مبارکباد پاکستان کا محبت کے نام پر ویلنٹائن ڈے جیسے فضول دن نہ منانے کا اعلان

یاز

محفلین
کلچر و ثقافت کے نام پہ اتنا ذہنی عدم تحفظ عقل و شعور سے بالاتر ہے۔ ہم کسی بچے کو خواب کی جگہ سپنا کہتے سن لیں یا فادر ڈے، مدر ڈے، ویلنٹائن ڈے کا نام بھی سن لیں تو ہمیں اپنا کلچر ثقافت اور نظریاتی اساس خطرے میں پڑتی دکھائی دیتی ہے۔
کیا نظریاتی یا ثقافتی اساس اتنی ہی کمزور ہوتی ہے؟
اور کیا باقی قوموں یا ملکوں کی بھی اتنی ہی کمزور ہے؟

اسی کے ساتھ ساتھ ڈرتے ڈرتے یہ بھی استفسار کرنے کی جسارت کروں گا کہ
کیا مذہبی جلوسوں کے نام پہ سڑکیں بلاک کرنے سے، کفر کے فتوے دینے یا دودھ میں پانی ملانے، جعلی ادویات بنانے، ٹریفک سگنل توڑنے، دیواروں پہ مردانہ کمزوری کے علاج کے اشتہارات چھاپنے، جعلی عاملوں، نجومیوں وغیرہ سے بھی تہذیب یا ثقافت کو خطرہ لاحق ہے یا نہیں؟
 

زیک

مسافر
کیا نظریاتی یا ثقافتی اساس اتنی ہی کمزور ہوتی ہے؟
اور کیا باقی قوموں یا ملکوں کی بھی اتنی ہی کمزور ہے؟
قدامت پسند (خاص طور پر مذہبی) لوگوں کی اکثر یہی حالت ہوتی ہے۔ ملک کی قید نہیں۔ ہاں یہاں توڑ پھوڑ اور جلسے جلوس ایسے معاملات پر نہیں ہوتے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
عدنان کے واٹس ایپ پر یہ مسیج آیا تھا آج میرا تو ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا پڑھ کر
ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والوں سے التماس ہے کہ اب فلش سسٹم کا استعمال بھی ترک کر دیں کیونکہ ویلنٹائن ڈے کی طرح وہ بھی مغربی کلچر کا حصہ ہے ۔۔۔ امید ہے کل صبح سے ویلنٹائن ڈے کے مخالف خالی میدانوں ، اور جھاڑیوں کا رخ کرتے نظر آئیں گے ۔۔۔ شہر میں رہنے والے کھمبوں کی آڑ بھی لے سکتے ہیں اور کچرے کے ڈھیروں کی بھی ۔۔۔ یاد رہے کہ بعد میں ہاتھ پاک کرنے کے لیے مٹی کا استعمال کریں ۔۔۔ یاد رہے کہ صابن کا استعمال بھی مغربیت کی نشانی ہے ۔۔۔
ان سے کہیں جواب میں لکھ دیں ...اوزار تو اور بھی مہیا ہوجائینگے ...ضرورت کے حساب سے ...صدیوں سے لوگوں نے کچھ نہ کچھ حساب کتاب بنا کے رکھا ہے ...اوزار variable ہوتے ہیں ...مگر values constant ہوتی ہیں اوزار انسان ضرورت کے حساب سے بنا لیتا ہے مگر values دین سکھاتا ہے ....
 

arifkarim

معطل
کم سن نمازیوں کو بھگانے کا بہترین نسخہ بتایا۔ آج ہی کچھ بچوں پر ٹیسٹ کرتا ہوں۔

ویلنٹائن تو گو وینٹ گون۔ تو اب بحث بھی چھوڑیں۔ اب اگلے سال کی تیاری کریں
اگلے سال پھر یہ مذہبی بریگیڈ یہی تماشے کریگی۔ نہ جانے کب سے کر رہی ہے۔

اوزار انسان ضرورت کے حساب سے بنا لیتا ہے مگر values دین سکھاتا ہے ....
جنکا کوئی دین نہیں انہیں اقدار کون سکھاتا ہے؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
جن کا یقین کسی پر نہیں ہوتا ان کا بھی کسی نہ کسی پر ضرور ہوتا ہے
چوری کرنا غلط ہے، کسی کا دل دکھانا برا ہے، ملاوٹ بری چیز ہے وغیرہ کو ماننے کیلئے کسی دین و مذہب کی حاجت نہیں۔ یہاں پر موجود کٹر دہریے بھی ہم سے زیادہ ان اقدار پر عمل پیرا ہیں کہ ان پر چلنے کیلئے انہیں احکام نہیں ملے بلکہ وہ اپنی دلی رضامندی سے ان پر قائم ہیں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
چوری کرنا غلط ہے، کسی کا دل دکھانا برا ہے، ملاوٹ بری چیز ہے وغیرہ کو ماننے کیلئے کسی دین و مذہب کی حاجت نہیں۔ یہاں پر موجود کٹر دہریے بھی ہم سے زیادہ ان اقدار پر عمل پیرا ہیں کہ ان پر چلنے کیلئے انہیں احکام نہیں ملے بلکہ وہ اپنی دلی رضامندی سے ان پر قائم ہیں۔
آگیا نہ یقین :)...خود پر یقین یا یوں کہیں اپنی خودساختہ rationalism پر یقین :)
 

arifkarim

معطل
آگیا نہ یقین :)...خود پر یقین یا یوں کہیں اپنی خودساختہ rationalism پر یقین :)
اقدار انسان خود تخلیق کرتا ہے۔ وہ جتنی معقول ہوں اتنا بہتر ہے کہ انہیں آزاد اور خود مختار طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کسی مذہبی کتاب کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑتی جیسا کہ جہادی دہشت گرد تنظیمیں اپنے اقدار نافظ کرتے وقت انکا سہارا لیتی نظر آتی ہیں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اقدار انسان خود تخلیق کرتا ہے۔ وہ جتنی معقول ہوں اتنا بہتر ہے کہ انہیں آزاد اور خود مختار طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کسی مذہبی کتاب کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑتی جیسا کہ جہادی دہشت گرد تنظیمیں اپنے اقدار نافظ کرتے وقت انکا سہارا لیتی نظر آتی ہیں۔
جہاں وہ خود سر ہوتا ہے وہاں وہ خود تخلیق کرتا ہے ..آپ دیکھیں آپ کسی آزمائے ہوئے سائنسدان کی thoery کو جو اس نے تجربے کے بعد لکھی ہوتی ہے آپ من و عن تلسیم کرلیتے ہیں خود تجربہ نہیں کرتے اسی طرح اگر آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنی مخلوق کو سب سے بہتر جانتا ہے اس پر آپ کا ایمان ہے تو بات اگائی اقدار کی تو یقینن اس طرف بھی اس نے رہنمائی کی ہوگی تو جو اس پر belive کرے گا وہ اسی sources کو مقدم کرے گا رہی آپ کی آخری بات کے "دہشت گرد تنظیمیں" اس جا سہارا لیتی نظر آتی ہیں تو یہاں صرف مرکز سے ہٹ کرSelf-interpretation کی بات آجائ گی ...
 

arifkarim

معطل
جہاں وہ خود سر ہوتا ہے وہاں وہ خود تخلیق کرتا ہے ..آپ دیکھیں آپ کسی آزمائے ہوئے سائنسدان کی thoery کو جو اس نے تجربے کے بعد لکھی ہوتی ہے آپ من و عن تلسیم کرلیتے ہیں خود تجربہ نہیں کرتے اسی طرح اگر آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنی مخلوق کو سب سے بہتر جانتا ہے اس پر آپ کا ایمان ہے تو بات اگائی اقدار کی تو یقینن اس طرف بھی اس نے رہنمائی کی ہوگی تو جو اس پر belive کرے گا وہ اسی sources کو مقدم کرے گا رہی آپ کی آخری بات کے "دہشت گرد تنظیمیں" اس جا سہارا لیتی نظر آتی ہیں تو یہاں صرف مرکز سے ہٹ کرSelf-interpretation کی بات آجائ گی ...
آپ سائنسی طریقہ سے نابلد ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی متعدد رصد گاہوں نے کشش ثقل کی لہریں دریافت کر کے آئن اسٹائن جیسے نامور سائنسدان کی تھیوریز کو تقویت بخشی ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ انہیں مزید کی تلاش ہے۔ اور اسکے لئے وہ دیگر ممالک کیساتھ ملکر خلائی سیارچے چھوڑ رہے ہیں تاکہ کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ جب آئن اسٹائن جیسے چوٹی کے سائنسدان کی تھیوریز پر "ایمان" کیلئے سائنٹیفک کمیونیٹی کی تشکیک کا یہ حال ہو تو ہمارے جذبہ ایمانی سے سر شار عوام کے کیا کہنے جو ہر دوسرے جعلی پیر پر مذہب کے نام پر ایمان لے آتے ہیں
 

اکمل زیدی

محفلین
آپ سائنسی طریقہ سے نابلد ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی متعدد رصد گاہوں نے کشش ثقل کی لہریں دریافت کر کے آئن اسٹائن جیسے نامور سائنسدان کی تھیوریز کو تقویت بخشی ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ انہیں مزید کی تلاش ہے۔ اور اسکے لئے وہ دیگر ممالک کیساتھ ملکر خلائی سیارچے چھوڑ رہے ہیں تاکہ کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ جب آئن اسٹائن جیسے چوٹی کے سائنسدان کی تھیوریز پر "ایمان" کیلئے سائنٹیفک کمیونیٹی کی تشکیک کا یہ حال ہو تو ہمارے جذبہ ایمانی سے سر شار عوام کے کیا کہنے جو ہر دوسرے جعلی پیر پر مذہب کے نام پر ایمان لے آتے ہیں
ساری بات کا رخ ہی بدل دیا ... جیسے آپ نے مجھے سائنس سے نابلد قرار دے کر ہاتھ جھاڑے ہیں اور بات کو فل سٹاب لگانے کی کوشش کی ہے ..تو میری طرف سے یہ کہنا عبث نہیں ہوگا کے آپ بھی بہت سی ایسی باتوں میں ٹانگ اڑاتے ہیں جن سے آپ نا بلد ہوتے ہیں ...ایک دوست آپ کے سروے سروے کھیلتے رہتے ہیں حقیقت سروے کی متقاضی نہیں ہوتی ... ذرا کبھی اس کی سروے رپورٹ بتائیں کس میں کتنا احساس ہے ؟؟؟ نہیں بن سکتی ..!! اب سروے والے کیا کریں گے ؟...دوسری طرف آپ نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ...کے برفانی علاقوں میں کھجور اگا کر رہینگے یا گرم علاقے میں اخروٹ ...تو ٹھیک ہے لگے رہو ....
 

arifkarim

معطل
ساری بات کا رخ ہی بدل دیا ... جیسے آپ نے مجھے سائنس سے نابلد قرار دے کر ہاتھ جھاڑے ہیں اور بات کو فل سٹاب لگانے کی کوشش کی ہے ..تو میری طرف سے یہ کہنا عبث نہیں ہوگا کے آپ بھی بہت سی ایسی باتوں میں ٹانگ اڑاتے ہیں جن سے آپ نا بلد ہوتے ہیں ...ایک دوست آپ کے سروے سروے کھیلتے رہتے ہیں حقیقت سروے کی متقاضی نہیں ہوتی ... ذرا کبھی اس کی سروے رپورٹ بتائیں کس میں کتنا احساس ہے ؟؟؟ نہیں بن سکتی ..!! اب سروے والے کیا کریں گے ؟...دوسری طرف آپ نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ...کے برفانی علاقوں میں کھجور اگا کر رہینگے یا گرم علاقے میں اخروٹ ...تو ٹھیک ہے لگے رہو ....
میں نے تو کہیں گفتگو میں فل اسٹاپ نہیں لگایا۔ آپ موضوع پر مزید بات کریں، ہم تیار ہیں۔
باقی سروے سروے کھیلنے سے متعلق غالباً اشارہ زیک کی طرف تھا۔ تو آپکی اطلاع کیلئے عرض کر دوں کہ کوئی بھی سروے حقائق پر مبنی نہیں ہوتے۔ ان میں حسابی اغلاط اور دیگر پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں جس سے اسکے نتائج متاثر ہوتے ہیں۔ اگر خالی سرویز حقائق کی عکاسی کرتے تو قومی رائے جاننے کیلئے الیکشن پر خرچہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ سیدھا چند ہزار لوگوں کا سروے کر کے عوام کی رائے حاصل کر لی جاتی۔
 

زیک

مسافر
ساری بات کا رخ ہی بدل دیا ... جیسے آپ نے مجھے سائنس سے نابلد قرار دے کر ہاتھ جھاڑے ہیں اور بات کو فل سٹاب لگانے کی کوشش کی ہے ..تو میری طرف سے یہ کہنا عبث نہیں ہوگا کے آپ بھی بہت سی ایسی باتوں میں ٹانگ اڑاتے ہیں جن سے آپ نا بلد ہوتے ہیں ...ایک دوست آپ کے سروے سروے کھیلتے رہتے ہیں حقیقت سروے کی متقاضی نہیں ہوتی ... ذرا کبھی اس کی سروے رپورٹ بتائیں کس میں کتنا احساس ہے ؟؟؟ نہیں بن سکتی ..!! اب سروے والے کیا کریں گے ؟...دوسری طرف آپ نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ...کے برفانی علاقوں میں کھجور اگا کر رہینگے یا گرم علاقے میں اخروٹ ...تو ٹھیک ہے لگے رہو ....

میں نے تو کہیں گفتگو میں فل اسٹاپ نہیں لگایا۔ آپ موضوع پر مزید بات کریں، ہم تیار ہیں۔
باقی سروے سروے کھیلنے سے متعلق غالباً اشارہ زیک کی طرف تھا۔ تو آپکی اطلاع کیلئے عرض کر دوں کہ کوئی بھی سروے حقائق پر مبنی نہیں ہوتے۔ ان میں حسابی اغلاط اور دیگر پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں جس سے اسکے نتائج متاثر ہوتے ہیں۔ اگر خالی سرویز حقائق کی عکاسی کرتے تو قومی رائے جاننے کیلئے الیکشن پر خرچہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ سیدھا چند ہزار لوگوں کا سروے کر کے عوام کی رائے حاصل کر لی جاتی۔

سروے انسانی رائے اور رویے جاننے کا ذریعہ ہیں۔ آپ کے پاس اس سلسلے میں اس سے بہتر کوئی طریقہ ہے؟
 

arifkarim

معطل
سروے انسانی رائے اور رویے جاننے کا ذریعہ ہیں۔ آپ کے پاس اس سلسلے میں اس سے بہتر کوئی طریقہ ہے؟
زیک ہم نے سروے کی ویلیڈیٹی پر اعتراض نہیں کیا اسکی ایکوریسی پر کیا ہے۔ مطلب کسی سروے کو اصل کاؤنٹنگ جو کہ صرف الیکشن یا ریفرنڈم میں ہوتی ہے کا متبادل سمجھا نہیں جا سکتا۔
 

زیک

مسافر
زیک ہم نے سروے کی ویلیڈیٹی پر اعتراض نہیں کیا اسکی ایکوریسی پر کیا ہے۔ مطلب کسی سروے کو اصل کاؤنٹنگ جو کہ صرف الیکشن یا ریفرنڈم میں ہوتی ہے کا متبادل سمجھا نہیں جا سکتا۔
نہ ہی یہ سروے کا مقصد ہے۔ اچھے شماریات کے اصولوں پر کئے گئے سروے براڈ ٹرینڈز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کوئی عقلمند ان میں ایک دو فیصد کے فرق پر غور نہیں کرتا۔
 

یاز

محفلین
محبت اوراظہارِ محبت
کالم از خورشید ندیم​
انٹرنیٹ ربط

محبت ایک فطری جذبہ ہے ۔یہ جذبہ اپنے اظہار کے لیے اسالیب بھی خود تلاش کر تا ہے۔تاہم یہ اسالیب عام طور پرسماجی پس منظر سے پھوٹتے ہیں۔میر کی اداسی،غالب کی شوخی، جگر کاترنم،یہ سب وہ سانچے ہیں جن میں، اس خطے میں جنم لینے والی محبت ڈھلتی رہی ہے۔اس محبت نے اپنے اظہار کے لیے کبھی موسموں کے تیور مستعار لیے،کبھی پھولوں کے رنگ ادھار لیے۔وہ موسم جو اس خطے میں اترتے ہیں اور وہ پھول جو ہمارے گلستانوں میں مہکتے ہیں۔ یہی نہیں، اس محبت نے تہذیب کے ان اطوار کو بھی قبول کیا جو ہمارے گھر کے آنگن میں پروان چڑھتے ہیں۔ان طریقوںکو اختیار کیاجو خاندان کے ادارے میں جنم لیتے ہیں۔ ان رشتوں میں پناہ لی جو ہماری چار دیواریوں میں دمکتے ہیں۔اس محبت نے مذہب کی روح کو پیشِ نظر رکھا۔تہذیب کا احترام کیا۔ان حدود کا لحاظ رکھا جن کاتعین سماج نے کیا۔اس محبت کے راستے میں مذہب، خاندان، سماج، روایت، نہیں معلوم کس کس کا نام لے کر کانٹے بچھائے گئے۔نام ان سب کا استعمال ہوا لیکن کسی نے ان سے نہیں پو چھا کہ وہ خود کیاکہتے ہیں۔ان کی ترجمانی مختلف گروہوں نے اپنے ذمہ لے لی۔محبت کے پاؤں سے لہو بہتا رہا لیکن اُس نے ان سے بغاوت نہیں کی۔کبھی موت کو گلے لگا یا اور کبھی عمر بھر کے روگ کو۔اس خطے کی محبت تو ایسی ہی ہے۔خاموش اور اپنی آگ میں سلگتی ہوئی ؎
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
میں نے کہا،مذہب اور روایت کا نام استعمال ہوا۔مذہب نے کب پسند کی شادی سے منع کیا تھا؟کبھی نہیں۔اس نے ایجاب وقبول کونکاح کے لیے لازم قرار دیا۔یا پھر اعلانِ عام۔باقی سب زیبِ داستان ہے۔ایجاب و قبول جانے اور دیکھے بنا کیسے ہو سکتا ہے؟ہم نے لیکن کیا کیا؟متن کو نظر انداز کیا اور حواشی کو اہم جانا۔ شادی اور نکاح میں سب کچھ ہو تا ہے۔اگر نہیں ہو تا تو ایجاب وقبول نہیں ہوتا۔جو زیبِ داستان کے لیے تھا،وہ حاصلِ داستاں ٹھہرااور جومقصود تھا اس کا کہیں ذکر نہیں ہوا۔اگر کسی نے مقصود پر اصرار کیا تو اسے مذہب کا باغی ٹھہر ایا گیا۔ہم نے اپنے تعصبات کو مذہب کہا۔پانچ چھ سال کی لڑکی کے نکاح کوجائز ٹھہرایاجس میں ایجاب و قبول کا امکان ہی نہیںا ور اٹھارہ سال کی لڑکی نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تو اسے ناجائز سمجھا۔مذہب کی خانہ ساز تعریف کو مذہب کا جوہر کہا اور اپنے تعصب کو غیرت اور روایت کا نام دیا۔قصور وار پھر بھی محبت ٹھہری۔

محبت پاکیزہ ہو تی ہے۔یہ خیال ہماری محبت کا محور رہا۔یہ جملہ لغت کے چند الفاظ کا مجموعہ نہیں،ایک شعوری بیان ہے۔اس جملے کی شرح کیجیے تو معلوم ہو تا ہے کہ اظہارِ محبت کے بعض اسالیب نکاح سے پہلے جائز نہیں ہیں۔یہ خیال محبت کرنے والے کے دماغ میں راسخ ہے۔وہ دل کو سمجھاتا ہے۔ جذبات پر پہرے لگا تا ہے۔ اپنی جان پر ہجر کی سختیاں سہتاہے۔وہ اپنے ہاتھوں سے ہوس اور محبت کے درمیان ایک پردہ تان دیتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ محبت کا مرکز جسم نہیں دل ہو تا ہے۔وہ ہجر میں شعر تو کہتا ہے ۔ وصال کی خواہش کو گیت کی صورت بیان تو کرتا ہے لیکن یہ جانتا ہے کہ ہجرکو وصال میں بدلنے کے لیے صرف خواہش کافی نہیں۔

شعراور ادب،گیت اور موسیقی،اظہارِ محبت کے ان سب اسالیب کو ہر تہذیب نے روا رکھا ہے۔یہ اسالیب ہر خطے کی تہذیبی چار دیواری میں پر وان چڑھتے ہیں۔انہیں کسی نے نا جائز نہیں کہا۔جذبہ کوئی ناجائز ہو تا ہے نہ اس کا اظہار۔اس کے عملی ظہورکی چند صورتیں ہیں جو ممنوع ہو سکتی ہیں۔اُن کے بارے میں دو آرا نہیں ہیں۔لیکن محبت کو بیان کر نا تو کسی صورت منع نہیں۔ہماری محبت تو یوں بھی اشاروں کنایوں میں بات کر تی ہے۔یہاں تو محبوب کا ذکرہمیشہ مذکر کے صیغے میں ہو تا ہے۔مجھے اس کی یہ توجیہ پسند ہے کہ ہماری روایت میں محبت کا اظہار مقصود ہے، محبوب کی شہرت نہیں۔ منیر نیازی تو اس میں ایک قدم آگے جاتے ہیں ؎
اسے دیکھا نہ اس سے بات ہوئی
ربط جتنا تھا غائبانہ تھا

محبت انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس کا اظہار بھی فطری ہے۔اس کے راستے بند نہیں کیے جا سکتے۔جذبوں کی تہذیب کی جا سکتی ہے،ان کو بڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا۔تہذیب اور تراش خراش کا کام سماج کرتا ہے۔وہ جذبات کے اظہار کے لیے راستوں کا تعین کرتا ہے۔۔فنونِ لطیفہ، ادب یہی راستے ہیں۔محبت کا تخلیقی جوہربہت لطیف ہے۔یہ اظہار کے لیے بھی ایسے ہی لطیف اسالیب چاہتا ہے۔اظہار کے ،شاعری اور موسیقی سے زیادہ لطیف انداز،شاید انسان آج تک دریافت نہیںکر پایا۔یہ شعر اور سُر کا پیرہن تھا جو محبت کے نازک بدن کو راس آیا۔لازم ہے کہ ہر دور میںمیر، غالب اور نصرت فتح علی خان موجود ہوں۔محبت شعر اور سر میں ڈھلتی رہے۔اس سے سماج میں لطافت زندہ رہتی ہے۔لطافت چھن جائے تو پھر سختی ہے۔شعر اور ُسر مرتے ہیں تو دہشت گردی جنم لیتی ہے۔دہشت گرد کون ہے؟ وہی جو احساسِ محبت سے محروم ہو جا ئے۔

ہم چاہیں یا نہ چاہیں، محبت سے سماج کبھی خالی نہیں ہوتا۔فطری مطالبات کے سامنے بند نہیں باندھے جا سکتے۔دنیا کا کوئی سماج محبت سے جب خالی نہیں رہا تو اظہار کے اسالیب بھی موجود رہے۔تاریخ میں کوئی ایسا معاشرہ کبھی وجود میں نہیں آیا جس کا اپنا آرٹ،ادب اور موسیقی نہ ہو۔سمجھ داران کی آبیاری کرتے ہیں،اس لیے کہ محبت کہیں مر نہ جا ئے۔محبت کے مرنے کا مطلب یہ ہے کہ سماج اپنی لطافت کھو دے۔
عالمگیریت کے نام سے دنیا پر جو عذاب مسلط ہوا،اس نے غیر سرمایہ دارانہ یا غیر مغربی معاشروں سے اظہارِ محبت کے مقامی اسالیب چھین لیے۔عالمگیریت کے نام پر مغربیت کو فروغ ملا۔مادہ پرستی نے جب لذت کو شعار کیا تومحبت کو ہوس میں بدل ڈالا۔اس کے دھیمے پن کو ہیجان میں ڈھال دیا۔مغرب میں محبت نے دل سے نقل مکانی کی اور جسم میں آ بسیرا کیا۔دائمی رشتہ عارضی تعلق میں بدل گیا۔محبوب کا صرف صنفی پہلو باقی رہا۔کہاں محبوب کی ہمہ جہتی شخصیت خداشناسی کا دروازہ کھولتی تھی اور کہاں محبوب محض ایک جسم ہے،خدا شناسی تو دور کی بات خود شناسی کا امکان بھی بر باد ہو گیا۔

ویلنٹائن ڈے اسی عالمگیریت کا تحفہ ہے۔مغرب کو اس کی ضرورت ہے۔ سال میں کم ازکم ایک دن تولوگوں کو یاد دلا یا جائے کہ محبت بھی کوئی چیز ہو تی ہے۔ جیسے سال میں ایک وفعہ یاد دلا نا پڑتا ہے کہ ماں بھی کوئی رشتہ ہے۔باپ بھی کسی تعلق کا عنوان ہے۔وہاں ماں باپ کا رشتہ اپنی ساری لطافتوں سے محروم ہو کر محض ایک حیاتیاتی ربط کاثبوت بن گیا ہے۔اسی طرح محبوب بھی شب بھر کا ساتھی ہے۔ایسے لوگوں کو تو یاد دلانا چاہیے کہ رشتے پائیدار ہوں تو باقی رہتے ہیں۔

میری روایت میں محبت پر موت حرام ہے۔ یہ ایک دن کا معاملہ نہیں،عمر بھر کا ساتھ ہے،ہجر کی صورت میں یا وصال کی شکل میں۔دونوں کی اپنی اپنی لذت ہے۔میرے ہاں تو محبوب کا متبادل نہیں ہو تا۔اس لیے ویلنٹائن ڈے میرے لیے ایک اجنبی تصور ہے بلکہ مضحکہ خیز بھی۔اس سے پہلے کہ عالمگیریت ہمیں ہر روایت اور اظہار کے ہر جذبے سے محروم کر دے،ہمیں اپنے محبت کو بچا نا ہے اور اس کے اظہار کے اسالیب کو بھی۔ہمیں اظہار کے مقامی اسالیب کو زندہ کر نا ہے۔ہمیں انتظار حسین اور فاطمہ ثریا بجیا کا متبادل تلاش کر نا ہے۔ ویلنٹائن ڈے سے بچنے کی یہی ایک صورت ہے۔
 
1۔ دہشت گردی کیا ہے ؟
جب آپ اپنے خیال کا اظہار بھی نا کرسکیں کہ کئی ممتاز قادری بناء کسی وارننگ کے، بناء کسی مقدمے کے ،سلمان تاثیر کی طرح، آپ کو اختلاف کی سزا موت دینے کے انتظار میں بیٹھے ہوں۔

2۔ ویلنٹائین ڈے کیا ہے ؟
ایک وقت ایسا تھا کہ کلیسا (ملاؤں کے نام نہیں لکھتے بدمعاش کلیسا کو الزام دیتے ہیں ) صرف اور صرف پادری اور نن بننے کی اجازت دیتا تھا لیکن شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ ایسے میں سینٹ ویلنٹائین نے کہا کہ وہ ان جوڑوں کی شادی کروائے گا جن کو کلیسا انکار کررہا ہے۔ اس پر سینٹ ویلنٹائین کو کلیسا نے یعنی بڑے بڑے ملاؤں نے پھانسی دے دی ۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی کرنا اسلام میں ایک سنت ہے ، یہ سینٹ ویلنٹائین ایک خالص اسلامی فریضہ انجام دے رہا تھا۔ کچھ بے وقوف کہیں گے کہ اس وقت تو اسلام تھا ہی نہیں۔ ہی ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ آج بھی ملاء جو ان ہی بڑے بڑے ملاؤں کے سبق پڑھ پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں اندھی تقلید میں ایک خالص اسلامی عمل انجام دینے والے سینٹ ویلنٹائین کے خلاف ہیں ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے اماں اور ابا کی محبت کی یادگار ہیں ۔۔۔

تھوڑا سخت تو نہیں ہوگیا ؟؟ :) :)
 
ان سے کہیں جواب میں لکھ دیں ...اوزار تو اور بھی مہیا ہوجائینگے ...ضرورت کے حساب سے ...صدیوں سے لوگوں نے کچھ نہ کچھ حساب کتاب بنا کے رکھا ہے ...اوزار variable ہوتے ہیں ...مگر values constant ہوتی ہیں اوزار انسان ضرورت کے حساب سے بنا لیتا ہے مگر values دین سکھاتا ہے ....
سر جی نکاح کرنا شادی کرنا آپ کے دین کا حصہ ہے یا نہیں؟
 
Top