امیر اہل سنت کا ہاتھ پکڑنے سے بندے کا موبائل 3 ماہ سے خود بخود چارج ہو رہا ہے

فاتح

لائبریرین
یہ کونسا سیل فون ہے؟ کیا یہ صاحب پرانے زمانے کے فون ہی چارج کرتے ہیں یا نئے سمارٹ فون بھی؟ ڈیجٹل کیمروں کے بارے ان کا کیا حکم ہے؟
آپ سمارٹ فونز کی ٹیکنالوجی کو بابے دامت برکاتہم العالیہ کی ٹیکنالوجی سے افضل سمجھنے کی گستاخی کر رہے ہیں۔
ہاں! چونکہ تصویر حرام شے ہونے کے فتوے تواتر سے آتے رہتے ہیں لہذا ڈیجیٹل کیمرے کو چارج کرنا بھی یقیناً فعل حرام ہی ہو گا اور ہمارے العالیہ صاحب یہ کام کیسے کر سکتے ہیں، خود سوچیں۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
اگر یہ ٹیسلا ماڈل ایس اسی طرح چارج کر دیں تو میں بیعت کر کے کار خرید لوں
میرا ارادہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہی تھا کہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کر لوں اور ا سکے بعد آپ کا دست مبارک چند میگا واٹ پر آور بیٹری سٹوریجز پر رکھوا کر انہیں تا قیامت چارج کروا کر رکھ لوں اور اس کے بعد ناسا سے ان کا معاہدہ کروا دوں تا کہ سپیس شپس کے لیے انرجی کے مسائل کا حل مل سکے
 

فاتح

لائبریرین
جی نہیں البتہ اس جماعت اہلسنت کے پوپ محمد الیاس قادری ہیں جن کے ماتھے مبارک پر بجلی کے جھٹکوں کے نشان نمایاں ہیں:
Ameer-e-Ahlesunnat%20(5).jpg
اوہ تو یہ بجلی کے جھٹکوں کے نشانات ہیں، میں سمجھا تھا کہ کسی زیٹا یا یوٹا واٹ پر آور بیٹری کے ٹرمینلز ہیں
 

arifkarim

معطل
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے
بھٹوکا تو پتا نہیں البتہ اب بفضل زرداری ہر گھر سے روٹی کپڑا اور مکان اسمیت بجلی، پانی و گیس بھی نکل چکی ہے :)

میرا ارادہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہی تھا کہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کر لوں اور ا سکے بعد آپ کا دست مبارک چند میگا واٹ پر آور بیٹری سٹوریجز پر رکھوا کر انہیں تا قیامت چارج کروا کر رکھ لوں اور اس کے بعد ناسا سے ان کا معاہدہ کروا دوں تا کہ سپیس شپس کے لیے انرجی کے مسائل کا حل مل سکے
اتنا مشکل کام کرنے کی بجائے پورے کا پورا پیر ہی کیوں نہیں ناسا والوں کو بیچ دیتے؟ اچھے دام میں بک جاتا اور وہ جیسے چاہتے اس بابائی کراماتی ’’ٹیکنالوجی‘‘ کو بروئے کار لاتے :)
 

فاتح

لائبریرین
اتنا مشکل کام کرنے کی بجائے پورے کا پورا پیر ہی کیوں نہیں ناسا والوں کو بیچ دیتے؟ اچھے دام میں بک جاتا اور وہ جیسے چاہتے اس بابائی کراماتی ’’ٹیکنالوجی‘‘ کو بروئے کار لاتے :)
اے گستاخ! ہمارے دامت برکاتہم العالیہ برائے فروخت نہیں، وہ تو خود کئی ناساؤں کا ناس مار سکتے ہیں۔
 

بے الف اذان

محفلین
اے گستاخ! ہمارے دامت برکاتہم العالیہ برائے فروخت نہیں، وہ تو خود کئی ناساؤں کا ناس مار سکتے ہیں۔
ایک بار دامت برکاتہم العالیہ سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ، شاید وہ خود "خلاؤں کی سیر" پر جانے کے خواہشمند ہوں ;)
 

زیک

مسافر
اے گستاخ! ہمارے دامت برکاتہم العالیہ برائے فروخت نہیں، وہ تو خود کئی ناساؤں کا ناس مار سکتے ہیں۔
کیا آپ کے خیال میں انسان فروخت نہیں ہو سکتے؟ کیسی کفریہ بات کر رہے ہیں۔ غلامی کو حلال ماننے سے انکار اسلام سے انکار ہے۔ اور اسلام کے منکر کا کیا حال ہو گا آپ کو معلوم ہی ہو گا۔
 

فاتح

لائبریرین
کیا آپ کے خیال میں انسان فروخت نہیں ہو سکتے؟ کیسی کفریہ بات کر رہے ہیں۔ غلامی کو حلال ماننے سے انکار اسلام سے انکار ہے۔ اور اسلام کے منکر کا کیا حال ہو گا آپ کو معلوم ہی ہو گا۔
استغفر اللہ! استغفر اللہ! استغفر اللہ! خاکم بدہن غلام اور لونڈیاں رکھنے کو تو کوئی کافر ہی غلط کہہ سکتا ہے۔ ہم تو صرف دامت صاحب کے بارے میں قیاس کر رہے تھے کہ وہ خود برائے فروخت نہیں لیکن غلام اور لونڈیاں تو وہ بصد شوق رکھنا چاہیں گے
 

ظفری

لائبریرین
امیر اہل سنت کا ہاتھ پکڑنے سے بندے کا موبائل 3 ماہ سے خود بخود چارج ہو رہا ہے

لو جی ۔۔۔ پاکستان سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوگیا ۔جلد ہی مدنی میگا پراجیکٹ کا افتتاح متوقع ہے ۔کمزور دل اور کمزور ایمان والے اس منصوبے سے فیضیاب ہونے کی جسارت سے محروم رہیں گے۔ :D
 

فاتح

لائبریرین
لو جی ۔۔۔ پاکستان سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوگیا ۔جلد ہی مدنی میگا پراجیکٹ کا افتتاح متوقع ہے ۔کمزور دل اور کمزور ایمان والے اس منصوبے سے فیضیاب ہونے کی جسارت سے محروم رہیں گے۔ :D
اتنے خوش مت ہوں کیونکہ آپ بھی جلد ہی بے روزگار ہونے والے ہیں۔۔۔ جلد آ رہا ہے مدنی کرامات ورژن 3 اعشاریہ 4۔۔۔ جس میں چارجنگ کے بعد موبائل فون بغیر ٹیلکو ٹاورز و دیگر ساز و سامان کے کام کیا کریں گے
 

یوسف سلطان

محفلین
12اگلا >

  1. نیلممحفلین
    مراسلے:
    11,419



    جھنڈا:
    England.GIF

    موڈ:
    Lurking.gif

    افلاطون اپنے ﺍُﺳﺘﺎد سقراط کے ﭘﺎﺱ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ کہنے ﻟﮕﺎ ’’ﺍٓﭖ ﮐﺎ
    ﻧﻮﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍٓﭖ کے ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﺮﺯﮦ ﺳﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮ
    ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ نے ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ جذباتی لہجے ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ’’ﺍٓﭖ کے ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
    ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘‘.....…
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﺎتھ کے ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ’’ﺗﻢ
    ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﻮ، ﺍﺱ ﮐﺎ
    ﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﻭ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ مجھے
    ﺑﺘﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ﯾﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﺑﻮﻻ ’’ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ
    یہ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﻓﯿﺼﺪ ﺳﭻ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ
    ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ یہ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﻢ ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ
    ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ’’ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ یہ
    ﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔ "ﺟﯽ ! ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ
    ﺑُﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ
    ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﮐﻮ ﺑُﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﺑﻮﻻ ’’ ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ
    ﺍﺗﺮﺗﯽ۔ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﺭﮎ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺧﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ، ﯾﮧ ﺑﺘﺎو ﻭﮦ
    ﺑﺎﺕ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ
    ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ﯾﺎ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ! یہ
    بات ﮨﺮﮔﺰ ﮨﺮﮔﺰ ﺍٓﭖ کے لیے ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ۔ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ﺍﮔﺮ یہ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﺮﮮ لیے ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ،
    ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﮯ یہ ﺗﯿﻦ ﺍﺻﻮﻝ ﺍٓﺝ ﺳﮯ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ
    ﻭﺿﻊ ﮐﺮﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ، ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﮯ
    ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﮐﺴﻮﭨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﺮﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ،
    ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻮ ﻓﯿﺼﺪ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ
    ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻔﯿﺪ ہے؟ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﺗﯿﻨﻮﮞ
    ﮐﺴﻮﭨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ،ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﮬﮍﮎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ
    ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ
    ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻨﺼﺮ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﺎ،ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮجاتے تھے۔

    نیلم, ‏جنوری 4, 2014رپورٹبک مارک
    #1+ اقتباسجواب
 

فاتح

لائبریرین
12اگلا >

  1. نیلممحفلین
    مراسلے:
    11,419



    جھنڈا:
    England.GIF

    موڈ:
    Lurking.gif

    افلاطون اپنے ﺍُﺳﺘﺎد سقراط کے ﭘﺎﺱ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ کہنے ﻟﮕﺎ ’’ﺍٓﭖ ﮐﺎ
    ﻧﻮﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍٓﭖ کے ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﺮﺯﮦ ﺳﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮ
    ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ نے ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ جذباتی لہجے ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ’’ﺍٓﭖ کے ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
    ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘‘.....…
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﺎتھ کے ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ’’ﺗﻢ
    ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﻮ، ﺍﺱ ﮐﺎ
    ﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﻭ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ مجھے
    ﺑﺘﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ﯾﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﺑﻮﻻ ’’ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ
    یہ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﻓﯿﺼﺪ ﺳﭻ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ
    ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ یہ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﻢ ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ
    ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ’’ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ یہ
    ﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔ "ﺟﯽ ! ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ
    ﺑُﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ
    ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﮐﻮ ﺑُﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﺑﻮﻻ ’’ ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ
    ﺍﺗﺮﺗﯽ۔ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺎ،
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﺭﮎ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺧﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ، ﯾﮧ ﺑﺘﺎو ﻭﮦ
    ﺑﺎﺕ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ
    ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ﯾﺎ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ! یہ
    بات ﮨﺮﮔﺰ ﮨﺮﮔﺰ ﺍٓﭖ کے لیے ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ۔ ‘‘
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ﺍﮔﺮ یہ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﺮﮮ لیے ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ،
    ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ؟ ‘‘
    ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
    ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﮯ یہ ﺗﯿﻦ ﺍﺻﻮﻝ ﺍٓﺝ ﺳﮯ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ
    ﻭﺿﻊ ﮐﺮﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ، ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﮯ
    ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﮐﺴﻮﭨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﺮﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ،
    ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻮ ﻓﯿﺼﺪ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ
    ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻔﯿﺪ ہے؟ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﺗﯿﻨﻮﮞ
    ﮐﺴﻮﭨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ،ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﮬﮍﮎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ
    ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ
    ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻨﺼﺮ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﺎ،ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮجاتے تھے۔

    نیلم, ‏جنوری 4, 2014رپورٹبک مارک
    #1+ اقتباسجواب
کیا تمہیں یقین ہے کہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو وہ بات 100 فیصد درست ہے؟
یوسف سلطان صاحب اگر آپ کو واقعی یقین ہے کہ یہ واقعہ 100 فیصد درست ہے تو ہمیں بھی سمجھائیں کہ کس ثبوت کی بنا پر آپ کو یہ یقین ہوا؟
اور اگر آپ کو اس کے 99 فیصد یا اس سے کم درست ہونے کا یقین ہے یعنی 100 فیصد درست ہونے کا یقین سے نہیں کہہ سکتے تو آپ نے یہ ہمارے ساتھ شیئر کیوں کیا؟
 

عباس اعوان

محفلین
ویسے آپ لوگ اس بات پر کیوں مُصر ہیں کہ امیرِ جماعت نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ بات عین ممکن ہے کہ ویڈیو والے صاحب نے موبائل فون کی تکنیکی خرابی کو بلا وجہ امیرِ جماعت سے منسوب کر دیا ہو، جو کہ ویڈیو والے حضرات کی غلطی ہے۔ امیر ِ جماعت کی طرف سے تو ایسا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا۔
کوئی من گھڑت بات کسی سے منسوب کرنے میں کون سا وقت لگتا ہے۔
آداب۔
 
Top