پاکستان کی خوبصورت جھیلیں

حسن ترمذی

محفلین
سنا ہے کوئی لونڈنڈ جھیل بھی ہے سوات کے پاس جہاں تک دو گھنٹے کی ٹریکنگ ہے اور وہاں ابھی تک مشینوں کی آلودگی نہیں پہنچی.. اس کے بارے بھی کچھ بتائیں
 

زیک

مسافر
اسلام آباد میں بھی ایک جھیل ہے کنول جھیل۔ پہلے آپ کو اس کی مسحور کن تصویر دکھاتا ہوں۔ جس کو دیکھ کر سوچا کہ کاش اصل میں نہ دیکھی ہوتی۔
Dina%2B%25283%2529.jpg
یہ اسلام آباد والی ہے؟ وہ تو بالکل بھی ایسی نہیں ہے۔
 
یہ اسلام آباد والی ہے؟ وہ تو بالکل بھی ایسی نہیں ہے۔
مجھے بھی یہی لگ رہا ہے، لیکن نیٹ پر اسی نام سے پڑی ہے۔ غلط ہی ہو گی۔
ویسے ایک ایوب پارک راولپنڈی میں بھی ہے۔ وہ نہ ہو۔ تصویر پر راولپنڈی اسلام آباد لکھا ہے
 

زیک

مسافر
یاز اگر اپنی یا دوستوں کی کھینچی ہوئی تصاویر شیئر کریں تو بہتر ہو گا۔ انٹرنیٹ پر عام موجود تصاویر میں اکثر غلط نام بھی لکھا ہوتا ہے اور دوسرے saturation وغیرہ اتنی بڑھا کر تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں کہ حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہتا۔ پاکستان کے شمال میں بہت خوبصور جھیلیں ہیں انہیں فوٹوشاپ کی overprocessing کی ضرورت نہیں۔
 

arifkarim

معطل
نیٹ پر راول جھیل کی یہ تصویر ملی:
rawal_lake2.jpg

ہم بچپن سے اس جھیل کو دیکھتے آئے ہیں اور یہ اتنی رنگین تو کبھی نہیں تھی
 

زیک

مسافر
بہت خوب جناب۔ یہ جان کے از حد خوشی ہوئی۔ دوبارہ دیکھنے کا بھی قصد کریں۔ ساتھ میں لگے ہاتھوں دیوسائی کی زیارت بھی کر لیں۔
یہ رہی تصویر:
10399166_111499281081_6182558_n.jpg


رہی بات دوبارہ دیکھنے کا قصد کرنے کی تو یہ دیکھیں:
The Department of State warns U.S. citizens against all non-essential travel to Pakistan.
 

زیک

مسافر
شاید اسی لئے آپ پاکستان ایک آدھ ڈھائی دن کیلیے آتے ہیں تاکہ ان امریکی essentials کی حدود کو قائم رکھا جا سکے :)
اس بار جب پاکستان گیا تھا تو بہن بھائی امی ابو کوئی بھی وہاں نہیں تھا لہذا 3 دن کافی تھے کہ چھٹیاں بھی کم تھیں۔
 

یوسف سلطان

محفلین
گوگل سےمدد لی گئی ہے ۔
لولوسر جھیل:
لولوسر جھیل مانسہرہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور واقع ہے، ناران چلاس روڈ پر 3353 میٹر بلندی پر واقع لولوسر جھیل ناران کے قصبے سے ایک گھنٹے کی مسافت پر وادیٔ کاغان اور کوہستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس جھیل پر ہر سال روس سے آنے والے پرندے اور سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔
لولوسر دراصل اونچی پہاڑیوں اور جھیل کے مجموعے کا نام ہے، ناران آنے والے سیاح لولوسر جھیل دیکھنے ضرور آتے ہیں اور غضب ناک دریائے کنہار میں پانی کا بڑا ذریعہ لولوسر جھیل ہی ہے۔ جھیل کا پانی شیشے کی طرح صاف ہے اور لولوسر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں کا عکس جب جھیل کے صاف پانی میں نظر آتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے

542145ee33d56.jpg



 

یوسف سلطان

محفلین
گوگل ۔۔۔۔
دودی پتسر :
دودی پتسر جھیل وادیٔ کاغان کے انتہائی شمال میں 4175 میٹر بلند پر واقع ہے اور یہاں ناران کے علاقے جل کھاڈ (Jalkhad) سے چار گھنٹے کا سفر کر کے پہنچا جاسکتا ہے، مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں۔ لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے، درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کا پانی میں جھلکنے والا عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اس کا نام بھی رکھا گیا۔
یہ علاقہ اپنے جادوئی منظر سیاحوں کو اپنے خیمے یہاں لگا کر قدرتی خوبصورتی اور تنہائی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، جھیل دودی پتسر بند شکل میں خوبصورت برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگذار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گذار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے، جھیل کے اطراف میں چرا گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
542146c37bd3a.jpg
 

لاریب مرزا

محفلین
شیوسر جھیل
شاید ہی کوئی جھیل اپنی فسوں گری میں شیوسر کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ تقریباً 4200 میٹر بلند یہ جھیل دیوسائی میں واقع ہے، اور اس جنت نظیر جگہ کے اہم ترین لینڈ مارک کے طور پہ جانی جاتی ہے۔ شیوسر جانے کے لئے استور یا سکردو سے براستہ جیپ ٹریک جایا جا سکتا ہے۔ بعض ایڈونچر پسند لوگ ہمت کر کے اپنی کاریں بھی شیوسر تک لے آتے ہیں۔
6021321094_3ee4c006c7_b.jpg

2801771.jpg
خوبصورت!! یہ جھیل سب سے زیادہ مسحورکن معلوم ہو رہی ہے!! :daydreaming:
 

یوسف سلطان

محفلین
گوگل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالیجی جھیل:
ہالیجی جھیل کراچی سے 80 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے جسے دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ لگ بھگ بائیس ہزار ایکڑ پر مشتمل جھیل کا قطر اٹھارہ کلو میٹر ہے۔ ہالیجی جھیل پر کبھی موسمِ سرما میں لاکھوں پرندے ہجرت کرکے عارضی بسیرا کرتے تھے۔
یہاں پرندوں کے سوا دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں مگر اب یہاں بدیسی موسمی پرندے 'خال خال' ہی نظر آتے ہیں۔ صاف پانی کی عدم فراہمی سے جھیل ایک طرف رفتہ رفتہ خشک ہو رہی ہے تو دوسری جانب خود رو جھاڑیاں تیزی سے اسے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔
54214a2df0f7a.jpg



 

یوسف سلطان

محفلین
گوگل ۔۔۔۔۔۔
شنگریلا جھیل یا کچورا جھیل:
شنگریلا جھیل پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی ایک خوبصورت جھیل ہے۔ جو کہ اسکردو شہر سے بیس منٹ کی ڈرائیو کے فاصلے پر ہے۔ بنیادی طور پر کچورا جھیل دو جھیلیں ہیں جن میں سے ایک کو 'اپر کچورا جھیل' اور دوسری کو 'لوئر کچورا جھیل' یا شنگریلا جھیل کہتے ہیں۔
اپر کچورا جھیل :
اپر کچورا جھیل صاف پانی کی جھیل ہے جس کی گہرائی تقریباً 70 میٹر ہے، دریائے سندھ اس کے قریب ہی قدرے گہرائی میں بہتا ہے، گرمیوں میں دن کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بہت نیچے گر جاتا ہے جس کی وجہ سے جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ اسی طرح لوئر کچورا یا شنگریلا جھیل کو پاکستان کی دوسری خوبصورت ترین جھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظارہ کسی پر بھی سحر طاری کرسکتا ہے۔

54214b8d9f940.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
لوئر کچورا :
لوئر کچورا جھیل یا شنگریلا جھیل اصل میں شنگریلا ریسٹ ہاؤس کا حصّہ ہے، یہ سیاحوں کے لیے ایک مشہور تفریح گاہ ہے جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ گاڑی تقریباً 25 منٹ کی دوری پر ہے- شنگریلا ریسٹ ہاؤس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے، شنگریلا ریسٹ ہاؤس چینی طرز تعمیر کا نمونہ ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد اس کو دیکھنے کے لیے آتی ہے۔​
54214c52acac6.jpg

 

یوسف سلطان

محفلین
گوگل ۔۔۔۔۔۔
شندور جھیل:
پولو گراؤنڈ کے ساتھ شندور جھیل تخلیق فطرت کا عظیم شاہکار لگتی ہے۔ اس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی ایک میل ہے۔ اس جھیل میں نایاب پرندے بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھیل کے پانی کا ظاہری اخراج نہیں ہوتا یعنی پانی جھیل میں ٹھہرا دکھائی دیتا ہے مگر ماہرین کے مطابق پانی زیر زمین راستہ بنا کر سولاسپور اور لنگر میں جانکلتا ہے۔
5422a81c52668.jpg
 

یوسف سلطان

محفلین
گوگل ۔۔۔
ہنہ جھیل:
کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894 میں تاج برطانیہ کے دور میں لوگوں کو سستی فراہمی زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔1894 سے1997 تک جھیل میں پانی کی سطح برقرار رہی، تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے 2000 سے 2004 تک جھیل مکمل خشک رہی۔
سالانہ لاکھوں روپے ٹکٹوں کی مد میں وصول کرنے کے باوجود جھیل کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہنہ جھیل میں اب پانی کی سطح بتدریج گرنا شروع ہوگئی ہے اس وقت پانی کی سطح کم ہو کر آٹھ فٹ رہ گئی ہے۔ پانی کی گرتی ہوئی سطح سے جہاں سائبیریا کے پرندوں کا پڑاؤ اور سیاحت و تفریح متاثر ہوئے ہیں وہیں آس پاس کے باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں

54214cc74bed8.jpg
 

یوسف سلطان

محفلین
گوگل۔۔۔
بنجوسہ جھیل :
بنجوسہ ایک مصنوعی جھیل اور مشہور سیاحتی مقام ہے، یہ راولاکوٹ سے بیس کلو میٹر دور ریاست آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں واقع ہے۔ بنجوسہ جھیل راولاکوٹ سے بذریعہ سڑک منسلک ہے۔ جھیل کے ارد گرد گھنا جنگل اور پہاڑ اس جھیل کو بے حد خوبصورت اور دلکش بناتے ہیں۔ یہاں گرمیوں میں بھی موسم خوشگوار رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی ہوتی ہے اور درجۂ حرارت منفی 5 سینٹی گریٹ تک گر جاتا ہے، دسمبر اور جنوری میں یہاں برف باری بھی ہوتی ہے۔
5439095681160.jpg
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
گوگل۔۔۔۔
کنڈول جھیل:
کم معروف ہونے کی وجہ سے سوات کا سفر کرنے والے اکثر سیاح کالام کے خوبصورت علاقے سے کچھ فاصلے پر واقع اس جھیل کے نام اور محل وقوع سے بھی واقف نہیں۔ کنڈول جھیل کی وسعت، پانی میں جھلکتے نیلے آسمان اور گرد و پیش کے پہاڑو ں کا عکس، راستے کی دقتوں اور تھکاوٹوں کو پل بھر میں دور کر دیتا ہے۔ اردگرد کی برف پوش چوٹیوں، سر سبز ڈھلوانوں اور درختوں کے درمیان کنڈول جھیل ایک گول پیالے کی صورت میں دلفریب نظارہ پیش کرتی ہے۔

5439096b03f9e.jpg
 
آخری تدوین:
Top