’’ز ‘‘اور ’’ذ ‘‘کی پریشانی

arifkarim

معطل
قاری صاحب نے ذال، ث پڑھنا بتایا ہو تو یاد کریں ذرا۔ ض اور ظ کی آواز میں بھی فرق ہے (عربی میں)۔
جی عربی میں تو فرق معلوم ہے۔ میں نے اردو کے تناظر میں پوچھا تھا کہ جیسے ق اور ک میں ہم فرق کرتے ہیں ویسے ہی کیا ز اور ذ کی آواز میں واضح فرق موجود ہے یا نہیں۔

یا مولوی حضرات جن کی اردو عربی زدہ ہوتی ہے وہ تو پھر ع کا فرق بھی دکھاتے ہیں۔
جنید جمشید جیسے "مولوی" :grin:

زیادہ اور ذرا کچھ ان الفاظ میں سے ہیں جس کی املا میں احباب اکثر ز اور ذ کی غلطی کرتے ہیں، یہ غلطیاں سرچ انجن اور دیگر صارفین کو کم سے کم نظر ائیں اس نیت سے ہم نے محفل میں ایک خصوصیت کا استعمال کیا ہے۔
مجھے شبہ تھا یہ معرکہ آپنے ہی مارا ہوگا اسلئے ٹیگ کر دیا :)
فاتح اب آپ یہاں زیادہ نہیں لکھ سکتے چاہے جتنا مرضی زور لگا لیں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
1۔ شاعروں ادیبوں کو بھی اس سے کیا لینا دینا کہ عربی میں کیا تھااور فارسی میں کیا تھا۔
2۔ شعرا و ادبا کے بعد ہمزہ نہیں آتا :)
اگر شعراءو ادباء کو اس سے کچھ نہیں کہ کیا عربی اور کیا فارسی تو پھر کیا قصائیوں، جولاہوں، بڑھیوں ،لوہاروں درزیوں اور موچیوں سے رجوع کیا جائے۔:)
نیز ہمارے خیال میں تو علماء ،فقہاء ،شعراء ،ادباء،امراء ،وزراء،صلحاء وغیرہ میں ء ساتھ ہو تا ہے۔۔۔۔حتی کہ یہ "ء" جہلاء کا بھی ساتھ نہیں چھوڑتا ۔:)
 

arifkarim

معطل
نیز ہمارے خیال میں تو علماء ،فقہاء ،شعراء ،ادباء،امراء ،وزراء،صلحاء وغیرہ میں ء ساتھ ہو تا ہے۔۔۔۔حتی کہ یہ "ء" جہلاء کا بھی ساتھ نہیں چھوڑتا ۔:)
اردو میں کیا کوئی اسٹینڈرڈائزڈ لغت ہے جو بتائے کہ ہر لفظ کا معقول یا درست طریقہ کیا ہے لکھنے کا؟
 

فاتح

لائبریرین
اگر شعراءو ادباء کو اس سے کچھ نہیں کہ کیا عربی اور کیا فارسی تو پھر کیا قصائیوں، جولاہوں، بڑھیوں ،لوہاروں درزیوں اور موچیوں سے رجوع کیا جائے۔:)
نیز ہمارے خیال میں تو علماء ،فقہاء ،شعراء ،ادباء،امراء ،وزراء،صلحاء وغیرہ میں ء ساتھ ہو تا ہے۔۔۔۔حتی کہ یہ "ء" جہلاء کا بھی ساتھ نہیں چھوڑتا ۔:)
اگر آپ کے ہاں لنگوسٹس کو قصائی، جولاہا، بڑھئی، لوہار، درزی یا موچی کہا جاتا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ کیوں کہ یہ انہی کا درد سر ہے کہ کون سی زبان کس زبان سے کیسے ملی تو کس زبان کے کون سے الفاظ کیسے وجود میں آئے۔
ادبا، امرا، جہلا وغیرہ میں ہمزہ آپ کے خیال اور عربی کی حد تک تو درست ہے لیکن اردو میں نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہماری قومی زبان کیوں کہ ٹوٹی فروٹی قسم کی زبان ہے اور متعدد خدو خال کی حامل ہے اس کا بنیادی منطوقہ ڈھانچہ ہندی کے خالص مصادر سے بنے فقروں پر استوار ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ زبان علمی و ادبی ترقی میں بھرپور طور پرنثر کے میدان میں عربی فصاحت کے نگینوں سے مرصع ہوئی اورشعر کے میدان بقول شبلی نعمانی فارسی کا خوب دودھ پیا اور شعری مزاج کو آراستہ کیا ۔ اور ساتھ ساتھ ہندی اور برائے نام ترکی سے اپنا دامن بھی جھاڑاتی رہی ہے ۔۔۔اس کی ٹوٹی فروٹی فطرت کی وجہ سے یقیناً ایک ہی مسئلے کے ضمن بہت متنوع آراء ملنے کا امکان بھی بہت ہے ۔ لغات بھی اپنی اپنے مزاج می پسند آئیں گی ۔ مجھ ذاتہ طور پر وہ لغت پسند ہے جس میں اکثر الفاظ کی ساخت کے ضمن میں اہل زبان شعراء کے اشعار سے سہارا لیکر لفظ کا وزن اور ساخت کو بہتر طور پر بیاں کیا گیا ہے۔نام یاد نہیں ۔شاید نور اللغات ہو۔۔
بایں ہمہ یہ ایک ذاتی رائے ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر آپ کے ہاں لنگوسٹس کو قصائی، جولاہا، بڑھئی، لوہار، درزی یا موچی کہا جاتا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ کیوں کہ یہ انہی کا درد سر ہے کہ کون سی زبان کس زبان سے کیسے ملی تو کس زبان کے کون سے الفاظ کیسے وجود میں آئے۔
ادبا، امرا، جہلا وغیرہ میں ہمزہ آپ کے خیال اور عربی کی حد تک تو درست ہے لیکن اردو میں نہیں۔
بھئی ہم تو لنگوئسٹس میں شعراء اور ادباء کو ہی اہمیت دیتے ہیں ۔ آپ ہی نے کہا تھا کہ شعرا ء اور ادباء کو اس سے کیا ؟
البتہ اردو میں یہ آپ کی رائے ہو سکتی ہے ہمزہ کے بغیر پڑھیں لکھیں سنائیں پھیلائیں ۔سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو یہ گنجی گنجی بو چی بوچی اردو عجیب لگتی ہے اس سے بہتر ہے کہ ہم امراء کے بجائے امیروں، ادباء کے بجائے ادیبوں اور جہلاء کے بجائے جاہلوں سے کام چلا لیں ۔۔۔۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بھی ذاتی رائے ہے۔۔۔۔۔
 

نوشاب

محفلین
اب بھلا آپ نے کیسے لکھ لیا یہ غلط العام لفظ ’’زیادہ‘‘
ہم تو سر توڑ کوشش کے باوجود نہ لکھ سکے آپ کے اس "سینسرنگ" کے نظام کی بدولت
کاش یہ "سینسرنگ" نظام ہمیں ان پیج میں بھی مل جاتا تو ہمیں کافی آسانی ہوجانی تھی۔
ایک کتاب کی ٹائپنگ میں ہم نے یہ زیادہ والی غلطی بہت کی تھی اور وہ ہمارے کمپیوٹر سیکھنے کے شروع شروع کے دن تھے اور ہم ان دنوں فائنڈ اور رپلیس والے آپشن کو بھی نہ جانتے تھے تو آپ اندازہ کیجیے کہ ہم نے کس کوفت سے اس غلطی کو سدھارا ہو گا۔ آج وہ وقت یاد کر کے بہت ہنسی آتی ہے کہ جب تک سہولت کا پتہ نہ ہو تو بندہ کیسے کیسے ناممکنات کو کر لیتا ہے اب تو فائنڈ اینڈ رپلیس منٹ کے بغیر کوئی تبدیلی کرنے کا سوچ کر ہی جھرجھری سی آجاتی ہے۔
انہی دنوں کی ایک اور یاد بھی ہمارے ذہن سے محو نہیں ہوتی۔
ان پیج میں مرر پرنٹ کا آپشن نہیں ہوتا ۔ کورل میں ہے۔
اب کتاب ٹائپ کرنے کے بعد پرنٹ لینے کا مرحلہ آیا تو جناب ان پیج نے منہ چڑا دیا (جیسا کہ وہ حسب عادت چڑاتا ہے)
اب سوچا کیا تو کیا کیا جائے ۔بہر حال پرنٹ تو نکالنے تھے ۔
80 صفحوں کی کتاب
EPSوالا آپشن سمجھ میں آ گیا تھا۔لیکن تھکا دینے والا کام تھا ۔ ان پیج سےExport کیاEPSمیں تمام صفحات کو اور کورل میں لا کر سیٹنگ کا جائزہ لے کر پرنٹ نکالے اور پھر توبہ کر لی کتابوں کی ٹائپنگ کرنے سے ۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
بھئی ہم تو لنگوئسٹس میں شعراء اور ادباء کو ہی اہمیت دیتے ہیں ۔ آپ ہی نے کہا تھا کہ شعرا ء اور ادباء کو اس سے کیا ؟
البتہ اردو میں یہ آپ کی رائے ہو سکتی ہے ہمزہ کے بغیر پڑھیں لکھیں سنائیں پھیلائیں ۔سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو یہ گنجی گنجی بو چی بوچی اردو عجیب لگتی ہے اس سے بہتر ہے کہ ہم امراء کے بجائے امیروں، ادباء کے بجائے ادیبوں اور جہلاء کے بجائے جاہلوں سے کام چلا لیں ۔۔۔۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بھی ذاتی رائے ہے۔۔۔۔۔
یہ رائے میرے کسی "ذاتی" قیاس یا پسند نا پسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ اردو زبان کے جید علما کی جانب سے ہے جن میں سے چند کے نام ذیل میں درج ہیں:
  • ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی
  • ڈاکٹر عبد العلیم
  • پروفیسر گیان چند جین
  • ڈاکٹر سید عابد حسین
  • پروفیسر خواجہ احمد فاروقی
  • رشید حسن خان
  • پروفیسر محمّد حسن
  • حیات اللہ انصاری
  • ڈاکٹر خلیق انجم
  • مالک رام
  • سیّد بدر الحسن
  • پروفیسر مسعود حسین خان
  • پروفیسر گوپی چند نارنگ
  • ڈاکٹر فرمان فتح پوری
  • پروفیسر شریف کنجاہی
  • مظفر علی سیّد
  • ڈاکٹر خواجہ محمّد ذکریّا
  • ڈاکٹر ممتاز منگلوری
  • ڈاکٹر محمّد صدیق شبلی

(2) ہمزہ اور الف
عربی کے متعدد مصادر، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے:
ابتداء، انتہاء، املاء، انشاء، شعراء، حکماء، ادباء، علماء، فقراء، وزراء

اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں۔ اس لیے انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا چاہیے:
ابتدا، انتہا، املا، انشا، شعرا، حکما، ادبا، علما، فقرا، وزرا

البتہ اگر ایسا لفظ کسی ترکیب کا حصہ ہو تو ہمزہ کے ساتھ جوں کا توں لکھنا چاہیے:
انشاء اللہ، ضیاءُ الرحمٰن، ذکاءُ اللہ، ثناءُ الحق، ثناءُ اللہ، بہاءُ اللہ، ضیاءُ الدین، علاءُ الدین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سید عاطف علی بھائی، یہ منطوقہ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی کیا ہیں؟
یار بھائی اب آپ تو ایسا مذاق نہ بنائیں ہمارا:)۔۔۔۔۔بہر حال منطوق بمعنی محض "بولا جانے والا"یہ لفظ عموماً ملفوظ اور مکتوب کے مقابل استعمال آتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
یار بھائی اب آپ تو ایسا مذاق نہ بنائیں ہمارا:)۔۔۔۔۔بہر حال منطوق بمعنی محض "بولا جانے والا"یہ لفظ عموماً ملفوظ اور مکتوب کے مقابل استعمال آتا ہے۔
بہت شکریہ برادر۔ گویا نطق کے مادے سے اسم مفعول بنا منطوق۔۔۔ یہ تو عربی زبان میں ہے۔ لیکن اردو کی کسی ڈکشنری بشمول آپ کی پسندیدہ اشعار کے استعمال سے وضاحت کرنے والی ڈکشنری میں بھی یہ لفظ موجود نہیں اس لیے پوچھ لیا تھا۔ وضاحت کا شکریہ :)
 
آخری تدوین:
آخر آپ کے لکھے ہوئے میں کیا جادو ہے؟؟؟
اس پر کیوں سینسرنگ کا نظام غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔
بھئی آپ کیوں چاہتے ہیں کہ اپنا ٹریڈ سیکریٹ بتا کر ہم اپنی دوکان بند کروا لیں؟ :) :) :)
ویسے یورس انجنئیرنگ کچھ ایسا مشکل کام نہیں۔ ہم نے کچھ ایسا نہیں کیا جو دیگر محفلین نہیں کر سکتے۔ :) :) :)
 

نوشاب

محفلین
چلیں جیسے آپ کی خوشی
ویسے آج یہ ریورس انجینئرنگ کا لفظ اچھا سامنے آیا ہے ۔کسی دن اس کی کھال ادھیڑنے پروگرام بناتا ہوں۔اور اس نام سے دھاگہ شروع کرتا ہوں لیکن پہلے اس کے بارے میں مواد اکٹھا کر لوں پھراس کو چھیڑتا ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ رائے میرے کسی "ذاتی" قیاس یا پسند نا پسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ اردو زبان کے جید علما کی جانب سے ہے جن میں سے چند کے نام ذیل میں درج ہیں:
گویا یہ ہیں وہ اردو کو گنجا کرنے والے جید حجّام ۔ :LOL:
آپ کا حق ہے جس کی رائے تسلیم کریں ۔مگر تکلف بر طرف ۔آپ کے سامنے اپنا ذاتی احساس رکھ دیا۔ان حجاموں کے ہاتھ اردو رہی تو بالکل کو بھی کچھ عرصے میں بلکل ۔ لکھا جانے لگے گا۔۔۔۔ ۔پھر شاید عبداللہ کو " بِل آخر" ۔عبدُلّا
ویسے میرے خیال میں آپ کو تحقیق کر نے سے کتابت کو اصل سلیقے ک مطابق رائے دینے والے بھی کم نہیں ملیں گے۔
مندرجہ بالا ء والے مسئلے کو البتہ شاعری میں کسی حد تک جائز سمجھا جا سکتا ہے۔اس لئے اس اس میں منطوقہ عنصر یکساں اہمیت رکھتا ہے۔خواہ منطوق۔ اردو کی کسی لغت میں ملے یا نہ ملے۔جب ناطق ملے گا تو منطوق کا کیا قصور۔اصول و قواعد بھی تو درامد کیے گئے ہیں ۔
رائے تو بہر حال رائے ہے۔۔۔۔ اور میرا ذاتی رجحان یہ ہے کہ جہاں اختلاف ہو وہاں اصل سے رجوع کیا جائے ۔
ویسے معذرت کہ مذکورہ اسمائے گرامی کی یقیناً اردو میں گراں قدر خدمات ہیں ۔اس لیے انداز کو خفیف و لطیف لیا جائے۔
 
Top