آوازِ دوست

محفلین
ز غارتِ چمَنَت بر بہار مِنّت ہاست
کہ گُل بدستِ تو از شاخ تازہ تر مانَد


طالب آملی

چمن میں تیرا پھول توڑنا دراصل موسمِ بہار پر احسان ہے کیونکہ تیرے ہاتھ میں پھول شاخ سے بھی زیادہ تر و تازہ رہتا ہے۔
سبحان اللہ۔ کیا خوب کہا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نیست درویش، فقیری کہ کند فقر اظہار
ہر کہ پوشیده کند حاجت خود، درویش است
استاد صائب تبریزی۔
وہ فقیر درویش نہیں ہے جو اپنے فقر کا اظہار کرتا ہو۔
ہر وہ شخص جو اپنی حاجات پوشیدہ رکھے درویش ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(زنجیرِ شتاب)
در شهرم و روحم از هیاهو خسته‌ست؛
زنجیرِ شتاب دست و پا را بسته‌ست:
ای کاش که دِه برای من جایی داشت
در زندگی‌اش، که ساده و آهسته‌ست!

(محمود کیانوش)
میں شہر میں ہوں اور میری روح (اِس کے) شور و غل سے خستہ ہے؛ (یہاں) عُجلت و جلد بازی کی زنجیر نے (میرے) دست و پا کو باندھا ہوا ہے؛ اے کاش کہ گاؤں اپنی زندگی میں، کہ جو سادہ اور آہستہ ہے، میرے لیے کوئی جگہ رکھتا!

(بی‌آرزویی)
ای گل که شگفت رنگ و بویی داری،
با شبنم و نور گفت و گویی داری،
خوش باش، که گرچه فرصتت کوتاه است،
در سینه دلِ بی‌آرزویی داری!

(محمود کیانوش)
اے حیرت انگیز رنگ و بو کے حامل اور شبنم و نور سے گفتگو کرنے والے گُل! خوش رہو، کہ اگرچہ (اس دنیا میں) تمہاری مہلت تو کم ہے لیکن تم (اپنے) سینے میں ایک بے آرزو دل رکھتے ہو!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بہرِ یک جُرعہء مے منّتِ ساقی نکشیم
اشکِ ما بادہء ما، دیدہء ما شیشہء ما


ادیب نیشاپوری

ایک جرعہ مے کے لیے ہم ساقی کا احسان نہیں اُٹھاتے کیونکہ ہمارے اشک ہی ہمارے مے ہیں اور ہماری آنکھیں ہی ہمارے جام ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
لبِ شکایتِ ما را که می‌تواند بست؟
شکسته است ز زورِ شراب شیشهٔ ما

(صائب تبریزی)
ہمارے شکوہ کرنے والے ہونٹوں کو کون بند کر سکتا ہے؟ ہمارا (یہ) شیشہ (تو) شراب کے زور سے ٹوٹ چکا ہے۔
[شاعر نے ہونٹوں کو شیشے سے جبکہ شکایت کو تلخ شراب سے تشبیہ دی ہے۔]
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ز حرفِ عشق، نیکو تر در آں، حرفے نمی بینی
اگر با چشمِ دل، خوانی کتابِ زندگانی را


ابوالحسن ورزی

حرفِ عشق سے بہتر تجھے اُس میں کوئی اور حرف نہیں ملے گا، اگر تُو دل کی آنکھوں کے ساتھ کتابِ زندگانی کو پڑھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(امروز اگر)
امروز اگر جملهٔ ناخرسندان
بر دل نفشارند به زاری دندان،
با خشم فقط یک 'نه' بگویند، افتد
صد زلزله در سرای قدرتمندان!

(محمود کیانوش)

آج اگر تمام ناخوش افراد عاجزی سے ظلم کو برداشت کرنے کے بجائے غصے کے ساتھ صرف ایک 'نہیں' کہہ دیں تو قدرت مند لوگوں کی سرائے میں سینکڑوں زلزلے برپا ہو جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
(جنگِ هسته‌ای)
آن روز که جنگِ هسته‌ای درگیرد،
یکباره زمین چهرهٔ دیگر گیرد:
از شرِّ وجودِ آدمی آسوده،
تنهاییِ عهدِ ازل از سر گیرد!

(محمود کیانوش)
اُس روز کہ جب (یہاں) جوہری جنگ بھڑک اٹھے گی تو ناگہاں (یہ) زمین دوسری ہی صورت دھار لے گی: (یعنی) وجودِ انسان کے شر سے آسودہ ہو کر (یہاں) عہدِ ازل کی تنہائی دوبارہ سے شروع ہو جائے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(جنگلِ کین)
از جانورِ درنده آزارم نیست؛
در شهرم و با درندگان کارم نیست:
از همچو خودان همیشه وحشت دارم،
در جنگلِ کینشان یکی یارم نیست!
(محمود کیانوش)

مجھے وحشی جانوروں سے کوئی اذیت نہیں ہے؛ میں شہر میں ہوں اور (یہاں‌) میرا درندوں سے واسطہ نہیں پڑتا؛ (بلکہ) میں تو اپنے جیسے لوگوں سے ہمیشہ وحشت محسوس کرتا ہوں (کیونکہ) اُن کے دشمنی کے جنگل میں میرا ایک بھی یار نہیں ہے۔

(رباعی)
با می به کنارِ جوی می‌باید بود
وز غصه کناره‌جوی می‌باید بود
این مدتِ عمرِ ما چو گل ده روز است
خندان لب و تازه‌روی می‌باید بود
(حافظ شیرازی)

شراب کے ساتھ نہر کے کنارے رہنا چاہیے؛ اور غم سے کنارہ کَش رہنا چاہیے؛ پھول کی طرح ہماری عمر کی یہ مدت دس روز کی ہے؛ (لہٰذا ان دس روز میں پھول ہی کی طرح) خنداں لب اور تازہ رُو رہنا چاہیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر غیر از حدیثِ یار و جز دیدارِ اُو باشد
چہ حاصل جز ندامت از شنیدن ہا و دیدن ہا


رھی معیری

اگر دوست کی باتوں کے علاوہ کوئی باتیں ہوں اور اُس کے دیدار کے علاوہ کوئی دیدار ہو تو ایسے سننے اور ایسے دیکھنے کا حاصل ندامت کے سوا اور کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
همه جا برقِ جمالِ تو درخشید ولی
شعلهٔ آن همه در خرمنِ ما افتاده‌ست

(عبدالرحمٰن جامی)
تمہارے جمال کی برق تو ہر جگہ چمکی تھی لیکن اُس کے تمام شعلے ہمارے خرمن ہی میں گرے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز
ورنہ در مجلسِ رنداں خبرے نیست کہ نیست


حافظ شیرازی

مصلحت ہی نہیں ہے کہ راز پردے سے باہر آئے ورنہ کوئی راز کوئی خبر ایسی نہیں ہے کہ جو رندوں کی مجلس میں نہیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ای نور دل و دیده و جانم چونی
وی آرزوی ہر دو جہانم چونی
من بی‌لب لعل تو چنانم کہ مپرس
تو بی‌رخ زرد من ندانم چونی

شاعر نا معلوم۔
اے میرے دل و جان کے نور تو کیسا ہے ؟
اے میرے ہردو جہاں کی آرزو تو کیسا ہے؟
میں تیرے لعل لب کہ بغیرایسا ہوں کہ مت پوچھ
تو بتا کہ تو میرے زرد رخ کے بنا کیسا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ای نور دل و دیده و جانم چونی
وی آرزوی ہر دو جہانم چونی
من بی‌لب لعل تو چنانم کہ مپرس
تو بی‌رخ زرد من ندانم چونی

شاعر نا معلوم۔
اے میرے دل و جان کے نور تو کیسا ہے ؟
اے میرے ہردو جہاں کی آرزو تو کیسا ہے؟
میں تیرے لعل لب کہ بغیرایسا ہوں کہ مت پوچھ
تو بتا کہ تو میرے زرد رخ کے بنا کیسا ہے؟

عاطف بھائی، یہ رباعی مولانا جلال الدین رومی کی ہے۔
http://ganjoor.net/moulavi/shams/robaeesh/sh1762/
 

محمد وارث

لائبریرین
غزلے گفتہ ام آں باعثِ گفتار کجا است
نو گُلے چیدہ ام آں گوشئہ دستار کجا است


عرفی شیرازی

میں نے غزل تو کہہ لی ہے لیکن جو اِس غزل کا باعث بنا ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے تازہ پھول تو چُن لیے ہیں لیکن وہ گوشئہ دستار کہاں ہے (جس میں یہ پھول سجا سکوں)؟
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچه وعدهٔ خوبان وفا نمی‌داند
خوش آن حیات که در انتظار می‌گذرد

(صائب تبریزی)
اگرچہ حسینوں کا وعدہ وفا نہیں جانتا، (لیکن اس کے باوجود) وہ زندگی کیا ہی خوب ہے کہ جو (وفائے وعدہ کے) انتظار میں گذرتی ہے۔

درونِ خانهٔ خود هر گدا شهنشاهی‌ست
قدم برون منه از حدِ خویش و سلطان باش

(صائب تبریزی)
اپنے گھر کے اندر ہر گدا شہنشاہ ہے؛ (لہٰذا) اپنی حد سے قدم باہر مت رکھو اور سلطان بن جاؤ۔

ز حسنِ طبعِ تو صائب، که در ترقی باد
بلند نام شد از جمله شهرها تبریز

(صائب تبریزی)

اے صائب! تمہارے حُسنِ طبع کی بدولت، (کہ ترقی کرتا رہے!)، تبریز دیگر تمام شہروں سے زیادہ بلند نام ہو گیا ہے۔


پیش ازین هرچند شهرت داشت در ملکِ عراق
سیرِ ملکِ هند صائب را بلند آوازه کرد

(صائب تبریزی)
ہرچند اس سے قبل بھی صائب ملکِ عراق (یعنی اصفہان‌) میں شہرت رکھتا تھا لیکن ملکِ ہند کی سیر نے اسے (مزید) مشہور کر دیا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
گر من نہ غرقِ آتش و آبم ز عشقِ تو
ایں سینۂ پُر آتش و چشمِ پُر آب چیست


مولانا عبدالرحمٰن جامی

اگر میں تیرے عشق میں آگ اور پانی میں ڈوبا ہوا نہیں ہوں تو پھر یہ میرا آگ سے بھرا سینہ اور آنسووں سے بھری آنکھ کیا ہے۔
 

طارق حیات

محفلین
غزل بیدلؔ

ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم ندمیدہ ای در دل کشا بہ چمن در آ

شعر میں سیر در باطن کی تاکید ہے جو بعض صوفیوں کی مشہور مشق ہے۔ کیا ستم کی بات نہ ہوگی کہ ہوس تجھ کو فریب دے اور مظاہر خارجی (سروسمن) کی سیر پر اکسائے؟ ذرا دل کا دروازہ کھول تو سہی، "پھولے کی اپنے من ہی میں گلزار دیکھنا" تو غنچہ سر بند سے کم نہیں، جس کا ہدف آخری یہ ہے کہ پھول بنے اور کھل جائے۔ خیر و شر کے اسرار دروں بینی سے منکشف ہوتے ہیں۔

پی نافہ ہائے رمیدہ بومپسند زحمت جستجو
بخیال حلقہ زلف او گرہے خؤرو بختن در آ


"نافہ ہائے رمیدہ بو " عالم کثرت کی طرف اشارہ ہے، اس کی جستجوسے حقیقت کا سراغ نہ ملے گا۔ محبوب کے حلقہ زلف میں دل کو باندھنے سے منزل مقصود (ختن) تک رسائی ہوتی ہے۔

ہوس تو نیک و بد تو شد نفس تو دام و دد تو شد
کہ باین جنون بلد توشد کہ بعالم تو و من در آ


ہوس سینے میں آزوؤں کی پرورش کرتی جو وحشی جانوروں کی طرح سرگرم ودار ہیں ، اور آدمی کو نیکی و بدی کے ہزار مشاغل میں پھنسائے رکھتی ہیں۔ خدا جانے تو کیسے آرزو پروری کے جنوں سے واقف ہوا۔ اور کس نے تجھ کو یہ سبق پڑھایا کہ بالآخر عالم اضداد (تو و من) کا اسیر ہوکر حقیقت کو فراموش کر بیٹھا۔

غم انتظار تو بردہ ام بہ رہ خیال تو مردہ ام
قدمے بہ پرسش من کشا نفسے چو جاں ببدن در آ

شعر کو شدت شوق کی تفسیر سمجھنا چاہیے۔ آنکھیں انتظار کرتے کرتے تھک گئیں، اور بالآخر راہ خیال میں جان دیدی۔ اب تو پرسش احوال ہوجائے۔ البتہ تھوڑی سی دیر کے لئے سانس کے وقفے کے برابر بھی کرم فرمایا تو میں سمجھونگا جیسے مردہ بدن میں جان آگئی۔

نہ ہواے اوج و نہ پستیت نہ خروش ہوش و نہ مستی ات
چو سحر چہ حاصل ہستیت نفسے شو و بسخن در آ


آدمی کی زندگی کا ماحصل یہ ہے کہ اس کے سامنے اوج و پستی کے تجربات تسلسل اور تکرار کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اور یہ کہ ہوش و مستی کی متضاد کیفیات اس پر بار بار گذرتی رہتی ہیں۔ وہ کیا آدمی جس کے دل میں بلندی و پستی سے گذرنے کا حوصلہ نہ ہو اور جو ہوش و مستی کی واردات سے نمٹنے کا سلیقہ نہ رکھتا ہو۔ لُب لباب یہ ہے کہ اپنی ہستی کا احساس کیجئے حتیٰ کہ سانس لینے میں جتنی دیر لگتی ہے اتنے سے عرصےکے لئے بھی اپنے نفس کی پہچان اور خودی کا شعور حاصل ہوجائے تو ایک حد تک مقصد پورا ہوا۔

ز سروش محفل کبریا ہمہ وقت میرسد این ندا
بہ خلوت ادب و وفا ز در بروں نشدن در آ


انسان اور فرشتے میں ایک فرق یہ ہے کہ فرشتہ تقرب الہیٰ کو فضیلت پاکر وہاں سے کے بھی سکتا ہے۔ انسان ایک دفعہ منزل عرفان پر فائز ہوجائے تو ہمیشہ توفیق خداوندی اس کے حال میں شامل رہتی ہے اور وہ اس مقام سے کبھی نیچے نہیں آتا۔ "در برون نشدن" کا یہی مطلب ہے۔ وہ دروازہ جس میں داخل ہونیکے بعد دوبارہ باہر نکلنے یا نکالے جانے کا کھٹکا نہیں ہے۔ شعر کا باقی مفہوم واضح ہے۔ معبود کی جانب سے ہر وقت بندوں کو صلائے عام ہے، جو حوصلہ رکھتا ہو، اظہار وفا کرے، بارگاہِ خلوت ادب تک رسائی متمنع اور محال نہیں ہے۔

بدر آئی بیدلؔ ازیں قفس اگر آ نطرف کشدت ہوس
تو بغربت آنہمہ خوش نہ ئی کہ بگویمت بوطن در آ


عارف کیلئے دنیا زندان اور قفس ہے۔ روح ہمیشہ اپنے وطن اصلی کی طرف لوٹنے کے لئے بیقرار رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسافر عالم غربت میں خوش نہیں رہتا اور اس کا دل اندر سے کہتا رہتا کہ پہلی فرصت میں گھر واپس چلئے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بہت شکریہ طارق حیات صاحب! حضرتِ بیدل کی اس مشہور غزل کی شرح پڑھ کر لطف آیا۔

فارسی متن میں کچھ غلطیاں رہ گئی ہیں، اُنہیں درست کر لیجیے:

ستم است اگر ہوست کشد کہ بسیر سرو در سمن آ
تو ز غنچہ ندمیدہ ئی در دل کشا بچمن در آ
ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم ندمیدہ ای در دل کشا بہ چمن در آ

ہوس تو نیک و بد تو شد نفس تو دام و دو توشد
نفس تو دام و دد تو شد

غم انتظار تو بردہ برہ خیال تو مردہ ام
غم انتظار تو بردہ ام بہ رہ خیال تو مردہ ام

نہ ہواے اوج و نہ پستیت نہ خروش ہوش و زہستیت
نہ خروش ہوش و نہ مستی ات

کہ بخلوت ادب وفا ز در بروں نشدن در آ
بہ خلوت ادب و وفا

http://ganjoor.net/bidel/ghazalbi/sh74/
 
Top