افسانہ: ہیئر برش

ہیئر برش

"گدھا!"

اماں نے برش زور سے زمین پر پٹخا۔ پاس بیٹھے ہوئے راحیل کا دل دہل گیا۔ اُس نے اپنی ماں کو یوں بے قابو ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ناراض ہوتے دیکھا تھا، بچپن کی پٹائی اور ڈانٹ بھی یاد تھیں، پر اِن میں کبھی ایسی بے بسی نہیں تھی جو اب اماں کے چہرے پر تڑپ رہی تھی۔

"صاف ہی نہیں ہو رہا۔ پھنسے ہوئے ہیں بال بُری طرح۔ ٹائم کتنا بچا ہے۔ اور شام کو تُو نے چلے جانا ہے۔"

آج صبح ناشتے کے بعد جب راحیل اپنا سُوٹ کیس تیار کرنے لگا تھا تو اماں اُس کے پاس ہی فرش پر بیٹھ گئی تھی۔ راحیل یہ دیکھ کر خوش ہوا تھا، کیونکہ کچھ دنوں سے ماں اُس سے خفا خفا لگ رہی تھی۔ وقفے وقفے سے وہ اُس کی پیک کی ہوئی کسی چیز کو اُٹھاتی اور بہتر سلیقے سے تہہ کر کے دوبارہ سُوٹ کیس میں رکھ دیتی۔ اِدھر اُس نے ایک قمیص رکھی اُدھر اماں نے اُٹھا کر کالر ٹھیک کیا، تہہ شدہ قمیص پر ہاتھ پھیرا اور پھر اُسی جگہ رکھ دی۔ اِسی خاموش کاروائی کے دوران اماں کی نظر اُس کے ہیئر برش پر پڑی تھی۔ نہ جانے کتنے عرصے کے بال برش کے دندانوں میں اُلجھے ہوئے تھے۔

"کبھی صاف بھی کر لیا کر اِسے!"

یہ کہتے ہوئے اماں نے ہیئر برش سُوٹ کیس سے اُٹھا لیا تھا اور کچھ دیر سے اُس میں پھنسے بالوں سے مقابلہ کر رہی تھی۔ اماں کی کوششوں سے بے خبر، پیکنگ کی بے مغز حرکات کے بِیچ راحیل شام کے سفر کی تفصیلات ذہن میں دوڑانے لگا تھا۔ تین گھنٹے پہلے ایئر پورٹ پہنچنا ہے۔۔۔ پاسپورٹ ٹکٹ رکھنے ہیں یاد سے۔۔۔ چار گھنٹے کا ویٹ ہے بیچ میں۔۔۔ ٹائم پر آ جائیں سب فلائٹس۔۔۔ اِنہی سوچوں کے درمیان برش کے پٹخنے کی آواز پر وہ زبردست چُونک گیا تھا۔

کچھ لمحے اُسے یقین نہ آیا کہ اماں جو ہر مسئلے کا حل پلک جھپک میں نکال لیتی ہے، آج ایک برش سے عاجز کیسے آ گئی۔

"رہنے دو اماں۔ برش ہی تو ہے۔ کر لُوں گا خود صاف۔"

"ہاں جیسے پہلے تُو نے صاف رکھا ہوا ہے۔ دیکھ کیسے پھنسے ہوئے ہیں اندر۔ نہیں نکل رہے۔ ایسے ہی رہے گا یہ۔ اور شام کو تُو نے چلے جانا ہے۔"

اماں نے سر اوپر اُٹھائے بغیر ناراض لہجے میں جواب دیا اور برش میں پھنسے بالوں کو ایسے زور سے کھینچنے لگی جیسے کوئی اپنے بال نوچ رہا ہو۔ اگلے ہی لمحے اُس نے برش دوبارہ زمین پر مارا

"نہیں نکلیں گے۔ نہیں نکلیں گے۔ چُھٹی بھی ختم ہو گئی ہے تیری۔ اور شام کو تُو نے چلے جانا ہے۔ پتا نہیں کتنے سالوں کے لئے۔۔۔"

بولتے بولتے اماں کی آواز غائب ہو گئی۔ ایک بھاری پتھر راحیل کے گلے میں آ اٹکا۔ ایک لمحے کے لئے اُس نے ماں کی طرف دیکھا اور نظریں ہٹا لیں۔ جُھکے ہوئے تر چہرے کو اِس سے زیادہ دیکھنا اُس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اچانک اُس نے اپنے دونوں ہاتھ ماں کے ہاتھوں پر رکھ دئے۔ بوڑھے ہاتھوں کی جُھریوں سے سجی کُھردری جِلد اور پھولی ہوئی نسوں میں ناچتا ارتعاش کسی گہرے درد کی طرح اُس کے وجود میں اُتر گیا۔

اُس نے اپنی آواز پر قابو پایا

"اماں، بس یہ آخری بار ہے۔ پھر پکا واپس آ جاؤنگا۔ تُو ایسا کر یہ برش رکھ لے۔ آرام سے صاف کرنا۔ میں آؤں گا تو لے لوں گا"۔

بوڑھی نسوں میں جاری بے چین رقص اچانک تھم گیا۔

"سچ؟"

اماں نے نظریں اُٹھائے بغیر پوچھا اور انتہائی شفقت سے برش میں پھنسے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔


تحریر : ابنِ مُنیب
 
touchy

معذرت اس سے بہتر لفظ نہ مل سکا . . .



بہت خوب !

اچھا افسانہ ہے۔



اچھا افسانہ ہے۔ ’سمت‘ کے لئے منتخب۔
کیا یہ موبائل سے ہی ٹائپ کیا گیا ہے؟

آپ سب کے پیغامات پڑھ کر خوشی ہوئی۔ بے حد شکریہ۔

اعجاز سر یہ کمپیوٹر پر ٹائپ کیا ہے۔ آپ کو کسی خاص فارمیٹ میں درکار ہو تو فائل بنا کر بھیج سکتا ہوں۔
 
Top