داغ وہ جلوہ تو ایسا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
وہ جلوہ تو ایسا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا
آنکھوں کو مگر دید کا لپکا نہیں جاتا

کیا خاک کروں ان سے تغافل کی شکایت
یہ حال ہی ایسا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا

آغوش میں لوں پاؤں پڑوں کھینچ لوں دامن
ہاتھ آئے جو تجھ سا اسے چھوڑا نہیں جاتا

کیا جانے کوئی اور وہ کیا ہے وہی جانے
سمجھا نہیں جاتا اسے جانا نہیں جاتا

یہ داغ مٹائے نہیں مٹتا نہیں مٹتا
یہ دردِ محبّت، نہیں جاتا، نہیں جاتا

یہ بھی ہے نئی ان کو نزاکت کی شکایت
کہتے ہیں ترے دل کو ستایا نہیں جاتا

وہ حال ہے میرا کہ مرے کاتبِ اعمال
لکھتے ہیں مگر ان سے بھی لکھا نہیں جاتا

دل بستگی اس کوچے میں ایسی ہے بشر کی
دیوانہ بھی پھر جانبِ صحرا نہیں جاتا

کہتا ہوں تو رکتی ہے زباں سامنے اس کے
لکھتا ہوں اگر حال تو لکھّا نہیں جاتا

کیا قاصدِ نا فہم کو میں باندھ کے بھیجوں
وہ تو نہیں جاتا، نہیں جاتا، نہیں جاتا

میں وضع کا پابند ہوں گو جان بھی جائے
جب کوئی بلانے نہیں آتا، نہیں جاتا

عاشق سے کسی بات میں قائل نہیں ہوتے
معشوقوں کا ہر حال میں دعویٰ نہیں جاتا

دل ایک نہیں چھوڑا، دہائی ہے خدا کی
پھر مانگنے والوں کا تقاضا نہیں جاتا

ہم جان سے جاتے ہیں محبّت میں کسی کی
اپنا ہے ضرر کچھ بھی کسی کا نہیں جاتا

اس کے تو نگہبان مزے لوٹ رہے ہیں
تنہا نہیں آتا، کبھی تنہا نہیں جاتا

وہ کہتے ہیں کیا جور اٹھاؤ گے تم اے داغ
تم سے تو مرا ناز اٹھایا نہیں جاتا

(داغ دہلوی)
 
وہ جلوہ تو ایسا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا
آنکھوں کو مگر دید کا لپکا نہیں جاتا
خوب
آغوش میں لوں پاؤں پڑوں کھینچ لوں دامن
ہاتھ آئے جو تجھ سا اسے چھوڑا نہیں جاتا
کیا کہنے
یہ بھی ہے نئی ان کو نزاکت کی شکایت
کہتے ہیں ترے دل کو ستایا نہیں جاتا
واہ
وہ حال ہے میرا کہ مرے کاتبِ اعمال
لکھتے ہیں مگر ان سے بھی لکھا نہیں جاتا
آہ
کہتا ہوں تو رکتی ہے زباں سامنے اس کے
لکھتا ہوں اگر حال تو لکھّا نہیں جاتا
اوہ
مزہ آگیا جناب، کیا خوب انتخاب ہے۔
 
Top