نقد و نظر

سید عاطف علی

لائبریرین
شاعر نے کہا تھا
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حُسن، ترے حُسنِ بیاں تک دیکھوں
ایک تخلیق کار کا اپنی تخلیق کے پہلو اجاگر کرنا نئے دروازوں کو کھولنے کے مترادف ہے
:) :)
جی ہاں بالکل درست فرمایا:)۔ اب ایک اور شاعر کہتا ہے ۔
تو اور آرائش ِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
یہاں شاعر نے اندیشوں کی ایک دنیا کا دریچہ وا کردیا ۔لیکن اس میں دور اور دراز کی حدوں کا تعین قاری کی استعداد کے بیشمار پہلؤوں پر ہو گا۔
یہاں میری مراد نقطء نظر اور فکری گہرائی اور گیرائی کے پہلؤوں کے اہم ہونے کی طرف ہے۔باقی امور بھی یقیناً اہم ہیں۔:)
 

صائمہ شاہ

محفلین
لگتا ہے یہ مصرع آپ کو اس واقعے کے بعد از بر ہو گیا ہے، اور اب آپ ہمارے ہی اوچھے ہتھکنڈے ہم پر ہی آزمائیں گی!! :)
حضور ہمارا آپ کا کیا مقابلہ ؟ ذرے کی کیا مجال جو آفتاب سے اٹکھیلیاں کرے بس یہ بےاختیار یاد آگیا تو لکھ دیا :)
 
حسبِ حکم ایک تقریباً تازہ غزل پیش ہے۔ احباب گفتگو فرمائیں۔

غزل برائے نقد و نظر
از محمد یعقوب آسی
گفتہ: 5 اکتوبر 2014 ۔ کل پانچ شعر۔


1
آنا تو انہیں تھا، پہ نہیں آئے تو کیا ہے
اشکوں نے بھگوئے بھی ہیں کچھ سائے تو کیا ہے
2
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا
اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے
3
غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش
فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے
4
کم کوش! تجھے اس سے سروکار؟ کہ خود کو
تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے
5
جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
بارے اس غزل کے کچھ باتیں:

غزل کا پہلا مصرع شاعرانہ مزاج کے بالکل مخالف معلوم ہوتا ہے۔ گو کہ جدید اور روایت شکن شعرا نے اس طرح کی باتیں بہت لکھی ہیں، لیکن پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ شاعرانہ مزاج کے خلاف ہے کہ محبوب وعدہ کر کے نہیں آئے اور شاعر اسے "تو کیا ہے" کہہ کر نظر انداز کر دے۔ دوسرے شعر میں "اک بات" کہہ کر اظہار محبت کا سارا مزہ جاتا رہا، گو کہ وہ کوئی عام بات نہیں اور خصوصا ایک شاعر کے لیے تو بہت ہی لطیف اور خوشگوار بات ہے۔ اور خاص باتوں کو اک بات نہیں کہا جاتا۔ تیسرا شعر کمال ہے۔ آخری شعر پڑھ کر فارسی کا ایک محاورہ ذہن میں آیا: فوارہ چون بلند شود سرنگون شود۔
 
تمہید

میری اولین اور یقیناً خوش گوار ذمہ داری ہے ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرنا جنہوں نے میری غزل کو در خورِ اعتناء جانا اور اس پر اظہارِ خیال کیا۔ اور اُن کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب جانا، اس خاموشی میں بھی یقیناً کوئی پہلو بھلائی کا رہا ہو گا۔ عام طور پر تنقیدی نشستوں میں صاحبِ غزل کا کام بہت آسان ہوتا ہے: جملہ احباب کا رسمی طور پر شکریہ ادا کرنا اور بس! سچی بات یہ ہے کہ یہ رسم بہت اچھی ہے۔ صاحبِ غزل کی حیثیت سے شاعر کو جو بات اچھی لگے، قابلِ عمل معلوم ہو، اس کو قبول کر لے اور جس بات سے اتفاق نہ ہو یا اس کے بس میں نہ ہو اس سے صرفِ نظر کر جائے یا آئندہ کے لئے ذہن میں محفوظ کر لے۔ کہنا اسے کچھ بھی نہیں ہوتا کہ میں نے فلاں لفظ، فلاں ترکیب، فلاں علامت کیوں استعمال کی اور فلاں ترتیبِ الفاظ کو ترجیح کیوں دی؛ وغیرہ وغیرہ۔

کہنے کا یہ مرحلہ ہوتا بھی بہت کٹھن ہے۔ اس کہنے کے کتنے ہی پہلو ہو سکتے ہیں: مجھے اپنے کہے کا دفاع کرنا ہے؟ مجھے اپنے شعر کی تشریح کرنی ہے؟ ایک ناقد کی رائے پر میں صریحاً غیر متفق ہوں، تو کیا اُس کو رنجیدہ بھی کرنا ہے؟ یا فاضل ناقد کی تشفی کا سامان بھی کرنا ہے، یا اس کی سعی کرنی ہے؟ جہاں جہاں میرے شعر کی تحسین ہوئی وہاں تو ظاہر ہے مجھے مسرت ہوئی اور جہاں کوئی تنقیص ہوئی کیا اس پر رنجیدگی کا اظہار بھی کرنا ہے؟ کیا مجھے احباب کو قائل بھی کرنا ہے کہ صاحبو! میں نے جو عرض کیا وہ فلاں فلاں فلاں جواز رکھتا ہے؟ گویا بالواسطہ طور پر مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ جناب! آپ سراسر غلط یا بلاجواز نکتہ آفرینی کے مرتکب ہوئے ہیں؟ یا یہ کہ آپ کے اپنے ارشادات میں فلاں فلاں مقام پر قابلِ گرفت فروگزاشتیں ہیں، مجھے کیا کہئے گا؟ ہے نا، عجیب صورتِ حال! ایسے میں رسمی شکریے اور خاموشی سے بہتر راستہ شاید کوئی ہے ہی نہیں۔

بہ این ہمہ میرے اہلِ محفل کی خواہش ہے کہ میں اپنے الفاظ کا جواز پیش کروں اور اپنے شعروں کی تشریح بھی کروں۔ یہ پتھر بہت بھاری ہے مگر جناب محمد وارث کے شعر کے مصداق، کہ:

بلا کشانِ محبت کی رسم جاری ہے

اٹھانا ہے وہی پتھر جو سب سے بھاری ہے

خیالِ خاطرِ احباب ہے کہ اس بھاری پتھر کو چوم پر چھوڑنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ سو، عرض کرتا ہوں مگر پہلے ایک گزارش کہ جن اہلِ نقد و نظر نے جو کچھ کہا، جس انداز میں کہا؛ اس کی اہمیت بجا! کچھ اور دوست جن کے ارشادات کو میں ترستا رہا ان کی خاموشی ایک سوال ضرور چھوڑ گئی، اور وہ یہ کہ ۔۔ چلئے جانے دیجئے!

تنقید کا مطلب محض تحسین یا محض تنقیص نہیں ہوتا۔ ایک رویہ یہ ہے کہ: زیرِ بحث کاوش میں کوئی کمی کوتاہی ہے تو اس کا ذکر کرنے سے حتی الوسع احتراز کیا جائے اور فن پارے کی خوبیوں کو نمایاں کیا جائے کہ لکھاری کی حوصلہ افزائی ہو۔ دوسرا رویہ ہے کہ: کوئی بات کسی شعر میں اچھی ہے، قابلِ تعریف ہے تو رہے! جہاں گرفت یا انگشت نمائی کی جا سکتی ہے اسے مت چھوڑئیے۔ ضمنی طور پر ایک انتہا پسندانہ رویہ ہے کہ حسبِ ضرورت کچھ بھی فرض کر کے صاحبِ غزل پر لاگو کر دیجئے۔ ان دونوں رویوں کا اپنا اپنا مقام و محل ہوتا ہے۔ تعلیم و تدریس کی غرض سے ان دونوں کے بین بین بھی کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔

تنقید مختلف چیز ہے۔ اس میں ہمیں زیرِ نظر فن پارے کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ ہر اچھائی، ہر کوتاہی کو دیکھنا ہوتا ہے، فن پارے کو موجود اور معروف ادبی تقاضوں پر پرکھنا ہوتا ہے، اور اس کو کھولنا ہوتا ہے۔ ناقدین کا آپس میں بھی مکالمہ ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی رائے پر رائے بھی دی جاتی ہے۔ ایک ناقد کو ابہام ہو رہا ہے، دوسرے کے نزدیک بات واضح اور صاف ہے تو اس پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ناقد کا اصل کام تو ہے قلم کار کی راہنمائی کرنا اور اس کی تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا اور تنقید کا بہترین اور مثالی حاصل تو یہ ہے کہ گفتگو میں حصہ لینے والے احباب ادبی منظر نامے میں زیرِ نظر فن پارے کے مقام اور قدر و قیمت کی حتمی تعیین کر دیں (ایسا ہوتا کم کم ہی ہے) یا کم از کم ان معیارات کو ضرور تازہ کر دیں جن پر کسی بھی فن پارے کو پرکھا جا سکے۔ یہاں غزل کی بات ہو رہی ہے، سو صاحبِ غزل کا شعری سفر، ادب میں اس کا معروف یا غیر معروف مقام، متعلقہ علوم پر اس کی دست رس اور کارکردگی؛ ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب کوئی جتنا متقدم (سینئر) ہے اور جتنا معروف ہے اس پر گرفت بھی اتنی کڑی ہونی چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے کہے کو بہ یک جنبشِ قلم رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے کہے میں لکھنے والوں کے لئے کوئی مثال بنتی ہو تو اس کی نشان دہی بھی ہونی چاہئے۔ دوسری طرف ایک نوآموز کے معاملے میں جس نے اپنی سفر آغاز کیا ہے،اور اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے، ناقد کا رویہ زیادہ ہمدردانہ اور استاذانہ ہونا چاہئے۔ ہم ایک شجرِ سرد و گرم چشیدہ اور ایک گلِ نو دمیدہ کو برابر کھڑا نہیں کر سکتے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری


بہت باتیں ہو گئیں، تمہید خاص طویل ہو گئی، اب جگر تھام کے بیٹھو کا مرحلہ آتا ہے۔ کہیں کوئی تلخی یا درشتی در آئے تو در گزر فرمائیے گا۔



1

آنا تو انہیں تھا، پہ نہیں آئے تو کیا ہے

اشکوں نے بھگوئے بھی ہیں کچھ سائے تو کیا ہے

نایاب

کس پہ آنا تھا ۔ ؟ جس پہ نہ آنے پر الجھن ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اشک دامن بھگوتے ہیں ۔ دامن پہ کس کا سایہ ہے ۔ اپنا یا اسکا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

سید شہزاد ناصر

اس شعر میں خاص بات محسوسات کی ہے جیسے کسی کے آنے کا یقین نہ ہو مگر پھر بھی اپنے آپ کو فریب دیتے ہوئے ہتھیلی پر اشکوں کے دیپ جلا کر انتظار کی اذیت سے گزر رہا ہو اور جب آخری امید بھی ٹوٹ جائے تو اشکوں کے دھندلکے میں سراب کی صورت کچھ سایوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آئے اس شعر کو وہ ہی محسوس کر سکتا ہے جوحقیقت میں اس منزل سے گزر چکا ہو

ایوب ناطق

خوبصورت منظر کشی کی ہے شعر کے ماحول کی ۔۔ لیکن ان کیفیات کے ساتھ ردیف کی معنویوضاحت ضروری ہو جاتی ہے خاص کر دوسرے مصرع میں--- جناب سید شہزاد ناصر صاحب

صائمہ شاہ

گو کہ میں عروض کے بارے میں کچھ نہیں جانتی سوائے اس کہ کے بہت مشکل ہیں پھر بھی جانتی ہوں کہ آپ کی غزل میں کوئی تکنیکی خامی نہیں ہو سکتی۔ اشکوں کا سائے نہ بھگونے کا خیال اچھا لگا۔ اور اسی مصرعے پر مجھے اپناایک شعر یاد آگیا

ایک بارش کا جیسے سایہ تھا

کوئی گیلا نہیں ہوا مجھ میں

یاسر شاہ

"اشکوں کا سایوں کو بھگونا " کچھ غیر مانوس سی ترکیب محسوس ہوئی- آپ کے ملاحظے سے ممکن ہے کہیں گذری ہو-اساتذه کے کلام سے اگر کوئی نظیر ملے تو کیا ہی اچھا ہو۔


معروضات:

جنابِ نایاب کا نکتہ شاید "تیرا کسی پہ آئے دل" کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تاہم سید شہزاد ناصر نے وضاحت کر دی۔ جناب ایوب ناطق کو دوسرے مصرعے میں ردیف زائد محسوس ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا، کہ دوسرے مصرعے میں "بھی" ایک متصل مضمون کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جناب یاسر شاہ نے اساتذہ کے کلام سے نظیر طلب کی ہے، میں خود کو اس قابل نہیں پاتا۔ ویسے بھی شعر کہتے میں اس امر کا کلی اہتمام کرنا کہ ہر ترکیب کی نظیر پہلے سے موجود ہو، شاعر کو محدود کر سکتا ہے۔ بعینہ "سایوں کو بھگونا " تو میری نظر سے نہیں گزرا، اس سے ملتی جلتی تراکیب عہدِحاضر کے شعرا کے ہاں دستیاب ہیں:

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

درد پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے

ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر

راہ میں پھولوں کے لب، سایوں کے گیسو آئے

۔۔

۔۔

میں اگر اس قدر پرکاری سے بات نہیں بنا سکا تو اسے میری معذوری جانئے گا۔
 
ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا

اک بات اگر لب پہ نہیں لائے تو کیا ہے

نایاب

جب سب پہ یہ یقین ہے کہ کوئی بھی محبت کا انکار نہیں کرے گا ۔ تو پھر اظہار سے دامن بچانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

یاسر شاہ

کون لب پر بات نہیں لایا؟ صراحت ہونی چاہیے -میں شاید یوں کہتا: وہ دل کی اگر منھ سے نہ کہہ پائے تو کیا ہے

ایوب ناطق

اکثر احباب نے اس شعر پر کسی نہ کسی زاویے سے دبے لفظوں میں تنقید کی ہے' اور ان دوستوں کے سوالات کا بغور جائزہ لینے سے تین اعتراضات سامتے آتے ہیں

1۔ پہلے مصرعے میں کیا لفظ 'تو' کے بغیر بھی بات مکمل ہوتی ہے

2۔ دوسرے مصرعے میں 'اک' سے ابہام میں اضافہ ہوا

3۔ اور مجموعی طور پر شعر کا مضمون روائتی ہے

اگر پہلے مصرعے میں ''ان'' کو الف کی کسرہ کے ساتھ پڑھے تو شعر کا مفہوم ابھر تو آتا ہے لیکن ''اک بات'' کے ساتھ تو ''اس'' کا استعمال آنا چائیے تھا' اور وہ اایک بات ہے کیا ؟ کیا اظہارِ محبت ؟

لگتا ہے کہ ہمیں شعر کی کلید نہیں مل رہی' محترمسید شہزاد ناصرکے رائے جاننے کی کوشش کرتے ہیں

سید شہزاد ناصر:

1۔ میری ناقص رائے میں "تو" کے بغیر شعر کا حسن مانند پڑجاتا ہے کسی طور پر بھی اضافی محسوس نہیں ہوتا

2۔ جب پہلے مصرعے میں وضاحت کر دی ہے "ان سے بھی محبت کا تو انکار نہ ہو گا" اور یہ ہی "اک بات" ہے جو وہ لب پر لانے سے گریزاں ہیں اس میں ابہام والی کوئی بات نہیں۔

3۔ آپ کے تیسرے اعتراض کی مجھے سمجھ نہیں آئی لہذا اس کی وضاحت سے معذور ہوں


معروضات:

جنابِ نایاب نے "اُن" کو جمع کے صیغے میں لیا ہے، یہاں یہ واحد تکریمی ہے۔ سید شہزاد ناصر کی توضیح بہت مناسب ہے، تاہم عرض کر دوں کہ محبت جیسی بات کا لفظاً زبان پر نہ لانا ضروری نہیں کہ انکار ہی ہو۔ کچھ خاموش اقرار بھی ہوا کرتے ہیں۔ جنابِ یاسر شاہ! فاعل "اُن" کا موجود ہونا میرا خیال ہے کہ دونوں مصرعوں کے لئے کافی ہے۔ جنابِ ایوب ناطق، یہ اک بات وہی ایک بات ہے جس کا انکار نہ ہونے کی توقع اس شعر میں پائی جاتی ہے۔مضمون کے روایتی ہونے پر اعتراض ہونا تو نہیں چاہئے، کہ محبت، نفرت، انکار، اقرار، جھجک مستقل اقدار و روایات میں شامل ہیں۔ سو جب تک روایات اور اقدار باقی ہیں، ان کا ذکر بھی باقی رہے گا۔ آپ کی رائے کے احترام میں کچھ اس لئے بھی خاموشی اختیار کرتا ہوں کہ فانی بدایونی کی سی چابک دستی میری رسائی میں کہاں! آپ اپنی ترجیح کے مطابق "اُن" کو "اِن" پڑھتے ہیں تو شعر کی تفہیم مشکل تر ہو جائے گی۔
 
3

غمزے کو روا ہے کہ ہو اغماض پہ ناخوش

فرمائے تو کیا ہے جو نہ فرمائے تو کیا ہے

یاسر شاہ

شعر میں ابہام محسوس ہوتا ہے -مصرع ثانی کو یوں بدلنے سے کچھ ابہام میں کمی واقع ہوتی ہے :

"فرمائے تو کیونکر ہو نہ فرمائے تو کیا ہے " یعنی غمزہ بیزباں ہے -اس کا فرمانا بعید از قیاس ہے اور نہ فرمائے تو بھی تعجّب نہیں۔

ایوب ناطق

خوبصورت خیال کا حسین اظہار ' سچ پوچھے تو مجھے کوئیابہام محسوس نہیں ہوا' جناب یاسر شاہ شاید لفظ اغماض سے چشم پوشی کر گئے کہ یہاں غمزہ کی وضاحت یا تعریف مقصود نہیں بلکہ اس کے نظر انداز ہونے کے کرب کا بیان ہے' غمزہ کرنا محاورہ ہے بمعنی ناز و عشوہ کرنے کے۔

ناز و ادا کو ترک مرے یار نے کیا

غمزہ نیا یہ ترکِ ستمگار نے کیا (آتش)

یہاں ایک اور خوبی (استادانہ کمال کہہ لیجیے) کہ لفظ غمزہ کے معنی چشم ابرو سے اشارہ کرنا ہے اور اغماض کے معنی چشم پوشی کرنے کے ہے' اب خوبصورتی دیکھیے کہ ''چشم'' پوشی کی گئی تو اشارہء چشم کی کیا حیثیت رہ گئی ؟ خوبصورت اظہار ہے ' بس اہلِ زبان سے غمزہ کرنا اور غمزہ فرمانا کے ایک ہونے کی سند درکار ہے کہ میں تو پٹھان ہوں' احباب رائے دیں۔


معروضات:

جناب یاسر شاہ ایک دوسرا مضمون سجھا رہے ہیں، میرا مقصود یہ نہیں تھا۔ جناب ایوب ناطق نے عمدہ توضیح پیش کر دی، ایک توضیح میں کر دوں کہ یہاں غمزہ کرنا یا فرمانا مقصود نہیں ناخوش ہونے کا اظہار کرنا یا نہ کرنا مقصود ہے۔ غمزے کو اتنا حق تو دیجئے نا، کہ اس کے فرمائے بغیر بات کو پا لیا جائے، نہیں تو وہ غمزہ ہی کیا ہوا!
 
کم کوش! تجھے اس سے سروکار؟ کہ خود کو

تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے

یاسر شاہ

مصرع اولیٰ میں "تجھے اس سے سروکار " کا اضافہ ردیف "توکیا ہے " کے ہوتےہوئے زائد از ضرورت محسوس ہوا۔


معروضات:

بجا ارشاد، جناب یاسر شاہ! سرِ تسلیم خم ہے۔ اس پر سوچنا ہو گا کہ شعر کو کس طور سنبھالا جائے۔ ممنون ہوں۔



5

جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا

اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے

ابن رضا:

اونچی فضا میں اڑنے والے یقینا" جب گرتے ہیں تو ان کو زیادہ نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے نسبتا" جو اہلِ فرش کو ہو سکتا ہے تو مصرع اولیٰ میں پیش نظر امر "نقصان" ہے یا "گرنا"؟ کیونکہ گرتے تو دونوں ہی ہیں۔مزید یہ کہ اہلِ فرش بھی جب حدِ رفتار سے تجاوز کرتے ہیں تو کم و بیش اُسی انجام سے دوچار ہوتے ہیں جس سے کہ اہلِ فضا؟ مراعات انظیر کے اس حوالے کی بابت اہل نظر کیا فرماتے ہیں۔

سید عاطف علی

یہاں صاحب شعر کی مراد تو غالباً بلندی اور بلندی سے گرنے کے مضمون کی تھی ۔جو ایک انتہائی عمومی اور معنوی وسعت والا مفہوم ہے۔خواہ فضائی بلندی ہو یا مرتبے کی۔غالباً رضا بھائی کا اشارہ لفظی رعایت کی طرف تھاالبتہ نقصان اورگرنا میں کوئی خاص امتیاز نہیں ایک دوسرے کو محیط ہی ہیں ۔رفتار بھی اسی بلندی کا معنوی پہلو ہو سکتا ہے سو اس سے بھی وہی لطف پیدا ہوتا ۔تاہم شعر میں ایک ہی جہت کا مضمون ہوتا ہے ۔(جو ہےبھی) ۔شاہ جی آپ شاعری میں بھی فزکس لے آئے۔ ویسے قوانین کہیں کے بھی ہوں اکثر منطبق ہو ہی جاتے ہیں۔

یاسر شاہ

نثر کی جائے تو کچھ یوں بنے گی کہ جو بلند اڑیں گے وہ گریں گے جو فرش پہ بیٹھا ہے وہ گر جائے تو کوئی بات نہیں - نثر شعر میں عجز بیان کی طرف اشارہ کر رہی ہے–

امید ہے اراکین محفل اردو بالخصوص محترم و مکرّم یعقوب آسی میرےاشکالات رفع فرمائیں گے۔


معروضات:

جناب ابنِ رضا! فرش نشین کا بھاگنے اور رفتار سے کیا واسطہ کہ وہ تو بیٹھا ہوا ہے جیسے جناب یاسر شاہ نے اشارہ کر دیا اور سید عاطف علی نے کہا کہ شعر میں مادی قوانین کا کچھ زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ مصدر "گرنا" کی معنویت اس شعر کو پہلودار بھی کر سکتی ہے اور سپاٹ بھی، کچھ حصہ قاری کا بھی تو ہے نا! جناب یاسر شاہ عجز بیان کو ذرا کھول کر بیان کر دیتے تو مجھے کچھ سہولت ہو جاتی۔ اپنے تئیں تو میں نے شعر کہا ہے، نثر کی بات مختلف ہوتی ہے، وہاں ایسی قیود نہیں ہوتیں۔
 
۔۔۔۔۔


شعر بہ شعر گفتگو تمام ہوئی۔ اس غزل کے مجموعی تناظر اور وسیع تر پیش منظر کے حوالے سے بھی بہت مفید گفتگو ہوئی۔ مناسب ہو گا کہ ان کو بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔

نایاب : استاد محترم آسی بھائی کی یہ غزل بھی بلاشبہ اچھی ہے مگر کہیںکہیں قاری کو چونکانے کی بجائے الجھا رہی ہے ۔۔۔

(آپ کو الجھاؤ محسوس ہوئے، میں شرمندہ ہوں۔ شعر کا مقصد قاری کو چونکانا تو نہیں ہوتا، ہاں کسی حد تک چھیڑنا کہہ سکتے ہیں کہ قاری کے محسوسات میں جتنا ارتعاش پیدا ہو گا، شعر اتنا ہی مؤثر گردانا جائے گا)

صائمہ شاہ : تمام تبصرے پڑھ کر سوچتی ہوں کہ اگر ہر شعر کو پڑھنے والے کی صوابدید کے مطابق بدل دیا جائے تو اس غزل میں یعقوب آسی کہاں ہوں گے یہ خیالات اور طریقہ اظہار گو ہماری انفرادیت کا عکاس ہے مگر شاعر کے تخیل کا نہیں۔ ایک تخلیق کار کا اپنی تخلیق کے پہلو اجاگر کرنا نئےدروازوں کو کھولنے کے مترادف ہے۔

(آپ کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ شاعر کو اپنی ذات کا اظہار کرنا ہے، تاہم احباب اگر کوئی اچھا مشورہ دیں تو اس پر عمل کر لینا بھی کچھ ایسا برا نہیں۔ البتہ ایک ذمہ دار قاری اور ناقد کے کرنے کا کام تخلیق کار پر ڈالنا قرینِ انصاف نہیں ہو گا)


سید شہزاد ناصر : رئیس امروہی کے بقول: "آج جب میں نئے نئے تنقیدی زاویوں اور نہ جانے کس کس نقطہ نظر سے شعر و ادب پر بہت سے عالم و فاضل نقادوں کے مضامین پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس دنیا کی باتیں کرتے ہیں! شعر بھی کوئی سمجھنے، سمجھانے کی چیز ہے؟ وہ تو سمجھی سمجھائی حقیقت کی حیثیت سے نازل ہوا کرتا ہے"

(بجا ارشاد، جناب!)


صائمہ شاہ : ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کسی تخلیق کو پڑھتے ہیں ہیں تو کیا اسے تخلیق کار کے ذہنی اور علمی معیار پر رکھ کر پڑھتے ہیں یا اپنے ذہن اور علمی قابلیت سے ؟ بعض اوقات لکھنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان کا علمی اور ذہنی فاصلہ تخلیق سے انصاف نہیں کر پاتا۔

نایاب : مجھ ایسے تبصرہ کرنے والے اور اعتراض اٹھانے اور داد دینے والے تو بلاشبہ صرف اپنے ذہن سے ابھرنے والی سوچ و خیال پر کسی بھی "تخلیق " کو ناپتے ہیں ۔ اور جتنی ہماری علمی استعداد ہوتی ہے اسی کے زیر اثر تبصرہ کرتے ہیں ۔ میرے ناقص خیال میں لکھنے اور پڑھنے والے کا " علمی و ذہنی تفادت " ابلاغ کی ترسیل و تفہیم میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتا ۔ کوئی بھی تخلیق جب منصہ شہود پر آتی ہے ۔ تو خود اپنا ابلاغ کرتی ہے ۔ جو کہ دیکھنے والے کی ذہنی علمی اور مشاہداتی سطح پر استوار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔

صائمہ شاہ : آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں نایاب بھائی سوال بذاتِ خود علم کی ہی ایک کڑی ہے سوال نہیں اٹھے گا تو جواب کیسے آئے گا وضاحت ، تفصیل ، باریکیاں یہ سب علم کے ہی سلسلے ہیں اور بے شک ہم سب اپنی استطاعت کے مطابق سوال کرتے ہیں اور جواب دینے والا اپنی فراست سے ہمارے سوال کو مزید سوالوں میں بھی تقسیم کر سکتا ہے اور مزید تشنگی بھی پیدا کر سکتا ہے حاصل یہ کہ سب علم کے حصول کے ذریعے ہیں یہ جستجو یہ کرید اس کے بغیر علم کا وجود ہی کہاں ہے

(قاری اپنی تشفی بہر حال چاہتا ہے، وہ نہ ملےتو بات بنتی نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ قاری اور شاعر کے درمیان علمی، فکری، ذہنی، نظریاتی سطح پر ہم آہنگی جتنی زیادہ ہو گی، قاری کے لئے شعر اتنا ہی زیادہ دل پذیر ہو گا۔ علمی اور ذہنی تفاوت کا اثر ہوتا ہے، اس سے بھی انکار ممکن نہیں۔ میں نے ہی کہیں عرض کیا تھا کہ ابلاغ میں شاعر اور قاری دونوں کا اپنا اپنا حصہ ہوتا ہے، بات فریقِ واحد پر منحصر نہیں ہوتی)


سید عاطف علی : کسی بھی مطالعے کی بنیاد تو حقیقتاً ہماری علمی اور فکری استعدادپر ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا تجزیاتی اور منفعلی پہلو تخلیق کرنے والے کے تراشیدہ پہلؤوں پر بھی لامحالہ ہوتا ہے اور اس تمام تعامل میں پوشیدہ لطف عیاں ہی تب ہوتا ہے جب قاری تخلیق کے ان تراشیدہ پہلوؤں سے اپنی فکر کے زاویوں کو سنورتا ہوا محسوس کرپائے۔جہاں تک انصاف کرنے کا تعلق ہے تو یہ بالکل درست ہے البتہ اس میں علمی سطح اور فکری نقطہء نگاہ دونوں عوامل اہم ہو تے ہیں۔

(خوبصورت بات ہے)


مہدی نقوی حجاز : غزل کا پہلا مصرع شاعرانہ مزاج کے بالکلمخالف معلوم ہوتا ہے۔ گو کہ جدید اور روایت شکن شعرا نے اس طرح کی باتیں بہت لکھی ہیں، لیکن پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ شاعرانہ مزاج کے خلاف ہے کہ محبوب وعدہ کر کے نہیں آئے اور شاعر اسے "تو کیا ہے" کہہ کر نظر انداز کر دے۔ دوسرے شعر میں "اک بات" کہہ کر اظہار محبت کا سارا مزہ جاتا رہا، گو کہ وہ کوئی عام بات نہیں اور خصوصا ایک شاعر کے لیے تو بہت ہی لطیف اور خوشگوار بات ہے۔ اور خاص باتوں کو اک بات نہیں کہا جاتا۔ تیسرا شعر کمال ہے۔ آخری شعر پڑھ کر فارسی کا ایک محاورہ ذہن میں آیا: فوارہ چون بلند شود سرنگون شود۔

(آپ نے توجہ فرمائی، ممنون ہوں۔ مزاج والی بات بہت موزوں ہے۔ آپ کی بات بھی بہت خاص بات ہے، آپ کی محبت!)

۔۔۔۔۔

تمام شد
 

ایوب ناطق

محفلین
بیٹی کی سالگرہ کی وجہ سے اپنے تبصرے وقت پر پیش نہ کرسکا جس کے لئے معذرت خواہ ہوں' تاہم میری نظر میں اہلِ علم کے لئے لفظ 'دیر' کے کوئی معانی نہیں ۔۔ لہذا اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں ۔۔
لوگوں کو اس کے بچ نکلنےسے کوئی غرض نہ تھی بلکہ اس کی قربانی سے بھی کوئی سروکار نہ تھا۔
کس غرض سے آئے ہو کیا سروکار ہے؟
دونوں جملوں میں سروکار کے معانی میں باریک اور نازک سا فرق ہے'
چھوتا شعر
کم کوش! تجھے اس سے سروکار ؟ کہ خود کو
تاریخ جو سو بار بھی دہرائے تو کیا ہے
پہلے معنی میں اگر استعمال ہوں تو ردیف زائد محسوس ہوتی ہے جبکہ دوسرے معنی میں بات کسی نہ کسی طرح بن جاتی ہے۔۔۔ شعر کا مضمون اعلٰی ہے' اور کم کوش کے ساتھ سروکار کی خوبصورتی اپنی جگہ
 
آخری تدوین:

ایوب ناطق

محفلین
آخری شعر
جو اونچی فضاؤں میں اُڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گِر بھی اگر جائے تو کیا ہے​
اس مضمون کو اقبال نے اپنی ارفع سطع پر باندھا ہے اور خوب کہا ہے
گرتے ہیں شاہسوار ہی میدانِ جنگ میں
ایک بات جو محسوس کی کہ کہیں شعر سے یہ تاثر تو نہیں مل رہا کہ اونجی فضاؤں میں اڑنا نقصان دہ ہے؟ ۔۔ ویسے دوسرا مصرع کمال کا ہے ۔۔۔
 
Top