ناز خیالوی ""رات دِن میزانِ غم پر تولتی رہ جائے گی"" نازؔ خیالوی

رات دِن میزانِ غم پر تولتی رہ جائے گی
زندگی مجھ کو رلاتی رولتی رہ جائے گی

پھڑ پھڑا کر اپنے پر پنچھی کوئی اڑ جائے گا
دیر تک سونی سی ٹہنی ڈولتی رہ جائے گی

دے کے دستک میں گزر جاؤں گا جھونکے کی طرح
وہ تغافل کیش کھڑکی کھولتی رہ جائے گی

موت اپنا کام کر جائے گی خاموشی کے ساتھ
زندگی کچھ منہ ہی منہ میں بولتی رہ جائے گی

داؤ چلتے ہی سپیرا کوئی ڈس لے گا اسے
زخمی ناگن عمر بھر بِس گھولتی رہ جائے گی


اُس کے من مندر میں ہوں گا ناز میں وقفِ نیاز
وہ مجھے مسجد گلی میں ٹولتی رہ جائے گی
نازؔ خیالوی
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
سر فرخ منظور کیا یہ لفظ وقفِ نیاز ہی لکھا گیا ہو گا

جی یہ وقفِ نیاز ہی ہو گا۔ تابش بھائی نے بھی اسی لیے نشاندہی کی کیونکہ یہ مصرع اسی صورت میں وزن میں آتا ہے جب یہ وقفِ نیاز لکھا گیا ہو اور معنوی صورت میں بھی یہی لفظ قرینِ قیاس ہے۔
 
جی یہ وقفِ نیاز ہی ہو گا۔ تابش بھائی نے بھی اسی لیے نشاندہی کی کیونکہ یہ مصرع اسی صورت میں وزن میں آتا ہے جب یہ وقفِ نیاز لکھا گیا ہو اور معنوی صورت میں بھی یہی لفظ قرینِ قیاس ہے۔
یہ اصل میں بھی یہی ہے میری اپنی غلطی ہے :) شکریہ سر
 
Top