اصلاح کے متمنی اس لڑی کا مطالعہ ضرور کریں

پچھلے دنوں جناب محمد یعقوب آسی صاحب نے ایک غزل پر اصلاح کے دوران چند مراسلوں میں شاعر کے نام کچھ نوٹ لکھے جو دراصل ایک مستقل مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس مضمون کی ہمہ گیریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم سب اصلاحِ سخن چاہنے والے شعراء اسے ضرور پڑھ لیں اور اس سے اکتسابِ علم و فن کی سعادت حاصل کریں۔جناب محمد یعقوب آسی کے شکرئیے کے ساتھ یہ مضمون آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔



جناب من! مصرع بہ مصرع، شعر بہ شعر لفظ بتانا تجویز کرنا؛ وہ شروع شروع میں دو چار دس بار ہوتا ہے، ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہے۔ آپ کی اس کاوش پر کچھ وضاحتیں پیش کئے دیتا ہوں، کہاں کہاں منطبق ہوتی ہیں، خود دیکھ لیجئے گا۔


اول: وہی بہت بار دہرائی گئی بات کہ شعر اور شے ہے کلامِ منظوم اور شے ہے۔بقول انور مسعود شعر وہ ہے جو قاری کو چھیڑ دے؛ تو یہ چھیڑنا کیا ہوا؟ اس کے کئی انداز کئی پہلو ہو سکتے ہیں کہیں مفرد کہیں مرکب:۔1۔ شعر کا پیغام، موضوع، مضمون انداز وغیرہ قاری کو کسی سوال سے آشنا کرے، تجسس لے کر آئے۔۔2۔ کوئی جذباتی کیفیت ایسے بیان کرے کہ قاری اس میں گرفتار نہیں ہوتا تو مائل ضرور ہو جائے، یا کم از کم اس کیفیت کے احساس یا ادراک سے دو چار ہو۔۔3۔ انسان کی بہت ساری مستقل قدریں ہیں: پیٹ کا مسئلہ ہے، سر چھپانے کی بات ہے، تعلقات کی باتیں ہیں (محبت، نفرت، غصہ، لاتعلقی،جھلاہٹ، انتقام، خوف، امیدیں، ولولے، کوشش وغیرہ وغیرہ) ان میں سے کسی کو بیان کیجئے یا ایک دو تین کی کوئی مرکب صورت بنتی ہے تو وہ لائیے۔۔4۔ مفروضات کی بنا پر شعر آپ "بنا" سکتے ہیں، مگر ان پر تکیہ نہ کیجئے۔ آپ پر ایک صورت جو بیتی ہے وہ ہزار مفروضوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔


دوم: زبان، ہجے، املاء، محاورہ، روزمرہ، الفاظ، تراکیب؛ ان کو قطعی طور پر درست ہونا چاہئے، ایک شاعر کو یہ عذر زیب نہیں دیتا کہ جی مجھے پتہ نہیں تھا۔ ہجوں کی غلطی خوش ذوق قاری پر اتنی گراں گزرتی ہے کہ جہاں شاعر نے (مثال کے طور پر: ذرہ کو ذرا یا زرہ) غلط لکھا، وہ غزل پر سلام پیش کر کے ایک طرف ہو جائے گا۔


سوم: شعر کی زمین (اوزان و ارکان، قوافی، ردیف) اور مصرعے کی ضخامت۔ اس کو بہت متوازن، بہت رواں اور بہت سہل رکھئے، آپ اور آپ کا قاری اور سامع دونوں سہولت میں رہیں گے۔ ردیف بہت پابندیاں لاتی ہے۔ اس غزل میں آپ نے "میں" ردیف رکھی ہے۔ یہ حرفِ جر ہے اور ظرف (زمان، مکان) کی علامت ہے۔ آپ کو اس سے باہر نہیں جانے دے گا۔ قوافی جہاں مضامین لاتے ہیں وہیں کچھ پابندیاں بھی لگاتے ہیں۔ آپ مہتاب کے ساتھ اکتساب کا قافیہ نہیں لا سکتے (کہ کوئی معروف بحر اس کی اجازت نہیں دے گی) اس کو ماہتاب لکھئے اور پڑھئے تو تو اس کے برابر اکتساب آ جائے گا۔
ادھر مشہور زمینوں میں شعر موزوں کرنا ایک لحاظ سے خطرناک بھی ہے۔ آپ نے غالب کی زمین میں غزل کہہ دی، آپ کا خوش ذوق قاری غالب سے بیگانہ نہیں رہ سکتا، اس کے ذہن میں غالب کی غزل فوراً گونجے گی۔ بجا کہ قاری کو آپ سے ایسی کوئی توقع وابستہ نہیں کرنی چاہئے کہ آپ غالب کو بچھاڑ دیں گے، تاہم وہ آپ سے کچھ نکھرے ہوئے، منجھے ہوئے، اور پکائے ہوئے شعروں کی توقع ضرور وابستہ کرے گا۔


چہارم: یہ مت کہئے گا کہ جی میں تو اپنے لئے شعر کہتا ہوں؛ یا یہ تو ایک طرح کا کتھارسس ہے وغیرہ۔ قاری اور سامع کو منہا کر دیجئے تو آپ کے پاس شعر کہنے کا جواز ہی نہیں رہ جاتا۔ آپ کے شعر کا مافی ضمیر آپ کے قاری تک پہنچنے میں کچھ حصہ قاری کا ہے اور کچھ آپ کا بھی ہے۔ غزل کے شعر کا قاری آپ سے بجھارتوں کی توقع نہیں رکھتا، ہاں! کسی ڈھنگ سے سلیقے سے آپ کچھ بات اس سے چھپا لیں تو وہ اس کو آپ کی ادا سمجھ کر اس پر فریفتہ بھی ہو سکتا ہے۔
کوئی بات خلافِ واقعہ نہ کیجئے۔ اور اگر ایسا کچھ کہنا ہے تو پھر اس کا کوئی (قابلِ قبول) جواز، کوئی (خوبصورت سا) بہانہ بھی لانا ہو گا۔ عید کے چاند کے حوالے سے غالب نے کیا خوب کہا ہے (یاد رہے کہ نئے چاند سے کبھی دو دن اور کبھی تین دن پہلے چاند کسی وقت بھی دکھائی نہیں دیتا):عذر میں تین دن نہ آنے کےلے کے آیا ہے عید کا پیغامحالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ چاند کو بہانہ سازی کی کیا حاجت! وہ تو ایک مضبوط حسابی نظام پر چلتا ہے۔ " الشمس والقمر بحسبان " (سورۃ الرحمٰن)۔
قاری کو آپ کا شعر اتنا ہی اچھا لگے گا، جتنی وہ آپ کے اور قاری کے درمیان سانجھ رکھے گا۔ سو، عمومی انسانی سطح اور انسانی طرزِ احساس و استدلال کے قریب رہیے، اور بلند خیالی کو بھی اسی سطح سے اٹھائیے۔ آپ خلا سے بات کریں گے تو زمین والے شاید اس کو سمجھ ہی نہ پائیں۔


پنجم: اردو پر بھی دیگر زبانوں کی طرح کئی ادوار آئے ہیں۔ وہ الفاظ اور تراکیب جو کبھی ادب میں بھی حسن سمجھی جاتی تھیں، آج متروک ہو گئیں۔ امیر خسرو نے تب "ورائے نیناں" کہا تھا، ٹھیک کہا تھا؛ وہ اب نہیں چلے گا۔ "کبھو، کسو، کوں، سوں" ولی نے بہت خوبی سے باندھے، آج میں اور آپ ایسا کریں گے تو خود نہیں نبھا پائیں گے۔ "آوے ہے، جاوے ہے، کرو ہو، سنو ہو، بیٹھوں ہوں" ان کا لطف بھی جاتا رہا۔ ایسی زبان لانی ہے تو ضرور لائیے مگر پورے ماحول کے ساتھ لائیے، ایک آدھ لفظ ہو تو یوں لگتا ہے جیسے بلندی پر اڑتا ہوا کوئی پرندہ فرش نشین کے سر پر اپنا کام دکھا گیا۔


ششم: غزل کے شعروں میں ریزہ خیالی اور تسلسلِ خیال و مضمون دونوں رویے معروف ہیں۔ بہ این ہمہ ایک غزل کے تمام شعروں میں کبھی مزاج کے حوالے سے، کبھی لفظیات کے حوالے سے ایک لطیف سی فضا تشکیل پا جاتی ہے؛ اسے آپ غزل کی زیریں رَو کہہ لیجئے۔ کوئی شعر اس لطیف سے تعلق میں پوری طرح رچا بسا نہ ہو تو بہتر ہے اس کو الگ رکھ لیں کسی اور غزل کا حصہ بن جائے گا۔ اور اگر غزل میں سرے سے کوئی فضا بن ہی نہیں رہی تو الگ بات ہے، کوئی سا شعر ترتیب میں کہیں بھی آ جائے چنداں فرق نہیں پڑتا۔


ہفتم: خاص طور پر غزل کے شعر میں الفاظ کی در و بست اور ترتیب بہت اہم ہوتی ہے۔ کوئی لفظ کہاں ہو تو مؤثر ہو گا، کہاں ہو تو معانی میں اشکال پیدا ہو سکتا ہے؛ اس کو تعقید کہتے ہیں۔ ہمیں کسی نہ کسی سطح پر تعقید سے کام لینا ہوتا ہے تا کہ اوزان سے موافقت قائم کی جا سکے، تاہم اگر کوئی لفظ معنوی یا لسانی حساب میں بہت دور جا پڑے تو یہی تعقید نقص بن جاتی ہے۔ مراعات کا اور علامات کا نظام ہے، استعارات کا نظام ہے؛ وغیرہ۔ یہ سارے حربے ہوتے ہیں جو شعر کی جمالیاتی سطح بناتے ہیں۔ جمالیات (بنانا، سنوارنا، نکھارنا، ترتیب دینا، حسن پیدا کرنا) ہی تو وہ چیز ہے جو عام زبان کو ادب بناتی ہے اور کلامِ منظوم کو اٹھا کر شعر کے درجے تک لے جاتی ہے۔
از محمد یعقوب آسی
 
آخری تدوین:
استاد محترم کے کچھ مزید اسباقِ نوادر کا اضافہ میں کئے دیتا ہوں

-------------------------------------------------------------------------------------------
تجربے کی کچھ باتیں عرض کرتا چلوں۔

میں نے ایک شعر کہا، یا غزل، نظم کچھ بھی، بشمول نثر۔ میں اس سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوں، یا میرے کوئی دوست اس میں کسی فروگزاشت کی نشان دہی کرتے ہیں یا کوئی بہتر تجویز دیتے ہیں۔ میں اس کو نوٹ کر لیتا ہوں، اب ضروری نہیں کہ میں فوری طور پر ترمیم کروں۔ ہو سکتا ہے مجھے مہینوں بلکہ برسوں تک اپنی ہی کی ہوئی کوئی ترمیم مطمئن نہ کر سکے۔ میں نے اپنے ایک شعر میں کوئی بیس پچیس سال بعد جا کے ترمیم کی۔

ترمیم میں اکثر دوست لفظ کے بدلے لفظ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ لازم نہیں کہ ایسا مفید ثابت ہو، بسا اوقات متبادل، مترادف الفاظ نہیں ملتے یا ملتے ہیں تو شعر کا مضمون ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ میں تو اس نئے مضمون کو قبول کر لیتا ہوں اور پہلا مضمون کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک لفظ یا ترکیب کے لئے پورا مصرع یا شعر ہی تبدیل کرنا پڑے۔ شاعری کے اپنے تقاضے ہیں، جن میں سرِ فہرست (میرے نزدیک) جمالیات ہے، بات کو بنا سنوار کر پیش کرنا؛ ان تقاضوں کو بھی تو نبھانا ہے! لفظ کے بدلے لفظ پر اصرار نہ کیجئے، ہو سکتا ہے آپ کا شعر بھی بن جائے، مضمون بھی قائم رہے مگر جمالیات جاتی رہے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
میرے بہت قریبی دوست ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم مجھ سے کہا کرتے تھے:
"اپنے شعروں کو ہمیشہ پالش کرتے رہا کرو، کہ میرے یا تمہارے کہے ہوئے میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہے گی"۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
پروفیسر انور مسعود نے ایک بار بہت خاص بات کہی (پہلے بھی بیان کر چکا ہوں):
شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے اور آپ کا ذہن اس کے پیچھے یوں دوڑے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے لپکتا ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
فارسی تراکیب میں عربی فارسی کا اشتراک (بہ شرطِ قواعد) جائز ہے۔ ہندی عربی اور ہندی فارسی کا نہیں؛ اور اگر ہوتا ہے تو وہ ترکیب ہندی قاعدے پر بنے گی، عربی یا فارسی قاعدے پر نہیں۔ ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ خاص عربی ترکیبی قواعد میں صرف عربی یا معرب اسماء و افعال ہوں گے۔ مزید یہ کہ غیر عربی اسمائے نکرہ پر الف لام تعریفی داخل نہیں ہو سکتا۔ اسمائے معرفہ پر الف لام تعریفی کہیں آتا ہے کہیں نہیں بھی آتا (عربی والے بتا سکتے ہیں کہ کیوں)۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
اساتذہ اکرام کی خدمت میں
۔۔
درست املاء یوں ہو گی:
اساتذہء کِرام کی خدمت میں
۔۔
اساتذہء کِرام ۔۔ مرکب توصیفی ہے، اس کے اجزاء ہیں:
استاذ (ج: اساتذہ) موصوف ۔۔ ہمزہ (زیر بصورتِ ہمزہ، بوجہ ہ) علامتِ صفت ۔۔ کَریم (ج: کِرام : کاف مکسور کے ساتھ) صِفَت
یہ فارسی طریقہ ہے اور اس میں عربی اور فارسی اسماء جمع کئے جا سکتے ہیں۔
۔۔
مزید مثالیں:
گُلِ تر، دلِ ناشاد، شَبِ طویل، دیدہء بینا، حکایاتِ خونچکان، دردِ لادوا، مشامِ تیز، بندہء مولاصفات، آہِ نارسا، بحرِ ناپیداکنار، نوائے تازہ، جولانیء طبع، مےء لالہ فام، موئے مُشکین؛ وغیرہ۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
۔۔۔۔ کہ جو اُس نے کہا ۔۔۔۔
دراصل شعر کہنے کا عمل تین حصوں پر مشتمل ہے، شعر کہنا، شعر بنانا اور شعر توڑنا اور انکی ترتیب اس ترتیب سے بالکل الٹ ہے جس ترتیب سے میں نے انہیں لکھا ہے، اور وجہ یہ کہ ہر شاعر فوری طور پر شعر کہنے پر پہنچتا ہے اور بے وزن شعر کہہ کر خواہ مخواہ تنقید کا سامنا کرتا ہے، حالانکہ یہ سارا عمل، ایک شاعر کیلیے، شعر توڑنے سے شروع ہوتا ہے، جب کسی کو شعر توڑنا آ جاتا ہے تو ایک درمیانی عرصہ آتا ہے جس میں وہ شعر 'بناتا' ہے اور اسی کو مشقِ سخن کہا جاتا ہے اور جب کسی شاعر کو شعر کہنے میں درک حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہ جو شاعری کرتا ہے اسی کو صحیح معنوں میں 'شاعری' کہا جاتا ہے پھر اسکے ذہن میں شعر کا وزن نہیں ہوتا بلکہ خیال آفرینی ہوتی ہے۔

محمد وارث کی بات دل کو لگتی ہے۔
ایک شخص جو شعر کہنے سے پختگی کی حد تک مانوس ہو، اس کو شاید تحریک چاہئے بس! کوئی شعر دل کو بھا گیا، کہیں کسی بات سے کوئی نکتہ ہاتھ آ گیا۔ اس کے اولین الفاظ یا ایک دو مصرعے نکلتے ہی کسی بحر میں موزوں ہو کر ہیں۔ اسی لئے تو اس کو پختہ کہتے ہیں، کہ اسے بحور پر سوچنا نہیں پڑتا۔ اس کے بعد کا عمل البتہ سارا وہی ہوتا ہے غزل بنانے والا۔

-------------------------------------------------------------------------------
املاء کے حوالے سے ایک اور ضروری بات ۔۔۔
اردو رسم الخط کا مزاج رومن، گرمکھی، دیوناگری وغیرہ سے بہت مختلف ہے۔ وہ آوازوں پر زیادہ بھروسا کرتے ہیں اور ہم ہجوں کی اصل پر۔
ہمارے ہاں نظیر اور نذیر مختلف المعانی الفاظ ہیں، اسی طرح شک اور شق، اصل اور عسل، حرم اور ہرم، مقصور اور مکسور؛ اور بے شمار مثالیں ہیں۔
----------------------------------------------------------------------------------------------------
عربی علامتِ تعریف (الف لام) جہاں بھی وارد ہو اس کی املاء برقرار رکھنی ہوتی ہے، اگرچہ الف یا لام کی آواز مسموع نہ ہو۔ الف مقصورہ کی یاے یا واو کو بھی املاء سے حذف نہیں کیا جاتا۔ گول ۃ کو بھی قائم رکھتے ہیں (تا آنکہ وہ عربی قواعد کے مطابق سکون کی وجہ سے ہ نہ بن جائے)، الف صرفی، ہمزۃ الوصل بلکہ بعض الفاظ میں متواتر دو دو الف خاموش وارد ہوتے ہیں، ان سب کو املاء میں شامل رکھنا ہوتا ہے:
بالمشافہ، بالاستعیاب، علی الرغم، حکیم الامت، ولایات الاسلامیہ، شق القمر، بالکل، اعوذ باللہ، علی الاطلاق، حتی الوسع، زکوٰۃ، شرح المعانی،موسیٰ، اولو العزم، سدرۃ المنتہیٰ، عیسیٰ، یحییٰ، سلمیٰ، تحفۃ العروض، حدائق البلاغت، کلوا واشربوا، اقیموا الصلوٰۃ، بدیع الزمان؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
ہم "عبدالصمد" کو "عبدُصَّمد" نہیں لکھ سکتے، اسی طرح "بالکل" کو "بلکل" نہیں لکھ سکتے۔
 
----------------------------------------------

ایک لفظ کے کئی کئی معانی بھی ہو سکتے ہیں، اب اُن میں سے شاعر کون سے معانی لیتا ہے، یہ ہے بنیادی اختیار بھی اور سوال بھی۔ معانی آپ جو بھی منتخب کریں، سیاق و سباق میں اس کا میلان اور اشارہ کسی نہ کسی صورت میں ہونا چاہئے۔
۔2۔
اس سے بھی اہم بات! ایک چیز ہے لفظ سے خیال اخذ کرنا اور پھر اس کو آگے چلانا، دوسری ہے مضمون کو اولیت دے کر اُس کے لئے لفظ لانا۔ ان دونوں میں توازن بہت ضروری ہے۔ الفاظ کے بغیر بھی بات نہیں بنتی اور محض الفاظ سے بھی بات نہیں بنتی۔ شعر بناؤ بگاڑ کے چکر میں پڑ گیا تو شعر نہ رہا، اس پر کیا بحث اور کیا رائے!
۔3۔
علامات، رعایات، مراعات النظیر، اشارات، استعارات ۔۔۔ یا جو بھی نام ان کو دے لیجئے۔ ان میں ایک چیز مشترک ہونی چاہئے اور وہ ہے معنوی فضا یا ماحول۔ آشیاں، گھونسلا؛ یہ گھر کی علامت ہے۔ مگر میں بغیر کوئی معنوی سیاق و سباق بنائے اگر اپنی بیوی کا کہوں کہ وہ گھونسلے میں خوش رہتی ہے تو قاری مجھ پر ہنسے گا۔ مجھے علامتی طور پر اس کو اور کچھ نہ سہی چڑیا کہنا پڑے گا۔
۔4۔
آپ کا قاری بھی لفظ کو میڈیم کے طور پر لیتا ہے، لفظوں کا حسن و قبح آپ کے شعر پر اثرانداز ہوتا ہے، پکی بات! مگر اصل چیز جو آپ کو اپنے قاری تک پہنچانی ہے وہ محسوسات ہیں نہ کہ لفظ۔ محسوسات اگر لفاظی کے بوجھ میں دب گئے تو آپ نے قاری کو کچھ بھی نہیں دیا۔ وہ آپ کی لفظیات کو کیا کرے گا۔
۔5۔
بہ این ہمہ کچھ شعر ہوتے ہیں جنہیں زبان کے شعر کہا جاتا ہے۔ وہاں الفاظ سے معانی لے کر ان کا ایک تانا بانا بناتے ہیں اور اس کو کسی احساس کے گرد بُن دیتے ہیں۔ مگر یہ ایک مشکل کام ہے، اور اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر شعر ماسٹر پیس بن جاتا ہے۔

6۔ میں اس شعر کو کامیاب نہیں سمجھتا جہاں شاعر کو اپنی لفظیات کی وضاحت کرنی پڑے کہ جی اس کے یہ معانی بھی ہیں، وہ بھی ہیں، اور میں نے فلاں معانی لئے ہیں۔

-----------------------------------------------------------
 
جو تبدیلیاں کی ہیں ان کو خود دیکھئے، اور بار بار دیکھئے۔
ایک دل چسپ بات بتاؤں آپ کو۔ ایک شاعرہ کو میں نے مشورہ دیا تھا جو ظاہر ہے آپ کو نہیں دے سکتا؛ بہر حال سن لیجئے۔
ان سے میں نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اپنے شعروں کو اتنا خوبصورت بنائیے جتنا آپ خود کو بناتی ہیں۔ اور جب ان کو پرکھئے تو ایسے پرکھئے جیسے آپ کی غزل آپ کی سوتن ہے، اور اس کی اصلاح یوں کیجئے جیسے آپ کی بیٹی ہے۔" :bee:
 
استاد محترم کی کچھ اور اصلاحی گفتگو یہاں شیر و شکر کر رہا ہوں۔ احباب فیض حاصل کریں۔
مطلع آپ کو اس لئے بھی بے جان لگ رہا ہو گا۔ کہ ردیف (عالم) کی معنویت سے آپ خود بھی مطمئن نہیں۔ منظر اور عالم؛ ان میں فرق محسوساتی سطح کا ہے۔ ہر منظر ایسا نہیں ہو سکتا کہ پڑھنے، سننے یا دیکھنے والے پر ایک عالم طاری کر سکے۔ اس غزل میں آمدہ ان مضامین کا ایک نظر جائزہ لیجئے گا، جہاں بات عالم کی نہیں صرف منظر کی ہو؛ وہاں ردیف کا حق ادا نہیں ہو رہا ہو گا، اور ایک خوش ذوق قاری بدک جائے گا۔

سیدھے سبھاؤ ایک بات کر جانا، ایک واقعہ بیان کر دینا یا کرتے چلے جانا وقائع نگاری اور نظم کے لئے بہت عمدہ ٹیکنیک ہے۔
غزل کا مزاج وقائع نگاری سے بہت مختلف ہے۔ یہاں آپ کو کسی بھی مظہر کا عطر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے، ایک صورتِ حال کو بیان کر دینا کافی نہیں ہوتا، قاری کو یہ بات بتانی نہیں بلکہ سجھانی ہوتی ہے کہ اس شعر کے ہونے کا انشائی اور محسوساتی سطح پر کیا جواز ہے۔
ہیئت، زمین (اوزان و بحور، ردائف و قوافی) جیسے عناصر و عوامل تو بہر طور قائم رہیں گے کہ وہی ایک صنفِ سخن کا تعین کرتے ہیں۔
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ
ایک سوال؟
شاعر پیدائشی ہوتا ہے یا شاعری سیکھی جاسکتی ہے؟
 
بہت شکریہ
ایک سوال؟
شاعر پیدائشی ہوتا ہے یا شاعری سیکھی جاسکتی ہے؟
یہ تو بہت پرانی بحث ہے، صاحب! بہت کچھ کہا گیا! مختصر الفاظ میں یوں کہئے کہ ایک شخص کا مزاج شعر کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کو اوزان وغیرہ کا رسمی علم نہ ہوتے ہوئے بھی ایک طرح کا ادراک میسر ہوتا ہے اور وہ کبھی مصرعے وغیرہ جوڑے تو کسی غیر محسوس خود کار نظام کے تحت وہ جزوی یا کلی طور پر کسی نہ کسی مانوس وزن کے تابع ہوتے ہیں۔ اس میلان کو ہمارے دوست رؤف امیر مرحوم "شعری وجدان" کہا کرتے تھے۔ یہ وجدان یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؛ آپ اس کو بہتر کر سکتے ہیں، پیدا نہیں کر سکتے۔

شعری وجدان کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے مظاہر کیا ہیں اور یہ کیوں کر تشکیل پاتا ہے، یہ بہت طویل بحث ہو گی۔
 

x boy

محفلین
یہ تو بہت پرانی بحث ہے، صاحب! بہت کچھ کہا گیا! مختصر الفاظ میں یوں کہئے کہ ایک شخص کا مزاج شعر کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کو اوزان وغیرہ کا رسمی علم نہ ہوتے ہوئے بھی ایک طرح کا ادراک میسر ہوتا ہے اور وہ کبھی مصرعے وغیرہ جوڑے تو کسی غیر محسوس خود کار نظام کے تحت وہ جزوی یا کلی طور پر کسی نہ کسی مانوس وزن کے تابع ہوتے ہیں۔ اس میلان کو ہمارے دوست رؤف امیر مرحوم "شعری وجدان" کہا کرتے تھے۔ یہ وجدان یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؛ آپ اس کو بہتر کر سکتے ہیں، پیدا نہیں کر سکتے۔

شعری وجدان کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے مظاہر کیا ہیں اور یہ کیوں کر تشکیل پاتا ہے، یہ بہت طویل بحث ہو گی۔

بہت شکریہ
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
اللہ آپ کو اور ہم سب کو خوش رکھے اور جائز تمناؤ کو پورا کرے، آمین
 
  • استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب کی اصلاحات
  • ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمزہ کیسے لکھیں اور کہاں لکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • اصول و قواعد کی بحث تو خیر خاصی طویل ہے، میں نے اس پر کچھ لکھا بھی ہے۔ کسی وقت میرے بلاگ کا چکر لگائیے۔ ایک مضمون تو ہے ’’ہمزاتِ ہمزہ‘‘ اس کے علاوہ ایک مقام پر میں نے ’’یائے مستور‘‘ پر بھی بحث کی ہے، اور ہمزہ مستور پر بھی (اس وقت یاد نہیں کہاں کی ہے)۔
  • فی الحال الفاظ زیرِ بحث کے بارے میں عرض کئے دیتا ہوں۔ شمع یہ سوداءئِ دل سوزئِ پروانہ ہے (چھوٹے ہمزہ کے ساتھ، زیر چھوٹے ہمزہ پر واقع ہو گی)۔ جہاں خط کی شکل درست نہیں بن رہی وہاں جان لیجئے کہ:۔ ترتیبِ حروف یہ ہے: سو دا ئیءِ دل سوزیءِ پروانہ (ی کے اوپر چھوٹا ہمزہ اور اس ہمزہ پر زیر)۔
  • واضح رہے کہ اصولی طور پر زیرِ اضافت یہاں ی پر واقع ہوتی ہے، یعنی: ’’سودائیِ دل سوزیِ پروانہ‘‘ یہ املاء درست ہے۔ تاہم ایک قدیم روایت چلی آتی ہے کہ ایسی ی پر جہاں زیر واقع ہو ہمزہ اضافی لکھتے ہیں اور زیر کی علامت ہمزہ پر منتقل ہو جاتی ہے، سو یہاں چھوٹا ہمزہ بناتے ہیں۔ سوداءئِ دل سوزئِ پروانہ سودائیِ دل سوزیِ پروانہ فرق ان میں صرف خطاطی کا ہے، اور کوئی فرق نہیں۔
  • ایسا ہی معاملہ ’’بے تابئِ الفت‘‘ کا ہے۔ ترتیب: بے تابیءِ الفت ( ترجیحاً چھوٹا ہمزہ زیر کے ساتھ) اور اگر پڑھنے میں دقت کا خدشہ ہو تو بڑا ہمزہ ی کے بعد لکھ کر اس پر زیر لگائیں گے۔ یا پھر ہمزہ لکھیں گے ہی نہیں: بے تابیِ الفت (تاہم ایسے میں غلط گمان یہ ممکن ہے کہ لکھی ہوئی زیر حرف ماقبل ی کی ہے، اس لئے ہمزہ لکھنا اولیٰ۔
  • زندگئِ جاوداں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مجموعی طور پر میں سفارش کروں گا کہ آپ ایسی ی پر چھوٹا ہمزہ لگائیں اور زیر کی علامت نہ لکھیں، پڑھنے والا از خود سمجھ جائے گا کہ یہاں ہمزہ پر زیر واقع ہو رہا ہے: سودائئ دل سوزئ پروانہ (سودائی کی شکل خطاطی میں ٹھیک کر لیجئے: سودائئ ) ، زندگئ جاوداں، بے تابئ الفت، گرمئ محفل، شوخئ تحریر؛ وغیرہ۔
  • یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ہمزہ ی کے بعد لکھا جائے گا: گرمئی محفل یا شوخئی تحریر لکھنا قطعی طور پر غلط ہے۔ بقیہ الفاظ کو اسی پر قیاس کر لیں۔
  • ایک بات یاد رہے کہ الف مقصورہ (لیلیٰ، دعویٰ) اور الف کو اس حوالے سے مماثل قیاس کریں گے اور ترکیب کی صورت میں املاء یوں ہو گی: لیلائے شب، دعوائے حق، دنیائے دنی، بالائے لب، نوائے سروش؛ وغیرہ۔
  • سلسلۂ کوہسار، قصۂ غم، فسانۂ آزاد؛ وغیرہ۔ ان میں ہ کے بعد چھوٹا ہمزہ ہے اور زیر اس ہمزہ پر ہے۔ تاہم جیسے پہلے کہا گیا: ہ، ی پر چھوٹا ہمزہ عام طور پر لکھا ہی تب جاتا ہے جب وہاں زیرِ اضافت یا زیرِ توصیف واقع ہو رہا ہو، لہٰذا زیر کی علامت حذف بھی کر دیں تو پڑھنے میں مسئلہ نہیں بنتا۔
  • مہدی مجروح دو الگ الگ لفظ ہیں۔ مراد ہے : میر مہدی مجروح (مرزا غالب کے قریبی ساتھی تھے)... میر مہدی (نام) مجروح (تخلص)... اس پر اضافت نہیں ہے۔ ترکیب کی صورت یہ ہو گی: مہدئ موعود، وادئ فاران، بازئ دِل؛ وغیرہ
  • فارسی اور عربی میں ی کو گول (ی) یا لمبی (ے) کسی بھی طرح لکھ دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چھوٹی ی، بڑی ے کا فرق اردو اور پنجابی وغیرہ سے خاص ہے۔
  • مے (شراب) کو بہت سارے دوست مئے لکھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ میکدہ، میخانہ وغیرہ سے بھی عیاں ہے کہ ’’مے‘‘ ایک دو حرفی لفظ ہے۔ اس کو مَے لکھیں یا مَی ایک ہی بات ہے، مئے کا کوئی جواز نہیں۔ اسی نہج پر درست املا ہے: مۓ شبانہ، مئ شبانہ (رات کی بچی ہوئی شراب)۔ اس کو مئے شبانہ یا مئی شبانہ لکھنا کسی طور بھی درست نہیں۔ ایسا ہی معاملہ شے، طے، کے، قے، درپے (سب یائے لین)؛ کا ہے۔ درست املا: مے، شے، طے، کے (مراد ہے کیخسرو)، قے، درپے؛ مۓ ناب، شۓ نایاب، درپۓ آزار؛ ترکیب میں ہمزہ ایسی ے کے بعد واقع ہوتا ہے، حسبِ خط اس کو چھوٹا ہمزہ لکھیں، بڑا ہمزہ لکھیں وہ ضرورت کی بات ہے۔
  • لہٰذا ۔۔ غلط املاء: مئے، شئے، طئے، کئے، قئے، درپئے؛ وغیرہ۔
 
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب کی اصلاحات

بندہ اس قابل کہاں حضرت! کہ اصلاح کا فرض نبھا سکے۔ وہ تو جو مقام خود مجھے مشکل لگا وہاں اہلِ علم کے لکھے سے اپنے لئے سہولت کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور جہاں بزرگوں کا انداز ایک جیسا اور سہل پایا یہاں نقل کر دیا۔

دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 

اکمل زیدی

محفلین
.اک مشورہ ہے..اس مضمون کہ عنوان کو اگر اس طرح کر دیا جائے تو نئے آنے والوں کہ لیے آسانی رہے گی ورنہ وہ عنوان سے مضمون سے کا تعیّن کسی اور طرح کر سکتے ہیں .. ".اصلاح کے متمنی" میں شروع میں شاعری لگا دیا جائے تو بہتر رہے گا ... "شاعری میں اصلاح کے متمنی....
 
.اک مشورہ ہے..اس مضمون کہ عنوان کو اگر اس طرح کر دیا جائے تو نئے آنے والوں کہ لیے آسانی رہے گی ورنہ وہ عنوان سے مضمون سے کا تعیّن کسی اور طرح کر سکتے ہیں .. ".اصلاح کے متمنی" میں شروع میں شاعری لگا دیا جائے تو بہتر رہے گا ... "شاعری میں اصلاح کے متمنی....
اجی حضرت! یہ اصلاحِ سخن کا ہی زمرہ ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
س غزل میں آپ نے "میں" ردیف رکھی ہے۔ یہ حرفِ جر ہے اور ظرف (زمان، مکان) کی علامت ہے
اسم ظرف زماں اور مکاں کی وضاحت کر دیجئے ۔۔۔ہم نے اس کو پڑھ رکھا ہے مگر خیال واضح نہیں ہو سکا ہے
"کبھو، کسو، کوں، سوں" ولی نے بہت خوبی سے باندھے،

کبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔کبھو
کسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسو؟
کوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سوں۔۔۔۔۔۔۔؟

ان الفاظ کی تھوڑی وضاحت کردیجئے ۔
 
اسم ظرف زماں اور مکاں کی وضاحت کر دیجئے ۔۔۔ہم نے اس کو پڑھ رکھا ہے مگر خیال واضح نہیں ہو سکا ہے


کبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔کبھو
کسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسو؟
کوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سوں۔۔۔۔۔۔۔؟

ان الفاظ کی تھوڑی وضاحت کردیجئے ۔
مطالعہ بہت ضروری ہے عزیزہ!
۔1۔ اسم ظرف کی وضاحت انہی صفحات میں بہت دوست کر چکے ہوں گے۔ اس کے علاوہ قواعد کی کتابیں دستیاب ہیں۔ اپنا پڑھا ہوا بھولتا نہیں ہے۔
۔2۔ اگر آپ نے ولی کی شاعری پڑھی ہے اور شوق سے پڑھی ہے تو کبھو کسو کوں سوں آپ کے لئے اجنبی نہیں ہونے چاہئیں۔
بہت شکریہ
 

Ali.Alvin

محفلین
اسلام و علیکم محترم استاد صاحبان سے سوال ہے ایک شاعر کو شاعری لکھنے سے پہلے کیا کرنا چاہیے ؟؟؟ اور کس طرح سے شعر لکھا جائے ؟؟؟ کوئی آسان ترتیب بتا دینا.... خدا نگہدار
 

عباد اللہ

محفلین
اسلام و علیکم محترم استاد صاحبان سے سوال ہے ایک شاعر کو شاعری لکھنے سے پہلے کیا کرنا چاہیے ؟؟؟ اور کس طرح سے شعر لکھا جائے ؟؟؟ کوئی آسان ترتیب بتا دینا.... خدا نگہدار
بھیا آپکا سوال اساتذہ سے ہے جبکہ میں شاگرد کہلانے کے لائق بھی نہیں خیر
تو صاحب عرض یہ ہے کہ شاعر بننے سے پہلے مبتدی کو شاعری پڑھنی چاہئیے اور اساتذہ نے زبان و بیان اور الفاظ کے ساتھ جو رویہ روا رکھا ہے اس کا گہرا مشاہدہ کرنا چاہئے
 

Ali.Alvin

محفلین
بھیا آپکا سوال اساتذہ سے ہے جبکہ میں شاگرد کہلانے کے لائق بھی نہیں خیر
تو صاحب عرض یہ ہے کہ شاعر بننے سے پہلے مبتدی کو شاعری پڑھنی چاہئیے اور اساتذہ نے زبان و بیان اور الفاظ کے ساتھ جو رویہ روا رکھا ہے اس کا گہرا مشاہدہ کرنا چاہئے
شکریہ
 
Top