میری فکری تنہائی کا سدباب کیجیے۔۔۔

عمر میرزا

محفلین
دوستو بھایئو !

میرے حیال میں کافی باتیں ہو چکی ہیں۔اس کارواں کے لیے اتنا ھی رخت سفر کافی ھے اب ضرورت اس امر کی ہے ک کوئی عملی اقدام کیا جائے۔
میری رائے کے مطابق آپ لوگ کسی ایک شہر لاہور یا اسلام آباد میں میں ایک دو دن کے لئے اکھٹے ہوں جہاں مل بیٹھ کر متفقہ طور یہ طے کیا جائے کہ ۔تنطیم کی نوعیت کیا ہو ،طریقہ کار کیا ھو ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔کیونکہ جو مسلئہ شاید اس فورم پر چھ ماہ میں نہ حل ہو وہ ایک ادھ میٹنگ میں حل ہو جائے گا-

میں آجکل لاہور میں رہتا ھوں اسلام آباد بھی آنا جانا لگا رہتا ہے ۔جو بھائی ملنا چاہیں وہ omerabb@gmail.com پر میل کر کے رابطہ کر لیں
والسلام
 
بہت خوب! تو اب تک یہ باتیں سامنے آئی ہیں کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنظیم کی بنیاد دین و مذہب پر نہ ہو،
تنظیم غیر سیاسی ہو،
تنظیم کے اراکین آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھیں اور ممکن ہو تو ملاقات بھی کریں، ہفتہ میں ایک دن آن لائن میٹنگ کا رکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنظیم کے غیر سیاسی ہونے پر مجھے الجھن ہے۔۔۔۔۔ لیکن بہرحال! ابتدائی مرحلہ میں اس کا سیاسی نہ ہونا ہی بہتر ہوگا، تاہم میرا خیال ہے کہ اگر ہم اپنے ابتدائی مرحلے بخوبی طے کرلیتے ہیں تو مستقبل میں سیاسی میدان میں بھی آیا جاسکتا ہے، چونکہ یہ بھی اپنی جگہ بے حد ضروری ہے۔
اب تمام باتوں کو چھوڑ کر میرا خیال ہے کہ سب سے پہلی بات طے کی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہے تنظیم کا نام۔
کسی کے ذہن میں کوئی مناسب نام ہے ؟؟؟؟؟؟
 

ظفری

لائبریرین
رضوان رقم طراز ہیں:
رضوان کی درج بالا سادہ سی بات بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ خاص طور پر پاکستان اور عموما کسی بھی اسلامی ملک میں تنظیم سازی کے وقت اس کو پیش نظر رکھا جانا از حد ضروری ہے ورنہ حال وہی ہو گا جو اب تک ہوتا آیا ہے یعنی آپسی سر پھٹول اور فرقہ بازی ؛ تنظیموں اور ان کے مقاصد کا بیڑہ غرق کر دیتی ہے۔


اسلام کی تبلیغ ہر مسلمان کا بنیادی فرض ہے اور ہمارا اسلامی طرزِ عمل ہی سب سے بہتر تبلیغ ہوتا ہے۔ اس کام کو نعروں یا تنظیموں کی صورت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ انبیاء ، صحابہ ، تابعین ، امامین ، اور مجددوں نے یہ کام بغیر کسی تنظیم کے محض اپنے قول و فعل کی مضبوطی اور اپنی ذات پر اسلام کے عملی نفاذ سے کیا۔
اس بات کا تذکرہ میں نے اس لئیے ضروری سمجھا کہ ہم مجوزہ تنظیم اور اس کی ہئیت و کردار کے بارے میں جان لیں کہ یہ تنظیم مختلف عقائد و نظریات کے حامل افراد پر مشتمل ہو سکتی ہے اور اس کے بنیادی مقاصد کا کسی کے مذہب یا عقیدے سے دخل نہیں ہونا چاہئیے۔ ہر پاکستانی جو اپنے دیس کے بنیادی مسائل کے حل ، اس کے عوام کی فلاح اور جہالت و ظلم کے خلاف اپنی خدمات پیش کرنا چاہے اس کو برابری کی سطح پر قبول کیا جائے۔ خواہ اس کا کوئی مذہب یا عقیدہ ہو ہمیں اس سے سروکار نہیں رکھنا چاہئیے۔ کیوں کہ ہم کسی مذہبی نہیں بلکہ فلاحی تنظیم کی بابت سوچ رہے ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃاللہ ،
ساجد

اچھا ہوا ساجد بھائی ۔۔۔ کہ آپ نے اس پہلو سے بھی سوچا کہ یہاں تنظیم کا مقصد اور بھی واضع ہوجائے گا ۔ اور عمر مرزا کے سوال کو بھی جواب مل جائے گا ۔

دیکھیں ۔۔۔ اگر سیاسی تنظیم آپ بنائیں گے تو مختلف طبقہِ ہائے فکر سے لوگ یہاں شمولیت اختیار کریں گے ۔ اور یہ بہت ممکن ہے کہ سیاسی بنیادوں پر کھڑی اس تنظیم میں‌ لوگ اپنے اپنے سیاسی منشور بھی ساتھ لائیں گے کیونکہ ظاہر ہے ان تمام لوگوں کا کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہوگا ( چاہے اس تعلق کے جھکاؤ کی نوعیت کیسی ہی ہو ) ۔ مگر وہ اپنی جماعت کے منشور کے زیرِ اثر یہاں بھی اپنے انہی خیالات اور تجاویز کا اظہار کریں گے ۔ اور جس طرح پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کا منشور ایک دوسرے سے الگ ہے چنانچہ یہاں بھی اختلاف رائے میں بہت زیادہ شدت پائے جانے کا خدشہ ہے ۔ جس سے ہم اپنے مقصد سے ہٹ سکتے ہیں ۔ اسی طرح مذہبی بنیادوں پر بھی یہی مسئلہ درپیش ہوگا کہ سب کا قبلہ ہی ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ ( اور اس بات کو آپ نے بھی محسوس کیا ہے ) ۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ ۔۔۔ ابھی ہم کو اپنی توانائیاں اس بات پر خرچ کرنی ہیں کہ اس تنظیم کے بنیادی منشور کی واضع شکل کیا ہوگی ۔ ایک ابتدائی خاکے کے مطابق منشور ظاہر ہے ملک و قوم کی بقاء کیساتھ ان کی خوشحالی سے بھی مشروط ہوگا ۔ مگر اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک تنظیم جو نہ سیاسی ہے اور نہ ہی مذہبی ( کہ کہیں اس کی بنیادوں پر ہم میں تقسیم نہ شروع ہوجائے ) ۔ اس کوکونسی ایسی شکل دی جائے کہ وہ اپنے منشور پر عمل پیرا ہوکر کس طرح ملک کے سیاسی عمل میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکے ۔

چونکہ سیاسی دھارے میں شامل ہوئے بغیر ملک کی ترقی و خوشحالی میں کسی قسم کی دوڑ لگانا صرف توانائیاں ضائع کرنے کے مترادف ہوگا ۔ سو ابتدائی مرحلے میں ہم لوگ اپنے اپنے سیاسی منشور جو کہ ہمیں وراثت میں ملے ہیں اس کو ایک طرف کنارے پر رکھکر کوئی ایک ایسا منشور سوچنا پڑے گا جو اس تنظیم کی بقاء کیساتھ ملک کی حالت بدلنے میں بھی کوئی کیلدی کردار ادا کر سکے ۔ جب وہ منشور طے ہوجائے گا اور ہم سب اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ یہی ہمارا نصب العین اور یہی ہماری منزل ہے تو پھر ہم اس تنظیم کو کوئی حکمتِ عملی مرتب کرکے ایک ایسی شکل دینے کی کوشش کریں گے کہ ملک کی سیاسی سمندر میں اس تنظیم کی کشتی زیادہ ہچکولے کھانے نہ پڑیں ۔ اور اسی طرح مذہبی بنیادوں‌ پر بھی ہم توحید اور رسالت سے آگے نہ جائیں کہ کم از کم یہ دو باتیں ہم کو متحد کرنے کے لیئے ابھی کافی ہونگیں ۔ ( ورنہ بہت پیچیدگیاں پیدا ہوسکتیں ہیں ) ۔ جب سیاسی اور مذہبی جانب سے ذہن صاف ہوجائے تو پھر ہم اس تنظیم کے قیام کی طرف آئیں اور اپنی اپنی خدمات اور صلاحتیں پیش کریں ۔ اور پھر ان کی مدد سے اس تنظیم کی داغ بیل دیں ۔

میرا خیال ہے کہ بات بہت واضع ہوگئی ہے اس تنظیم کی کیا شکل ہوگی ۔ ہمیں اب صرف کوئی منشور بنانا ہے ۔ جو اس تنظیم کی بنیاد ہوگا ۔ لہذاٰ آپ سب اپنی فکری صلاحیتوں کو مجمع کریں اور سوچیں کہ ملک کی فلاح ، بقاء اور خوشحالی کے لیئے کیا کیا سوچا جاسکتا ہے اور اس پر کیسے عمل کیا جاسکتا ہے ۔ تب کہیں جا کر اس تنظیم کو کوئی زندگی نصیب ہوگی ۔دیکھا جائے تو تنظیم کے قیام کا کل ہی اعلان کیا جاسکتا ہے مگر کسی " خاص منشور" اور کسی منتخب لائحہ عمل کے بغیر یہ تنظیم چند ہی دنوں میں زمین بوس ہوجائے گی ۔ سو کسی عمارت کے قیام کے لیئے یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیادوں میں اتنی اہلیت ہو کہ ہو اس عمارت کا بوجھ بھی اٹھا سکے ۔ اس تنظیم کے لیئے بھی انہی خطوط پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔

فاروق بھائی نے اچھی تجاویز دی ہیں ۔ محب یا فاروق بھائی سے گذارش ہے کہ وہ کوئی ایسا دھاگہ جلد از جلد مرتب کردیں کہ جہاں دوست احباب آکر اپنی شمولیت کا اظہار کردیں ۔ پھر ان تمام دوستوں کو لیکر اس تنظیم کی داغ بیل دیں ۔ اور کتنا ہی اچھا ہو کہ جس منشور کو ہم نے 60 سالوں سے کتابوں کی زینت بنایا ہوا ہے اس کو ان کتابوں سے نکال کر ہم اس تنظیم کا حقیقی منشور بنا لیں ۔ اور پوری نیک نیتی اور حوصلے سے اس کے نفاذ کی بھی کوشش کریں ۔ اور وہ منشور ہے ۔

اتحاد ، تنظیم ، یقینِ محکم​
 
مگر اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک تنظیم جو نہ سیاسی ہے اور نہ ہی مذہبی ( کہ کہیں اس کی بنیادوں پر ہم میں تقسیم نہ شروع ہوجائے ) ۔ اس کوکونسی ایسی شکل دی جائے کہ وہ اپنے منشور پر عمل پیرا ہوکر کس طرح ملک کے سیاسی عمل میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکے ۔

چونکہ سیاسی دھارے میں شامل ہوئے بغیر ملک کی ترقی و خوشحالی میں کسی قسم کی دوڑ لگانا صرف توانائیاں ضائع کرنے کے مترادف ہوگا ۔ سو ابتدائی مرحلے میں ہم لوگ اپنے اپنے سیاسی منشور جو کہ ہمیں وراثت میں ملے ہیں اس کو ایک طرف کنارے پر رکھکر کوئی ایک ایسا منشور سوچنا پڑے گا جو اس تنظیم کی بقاء کیساتھ ملک کی حالت بدلنے میں بھی کوئی کیلدی کردار ادا کر سکے ۔

وضاحت کا بہت بہت شکریہ ظفری بھائی! مجھے بھی یہی خیال تھا کہ غیر سیاسی ہوکر کس طرح کام کیا جائے گا؟
 
دیکھا جائے تو تنظیم کے قیام کا کل ہی اعلان کیا جاسکتا ہے مگر کسی " خاص منشور" اور کسی منتخب لائحہ عمل کے بغیر یہ تنظیم چند ہی دنوں میں زمین بوس ہوجائے گی ۔ سو کسی عمارت کے قیام کے لیئے یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیادوں میں اتنی اہلیت ہو کہ ہو اس عمارت کا بوجھ بھی اٹھا سکے ۔ اس تنظیم کے لیئے بھی انہی خطوط پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔

منشور: اس پر دوسرے لوگ کی تجویزات کا انتظار رہے گا۔ ابتدائی تجویز ہے " پاکستان سب سے پہلے" یعنی عام آدمی کا فلاح و بہبود کے لئے اجتماعی کاروائیاں اور جب یہ تنظیم اتنی بڑی ہو جائے کہ ملکی یا بین الاقوامی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھے تو اس وقت آپس کی مشاورت سے (‌جیسا ابھی کررہے ہیں) جو بھی فیصلہ اکثریت کا ہو۔

مزید تجاویز اور وضاحتیں:
غیر مذہبی کی وضاحت، اس تنظیم کے ارکان کے لئے کم از کم قرآن، جس پر ہر مسلمان کا عام طور پر اتفاق رائے ہے، سر چشمہ ہدائت ہے لیکن اس تنظیم کا کوئی مذہب نہیں۔ جیسے پاکستان میں سب مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ لیکن قوانین و آئین قرآن و سنت کی روشنی میں بناتے ہیں۔ ہر مذہب اور ملت کے لوگ، مرد و عورت اس کے ممبر ہوسکتے ہیں۔ کم از کم ان کا کوئی ایمان ہو کہ اللہ، خدا، بھگوان، (جس نام سے بھی پکارئیے) ہے، تاکہ اگر کبھی قسم کھانی ہو تو کسی کو تو کھا سکیں :) لیکن مذہب تبدیل کرنے کے لئے نہ کہیں۔ لیکن ایسا کوئی کام نہ کریں کہ جس کی کم از کم قرآن اجازت نہیں دیتا۔

غیر سیاسی: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تنظیم کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ یعنی کسی کو الیکشن لڑنے نہیں بھیجا ‌جارہا۔ اس کا مقصد ہے آپس کا بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی۔ اس بھلائی کے لئے اگر کوئی سیاسی تبدیلی ضروری ہے تو تنظیم اپنی ہمہ گیر اور عالم گیر باہمی مشاورت سے ایسے بلاک ووٹ دے سکتی ہے جو اس ملک و قوم کے ممبرز ہیں کے لئے بہتر تصور کیا جائے۔ گویا سیاست میں کھڑا نہیں ہونا بلکہ سیاست کو سپورٹ کرنا جیسا کہ ضروری ہو۔ کسی سیاسی جماعت سے کوئی لگا بندھا تعلق نہ ہو۔ بلکہ وقت کی ضرورت کے لحاظ سے فیصلہ کیا جائے۔

قوانین کی پابندی۔ ملکی، علاقائی قوانین کی پابندی ہر ممبر کا ہر ھال میں فرض‌ہو۔ کسی بھی صورت کوئی غیر قانونی حرکت نہ کی جائے اور نہ ہی کسی بھی قسم کے مجرم یا جرم کی تلقین کرنے والے کو ممبر بنایا جائے اور نہ ہی ممبر رکھا جائے۔

باقاعدہ علاقائی ملاقات: جو لوگ ایک شہر میں ہوں اور آسانی سے مل سکتے ہوں وہ مہینے میں کم از کم ایک بار جمع ہو کر گھر سے لاکر کھانا ساتھ بیتھ کر کھائیں اور علاقائی، ملکی، اجتماعی صورتحال پر گفتگو کریں۔

مذہبی اور سیاسی بحث: کسی بھی قسم کی مذہبی یا سیاسی بحث سے مکمل گریز کیا جائے۔ صرف باقاعدہ میٹنگز میں کسی بھی قسم کی بات (چاہے مذہبی ہو یا سیاسی یا مزید کچھ اور) پر ووٹنگ ہو سکتی ہے اور اس طرح کوئی بھی قرارداد کلب، شہر، صوبہ، ملک یا عالمی سطح پر منظور کی جاسکتی ہے۔ کسی بھی قرارداد پر غور کرنے کے لئے، کم از کم دو ممبران کی سفارش کی ضرورت ہے۔ کسی بھی موضوع پر ممبران اپنے رائے کھڑے ہوکر دے سکتے ہیں۔ اور اکثریت کا فیصلہ سب کے لئے قابل قبول ہو۔

یہ تھیں میری مزید تجاویز۔ آپ لوگوں کو ام میں سے جو پسند ہو وہ لکھ لیں، اغراض و مقصد کی ایک ابتدائی لسٹ‌بنا لیں اور جو اصول و قوانیں پسند کریں ان کو بھی لکھ کر ووٹنگ کرلیں۔

مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا ہم خیال طبقہ کی تنظیم کی جائے جن کے لئے موجودہ نعرہ ہو "پاکستان سب سے پہلے" اور بعد میں یہی تنطیم پھیل کر مسلم ممالک میں بھیل جائے اور "سب کے لئے بھلائی " کا کام کرے۔ جب ایسا ایک طبقہ ہوگا تو ہر قسم کی سیاسی جماعت کے کان مروڑ‌سکے گا۔ اور یہ تنظیم پھر مناسب لوگوں کو کسی بھی سیاسی جماعت میں سپورٹ‌کر سکے گی۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس تنظیم کے ممبران اپنے اپنے ممالک میں فعال سیاست میں حصہ لے سکیں‌گے اور ایک مربوط طریقے سے عوام کی رائے کے مطابق قیادت کرسکیں گے۔

ممکن ہے ایسا ہماری زندگی میں ہو یا وقت لے، لیکن ایسا ہونا لازم ہے کہ یہ موجودہ وقت کی ضرورت ہے۔

میں‌ اس تنظیم کا نام " رہبر " تجویز کرتا ہوں۔ کیا اس سے تعمیری ذہنیت رکھنے والے بہترین معمار اقوام جنم لیں‌کہ دنیا ان پر ناز کرے۔
 

ظفری

لائبریرین
وضاحت کا بہت بہت شکریہ ظفری بھائی! مجھے بھی یہی خیال تھا کہ غیر سیاسی ہوکر کس طرح کام کیا جائے گا؟

بس ایک بات کا خیال رہے عمار ۔۔۔وہ یہ کہ سیاست سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ ہم کوئی الیکشن لڑنے جا رہے ہیں ۔ سیاست سے یہاں مراد ہمیں اپنے لوگوں کے سیاسی شعور کو مثبت رُخ دینا ہے ۔ ان کو یہ احساس دلانا ہے کہ وہ پوری ملکی سطح پر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ان کے حقوق کیا ہیں اور وہ ان حقوق کو اپنے کس مثبت عمل سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ اور یہ سب ایک اجتماعیت سے ممکن ہے اور یہ اجتماعیت ظاہر ہے کسی سیاسی اصولوں سے ہی ممکن ہے ۔ اور کسی سیاسی اصول کا اطلاق وہیں ممکن ہے جہاں کوئی تنظیم نیک نیتی کیساتھ کوئی عظیم منصوبہ لیئے کھڑی ہو ۔ باقی کامیابی اللہ کی طرف سے متوقع ہے ۔
 
صحیح۔۔۔۔۔ میں نے بھی پہلے کہیں یہی بات لکھی تھی کہ عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
تنظیم کا ایک نام تو فاروق صاحب نے تجویز کردیا۔۔۔۔ اگر وہی تجویز ہوا تو پھر مجھے اپنا نِک بدلنا پڑے گاااا ;)
میرے ذہن میں "اصلاح' اور "انقلاب" جیسے نام تھے۔۔۔۔۔۔ ظفری بھائی! آپ کے خیال میں کیا نام بہتر ہوگا؟
 
غیر سیاسی: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تنظیم کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ یعنی کسی کو الیکشن لڑنے نہیں بھیجا ‌جارہا۔ اس کا مقصد ہے آپس کا بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی۔ اس بھلائی کے لئے اگر کوئی سیاسی تبدیلی ضروری ہے تو تنظیم اپنی ہمہ گیر اور عالم گیر باہمی مشاورت سے ایسے بلاک ووٹ دے سکتی ہے جو اس ملک و قوم کے ممبرز ہیں کے لئے بہتر تصور کیا جائے۔ گویا سیاست میں کھڑا نہیں ہونا بلکہ سیاست کو سپورٹ کرنا جیسا کہ ضروری ہو۔ کسی سیاسی جماعت سے کوئی لگا بندھا تعلق نہ ہو۔ بلکہ وقت کی ضرورت کے لحاظ سے فیصلہ کیا جائے۔ ۔۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا ہم خیال طبقہ کی تنظیم کی جائے جن کے لئے موجودہ نعرہ ہو "پاکستان سب سے پہلے" اور بعد میں یہی تنطیم پھیل کر مسلم ممالک میں بھیل جائے اور "سب کے لئے بھلائی " کا کام کرے۔ جب ایسا ایک طبقہ ہوگا تو ہر قسم کی سیاسی جماعت کے کان مروڑ‌سکے گا۔ اور یہ تنظیم پھر مناسب لوگوں کو کسی بھی سیاسی جماعت میں سپورٹ‌کر سکے گی۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس تنظیم کے ممبران اپنے اپنے ممالک میں فعال سیاست میں حصہ لے سکیں‌گے اور ایک مربوط طریقے سے عوام کی رائے کے مطابق قیادت کرسکیں گے۔

فاروق صاحب! آپ کی تجاویز اور وضاحت بہت معقول اور قابلِ قبول ہیں اور مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے دل کی آواز بھی۔
 

ظفری

لائبریرین
منشور: مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا ہم خیال طبقہ کی تنظیم کی جائے جن کے لئے موجودہ نعرہ ہو "پاکستان سب سے پہلے" اور بعد میں یہی تنطیم پھیل کر مسلم ممالک میں بھیل جائے اور "سب کے لئے بھلائی " کا کام کرے۔ جب ایسا ایک طبقہ ہوگا تو ہر قسم کی سیاسی جماعت کے کان مروڑ‌سکے گا۔ اور یہ تنظیم پھر مناسب لوگوں کو کسی بھی سیاسی جماعت میں سپورٹ‌کر سکے گی۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس تنظیم کے ممبران اپنے اپنے ممالک میں فعال سیاست میں حصہ لے سکیں‌گے اور ایک مربوط طریقے سے عوام کی رائے کے مطابق قیادت کرسکیں گے۔

ممکن ہے ایسا ہماری زندگی میں ہو یا وقت لے، لیکن ایسا ہونا لازم ہے کہ یہ موجودہ وقت کی ضرورت ہے۔

بلکل صحیح منشور کی نشاندہی کی ہے آپ نے ۔۔۔ " پاکستان سب سے پہلے " ۔۔۔ اس میں سب ہی مکتبہِ فکر کے لوگ شامل ہوں ۔ مسلم ، غیر مسلم ، سیاسی، غیر سیاسی جو دیگر گروہی و نسلی منافرت سے بھی آزاد ہوں۔ ان کو بس یہی فکر ہو کہ جس درخت کی شاخ پہ یہ ہمارا آشیانہ ہے ۔ اس کو تحفظ کیسے دیا جائے ۔
 

محسن حجازی

محفلین
رضوان:
میں یہ تمام پیغامات خاموشی سے پڑھتا رہا ہوں
مجھے عملی طور پر کچھ بھی متاثر کن دکھائی نہیں دیا۔

ایک اور میرے نزدیک اہم اعتراض - - -
پاکستان اسلامی جمہوریہ ضرور ہے لیکن اس کے آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ صرف مسلمان ہی شہری ہوسکتے ہیں اس لیے اگر آپ بھی معاشرتی بہتری کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو
مزہب
کو اس سے الگ رکھیے ۔

مذہب کو الگ نہیں کیا جا سکتا اس کی بابت پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کسی بھی انسانی گروہ کا کوئی نہ کوئی کوڈ آف کنڈکٹ تو ہوتا ہی ہے۔ ہمارا اسلام ہے۔

ظفری:
دیکھیں محسن بھائی ۔۔۔ حرکت شروع ہوگئی ہے ۔ بس جیسے ہی تنظیم کے قیام کا اعلان ہوا ۔ تو امید ہے کہ اس کارواں سے پھر کوئی نہ کوئی علامہ اقبال ، قائدِ اعظم یا چوہدری رحمت علی بن کر سامنے آجائے ۔

جی ہاں بالکل! ظفری بھائی آپ کے منہ میں گھی شکر!

ظفری:

ابھی عملی طور پر پیش قدمی ہی کہاں‌ ہوئی ہے بھائی ۔۔۔

مذہب کے حوالے سے موقف واضع ہو چکا ۔ شاید تم اس کو مس کر گئے ہو ۔

جی ہاں رضوان، اس ذیل میں بات ہو چکی ہے آپ گفتگو غور سے دیکھیں۔

فاروق بھائی:
غیر مذہبی کی وضاحت، اس تنظیم کے ارکان کے لئے کم از کم قرآن، جس پر ہر مسلمان کا عام طور پر اتفاق رائے ہے، سر چشمہ ہدائت ہے لیکن اس تنظیم کا کوئی مذہب نہیں۔ جیسے پاکستان میں سب مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ لیکن قوانین و آئین قرآن و سنت کی روشنی میں بناتے ہیں۔ ہر مذہب اور ملت کے لوگ، مرد و عورت اس کے ممبر ہوسکتے ہیں۔ کم از کم ان کا کوئی ایمان ہو کہ اللہ، خدا، بھگوان، (جس نام سے بھی پکارئیے) ہے، تاکہ اگر کبھی قسم کھانی ہو تو کسی کو تو کھا سکیں لیکن مذہب تبدیل کرنے کے لئے نہ کہیں۔ لیکن ایسا کوئی کام نہ کریں کہ جس کی کم از کم قرآن اجازت نہیں دیتا۔

رضوان، یہ ہے مذہب کے بارے میں ہمارا فلسفہ، یعنی کہ ہم مذہب سے بیگانہ بالکل اور ہرگز نہیں ہوں گے! اور یہ بھی کہ مذہب بھی اسلام ہی ہوگا، تاہم تبلیغ مطمع نظر ہرگز نہیں تحفظ ہے۔ فاروق بھائی کے خطوط اطمینان سے پڑھیں۔

دیگر ایک خط میں کہا گیا کہ اسلام آباد کلب میں تشکیل وغیرہ، تو میں بھی اسلام آباد میں ہی ہوتا ہوں 27 رمضان المبارک کو بنیاد رکھ دی جائے تو کیسا ہے۔
 

رضوان

محفلین
آپ دوستوں سے ایک دفعہ پھر بصد ادب و محبت درخواست ہے کہ صرف مسلمانوں نہیں بلکہ پاکستان اور دنیا میں بسنے والے انسانوں کا بھی سوچیں۔
فاروق صاحب آپ نے منشور کے لیے گائیڈ لائن دیتے ہوئے ٹوسٹ ماسٹر کلب کے نکات و تجربات کو سامنے نہیں رکھا۔ صرف حلف کی خاطر تنظیم / کلب کو دائرے میں مقید کر نے جارہے ہیں۔
سب دوست میرے اس مطالبے کے تمام پہلوؤں‌اور دلیلوں سے واقف و آگاہ ہیں‌، اس لیے صرف مختصر پیغام کی حد تک ہی محدود رہنا چاہتا ہوں اگر دلیلیں دوں تو پھر ایک خطبہ بن جائے گا اور پھر ان کے جوابات اور نتیجتًا اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے۔
 
دیگر ایک خط میں کہا گیا کہ اسلام آباد کلب میں تشکیل وغیرہ، تو میں بھی اسلام آباد میں ہی ہوتا ہوں 27 رمضان المبارک کو بنیاد رکھ دی جائے تو کیسا ہے۔

میں بھی اسلام آباد میں ہوں تو کیا خیال ہے محسن ، رضوان کا بھی اسلام آباد آنا جانا ہے۔ اس کے علاوہ نظامی اور ساجد اقبال سے بھی بات کرتا ہوں۔

اب مختصرا تین بنیادی اصول دہرا لیے جائیں اس تنظیم کے تاکہ ان پر اتفاق رائے ہو جائے۔
 
آپ دوستوں سے ایک دفعہ پھر بصد ادب و محبت درخواست ہے کہ صرف مسلمانوں نہیں بلکہ پاکستان اور دنیا میں بسنے والے انسانوں کا بھی سوچیں۔
فاروق صاحب آپ نے منشور کے لیے گائیڈ لائن دیتے ہوئے ٹوسٹ ماسٹر کلب کے نکات و تجربات کو سامنے نہیں رکھا۔ صرف حلف کی خاطر تنظیم / کلب کو دائرے میں مقید کر نے جارہے ہیں۔
سب دوست میرے اس مطالبے کے تمام پہلوؤں‌اور دلیلوں سے واقف و آگاہ ہیں‌، اس لیے صرف مختصر پیغام کی حد تک ہی محدود رہنا چاہتا ہوں اگر دلیلیں دوں تو پھر ایک خطبہ بن جائے گا اور پھر ان کے جوابات اور نتیجتًا اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے۔
آپ نے درست فرمایا۔ بھائی میری تجاویز حتمی فیصلے نہیں ہیں ۔ آپ اپنی تجاویز پیش کیجئے اور آپس میں رائے شماری کرلیجئے۔
 
ایک تجویز میری یہ بھی ہے کہ جتنے لوگوں نے ہاں میں ہاں ملائی ہے وہ ہر تین دن میں ایک دفعہ اس دھاگے پر ایک پوسٹ ضرور کریں اور کم از کم اپنے خیالات کا اظہار کریں تاکہ یہ جذبہ سرد نہ پڑے۔
میں آج صدر مشرف کے الیکشن سے بہت اداس ہوں اور مجھے ابھی تک کوئی بندہ ایسا نہیں ملا جو اس صورتحال سے خوش ہو۔

ابھی تک ہم نے جو اصول بنائے ہیں اس سے کچھ دوستوں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ شاید یہ صرف ایک سیاسی تنظیم ہی ہوگی جبکہ میرے خیال سے ہم عوامی فلاح و بہبود کو اولین ترجحیح دے رہے ہیں اور سیاست کے لیے اسی تنظیم کا ایک اور ونگ بنا سکتے ہیں جس سے وابستگی ہر رکن کے لیے لازم نہ ہوگی اور نہ ہی تمام اراکین کا سیاست پر اظہار خیال کرنا لازمی قرار پائے گا اگر میں کہیں غلطی کر رہا ہوں تو براہ کرم میری اصلاح کر دیجیے۔
 
اپنے قوت بازو پر بھروسے اور اللہ پر ایمان کی مدد سے، بے لوث اتحاد کے لیے ایک تنظیم

یہ تنظیم کیا ہونی چاہئے؟

آئیے اس مشکل سوال کا حل ڈھونڈنے کی مشترکہ کوشش کرتے ہیں۔ میں سوال کرتا ہوں، آپ جوب دیجئے اور اگر مزید سوال بھی ذہن میں‌آتے ہیں تو کیجئے۔

1۔ کیا پاکستان کی اکثریت پرویز مشرف کے صدر رہنے کے خلاف ہے؟ یا یہ صرف ان لوگوں کا نعرہ ہے جن کی آواز بلند ہے؟
ہمیں‌پتہ کیسے چلے گا؟

2۔ منتخب شدہ نمائیندوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ قوم کیا چاہتی ہے؟
ہمیں‌کیسے پتہ چلے گا کہ قوم کیا چاہتی ہے؟

3۔ کیا ہمارے نمائیندوں کو پتہ ہے کہ مشرف کو چننے کا فیصلہ قوم کا فیصلہ ہے؟ اگر یہ جرم ہے تو کیا وہ دوبارہ چنے جائیں گے یا قوم ان کو منتخب نہیں‌کرے گی؟
ہم کو اور ہمارے نمائیندوں کو یہ کیسے پتہ چلے گا؟

4۔ ہماری اعلی ترین عدالتوں‌کو کیسے پتہ چلے گا کہ قوم ان کے ساتھ ہے؟
اور ہم کو کیسے پتہ چلے گا کہ قوم اعلی ترین عدالتوں کے ججوں کے ساتھ ہے؟

5۔ آپ کے علاقہ میں روز موبائیل فون چھینے جاتے ہیں۔ آپ کے ایس پی کن لوگوں کی شکائت کے بعد علاقہ سے ایسے چوروں‌کی بیخ‌کنی کرے گا؟
کیا وہ شکائت محلے کے مرغی فروش کی ہوگی؟ یا کسی قومی اسمبلی کے ممبر کے چچا جان کے لٹنے کے بعد پولیس حرکت میں آئے گی؟

6۔ جو لوگ اسمبلیوں سے استعفی دے کر بھاگ گئے، کیا ان کو قوم نے استعفی دینے کے لئے اسمبلیوں میں بھیجا تھا؟
ان استعفی دینے والوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ ان کے ووٹرز اس بات کو پسند کرتے ہیں یا نہیں؟

آپ ان سب معاملات میں دیکھئے کیا چیز، کیا شے موجود نہیں؟

وہ ہے ایک مؤثر دوہرا با اثر رپورٹنگ کا نظام۔ پھر بغور دیکھئے،
مثال:
آپ میں سے کتنوں کے موبائیل فون چھینے گئے ہونگے اور آپ ایسے کتنوں کو جانتے ہونگے جن کے فون چھنے ہوں گے۔
آپ سب نے رپورٹ لکھائی ہوگی اور اب تو یہ حال ہے کہ لوگ چوری ہونے کی رپورٹ بھی نہیں کراتے۔ آپ کو اس کا علاج نظر آتا ہے؟

آپ کہیں گے بھائی، ان مسائیل کا تو سب کو پتہ ہے۔ ان کا حل کیا ہے۔

میں اس کے حل میں یہ خیال پیش کرتا ہوں۔ اس میں‌مسجد ایک ممکنہ حل ہے لیکن ضروری نہیں ہے۔
یہ حل ہے کہ ہمارے اکہرے ایڈمنسٹریشن کے سٹرکچر کو تبدیل کیا جائے۔ اور ایک دہرا ایڈمنسٹریشن سٹرکچر بنایا جائے۔ آپ کہیں‌گے یہ اکہرا کیسے ہے؟ اور دہرا کیسے ہوگا۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔

اکہرا ایڈمنسٹریشن سٹرکچر:
سب سے پہلے یہ مان لیجئے کہ ہمارے نظام میں کچھ نہ کچھ خرابی ہے۔ کہ سب لوگ ہی ناخوش ہیں۔ وہ خرابی یہ ہے کہ ' ہمارا پورا نظام ' جس میں ہمارا سیاسی نظام، حکومتی نظام، فوجی و عسکری نظام، پولیس کا نظام، کمشنری( سابقہ) کا نظام، زمینوں کا نظام، ٹیکسز کا نظام۔ فلاحی نظام گویا آپ جس نظام کو بھی دیکھئے وہ اکہرا ہے۔ وہ کیسے؟
'ہمارا پورا نظام ' بنایا تھا انگریزوں نے جن کے نزدیک عوام کی حیثیت گدھے گھوڑوں سے زیادہ نہ تھی، بلکہ اس سے بھی کم تھی۔ کہ گدھے گھوڑوں کو ظلم سے بچانے کے لئے کوئی محکمہ تو ہے لیکن اگر وہی گدھا گاڑی ایک آدمی دھوپ میں کھینچ رہا ہو تو اس کو اس ظلم سے بچانے کے لئے کوئی محکمہ نہیں۔ ہماری یعنی عام آدمی کی رائے اوپر تک پہنچانے کی نہ ضرورت تھی اور نہ ہی اس کا کوئی نظام تھا اور نہ ہی ہے۔ تو نتیجہ اس کا کیا نکلا ہے؟ عام آدمی کے ساتھ گدھے گھوڑے جیسا سلوک۔

اس کی مثال آپ کو ہر طرف ملے گی۔ بناء‌کسی سورس سفارش کے کوئی کام نہیں‌ہوتا۔ کچھ لوگ مطلق العنان ہیں اور کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ چاہے وہ معمولی سا کلرک ہو، کوئی اعلی عہدیدار ہو یا پرویز مشرف۔ یہ کوئی نئی بات نہیں‌کی میں نے۔ سب ہی لکھتے ہیں۔ اور یہ ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔

کیوں؟ اس لئے کہ اس کا (نستعلیق بنانے کے انجن کا ) ڈیزائین ہی خراب ہے۔
یہ کب تک ہوتا رہے گا؟ کب تک ہم ایک دہرا نظام اس اکہرے ایڈمنسٹریشن کے نظام پر پہرے دار نہیں بٹھاتے۔
یہ دہرا پہرے داری نظام کب بنے گا؟ جب ہم اور آپ بنائیں گے۔
آج کل اس دہرے پہرے داری نظام کا کوئی وجود ہے؟
جی ہے، ہم روز بروز ہڑتالوں سے اور شور مچا کر اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن یہ کوشش صرف بہت تھوڑے سے لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے اور اس سے فائیدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اس دہرے پہرے داری نظام کی غیر موجودگی میں صرف یہی ایک حل ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ کا حل چاہئیے تو پہیہ جام ہڑتال کردی جائے۔ یہ تو ایسا ہے کہ بندہ جب بھی بیمار ہو تو سانس روک کر لیٹ‌جائے۔


یہ دہرا نظام کیا کرے گا اور کیسے کرے گا؟
میں‌نے پہلے یہی مثال مسجد سے دی تھی۔ مسجد اس کام کے لئے آئیدئیل جگہ ہے۔ لیکن ضروری نہیں، وہ اس لئے کہ یہ کام مذہبی نہیں اور سیاسی بھی نہیں۔ یہ نظام اس طرح کام کرے گا۔ آپ کا سیل فون گن پوائینٹ پر لوٹ لیا جاتا ہے۔ آپ رپورٹ لکھاتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ آپ اپنے کلب میں یا مسجد میٹنگ میں جا کر کہتے ہیں۔ وہا ں ایسے ہی دس بندے اور ہیں، سب مل کر ایک قراداد پاس کرتے ہیں اور یہ مشترکہ قراداد دوسری مساجد میں بھجوادی جاتی ہے۔ اس علاقہ کی 50 مساجد کی مشترکہ قرار داد جس میں ہر مسجد میں 200 افراد ہیں، اس بیان کے ساتھ مقامی منتخب نمائیندے کے پاس جاتی ہے کہ اس درخواست (‌در حقیقت عوامی آرڈر) پر 10 ہزار افراد کے دستخط ہیں اور مقامی منتخب نمائیندہ بھی یہ جانتا ہے کہ جس آفس سے یہ درخواست آئی ہے وہ یقیناَ‌ دس ہزار افراد پر مشتمل ہے تو وہ اپنے حلقہ انتخاب سے دس ہزار افراد کی مخالفت مول لینا پسند نہیں کرے گا۔ جب کہ اس کو معلوم ہو کہ یہ دس ہزار افراد پڑھے لکھے ہیں اور 15 دن بعد پھر اس نکتہ پر 10 ہزار افراد غور کریں گے کہ علاقہ میں چوریوں‌کی رپورٹ فلاں صاحب کے پاس گئی ہے۔ اور انہوں نے کچھ نہیں‌کیا۔ یا کچھ کیا جس کا نتیجہ سامنے آیا۔

مقامی منٹخب نمائیندہ، جو بھی ہو، ناظم ہو، کمشنر ہو، گورنر ہو، معاملہ سطح بہ سطح اٹھتا رہے گا جب تک کے اس علاقہ یہ اس شہر یا اس صوبہ یا ملک گیر سطح پر، اس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ اب یہی مثال کسی بھی مسئلہ کے لئے رکھ لیجئے۔

یہ وہ اطلاعی نظام ہے جو کہ موجود نہیں۔ ایک ایسا نظام کہ جب ایک ذمہ دار آفیسر اکثریت کی درخواست پر عمل نہ کرے تو اس کو بہت سے لوگوں کی طرف سے مخالفت کا اندیشہ ہو اور اس کو یہ پتہ ہو کہ یہ اس کے اوپر والے کا آرڈر ہے اور اس کے پیچھے عوام کی اکثریت ہے کیوں کہ یہ معاملہ آیا ہے 'رہبروں' سے۔

اگر ہم ایک ایسا نظام قائم کرسکیں جس میں‌ عام آدمی کی رائے مناسب مرحلہ تک پہنچ جائے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ذمہ دار افراد کو محسوس ہو تو یہ نظام تمام لوگوں کی مدد سے درستگی کے عمل کو جنم دے گا۔ ہمارے منتخب شدہ نمائیندہ کو پتہ ہو گا کہ اس کا عوام کی رائے کے خلاف فیصلہ اگلے انتخاب میں اس کا مستقبل تاریک کردے گا۔


اس نظام کو قائم کیسے کیا جائے؟
اس کے لئے ہم کو کہیں سے تو ابتداء کرنی ہوگی۔ اور یہ دوستوں کو ایک ایسا ہی مضمون بنانا ہوگا کہ جو کہ آسانی سے سمجھ میں آجائے اور وہ دوسروں کو بتا سکیں۔ بنیادی طور پر ہم کو یعنی عام آدمی کوحکومت میں اپنا حصہ طلب کرنا ہے۔ تاکہ ہر آدمی کی رائے خود اس کی بھلائی کے لئے منظم ہوکر حکام تک پہنچتی رہے۔ اس میں مخالفت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ صرف ممبرز اس کے اجلاس یا میٹنگز میں شامل ہوں۔ تاکہ لوگوں‌ میں اس میں شریک ہونے کی ضرورت محسوس ہو۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کا کوئی سربراہ نہیں ہوگا۔ اور آہستہ آہستہ یہ ملک کے ، سیاست کے ، حکومت کے ہر معاملے پر بتدریج ایک اندیکھا کنٹرول حاصل کرلے گی۔ اس قسم کے پر امن نظام کی موجودگی میں کوئی بھی اپنی من مانی نہ کرسکے گا۔

تو ضرورت اس امر کی ہے کہ باہمی بھائی چارہ کی بنیاد پر آپس کے اتحاد کو ایمان سے منظم کیا جائے، (‌ایمان، اتحاد، تنظیم) اس کو سیاسی بغض اور مذہبی تفرقوں سے محفوظ رکھا جائے۔ تاکہ مخالف عناصر سیاسی وحدتوں اور مذہبی تفرقوں کے نام پر اس تنظیم کے ٹکڑے نہ کرسکیں۔ آپس میں بھائی چارہ اور عظیم تر مفاد کو مد نظر رکھا جائے تاکہ لوگ اس اکلوتی اکائی میں‌شامل ہوں، چاہے وہ کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کو ووٹ دیں ۔ لیکن وہ جانتے ہوں کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے اور اکثریت کی رائے اس سلسلے میں کیا ہے۔ اور کس طرح عام آدمی کے مفاد کو یعنی اپنے مفاد کو یعنی بھائی چارہ کو ہر وقت اہمیت حاصل ہو۔ اس تنظیم کے آپس میں کمیونیکیشن کے لیے کچھ فنڈز چاہئیے ہوں گے، وہ آپس میں چندہ کر کے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس تنظیم کا سربراہ کوئی نہیں ہوگا۔ ہر یونٹ‌، ہر کلب خود مختار ہوگا لیکن مقصد ایک ہی ہوگا۔ اس طرح شہری اور صوبائی اور ملکی سطح پر آپس میں کمیونیکیٹ کرکے کسی بھی مسئلہ پر رائے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہر کلب آپس میں انتظامی ذمہ داریوں کے لئے ہر سال اپنے امور کا واجبی نگراں چن سکتا ہے۔ جس کا کام آپس میں کمیونیکیٹ‌ کرنے کے کام کی ذمہ داری ہو۔ ان کلبوں کی علاقائی، شہری اور صوبائی اور ملکی سطح پر جوں جوں کلبوں کی تعداد بڑھتی جائے، ایک بڑا کلب بنا دیا جائے تاکہ وہ ایک سینٹرل پوائنٹ ہو معلومات کی فراہمی کا۔ اس کے تنظیم کی ڈیمانڈز کی شکل صرد درخواستی ہوگی، مقصد موجودہ حکومت کی مخالفت نہیں بلکہ اس کو فعال بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے تاکہ حکومت کو ہمیشہ معلوم ہوتا رہے کہ عام آدمی کیا چاہتا ہے۔

ہر میٹنگ کا ریکارڈ رکھنا ہوگا۔ تاکہ تمام نکات جو پیش کئے جائیں اور جن پر سب مل کر ووٹ دیں کے اس معاملے کو اعلی حکام کے سامنے آگے بڑھایا جائے، ان نکات کا ریکارڈ‌رکھنا ہوگا۔ ہر کلب کی ہر میٹنگ میں‌جو معاملات طے پائیں ان کو ریکارڈ رکھنا ہوگا، جب تک وہ معاملہ حل نہ ہو جائے۔ ابتدا میں زور اس بات پر رکھا جائے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ بات پہنچائی جائے اور پڑھے لکھے لوگوں کو اس تنظیم کا ممبر بنایا جائے۔ یہ واضح‌کردیا جائے کے اپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو یا مذہبی وابستگی کچھ بھی ہو، مقصد ہے اس جغرافیائی وحدت جس کو ہم آج پاکستان کہتے ہیں، کی بہتری اور حفاظت ہے۔ اور مشترکہ طور پر مل کر ایک ایسی آواز بن جانا ہے کہ ہر حکومت اس کو سنے بنا رہ نہ سکے۔

میں یہ بنیادی یہ مقصد تجویز کرتا ہوں۔
کامیاب و کمیاب لوگوں کو لے کر مزید کامیاب بنانا، اور ان کامیاب لوگوں کی مدد سے ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر، جس کی حد ہو عالمگیر۔

اب آئیے اس کے عالمگیر پہلو کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپ جس بھی اسلامی ملک میں جائیے آپ دیکھیں گے کہ عام آدمی یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ تمام مسلم ممالک کو ایک ملک ہونا چاہئیے۔ جب تک یہ نہ ہوگا، تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی کے دباؤ میں ہی رہیں گے۔ ایسی وحدت کا تصور بناء ایک ایسی تنظیم کے نا ممکن ہے جو عام آدمی کے اشتراک کے بنا بنی ہو۔

آپ نے دیکھا ہے کہ جب ساؤتھ پول پر سردی بے تحاشا پڑھ جاتی ہے اور سرد ترین ہوائیں چلنے لگتی ہیں تو تمام پینگوئین ایک جگہ مل کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اندر سے باہر کی طرف آتے رہتے ہیں تاکہ وہ مل کر گرم رہیں۔ یہ تنظیم ان کو گرم رکھتی ہے اور سرد ترین ہواؤں اور سرد ترین موسم میں بھی یہ جانور اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو زندہ رکھتا ہے۔ ہمیں‌ بھی ایسی ہی تنطیم اور اسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے۔ جو سیاسی وحدتوں اور مذہبی تفرقات سے بلند ہو، کہ یہ تو ہماری آئیندہ نسلوں کی بقا کا سوال ہے۔

اوپر دئے گئے سوالوں کے جواب دینا نہ بھولئے گا۔

اپنے قوت بازو پر بھروسے اور اللہ پر ایمان کی مدد سے، بے لوث اتحاد کے لیے ایک تنظیم

والسلام
 

دوست

محفلین
ایسا کریں کہ اس کے منشور کا خاکہ بنادے کوئی دوست۔ فاروق صاحب آپ ہم سے زیادہ صاحب علم ہیں۔ پھر جس کسی کو اعتراض ہو اس نکتے پر بحث‌ کر لی جائے۔ خام تجاویز تو میرے خیال سے آچکیں‌ اب۔
 
دوست، آپ کی ہمت افزائی کا شکریہ۔ میں آپ کی طرح‌ایک ساتھی ہوں۔ اپنے خیالات پیش کردیتا ہوں۔ ان کو فیصلہ نہ سمجھئے۔ جو میں نہیں سمجھتا اس کی اصلاح کردیجئے۔ مجھے اندازہ ہے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ لیکن کہیں‌سے تو شروع کرنا ہی ہوگا۔ ایمان اور یقین محکم کے ساتھ ایک منظم اتحاد، جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا، لیکن وقت کی کمی کے باعث وہ اس نئے ہدف کو عوام تک پہنچا نہیں سکے۔ اب ہم سب کا یہ فرض‌ہے کہ ہم ایمان، اتحاد اور تنظیم کے معنی سمجھیں اور ایک ایسی تنظیم کو جنم دے کر اس خواب کو شرمندہ ء تعبیر کردیں

ساتھی اس تنظیم کے لئے کوئی اچھا نام تو تجویز کریں۔ اس بات کو سمجھیں اور اگر یہ تجویز مناسب لگتی ہے تو اس پر عمل کرنے کے لئے لائحہ عمل تجویز کریں کہ کم سے کم وقت میں یہ ملک بھر میں پھیل جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تنظیم زیادہ فعال اور کارآمد ہوگی بہ نسبت ہڑتالوں کے۔ کہ یہ جمہوری طرز عمل ہے۔ درست طریقہ سے سمجھ میں آگیا تو لوگ بہت تیزی سے ساتھ آئیں گے۔
 

عمر میرزا

محفلین
یہ دہرا نظام کیا کرے گا اور کیسے کرے گا؟
میں‌نے پہلے یہی مثال مسجد سے دی تھی۔ مسجد اس کام کے لئے آئیدئیل جگہ ہے۔ لیکن ضروری نہیں، وہ اس لئے کہ یہ کام مذہبی نہیں اور سیاسی بھی نہیں۔ یہ نظام اس طرح کام کرے گا۔ آپ کا سیل فون گن پوائینٹ پر لوٹ لیا جاتا ہے۔ آپ رپورٹ لکھاتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ آپ اپنے کلب میں یا مسجد میٹنگ میں جا کر کہتے ہیں۔ وہا ں ایسے ہی دس بندے اور ہیں، سب مل کر ایک قراداد پاس کرتے ہیں اور یہ مشترکہ قراداد دوسری مساجد میں بھجوادی جاتی ہے۔ اس علاقہ کی 50 مساجد کی مشترکہ قرار داد جس میں ہر مسجد میں 200 افراد ہیں، اس بیان کے ساتھ مقامی منتخب نمائیندے کے پاس جاتی ہے کہ اس درخواست (‌در حقیقت عوامی آرڈر) پر 10 ہزار افراد کے دستخط ہیں اور مقامی منتخب نمائیندہ بھی یہ جانتا ہے کہ جس آفس سے یہ درخواست آئی ہے وہ یقیناَ‌ دس ہزار افراد پر مشتمل ہے تو وہ اپنے حلقہ انتخاب سے دس ہزار افراد کی مخالفت مول لینا پسند نہیں کرے گا۔ جب کہ اس کو معلوم ہو کہ یہ دس ہزار افراد پڑھے لکھے ہیں اور 15 دن بعد پھر اس نکتہ پر 10 ہزار افراد غور کریں گے کہ علاقہ میں چوریوں‌کی رپورٹ فلاں صاحب کے پاس گئی ہے۔ اور انہوں نے کچھ نہیں‌کیا۔ یا کچھ کیا جس کا نتیجہ سامنے آیا۔

مقامی منٹخب نمائیندہ، جو بھی ہو، ناظم ہو، کمشنر ہو، گورنر ہو، معاملہ سطح بہ سطح اٹھتا رہے گا جب تک کے اس علاقہ یہ اس شہر یا اس صوبہ یا ملک گیر سطح پر، اس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ اب یہی مثال کسی بھی مسئلہ کے لئے رکھ لیجئے۔

یہ وہ اطلاعی نظام ہے جو کہ موجود نہیں۔ ایک ایسا نظام کہ جب ایک ذمہ دار آفیسر اکثریت کی درخواست پر عمل نہ کرے تو اس کو بہت سے لوگوں کی طرف سے مخالفت کا اندیشہ ہو اور اس کو یہ پتہ ہو کہ یہ اس کے اوپر والے کا آرڈر ہے اور اس کے پیچھے عوام کی اکثریت ہے کیوں کہ یہ معاملہ آیا ہے 'رہبروں' سے۔

اگر ہم ایک ایسا نظام قائم کرسکیں جس میں‌ عام آدمی کی رائے مناسب مرحلہ تک پہنچ جائے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ذمہ دار افراد کو محسوس ہو تو یہ نظام تمام لوگوں کی مدد سے درستگی کے عمل کو جنم دے گا۔ ہمارے منتخب شدہ نمائیندہ کو پتہ ہو گا کہ اس کا عوام کی رائے کے خلاف فیصلہ اگلے انتخاب میں اس کا مستقبل تاریک کردے گا۔

آپ نے بہت اچھا آڈیا دیا ہے مگر میرے خیال میں یہ ہمارے معاشرے میں اتنا موثر
نہیں ہوگا اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ کا تجویز کردہ "اطلاعی نظام" چلے گا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس اطلاع پر عمل درامد کا طریقہ کار یعنی قانون ہی بڑا ناقص ہے۔ اور اس کی ہزار ہا مثالیں ہیں پچھلے ہفتہ کی بات ہے جب اسلام آباد پولیس نے صحافیوں اور وکلاء کے ساتھ جو کچھ کیا (اس بات سے قطع نظر کے وہ کس مقصد کے کئے جمع ھوے تھے) کتنوں کو مارا پیٹا گیا کتنوں کو زخمی کیا گیا۔ اس پر میڈیا نے کتنا واویلا مچایا تمام پاکستانی عوام کی ھمدردیاں بھی حاصل کیں مگر کیا ہوا صرف چند افسران کی معطلی ۔اور جب معاملہ ٹھنڈا ہو گا تو ان کو دوبارہ بحال کر دیا جائے گا ۔
ُُپھر آپ لال مسجد کے واقعہ کو بھی لیں جب اہل محلہ لال مسجد والوں کے ساتھ علاقے میں تھانے جاتے ہیں اور انہیں ایک بد قماش عورت کے خلاف ایک درخواست پیش کرتے ہیں جس پر 100 معززیں کے دستحط بھی ہیں مگر تھانیدار ھاتھ باندھ کر کہتا ہے کہ میں مجبور ہوں میں کچھ نہیں کر سکتا اس عورت کی پہنچ اوپر تک ہے۔۔

ہمارے ہاں نجی بیشتر ٹی وی چینلز یہ "اطلاعتی کام" بڑے احسن طریقے سے کر رہے ہیں کئی ایسے سلسلہ وار پرگرامز ہیں جن میں علاقے کے ناظمین،آیم این ایز ،ایم پی ایز ، پولیس کے افسران،سول افسران، مختلف وزارتوں کے وزیر، حتٰی کہ وزیر اعٰٰلی ،وزیر اعظم اور صدر تک کو بلایا جاتا ہے انیہں عوام کے روبرو کر کے ان سے ان کی کوتاہیوں ،ان کی نا اہلیوں کی بابت پوچھا جاتا مگر یہ لوگ صاف مکر جاتے ہیں اور اپنی چرب زبانی سے ایسی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ عوام یہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے کہ شائد ھمارے مسائل کی وجہ شائد کچھ اور ہی ہے۔
اور اگر کبھی کبھار مان بھی جاہیں تو تب بھی ھوتا کچھ نیہں مثا ل کے طور پر شوگر مل والا اسکینڈل، میڈیا نے ان مل مالکان کی نشاندہی بھی کر دی جو چینی کے بحران میں براہ راست ملوث تھے مگر ان کے خلاف کیوں کوئی کارروائی نہی کی گئی اس لئے کہ ان میں سے کثیر تعداد حکومتی ٹولے میں شامل تھیں۔

اور اب تو پاکستان کی تاریح میں ایک اور کالے قانون کو شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق اب جتنے بھی کرُپٹ سیاستدان تھے سب کے سب اس "مفاہمتی آرڈینینس " کی گنگا میں اشنان کر کے پوتر ھو گئے ہیں ان پر جو بھی الزام عائد تھے یا کوئی جرم بھی اگر ثابت تھا اس سے بھی بری الزمہ کر دیا گیا ہے۔یعنی ان میں سے اگر آپ کے علاقے میں ناجائز فروشی کرتا یا آپ کی زمیں پر قبضہ کر رکھا ہے یا آپ کے کسی عزیز کا قتل کیا ھے تو اب آپ چاہے ہزار بندوں کو ساتھ ملائیں یا ایک لاکھ کچھ بھی نہیں ھو گا آپ کو پاکستان کی کسی عدالت سے انصاف نییں ملے گا ۔

اور یہ بھی ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ شا ئدحکومت عوام کے مسائل سے لاعلم ہے بلکہ ہر گز ایسا نہیں حکومت تو بے حد باحبر ہے وہ تو یہ بھی جانتی ہے کہ نہ صرف کسی ایک گھر کے افراد کتنے ہیں ان کا ذریعہ معاش کیا یے ،بالغ کتنے اور نابالغ کتنے ہیں ،پانی سرکاری نل سے آتا ہے یا کنوئیں سے بلکہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور یہ بھی کہ گھر میں اگلے بچے کی پیدائش کب تک متوقع ہے ۔حکومت کے پاس یہ معلومات حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ھوتے جن میں حفیہ ایجنسیاں ، تھانہ ،علاقائی کونسلر ،ناظمین ، نادرہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز شامل ہیں۔




'ہمارا پورا نظام ' بنایا تھا انگریزوں نے جن کے نزدیک عوام کی حیثیت گدھے گھوڑوں سے زیادہ نہ تھی، بلکہ اس سے بھی کم تھی۔ کہ گدھے گھوڑوں کو ظلم سے بچانے کے لئے کوئی محکمہ تو ہے لیکن اگر وہی گدھا گاڑی ایک آدمی دھوپ میں کھینچ رہا ہو تو اس کو اس ظلم سے بچانے کے لئے کوئی محکمہ نہیں۔ ہماری یعنی عام آدمی کی رائے اوپر تک پہنچانے کی نہ ضرورت تھی اور نہ ہی اس کا کوئی نظام تھا اور نہ ہی ہے۔ تو نتیجہ اس کا کیا نکلا ہے؟ عام آدمی کے ساتھ گدھے گھوڑے جیسا سلوک۔


بجا ارشاد فرمایا۔۔ 100 فیصدی ایسا ہی ہے۔


آج کل اس دہرے پہرے داری نظام کا کوئی وجود ہے؟
جی ہے، ہم روز بروز ہڑتالوں سے اور شور مچا کر اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن یہ کوشش صرف بہت تھوڑے سے لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے اور اس سے فائیدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اس دہرے پہرے داری نظام کی غیر موجودگی میں صرف یہی ایک حل ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ کا حل چاہئیے تو پہیہ جام ہڑتال کردی جائے۔ یہ تو ایسا ہے کہ بندہ جب بھی بیمار ہو تو سانس روک کر لیٹ‌جائے۔

متحدہ مجلس عمل والوں نے اس سے ملتا جلتا کام کیا اور وہ تھا "حسبہ بل" اور اس بل کے مطابق اس بات کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ ہر حکومتی محکمے میں ایک
قاضی حسبہ بھی ھونا چاہیے جس کا کام یہ ھو گا کہ وہ عوامی شکایا ت سنے ان کا ازالہ کرے اور بد دیانت آفیسرز کے بارے میں حکام کو آگاہ کرے اور ان کے خلاف قانونی چارہ بھی کرے ۔مگر پاکستان کے مطلق العنان صدر نے بیک جنبش قلم اس کو یہ کہ کر مسترد کر دیا کہ یہ ایک آئین کی موجودگی میں دوسرا آئین بنانے والی بات ہے۔ حالانکہ اگر حکومت چاہتی تو اسے ایک اچھی تجویز کے طور پر نافذ کر سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ
موجودہ نطام کا حصہ بن کر اس کو تقویت نہ پہنچائی جائے بلکہ باہر رہ کر اس نظام کو بدلا جائے اور اس کے رائج قانون کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔


ً
 
Top