صحت سے لیکر غُسلِ میّت تک ہم ایک ہی تولیہ استعمال کرتے ہیں
غرض کہ حاتم پاکیزہ تن ہو کر عقوبت خانے سے نکلا اور کرسئ حجامت پر تشریف فرما ہوا- حجام چاندی کے مرصح صندوقچے سے ایک بدبودار کپڑا نکال لایا اور کسی شِکاری کی طرح اُسے دبوچا اور کہا
ساہ گُھٹ کے باہوِیں …. شناء
اس پر حاتم پھڑپھڑا کر بولا
یا نیازی الحجام …. مِن قبل از ضرب و شلاق ایک سوال کا تشفّی بخش جواب دے …. کیا تُونے کبھی کھوتا کھایا ہے یا کھانے کی ہوّس کی ہے ؟؟
حجام نے کہا
شناء …. مُدّت تھی گئ … اساں تے کھوتا ڈِٹّھا ای کوئنی … کِتھّاں ہے اج کل ….. کھوتا ؟؟؟
حاتم نے کہا
اے پٹوار صِفت نیازی !!! میں دوٹانگوں والے کھوتے کی بات نہیں کرتا اس جانور کی بابت پوچھتا ہوں جس کے سر سے کبھی سینگ غائب ہوئے تھے
اس پر حجام سر کھُجا کر بولا
شناء …… کھوِی پوِی گیاء …. تُساں لیٹ تھی گئے ہو
اس سے پہلے کہ حاتم کوئ مناسب جواب دیتا …. ہاتف نے صدا دی
بالو بتیاں وے ماہی ساکوُں
مارو سنگلاں نال
حاتم نے فون اٹھایا- دوسری طرف پیرِ فرتوت تھے- انہوں نے پھولی سانسوں میں بتایا کہ حجامِ آوارہ گرد میانچنوں ٹی چوک پر نظر آ گیا ہے اور کھوتا کھانے سے شہزادی کی مُراد “دھوکہ” کھانا ہے- جیب میں کرایہ ڈال کر ڈائیوو پہ بیٹھو اور موقعہء واردات پر پہنچو




بشکریہ …. ظفر اقبال محمّد


اسٹوری … قصّہ حاتم تائی (قسط ٢٧)
سب اسٹوری… حمام بارگرد1
 
یہ کون صاحب ہیں جن کی تحریریں آپ پوسٹ کر رہے ہیں؟

بھائی یہ ظفر اقبال محمّد صاحب ہیں ... جو ظفر اقبال عوان کے نام سے جانے جاتے ہیں ... بہت عمدہ لکھاری ہیں ... انکی تحریر قصّہ حاتم طائی جدید بھی میں یہاں پوسٹ کرچکا ہوں .... لنک بھی دیا ہے میں نے انکی تحریر کا
 

سید عمران

محفلین
اس قدیم تاریخی قصے کو نئے زمانے کے اسلوب میں ایسے ڈھالنا کہ طبیعت پر ناگوار نہ گزرے واقعی کمال ہے!!!
 
Top