تم سے ہے مرے گھر، گُل و گلزار کا عالم ! - غزل اصلاح کے لئے۔۔۔

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے : بحر ہجز مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

اساتذہء کِرام بالخصوص
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
محترم جناب الف عین صاحب
اور احباب محفل سے توجہ اور اصلاح کی درخواست ہے۔
کئی دن سے سر پٹک رہا ہوں لیکن مطلع تو بے جان ہی نظر آتا ہے۔ :cautious:
--------------------------------------
روشن ترے رُخ کے لب و رخسار کا عالم !
الجھے ہوئے گیسو میں گرفتار کا عالم !

کی حسن کی تعریف تو برہم ہوئے کیا کیا!
ماتھے کی شِکن، ابرُوِ خمدار کا عالم !!

بے ساختہ آنچل سے، مرے ہاتھوں کو کسنا
پھر شرم سے رُخ پر گُل و گُلنار کا عالم !

دالان میں بارش کے مہینوں کی وہ راتیں
وہ مینھ، وہ طوفان، وہ بوچھار کا عالم !

وہ کوندتی بجلی وہ گرجتے ہوئے بادل
ہاتھوں میں لئے ہاتھ وہ اقرار کا عالم!

کیا میرے بِنا تم نے کِیا گھر کا تصوّر ؟
شوخی بھرے اثبات میں انکار کا عالم!

میں تم کو کبھی چھوڑ کے جانے نہیں دونگا !
تم سے ہے مرے گھر، گُل و گلزار کا عالم !

ہم ساتھ چلیں مِل کے اگر، دیکھنا پھر تم !
اِس وقت کی بدلی ہوئی رفتار کا عالم !

وہ "سُنیے ذَرا" کہہ کے ترا، مجھ کو بلانا
رگ رگ میں اترتی کسی جھنکار کا عالم !

تھی تشنگی اک عمر سے ہونٹوں پہ ہمارے
اب خواب میں بھی پیاس کے آزار کا عالم !

وعدوں کے ترے سارے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
کس کس کو دکھاؤں دلِ نادار کا عالم !

کیا طرز و ترنّم ہے ان اشعار میں کاشف
ہر دل سے گزرتا ہوا ملہار کا عالم !

سید کاشف
-------------------------------

شکریہ۔ جزاک اللہ۔
 
ایک مشورہ دوں؟ واردات کی طرف آئیے بجائے ایک تخیلاتی فضا بنانے کے۔

شعروں کی تعداد چاہے کم ہو مگر قاری کے لئے پرکشش ہو۔ مجھے کشش محسوس نہیں ہو رہی، ہو سکتا ہے میرا احساس ایسا نہ ہو۔ زبان و بیان میں کوئی قابلِ گرفت کمزوری اس غزل میں نہیں۔ ایک لفظ مینہ کی بندش پر البتہ بات ہو سکتی ہے، اور وہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔
 
مطلع آپ کو اس لئے بھی بے جان لگ رہا ہو گا۔ کہ ردیف (عالم) کی معنویت سے آپ خود بھی مطمئن نہیں۔ منظر اور عالم؛ ان میں فرق محسوساتی سطح کا ہے۔ ہر منظر ایسا نہیں ہو سکتا کہ پڑھنے، سننے یا دیکھنے والے پر ایک عالم طاری کر سکے۔ اس غزل میں آمدہ ان مضامین کا ایک نظر جائزہ لیجئے گا، جہاں بات عالم کی نہیں صرف منظر کی ہو؛ وہاں ردیف کا حق ادا نہیں ہو رہا ہو گا، اور ایک خوش ذوق قاری بدک جائے گا۔
 
کچھ مضامین ایسے بھی ہیں کہ ہزاروں بار باندھے جا چکے۔ جیسے: حسن کی تعریف پر محبوب برا مان گیا۔ ایسے مضامین کو باندھنا ہے تو "اظہاریہ" بدلنا ہو گا، کوئی نیا زاویہ دکھانا ہو گا۔ کسی مختلف پہلو سے دیکھنا ہو گا۔ ایک مضمون کے ہزار پہلو ہو سکتے ہیں۔ فانی بدایونی کو دیکھئے کہ اس نے مضامین کو ہیروں کی طرح تراش کر دیکھا اور دکھایا ہے؛ ایک موضوع یعنی رومان کے ہر ہر زاویے کا اپنا اپنا رنگ فانی کا لافانی رنگ ہے۔
 
ایک بات اور عرض کرنی ہے۔ بہ شرطے کہ جناب الف عین کی طرف سے توثیق پا سکے ۔۔۔

انشا کا عنصر شعر میں چاشنی پیدا کرتا ہے؛ یعنی سوال، دکھ، خوشی، رنج، حیرت، دعوت، وعید؛ وغیرہ۔ اور یہ لفظیات کی سطح پر ہو تو اور بھی لطف دیتا ہے۔
دوسری چیز جمالیات ہے۔ جمالیات پر بہت گفتگو ہو چکی؛ کسی فرصت کے وقت اسی فورم کا ایک تفصیلی چکر لگا لیجئے گا۔
 
سیدھے سبھاؤ ایک بات کر جانا، ایک واقعہ بیان کر دینا یا کرتے چلے جانا وقائع نگاری اور نظم کے لئے بہت عمدہ ٹیکنیک ہے۔
غزل کا مزاج وقائع نگاری سے بہت مختلف ہے۔ یہاں آپ کو کسی بھی مظہر کا عطر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے، ایک صورتِ حال کو بیان کر دینا کافی نہیں ہوتا، قاری کو یہ بات بتانی نہیں بلکہ سجھانی ہوتی ہے کہ اس شعر کے ہونے کا انشائی اور محسوساتی سطح پر کیا جواز ہے۔
ہیئت، زمین (اوزان و بحور، ردائف و قوافی) جیسے عناصر و عوامل تو بہر طور قائم رہیں گے کہ وہی ایک صنفِ سخن کا تعین کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
مطلع آپ کو اس لئے بھی بے جان لگ رہا ہو گا۔ کہ ردیف (عالم) کی معنویت سے آپ خود بھی مطمئن نہیں۔ منظر اور عالم؛ ان میں فرق محسوساتی سطح کا ہے۔ ہر منظر ایسا نہیں ہو سکتا کہ پڑھنے، سننے یا دیکھنے والے پر ایک عالم طاری کر سکے۔ اس غزل میں آمدہ ان مضامین کا ایک نظر جائزہ لیجئے گا، جہاں بات عالم کی نہیں صرف منظر کی ہو؛ وہاں ردیف کا حق ادا نہیں ہو رہا ہو گا، اور ایک خوش ذوق قاری بدک جائے گا۔
بہت بہتر استاد محترم

کچھ مضامین ایسے بھی ہیں کہ ہزاروں بار باندھے جا چکے۔ جیسے: حسن کی تعریف پر محبوب برا مان گیا۔ ایسے مضامین کو باندھنا ہے تو "اظہاریہ" بدلنا ہو گا، کوئی نیا زاویہ دکھانا ہو گا۔ کسی مختلف پہلو سے دیکھنا ہو گا۔ ایک مضمون کے ہزار پہلو ہو سکتے ہیں۔ فانی بدایونی کو دیکھئے کہ اس نے مضامین کو ہیروں کی طرح تراش کر دیکھا اور دکھایا ہے؛ ایک موضوع یعنی رومان کے ہر ہر زاویے کا اپنا اپنا رنگ فانی کا لافانی رنگ ہے۔

میں کوشش کرونگا کہ آئندہ مضامین کو اور بہتر کر سکوں۔ انشا اللہ

’’سر پٹخ رہا ہوں‘‘ درست املا ہے۔
یہاں ہندی کے لفظ کو استعمال کیا تھا استاد محترم ۔ :)

سیدھے سبھاؤ ایک بات کر جانا، ایک واقعہ بیان کر دینا یا کرتے چلے جانا وقائع نگاری اور نظم کے لئے بہت عمدہ ٹیکنیک ہے۔
غزل کا مزاج وقائع نگاری سے بہت مختلف ہے۔ یہاں آپ کو کسی بھی مظہر کا عطر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے، ایک صورتِ حال کو بیان کر دینا کافی نہیں ہوتا، قاری کو یہ بات بتانی نہیں بلکہ سجھانی ہوتی ہے کہ اس شعر کے ہونے کا انشائی اور محسوساتی سطح پر کیا جواز ہے۔
ہیئت، زمین (اوزان و بحور، ردائف و قوافی) جیسے عناصر و عوامل تو بہر طور قائم رہیں گے کہ وہی ایک صنفِ سخن کا تعین کرتے ہیں۔

بہت عمدہ نکتہ بیان کیا استاد محترم ۔ میں کوشش تو یہی کرتا ہوں لیکن بیان کئی بار نظم جیسی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یقینا ابھی کافی مشق کی ضرورت ہے۔
جزاک اللہ سر۔
 

الف عین

لائبریرین
ردیف کچھ اشعار میں درست نہیں۔ جیسے ابروئے خمدار پر بات ختم ہونی چاہئے تھی، عالم غیر ضروری ہے، برہم کے ساتھ تو محض گیسو آتا ہے، پھر ماتھے کی شکن کی برہمی!!! عجیب ہے۔
باقی اشعار

بے ساختہ آنچل سے، مرے ہاتھوں کو کسنا
پھر شرم سے رُخ پر گُل و گُلنار کا عالم !
۔۔آنچل بے ساختہ؟؟؟ یوں کہو تو بات بنے
آنچل سے مرے ہاتھوں کو بے ساختہ کسنا
گل و گلنار یا گلِ گلنار، گل وگلزار یا گلَ گلزار۔ درست شاید آسی بھائی روشنی ڈال سکیں۔ میں تو بے حد کنفیوزڈ ہوں۔

دالان میں بارش کے مہینوں کی وہ راتیں
وہ مینھ، وہ طوفان، وہ بوچھار کا عالم !
۔۔ یہ صرف ایک منظر ہے؟؟
مینھ کا طویل کھنچنا بھی پسندیدہ نہیں۔

وہ کوندتی بجلی وہ گرجتے ہوئے بادل
ہاتھوں میں لئے ہاتھ وہ اقرار کا عالم!
پہے مصرع میں صرف ایک منظر ہے، اقرار کے عالم کے بارے میں کوئی ہنٹ نہیں ملتا۔

کیا میرے بِنا تم نے کِیا گھر کا تصوّر ؟
شوخی بھرے اثبات میں انکار کا عالم!
۔۔ شعر واضح نہیں کہ کون کہہ رہا ہےِ کیا محبوب کا مکالمہ ہے؟

میں تم کو کبھی چھوڑ کے جانے نہیں دونگا !
تم سے ہے مرے گھر، گُل و گلزار کا عالم !
۔۔ پہلے مصرع سے واضح نہیں کہ تم کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا مراد ہے یا محبوب کو جانے نہیں دوں گا مراد ہے۔ موخر الذکر صورت میں ’مجھے چھوڑ نے‘ کہنا بہتر ہے۔
ہم ساتھ چلیں مِل کے اگر، دیکھنا پھر تم !
اِس وقت کی بدلی ہوئی رفتار کا عالم !
÷÷ٹھیک
وہ "سُنیے ذَرا" کہہ کے ترا، مجھ کو بلانا
رگ رگ میں اترتی کسی جھنکار کا عالم !
÷÷یہاں بھی ردیف فٹ نہیں ہوتی

تھی تشنگی اک عمر سے ہونٹوں پہ ہمارے
اب خواب میں بھی پیاس کے آزار کا عالم !

وعدوں کے ترے سارے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
کس کس کو دکھاؤں دلِ نادار کا عالم !
÷÷چل سکتے ہیں دونوں اشعار۔

کیا طرز و ترنّم ہے ان اشعار میں کاشف
ہر دل سے گزرتا ہوا ملہار کا عالم !
ملہار کا تلفظ ؟ میرے خیال میں یہ ملھار درست ہے، دولہا چولہا کی طرح
 
Top