ایک سعودی بینک میں خلیفہءسوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے

ایک سعودی بینک میں خلیفہءسوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے
news-1436261552-6277_large.jpg


جدہ،لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے اور آج بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے،نبوت کے تیرہوں سال میں جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے پانی کی بہت قلت تھی ،مدینہ منورہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا۔۔ اس کنویں کا نام "بئرِ رومہ" یعنی رومہ کا کنواں تھااور پریشانی کے عالم میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاءکرے گا۔
روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے ایک سکالر اور ریسرچر عبدالستار خان کے حوالے سے بتایاکہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ پورا کنواں نہ سہی، آدھا کنواں فروخت کر دو۔۔۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ہو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔۔یہودی ان کی اس پیشکش پر لالچ میں آ گیا۔۔۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان اپنے دن میں پانی مہنگے داموں فرخت کریں گے، اس طرح اسے زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔۔ چنانچہ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کر کے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی، لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے۔۔ یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا۔یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی پیشکش کر دی جس پر حضرت عثمان راضی ہو گئے اور کم و بیش پینتیس ہزار درہم میں پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
اس دوران ایک مالدار آدمی نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی، حضرت عثمان نے فرمایا کہ "مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے"تو وہ شخص بھی اپنی پیشکش بڑھاتاچلاگیااور حضرت عثمان یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ "حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟"سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا اور اسی دور میں ہی اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی۔بعد ازاں آلِ سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو پچاس ہو گئی۔حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کر دی۔وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی۔چلتے چلتے یہاں تک اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔
اس رہائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت اور باقی آدھا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا۔ذوالنورین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اس عمل اور خلوصِ نیت کو اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا۔حضرت عثمان کا اکاوٗنٹ یہاں بھی موجود ہے اور وہاں بھی موجود ہے جہاں ہم سب کو بالآخر جانا ہی ہے ، یہی وہ لوگ ہیں جن کی جانیں اور مال اللہ تعالیٰ نے اپنی جنتوں کے بدلے خرید لئے،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی،جنہوں نے اللہ عزوجل کو قرض دیا، اچھا قرض اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی گنا بڑھا کر لوٹایا۔
 

فاتح

لائبریرین
الحمدللہ ۔ 1400 سال پرانے کرنٹ اکاؤنٹ میں اب تک کتنے درہم کا منافع ہو گیا ہوگا؟
غور سے پڑھ لیتے تو یہ سوال نہ کرتے ۔۔۔ آپ کے سوال کے پہلے حصے 1400 سال پرانے کرنٹ اکاؤنٹ کا جواب :
بعد ازاں آلِ سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو پچاس ہو گئی۔حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کر دی۔وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی۔
اب یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ آل سعود کا عہد (خصوصاً تیسرا دور جس میں موجودہ سعودی عرب کی تشکیل ہوئی)کتنے سال پرانا ہے :)

دوسرے حصے یعنی کتنے درہم کا منافع کا جواب یہ ہے کہ اول تو سعودی عرب کی کرنسی درہم نہیں بلکہ ریال ہیں اور دوم یہ کہ اسی مضمون میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اتنے سالوں میں 1550 کھجور کے درختوں سے ہونے والی آمد سے۔۔۔
۔۔۔اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔
اب یہ تو صاحبِ مضمون یا بینک والے ہی بتا سکتے ہیں کہ کل کتنے ریال جمع ہوئے یا منافع ہوا
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
عنوان سے مجھے تو ایسا تاثر ملا کہ یہ بینک دورِ خلافت سے قائم ہے ۔:)
ایک سعودی بینک میں خلیفہءسوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے
 

زیک

مسافر
یہ خبر پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ کوئی پراپرٹی خریدوں اور اسے جولیئس سیزر کے نام سے رجسٹر کرا لوں۔ پھر اس کے منافع کے لئے اس کے نام پر بینک اکاؤنٹ بھی کھول لوں۔

اگر آپ کو سیزر پسند نہیں تو کوئی اور تاریخی شخصیت تجویز کریں جس کے نام پر میں یہ کام کر کے سرخرو ہو سکوں۔
 

arifkarim

معطل
اگر آپ کو سیزر پسند نہیں تو کوئی اور تاریخی شخصیت تجویز کریں جس کے نام پر میں یہ کام کر کے سرخرو ہو سکوں۔
میرے ذہن میں ایک خاصی مشہور تاریخی شخصیت موجود ہے۔ لیکن ساتھ میں یہ خو ف بھی ہے کہ ایسا کرنے سے 1،6 ارب انسانوں کے جذبات مجروح نہ ہوجائیں :smug:
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ماشاءاللہ۔
مجھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی پسند ہیں۔ او ریہ معلومات پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ جزاک اللہ! بہت زبردست شئیرنگ ہے۔
 
ماشاءاللہ۔
مجھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی پسند ہیں۔ او ریہ معلومات پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ جزاک اللہ! بہت زبردست شئیرنگ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشہور صفت سخاوت کا فیضان آپ کو بھی ملا ہے ۔ اور آپ بھی سخاوت سے کام لیتی ہیں :)
 

جاسمن

لائبریرین
اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشہور صفت سخاوت کا فیضان آپ کو بھی ملا ہے ۔ اور آپ بھی سخاوت سے کام لیتی ہیں :)

ہم تو بہت خود غرض سے لوگ ہیں۔ تھوڑا بہت اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو نیتیں نجا نے کیسی ہوتی ہیں۔ایک بار نماز میں اپنے نیک اعمال اللہ کے سامنے رکھ کے دُعا مانگنے لگی تو یکے بعد دیگرے بڑے بڑے عمل (اپنے جانی)رکھتی گئی اور سب بوگس ،بکواس،ادھورے،چھوٹے،جھوٹے،دکھاوا۔۔۔۔۔۔۔لگے۔
بھائی! اللہ ہی ہے بس۔۔۔اول بھی اور آخر بھی۔
اور حضرت عثمان غنی اضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔۔۔۔اُن کو تو پسند کرنا۔۔۔۔ہی میرے لئے بہت بڑی سعادت ہے۔۔۔۔شاید اسی طفیل کچھ بات بن جائے۔۔شاید!
 
آخری تدوین:

انیسہ ظفر

محفلین
ایک سعودی بینک میں خلیفہءسوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے
news-1436261552-6277_large.jpg


جدہ،لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے اور آج بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے،نبوت کے تیرہوں سال میں جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے پانی کی بہت قلت تھی ،مدینہ منورہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا۔۔ اس کنویں کا نام "بئرِ رومہ" یعنی رومہ کا کنواں تھااور پریشانی کے عالم میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاءکرے گا۔
روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے ایک سکالر اور ریسرچر عبدالستار خان کے حوالے سے بتایاکہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ پورا کنواں نہ سہی، آدھا کنواں فروخت کر دو۔۔۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ہو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔۔یہودی ان کی اس پیشکش پر لالچ میں آ گیا۔۔۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان اپنے دن میں پانی مہنگے داموں فرخت کریں گے، اس طرح اسے زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔۔ چنانچہ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کر کے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی، لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے۔۔ یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا۔یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی پیشکش کر دی جس پر حضرت عثمان راضی ہو گئے اور کم و بیش پینتیس ہزار درہم میں پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
اس دوران ایک مالدار آدمی نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی، حضرت عثمان نے فرمایا کہ "مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے"تو وہ شخص بھی اپنی پیشکش بڑھاتاچلاگیااور حضرت عثمان یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ "حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟"سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا اور اسی دور میں ہی اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی۔بعد ازاں آلِ سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو پچاس ہو گئی۔حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کر دی۔وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی۔چلتے چلتے یہاں تک اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔
اس رہائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت اور باقی آدھا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا۔ذوالنورین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اس عمل اور خلوصِ نیت کو اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا۔حضرت عثمان کا اکاوٗنٹ یہاں بھی موجود ہے اور وہاں بھی موجود ہے جہاں ہم سب کو بالآخر جانا ہی ہے ، یہی وہ لوگ ہیں جن کی جانیں اور مال اللہ تعالیٰ نے اپنی جنتوں کے بدلے خرید لئے،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی،جنہوں نے اللہ عزوجل کو قرض دیا، اچھا قرض اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی گنا بڑھا کر
بیشک اللہ جو چاھتا ھے سو وہ کرگزرتا ھے ۔۔۔ما شاء اللہ سبحان اللہ
 

جاسمن

لائبریرین
ان سے تقابل نہیں کیا میں نے عرض کیا تھا
تقابل کے لفظ کا استعمال میں نے غلط کیا ہے۔ یا رب الغفرلی۔
یہ بات آپ درست کہتے ہیں کہ جس ہستی کو ہم پسند کرتے ہیں۔۔۔دانستہ یا نادانستہ اُن کی باتیں کسی نہ کسی حد تک(ہمارے لئے تو یہ حد بہت ہی کم ترین ہے) اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ قبول کرے۔ آمین!
 

x boy

محفلین
الحمدللہ
اعتقاد والوں کے لئے اچھی شئرنگ ہے
نقطہ چینی والے اگر مسلمان ہیں تو کم از کم نقطہ عزت واحترام کریں، ان شاء اللہ رب العزت کے ہاں یہ نقصان کا سودا ہر گز نہیں ہوگا۔
 
آخری تدوین:
Top