طریقہ غلط، طریقہ صحیح

الف نظامی

لائبریرین
عمومی طور پر لال مسجد والوں پر جس نے بھی تنقید کی، اس کا لب لباب یہ تھا کہ:
مطالبات صحیح ہیں ، طریقہ کار غلط ہے
اس سانحہ کے بعد اب سوال یہ ہے کہ
کیا اسلام پسند قوتوں کو مزید دبایا جائے گا ؟
کیا اسلام پسند عناصر صحیح طریقہ کار کے ذریعے پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششییں تیز کریں گے یا سوتے رہیں گے۔
 
پاکستان میں‌سیکولر ازم کی ترویج عرصے سے جاری ہے مگر اس کو جو تقویت مشرف کے دور میں‌ ملی ہے وہ ماضیِ قریب میں‌نہ تھی۔
پاکستان کے اسلام پسند عناصر منتشر ہیں وہ فرقوں‌میں‌بٹے ہوئے ہیں‌حتیٰ کہ فقہی مسائل کو بھی اتنی اھمیت دی جاتی ہے کہ وہ فقہی مسائل بذات خود مذہب کی شکل اخیتار کرلیتے ہیں۔
جو جماعتیں‌کچھ اثر رکھتی ہیں‌وہ اپنے مخصوص مقاصد تک محدود ہیں۔ اگر برا نہ مانیں‌اور یہ نہ سمجھیں‌کہ میں‌کسی پر نقطہ چینی کررہاہوں‌تو چند مثالیں پیش کروں گا۔
تبلیغی جماعت جو زیادہ تر عوامی مزاج رکھتی ہے اور کم پڑھے لکھے لوگوں‌میں‌زیادہ مقبول ہے صرف ظاہری رسومات تک محدود ہے۔ اسی طرح بریلوی جماعت اپنے سر پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کھڑاوں‌کا نقش پہننا باعث افتخار سمجھتے ہیں مگر ہر دوسرے مسلمان کو گستاخ رسول گردانتے ہیں۔ شیعہ حضرات سینہ کوبی کو ہی یاد حسین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عرض یہ کرنا تھا کہ اسلام پسند یا مذہبی جماعتیں‌اپنے محدود انداز فکر و عمل کی ترجمان ہیں
دوسری طرف ان کی کمزوریوں‌سے فائدہ اٹھانے والوں کی طاقت میں‌اضافہ ہوگیا ہے۔
لہذا ضروت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے دائرہ میں اپنا احتساب کریں۔ اپنی فکر و عمل صرف اسلام کی ترقی کی لیے درست کریں۔ کیونکہ صرف اسلام ہی فلاحِ انسانیت کا ذریعہ ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
پاکستان میں‌سیکولر ازم کی ترویج عرصے سے جاری ہے مگر اس کو جو تقویت مشرف کے دور میں‌ ملی ہے وہ ماضیِ قریب میں‌نہ تھی۔
پاکستان کے اسلام پسند عناصر منتشر ہیں وہ فرقوں‌میں‌بٹے ہوئے ہیں‌حتیٰ کہ فقہی مسائل کو بھی اتنی اھمیت دی جاتی ہے کہ وہ فقہی مسائل بذات خود مذہب کی شکل اخیتار کرلیتے ہیں۔
جو جماعتیں‌کچھ اثر رکھتی ہیں‌وہ اپنے مخصوص مقاصد تک محدود ہیں۔ اگر برا نہ مانیں‌اور یہ نہ سمجھیں‌کہ میں‌کسی پر نقطہ چینی کررہاہوں‌تو چند مثالیں پیش کروں گا۔
تبلیغی جماعت جو زیادہ تر عوامی مزاج رکھتی ہے اور کم پڑھے لکھے لوگوں‌میں‌زیادہ مقبول ہے صرف ظاہری رسومات تک محدود ہے۔ اسی طرح بریلوی جماعت اپنے سر پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کھڑاوں‌کا نقش پہننا باعث افتخار سمجھتے ہیں مگر ہر دوسرے مسلمان کو گستاخ رسول گردانتے ہیں۔ شیعہ حضرات سینہ کوبی کو ہی یاد حسین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عرض یہ کرنا تھا کہ اسلام پسند یا مذہبی جماعتیں‌اپنے محدود انداز فکر و عمل کی ترجمان ہیں
دوسری طرف ان کی کمزوریوں‌سے فائدہ اٹھانے والوں کی طاقت میں‌اضافہ ہوگیا ہے۔
لہذا ضروت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے دائرہ میں اپنا احتساب کریں۔ اپنی فکر و عمل صرف اسلام کی ترقی کی لیے درست کریں۔ کیونکہ صرف اسلام ہی فلاحِ انسانیت کا ذریعہ ہے۔
جناب الف نظامی!
اس تھریڈ کی طرف توجہ دلانے کے لیے شکریہ
میں برادر مکرم ہمت علی کی اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ اسلام پسند عناصر فرقوں اور گرہوں میں بٹے ہوئے ہیں باہمی رواداری اور صبر تحمل کا عنصر مفقود ہو چکا ہے فقہی اختلافات اس قدر بنیادی اہمیت اختیار کر چکے ہیں کہ فقہ کو دین سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ فقہہ احکام دینیہ کی تشریح و توضیح کا نام ہے مختلف آئمہ نے احکامات دینیہ کو جس طرح سمجھا اس کو بیان کر دیا
پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی ایک فقہ کے ہاں کسی مسئلہ کی تفہیم موجود نہ ہوتی تو اس کے پیروکار کسی دوسرے فقہ کے امام کے ہاں اگر اس مسئلہ کی مناسب تفہیم موجود ہو تو اختیار کر لیا کرتے تھے اور اس طرح مختلف مذاہب کے فقہا کے درمیان ایک رواداری اور ھم آہنگی کی فضا قائم رہتی تھی لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ایک فقہ پر عمل کرنے والے دوسرے فقہہ پر عمل کرنے والوں کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑتے ہییں تنگ نظری اور تعصب کا عفریت چنگھاڑ رہا ہے مسلمانوں نے ایک دوسرے کی جان و مال کو اپنے اوپر حلال کر لیا ہے ہر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہا ہے کافر کافر کے نعرے بلند ہو رہے ہیں عبادت گاہوں میں بموں کے دھماکے اور کشتوں کے پشتے اس بات کا بین ثبوت ہیں
کہیں امام بارگاہ پر حملہ
کہیں محفل نعت پر حملہ
کہیں جلوس پر حملہ
کہیں مسجد پر حملہ
اگر اسلام پسندوں کا شعار یہی رہا تو پھر غیر اسلامی قوتوں کو تقویت تو ملے گی
ایسی صورت حالات میں اور لال مسجد کے سانجہ کے بعد اسلام پسند قوتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا
باہمی اختلافات کو طے کرنا ہو گا
فقہی اختلاف کو دین یا شریعت کا رتبہ دیکر ایک دوسرے کی تکفیر سے باز آنا ہوگا
اسلامی احکام اور عربی رسوم رواج میں فرق کرنا ہوگا
اہل عرب کی رسموں اور رواجوں اور اسلام کے احکامات میں فرق کرنا ہوگا
اور یہ کا علما کا ہے کہ وہ عوام میں یہ شعور پیدا کریں
عوام تو سادہ لوح ہیں
وہ تو عربی کے کسی اخبار کا ٹکڑا زمین پر پڑا دیکھیں تو اسے بھی اٹھا کر آنکھوں سے للگا لیتے ہیں کہ آیات تحریر ہیں
عوام میں قرآن فہمی پیدا کرنا ہوگی
مدارس کو صرف اور صرف تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہوگا
سادہ لوح طلبہ اور طالبات کو مخصوص نظریات میں انتہا پسندی کا درس دینے سے اجتناب کرنا ہوگا
غرض کیا کیا لکھوں
جب تک اسلام پسند قوتیں اس نہج پر غور فکر کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات نہیں کریں گی اس وقت تک نفاذ اسلام کی کوئی بھی کوشش سنجیدہ کوشش نہیں کہلا سکتی
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
لال مسجد کی تحریک ابتدا ہے اور انسان کامل نہیں ہے کافی خوبیوں کے ساتھ شائد کچھ کمزوریاں بھی ہوں
کیا ہمارے بے ضمیر صدر نے کسی عالم کو اب تک ایوارڈ دیا ہے؟
کسی ایجنسی والے نے کوئی شیطان پر گولی چلائی ہے؟
جس طرح میرے مجاہد اور عالم دین شہید ہوتے رہیں؟
کیا کسی فنکار ۔۔۔ کو 500 ڈالر کے عوض بھیجا ہے؟
 
میرا خیال ہے کہ یہ سب سانحات جن پر برادر شاکر القادری نے توجہ فرمائی ہے وہ سب یا بیشتر فوجی حمکرانوں‌کے دور میں‌ہی واقع ہوئے۔
مذہبی طبقہ عمومی طور پر سیدھا اور سچا ہوتا ہے۔ وہ جذباتی طور پر پاکستان سے اور اسلام سے تعلق رکھتا ہے لہذا فوجی ایجینسیاں انہیں‌اسانی کے ساتھ استعمال کرلیتی ہیں۔ پاکستان میں‌ یہی ہوا ہے۔
مدارس میں‌دینی تربیت ہی دی جاتی ہے یہ مدارس دینی تعلیم کے ماہر ہیں۔ میں‌ان کی ڈائریکشن میں‌کوئی غلطی نہیں پاتا۔ وہ درس نظامی دیتے ہیں‌اور اپنے اپنے میدان کے ماہر مثلا مفتی، مولانا، امام مسجد وغیرہ پیدا کرتے ہیں۔ ہم ان سے یہ توقع نہیں‌رکھ سکتے کہ وہ ڈاکٹر انجنیر بھی پیدا کریں‌گے۔ مدارس پر تنقید بے جا لگتی ہے۔
مسئلہ یہ ہوتا ہے جب ادارے اپنے دائرہ کار سے باہر کام کرنے لگتے ہیں‌ تو وہ دوسرے افراد و اداروں‌کو استعمال کرنے کی سوچتے ہیں۔ جب ایجنسیاں‌اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے اداروں‌مثلا یونی ورسٹیوں، سیاسی جماعتوں وغیرہ میں‌اپنے افراد داخل کرتی ہیں‌اور مخصوص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی معاملہ دینی مدارس کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
لہذا ایے مسئلہ کی جڑ کی طرف توجہ دیجیے۔ فروعات اپ ہی حل ہوجائیں‌گی۔ مسئلہ فوجی اداروں‌ کا اپنے دائرہ کار تک محدود کرنے کا ہے۔ مسئلہ درست جہموری نظام کی بحالی کا ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو پھر باقی سب مسائل تشدد کے بغیر حل ہوسکتے ہیں۔
اسلام پسندوں‌کا انتشار بھی اس مسئلے کا ایک تسلسل ہے۔
بین الاقوامی حالات بالخصوص امریکہ کی افغانستان و عراق میں‌موجودگی اور ایران کے خلاف صف ارائی اسلام پسندوں میں مزید انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر فوجی حکومت سے پاکستان کو چھٹکارا مل جائے تو شاید انتشار کی شدت کم ہوجائے۔ اسلام پسندوں‌ کی ترمینالوجی صرف موجودہ ٹاپک سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے کہی ہے ورنہ دیکھا جائے تو یہ پاکستانی معاشرے کے انتشار پر بھی منطبق ہوتی ہے۔

یہ صرف میرا opinion ہے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
بہت خوب ان شاء اس دھاگے پر بہت تعمیری باتیں سامنے آئیں گے
یہ تو اب ہمیں محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اپ لوگ انکھیں کھل کر اور ٹھنڈے دماغ سوچیں
کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مدرس تھے ؟
صرف مبلغ تھے ؟
نہیں وہ خود بھی ایک عظیم مجاہد تھے نبی السیف تھے نبی الملاحم تھے
اسی طرح سارے صحابہ رضی اللہ عنہم
کیاہم صرف عرس شریف منا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرسکتے ہیں
اور یاد رکھنا رب کعبہ کی قسم جس طرح کوئی قرآن کو نہیں مٹا سکتا اسی طرح کوئی جہاد کو نہیں مٹا سکے گا یہ جہاد قرآن کی حفاظت کرے گا اور قرآن جہاد کی حفاظت کرے اور قرآن کی حفاظت میرا رب کر ے گا جس دینی درس گاہ میں جہاد کی تعلیم نہیں وہاں قرآن کی تعلیم نہیں اور جس دینی درس گاہ میں جہاد کی تعلیم نہیں وہاں سنت کی تعلیم نہیں جہاد و اسلام لازم و ملزم ہے

اللہ اکبر کبیرا میرا رب سب سے عظیم ہے


واجد
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محترم الف نظامی!

انہی دوتین پوسٹوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ:

کیا اسلام پسند عناصر صحیح طریقہ کار کے ذریعے پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششییں تیز کریں گے یا سوتے رہیں گے۔
میرا خیال ہے سوتے رہیں گے والی بات مناسب نہیں
بلکہ
اسلام پسن عناصر ایک دوسرے پر بے جا تنقید کے ذریعہ امت میں انتشار و افتراق پھیلاتے رہیں گے
یک جہتی اور اتحاد ان میں پیدا ہو ہی نہین سکتا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
بہت خوب ان شاء اس دھاگے پر بہت تعمیری باتیں سامنے آئیں گے
یہ تو اب ہمیں محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اپ لوگ انکھیں کھل کر اور ٹھنڈے دماغ سوچیں
کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مدرس تھے ؟
صرف مبلغ تھے ؟
نہیں وہ خود بھی ایک عظیم مجاہد تھے نبی السیف تھے نبی الملاحم تھےاسی طرح سارے صحابہ رضی اللہ عنہم
کیاہم صرف عرس شریف منا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرسکتے ہیں
اور یاد رکھنا رب کعبہ کی قسم جس طرح کوئی قرآن کو نہیں مٹا سکتا اسی طرح کوئی جہاد کو نہیں مٹا سکے گا یہ جہاد قرآن کی حفاظت کرے گا اور قرآن جہاد کی حفاظت کرے اور قرآن کی حفاظت میرا رب کر ے گا جس دینی درس گاہ میں جہاد کی تعلیم نہیں وہاں قرآن کی تعلیم نہیں اور جس دینی درس گاہ میں جہاد کی تعلیم نہیں وہاں سنت کی تعلیم نہیں جہاد و اسلام لازم و ملزم ہے

اللہ اکبر کبیرا میرا رب سب سے عظیم ہے


واجد

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ملاحم تو تھے ہی نبی رحمت بھی تھے

یہ تو طے کر دیا آپ نے کہ دینی مدارس میں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے
اب ذرا یہ بھی واضح کردیں کہ
یہ تعلیم نظ۔۔۔۔۔ری ہوتی ہے یا عم۔۔۔۔۔لی
یاد رہے کہ
مدارس ۔۔۔۔۔ درس و تدریس سے متعلق ہوتے ہیں
اور تربیت گاہیں ۔۔۔۔۔ عملی ورکشاپوں کا درجہ رکھتی ہیں
کیا ہمارے مدارس عملی تربیت گاہوں کا کام بھی کر رہے ہیں
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
اللہ اکبر کبیرا کیا آپ کو اتنا بھی پتہ نہیں ہے کہ قرآن پاک میں آیات جہاد ۔۔۔؟

بہت اچھے سوالات اٹھائے کاش ایسا ہی ہوتا کہ جو تھیوری ہم مدارس میں پڑھتے ہیں پھر اس پر عمل ؟
اس لیے تو مسلمان کا آج یہ حال ہے میٹرک میں اپ معمولی تھیوری پڑھتے ہیں اور پھر پریکٹیکل
لیکن دین میں سب تھیوری ہی تھیوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



واجدحسین
 

ثناءاللہ

محفلین
اب سب احباب کے پیغامات پڑھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے اچھے استدلال جاری ہیں، اس موضوع پر پھر کبھی تفصیلی لکھوں گا۔ لیکن اس وقت صرف یہ کہوں گا کہ قرآن حکیم نے جو حکمت کی تعلیم دی ہے۔ اسے نظر انداز نہ کریں۔
شکریہ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
السلام علیکم
اسلام نہ تو تلوار کے زور پر پھیلا اور نہ ہی ظلم و تشدد اسلام کے نام لیواؤں کی سوچ کو تبدیل کر سکا۔ یہ بات ہر دو فریقین کو سمجھ لینی چاہیئے۔ مقصد نیک سہی لیکن پاکستان میں اسلام کے نام پر قائم جماعتیں اکثر شدت پسندی کی راہ اپنا لیتی ہیں۔ جب کہ جس انسانِ کامل (صعلم( کی ہم پیروی کرتے ہیں انھوں نے تو ہمیشہ صبر، تحمل اور بردباری کا سبق دیا۔ معاشرے میں پھیلتی بے راہ روی اور اسلام سے بتدریج دوری اس وقت وہ انتہائی اہم معاملات ہیں جو ہمارے علماء کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ کہ علماء ہی کسی معاشرے کی اجتماعی سوچ کو ایک رخ دینے کے زمہ دار ہیں۔۔۔ظلم چاہے جیسا بھی ہو۔۔اس کا جواب میں اگر ویسا ہی رویہ اپنا لیا جائے تو حالات میں بہتری کی بجائے مزید ابتری آتی ہے۔ حالات و واقعات کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسا لائحہ عمل طے کیا جائے کہ جو "سوچ" میں مثبت تبدیلی لائے۔۔
اسی طرح اربابِ اختیار کو بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ تحریکیں کیسی بھی ہوں ان کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال مزید تباہی لاتا ہے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے تدبر اور معاملہ فہمی سے کام لینا ضروری ہے۔ اور کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے اثرات کے بارے میں اچھی طرح سوچ لینا چاہیئے۔
میں کیونکہ عوام کے اس طبقے میں سے ہوں جو پر مغز سیاسی تجزیے نہیں کر سکتے چنانچہ میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ اسلام پسند عناصر صحیح طریقہ کار کے ذریعے پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششییں تیز کریں گے یا سوتے رہیں گے۔۔۔لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ کاش ہم عوام سے لیکر علماء اور حکمرانوں تک سب عناد، دشمنی اور ضد کی راہ کو چھوڑ کر اسلام کی اصل روح پرکھنے کی کوشش کریں جو شخصی آزادی، جمہوریت،صبر و تحمل اور فہم و تدبر کا درس دیتی ہے۔
ایک اور بات جو میں نے اکثر مباحث میں محسوس کی ہے وہ یہ کہ شاید ہم لوگوں کے ذہن میں "جہاد" کا تصور صرف "تلوار" کے ساتھ جڑا ہوا رہ گیا ہے۔ ہم شاید جہاد کی اصل تعریف کو بھلاتے جا رہے ہیں۔ جہاد تو شروع ہوتا ہے "جہاد بالنفس" سے۔۔جو کہ بنیادی قدم ہے جہاد کی طرف۔۔لیکن ہم لوگ سیدھی چھلانگ لگاتے ہیں۔۔تلوار اٹھانے کے لئے۔۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جہاد کی مکمل تفسیر سمجھ لیں اور پھر آگے بڑھیں۔۔اس صورت میں مقصد کا حصول زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔۔
 

سید ابرار

محفلین
محترم الف نظامی!

انہی دوتین پوسٹوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ:

کیا اسلام پسند عناصر صحیح طریقہ کار کے ذریعے پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششییں تیز کریں گے یا سوتے رہیں گے۔
میرا خیال ہے سوتے رہیں گے والی بات مناسب نہیں
بلکہ
اسلام پسن عناصر ایک دوسرے پر بے جا تنقید کے ذریعہ امت میں انتشار و افتراق پھیلاتے رہیں گے
یک جہتی اور اتحاد ان میں پیدا ہو ہی نہین سکتا
اتنی ”ناامیدی “مناسب نہیں ہے ، متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ فارم بھر حال سیاسی سطح پر ”اتحاد “ کا نمونہ پیش کر ہی رہا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ”سب “ اس پر ”اعتماد“ بھی کرلیں ،
 

سید ابرار

محفلین
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ملاحم تو تھے ہی نبی رحمت بھی تھے

یہ تو طے کر دیا آپ نے کہ دینی مدارس میں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے
اب ذرا یہ بھی واضح کردیں کہ
یہ تعلیم نظ۔۔۔۔۔ری ہوتی ہے یا عم۔۔۔۔۔لی
یاد رہے کہ
مدارس ۔۔۔۔۔ درس و تدریس سے متعلق ہوتے ہیں
اور تربیت گاہیں ۔۔۔۔۔ عملی ورکشاپوں کا درجہ رکھتی ہیں
کیا ہمارے مدارس عملی تربیت گاہوں کا کام بھی کر رہے ہیں
شاکر صاحب نے بہت مضبوط سوال اٹھایا ہے ، اس پر سب کو غور کرنا چاہئے ، جھاد کی نظری تعلیم اور چیز ہے اور جھاد کی عملی تربیت ایک دوسری چیز ، ہمارے دینی مدارس بنیادی طور پر تو درس و تدریس ہی کے لئے ہیں، اور انہیں اپنا یھی کام یکسوئی کے ساتھ پورا کرنا چاہئے ،
جھاں تک جھاد کی عملی تربیت کی بات ہے تو بنیادی طور پر یہ ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے ، نہ کہ اھل مدارس کی ، پھر بھی ”ضرورت کے وقت“ اگر قائم بھی کریں تو اس کا نظام ،مدارس سے الگ رکھیں ، دینی تعلیم میں مھارت کے لئے ، بلکہ ہر علم و فن میں مھارت کے لئے فی الجملہ یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے ،
 

باسم

محفلین
مجلس عمل ایک سیاسی اتحاد ہے سایست میں تو کوئی بھی ایک ہوسکتا ہے
مگر فقہی اور مسلکی اختلاف کے باوجود مدارس کی تنظیمات کا اتحاد اس بات کو بالکل بے بنیاد کر دیتا ہے کہ
ان میں یکجہتی اور اتحاد پیدا ہو ہی نہیں سکتا بس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس اتحاد کو مزید ان باتوں تک وسیع کیا جائے جن میں سب متفق ہیں
یہ اتفاق حدود آرڈیننس کے معاملے پر دیکھا بھی گیا
ایک بات یہ بھی کہ کیا کبھی حکومت نے انہیں جمع کرکے اس بات پر زور دیا کہ وہ فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کریں بلکہ وہ خود ہی سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں
 

شاکرالقادری

لائبریرین
مجلس عمل ایک سیاسی اتحاد ہے سایست میں تو کوئی بھی ایک ہوسکتا ہے
مگر فقہی اور مسلکی اختلاف کے باوجود مدارس کی تنظیمات کا اتحاد اس بات کو بالکل بے بنیاد کر دیتا ہے کہ
ان میں یکجہتی اور اتحاد پیدا ہو ہی نہیں سکتا بس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس اتحاد کو مزید ان باتوں تک وسیع کیا جائے جن میں سب متفق ہیں
یہ اتفاق حدود آرڈیننس کے معاملے پر دیکھا بھی گیا
ایک بات یہ بھی کہ کیا کبھی حکومت نے انہیں جمع کرکے اس بات پر زور دیا کہ وہ فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کریں بلکہ وہ خود ہی سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں
یہ تنظیمات مدارس کا اتحاد کسی بھی طور مسلکی اتحاد نہیں
یا باہمی روادیری کا مظاہرہ نہیں یہ ادارے تو طلبہ کے امتحانات اور متعلقہ تنظیمات کو احاطہ کرتے ہیں
اور اگر کوئی ایسا اتحاد ہے بھی جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے تو اس کے ثمرات ہمیں مساجد میں کیوں نظر نہیں آتے
پاکستان کے دور افتادہ ترین علاقوں کی چھوٹی چھوٹی مساجد میں بھی جہاں کے سادہ لوح دیہاتی مذہب کے ساتھ انتہائی مخلص ہیں وہاں بھی اب مساجد کے آئمہ و خطباء نے عوام الناس میں یہ شعور پیدا کردیا ہے کہ:
1۔۔۔۔۔۔ عرس منانے والے اور مزارت پر جانے والے مشرک ہیں ان سے نفرت کی جائے
2۔۔۔۔۔ دیو بندی ، اہلحدیث اور غیر مقلدین گستاخ لوگ ہوتے ہیں ان سے بھی نفرت کی جائے
3۔۔۔۔۔ شیعہ تو ہیں ہی کافر کہ انکی نماز ، کلمہ، اذان غرض سب کچھ مسلمانوں سے جدا ہیں
چنانچہ ::::
۔۔۔۔۔ توحیدی ہونے کے دعویدار مشرکوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیتے ہیں
۔۔۔۔۔ عاشق رسول ہونے کے دعویدار گستاخان رسول سے بات کرنے کے بھی روادار نہیں
۔۔۔۔۔ اورشیعہ ان دونوں کو حق سے ہٹا ہوا گردانتے ہیں
۔۔۔۔۔ یہ دونوں شیعہ کو گمراہ سمجھتے ہیں
۔۔۔۔۔ اور ان میں سے توحیدی طبقہ تو شیعہ پر کفر کا فتوا عائد کرتا ہے

کیا اتحاد تنظیمات مدارس کے ثمرات یہی ہیں
اور کیا اسلامی جہاد کا محور و مرکز یہی ہے
جہاد اور قتال میں فرق کیا ہے یہ ایک الگ بحث ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے کالم میں حامد میر نے لکھا ہے کہ مزاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری وفاق المدارس کے ان علماء پر بھی عائد ہوتی ہے جنہیں غازی رشید اور بچوں کی جان کی کوئی پروا نہ تھی وہ صرف حامعہ حفضہ اور جامعہ فرییدیہ کو وفاق المدارس کے حق میں ہتھیانا چاہتے تھے عین اس عالم میں جب مولنا خلیل اور شجاعت مزاکرات کر رہے تھے تو وفاق المدارس کے علما بلیو ایرا سے کھانا منگوا کر کھا رہے تھے اور قہقہے لگا رہےے تھے یہاں تک کہ مولنا خلیل اور چودھری شجاعٹ کو انہیں سختی سے روکنا پر
اور جب علماء ننے محسوس کیا کہ یہ مدارس وفاق المدارس کو ملنے والے نہیں ہیں تو انہوں نے بائیکاٹ کر دیا اور چودھری شجاعت اور مولنا خلیل اکیلے رہ گئے
 

باسم

محفلین
مکمل طور پر نہیں تو جزوی طور پر اسکے اثرات ضرور نظر آتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کراچی میں ایک شیعہ عالم دین کے قتل پر اگلے دن دوسرا شیعہ دین بیان دیتا ہے کہ ہم شیعہ سنی کو لڑوانے کی کوشش ناکام بنادیں گے
اور شاید یہی وجہ ہے کہ غیروں کو مسلکی تقسیم کو چھوڑ کر ایک اور تقسیم کرنا پڑی اور وہ تقسیم "روشن خیالی اور انتہا پسندی" کی تقسیم ہے ہمیں اسے بھی ناکام بنانا ہے
آج کے اخبار میں چھپی یہ تصویر بہت سے الفاظ پر بھاری ہے
05.jpg

کیمرے سے قریب ترین پلے کارڈ کی آخری سطر ہے
"ہم ایک ہیں"
اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی یہ ویب سائٹ بھی دیکھ لیجیے
جماعۃ الدعوۃ
 

شاکرالقادری

لائبریرین
مکمل طور پر نہیں تو جزوی طور پر اسکے اثرات ضرور نظر آتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کراچی میں ایک شیعہ عالم دین کے قتل پر اگلے دن دوسرا شیعہ دین بیان دیتا ہے کہ ہم شیعہ سنی کو لڑوانے کی کوشش ناکام بنادیں گے
اور شاید یہی وجہ ہے کہ غیروں کو مسلکی تقسیم کو چھوڑ کر ایک اور تقسیم کرنا پڑی اور وہ تقسیم "روشن خیالی اور انتہا پسندی" کی تقسیم ہے ہمیں اسے بھی ناکام بنانا ہے
آج کے اخبار میں چھپی یہ تصویر بہت سے الفاظ پر بھاری ہے
05.jpg

کیمرے سے قریب ترین پلے کارڈ کی آخری سطر ہے
"ہم ایک ہیں"
اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی یہ ویب سائٹ بھی دیکھ لیجیے
جماعۃ الدعوۃ
کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے یہ فرقہ واریت ہی ہے جو پاکستان کی سب سے بری اور تلخ حقیقت ہے اس کو آپ جزوی نہ سمجھیں یہ کلی طور پر ہمارے معاشرہ پر اثر انداز ہو رہی ہے

میں نے تو ایک فرقہ کی مسجد میں دوسرے فرقہ کے لوگوں کے داخل ہو جانے پر لوگوں کو مسجد کے فرش اور دیواریں دھوتے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ "موذیوں" کے داخلہ کی وجہ سے مسجد خاکم بدھن "پلید" ہو گئی تھی اس لیے دھویا جا رہا ہے

اس صورت حال سے چشم پوشی کرنا

یقینا بہت برا جرم ہے

خدائے قدوس کے حکم

واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا

کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی اور نہیں یہی ملا ہے
جس کے بارے میں اقبال نے فرمایا:

دین ملا فی سبیل اللہ فساد
 

اظہرالحق

محفلین
بے شک دوستوں کا یہ تجزیہ ٹھیک ہے کہ سب فساد کی جڑ تعصب ہے ، اور ایک دوسرے کو کافر کہنا بھی ہے ۔ ۔ ۔

مگر میری نظر میں ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔۔ ۔ میں اگر اپنا تجربہ بیان کروں تو ۔ ۔ ۔ میرے حلقہ احباب میں ۔ ۔ ۔ غیر مسلموں سمیت ۔ ۔ ہر مسلک کے لوگ ہیں ۔ ۔ ایسے بھی ہیں جو ہر دینی پابندی سے مثتثنٰی سمجھتے ہیں خود کو اور ایسے بھی ہیں جو صرف نماز روزے کو ہی انسانی تخلیق کا مقصد سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔

مگر زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو انسان کو انسان سمجھتے ہیں ۔۔ ۔ یہ سب سے بڑی چیز ہے ۔ ۔ ۔ ہم لوگ یہاں متحدہ امارات میں مسجد میں ہر مسلک کے لوگ ایک ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہاں اہل تشیع ضرور الگ جاتے ہیں مگر انکے ملنے جلنے سے کچھ تعصب نہیں ملتا ۔ ۔ ۔ اور یہ سب یہاں پر اسلئے ہے کہ سب لوگ کام پر لگے ہوئے ہیں کسی کے پاس غیر ضروری باتوں کا وقت ہی نہیں اور کوئی بھی اپنی پرسکون زندگی کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑائ جھگڑوں میں نہیں ڈالنا چاہتا

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ۔ ۔ ۔ فارغ لوگوں کی اور جوانوں کی ایک فوج ہے ۔۔ ۔ جسکا کام صرف از صرف مباحث اور ایک دوسرے سے تکرار میں وقت گذارنا ہے ۔ ۔ ۔ آپ پاکستان میں ہی کسی بھی پیسے والے کو ایسی کسی بحث کے تابع نہیں دیکھو گے ۔ ۔ ۔ اور میری نظر میں یہ ہی اس فتنے کی وجہ بھی ہے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ
ہر امت کا فتنہ ہوتا ہے ، میری امت کا فتنہ مال ہے ۔ ۔ ۔

اور میرے خیال میں مذہبی یا جدت پسندی ۔ ۔ دونوں کی انتہا کی وجہ صرف مال ہے اور مال کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ۔ ۔ ۔۔ اور بے روزگاری ۔ ۔ ۔ دوسری اہم وجہ ہے ۔ ۔ ۔ ہم بجائے مذہبی اور سیاسی مباحث میں الجھیں اگر ہم دولت کی تقسیم کو بہتر کر لیں اور بے روزگاری کو کم کر لیں تو ۔ ۔ ۔ ۔ شاید ہم مذہبی طور پر بھی تعصب سے ہٹ سکیں گے ورنہ ۔ ۔ ۔ ہم کھٹ پتلیوں کی طرح ناچتے رہیں گے اور نادیدہ ہاتھ نچاتے رہیں گے ۔ ۔۔ ۔ اور ساری دنیا یہ تماشا دیکھتی رہے گی ۔ ۔ ۔

اور سب سے بڑھ کر ہم بے حسی کو چھوڑ دیں تو شاید ہم بہت سارے لوگوں کو سنبھال سکیں ۔۔ ۔ دوسروں کا درد سمجھ ہی لیں تو شاید ۔ ۔ ۔ یہ معاشرہ کچھ بہتر ہو سکے ۔ ۔

اللہ ہم پر اپنا رحم کرے ۔ ۔ ۔ آمین
 

ساجداقبال

محفلین
درست تجزیہ کیا ہے آپ نے اظہر۔۔۔۔شاکر بھائی کی بات بھی بالکل درست ہے۔ بعض اطلاعات تو ایسی بھی ہیں کہ اس آپریشن میں فرقہ واریت کا استعمال سرکاری طور پر ہوا۔
 
Top