سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

مہوش علی

لائبریرین
ابھی تک میرے سوال کا جواب نہیں ملا؟
کیا آپ اسلامی ہیں؟
آپ کے لئے جواب مندرجہ ذیل ہے میرے سوال ک کا جواب آنا باقی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

11846599_873082712778501_7363002940791916187_n.jpg

جب خالق ہونے کا دعویدار اپنی خلقت کے متعلق وہ شدید غلطیاں کر رہا ہو جو کہ زمانہ جاہلیت کے عرب بھی کرتے تھے، تو پھر یقیناً ایسے کے متعلق خالق ہونے کا دعویٰ درست نہیں۔
اہل مذہب کو سامنے کی بات تو نظر نہیں آتی ہے مگر دعوے کرتے ہیں وہ تدبر و تفکر کے۔
درحقیقت انہوں نے تدبر و تفکر پر پہرے لگا رکھے ہیں اور کسی صورت اجازت نہیں دیتے کہ انسان بذاتِ خود مذہب کی حقانیت جانچنے کےلیے تدبر و تفکر کرے۔

اور جب انسان ایمانداری کے ساتھ تحقیق کی راہ پر نکلتا ہے تو اُس وقت اسکا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بلک وہ فقط منصف ہوتا ہے اور اُسے فقط دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ابتک سائنس اور مذہب کی بحث کے دوران جو دلائل میرے سامنے آئے ہیں، وہ مذہب میں کمزوریوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور مذہب سائنس کے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہے۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
جب خالق ہونے کا دعویدار اپنی خلقت کے متعلق وہ شدید غلطیاں کر رہا ہو جو کہ زمانہ جاہلیت کے عرب بھی کرتے تھے، تو پھر یقیناً ایسے کے متعلق خالق ہونے کا دعویٰ درست نہیں۔
اہل مذہب کو سامنے کی بات تو نظر نہیں آتی ہے مگر دعوے کرتے ہیں وہ تدبر و تفکر کے۔
درحقیقت انہوں نے تدبر و تفکر پر پہرے لگا رکھے ہیں اور کسی صورت اجازت نہیں دیتے کہ انسان بذاتِ خود مذہب کی حقانیت جانچنے کےلیے تدبر و تفکر کرے۔

اور جب انسان ایمانداری کے ساتھ تحقیق کی راہ پر نکلتا ہے تو اُس وقت اسکا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بلک وہ فقط منصف ہوتا ہے اور اُسے فقط دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ابتک سائنس اور مذہب کی بحث کے دوران جو دلائل میرے سامنے آئے ہیں، وہ مذہب میں کمزوریوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور مذہب سائنس کے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہے۔

تو اس کا مطلب سیدھی طرح سے شفاف طریق سے آپ ملحد ہیں اور آپ کا سارا غصہ اسلام ہی کیوں ہے؟ سائنس کے ایک دو پیچ پڑھ لینے سے آپ نے کائنات سر نہیں کرلیا ابھی قیامت تک کائنات کو پھیلنا ہے پھر ایک دم سب کچھ رک جانا ہے عربی میں قیامہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ کائنات اپنا کام چھوڑ دیگی ، سب کچھ رک جائے گا، مٹی آپس میں ملنے سے انکار کردیگا، اندر کی چیزیں باہر پھینگ دیگا،، پہاڑ آزاد ہوجائنگے، انسان صرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہوگا کہ اس زمین کو ہوکیا گیا ہے،،،

1960ء میں ایک برطانوی سائنس دان پیٹرہِگز اور بلجیم کے ماہرطبیعات فرانکوئس اینگلرٹ اور علم طبیعیات کے بعض دوسرے محققین کائنات اور اس کی ابتدا پر تحقیقات میں مصروف تھے اور یہ جاننا چاہتے تھے کہ جب کائنات کا وجود نہیں تھا اور فضا میں صرف مختلف قسم کی توانائی کی لہریں تھیں، تو کس طرح اس توانائی سے ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ مستحکم ہوئے۔ ان میں کمیت (mass) پیدا ہوئی، یہ آپس میں جڑے، جس کے نتیجے میں ایٹم تشکیل ہوا اور اس طرح مادہ پیدا ہوا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ عموماً ہوتا یوں ہے کہ برقی قوت کے زیراثر پروٹون تو پیدا ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ان میں کمیت پیدا نہ ہو تو چندلمحات میں معدوم ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ بالکل غیرمستحکم ہوتے ہیں لیکن اگر ان میں کمیت پیدا ہوجائے تو یہ بڑے طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر محققین نے یہ نظریہ قائم کیا کہ ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات میں کمیت پیدا ہونے کی وجہ ایک اور ذرّہ ہے۔ یہ ابتداے کائنات میں ایک پل کے لیے پیدا ہوا اور ایٹمی ذرّات کو کمیت دے کر خود معدوم ہوگیا اور ایٹمی ذرّات مستحکم ذرّات بن گئے۔
پروفیسر ہِگز اور ان کے ساتھی محققین نے اس ذرّے کو ’ہِگز بوسَن‘ کے نام سے موسوم کیا اور عام اصطلاح میں اسے ’خدائی ذرّہ‘ کا نام دیا گیا اور یہی ذرّہ سائنس دانوں کی نگاہ میں کائنات کی وجۂ تخلیق قرار پایا۔ یہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی ذرّہ 1960ء سے سائنس دانوں کی تحقیق کی آماج گاہ رہا ہے۔اس ذرّے کی تلاش کے لیے ہِگز اور الگرٹ نے ایک تجرباتی منصوبہ اور طریقۂ عمل تشکیل دیا۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر سرن (Cern) کے علاقے میں کثیراخراجات کرکے (27کلومیٹر طویل ) ایک سرنگ نُما تجربہ گاہ بنائی گئی جس میں توانائی کو مادے میں تبدیل کرنے اور اس مقصد کے لیے ’ہِگز بوسَن‘ ذرّے یا تخیلاتی عنصر کو حاصل کرنے اور اس کے ذریعے پروٹونز میں کمیت پیدا کرکے ان میں استحکام پیدا کرنے اور مادہ حاصل کرنے کے لیے مختلف آلات نصب کیے گئے۔ اس سرنگ کو لارج ہڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider) کا نام دیا گیا۔ گذشتہ چندبرسوں سے اپنے پروگرام کے مطابق مختلف تجربات کیے گئے اور 2012ء میں وہ ہِگزبوسَن نامی تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی (sub-atomic) ذرّہ، جسے کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور کائنات کا بنیادی جز سمجھا جاتا ہے، کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کامیابی کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے سرِن ہال میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں کیا گیا۔
اس ذرّے کے بارے میں تحقیقات کرنے والے سائنس دانوں کے مختلف مشاہدات اور تاثرات میں ایک مشاہدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ہِگز بوسَن بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے تو اس سے ماس یا کمیت پیدا ہوگئی۔ تجربے کے دوران میں پروٹونز نے 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے ایک سیکنڈ میں 11ہزار سے زیادہ چکر لگائے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایسا ذرّہ ہے جس کا وزن 125.3 گیگاالیکٹرون ولٹس (volts) تھا۔ یہ ذرّہ ہرایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹونز سے 133گنا بھاری تھا۔ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیا دریافت شدہ ہِگزبوسَن ہی ہے۔ یہ اس صدی کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک اہم دریافت ہوگی۔
سال 2013ء کا ’رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنس‘ کا نوبل انعام برطانیہ کی ایڈنبرا یونی ورسٹی کے طبیعیات کے 84سالہ اعزازی پروفیسر پیٹر ہِگز (Peter Higgs) اور بلجیم کے 80سالہ پروفیسر فرانکوئس اینگلرٹ (Francois Englert) نے مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ یہ نوبل انعام 1.2 ملین ڈالر کا ہے جو انھیں ’ہِگزبوسَن‘ یا ’خدائی ذرّہ‘ کی صبرآزما 50 سالہ تحقیقات پر دیا گیا ہے۔ اس انعام کے ہمراہ تعریفی بیان میں کہا گیا ہے: یہ اس طریقۂ عمل کے نظری اکتشاف پر دیا گیا ہے جس سے ادنیٰ ایٹمی ذرّوں میں وزن کے ظہور یا پیدایش کی تشریح ہوتی ہے۔ اُس تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ اس میں ایک بنیاhiggs bosonدی ذرّے کی پیدایش کی نشان دہی ہوئی جو اٹلاس اور سی ایم ایس تجربات کے ذریعے سرن (سوئٹزرلینڈ) کی تجربہ گاہ میں ایک بڑے ہڈرون تصادمی آلے میں وقوع پذیر ہوا۔

اس بگز بوسن کے متعلق پیش کی گئی معلومات کے نتیجہ میں سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ ’ہِگزبوسَن‘ نے کائنات کی تخلیق کے وقت پروٹونز اور نیوٹرونز کو جوڑ دیا تھا اور ان کے اندر ایک کمیت پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد کبیر دھماکا ہوا (بگ بینگ) اس وقت ایک سوہزار ملین ڈگری سنٹی گریڈ تپش پیدا ہوئی اور کائنات تیز روشنی سے بھرگئی۔ یہ کائنات کی ابتدا تھی۔

کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے (اللہ نے) انھیں جدا کیا۔۔۔ کیا وہ ہماری خلّاقی کو نہیں مانتے؟۔۔۔ (الانبیاء ۲۱:۳۰۔۳۲)

اسی علیحدگی کو سائنس بِگ بینگ کا نام دیتی ہے، اور سکڑے ہوئے سے پھیلنے کے عمل کی تصدیق بھی سائنس ہی کرتی ہے.
1922ء میں ایک روسی ماہر ریاضیات الگزینڈر فریڈمین نے ریاضی کے معادلوں (mathemetical equations) کے نتائج سے واضح کیا کہ کائنات جامد شے نہیں ہے بلکہ وسعت پذیر ہے۔ 1927ء میں جارجس لماٹری نے کائنات میں ستاروں کے جھرمٹوں کا زمین سے دُور ہوتے جانے کا مشاہدہ کیا اور وضاحت کی کہ ایسا ہونا دراصل کائنات کی وسعت پذیری کے باعث ہے۔ اسی فاضل امریکی ماہرطبیعیات نے 1931ء میں یہ خیال بھی پیش کیا کہ جب مستقبل میں کائنات پھیلتی جارہی ہے تو لازم ہے کہ ماضی میں یہ سکڑی ہوئی تھی اور اس آخری حد تک سکڑی ہوئی تھی کہ جس کے بعد اس کا سکڑنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا یہ ایک نقطے کی مانند تھی اور یہ کہ اس حالت سے قبل کائنات کا کوئی وجود نہ تھا۔ وقت اور زماں اور مکان کا بھی وجود نہ تھا۔ یوں یہ کائنات بے وجودی کی کیفیت میں تھی اور اس حالت سے وجود پذیر ہوئی۔ 1924ء تا 1939ء میں ایک امریکی ماہرفلکیات ایڈون حبل کے مشاہدات نے لماٹری کے خیالات پر مہرتصدیق ثبت کردی۔

اسلام میں دیگراقوام اور اہل مذاہب کے حقوق:
ملحدین سیکولر اور دیگر لادین لوگوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ بڑے زوروشور سے کیا جاتا ہے کہ اسلام اور اس کے ماننے والے دوسرے مذہب والوں کو برداشت کرنے کے روادار نہیں، یہ ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے،اس کا حقیقت سے کوئی و اسطہ نہیں، یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی عالمی سازش کا ایک حصہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام دین ِرحمت ہے، اس کا دامنِمحبت ورحمت ساری انسانیت کو محیط ہے۔ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کوسخت تاکید کی ہے سرکش ظالم وجابر اور فسادی قسم کے لوگوں کے علاوہ دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے لوگ جو امن پسند لوگ ھے ان کے ساتھ مساوات، ہمدردی، غم خواری ورواداری کا معاملہ کریں، اور اسلامی نظامِ حکومت میں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی، بھید بھاؤ،امتیاز کا برتاؤ نہ کیا جائے۔ ان کی جان ومال، عزت وآبرو، اموال و جائداد اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد قرآنی ہے:

لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (الممتحنہ:۸)

اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔

اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں اہل علم لوگ فرماتے ھے کہ مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے، نہ ان کو ستانے اورنکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے، اس قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا، جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے،اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ہے تو تمام غیرمسلموں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔(حاشیہ: ترجمہ شیخ الہند:ص:۷۲۹)

دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ ان کے ساتھ مشترک سماجی وملکی مسائل ومعاملات میں، جن میں شرعی نقطہ ٴ نظر سے اشتراک وتعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو ان میں ساتھ دینا چاہیے۔

دیگر مذاہب یا اقوام کے کچھ لوگ اگر مسلمانوں سے سخت عداوت اور دشمنی بھی رکھتے ہوں تب بھی اسلام نے ان کے ساتھ رواداری کی تعلیم دی ہے:ارشاد ربانی ہے:

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَینَہ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ

(سورہٴ فصلت:۲۴)

بدی کا بدلہ نیکی سے دو پھر جس شخص کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تمہارا گرم جوش حامی بن جائے گا۔

کفار مکہ کے ساتھ حسن سلوک:

وہ کونسا ظلم تھا جوکفار ومشرکین نے مکہ مکرمہ میں سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور صحابہٴ کرام کے ساتھ روا نہ رکھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو جادوگر، شاعر اور کاہن کہاگیا، آپ صلى الله عليه وسلم کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپ صلى الله عليه وسلم پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپ صلى الله عليه وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ صلى الله عليه وسلم کا گلا گھونٹا گیا، نماز کی حالت میں آپ صلى الله عليه وسلم پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی، آپ صلى الله عليه وسلم کے قتل کے منصوبے تیار کیے گئے۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ صلى الله عليه وسلم کومحصور رکھا گیا۔جس میں ببول کے پتے کھاکر گزارہ کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی، لوگوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کو گالیاں دیں اور اتنا زدوکوب کیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیاگیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون واطمینان سے رہنے نہیں دیاگیا۔ اور طرح طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں، یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمت ِ عالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی۔ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی ان کو خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا،سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: اے قریشیو! تم کو کیا توقع ہے،اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انھوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا:

”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف عليه السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں؛ جاؤ تم سب آزاد ہو“(زاد المعارج:۱/۴۲۴)

کیا انسانی تاریخ اس رحم وکرم کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟

یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک:

یہودیوں کے مختلف قبائل مدینہ میں آباد تھے، نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ ہجرت فرماجانے کے بعد، ابتداءً یہود غیر جانب داراور خاموش رہے لیکن اس کے بعد وہ اسلام اور نبی رحمت صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے تئیں اپنی عداوت اور معاندانہ رویہ زیادہ دنوں تک نہ چھپا سکے۔ انہوں نے سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی خفیہ سازشیں کیں، بغاوت کے منصوبے بنائے، آپ صلى الله عليه وسلم کے کھانے میں زہر ملایا آپ صلى الله عليه وسلم کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں کو زَک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس کی ایک وجہ یہودیوں میں حسد، تنگ دلی، اورجمود وتعصب کا پایاجانا تھا۔ دوسرے ان کے عقائد باطلہ، اخلاق رذیلہ اور گندی سرشت تھی۔ لیکن قربان جائیے رحمت ِ عالم صلى الله عليه وسلم پر کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق کامظاہرہ کیا۔

مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سرکارِدوعالم صلى الله عليه وسلم نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں، اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کریں اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کریں، معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں۔

۱- تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انھیں حاصل تھے۔

۲- مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔

۳- اگر کوئی مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بہ شرط منظوری ورثاء قاتل سے خوں بہا لیا جائے گا۔

۴- باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو اس کے اہل وعیال سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔

۵- موقع پیش آنے پر یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے، اور مسلمان یہودیوں کی ۔

۶- حلیفوں میں سے کوئی فریق اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔

۷- مظلوموں اور ستم رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو مدد کی جائے گی۔

۸- یہود پر جو بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازمی ہوگی۔

۹- یہود کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

۱۰- مسلمانوں میں سے جو شخص ظلم یا زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزادیں گے۔

۱۱- بنی عوف کے یہود ی مسلمانوں میں ہی شمار ہوں گے۔

۱۲- یہودیوں اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئیگا تو اس کا فیصلہ رسول الله کریں گے۔

۱۳- یہ عہد نامہ کبھی کسی ظالم یاخاطی کی جانب داری نہیں کریگا۔ (سیرة ابن ہشام: ص:۵۰۱- تا- ۵۰۴)

آپ نے ملاحظہ فرمایا اس معاہدے میں کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے ہیں۔

سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اس معاہدے کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی، مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی مدد کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ درپے آزار رہے۔

عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک:

عیسائیوں کے ساتھ بھی سرورعالم صلى الله عليه وسلم نے مثالی رواداری برتی۔ مکہ مکرمہ اور یمن کے درمیان واقع ”نجران“ کا ایک موقر وفد آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا انھوں نے سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مذہبی معاملات میں گفتگو کی عیسائیوں کے ساتھ اس موقع پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں عیسائیوں کو مختلف حقوق دینے پر اتفاق کیاگیا ہے۔معاہدہ کی دفعات درج ذیل ہیں:

(۱) ان کی جان محفوظ رہے گی۔

( ۲) ا ن کی زمین جائداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔

(۳) ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی۔ مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

(۴) صلیبیوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔

(۵) ان کی کسی چیز پر قبضہ نہ کیاجائے گا۔

(۶) ان سے فوجی خدمت نہ لی جائے گی۔

(۷) اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا۔

(۸) ان کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔

(۹) ان کے معاملات اور مقدمات میں پوراانصاف کیا جائے گا۔

(۱۰) ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔

(۱۱) سود خواری کی اجازت نہ ہوگی۔

(۱۲) کوئی ناکردہ گناہ کسی مجرم کے بدلے میں نہ پکڑا جائے گا۔

(۱۳) اور نہ کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔ (دین رحمت:۲۳۹، بحوالہ: فتوح البلدان بلاذری)

مذکورہ بالا جو حقوق اسلام نے دیگر اقوام اور رعایا کو عطا کیے ہیں ان سے زیادہ حقوق تو کوئی اپنی حکومت بھی نہیں دے سکتی۔

جو غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہیں اس کے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر یہ ہے کہ وہ اللہ ورسول کی پناہ میں ہیں اسی لیے ان کو ذمی کہا جاتاہے اسلامی قانون یہ ہے کہ جو غیر مسلم (ذمی) مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتواس کا دفع کرنا ضروری ہے۔ (المبسوط للسرخسی:۱/۸۵)

منافقین کے ساتھ حسن سلوک:

مدینہ منورہ میں ایک طبقہ ان مفاد پرستوں کا بھی پیدا ہوگیا تھا جو زبان سے ایمان لے آیا تھا مگر دل ایمان ویقین سے یکسر خالی تھے، یہ لوگ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر بظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہوگئے تھے، مسلمانوں کے تئیں سخت کینہ، بغض اور حسد رکھتے تھے، ان کا سربراہ عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، یہ مدینہ کا بااثر آدمی تھا اور سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے مدینہ کے لوگ اس کو حکمراں بنانے کی تیاری کررہے تھے۔ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی ہجرت کے بعد اس کی آرزو خاک میں مل گئی۔ اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود دل سے کافر ہی رہا، منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تمام ترکوششیں کیں، نبی رحمت صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں، کافروں اور یہودیوں سے مل کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے تیار کیے،ان سب شرارتوں اور عداوتوں کے باوجود سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق اور رواداری ہی کا معاملہ فرمایا عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ بھی سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے پڑھائی۔ ان کے لڑکے کی درخواست پر اپنا جبہ مبارکہ اس کے کفن کے لیے مرحمت فرمایا۔

اسلامی حکومت میں غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے حقوق:

اسلام تمام افراد بشر اور طبقات انسانی کے لیے رحمت ورافت کا پیکر بن کر آیا تھا، اس لیے اس نے غیر مسلم اقوام اور رعایا کے ساتھ مثالی رحم وکرم، مساوات وہمدردی، اور رواداری کا معاملہ کیا ہے اور ان کو انسانی تاریخ میں پہلی بار وہ سماجی اور قومی حقوق عطا کیے جو کسی مذہب یا تمدن والوں نے دوسرے مذہب وتمدن والوں کو کبھی نہیں دیئے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵)

اگر کوئی مسلمان ذمی پرظلم کرتا ہے تو یہ مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے ۔(درمختار مع ردالمحتار:۵/۳۹۶)

جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)

اسلام نے طے کیا ہے کہ جو شخص اس غیرمسلم کو قتل کرے گا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے وہ جنت کی بوسے بھی محروم رہے گا جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔(حدیث شریف:ابن کثیر:۲/۲۸۹)

ذمیوں کے اموال اور املاک کی حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سنو جو کسی معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کرے، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا،یا طاقت سے زیادہ اس کو مکلف کرے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے دعوے دار بنوں گا۔(مشکاة شریف:ص:۳۵۴)

غیرمسلم رعایا کو اتنی آزادی حاصل تھی کہ ان کے تعلیمی ادارے آزاد ہوتے اوران کے شخصی قوانین کے لیے عدالتیں بھی آزاد رہیں۔

ذمیوں کو جو حقوق اسلام میں عطا کیے گئے ہیں وہ معاہدئہ اہل نجران کے ضمن میں تفصیل سے بیان کئے جاچکے ہیں۔

مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے سلسلہ میں اسلامی ہدایات:

مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار مظالم کے پہاڑ توڑرہے تھے،ان کا جینا دوبھر کردیا تھا ہر طرح سے ا ن کو پریشان کیا جارہا تھا، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ چلے جانے کے بعد بھی سکون میسر نہ آیا، اور کفار یہود اور منافقین کی مشترکہ سازشوں کا شکارر ہے۔ مدینہ کو تاخت وتاراج کرنے اور مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے ارادے سے ایک لشکر جرار نے مدینہ پر چڑھائی کردی اس انتہائی مجبوری کی حالت میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ گیا تھا کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیاجائے چناں چہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت دی اور فرمایا:حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطہ کہ ان پر ظلم ہوا۔اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے وہ لوگ، جن کو نکالاگیا ان کے گھروں سے اور دعویٰ کچھ نہیں سوائے اس کے،کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔(سورہ حج:آیت:۳۹)

جہاد کی اجازت ظلم وستم کے مقابلہ کے لیے دی گئی اور برسرپیکار لوگوں کے سلسلہ میں بے نظیر رواداری اور حسن اخلاق کی تعلیم بھی دی گئی جو کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی چناں چہ اس سلسلہ میں ہدایات درج ذیل ہیں:

(۱) جنگ میں خود پیش قدمی سے روکا(بقرہ:۱۹۱)

(۲) ظلم وزیادتی کی ممانعت کی (بقرہ:۱۹۰)

(۳) جنگ کی بس اس وقت تک اجازت دی جب تک فتنہ وفساد فرونہ ہوجائے(حج:۱۳۹)

(۴) دشمن کے قاصدوں کو امن دیا (ہدایہ ونہایہ:۳/۴۷)

(۵) دشمن کی عورتوں، بچوں،معذوروں ، کو مارنے سے منع کیا(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)

(۶) سرسبز کھیتوں اور پھل دار درختوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائی(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)

(۷) عبادت گاہوں کو ڈھانے اور تارک الدنیا عابدوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے سے روکا (ایضاً)

(۸) اسیران جنگ کو تکلیف پہنچانے کی ممانعت فرمائی۔

(۹) دشمن اپنے کو کم زور دیکھ کر صلح کی درخواست کرے تو اسے قبول کرنے کی ہدایت فرمائی۔

(۱۰) پناہ میں آنے والے غیر مسلم کو امن دینے اور عافیت سے رکھنے کی تاکید فرئی۔ (سورئہ توبہ:۳۶)

(۱۱) محض مال غنیمت کے لیے جہاد کرنے سے روکا۔(ابوداؤد:۱/۳۴۸)

(۱۲) لوٹ کے مال کو حرام قرار دیا۔ (تاریخ ابن خلدون)

(۱۳) معاہدہ کرنے والے ذمیوں کی جان ومال کی پوری حفاظت کا مسلمانوں کو پابند فرمایا۔ (دین رحمت:۲۳۹،بحوالہ فتوح البلدان)
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
تو اس کا مطلب سیدھی طرح سے شفاف طریق سے آپ ملحد ہیں اور آپ کا سارا غصہ اسلام ہی کیوں ہے؟ سائنس کے ایک دو پیچ پڑھ لینے سے آپ نے کائنات سر نہیں کرلیا ابھی قیامت تک کائنات کو پھیلنا ہے پھر ایک دم سب کچھ رک جانا ہے عربی میں قیامہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ کائنات اپنا کام چھوڑ دیگی ، سب کچھ رک جائے گا، مٹی آپس میں ملنے سے انکار کردیگا، اندر کی چیزیں باہر پھینگ دیگا،، پہاڑ آزاد ہوجائنگے، انسان صرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہوگا کہ اس زمین کو ہوکیا گیا ہے،،،

1960ء میں ایک برطانوی سائنس دان پیٹرہِگز اور بلجیم کے ماہرطبیعات فرانکوئس اینگلرٹ اور علم طبیعیات کے بعض دوسرے محققین کائنات اور اس کی ابتدا پر تحقیقات میں مصروف تھے اور یہ جاننا چاہتے تھے کہ جب کائنات کا وجود نہیں تھا اور فضا میں صرف مختلف قسم کی توانائی کی لہریں تھیں، تو کس طرح اس توانائی سے ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ مستحکم ہوئے۔ ان میں کمیت (mass) پیدا ہوئی، یہ آپس میں جڑے، جس کے نتیجے میں ایٹم تشکیل ہوا اور اس طرح مادہ پیدا ہوا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ عموماً ہوتا یوں ہے کہ برقی قوت کے زیراثر پروٹون تو پیدا ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ان میں کمیت پیدا نہ ہو تو چندلمحات میں معدوم ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ بالکل غیرمستحکم ہوتے ہیں لیکن اگر ان میں کمیت پیدا ہوجائے تو یہ بڑے طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر محققین نے یہ نظریہ قائم کیا کہ ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات میں کمیت پیدا ہونے کی وجہ ایک اور ذرّہ ہے۔ یہ ابتداے کائنات میں ایک پل کے لیے پیدا ہوا اور ایٹمی ذرّات کو کمیت دے کر خود معدوم ہوگیا اور ایٹمی ذرّات مستحکم ذرّات بن گئے۔
پروفیسر ہِگز اور ان کے ساتھی محققین نے اس ذرّے کو ’ہِگز بوسَن‘ کے نام سے موسوم کیا اور عام اصطلاح میں اسے ’خدائی ذرّہ‘ کا نام دیا گیا اور یہی ذرّہ سائنس دانوں کی نگاہ میں کائنات کی وجۂ تخلیق قرار پایا۔ یہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی ذرّہ 1960ء سے سائنس دانوں کی تحقیق کی آماج گاہ رہا ہے۔اس ذرّے کی تلاش کے لیے ہِگز اور الگرٹ نے ایک تجرباتی منصوبہ اور طریقۂ عمل تشکیل دیا۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر سرن (Cern) کے علاقے میں کثیراخراجات کرکے (27کلومیٹر طویل ) ایک سرنگ نُما تجربہ گاہ بنائی گئی جس میں توانائی کو مادے میں تبدیل کرنے اور اس مقصد کے لیے ’ہِگز بوسَن‘ ذرّے یا تخیلاتی عنصر کو حاصل کرنے اور اس کے ذریعے پروٹونز میں کمیت پیدا کرکے ان میں استحکام پیدا کرنے اور مادہ حاصل کرنے کے لیے مختلف آلات نصب کیے گئے۔ اس سرنگ کو لارج ہڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider) کا نام دیا گیا۔ گذشتہ چندبرسوں سے اپنے پروگرام کے مطابق مختلف تجربات کیے گئے اور 2012ء میں وہ ہِگزبوسَن نامی تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی (sub-atomic) ذرّہ، جسے کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور کائنات کا بنیادی جز سمجھا جاتا ہے، کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کامیابی کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے سرِن ہال میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں کیا گیا۔
اس ذرّے کے بارے میں تحقیقات کرنے والے سائنس دانوں کے مختلف مشاہدات اور تاثرات میں ایک مشاہدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ہِگز بوسَن بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے تو اس سے ماس یا کمیت پیدا ہوگئی۔ تجربے کے دوران میں پروٹونز نے 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے ایک سیکنڈ میں 11ہزار سے زیادہ چکر لگائے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایسا ذرّہ ہے جس کا وزن 125.3 گیگاالیکٹرون ولٹس (volts) تھا۔ یہ ذرّہ ہرایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹونز سے 133گنا بھاری تھا۔ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیا دریافت شدہ ہِگزبوسَن ہی ہے۔ یہ اس صدی کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک اہم دریافت ہوگی۔
سال 2013ء کا ’رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنس‘ کا نوبل انعام برطانیہ کی ایڈنبرا یونی ورسٹی کے طبیعیات کے 84سالہ اعزازی پروفیسر پیٹر ہِگز (Peter Higgs) اور بلجیم کے 80سالہ پروفیسر فرانکوئس اینگلرٹ (Francois Englert) نے مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ یہ نوبل انعام 1.2 ملین ڈالر کا ہے جو انھیں ’ہِگزبوسَن‘ یا ’خدائی ذرّہ‘ کی صبرآزما 50 سالہ تحقیقات پر دیا گیا ہے۔ اس انعام کے ہمراہ تعریفی بیان میں کہا گیا ہے: یہ اس طریقۂ عمل کے نظری اکتشاف پر دیا گیا ہے جس سے ادنیٰ ایٹمی ذرّوں میں وزن کے ظہور یا پیدایش کی تشریح ہوتی ہے۔ اُس تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ اس میں ایک بنیاhiggs bosonدی ذرّے کی پیدایش کی نشان دہی ہوئی جو اٹلاس اور سی ایم ایس تجربات کے ذریعے سرن (سوئٹزرلینڈ) کی تجربہ گاہ میں ایک بڑے ہڈرون تصادمی آلے میں وقوع پذیر ہوا۔

اس بگز بوسن کے متعلق پیش کی گئی معلومات کے نتیجہ میں سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ ’ہِگزبوسَن‘ نے کائنات کی تخلیق کے وقت پروٹونز اور نیوٹرونز کو جوڑ دیا تھا اور ان کے اندر ایک کمیت پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد کبیر دھماکا ہوا (بگ بینگ) اس وقت ایک سوہزار ملین ڈگری سنٹی گریڈ تپش پیدا ہوئی اور کائنات تیز روشنی سے بھرگئی۔ یہ کائنات کی ابتدا تھی۔

کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے (اللہ نے) انھیں جدا کیا۔۔۔ کیا وہ ہماری خلّاقی کو نہیں مانتے؟۔۔۔ (الانبیاء ۲۱:۳۰۔۳۲)

اسی علیحدگی کو سائنس بِگ بینگ کا نام دیتی ہے، اور سکڑے ہوئے سے پھیلنے کے عمل کی تصدیق بھی سائنس ہی کرتی ہے.
1922ء میں ایک روسی ماہر ریاضیات الگزینڈر فریڈمین نے ریاضی کے معادلوں (mathemetical equations) کے نتائج سے واضح کیا کہ کائنات جامد شے نہیں ہے بلکہ وسعت پذیر ہے۔ 1927ء میں جارجس لماٹری نے کائنات میں ستاروں کے جھرمٹوں کا زمین سے دُور ہوتے جانے کا مشاہدہ کیا اور وضاحت کی کہ ایسا ہونا دراصل کائنات کی وسعت پذیری کے باعث ہے۔ اسی فاضل امریکی ماہرطبیعیات نے 1931ء میں یہ خیال بھی پیش کیا کہ جب مستقبل میں کائنات پھیلتی جارہی ہے تو لازم ہے کہ ماضی میں یہ سکڑی ہوئی تھی اور اس آخری حد تک سکڑی ہوئی تھی کہ جس کے بعد اس کا سکڑنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا یہ ایک نقطے کی مانند تھی اور یہ کہ اس حالت سے قبل کائنات کا کوئی وجود نہ تھا۔ وقت اور زماں اور مکان کا بھی وجود نہ تھا۔ یوں یہ کائنات بے وجودی کی کیفیت میں تھی اور اس حالت سے وجود پذیر ہوئی۔ 1924ء تا 1939ء میں ایک امریکی ماہرفلکیات ایڈون حبل کے مشاہدات نے لماٹری کے خیالات پر مہرتصدیق ثبت کردی۔
آپ وہی کر رہے ہیں جو ہمیشہ میں مسلمانوں کو کرتا دیکھتا آئی ہوں کہ جب انہیں موضوع اور سوالات کے جوابات نہیں دینے ہوتے ۔۔۔تو وہ یہ کرتے ہیں کہ "آگے دوڑ پیچھے چھوڑ"۔۔ ۔
پیچھے سائنس کے حوالے سے سادہ سے سوالات موجود تھے جس میں جناب آدم کا صرف 6 ہزار سال قبل تشریف لانے کا مسئلہ تھا جبکہ سائنس تو 2 لاکھ سال پرانے انسانی ڈھانچے برآمد کر چکی ہے۔ پھر آدم کا 60 ہاتھ لمبا ہونا شامل ہے جبکہ یہ ڈھانچے تو آجکے انسان کے برابر ہیں۔ پھر قرآن کہتا ہے کہ تمام انسان ہی آدم کی اولاد ہیں، مگر پھر یوریشیا کے انسانوں میں نیندرتھال کا ڈی این اے کہاں سے آیا؟ دمدار ستارے دیکھ کر کیا واقعی ابھی تک آپ یہ سمجھتے ہیں کہ شیاطین سیڑھی بنائے آسمان پر چڑھ رہے تھے جو قرآن کے وعدے کے مطابق اللہ نے ان پر چنگاریاں برسائی ہیں؟۔۔۔
آپ نے پیچھے پیش کردہ کسی سوال کے جوابات نہیں دیے اور آگے "بگ بین" پر پہنچ گئے۔ اور پھر بگ بین میں بھی صریح غلطیاں کر دیں۔ دور دور تک اسلام نے کسی بگ بین کی تھیوری کو پیش نہیں کیا، مگر آج "زبردستی" قرآن سے بگ بین نکال کر دکھایا جا رہا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ کائنات "پھیل" رہی ہے (اور آج بھی یہ پھیلاؤ جاری ہے)۔ مگر قرآن و اسلام کے مطابق تو اللہ نے زمین کے بعد آسمان بنا دیے اور اب یہ پھیلاؤ رک چکا ہے۔
اگر قرآن میں بگ بین تھیوری ہوتی تو پچھلے 1400 سال کے قرآنی مفسران بشمول صحابہ و تابعین یا پھر بذاتِ خود پیغمبر اسلام اسکو "واضح" طور ایک مرتبہ تو حدیث میں بیان کر دیتے۔ اور حدیث کو چھوڑئیے، خود قرآن میں تو ایک مرتبہ یہ چیز "کھلی اور واضح اور روشن"آیت کی صورت میں موجود ہوتی۔ مگر دور دور تک ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
بلکہ اسکا الٹ ہے کہ عجیب و غریب چیز قرآن میں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ کائنات کا مطلب ہے "7 زمینیں اور 7 آسمان" (القرآن 65:12)۔ اب ڈھونڈتے پھریں یہ 7 زمینیں اور 7 آسمانوں کو۔ پچھلے 1400 سالوں سے تو یہ 7 زمینیں اور 7 آسمان نہیں مل سکے ہیں اور نہ ہی قیامت تک ملنے والے ہیں۔ سائیٹ اسلام سوال جواب پر اس آیت کے حوالے سے پہلے تفسیر سے اوٹ پٹانگ زمین اور کائنات کی ہیئت بیان کی گئی، او رپھر آخر میں عاجز آ کر مسلمانوں کو ایک بار پھر قران و سنت کے نام پر "اندھا" بن کر ایمان لانے کی برین واشنگ کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مقابلے میں سائنسی فیکٹز کو ٹھکرا دیں۔



اسلام میں دیگراقوام اور اہل مذاہب کے حقوق:
ملحدین سیکولر اور دیگر لادین لوگوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ بڑے زوروشور سے کیا جاتا ہے کہ اسلام اور اس کے ماننے والے دوسرے مذہب والوں کو برداشت کرنے کے روادار نہیں، یہ ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے،اس کا حقیقت سے کوئی و اسطہ نہیں، یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی عالمی سازش کا ایک حصہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام دین ِرحمت ہے، اس کا دامنِمحبت ورحمت ساری انسانیت کو محیط ہے۔ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کوسخت تاکید کی ہے سرکش ظالم وجابر اور فسادی قسم کے لوگوں کے علاوہ دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے لوگ جو امن پسند لوگ ھے ان کے ساتھ مساوات، ہمدردی، غم خواری ورواداری کا معاملہ کریں، اور اسلامی نظامِ حکومت میں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی، بھید بھاؤ،امتیاز کا برتاؤ نہ کیا جائے۔ ان کی جان ومال، عزت وآبرو، اموال و جائداد اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد قرآنی ہے:

لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (الممتحنہ:۸)

اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔

اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں اہل علم لوگ فرماتے ھے کہ مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے، نہ ان کو ستانے اورنکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے، اس قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا، جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے،اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ہے تو تمام غیرمسلموں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔(حاشیہ: ترجمہ شیخ الہند:ص:۷۲۹)

دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ ان کے ساتھ مشترک سماجی وملکی مسائل ومعاملات میں، جن میں شرعی نقطہ ٴ نظر سے اشتراک وتعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو ان میں ساتھ دینا چاہیے۔

دیگر مذاہب یا اقوام کے کچھ لوگ اگر مسلمانوں سے سخت عداوت اور دشمنی بھی رکھتے ہوں تب بھی اسلام نے ان کے ساتھ رواداری کی تعلیم دی ہے:ارشاد ربانی ہے:

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَینَہ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ

(سورہٴ فصلت:۲۴)

بدی کا بدلہ نیکی سے دو پھر جس شخص کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تمہارا گرم جوش حامی بن جائے گا۔

ایک بار پھر وہی رویہ کہ ۔۔۔۔ "آگے دوڑ پیچھے چھوڑ"۔
پیچھے ایک specific سوال کیا گیا تھا کنیز باندیوں کے حوالے سے
مگر آج تک میں نے نہیں دیکھا کہ مسلمانوں نے کنیز باندیوں سے اس سلوک کے متعلق کوئی براہ راست جواب دیا ہو۔ اور شاید انکا جواب دینا ممکن بھی نہ ہو۔

رہ گئی مسلمانوں کی غیر اقوام سے رویے کی بات، تو اس پر بھی دھوکے دہی ہے اور فقط وہی واقعات پیش کیے جاتے ہیں جو اس وقت کے ہیں جب کہ اسلام کو "غلبہ" حاصل نہیں ہوا تھا۔
غلبہ حاصل ہونے کے بعد اسلام بدل گیا۔
پہلی شرط اسلام نے یہ یہ لگا دی کہ ساری زمین اللہ کی ہے چنانچہ کوئی بھی غیر مسلم ریاست اس زمین پرقائم نہیں رہ سکتی سوائے اسکے کہ یا تو وہ قتل کی جائے اور اسکی زمینیں لوٹ لی جائیں اور عورتوں بچوں کو غلام بنا لیا جائے، یا پھر وہ جزیہ کے نام پر پیسہ ادا کریں۔
اور پھر وہیں سے اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی تضحیک شروع ہو گئی۔ اس پر تفصیل سے گفتگو بمع ثبوت پیش کروں گی، اور پھر آپ سے جواب طلب کروں گی۔

کفار مکہ کے ساتھ حسن سلوک:

وہ کونسا ظلم تھا جوکفار ومشرکین نے مکہ مکرمہ میں سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور صحابہٴ کرام کے ساتھ روا نہ رکھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو جادوگر، شاعر اور کاہن کہاگیا، آپ صلى الله عليه وسلم کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپ صلى الله عليه وسلم پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپ صلى الله عليه وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ صلى الله عليه وسلم کا گلا گھونٹا گیا، نماز کی حالت میں آپ صلى الله عليه وسلم پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی، آپ صلى الله عليه وسلم کے قتل کے منصوبے تیار کیے گئے۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ صلى الله عليه وسلم کومحصور رکھا گیا۔جس میں ببول کے پتے کھاکر گزارہ کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی، لوگوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کو گالیاں دیں اور اتنا زدوکوب کیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیاگیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون واطمینان سے رہنے نہیں دیاگیا۔ اور طرح طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں، یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمت ِ عالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی۔ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی ان کو خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا،سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: اے قریشیو! تم کو کیا توقع ہے،اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انھوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا:

”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف عليه السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں؛ جاؤ تم سب آزاد ہو“(زاد المعارج:۱/۴۲۴)

کیا انسانی تاریخ اس رحم وکرم کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟

یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک:

یہودیوں کے مختلف قبائل مدینہ میں آباد تھے، نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ ہجرت فرماجانے کے بعد، ابتداءً یہود غیر جانب داراور خاموش رہے لیکن اس کے بعد وہ اسلام اور نبی رحمت صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے تئیں اپنی عداوت اور معاندانہ رویہ زیادہ دنوں تک نہ چھپا سکے۔ انہوں نے سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی خفیہ سازشیں کیں، بغاوت کے منصوبے بنائے، آپ صلى الله عليه وسلم کے کھانے میں زہر ملایا آپ صلى الله عليه وسلم کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں کو زَک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس کی ایک وجہ یہودیوں میں حسد، تنگ دلی، اورجمود وتعصب کا پایاجانا تھا۔ دوسرے ان کے عقائد باطلہ، اخلاق رذیلہ اور گندی سرشت تھی۔ لیکن قربان جائیے رحمت ِ عالم صلى الله عليه وسلم پر کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق کامظاہرہ کیا۔

مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سرکارِدوعالم صلى الله عليه وسلم نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں، اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کریں اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کریں، معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں۔

۱- تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انھیں حاصل تھے۔

۲- مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔

۳- اگر کوئی مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بہ شرط منظوری ورثاء قاتل سے خوں بہا لیا جائے گا۔

۴- باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو اس کے اہل وعیال سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔

۵- موقع پیش آنے پر یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے، اور مسلمان یہودیوں کی ۔

۶- حلیفوں میں سے کوئی فریق اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔

۷- مظلوموں اور ستم رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو مدد کی جائے گی۔

۸- یہود پر جو بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازمی ہوگی۔

۹- یہود کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

۱۰- مسلمانوں میں سے جو شخص ظلم یا زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزادیں گے۔

۱۱- بنی عوف کے یہود ی مسلمانوں میں ہی شمار ہوں گے۔

۱۲- یہودیوں اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئیگا تو اس کا فیصلہ رسول الله کریں گے۔

۱۳- یہ عہد نامہ کبھی کسی ظالم یاخاطی کی جانب داری نہیں کریگا۔ (سیرة ابن ہشام: ص:۵۰۱- تا- ۵۰۴)

آپ نے ملاحظہ فرمایا اس معاہدے میں کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے ہیں۔

سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اس معاہدے کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی، مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی مدد کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ درپے آزار رہے۔

عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک:

عیسائیوں کے ساتھ بھی سرورعالم صلى الله عليه وسلم نے مثالی رواداری برتی۔ مکہ مکرمہ اور یمن کے درمیان واقع ”نجران“ کا ایک موقر وفد آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا انھوں نے سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مذہبی معاملات میں گفتگو کی عیسائیوں کے ساتھ اس موقع پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں عیسائیوں کو مختلف حقوق دینے پر اتفاق کیاگیا ہے۔معاہدہ کی دفعات درج ذیل ہیں:

(۱) ان کی جان محفوظ رہے گی۔

( ۲) ا ن کی زمین جائداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔

(۳) ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی۔ مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

(۴) صلیبیوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔

(۵) ان کی کسی چیز پر قبضہ نہ کیاجائے گا۔

(۶) ان سے فوجی خدمت نہ لی جائے گی۔

(۷) اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا۔

(۸) ان کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔

(۹) ان کے معاملات اور مقدمات میں پوراانصاف کیا جائے گا۔

(۱۰) ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔

(۱۱) سود خواری کی اجازت نہ ہوگی۔

(۱۲) کوئی ناکردہ گناہ کسی مجرم کے بدلے میں نہ پکڑا جائے گا۔

(۱۳) اور نہ کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔ (دین رحمت:۲۳۹، بحوالہ: فتوح البلدان بلاذری)

مذکورہ بالا جو حقوق اسلام نے دیگر اقوام اور رعایا کو عطا کیے ہیں ان سے زیادہ حقوق تو کوئی اپنی حکومت بھی نہیں دے سکتی۔

جو غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہیں اس کے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر یہ ہے کہ وہ اللہ ورسول کی پناہ میں ہیں اسی لیے ان کو ذمی کہا جاتاہے اسلامی قانون یہ ہے کہ جو غیر مسلم (ذمی) مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتواس کا دفع کرنا ضروری ہے۔ (المبسوط للسرخسی:۱/۸۵)

منافقین کے ساتھ حسن سلوک:

مدینہ منورہ میں ایک طبقہ ان مفاد پرستوں کا بھی پیدا ہوگیا تھا جو زبان سے ایمان لے آیا تھا مگر دل ایمان ویقین سے یکسر خالی تھے، یہ لوگ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر بظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہوگئے تھے، مسلمانوں کے تئیں سخت کینہ، بغض اور حسد رکھتے تھے، ان کا سربراہ عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، یہ مدینہ کا بااثر آدمی تھا اور سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے مدینہ کے لوگ اس کو حکمراں بنانے کی تیاری کررہے تھے۔ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی ہجرت کے بعد اس کی آرزو خاک میں مل گئی۔ اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود دل سے کافر ہی رہا، منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تمام ترکوششیں کیں، نبی رحمت صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں، کافروں اور یہودیوں سے مل کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے تیار کیے،ان سب شرارتوں اور عداوتوں کے باوجود سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق اور رواداری ہی کا معاملہ فرمایا عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ بھی سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے پڑھائی۔ ان کے لڑکے کی درخواست پر اپنا جبہ مبارکہ اس کے کفن کے لیے مرحمت فرمایا۔

اسلامی حکومت میں غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے حقوق:

اسلام تمام افراد بشر اور طبقات انسانی کے لیے رحمت ورافت کا پیکر بن کر آیا تھا، اس لیے اس نے غیر مسلم اقوام اور رعایا کے ساتھ مثالی رحم وکرم، مساوات وہمدردی، اور رواداری کا معاملہ کیا ہے اور ان کو انسانی تاریخ میں پہلی بار وہ سماجی اور قومی حقوق عطا کیے جو کسی مذہب یا تمدن والوں نے دوسرے مذہب وتمدن والوں کو کبھی نہیں دیئے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵)

اگر کوئی مسلمان ذمی پرظلم کرتا ہے تو یہ مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے ۔(درمختار مع ردالمحتار:۵/۳۹۶)

جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)

اسلام نے طے کیا ہے کہ جو شخص اس غیرمسلم کو قتل کرے گا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے وہ جنت کی بوسے بھی محروم رہے گا جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔(حدیث شریف:ابن کثیر:۲/۲۸۹)

ذمیوں کے اموال اور املاک کی حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سنو جو کسی معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کرے، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا،یا طاقت سے زیادہ اس کو مکلف کرے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے دعوے دار بنوں گا۔(مشکاة شریف:ص:۳۵۴)

غیرمسلم رعایا کو اتنی آزادی حاصل تھی کہ ان کے تعلیمی ادارے آزاد ہوتے اوران کے شخصی قوانین کے لیے عدالتیں بھی آزاد رہیں۔

ذمیوں کو جو حقوق اسلام میں عطا کیے گئے ہیں وہ معاہدئہ اہل نجران کے ضمن میں تفصیل سے بیان کئے جاچکے ہیں۔

مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے سلسلہ میں اسلامی ہدایات:

مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار مظالم کے پہاڑ توڑرہے تھے،ان کا جینا دوبھر کردیا تھا ہر طرح سے ا ن کو پریشان کیا جارہا تھا، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ چلے جانے کے بعد بھی سکون میسر نہ آیا، اور کفار یہود اور منافقین کی مشترکہ سازشوں کا شکارر ہے۔ مدینہ کو تاخت وتاراج کرنے اور مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے ارادے سے ایک لشکر جرار نے مدینہ پر چڑھائی کردی اس انتہائی مجبوری کی حالت میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ گیا تھا کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیاجائے چناں چہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت دی اور فرمایا:حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطہ کہ ان پر ظلم ہوا۔اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے وہ لوگ، جن کو نکالاگیا ان کے گھروں سے اور دعویٰ کچھ نہیں سوائے اس کے،کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔(سورہ حج:آیت:۳۹)

جہاد کی اجازت ظلم وستم کے مقابلہ کے لیے دی گئی اور برسرپیکار لوگوں کے سلسلہ میں بے نظیر رواداری اور حسن اخلاق کی تعلیم بھی دی گئی جو کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی چناں چہ اس سلسلہ میں ہدایات درج ذیل ہیں:

(۱) جنگ میں خود پیش قدمی سے روکا(بقرہ:۱۹۱)

(۲) ظلم وزیادتی کی ممانعت کی (بقرہ:۱۹۰)

(۳) جنگ کی بس اس وقت تک اجازت دی جب تک فتنہ وفساد فرونہ ہوجائے(حج:۱۳۹)

(۴) دشمن کے قاصدوں کو امن دیا (ہدایہ ونہایہ:۳/۴۷)

(۵) دشمن کی عورتوں، بچوں،معذوروں ، کو مارنے سے منع کیا(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)

(۶) سرسبز کھیتوں اور پھل دار درختوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائی(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)

(۷) عبادت گاہوں کو ڈھانے اور تارک الدنیا عابدوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے سے روکا (ایضاً)

(۸) اسیران جنگ کو تکلیف پہنچانے کی ممانعت فرمائی۔

(۹) دشمن اپنے کو کم زور دیکھ کر صلح کی درخواست کرے تو اسے قبول کرنے کی ہدایت فرمائی۔

(۱۰) پناہ میں آنے والے غیر مسلم کو امن دینے اور عافیت سے رکھنے کی تاکید فرئی۔ (سورئہ توبہ:۳۶)

(۱۱) محض مال غنیمت کے لیے جہاد کرنے سے روکا۔(ابوداؤد:۱/۳۴۸)

(۱۲) لوٹ کے مال کو حرام قرار دیا۔ (تاریخ ابن خلدون)

(۱۳) معاہدہ کرنے والے ذمیوں کی جان ومال کی پوری حفاظت کا مسلمانوں کو پابند فرمایا۔ (دین رحمت:۲۳۹،بحوالہ فتوح البلدان)



ان سب چیزوں میں بہت سی ڈنڈیاں مار کر پیش کیا گیا ہے اور بہت سے پہلو ہیں جنہیں تاریک رکھا گیا ہے۔ ان پہلوؤں کے سامنے آنے پر صورتحال تبدیل ہو جاتی ہے۔
مثلا بنی قریظہ کا واقعہ جہاں 900 کے قریب یہودیوں کو بعینہ ایسے ہی ذبح کر دیا گیا جیسا کہ آج داعش انسانوں کو ذبح کر رہی ہوتی ہے، اور انکی بے قصور عورتوں اور چھوٹے بچوں کو بنا کسی جرم و گناہ کے کنیز باندیاں اور غلام بنا لیا گیا، اور انکی تمام تر املاک اور جائیدادیں لوٹ لی گئیں۔
 

x boy

محفلین
آپ وہی کر رہے ہیں جو ہمیشہ میں مسلمانوں کو کرتا دیکھتا آئی ہوں کہ جب انہیں موضوع اور سوالات کے جوابات نہیں دینے ہوتے ۔۔۔تو وہ یہ کرتے ہیں کہ "آگے دوڑ پیچھے چھوڑ"۔۔ ۔
پیچھے سائنس کے حوالے سے سادہ سے سوالات موجود تھے جس میں جناب آدم کا صرف 6 ہزار سال قبل تشریف لانے کا مسئلہ تھا جبکہ سائنس تو 2 لاکھ سال پرانے انسانی ڈھانچے برآمد کر چکی ہے۔ پھر آدم کا 60 ہاتھ لمبا ہونا شامل ہے جبکہ یہ ڈھانچے تو آجکے انسان کے برابر ہیں۔ پھر قرآن کہتا ہے کہ تمام انسان ہی آدم کی اولاد ہیں، مگر پھر یوریشیا کے انسانوں میں نیندرتھال کا ڈی این اے کہاں سے آیا؟ دمدار ستارے دیکھ کر کیا واقعی ابھی تک آپ یہ سمجھتے ہیں کہ شیاطین سیڑھی بنائے آسمان پر چڑھ رہے تھے جو قرآن کے وعدے کے مطابق اللہ نے ان پر چنگاریاں برسائی ہیں؟۔۔۔
آپ نے پیچھے پیش کردہ کسی سوال کے جوابات نہیں دیے اور آگے "بگ بین" پر پہنچ گئے۔ اور پھر بگ بین میں بھی صریح غلطیاں کر دیں۔ دور دور تک اسلام نے کسی بگ بین کی تھیوری کو پیش نہیں کیا، مگر آج "زبردستی" قرآن سے بگ بین نکال کر دکھایا جا رہا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ کائنات "پھیل" رہی ہے (اور آج بھی یہ پھیلاؤ جاری ہے)۔ مگر قرآن و اسلام کے مطابق تو اللہ نے زمین کے بعد آسمان بنا دیے اور اب یہ پھیلاؤ رک چکا ہے۔
اگر قرآن میں بگ بین تھیوری ہوتی تو پچھلے 1400 سال کے قرآنی مفسران بشمول صحابہ و تابعین یا پھر بذاتِ خود پیغمبر اسلام اسکو "واضح" طور ایک مرتبہ تو حدیث میں بیان کر دیتے۔ اور حدیث کو چھوڑئیے، خود قرآن میں تو ایک مرتبہ یہ چیز "کھلی اور واضح اور روشن"آیت کی صورت میں موجود ہوتی۔ مگر دور دور تک ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
بلکہ اسکا الٹ ہے کہ عجیب و غریب چیز قرآن میں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ کائنات کا مطلب ہے "7 زمینیں اور 7 آسمان" (القرآن 65:12)۔ اب ڈھونڈتے پھریں یہ 7 زمینیں اور 7 آسمانوں کو۔ پچھلے 1400 سالوں سے تو یہ 7 زمینیں اور 7 آسمان نہیں مل سکے ہیں اور نہ ہی قیامت تک ملنے والے ہیں۔ سائیٹ اسلام سوال جواب پر اس آیت کے حوالے سے پہلے تفسیر سے اوٹ پٹانگ زمین اور کائنات کی ہیئت بیان کی گئی، او رپھر آخر میں عاجز آ کر مسلمانوں کو ایک بار پھر قران و سنت کے نام پر "اندھا" بن کر ایمان لانے کی برین واشنگ کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مقابلے میں سائنسی فیکٹز کو ٹھکرا دیں۔





ایک بار پھر وہی رویہ کہ ۔۔۔۔ "آگے دوڑ پیچھے چھوڑ"۔
پیچھے ایک specific سوال کیا گیا تھا کنیز باندیوں کے حوالے سے
مگر آج تک میں نے نہیں دیکھا کہ مسلمانوں نے کنیز باندیوں سے اس سلوک کے متعلق کوئی براہ راست جواب دیا ہو۔ اور شاید انکا جواب دینا ممکن بھی نہ ہو۔

رہ گئی مسلمانوں کی غیر اقوام سے رویے کی بات، تو اس پر بھی دھوکے دہی ہے اور فقط وہی واقعات پیش کیے جاتے ہیں جو اس وقت کے ہیں جب کہ اسلام کو "غلبہ" حاصل نہیں ہوا تھا۔
غلبہ حاصل ہونے کے بعد اسلام بدل گیا۔
پہلی شرط اسلام نے یہ یہ لگا دی کہ ساری زمین اللہ کی ہے چنانچہ کوئی بھی غیر مسلم ریاست اس زمین پرقائم نہیں رہ سکتی سوائے اسکے کہ یا تو وہ قتل کی جائے اور اسکی زمینیں لوٹ لی جائیں اور عورتوں بچوں کو غلام بنا لیا جائے، یا پھر وہ جزیہ کے نام پر پیسہ ادا کریں۔
اور پھر وہیں سے اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی تضحیک شروع ہو گئی۔ اس پر تفصیل سے گفتگو بمع ثبوت پیش کروں گی، اور پھر آپ سے جواب طلب کروں گی۔



ان سب چیزوں میں بہت سی ڈنڈیاں مار کر پیش کیا گیا ہے اور بہت سے پہلو ہیں جنہیں تاریک رکھا گیا ہے۔ ان پہلوؤں کے سامنے آنے پر صورتحال تبدیل ہو جاتی ہے۔
مثلا بنی قریظہ کا واقعہ جہاں 900 کے قریب یہودیوں کو بعینہ ایسے ہی ذبح کر دیا گیا جیسا کہ آج داعش انسانوں کو ذبح کر رہی ہوتی ہے، اور انکی بے قصور عورتوں اور چھوٹے بچوں کو بنا کسی جرم و گناہ کے کنیز باندیاں اور غلام بنا لیا گیا، اور انکی تمام تر املاک اور جائیدادیں لوٹ لی گئیں۔

سورة النّحل
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے جاتا ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں (۶۱)

سر ولیم کیلون جن کو فزکس میں نوبل انعام دیا گیا تھا وہ کہتے ہیں کہ " مجھے پورا یقین ہے کہ جتنا آپ سائنس کو نیوٹرل ہوکے تفصیل سے پڑھوگے تو وہ آپکو الحاد سے دور لے جائے گا"۔

بوائلر پیپر: صفحہ 132 باب: 2 میں "رابرٹ بوائل" لکھتے ہیں کہ " خدا کائناتی قوانین کی موجود کی وجہ ہے خدا نے کائنات کو فزکس کے قانون کے ذریعے لکھا اور انہیں اپنی دلیل کے طور پر ہمارے سامنے چھوڑدیا"۔

سر میکس بارن ، فزکس کا نوبل پرائزیافتہ،
کہتے ہیں کہ : وہ لوگ احمق اور جاہل ہیں جو کہتے ہیں کہ سائنس کا مطالعہ انسان کو ملحد یعنی منکر خدا بنادیتی ہے۔

دی جینین اسلام کے لکھاری " سر جارج برنارڈ شاہ اپنی کتاب والیم 1 باب 8 میں لکھتے ہیں " دنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سوچ رکھنے والے ایک انسان کی ضرورت ہے میں اس بات سے متفق ہوں کے اگر ان کو دنیا کا حاکم بنایا جائے توانسانیت کے سارے مسئلے حل ہوجائیں اور زمین امن و خوشحالی کا منظر پیش کرے"۔

آپکا رویہ اتنے سارے پکے دلیلوں کے بعد بھی وہی ہے جیسا شروع میں ہی تھا اسلام ، مسلمان اور قرآن کو تنز کرنا،، اگر میں بہت ادنا سا مسلمان اور سارے عالم کے مسلمان ان ساتھ اگر سارے عالم الدین سب کے سب اس کام کو چھوڑ دیں تو بھی اللہ ہی رب العالمین رہیں گے اور قرآن الکریم آخری کتاب، محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات اور مخلوقوں کے لئے آخری رسول اور رہنما ، آدم علیہ السلام پورے انسان پہلا انسان بنا ارتقاء کے وہی رہیں گے، ابلس وہی شیطان انسانوں کا ملحدوں کا اور جنوں کا استاد،، میری رائے تو آپکے لئے یہ ہے کہ،،،،

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَ۔ٰنِ ٱلرَّحِيمِ
قُلۡ يَ۔ٰٓأَيُّہَا ٱلۡڪَ۔ٰفِرُونَ (١) لَآ أَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُونَ (٢) وَلَآ أَنتُمۡ عَ۔ٰبِدُونَ مَآ أَعۡبُدُ (٣) وَلَآ أَنَا۟ عَابِدٌ۬ مَّا عَبَدتُّمۡ (٤)
وَلَآ أَنتُمۡ عَ۔ٰبِدُونَ مَآ أَعۡبُدُ (٥) لَكُمۡ دِينُكُمۡ وَلِىَ دِينِ (٦)

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
(اے پیغمبر ان منکران اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو! (۱) جن (بتوں) کو تم پوچتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا (۲) اور جس (خدا) کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے (۳) اور( میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پرستش کرتے ہوں ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں (۴) اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے (معلوم ہوتے) ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں (۵) تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر (۶)

آپ ملحد ہم مسلمانوں کو تنک نہیں کرینگے تو آپ کو بھی کچھ ایسا جواب نہیں ملے گا، کیونکہ ہمارے پاس راہنمائی ہے آپ بھی اپنے رہنما
کے پیچھے چل سکتی ہیں،،،ابلس، ڈارون، کارل مارکس، ہٹلروغیرہ،،،

اور بی بی آپکا نام " مہوش علی " ہوبہو مسلمانوں کا نام ہے اس لئے آپکے اعتراضات ہمیں بہت دکھ دیتا ہے ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ گھوڑے کا بچہ گھوڑا ہی ہوتا ہے گدھے کا بچے گدھا۔
اللہ کے بنائے ہوئے مخلوق مخلوق ہی ہوتے ہیں کبھی مادے کا خالق ، مادے سے پیدا ہوا مخلوق نہیں ہوسکتا،،،
اگر اللہ کے بنائے ہوئے مال سے سائنس دان ردو بدل کرکے اچھی چیزیں بناکر انسانیت اور مخلوقات کی خدمت کررہیں ہے تو بے شک تعریف کے لائق ہے ان سب میں ، سب کچھ میں، کائنات میں اگر تعریف کے لائق ہے تو وہ اللہ رب العالمین جس نے کائنات کو پیدا کیا، آسمان کو ستاروں کی زینت دی زمین کوانسانوں اور زمینی مخلوق کے لئے آرام دہ اور خوشنماء بنایا، اور انسانوں کو آزادی دے دی کہ زمین کو جسطرح چاہے استعمال کرے، انسانوں کی خدمت کرے یا ہٹلر کی طرح قاتل، نیوکلئر الیکٹرک پلانٹ بنائے یا ایک بم سے ہیروشیما کے کڑوڑوں لوگوں کو قتل کرے۔۔
لیکن یہاں ختم نہیں ہے یوم جزا باقی ہے اور آپ کو بھی یہ بتارہا ہوں کہ کچھ بھی کرلیں اللہ کے حدود سے باہر جاہی نہیں سکتی،، یوم جزاء پر میرا ایمان ہے گوکہ آپکا نہیں پھر بھی آپکی سوچ میں جو اسلامی حقیقت ہےجس کو فیری ٹیل سمجھتے ہیں سارے ملحد۔ مسلمانوں کا کام ہے کہ آخر وقت تک انکو سمجھائے ہوسکتا ہے دل میں اللہ پاک کی محبت اور انسیت آجائے،،
99 برس تک بھی اگر آپ نے پتھر کے صنم انسانوں کے پوجا کی مادیت کی پوجا کی مرنے سے 99 سیکینڈ پہلے آپ نے اللہ کو رب جان لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواسی طرح مان لیا جسطرح ماننے کا امر ہے تواللہ پاک وہ سب باتیں اس طرح ختم کردیتے جیسے کانچ ہو، شفاف، اور دل کو ہیرے کی طرح چمکدار، اور معاف کرکے جنت کی بشارت دے دیتے ہیں،،،کیونکہ وہی غفورالرحیم ، الرحمن الرحیم ہے۔۔۔
انتھی۔۔۔۔

11709523_871704739587195_3674321011659808348_n.jpg


مہوش علی بی بی آپ نے جو کچھ بھی لکھا اس کارد موجود ہے اور مرغے کی کبھی ایک ٹانگ ہوہی نہیں سکتی آپ تودیسی ہیں ابھی ابھی رونما ہوئی ہیں آپ سے پہلے بھی الحادوں کے استادو نے کوشش کی اور انکی کوشش سوائے انکو موت پکڑ لے وہ موت کے عوامل کو بچا نہ سکے۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
سمجھ نہیں آتی کہ سائنسدانوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے. آئے روز نئی تحقیقات اور نظریات پیش کر کے الحاد کے تابوت میں ایک اور کِیل ٹھوک دیتے ہیں، حالانکہ ملحد بیچارے اللہ اور قرآن کا انکار کر کے صبح شام سائنس کی مالا جپتے رہے ہیں.
اب ذرا سائنسدانوں کا نیا شوشہ ملاحظہ کیا جائے، فرما رہے ہیں کہ magnetic poles تبدیل ہو رہے ہیں اور اس کی وجہ سے دنیا تباہ ہو جائے گی.

Sunrise in the WEST: Scientists warn North could be SOUTH as Earth's magnetic poles SWITCH
SCIENTISTS have warned Earth could be heading towards an extraordinary event which would see compasses point SOUTH and the sun rise in the West.
Climate researchers believe we are heading towards a reversal of the planet's magnetic field, which some fear will lead to the end of the human race. A swap of the magnetic poles from north to south would shift the continents so fiercely it would trigger mass earthquakes, rapid climate change, extinctions and global destruction.
Earthquakes aside, there is a scientific belief that as we head towards a reversal - which could be less than 1,000 years away, Earth's magnetic field could dangerously weaken leaving us at the mercy of solar storms when radiation and X-rays are ejected from the Sun towards our planet.
Jean-Pierre Valet, who conducts research on geomagnetic reversals at the Institute of Earth Physics of Paris, said: "The most dramatic changes that occur when the poles reverse is a very large decrease of the total field intensity."

Monika Korte, the scientific director of the Niemegk Geomagnetic Observatory at GFZ Potsdam in Germany, said: "It's not a sudden flip, but a slow process, during which the field strength becomes weak, very probably the field becomes more complex and might show more than two poles for a while, and then builds up in strength and [aligns] in the opposite direction."

When the magnetic field gets weakest, as ours should continue to do so, is when we are at most risk from solar flares.

John Tarduno, professor of geophysics at the University of Rochester, said: "Coronal mass ejections (CMEs) occasionally occur on the Sun, and sometimes hurtle directly toward Earth.

"Some of the particles associated with CMEs can be blocked by Earth's magnetic field. With a weak field, this shielding is less efficient."

کہیں یہ سائنسی حضرات قیامت کی سائنسی تصویرکشی تو نہیں کر رہے؟

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا
جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی
وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا
اور زمین اپنے (اندر) کے بوجھ نکال ڈالے گی
سورہ الزلزال-1,2

وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً
اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا لئے جائیں گے۔ پھر ایک بارگی توڑ پھوڑ کر برابر کردیئے جائیں گے
فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ
تو اس روز ہو پڑنے والی (یعنی قیامت) ہو پڑے گی
وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ
اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن کمزور ہوگا
سورہ الحاقہ-14,15,16

وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ
اور جب دریا آگ ہو جائیں گے
سورہ التکویر-6

يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلًا
جس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں اور پہاڑ ایسے بھر بھرے (گویا) ریت کے ٹیلے ہوجائیں
سورہ المزمل-14

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا
اور تم سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا ان کو اُڑا کر بکھیر دے گا
فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا
اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا
لَّا تَرَىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا
جس میں نہ تم کجی (اور پستی) دیکھو گے نہ ٹیلا (اور بلندی)
سورہ طٰہ-105,106,107

وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا
اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہو کر رہ جائیں گے
سورہ نبا-20
 
مدیر کی آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
قرآن و اسلام کے مطابق تو اللہ نے زمین کے بعد آسمان بنا دیے اور اب یہ پھیلاؤ رک چکا ہے۔

آپ کے اسی ایک جملے سے پتا چل رہا ہے کہ آپ نے قرآن مجید کو کتنی اچھی طرح پڑھا اور سمجھا ہے۔۔۔ سورۃالذاریات میں بڑے واضح طور پر اس پھیلاؤ کا ذکر موجود ہےکہ

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَO ۔ سورۃ الذاریات آیت 47۔
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیںo۔

آپ نے شائد قرآن مجید کے بارے میں ادھر ادھر سے سنا ہے ، پڑھا اور سمجھا نہیں، یا پھر آپ کسی پراپیگنڈہ مہم پہ ہیں۔۔۔
اگر آپ واقعی حق کی تلاش میں ہیں تو سب سے پہلے دل و دماغ کو صاف کر کے حق بات پانے کی نیت سے قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوسشش کریں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ عزوجل آپ کے لئے حق تک پہنچنا اور اسے سمجھ کر قبول کرنا آسان فرمائے۔۔۔ امید ہے آپ اس دعا کا برا نہیں منائیں گی۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ کے اسی ایک جملے سے پتا چل رہا ہے کہ آپ نے قرآن مجید کو کتنی اچھی طرح پڑھا اور سمجھا ہے۔۔۔ سورۃالذاریات میں بڑے واضح طور پر اس پھیلاؤ کا ذکر موجود ہےکہ

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَO ۔ سورۃ الذاریات آیت 47۔
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیںo۔

آپ نے شائد قرآن مجید کے بارے میں ادھر ادھر سے سنا ہے ، پڑھا اور سمجھا نہیں، یا پھر آپ کسی پراپیگنڈہ مہم پہ ہیں۔۔۔
اگر آپ واقعی حق کی تلاش میں ہیں تو سب سے پہلے دل و دماغ کو صاف کر کے حق بات پانے کی نیت سے قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوسشش کریں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ عزوجل آپ کے لئے حق تک پہنچنا اور اسے سمجھ کر قبول کرنا آسان فرمائے۔۔۔ امید ہے آپ اس دعا کا برا نہیں منائیں گی۔۔۔

شکریہ۔ آپ سے بھی شکوہ ہی رہا کہ کاش کہ کبھی آپ نے ہمارے اٹھائے گئے 7 آسمانوں 7 زمینیں، اور دمدار تاروں کے شیاطین کو مارنے اور دیگر سوالات کے جوابات بھی دیے ہوتے، کیونکہ اسکے بغیر "آگے دوڑ پیچھے چھوڑ" والا سلسلہ شروع ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔

دوسرا، میں تو ہر وقت اپنی کم علم کا ہر وقت اعتراف کرتی ہوں، لیکن آپ سے بھی درخواست ہے کہ آپ بھی تقابلی مطالعہ کیا کیجئے۔
آپکا پیش کردہ ترجمہ بذاتِ خود مسلمان مترجمین کے ترجمے سے ٹکراتا ہے۔
کیوں؟

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَO ۔ سورۃ الذاریات آیت 47۔
احمد علی: اور ہم نے آسمان کو قدرت سے بنایا اور ہم وسیع قدرت رہنے والے ہیں
احمد رضا خان: اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے والے ہیں
شبیر احمد: اور آسمان کو بنایا ہے ہم نے اپنی قدرت سے اور بلاشبہ ہم اس سے بھی زیادہ وسعت رکھتے ہیں۔
فتح محمد جالندھری: اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم کو سب مقدور ہے
محمود الحسن: اور بنایا ہم نے آسمان ہاتھ کے بل سے اور ہم کو سب مقدور ہے
ابو الاعلیٰ مودودی: آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِس کی قدرت رکھتے ہیں۔

ان مترجمین میں سے کسی نے بھی یہ ترجمہ نہیں کیا کہ "ہم وسعت دیتے چلے جا رہے ہیں"۔

وجہ یہ ہے کہ اگر یہ مترجمین اس آیت 47 میں ترجمہ کر دیں کہ آسمان کو وسعت دیے جا رہے ہیں، ۔۔۔۔ تو پھر اگلی آیت 48 میں انہیں مجبوراً زمین کے لیے بھی ترجمہ کرنا پڑ جائے گا کہ "ہم زمین مسلسل بچھائے چلے جاتے جا رہے ہیں"۔
ان دونوں آیات میں ایک ہی گرامر استعمال ہوئی ہے۔

(سورۃ ذاریات آیت 48) وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ
ترجمہ: اورہم نے ہی زمین کو بچھایا پھر ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں

عربی زبان میں Present Simple اور Present Continuous میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بلکہ سیاق و سباق دیکھ کر بات کو سمجھا جاتا ہے۔
Present Simple کی مثال ہے: میں روٹی کھاتا ہوں۔
اور Present Continuous کی مثال ہے: میں روٹی کھا رہا ہوں۔

چنانچہ آیت 51:47 میں "وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ" کے 2 ترجمے ہو سکتے ہیں۔
1) ہم وسعت دیتے ہیں
2) ہم وسعت دے رہے ہیں/ہم وسعت دیے جا رہے ہیں

آج بگ بینگ تھیوری کو زبردستی قرآن سے ثابت کرنے والے حضرات نے زبردستی ہی دوسرا Present Continuous والا ترجمہ پکڑ لیا ہے، حالانکہ اگلی زمین سے متعلق آیت میں یہی گرامر کا استعمال ہوا ہے اور انہیں علم ہے کہ سیاق و سباق کے حوالے سے انکا یہ ترجمہ درست نہیں۔

سوال: ۔۔۔۔ کیا پیغمبر اسلام نے کبھی حدیث میں کہا کہ کائنات مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہے؟
جواب: نہیں۔
سوال:۔۔۔۔ کیا صحابہ یا تابعین یا 1400 سالہ اسلامی تاریخ میں قرآن کی یہ آیت پڑھ کر 1400 سالوں میں آنے والے جمیع مسلمانوں میں آج تک کسی نے یہ دعویٰ کیا کہ کائنات پھیلتی جا رہی ہے؟
جواب: نہیں۔

یاد رہے قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ "کھول کھول" کر آیات بیان کرتا ہے۔ لیکن یہاں آپ قرآن کے ماضی کے تمام مترجمین کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ قرآن کا بگ بینگ والا ترجمہ نہیں کر رہے ہیں۔ مترجمین ہی کیا، 1400 سال کے جمیع مسلمان اس آیت سے کہیں بگ بینگ نہیں سمجھ پائے۔ تو سوال گھوم پھر کر پھر گلے میں یہ پڑے گا کہ قرآن کے اس دعوے کا کیا کریں کہ آیات کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں؟
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
آپ لوگوں کو اگر دور سے بھی نظر آ جائے کہ قرآن کی آیت کوئی رمق اور رتی بھر بھی ماڈرن سائنس کے مطابق ہے، تو آپ کھینچ کھانچ کے اس پر "قرآنی معجزہ" کا مضمون بنا دیتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف "صاف صاف اور واضح" دلائل موجود ہیں کہ قرآنی سائنس کے دعوے ماڈرن سائنس کی روشنی میں غلط ہیں، مگر آپ ان کھلی آیات اور حقائق سے آنکھیں موڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔

قرآنی سائنسی دعویٰ: غروب کے وقت سورج ایک کنویں میں ڈوب جاتا ہے


قرآن ذوالقرنین کی کہانی بیان کر رہا ہے کہ جب وہ زمین کے آخری مغربی کنارے تک پہنچے تو انہوں نے سورج کو ایک کنویں میں ڈوبتے ہوئے پایا۔
(القرآن 18:86) حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِ‌بَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُ‌بُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ
ترجمہ : "یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا اسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا پایا"

زمانہ جاہلیت کے عرب سورج کو چھوٹی سی پلیٹ سمجھتے تھے، اس لیے اس کو چھوٹے سے پانی کے کنویں یا چشمے میں ڈبویا جا رہا ہے۔

مسلمانوں کا واحد عذر یہ ہے کہ یہ اللہ فقط نبی ذوالقرنین کا "خیال" پیش کر رہا ہے کہ انہیں ایسا لگا جیسے سورج ایک کنویں میں ڈوب گیا ہو، چنانچہ یہ اللہ کی سائنسی غلطی نہیں بلکہ ذوالقرنین کی سائنسی غلطی ہے جسے اللہ نے جوں کا توں قرآن میں بیان کر دیا۔

پہلا سوال پھر مسلمانوں سے یہ ہی ہے کہ اللہ نے نبی ذوالقرنین کی اُسوقت کوئی تصحیح کیوں نہیں کی؟
اچھا پھر نبی ذوالقرنین کی تصحیح نہیں کی تو پھر اس واقعے کو قرآن میں بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کی تصحیح کر دیتا ۔۔۔ مگر نہیں، مسلمانوں کی بھی تصحیح نہیں کی اور 1400 سالوں تک مسلمان ایمان لائے بیٹھے رہے کہ ذوالقرنین نے صحیح سائنس پیش کی ہے اور سورج ایک کنویں میں ڈوبتا ہے۔ اور پھر 1400 سال کے بعد جا کر مسلمانوں کو پتا چلا کہ ذوالقرنین کی قرآن میں بیان کردہ سائنس بھی غلط ہے اور اللہ نے بھی اس غلطی کی نشاندہی نہیں کی۔

مگر اس لنگڑے لولے عذر پر آخری وار بذاتِ خود پیغمبر اسلام نے لگا دیا جہاں انہوں نے حدیث میں کھل کر بیان کر دیا کہ یہ کوئی خیال یا گمان وغیرہ نہیں بلکہ اسلام کی سائنسی حقیقت ہے۔

سنن ابو داؤد، کتاب الحروف و القراءات (آنلائن لنک):
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ كُنْتُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ عَلَى حِمَارٍ وَالشَّمْسُ عِنْدَ غُرُوبِهَا فَقَالَ ‏"‏ هَلْ تَدْرِي أَيْنَ تَغْرُبُ هَذِهِ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنِ حَامِيَةٍ ‏"‏ ‏.‏
ترجمہ:
ابو ذر کہتے ہیں: میں جناب رسولخدا کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جب وہ ایک گدھے پر سوار تھا اور سورج ڈوب رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: "کیا تمہیں علم ہے کہ سورج کہاں ڈوبتا ہے؟" میں نے جواب دیا: "یہ بات تو اللہ اور اسکا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔" اس پر جناب محمد نے فرمایا: "سورج ایک گرم پانی کی ندی/چشمے/کنویں میں ڈوبتا ہے۔

علامہ البانی نے اس روایت پر "صحیح" کا حکم لگایا ہے (لنک)

چنانچہ یہاں تو کسی "گمان" کے نا پر بھاگنے کی گنجائش بھی ختم ہو گئی۔ اب آپ اور کیا بہانہ پیش کریں گے؟
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
سمجھ نہیں آتی کہ سائنسدانوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے. آئے روز نئی تحقیقات اور نظریات پیش کر کے الحاد کے تابوت میں ایک اور کِیل ٹھوک دیتے ہیں، حالانکہ ملحد بیچارے اللہ اور قرآن کا انکار کر کے صبح شام سائنس کی مالا جپتے رہے ہیں.
اب ذرا سائنسدانوں کا نیا شوشہ ملاحظہ کیا جائے، فرما رہے ہیں کہ magnetic poles تبدیل ہو رہے ہیں اور اس کی وجہ سے دنیا تباہ ہو جائے گی.

Sunrise in the WEST: Scientists warn North could be SOUTH as Earth's magnetic poles SWITCH
SCIENTISTS have warned Earth could be heading towards an extraordinary event which would see compasses point SOUTH and the sun rise in the West.
Climate researchers believe we are heading towards a reversal of the planet's magnetic field, which some fear will lead to the end of the human race. A swap of the magnetic poles from north to south would shift the continents so fiercely it would trigger mass earthquakes, rapid climate change, extinctions and global destruction.
Earthquakes aside, there is a scientific belief that as we head towards a reversal - which could be less than 1,000 years away, Earth's magnetic field could dangerously weaken leaving us at the mercy of solar storms when radiation and X-rays are ejected from the Sun towards our planet.
Jean-Pierre Valet, who conducts research on geomagnetic reversals at the Institute of Earth Physics of Paris, said: "The most dramatic changes that occur when the poles reverse is a very large decrease of the total field intensity."

Monika Korte, the scientific director of the Niemegk Geomagnetic Observatory at GFZ Potsdam in Germany, said: "It's not a sudden flip, but a slow process, during which the field strength becomes weak, very probably the field becomes more complex and might show more than two poles for a while, and then builds up in strength and [aligns] in the opposite direction."

When the magnetic field gets weakest, as ours should continue to do so, is when we are at most risk from solar flares.

John Tarduno, professor of geophysics at the University of Rochester, said: "Coronal mass ejections (CMEs) occasionally occur on the Sun, and sometimes hurtle directly toward Earth.

"Some of the particles associated with CMEs can be blocked by Earth's magnetic field. With a weak field, this shielding is less efficient."

کہیں یہ سائنسی حضرات قیامت کی سائنسی تصویرکشی تو نہیں کر رہے؟

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا
جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی
وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا
اور زمین اپنے (اندر) کے بوجھ نکال ڈالے گی
سورہ الزلزال-1,2

وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً
اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا لئے جائیں گے۔ پھر ایک بارگی توڑ پھوڑ کر برابر کردیئے جائیں گے
فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ
تو اس روز ہو پڑنے والی (یعنی قیامت) ہو پڑے گی
وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ
اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن کمزور ہوگا
سورہ الحاقہ-14,15,16

وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ
اور جب دریا آگ ہو جائیں گے
سورہ التکویر-6

يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلًا
جس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں اور پہاڑ ایسے بھر بھرے (گویا) ریت کے ٹیلے ہوجائیں
سورہ المزمل-14

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا
اور تم سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا ان کو اُڑا کر بکھیر دے گا
فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا
اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا
لَّا تَرَىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا
جس میں نہ تم کجی (اور پستی) دیکھو گے نہ ٹیلا (اور بلندی)
سورہ طٰہ-105,106,107

وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا
اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہو کر رہ جائیں گے
سورہ نبا-20

ایک بار پھر بات وہیں کی وہیں ہی رہی کہ آپکے پاس ایک بھی "کھلی و واضح" دلیل نہیں ہے، بلکہ کھینچ کھانچ کر زبردستی زمین کے کشش ثقل کے قطب تبدیل کرنے کو اللہ کی قیامت سے جوڑ دیا۔

مگر یہاں بھی آپ کی یہ "زبردستی" مکمل طور پر ناکام ثابت ہو گی کیونکہ زمین تو اپنی تاریخ میں پہلے بھی کشش ثقل کے قطب کو تبدیل کر چکی ہے (لنک)۔ ایسی تبدیلی سے زمین کی سطح پر تو تباہیاں آتی ہیں، مگر اس سے کائنات میں کوئی تباہی نہیں ہوتی۔ جبکہ قرآن کے مطابق قیامت کا مطلب ہے کہ نہ صرف یہ کہ زمین تباہ ہو جائے گی، بلکہ پوری کائنات تباہ ہو جائے گی۔

وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ
اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن کمزور ہوگا
سورہ الحاقہ-14,15,16

صحیح مسلم، كتاب الجنہ و صفۃ نعیمھا و اھلھا (آنلائن لنک)
تُدْنَى الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ حَتَّى تَكُونَ مِنْهُمْ كَمِقْدَارِ مِيلٍ۔۔
ترجمہ: قیامت کے روز سورج مخلوق سے اتنا قریب آن پہنچے گا کہ ان میں ایک میل کا فاصلہ رہ جائے گا۔۔۔

زمین نے جب اپنے قطب تبدیل کیے، تو کبھی بھی سورج ایک میل کے فاصلے پر نہیں آیا۔ بلکہ لازمی بات ہے کہ سورج ابھی ہزاروں لاکھوں میل دور ہی ہو گا تو اسکی تپش سے زمین ٹکڑے ٹکرے ہو چکی ہو گی اور مخلوق کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی باقی نہ ہو گا۔
چنانچہ پیغمبر اسلام کو اللہ نے جو وحی کی ہے کہ سورج 1 میل کے فاصلے پر ہو گا، تو یہ وحی والی سائنس بذاتِ خود ماڈرن سائنس کی روشنی میں غلط ثابت ہو رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
شکریہ۔ آپ سے بھی شکوہ ہی رہا کہ کاش کہ کبھی آپ نے ہمارے اٹھائے گئے 7 آسمانوں 7 زمینیں، اور دمدار تاروں کے شیاطین کو مارنے اور دیگر سوالات کے جوابات بھی دیے ہوتے، کیونکہ اسکے بغیر "آگے دوڑ پیچھے چھوڑ" والا سلسلہ شروع ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔

جی محترمہ ۔ ہمارے خیال میں تو اس سارے سلسلے کو یہیں ختم ہو جانا چاہیئے کہ اس دھاگے کا سارا تانا بانا ہی فضول ابحاث پر مبنی ہے۔ خود دھاگے کا عنوان ہی درست نہیں ہے کہ اس میں ان چیزوں کا زبردستی ٹکراؤ کروایا جا رہا ہے جن کا ایک دوسرے سے کچھ سروکار ہی نہیں۔۔۔
سائنس اُسی طرح علم کی ایک شاخ ہے جس طرح کہ دیگر علوم ہیں۔ اور بطور علم کے اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ لیکن مذہب یعنی دین اسلام یا ایمانیات کی تعلیمات میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ کیونکہ سائنس مشاہدات کا علم ہے جو حواس خمسہ کے دائرے میں مقید ہے اور اس کنویں کے باہر کیا ہے سائنس کو اس کا کچھ پتا نہیں اور یہی اس کی شان کے لائق بھی ہے۔۔۔اس کے برعکس ایمانیات کی بنیاد ہی غیب پر ہے۔ اور دین اسلام اس دنیا کی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی کے متعلق بھی راہنمائی کرتا ہے بلکہ اس کا اصل مقصود ہی آخرت کی زندگی ہے جو کہ غیب ہے۔۔۔ تو سائنس جو مشاہدات کا علم ہے اور جس کا ایریا آف ڈسکشن یہی دنیا کی زندگی ہے، ابھی تک کائنات میں بکھرے مشاہدات کا احاطہ ہی نہیں کر پائی تو مغیبات کے بارے میں کیا بتائے گی۔۔۔
جہاں تک قرآن مجید و احادیث مبارکہ کا تعلق ہے تو ایک مسلمان کے ایمان کی بنیاد یہی دو چیزیں ہیں۔ اور قرآن مجید شروع ہی ان الفاظ سے ہو رہا ہے جو ایک مسلمان کو ایمانیات کے بارے میں سائنس وغیرہ جیسے علوم سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔۔۔ وہ الفاظ ہیں کہ

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَO الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ۔۔۔

(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔۔۔

ایک بات یاد رکھیں کہ آپ کی یہ زندگی کسی بھی وقت ختم ہو جائے گی اور سائنسی تحقیقات اس کے بعد بھی جاری رہیں گی۔۔۔ موت کے بعد ایمان ہی آپ کے کام آئے گا اور یہ سائنسی تحقیقات آپ کے کسی کام نہیں آئیں گی۔۔۔ لہٰذا ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی غیب پر ایمان لے آئیں اور سائنس کو اتنی ہی اہمیت دیں جتنی کی وہ اہل ہے اور اس کو اپنے ایمان کی بنیاد نہ بنائیں۔۔۔ ایمان مجمل و مُفصّل یہ ہے۔۔۔

ایمان مجمل۔۔۔
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ۔۔۔
میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔

ایمان مفصّل۔۔۔
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔۔۔

میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اسکی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر
اور اچھی اور بری تقدیر کےاللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘۔۔

وبااللہ التوفیق۔۔۔:)
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَO الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ۔۔۔

(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔۔۔

غیب کے نام پر ہر مذہب ایسے ہی انسانوں کو اپنے اپنے خداوؤں پر ایمان لانے پر مجبور کرتا رہا، اور کوئی ان مذاہب کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا کیونکہ سب کچھ غیب کے نام پر ہوتا رہا جس کے ٹھیک یا غلط ہونے کا ان کے مطابق "انسانی عقل" احاطہ نہیں کر سکتی۔

چنانچہ غیب کے نام پر خبریں یہ دی گئیں کہ یہ زلزلے، یہ طوفان، یہ بادلوں کا گرجنا، یہ بجلیوں کا چمکنا، یہ سب کچھ اللہ کا عذاب ہے جو وہ ان لوگوں پر بھیجتا ہے تو اس غیب کے اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔
مگر پھر ماڈرن سائنس نے ثابت کر دیا کہ یہ زلزلے وغیرہ زمین کی ٹیکٹانک سلوں کی حرکت کی وجہ سے صرف انہی مخصوص علاقوں میں آتے ہیں اور وہاں پر موجود ہر قوم اس تباہی (عذاب) کا شکار ہوتی ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا پھر مشرک۔
چنانچہ جب یہ "غیب" ماڈرن سائنس کی وجہ سے "غیب" نہیں رہا تو پھر لوگوں نے زلزلے اور طوفان کے نام پر اللہ سے ڈرنا چھوڑ کر ان آفات سے براہ راست ڈرنا شروع کر دیا اور اسکے خلاف اقدامات شروع کر دیے جو یہ تھے کہ پکی اور مضبوط عمارتیں بنانے لگے کہ جنکا زلزلہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

پھر غیب کے نام پر مزید خبریں دی گئیں کہ زمین چپٹی ہے، سورج زمین کے گرد گردش کر رہا ہے، سات آسمان اور سات زمینیں ہیں، ۔۔۔۔ دمدار ستارہ اصل میں چنگاریاں ہیں جس سے اللہ ان شیطانوں کو مارتا ہے جو ایک دوسرے پر چڑھ کر سیڑھی بنا کر آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

مگر آج کی ماڈرن سائنس کا قصور یہ ہے کہ اس نے ان غیب کی خبروں کو مزید غیب نہیں رہنے دیا او رانکی حقیقت انسان پر آشکار کر دی۔
 

راہی

محفلین
بہت معلوماتی سلسلہ تھا بھارت میں بارہا ان قسمکے سوالات کا سامنا ہوتاہے جو مہوش بہن نے اٹھائےہیں
 
اگر جناب آدم 6 ہزار سال قبل تشریف لائے، تو پھر یہ کون ہے؟

الہامی مذاہب (اہل کتاب و اسلام) کہتے ہیں کہ جناب آدم 6 ہزار سال قبل دنیا میں تشریف لائے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہے جس کے ڈھانچے جناب آدم سے بھی ہزاروں سال پرانے ہیں؟

Mc_me-C8A-BOjrjbm71V1rbdqMJDKE0hNH6Se3XFdBkmfWjbYWQ1mkRFt3TZo07KWaAZe41x8IEjuisAqpc3MgiHbJb03ps2Fete2Ge6yXFEOgT4tdH_tB_Jt4Q1EL-_Vw


یہ آج کا انسان نہیں ہے، بلکہ یہ "نیندرتھال" ہے، جو کہ یورپ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ڈی این اے میں 99 فیصد انسان تھے، اور انکے دماغ کا سائز انسانی دماغ کے سائز کے برابر ہے۔

نیندرتھال کی نسل آج سے 28 ہزار سال پہلے ختم ہو گئی۔

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے انسان میں نیندرتھال کا ڈی این اے پایا جاتا ہے۔

Everyone living outside of Africa today has a small amount of Neanderthal in them, carried as a living relic of these ancient encounters. A team of scientists comparing the full genomes of the two species concluded that most Europeans and Asians have between 1 to 4 percent Neanderthal DNA. Indigenous sub-Saharan Africans have no Neanderthal DNA because their ancestors did not migrate through Eurasia.



کیا الہامی مذاہب کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ انسان کی اس تاریخ کے متعلق کچھ بتلا پاتے؟

سوال بہت سادہ سا ہے۔۔۔۔ اگر ہم جناب آدم کی اولاد ہیں،۔۔۔۔ تو پھر اس 28 ہزار سال پہلے ختم ہو جانے والی اس نسل "نیندرتھال" کے "ڈی این اے" آج کی شمالی ایشیائی اور یورپین انسانی نسل میں کیسے آ گئے؟

نیندرتھال نامی یہ نسل فقط یورپ اور شمال مغربی ایشیا میں پائی جاتی تھی (ٹھنڈے علاقے میں)۔ ان علاقوں میں نیندرتھال اور انسان کچھ ہزار سال اکھٹے زندگی گذارتے رہے۔ جبکہ افریقہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا نیندرتھال سے کبھی سامنا نہیں ہوا، اس لیے ان میں نیندرتھال کے کوئی ڈی این اے نہیں ملتے۔



۔2۔ اللہ اور جناب آدم کی لمبائی 60 ہاتھ (30 گز)۔۔۔۔

اور پھر مذہب کے نام پر یہ کہا جائے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ و جناب آدم 60 ہاتھ لمبے تھے، اور پھر انسان کا قد کم ہونا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے دور تک جاری تھا اور پھر وہاں جا کر قد کم ہونا رک گئے۔

دیکھئے معتبر ترین سائیٹ اسلام سوال جواب، جس کو براہ راست سعودیہ کے مفتی حضرات چلا رہے ہیں(لنک):
http://islamqa.info/ur/20612) ۔


اس لنک پر موجود مواد کو پڑھ لیجئے۔ آپکے 14 طبق روشن ہو جائیں گے۔

ایک بار پھر زبردست طریقے سے سائنس و مذہب کا ٹکراؤ سامنے ہے۔ کس پر یقین کیا جائے۔

یہ ہے فرعون کا ڈھانچہ ، جو مسلمانوں سے کہیں قبل کا ہے، مگر اسکا قد وہی ہے جو کہ آجکے انسان کا ہے۔


ZuecN2ivzpk4ultiZwaIkuG-CH-uF1Y2N8wl6Axh56MNn_aF-4jHsZ0qaGNHE8PZf_JdBn-v9WgICmNEHENcDlimF3EsMExHlJS8N1Xx3irdsT-FXTAIdqU74IS3DTPEZw



ایک کیا، سینکڑوں ہزاروں انسانی ڈھانچے برآمد ہو چکے ہیں جو کہ اسلام کی آمد سے قبل کے ہیں اور 2 لاکھ سال پہلے تک جا رہے ہیں، مگر ان سب کا قد 30 میٹر لمبا نہیں، بلکہ آجکے انسان جتنا ہی ہے۔


پرانے زمانے کے انسانوں کی عمر ہزار سال

جناب نوح نے 950 سال تبلیغ کی اور جب 950 سال کے بعد طوفان آیا تو انکے بیوی اور بچے اور کمیونٹی سب موجود تھے جو کہ ان ہی ساتھ طویل عمریں جی رہے تھے۔

لیکن آج سائنس ثابت کر رہی ہے کہ پرانے زمانے کے انسان کی عمر ہرگز آج کے انسان سے مختلف نہیں تھی، بلکہ پچھلے 2 لاکھ سال سے یہ اوسطا ایک ہی جیسی قائم ہے۔

آج سینکڑوں اور ہزاروں پرانے ڈھانچوں پر سائنس تحقیق کر چکی ہے جو کہ 5 ہزار سے لے کر 2 لاکھ سال پرانے ہیں، مگر ان میں سے کسی کی عمر بھی ہزاروں سال نہیں تھی۔


چنانچہ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ۔۔۔۔۔

جب مذہب کا ٹکراؤ ہو فطرت سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو عقل سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو سائنس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر آپ اپنے دلوں کو کیسے دلاسے دیں گے؟

السلام علیکم

میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ محترمہ کا اصل مقدمہ کیا ہے ایک جانب یہاں قرآن و حدیث اور سائسنی معلومات کا تقابل کیا جا رہا ہے اور ایک کی بنیاد پر دوسرے کو صحیح یا غلط قرار دینے کی بات ہو رہی ہے ...

دوسری طرف حجیت حدیث کی ایک غیر متعلق بحث چھیڑ دی گئی پھر کسی ایک معاملہ پر ٹکنے کے بجائے سوالات کا ایک پنڈورا باکس کھول دیا گیا ......

اور عجیب تر بات یہ کہ الزامی انداز بھی اختیار کیا جا رہا ہے جبکہ گفتگو استفہامی ہونی چاہئیے تھی .......

پھر گفتگو کے دوران سوال کرنے والے کا اعتقاد بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کہاں کہاں وہ حضرت ابو ہریرہ رض اور دوسرے اصحاب پر پھبتی بھی کستا چلا جاتا ہے ......
 
اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کے حوالے سے ہمیں مختلف
approaches دکھائی دیتی ہیں

١. بنیاد پرست Fundamentalist

اس گروہ کے نزدیک حجت صرف قرآن و سنّه ہیں اور گذرتے ہوئے وقت اور حالات کے اعتبار سے کسی بھی نئی تعبیر کا اختیار کرنا درست نہیں ایسے افراد ظواہر کہلاتے ہیں .

٢. اصحاب الرائے فقہاء Orthodox but Progressive

اس گروہ کے نزدیک

قرآن
حدیث
اجماع " consensus "
قیاس " analytical reasoning "

یہ چار امور حجت ہیں اور یہ امت کا جمہور ہے .

٣. جدت پسند Progressive

اس گروہ کے نزدیک قرآن کے علاوہ کوئی دوسری شے حجت نہیں ہے بلکہ الله کی دی ہوئی عقل کے مطابق انسان فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اس گروہ کی تین اقسام ہیں

پہلا وہ کہ جو قرآن کی تشریح اقوال رسول صل الله علیہ وسلم سے کرنا پسند کرتا ہے لیکن قرآن کو اصل قرار دیتا ہے اجماع کو تسلیم نہیں کرتا .

دوسرا گروہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو نہ تو بطور شارح مانتا ہے اور نہ ہی بطور شارع مانتا ہے یعنی کہ انہیں کوئی خاص مقام دینے کو تیار نہیں یہ قرانسٹ ہیں

تیسرا گروہ مذہبی لبرلز کا ہے یہ اپنے ہی مذہب کو تنقید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں قرآن میں بھی تحریف ہوجانے کے قائل ہیں اور یہ خود کو " humanist " کہلواتے .

چوتھے پھر اسلام سے باہر کے لوگ ہیں ...
 
اب آجاتے ہیں اصل بحث کی طرف

اٹھائے گئے اعتراضات میں سے ہم کسی ایک کو قبول کرتے ہیں کہ اس پر بحث کریں اور اگر ہم اسکی درست تعبیر قرآن و سنت کے مطابق پیش کر دیں یا اسے غلط ثابت کر دیں تو بحث منطقی اعتبار سے ختم ہو جاوے گی اور بقیہ اشکالات معترض کی کم فہمی شمار ہونگے .

اگر تو یہ اصول قبول ہے تو مزید گفتگو کی گنجائش ہے .
 
اب چند بنیادی مقدمات کی وضاحت

پہلی بات تو یہ کہ نیندرتھال انسان ہی تھے انسانوں سے الگ کوئی اور شے نہ تھے

Language

Some evolutionists have claimed that Neanderthals were incapable of modern speech, lacking the ability to produce the full range of vowels (Lieberman and Crelin, 1971; Trinkaus and Shipman, 1992), with flat non-flexing at the base of the skull, and the larynx positioned higher in the throat than in modern humans or even chimpanzees. The result of this computer reconstruction was that the resonating chamber at the back of the mouth was all but eliminated.

Many of these arguments have now been thoroughly refuted. A new and updated reconstruction done in 1989 by paleoanthropologist Jean-Louis Heim showed an essentially modern human flexation of the base of the skull (Trinkaus and Shipman, 1992; Shreeve, 1995). More recently, the La Chapelle skull was compared to a sample of modern human specimens from the middle ages and found to be quite human (Frayer, 1993).

In 1983 one of the most complete Neanderthal skeletons ever found was discovered at Kebara in the Levant, which included the first fossil hyoid bone of a Neanderthal ever discovered. This bone is located in the throat and is directly related to the structure of the human vocal tract and is indistinguishable from that of modern humans

(Arensburg et al., 1987).
انکی دماغی ساخت اور جسمانی ہیت انسانوں والی ہی تھی

Neanderthal Brains

A Neanderthal brain volume equals or exceeds modern human dimensions (Deacon, 1994), ranging from about 1200_1750 ml, and thus on the average about 100 ml larger than modern humans (Stringer and Gamble, 1993). Holloway (1985: 320) has stated "I believe the Neanderthal brain was fully Homo, with no essential differences in its organization compared to our own."

Although there is no direct correlation between brain size and intelligence, Neanderthal brain volume certainly does not support views that argue for an evolutionary expansion of "Hominid" brains.


انکی اناٹومی انسانی اناٹومی تھی



Neanderthal Anatomy

Neanderthal anatomy is essentially human in scope, with the same number of bones as humans, which function in the same manner (Trinkaus and Shipman, 1992). However, there are minor differences in robusticity (thickness and strength). These differences are trivial and can be found on an individual basis in modern living populations (Lewin, 199. Although there is no formal agreement of which physical characteristics are diagnostic of Neanderthal morphology, a suite of traits have been used to distinguish Neanderthal morphology. Cranial traits are listed in the table below.

Still one may wonder why the entire suite of traits are not found in modern populations, but consider that Neanderthals typically lived in extremely cold climate areas, genetically isolated by a post-flood ice age. That would have directly affected their anatomy and physiology (Stringer and Gamble, 1993).
Two ecological rules describe the relationship between the size and the shape of the extremities (limbs) and trunk anatomy. Burgmann's rule regarding surface area postulates that body weight tends to be larger in cold climates. With two bodies of similar shape, the larger will have less surface area per unit of volume and will retain heat better in cold climates. Allen's rule suggests that body limbs will be shorter in cold climates, reducing surface area that results in less heat loss. This is seen in the short tails, ears, or beaks in many animals living in cold climates. Humans that live in cold climates, such as Eskimos, are typically larger with shorter arms and legs. Since Neanderthals lived in near arctic conditions in many cases, one would expect them to have a stocky body build and short extremities (arms and legs) (Holliday, 1997). In fact, the limbs of Neanderthals from the warmer climates of Southwest Asia are relatively longer than the limbs of those living in ice-age Europe. When Neanderthal limb proportions, based on a mean index of tibia/femur length, called Crural Index, are plotted against mean annual temperatures. Neanderthals appear to be even more cold-adapted in their limb proportions than modern Eskimos and Lapps (Stringer and Gamble 1993; Stringer and Mckie, 1996).
In addition, Neanderthals lived a life style that put rigorous demands on their bodies as seen from numerous skeletal lesions, many the result of traumatic bone breakage. (Trinkaus and Shipman, 1992.) Further, it has recently been suggested, based on intense dental study, that Neanderthals may have had a greater longevity than modern populations. This may have also affected their anatomy (Cuozzo, 199.
imp-323a.jpg

 
دوسری بات نیندر تھال کا وجود کسی بھی طرح اس بات کا ثبوت نہیں بن سکتا کہ حضرت آدم علیہ سلام کے وجود کا انکار کروا سکے .

١. تخلیق آدم اس دنیا کے اندر نہیں ہوئی اور جس عالم میں انکی تخلیق ہوئی وہ ٹائم اور اسپیس سے ماورا تھا جسے ہم عالم بالا کہ سکتے ہیں اب کیا کوئی ایسی جگہ کا ہونا ممکن ہے کہ جو ٹائم اور اسپیس سے سے ماورا ہو تو اس حوالے سے جدید سائنسی تھیوریز ملاحظہ کر لیجئے معلومات میں اضافہ ہوگا .

٢. جب حضرت آدم علیہ سلام کو دنیا میں اتارا گیا اسکا تعین ممکن نہیں کیونکہ اس دور میں وقت کا تعین ہی ممکن نہ تھا .

اب دوسرا اہم اشکال کیا کوئی اسپیشز ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد اپنی ساخت اور ہیت میں قوی الجثہ یا قلیل الجثہ ہو سکتی ہے کیا اسکا سائز کم یا زیادہ ہونا ممکن ہے ... ؟

حیران کن امر یہ ہے کہ سائز کا شرنک ہو جانا کہ جو سائنس سے ثابت شدہ امر ہے اس پر کیسے صرف قیاس کی بنیاد پر عتراض وارد کیا جا سکتا ہے جبکہ سائنس کو بنیاد بنانے والوں پر لازم ہے کہ دلیل بھی سائنس سے ہی پیش کریں ...

ملاحظہ کیجئے

A Phantom Leap

In the 1990s, an influx of new dinosaur fossils from China revealed a feathery surprise. Though many of these fossils lacked wings, they had a panoply of plumage, from fuzzy bristles to fully articulated quills. The discovery of these new intermediary species, which filled in the spotty fossil record, triggered a change in how paleontologists conceived of the dinosaur-to-bird transition. Feathers, once thought unique to birds, must have evolved in dinosaurs long before birds developed.

Sophisticated new analyses of these fossils, which track structural changes and map how the specimens are related to each other, support the idea that avian features evolved over long stretches of time. In research published in Current Biology last fall, Stephen Brusatte, a paleontologist at the University of Edinburgh in Scotland, and collaborators examined fossils from coelurosaurs, the subgroup of theropods that produced archaeopteryx and modern birds. They tracked changes in a number of skeletal properties over time and found that there was no great jump that distinguished birds from other coelurosaurs.

Arkhat Abzhanov, a biologist at Harvard University, poses with a partial skeleton of a Deinonychus, a birdlike dinosaur that likely had feathers.
Katherine Taylor for Quanta Magazine
Arkhat Abzhanov, a biologist at Harvard University, with a partial skeleton of a Deinonychus, a birdlike dinosaur that likely had feathers.
“A bird didn’t just evolve from a T. rex overnight, but rather the classic features of birds evolved one by one; first bipedal locomotion, then feathers, then a wishbone, then more complex feathers that look like quill-pen feathers, then wings,” Brusatte said. “The end result is a relatively seamless transition between dinosaurs and birds, so much so that you can’t just draw an easy line between these two groups.”

“Miniaturization is unusual, especially among dinosaurs,” Benton said.​
DinoGraphicV2.jpg

Olena Shmahalo/Quanta Magazine. Sources for dinosaur silhouettes: Tetanurans, Coelurosaurs, Paraves. More info.
While most other dinosaur lineages were growing, the line that gave rise to birds began to shrink nearly 200 million years ago.

 
Top