بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

جاسمن

لائبریرین
یہاں ہم ایسے لوگوں کے آنکھوں دیکھے واقعات کی شراکت کریں گے جن کے حالات اچھے یا برے یکسر بدل گئے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
وہ شخص بغیر والدین کے پھپھو کے پاس انتہائی غربت میں رہا۔سٹریٹ لائٹ میں پڑھتا رہا۔ایل ایل بی کیا۔جج بنا۔شادی ہوئی اچھی جگہ۔بچے ہوئے۔ایک انتہائی شاندار زندگی شروع تھی۔آگے پیچھے گاڑیاں ،نوکر،بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہائش جو کئی کئی کنال کی ہوتی ہیں۔گھر سبزیاں،پھل۔۔۔۔تحفے تحائف۔۔۔۔شہنشاہی زندگی۔۔۔
دوست احباب رشتہ داروں کو بڑے بڑے تحفے خود بھی دیتے رہے۔جو قرض مانگتا،مدد مانگتا۔۔۔۔بڑی بڑی امداد کرتے رہے لوگوں کی۔
ریٹائر ہوئے۔۔۔آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹتی رہی۔بیمار ہوئے۔چارپائی نشین،یادداشت جواب ۔۔۔ذہنی بیمار۔۔۔چھوٹے بچے۔گھریلو بیوی۔
اچھے دنوں میں خریدے پلاٹ،مکان آہستہ آہستہ بکنے لگے۔پینشن تھوڑی۔ایک مکان بالآخر خریدا۔ایک حصہ کرائے پہ دیا۔
آج یہ حالات ہیں کہ بعض اوقات گھر کے عام خرچے بھی پورے کرنے مشکل ہیں۔
اللہ ان کی مشکلات دور کرے۔آمین!
 
جن آنٹی کے پاس میں نے قرآن ناظرہ مکمل کیا، انکل کے بڑے بھائی اور بھابھی کا حادثہ میں انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے اکلوتے بچے کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پالا، ڈاکٹر بنایا۔ سپیشلائزیشن کے لیے امریکہ بھیجا، وہاں سے وہ نہ واپس آیا اور نہ ہی کوئی رابطہ رکھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے اپنی اولاد سے زیادہ سرمایہ اس پر لگایا تو یہ ہرگز بے جا نہ ہو گا۔
محکمہ سے جبری ریٹائرڈ کر دیے گئے، اس وقت بیٹا آٹھویں میں تھا، جن حالات میں اسے پڑھایا اور بیٹیوں کی شادی کی، وہ جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ مگر مجال ہے کبھی پریشانی ظاہر ہونے دی ہو۔ بھتیجے کے برے ذکر پر برا مانتے تھے کہ میں نے اپنا فرض پورا کیا ہے، کوئی سودا نہیں کیا تھا اس سے۔ میں خوش ہوں اگر وہ مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔
مگر ظاہر نہ کرنے کے سبب یہ غم اندر سے کھا گیا۔ اور ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا۔
چند سال قبل معلوم ہوا تھا کہ انجینئرنگ کے آخری سال میں ہے، امید ہے کہ اپنی ماں اور میری روحانی ماں کی خدمت کر رہا ہو گا۔
 

سید عمران

محفلین
وہ شخص اگرچہ بدحال تو نہ تھا مگر ایسا خوش حال بھی نہ تھا کہ ڈیوڑھی پر ہاتھی جھولتے۔۔۔
البتہ ایک پھٹپھٹی موٹر سائیکل پر پوری فیملی جھولتی ہوئی سفر کرتی ۔۔۔
سفر کے لیے ہونڈا ففٹی اور رہائش کے لیے ایک فلیٹ ۔۔۔
کوئی دس برس ادھر کی بات ہے کہ لینڈ مافیا سے سلام علیک ہوگئی۔۔۔
بس وہ دن اور آج کا دن، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔
آج آٹھ کروڑ کا گھر اور تین گاڑیاں ہیں۔۔۔
گاڑیوں کا ماڈل بھی ہر سال بدلتا ہے۔۔۔
اب سیر و تفریح کے لیے مری نہیں بیرون ملک جاتے ہیں۔۔۔
خیر سے وہ تمام عادات بھی در آئیں جو نو دولتیوں کا خاصّہ ہوتی ہیں۔۔۔
یعنی غریب رشتے داروں کو بالکل منہ نہ لگانا یا کم کم لگانا۔۔۔
نازک ہوتے مزاج میں گاہے بگاہے چڑچڑے پن کا تڑکا لگنا۔۔۔
اپنے سے کمتر کمی کمینوں کے گھر بوجوہ جانے سے احتراز کرنا۔۔۔
کیوں کہ حفظان صحت کے اصولوں پر ہر کس و ناکس کہاں پورا اترتا ہے۔۔۔
اب اتنی مصروف زندگی میں بزنس پارٹنرز کے ناز نخرے اٹھائیں یا رشتے داروں کے اللّے تللّے۔۔۔
ہونہہ بلڈی غریب پیوپل!!!
 
آخری تدوین:
وہ شخص اگرچہ بدحال تو نہ تھا مگر ایسا خوش حال بھی نہ تھا کہ ڈیوڑھی پر ہاتھی جھولتے۔۔۔
البتہ ایک پھٹپھٹی موٹر سائیکل پر پوری فیملی جھولتی ہوئی سفر کرتی ۔۔۔
سفر کے لیے ہونڈا ففٹی اور رہائش کے لیے ایک فلیٹ ۔۔۔
کوئی دس برس ادھر کی بات ہے کہ لینڈ مافیا سے سلام علیک ہوگئی۔۔۔
بس وہ دن اور آج کا دن، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔
آج آٹھ کروڑ کا گھر اور تین گاڑیاں ہیں۔۔۔
گاڑیوں کا ماڈل بھی ہر سال بدلتا ہے۔۔۔
اب سیر و تفریح کے لیے مری نہیں بیرون ملک جاتے ہیں۔۔۔
خیر سے وہ تمام عادات بھی در آئیں جو نو دولتیوں کا خاصّہ ہوتی ہیں۔۔۔
یعنی غریب رشتے داروں کو بالکل منہ نہ لگانا یا کم کم لگانا۔۔۔
نازک ہوتے مزاج میں گاہے بگاہے چڑچڑے پن کا تڑکا لگنا۔۔۔
اپنے سے کمتر کمی کمینوں کے گھر بوجوہ جانے سے احتراز کرنا۔۔۔
کیوں کہ حفظان صحت کے اصولوں پر ہر کس و ناکس کہاں پورا اترتا ہے۔۔۔
اب اتنی مصروف زندگی میں بزنس پارٹنرز کے ناز نخرے اٹھائیں یا رشتے دار کے اللّے تللّے۔۔۔
ہونہہ بلڈی غریب پیوپل!!!
:whistle:
 
میٹرک کے امتحان سے فارغ ہو اتو مکمل تجوید سیکھنے کا شوق ہوا۔
ہماری مسجد میں پڑھانے والے قاری صاحب افغانستان سے تھے۔ افغان وار کے دور میں ٹرک میں چھپ کر پاکستان آئے تھے۔
مسجد کے اندر بنے ایک کمرے میں ہی رہائش تھی۔ بہت اچھے قاری اور استاد تھے۔
بہرحال سال گزرے ، ہم نے محلہ بدل لیا۔ کچھ اور سال گزرے تو وہ محلہ بھی چھوڑ کر موجودہ محلہ میں آ گئے۔
یہاں شفٹ ہوئے کچھ دن ہی گزرے تھے کہ مارکیٹ میں قاری صاحب نظر آ گئے۔
جا کر گرم جوشی سے ملا اور پوچھا قاری صاحب یہاں کس مسجد میں ہوتے ہیں۔
تو پتہ چلا کہ اب کسی مسجد میں نہیں ہوتے۔ پراپرٹی کا کام شروع کیا تھا، ہماری اور ساتھ والی سوسائٹی میں تین پلازے ان کے ہیں اور چوتھے پر کام چل رہا تھا۔
مل کر جب روانہ ہوئے تو سامنے کھڑی ہنڈا سِوِک میں بیٹھے اور نکل گئے۔
اور میری آنکھوں میں ان کا سیڑھیوں کے نیچے بنا ہوا کمرہ گھوم گیا، کہ جس میں بچھی چٹائی اور دری ہم لوگ جھاڑ کر دوبارہ بچھاتے تھے تو ان کا پورا گھر صاف ہو جاتا تھا۔
اس گمان کے ساتھ کہ یہاں تک وہ جائز طریقے سے ہی پہنچے ہوں گے، ان کے رزق میں مزید برکت کی دعا دی اور گھر آ گیا۔
اب بھی وقتاً فوقتاً ملاقات رہتی ہے۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
وہ ہر طرح سے معمولی تھی۔شکل و جسامت۔خاندان۔مالی حیثیت،پڑھائی۔یہ میری نہیں لوگوں کی رائے تھی۔
خدا کے کرم سے پڑھ لکھ گئ۔اور ۔اللہ نے پلیٹ میں رکھ کے بہت اچھی نوکری بھی دے دی۔
کچھ عرصہ پہلے ملاقات ہوئی تو خوداعتمادی میں اضافہ دیکھا۔
اب کچھ دن پہلے پتہ چلا کہ سسپینڈ ہے۔ جس ادارہ میں جن کی حفاظت کرنی تھی،ان کو بیچتی رہی۔مالی بد عنوانی۔ چند سالوں میں بینک بیلینس کے علاوہ اتنی جائداد بنا لی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
مگرمچھوں سے تعلقات۔
میں اس وقت سے سوچ میں ہوں کہ میں نے دو سالوں تک ہمیشہ اپنے شاگردوں کو اخلاقی سبق گھول گھول کے پلائے ہیں۔۔۔مجھ سے کہاں غلطی ہوئی؟؟؟
 
یہاں ہم ایسے لوگوں کے آنکھوں دیکھے واقعات کی شراکت کریں گے جن کے حالات اچھا یا برے یکسر بدل گئے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟
وہ خوب روئی ، خوب روئی مگر صرف پہلے دن! کیونکہ وہ ایک بار ہی کئی سالوں کا رو لیتی تھی۔ پھر اس کو میٹرک میں ریاضی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیشہ ریاضی میں پورے نمبر اور صرف ریاضی کی کتاب تھی جو ساری آتی تھی اور وہ شاید ریاضی ہی کرتی رہتی تھی۔ میٹرک میں نوے فیصد سے اوپر نمبر آئے اور گھر والوں نے بائیو رکھنے کا کہہ ڈالا۔
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اِس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کُچلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس کی رائے کی کیا اہمیت؟ اور وہ بھی اپنے لیے کیونکر لڑتی ؟ والدین کبھی برا تو نہیں چاہتے نا ! ان کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔۔۔ چاہے ہمارا سب کچھ لہو لہو ہوتا رہے۔ کوئی بات نہیں ! سب کا ہوتا ہے! خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔ اسی لیے ہر گھر میں کتنی خواہشوں کے ستاروں کی بلی جان بوجھ کر لی جاتی ہے۔۔ کہ یہی ایک راستہ ہے اپنے پیاروں کو نویدِ سحر دینے کا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی اور معاشرے کی رَو سے ذرا اِدھر اُدھر کھِسکنے والی قوم نہیں !
خیر اُس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی۔ بائیولوجی میں سب سے کم جی لگا۔ فزکس سب سے زیادہ پسند تھی۔ انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ پورشن بائیولوجی کا تھا، سو وہ پاس نہ ہوسکا یا شاید یہی انٹری ٹیسٹ اُس کے کسی پسند کے شعبے کا ہوتا جس کیلئے وہ بنی تھی تو اس کی اپنی کوتاہیوں کی فہرست بھی اِتنی بڑی نہ ہوتی۔ مزید تعلیم کیلئے اُس کو فزکس کا شعبہ پسند تھا مگر ادارے فزکس کے شعبے میں صرف پری انجینئرنگ والے سٹوڈنٹس کو رکھتے ہیں اور اُسے بائیو کی ایک ایسی فیلڈ (نباتیات) میں داخلہ دلوا دیا گیا جس کی سمجھ اُسے پوری بائیو میں سب سے کم تھی۔ وطنِ عزیز میں بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت ہے کہ زندگی کے سبھی اہم معاملوں میں بچے کو کسی بھی جگہ ''اَڑا'' دو ، پیار خود ہی ہو جائے گا۔ مگر پانچ سال اس ''ارینج فیلڈ'' میں گُزارنے کے بعد بھی اُسے پیار نہ ہوسکا بلکہ شاید وہ پہلے سے بھی گئی گُزری ہوگئی۔ جو آتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ شوق سے کچھ بھی نہیں کِیا۔ مگر وقت کی بہترین خوبی یہی ہے کہ یہ گُزر جاتا ہے۔ پہاڑ سے پانچ سال بھی گُزر گئے۔ آسماں نے اپنا رنگ بدلا اور آج ایم فل کیلئے پاکستان بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں سے آئے ہوئے لگ بھگ دو سو بچوں میں سے اُس کو بین الاقوامی سطح پر مانا جانے والے اور پاکستان کے بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مٹھی بھر منتخب سٹوڈنٹس کی صف میں شامل کر لیا گیا اور آج اُسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ ''صحیح'' فیلڈ میں ہے۔ جس میں وہ پیار اور لگن سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور جس میں کام کرنے کا واقعی کوئی فائدہ پہنچے گا اور آگے کی کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع ہونے والی کہانی وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے پر ختم ہو جاتی ہے مگر اصل زندگی میں ایک کہانی کی ہنسی خوشی کسی نئی کہانی کی تمہید ہوتی ہے۔ خدا جانے کاتبِ تقدیر کیا لکھنے میں مصروف ہو مگر میں تو ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھنے میں مصروف ہوں جو کہ میں خود ہوں۔ مریم'' :)
 

جاسمن

لائبریرین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟
وہ خوب روئی ، خوب روئی مگر صرف پہلے دن! کیونکہ وہ ایک بار ہی کئی سالوں کا رو لیتی تھی۔ پھر اس کو میٹرک میں ریاضی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیشہ ریاضی میں پورے نمبر اور صرف ریاضی کی کتاب تھی جو ساری آتی تھی اور وہ شاید ریاضی ہی کرتی رہتی تھی۔ میٹرک میں نوے فیصد سے اوپر نمبر آئے اور گھر والوں نے بائیو رکھنے کا کہہ ڈالا۔
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اِس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کُچلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس کی رائے کی کیا اہمیت؟ اور وہ بھی اپنے لیے کیونکر لڑتی ؟ والدین کبھی برا تو نہیں چاہتے نا ! ان کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔۔۔ چاہے ہمارا سب کچھ لہو لہو ہوتا رہے۔ کوئی بات نہیں ! سب کا ہوتا ہے! خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔ اسی لیے ہر گھر میں کتنی خواہشوں کے ستاروں کی بلی جان بوجھ کر لی جاتی ہے۔۔ کہ یہی ایک راستہ ہے اپنے پیاروں کو نویدِ سحر دینے کا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی اور معاشرے کی رَو سے ذرا اِدھر اُدھر کھِسکنے والی قوم نہیں !
خیر اُس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی۔ بائیولوجی میں سب سے کم جی لگا۔ فزکس سب سے زیادہ پسند تھی۔ انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ پورشن بائیولوجی کا تھا، سو وہ پاس نہ ہوسکا یا شاید یہی انٹری ٹیسٹ اُس کے کسی پسند کے شعبے کا ہوتا جس کیلئے وہ بنی تھی تو اس کی اپنی کوتاہیوں کی فہرست بھی اِتنی بڑی نہ ہوتی۔ مزید تعلیم کیلئے اُس کو فزکس کا شعبہ پسند تھا مگر ادارے فزکس کے شعبے میں صرف پری انجینئرنگ والے سٹوڈنٹس کو رکھتے ہیں اور اُسے بائیو کی ایک ایسی فیلڈ (نباتیات) میں داخلہ دلوا دیا گیا جس کی سمجھ اُسے پوری بائیو میں سب سے کم تھی۔ وطنِ عزیز میں بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت ہے کہ زندگی کے سبھی اہم معاملوں میں بچے کو کسی بھی جگہ ''اَڑا'' دو ، پیار خود ہی ہو جائے گا۔ مگر پانچ سال اس ''ارینج فیلڈ'' میں گُزارنے کے بعد بھی اُسے پیار نہ ہوسکا بلکہ شاید وہ پہلے سے بھی گئی گُزری ہوگئی۔ جو آتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ شوق سے کچھ بھی نہیں کِیا۔ مگر وقت کی بہترین خوبی یہی ہے کہ یہ گُزر جاتا ہے۔ پہاڑ سے پانچ سال بھی گُزر گئے۔ آسماں نے اپنا رنگ بدلا اور آج ایم فل کیلئے پاکستان بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں سے آئے ہوئے لگ بھگ دو سو بچوں میں سے اُس کو بین الاقوامی سطح پر مانا جانے والے اور پاکستان کے بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مٹھی بھر منتخب سٹوڈنٹس کی صف میں شامل کر لیا گیا اور آج اُسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ ''صحیح'' فیلڈ میں ہے۔ جس میں وہ پیار اور لگن سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور جس میں کام کرنے کا واقعی کوئی فائدہ پہنچے گا اور آگے کی کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع ہونے والی کہانی وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے پر ختم ہو جاتی ہے مگر اصل زندگی میں ایک کہانی کی ہنسی خوشی کسی نئی کہانی کی تمہید ہوتی ہے۔ خدا جانے کاتبِ تقدیر کیا لکھنے میں مصروف ہو مگر میں تو ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھنے میں مصروف ہوں جو کہ میں خود ہوں۔ مریم'' :)
مریم!
بہت مبارک ہو۔
ماشاءاللہ۔اللہ نے آپ پہ اپنا خاص کرم کیا۔اللہ کا شکر ہے۔
اللہ اور بھی کامیابیاں اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
 

نبیل

تکنیکی معاون
TL;DR

حالات بدلنے سے لوگ زیادہ تر مالی حالات مراد لیتے ہیں۔ میری دانست میں اس کا اس سے وسیع مطلب لیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ صحت کی پریشانیوں، قرابت داری کے جھگڑوں یا سب سے بڑھ کر روحانی پستی سے نکل آتے ہیں، میرے خیال میں ان کی کامیابی کاروبار کی کامیابی سے کہیں زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہاں حالات بدلنے کو مثبت انداز میں بیان کیا جا رہا ہے، جو کہ اچھی بات بھی ہے۔ لیکن ایسی مثالوں کی کمی نہیں جس میں تبدیلی کا سفر دوسری سمت میں بھی ہوتا ہے اور انجام عبرتناک ہوتا ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟
وہ خوب روئی ، خوب روئی مگر صرف پہلے دن! کیونکہ وہ ایک بار ہی کئی سالوں کا رو لیتی تھی۔ پھر اس کو میٹرک میں ریاضی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیشہ ریاضی میں پورے نمبر اور صرف ریاضی کی کتاب تھی جو ساری آتی تھی اور وہ شاید ریاضی ہی کرتی رہتی تھی۔ میٹرک میں نوے فیصد سے اوپر نمبر آئے اور گھر والوں نے بائیو رکھنے کا کہہ ڈالا۔
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اِس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کُچلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس کی رائے کی کیا اہمیت؟ اور وہ بھی اپنے لیے کیونکر لڑتی ؟ والدین کبھی برا تو نہیں چاہتے نا ! ان کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔۔۔ چاہے ہمارا سب کچھ لہو لہو ہوتا رہے۔ کوئی بات نہیں ! سب کا ہوتا ہے! خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔ اسی لیے ہر گھر میں کتنی خواہشوں کے ستاروں کی بلی جان بوجھ کر لی جاتی ہے۔۔ کہ یہی ایک راستہ ہے اپنے پیاروں کو نویدِ سحر دینے کا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی اور معاشرے کی رَو سے ذرا اِدھر اُدھر کھِسکنے والی قوم نہیں !
خیر اُس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی۔ بائیولوجی میں سب سے کم جی لگا۔ فزکس سب سے زیادہ پسند تھی۔ انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ پورشن بائیولوجی کا تھا، سو وہ پاس نہ ہوسکا یا شاید یہی انٹری ٹیسٹ اُس کے کسی پسند کے شعبے کا ہوتا جس کیلئے وہ بنی تھی تو اس کی اپنی کوتاہیوں کی فہرست بھی اِتنی بڑی نہ ہوتی۔ مزید تعلیم کیلئے اُس کو فزکس کا شعبہ پسند تھا مگر ادارے فزکس کے شعبے میں صرف پری انجینئرنگ والے سٹوڈنٹس کو رکھتے ہیں اور اُسے بائیو کی ایک ایسی فیلڈ (نباتیات) میں داخلہ دلوا دیا گیا جس کی سمجھ اُسے پوری بائیو میں سب سے کم تھی۔ وطنِ عزیز میں بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت ہے کہ زندگی کے سبھی اہم معاملوں میں بچے کو کسی بھی جگہ ''اَڑا'' دو ، پیار خود ہی ہو جائے گا۔ مگر پانچ سال اس ''ارینج فیلڈ'' میں گُزارنے کے بعد بھی اُسے پیار نہ ہوسکا بلکہ شاید وہ پہلے سے بھی گئی گُزری ہوگئی۔ جو آتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ شوق سے کچھ بھی نہیں کِیا۔ مگر وقت کی بہترین خوبی یہی ہے کہ یہ گُزر جاتا ہے۔ پہاڑ سے پانچ سال بھی گُزر گئے۔ آسماں نے اپنا رنگ بدلا اور آج ایم فل کیلئے پاکستان بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں سے آئے ہوئے لگ بھگ دو سو بچوں میں سے اُس کو بین الاقوامی سطح پر مانا جانے والے اور پاکستان کے بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مٹھی بھر منتخب سٹوڈنٹس کی صف میں شامل کر لیا گیا اور آج اُسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ ''صحیح'' فیلڈ میں ہے۔ جس میں وہ پیار اور لگن سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور جس میں کام کرنے کا واقعی کوئی فائدہ پہنچے گا اور آگے کی کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع ہونے والی کہانی وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے پر ختم ہو جاتی ہے مگر اصل زندگی میں ایک کہانی کی ہنسی خوشی کسی نئی کہانی کی تمہید ہوتی ہے۔ خدا جانے کاتبِ تقدیر کیا لکھنے میں مصروف ہو مگر میں تو ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھنے میں مصروف ہوں جو کہ میں خود ہوں۔ مریم'' :)
بہت مبارک ہو مریم! اللہ آپ کو مزید کامیابیاں عطا فرمائے.
مورل آف دا سٹوری: ماں باپ جہاں " اڑائیں " وہاں "اڑ " جاؤ . ایک دن " ارینج " سے پیار ہو ہی جائے گا .
 
بہت مبارک ہو مریم! اللہ آپ کو مزید کامیابیاں عطا فرمائے.
مورل آف دا سٹوری: ماں باپ جہاں " اڑائیں " وہاں "اڑ " جاؤ . ایک دن " ارینج " سے پیار ہو ہی جائے گا .
خیر مبارک بہنا۔ آمین!!! جزاک اللہ نیک تمناؤں کیلئے۔ :lovestruck:
ہم تو کہنا چاہ رہے تھے کہ
میرا ذکر پڑھنے والے میرا راستہ نہ چُن لیں۔۔۔۔
لیکن آپ نے وہی مورل نکال دیا۔ کھوتی فیر اوتھے ای آن کھلوتی !! :laughing:
 
میں نے اب فیلڈ چینج کی ہے۔ :) بائیو ٹیکنالوجی مجھے بائیولوجی کی فیلڈز میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ فیلڈ چینج کرنے کا نقصان بھی ہوتا ہے مگر ہوتا ہے تو ہوا کرے۔۔۔ ارینج میں نہیں رہا جاتا۔ نہیں اَڑ پاتی۔ نہیں ہوا پیار !! کہانی میں یہ کہا تھا۔ :heehee:

اور یہ بھی کہ دن کی صحیح قدر اُس کو پتا چلتی ہے جو صدیوں سے تاریکی میں عازمِ سفر ہو۔ میری کلاس میں اور بھی لوگ ہوں گے مگر شاید انہوں نے یہ حالات نہ دیکھے ہوں اس لیے اُن کے لیے یہ نہ تو آسمان کا رنگ بدلنا ہے اور نہ ہی شاید میرے جتنی قدر ہو اس فیلڈ کی یا ان سب حالات کی جو تقریباََ ایک دہائی کے بعد میرے حق میں ہوئے ہیں۔
 
میں نے اب فیلڈ چینج کی ہے۔ :) بائیو ٹیکنالوجی مجھے بائیولوجی کی فیلڈز میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ فیلڈ چینج کرنے کا نقصان بھی ہوتا ہے مگر ہوتا ہے تو ہوا کرے۔۔۔ ارینج میں نہیں رہا جاتا۔ نہیں اَڑ پاتی۔ نہیں ہوا پیار !! کہانی میں یہ کہا تھا۔ :heehee:

اور یہ بھی کہ دن کی صحیح قدر اُس کو پتا چلتی ہے جو صدیوں سے تاریکی میں عازمِ سفر ہو۔ میری کلاس میں اور بھی لوگ ہوں گے مگر شاید انہوں نے یہ حالات نہ دیکھے ہوں اس لیے اُن کے لیے یہ نہ تو آسمان کا رنگ بدلنا ہے اور نہ ہی شاید میرے جتنی قدر ہو اس فیلڈ کی یا ان سب حالات کی جو تقریباََ ایک دہائی کے بعد میرے حق میں ہوئے ہیں۔
مبارک ہوبہنا۔
اللہ کریم آپ کو آپ کے مقاصد میں کامیاب اور کامران کرئے۔آمین
 

La Alma

لائبریرین
میں نے اب فیلڈ چینج کی ہے۔ :) بائیو ٹیکنالوجی مجھے بائیولوجی کی فیلڈز میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ فیلڈ چینج کرنے کا نقصان بھی ہوتا ہے مگر ہوتا ہے تو ہوا کرے۔۔۔ ارینج میں نہیں رہا جاتا۔ نہیں اَڑ پاتی۔ نہیں ہوا پیار !! کہانی میں یہ کہا تھا۔ :heehee:
اور یہ بھی کہ دن کی صحیح قدر اُس کو پتا چلتی ہے جو صدیوں سے تاریکی میں عازمِ سفر ہو۔ میری کلاس میں اور بھی لوگ ہوں گے مگر شاید انہوں نے یہ حالات نہ دیکھے ہوں اس لیے اُن کے لیے یہ نہ تو آسمان کا رنگ بدلنا ہے اور نہ ہی شاید میرے جتنی قدر ہو اس فیلڈ کی یا ان سب حالات کی جو تقریباََ ایک دہائی کے بعد میرے حق میں ہوئے ہیں۔
مریم، آپ چاہے اپنے سابقہ مضمون سے بریک اپ کا اعلان کریں لیکن سچ تو یہی ہے کہ یہ اسی پانچ سالہ رفاقت کا نتیجہ ہے جو آج آپ کی مراد بر آئی. اب امید کی شاخ پر نئی کونپلیں پھوٹیں گی تو پھر ان سے پیار تو یقیناً ہو گا.;);)
اینی ویز... گڈ جاب
بیسٹ آف لک
 
مریم، آپ چاہے اپنے سابقہ مضمون سے بریک اپ کا اعلان کریں لیکن سچ تو یہی ہے کہ یہ اسی پانچ سالہ رفاقت کا نتیجہ ہے جو آج آپ کی مراد بر آئی. اب امید کی شاخ پر نئی کونپلیں پھوٹیں گی تو پھر ان سے پیار تو یقیناً ہو گا.;);)
اینی ویز... گڈ جاب
بیسٹ آف لک
ایسا ہی ہے پیاری بہنا !! :)
 

لاریب مرزا

محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی تھی۔ جو پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں اچھی تھی۔ اسے لٹریچر یا فائن آرٹس کی فیلڈ میں جانے کا شوق تھا مگر اُسے میٹرک میں سائنس رکھوا دی گئی۔ کیونکہ آرٹس سے متعلق والدین کے کوئی سپنے نہیں ہوتے اور معاشرہ تو شاید یہی سمجھتا ہے کہ آرٹس رکھنے والے لوگ نالائق ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ حالانکہ تاریخ ایسا نہیں کہتی مگر اُس بچی کے دلائل کون سُنے؟ وہ تو بچی ہے۔۔۔اُسے کیا پتا؟
وہ خوب روئی ، خوب روئی مگر صرف پہلے دن! کیونکہ وہ ایک بار ہی کئی سالوں کا رو لیتی تھی۔ پھر اس کو میٹرک میں ریاضی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی ہمیشہ ریاضی میں پورے نمبر اور صرف ریاضی کی کتاب تھی جو ساری آتی تھی اور وہ شاید ریاضی ہی کرتی رہتی تھی۔ میٹرک میں نوے فیصد سے اوپر نمبر آئے اور گھر والوں نے بائیو رکھنے کا کہہ ڈالا۔
ستم ظریفئ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اِس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کُچلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس کی رائے کی کیا اہمیت؟ اور وہ بھی اپنے لیے کیونکر لڑتی ؟ والدین کبھی برا تو نہیں چاہتے نا ! ان کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔۔۔ چاہے ہمارا سب کچھ لہو لہو ہوتا رہے۔ کوئی بات نہیں ! سب کا ہوتا ہے! خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔ اسی لیے ہر گھر میں کتنی خواہشوں کے ستاروں کی بلی جان بوجھ کر لی جاتی ہے۔۔ کہ یہی ایک راستہ ہے اپنے پیاروں کو نویدِ سحر دینے کا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی اور معاشرے کی رَو سے ذرا اِدھر اُدھر کھِسکنے والی قوم نہیں !
خیر اُس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی۔ بائیولوجی میں سب سے کم جی لگا۔ فزکس سب سے زیادہ پسند تھی۔ انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ پورشن بائیولوجی کا تھا، سو وہ پاس نہ ہوسکا یا شاید یہی انٹری ٹیسٹ اُس کے کسی پسند کے شعبے کا ہوتا جس کیلئے وہ بنی تھی تو اس کی اپنی کوتاہیوں کی فہرست بھی اِتنی بڑی نہ ہوتی۔ مزید تعلیم کیلئے اُس کو فزکس کا شعبہ پسند تھا مگر ادارے فزکس کے شعبے میں صرف پری انجینئرنگ والے سٹوڈنٹس کو رکھتے ہیں اور اُسے بائیو کی ایک ایسی فیلڈ (نباتیات) میں داخلہ دلوا دیا گیا جس کی سمجھ اُسے پوری بائیو میں سب سے کم تھی۔ وطنِ عزیز میں بڑے بوڑھوں کی ایک کہاوت ہے کہ زندگی کے سبھی اہم معاملوں میں بچے کو کسی بھی جگہ ''اَڑا'' دو ، پیار خود ہی ہو جائے گا۔ مگر پانچ سال اس ''ارینج فیلڈ'' میں گُزارنے کے بعد بھی اُسے پیار نہ ہوسکا بلکہ شاید وہ پہلے سے بھی گئی گُزری ہوگئی۔ جو آتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ شوق سے کچھ بھی نہیں کِیا۔ مگر وقت کی بہترین خوبی یہی ہے کہ یہ گُزر جاتا ہے۔ پہاڑ سے پانچ سال بھی گُزر گئے۔ آسماں نے اپنا رنگ بدلا اور آج ایم فل کیلئے پاکستان بھر کی بہترین یونیورسٹیز میں سے آئے ہوئے لگ بھگ دو سو بچوں میں سے اُس کو بین الاقوامی سطح پر مانا جانے والے اور پاکستان کے بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ کے بہترین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مٹھی بھر منتخب سٹوڈنٹس کی صف میں شامل کر لیا گیا اور آج اُسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ ''صحیح'' فیلڈ میں ہے۔ جس میں وہ پیار اور لگن سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور جس میں کام کرنے کا واقعی کوئی فائدہ پہنچے گا اور آگے کی کہانی تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع ہونے والی کہانی وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے پر ختم ہو جاتی ہے مگر اصل زندگی میں ایک کہانی کی ہنسی خوشی کسی نئی کہانی کی تمہید ہوتی ہے۔ خدا جانے کاتبِ تقدیر کیا لکھنے میں مصروف ہو مگر میں تو ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھنے میں مصروف ہوں جو کہ میں خود ہوں۔ مریم'' :)
اس شاندار کامیابی پر ہماری طرف سے بہت سی مبارکباد سمیٹیں۔ :)
 
Top