الف نظامی

لائبریرین
ہر وہ جس نے اپنے کلاہ کو ٹیڑھا کیا ہے اور طمطراق سے براجمان ھے، ضروری نہیں کہ اس کا کلاہ امتیازی بھی ہو اور سرداری کے طور طریقے (آئین) بھی جانتا ہو (کلاہ ٹیڑھا کرنا اور فخر سے تخت پر بیٹھنا اس کو سزا وار ہے جو کوئی امتیاز رکھتا ہو اور دلوں پر حکومت کرنے کا فن بھی جانتا ہو)۔

شاعر کے نام کا علم نہیں ہوسکا، اندازِ بیاں اور سیاق و سباق سے اقبال یا سبک ہندی کے کسی شاعر کا لگتا ہے۔
نہ ہر کہ طرف کلہ کج نہاد و تند نشست
کلاہ داری و آئینِ سروری داند
 

محمد وارث

لائبریرین
ما حالِ دلِ خویش نہفتیم و نگفتیم
شب تا سحر از درد نخفتیم و نگفتیم


چندر بھان برہمن

ہم اپنے دل کا حال پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں، کسی سے کہتے نہیں۔ شام سے لے کر صبح تک ساری رات اسی درد میں تڑپتے ہیں، نہ سوتے ہیں نہ کسی سے کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مقدّم بر خودم زان می‌نشاند یار در مجلس
که گردم شرمسار از وضعِ خویش و زود برخیزم

(امین کاشانی)
محفل میں یار اپنے سے آگے (افضل جگہ پر) مجھے اس لیے بٹھاتا ہے تاکہ میں اپنی (اِس) حالت پر شرمسار ہو کر (اُس کی محفل سے) جلدی اٹھ جاؤں۔

اکنون که تنها دیدمت، لطف ار نه، آزاری بکن
سنگی بزن، تلخی بگو، تیغی بکش، کاری بکن

(اهلی شیرازی)
اب کہ جب تم مجھے تنہا نظر آئے ہو، اگر لطف نہیں کرتے تو کوئی تکلیف ہی دے دو۔۔۔ کوئی پتھر مار دو، کوئی تلخ بات کہہ دو، کوئی تلوار نیام سے باہر نکال لو۔۔۔ کوئی کام تو کرو۔۔۔

بیرون میا ز خانه، که ذوقِ امیدِ وصل
بهتر ز دیدنی‌ست که بی‌هوشی آورد

(واقفی هروی)
اپنے گھر سے باہر مت آؤ، کیونکہ وصل کی امید کی لذت اُس دیدار سے بہتر ہے جو ہوش و حواس فراموش کرا دے۔

وقتِ نماز پهلوی او جا گرفته‌ایم
باشد گهِ سلام، نگاهی به ما کند

(مقبول قمی)
نماز کے دوران ہم اُس کے پہلو میں (اِس لیے) بیٹھ گئے ہیں کہ شاید وہ سلام پھیرتے وقت ایک نگاہ ہم پر بھی کر لے۔

(رباعی)
آن شوخ به من دشمنِ جانیست هنوز
بی‌مهر چو روزگارِ فانیست هنوز
با آن که مرا تابِ تجلیش نماند
با من به مقامِ لن ترانیست هنوز

(جاهی اردبیلی)

وہ شوخ (یار) ابھی تک میرے لیے جان کا دشمن بنا ہوا ہے؛ وہ ابھی تک فانی ایام کی طرح مجھ پر بے رحم ہے؛ باوجود اس کے کہ مجھ میں اُس کی تجلی کی تاب نہیں رہی ہے، پھر بھی وہ ابھی تک میرے ساتھ 'لن ترانی' کی منزل پر ہے۔

هان ای جنونِ عشق، ز جا جنبشی که باز
این مجلس از تکلفِ فرزانه پر شده‌ست

(مظهری کشمیری)
ہاں اے جنونِ عشق! ذرا اپنی جگہ سے حرکت کرو کہ یہ مجلس دوبارہ عاقلوں کے تکلف سے بھر گئی ہے۔

به ناحق کشتگان چون من بسی داری و می‌ترسم
که نگذارد کسی با من ترا روزِ قیامت هم

(قیدی شیرازی)
تمہارے ہاتھوں میری طرح ناحق مارے جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ اُن میں سے کوئی قیامت کے روز بھی تمہیں میرے ساتھ تنہا نہیں رہنے دے گا۔ (کیونکہ وہ تمام کشتگان ہی اُس روز انصاف کی طلب میں تمہارے آس پاس گھوم رہے ہوں گے۔)

پیشِ تو دعا گفتم و دشنام شنیدم
هرگز اثری بهتر ازین نیست دعا را

(هلالی جغتایی)
میں نے تمہارے سامنے دعا کہی اور (جواب میں تم سے) گالیاں سنیں۔۔۔ دعا کا ہرگز اس سے بہتر اثر یا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔

روزِ هجر از خاطرم اندیشهٔ وصلت نرفت
آرزوی صحّت از دل کی رود بیمار را؟

(هلالی جغتایی)
جدائی کے دن میرے ذہن سے تمہارے وصل کا خیال نہیں گیا۔۔۔ بیمار کے دل سے صحت کی آرزو کب جاتی ہے؟
 

فلک شیر

محفلین
مقدّم بر خودم زان می‌نشاند یار در مجلس
که گردم شرمسار از وضعِ خویش و زود برخیزم

(امین کاشانی)
محفل میں یار اپنے سے آگے (افضل جگہ پر) مجھے اس لیے بٹھاتا ہے تاکہ میں اپنی (اِس) حالت پر شرمسار ہو کر (اُس کی محفل سے) جلدی اٹھ جاؤں۔

اکنون که تنها دیدمت، لطف ار نه، آزاری بکن
سنگی بزن، تلخی بگو، تیغی بکش، کاری بکن

(اهلی شیرازی)
اب کہ جب تم مجھے تنہا نظر آئے ہو، اگر لطف نہیں کرتے تو کوئی تکلیف ہی دے دو۔۔۔ کوئی پتھر مار دو، کوئی تلخ بات کہہ دو، کوئی تلوار نیام سے باہر نکال لو۔۔۔ کوئی کام تو کرو۔۔۔

بیرون میا ز خانه، که ذوقِ امیدِ وصل
بهتر ز دیدنی‌ست که بی‌هوشی آورد

(واقفی هروی)
اپنے گھر سے باہر مت آؤ، کیونکہ وصل کی امید کی لذت اُس دیدار سے بہتر ہے جو ہوش و حواس فراموش کرا دے۔

وقتِ نماز پهلوی او جا گرفته‌ایم
باشد گهِ سلام، نگاهی به ما کند

(مقبول قمی)
نماز کے دوران ہم اُس کے پہلو میں (اِس لیے) بیٹھ گئے ہیں کہ شاید وہ سلام پھیرتے وقت ایک نگاہ ہم پر بھی کر لے۔

(رباعی)
آن شوخ به من دشمنِ جانیست هنوز
بی‌مهر چو روزگارِ فانیست هنوز
با آن که مرا تابِ تجلیش نماند
با من به مقامِ لن ترانیست هنوز

(جاهی اردبیلی)

وہ شوخ (یار) ابھی تک میرے لیے جان کا دشمن بنا ہوا ہے؛ وہ ابھی تک فانی ایام کی طرح مجھ پر بے رحم ہے؛ باوجود اس کے کہ مجھ میں اُس کی تجلی کی تاب نہیں رہی ہے، پھر بھی وہ ابھی تک میرے ساتھ 'لن ترانی' کی منزل پر ہے۔

هان ای جنونِ عشق، ز جا جنبشی که باز
این مجلس از تکلفِ فرزانه پر شده‌ست

(مظهری کشمیری)
ہاں اے جنونِ عشق! ذرا اپنی جگہ سے حرکت کرو کہ یہ مجلس دوبارہ عاقلوں کے تکلف سے بھر گئی ہے۔

به ناحق کشتگان چون من بسی داری و می‌ترسم
که نگذارد کسی با من ترا روزِ قیامت هم

(قیدی شیرازی)
تمہارے ہاتھوں میری طرح ناحق مارے جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ اُن میں سے کوئی قیامت کے روز بھی تمہیں میرے ساتھ تنہا نہیں رہنے دے گا۔ (کیونکہ وہ تمام کشتگان ہی اُس روز انصاف کی طلب میں تمہارے آس پاس گھوم رہے ہوں گے۔)

پیشِ تو دعا گفتم و دشنام شنیدم
هرگز اثری بهتر ازین نیست دعا را

(هلالی جغتایی)
میں نے تمہارے سامنے دعا کہی اور (جواب میں تم سے) گالیاں سنیں۔۔۔ دعا کا ہرگز اس سے بہتر اثر یا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔

روزِ هجر از خاطرم اندیشهٔ وصلت نرفت
آرزوی صحّت از دل کی رود بیمار را؟

(هلالی جغتایی)
جدائی کے دن میرے ذہن سے تمہارے وصل کا خیال نہیں گیا۔۔۔ بیمار کے دل سے صحت کی آرزو کب جاتی ہے؟
بہت اچھے حسان
جیتے رہیے۔
 

عمراعظم

محفلین
اینکہ مردم نشناسند تُرا ، غربت نیست
غربت آن است کہ یاران ببرند ت از یاد

غربت یہ نہیں ہے کہ لوگ تمہیں نہ پہچانیں۔۔۔ غربت تو وہ ہےکہ دوست تمہیں بھُلا دیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
بدرالدین ہلالی جغتائی کے چند متفرق اشعار:

جز عکسِ خود که بینی ز آیینه گاه گاهی
مثلِ تو دیگری کو تا در برابر آید؟

سوائے تمہارے عکس کے، کہ جسے تم وقتاً فوقتاً آئینے میں دیکھتے ہو، تمہارے جیسا کوئی اور کہاں ہے جو تمہاری برابری کر سکے؟

بر گردِ شمعِ رویت پروانه شد هلالی
یک بار گر برانی، صد بارِ دیگر آید

تمہارے چہرے کی شمع کے گرد 'ہلالی' پروانہ بن گیا ہے۔۔۔ اس لیے اگر تم اُسے ایک بار دور ہٹاؤ گے تو وہ (پروانوں کی عادت کے بموجب) سو بار دوبارہ تمہارے پاس آئے گا۔

خواهم نزنی تیر و به تیغم بنوازی
تا در دمِ کشتن به تو نزدیک‌تر افتم

میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ پر تیر زنی مت کرو بلکہ تلوار کی ذریعے مجھ پر مہربانی کرو، تاکہ مارے جانے کے وقت میں تمہارے زیادہ قریب ہو جاؤں۔

دل خانهٔ خداست، چه سازم که کافری
آن خانه را گرفته و بت خانه ساخته

دل خدا کا گھر ہے، لیکن کیا چارہ کروں کہ ایک کافر (محبوب) نے اُس گھر پر قبضہ کر کے بت خانہ بنا دیا ہے۔

از رشک سوختم، به رقیبان سخن مکن
ور می‌کنی، برای خدا، پیشِ من مکن

میں رشک کے مارے جل بھن گیا ہوں؛ (اس لیے) رقیبوں سے گفتگو مت کرو۔۔۔ اور اگر کرو تو خدا کے لیے میرے سامنے مت کرو۔۔۔

هر طبیبی که خبر داشت ز بیماریِ عشق
غیرِ وصلِ تو نفرمود دوای دلِ من

جس طبیب کو بھی عشق کی بیماری کے متعلق پوری خبر تھی اُس نے تمہارے وصل کے سوا میرے دل کے لیے کوئی دوسری دوا تجویز نہیں کی۔

ز بس که بر در و بام آفتابِ طلعتِ توست
به خانهٔ تو گشادن نمی‌توان روزه

تمہارے در و بام پر تمہارے چہرے کا آفتاب اتنا زیادہ (فروزاں) رہتا ہے کہ تمہارے گھر میں روزہ افطار کرنا ممکن نہیں ہے۔ (کیونکہ افطار کے لیے غروبِ آفتاب شرط ہے۔)

طرفه باغیست گلستانِ جهان، لیک چه سود
که گلِ عشرت از این باغ نچیده‌ست کسی

گلستانِ جہاں کیا ہی عجب باغ ہے، لیکن کیا فائدہ کہ کسی نے (اب تک) اس باغ سے عشرت کا پھول نہیں چنا ہے۔

به غیرِ جان دگری نیست با تو در دلِ تنگم
امید هست که آن هم نمانَد و تو بمانی

میرے تنگ دل میں تمہارے ہمراہ جان کے سوا کوئی دیگر چیز نہیں ہے۔۔۔ امید ہے کہ وہ بھی (دل میں) نہیں رہے گی اور صرف تم تنہا رہ جاؤ گے۔

ز واقعاتِ رهِ عشق جمله باخبرم
در این طریق ز من پرس، هر چه می‌پرسی

میں راہِ عشق میں پیش آنے والے واقعات سے تماماً باخبر ہوں۔۔۔ اس راہ کے بارے میں تم جو کچھ بھی پوچھ رہے ہو وہ مجھ سے پوچھو۔

(رباعی)
آیینهٔ نورست رخِ یار امشب
ای مه، بنشین در پسِ دیوار امشب
ای مهر، بپوش روی خود را در ابر
ای صبح، دمِ خویش نگه دار امشب

آج رات یار کا چہرہ آئینۂ نور بنا ہوا ہے۔۔۔ اس لیے اے چاند، تم شرما کر آج رات دیوار کے پیچھے چھپ کر بیٹھ جاؤ؛ اے آفتاب، تم خجالت کے مارے اپنا چہرہ بادلوں میں چھپا لو؛ اور اے صبح، تم مارے تعجب کے آج رات اپنی سانسیں متوقف کر لو۔

(رباعی)
در عشقِ نکویان چه فراق و چه وصال؟
بدحالیِ عاشقان بوَد در همه حال
گر وصل بوَد مدام سوزست و گداز

ور هجر بوَد تمام رنجست و ملال

نیک صورت لوگوں کے عشق میں کیا فراق اور کیا وصال؟ عاشق کی بدحالی تو ہر حال میں برقرار رہتی ہے۔۔۔ اگر وصل ہو تو وہ مسلسل سوز و گداز میں گذرتا ہے اور اگر ہجر ہو تو وہ تمام کا تمام رنج و ملال سے عبارت ہے۔

(رباعی)
نی از تو حیاتِ جاودان می‌خواهم
نی عیش و تنعمِ جهان می‌خواهم
نی کامِ دل و راحتِ جان می‌خواهم
آنی، که رضای تست، آن می‌خواهم

نہ تو میں تم سے جاودانی حیات چاہتا ہوں، نہ دنیاوی عیش اور نعمتوں کی مجھے خواہش ہے، اور نہ اپنے دلی مقصد کا حصول اور راحتِ جاں چاہتا ہوں۔۔۔ بلکہ میں تو وہ شے چاہتا ہوں جس میں تمہاری رضا ہے۔
یہ رباعی خواجہ عبداللہ انصاری ہروی سے بھی منسوب ہے۔

(هلالی جغتایی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
معاصر غزل سرا شاعر ہوشنگ ابتہاج 'سایہ' کی ایک غزل کے چار اشعار:

نشود فاشِ کسی آنچه میانِ من و توست
تا اشاراتِ نظر نامه رسانِ من و توست

جب تک میرے اور تمہارے مابین ہماری نظر کے اشارے نامہ بری کا کام کر رہے ہیں اُس وقت تک میرے اور تمہارے درمیان جو کچھ ہے وہ کسی پر فاش نہیں ہو گا۔
گوش کن با لبِ خاموش سخن می‌گویم
پاسخم گو به نگاهی که زبانِ من و توست

(توجہ سے) سنو، کہ میں اپنے خاموش لبوں سے تکلم کر رہا ہوں۔۔۔ اور تم صرف ایک نگاہ کے ذریعے مجھے جواب دو کہ یہی ہماری زبان ہے۔
روزگاری شد و کس مردِ رهِ عشق ندید
حالیا چشمِ جهانی نگرانِ من و توست

مدت ہو گئی اور کسی نے راہِ عشق پر چلنے والا انسان نہیں دیکھا۔۔۔ اب ہر شخص کی آنکھ میری اور تمہاری جانب دیکھ رہی ہے (کہ شاید ہم عشق کی مشکل راہ پر چلنا قبول کر لیں۔)
گرچه در خلوتِ رازِ دلِ ما کس نرسید
همه جا زمزمهٔ عشقِ نهانِ من و توست

اگرچہ ہمارے قلبی رازوں کی خلوت تک کوئی شخص نہ پہنچ سکا، اس کے باوجود میرے اور تمہارے پوشیدہ عشق کے زیرِ لب نغمے ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔
(هوشنگ ابتهاج 'سایه')

یہ چار اشعار گلوکارہ سارا نائینی کی آواز میں سنیے:
http://playit.pk/watch?v=MwZ4-cbTgSY
 
آخری تدوین:

طارق حیات

محفلین
پیش چشمے کہ نورِ عرفان نیست
گر بود آسمان نمایان نیست

عمرہا شد دمیدہ است آفاق
بی لباسی ہنوز عریان نیست

باید از نقد اعتبار گذشت
جنسِ بازار عبرت ارزان نیست

بر فلک ہم خمیست دوشِ ہلال
ناتوانی کشیدن آسان نیست

بیدلؔ امروز در مسلمانان
ہمہ چیز است لیکن ایمان نیست

(ترجمہ)

جسکی آنکھوں میں نورِ عرفاں نہیں
آسماں ہوکے بھی نمایاں نہیں

اِک زمانے سے ہے گگن پھیلا
بے لباسی ہنوز عریاں نہیں

چاہئے نقدِ اعتبار ہو پاس
جنسِ بازارِ عبرت ارزاں نہیں

آسماں پر بھی خم ہے دوشِ ہلال
ناتوانی کا جانا آساں نہیں

آج بیدلؔ یہاں مسلماں میں
سب ہے لیکن بس ایک ایماں نہیں

( ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل )
 

طارق حیات

محفلین
مکتوبات نیازحصہ دوم کے مطابق اقبال نے بیدلؔ کو اپنی طرز کا موجد اور خاتم کہا ہے۔علامہ نے پروفیسر سلیم چشتی سے ایک ملاقات کے دوران فرمایا کہ’’دنیا میں چار آدمی ایسے ہیں کہ، جو شخص ان میں سے کسی کے طلسم میں گرفتار ہوجاتا ہے، مشکل ہی سے رہائی پاتا ہے اور وہ ہیں،ابن عربی، شنکر آچاریہ، بیدلؔ اور ہیگل۔‘‘
 

طارق حیات

محفلین
آن کس کہ شناخت خویشتن را - دانی کہ یافت ذوالمنن را
دریاب خیال آشکارا - آرائی برار آن رسن را
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شخص جس نے خود کو پہچان لیا، سمجھ لو کہ خدا بھی اُسے ملے گا۔
اے آشکار، تم اس خیال کو سمجھو اور اس ناطے کو بنا سنوار کے رکھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت صوفی سچل فقیر سرمست ’’آشکار‘‘
دیوان آشکار (فارسی)
 

طارق حیات

محفلین
مگو مرد صد کشتم اندر نبرد- یکے زندہ کن تات خوانند مرد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ میں جو سو آدمیوں کی جان لے لے، اُسے مرد نہ کہو
ایک کو زندگی دے کر دکھاؤ، تب تمہیں مرد جانیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر خسرو
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
صحبتِ میخوارگان از خاطرِ ما محو کرد
آں کدورت ہا کہ از زہدِ ریائی یافتیم


عبید زاکانی

مے خوروں کی صحبت نے ہمارے دل سے محو کر دیں وہ ساری کدروتیں کہ جو ہمیں ریاکاری کی پارسائی سے ملی تھیں۔
 

طارق حیات

محفلین
عاقل چہ پے برد کہ فنا مابہ بقاست
و اندر زیاں عقل نہاوند سود او
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقلمند اس حقیقت کو کیا سمجھ سکتا ہے کہ فنا ہی تو بقا کا سرمایہ ہے۔
اور (سچ تو یہ ہے) عقل کے زیان میں تو اس کا نفع رکھا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ
 

حسان خان

لائبریرین
ندانم ابروی شوخت چگونه محرابیست
که گر ببیند زندیق در نماز آید
(سعدی شیرازی)

میں نہیں جانتا کہ تمہاری شوخ ابرو کس قسم کی محراب ہے کہ اگر کافر بھی (اُسے) دیکھ لے تو (اُس محرابِ ابرو کی تعظیم میں) نماز پڑھنے لگے۔

عاقبت گرگ زاده گرگ شود
گرچه با آدمی بزرگ شود
(سعدی شیرازی)

بھیڑیے کا بچہ آخر کار بھیڑیا ہی بنتا ہے۔۔۔ بھلے ہی وہ آدمیوں کے درمیان بڑا ہوا ہو۔۔۔

مگو اندهِ خویش با دشمنان
که لاحول گویند شادی‌کنان
(سعدی شیرازی)

اپنا غم دشمنوں سے بیان نہ کرو کیونکہ وہ خوش ہوتے ہوئے لاحول پڑھیں گے۔
(یعنی بظاہر غم کا اظہار کر رہے ہوں گے لیکن دل میں خوش ہوں گے۔)

آتش به پرنیان نکند، باد با چراغ
آنها که غصه با جگرِ آدمی کند
(طالب آملی)

ریشمی کپڑے کا آگ اور چراغ (کی لَو) کا تیز ہوا بھی وہ (بُرا) حال نہیں کرتی جو (بُرا) حال آدمی کے جگر کا غم کے ہاتھوں ہوتا ہے۔

علاجِ زخمِ دل از گریه کَی ممکن بُوَد بیدل
به شبنم بخیه نتوان کرد چاکِ دامنِ گل را

(بیدل دهلوی)
اے بیدل! دل کے زخم کا علاج گریے سے کب ممکن ہے؟ دامنِ گل کا چاک شبنم سے رفو نہیں کیا جا سکتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغانستان کے شاعر مرحوم استاد خلیل اللہ خلیلی کی چند رباعیات:

می ریز! که ماه زد به گردون خرگاه
گردید قدح چو مهر از پرتوِ ماه
فرق است میانِ مهِ عشق و مهِ علم
او نورِ ازل بیند و این جِرمِ سیاه

شراب انڈیلو! کہ آسمان پر چاند خیمہ زن ہو گیا ہے اور اُس کی روشنی سے پیالہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے؛ عشق کے چاند اور علم کے چاند کے درمیان فرق ہے: عشق چاند میں نورِ ازل دیکھتا ہے جبکہ علم کو بس تاریک سیارہ نظر آتا ہے۔

از درد و الم سرشته تقدیرم حیف
از ساغرِ زندگی چه حظ گیرم حیف
چون شمع که در معرضِ باد افروزند
می‌لرزم و می‌سوزم و می‌میرم حیف

افسوس کہ میری تقدیر درد و الم سے گوندھی گئی ہے؛ ہائے میں زندگی کے ساغر سے کیا لطف اٹھاؤں؛ اُس شمع کی طرح کہ جسے ہوا کے سامنے روشن کیا جاتا ہے، میں لرزتا ہوں، جلتا ہوں اور مر جاتا ہوں۔ افسوس!

دل در همه حال تکیه گاهست مرا
در ملکِ وجود پادشاهست مرا
از فتنهٔ عقل چون به جان می‌آیم
ممنونِ دلم خدا گواهست مرا

ہر حال میں دل میری پناہ گاہ ہے؛ اِس ملکِ وجود میں وہ میرا بادشاہ ہے؛ جب بھی میں عقل کے فتنے سے عاجز آ جاتا ہوں تو خدا میرا گواہ ہے کہ میں (اُس وقت) اپنے دل کا ممنون ہوتا ہوں۔

(پروانے کا کوہ سے خطاب)
ای کوهِ سرافرازِ فلک سایِ بلند!
تا چند به نخوت و بلندی خورسند
من طایرِ کوچکم ولی آزادم
من بر سرِ گل رقصم و تو پای به بند

اے فلک کو چھونے والے سرافراز و بلند پہاڑ! تم کب تک اپنے تکبر اور اپنی بلندی پر خوش رہو گے؟ میں چھوٹا سا پرندہ ہوں لیکن آزاد ہوں؛ میں پھول کے آس پاس رقص کرتا ہوں جبکہ تمہارے پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔

تا چند پی سنان و شمشیر شوی؟
تا چند پی خدعه و تزویر شوی؟
آن پیشهٔ گرگ باشد، این از روباه
آدم چو شوی ز هر دو دلگیر شوی

کب تک نیزے اور تلوار کے پیچھے لگے رہو گے؟ کب تک مکر و فریب کی تلاش میں رہو گے؟ وہ بھیڑیے کا کام ہے جب کہ یہ لومڑی کا۔۔۔ جب تم انسان بن جاؤ گے تو ان دونوں کاموں سے بیزار ہو جاؤ گے۔

می ریز که کس ز باده دلگیر نشد
یاری‌ست کهن که دل از او سیر نشد
ما پیر شدیم و شد جوانی برباد
واین دخترِ عشوه بازِ رز پیر نشد

شراب انڈیلو کہ اِس سے کبھی کوئی بیزار نہیں ہوا۔۔۔ یہ ایسا پرانا یار ہے کہ جس سے دل سیر نہیں ہوا۔۔۔ ہم بوڑھے ہو گئے اور جوانی برباد ہو گئی لیکن یہ عشوہ باز دخترِ رز بوڑھی نہیں ہوئی۔

قانون که هزار سود در بر دارد
آسایشِ خلق را میسر دارد
در مسلکِ عشق شو! که آنجا بینی
قانون شکنی لذتِ دیگر دارد

قانون ہزاروں فائدوں کا حامل ہے اور اسی سے لوگوں کو آسائش میسر رہتی ہے؛ (لیکن) تم عشق کے مسلک پر چلنے لگو تاکہ تمہیں نظر آئے کہ قانون شکنی الگ ہی مزہ رکھتی ہے۔

بی‌روی نگار زندگانی عبث است
بی‌بادهٔ گلفام جوانی عبث است
در مکتبِ زندگی بجز قصهٔ عشق
هر حرف که خوانی و نخوانی عبث است

زیبا محبوب کے چہرے کے بغیر زندگانی بیکار ہے؛ بادۂ گلفام کے بغیر جوانی بیکار ہے؛ زندگی کے مکتب میں تم قصۂ عشق کے بجز جو حرف بھی پڑھو یا نہ پڑھو، سب بیکار ہے۔

چون پیر شدی باده دوچندان می‌نوش
پیمانهٔ می به دستِ لرزان می‌نوش
بازیگرِ چرخ با تو بازی‌ها کرد
بر بازیِ او بخند و خندان می‌نوش

جب بوڑھے ہو گئے ہو تو دوگنی مے پیتے رہو۔۔۔ لرزتے ہاتھوں سے مے کا پیمانہ پیتے رہو۔۔۔ بازی گرِ چرخ نے تمہارے ساتھ بہت کھیل کھیلا، اب اُس کے کھیل کا تمسخر اڑاؤ اور ہنستے ہوئے پیتے رہو۔۔۔

پیری! تو اگر زار و تباهم کردی
محکومِ جفای سال و ماهم کردی
اینها همه سهل است ولی حیف که تو
محروم ز لذتِ گناهم کردی

اے بڑھاپے! اگر تم نے مجھے زار و تباہ کر دیا اور مجھے سال و ماہ کی جفاؤں کا محکوم کر دیا تو یہ سب کچھ آسان ہے لیکن افسوس کہ تم نے مجھے لذتِ گناہ سے محروم کر دیا۔

(خلیل اللہ خلیلی)
 

طارق حیات

محفلین
از دیوان آشکار:

ہمیں گویند کہ بدراہ باشد، نہ بد راہ است لیکن شاہ باشد
شکایت کئی کنی ای پارسا، بیں آں عاشق رسول اللہ باشد
اگر پُر عیب ہم بدراہ باشم، یقین دانی کہ او ہمراہ باشد
نمی دارم بجز عشقش بدل و ہیچ، ایں عالم خدا آگاہ باشد
بآں عالی جنابش آشکارا، یکہ از سگ ہماں درگاہ باشد

معنیٰ: میرے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ بد راہ ہے۔ لیکن میں بدراہ نہیں ہوں (بلکہ) شاہ ہوں۔ اے زاہد، تم میرے لیے کیوں شکایت کرتے ہو، میں تو عاشق رسول اللہؐ ہوں۔ اگر میں پُر عیب اور بدکار ہوں مگر یقین کرنا کہ حضرت رسولﷺ میرے مددگار ہیں۔ میرے دل میں آپؐ کے عشق کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اس بات کا گواہ خداہے۔ ’’آشکار‘‘رسالتمآبﷺ کے دروازے کا ایک کُتّا ہے۔

سچل سرمستٌ
 

طارق حیات

محفلین
از مثنویٰ وصلت نامہ

من رانی گفت آخر مصطفیٰ، چند باشی در حجاب اے بیوفا

معنیٰ: حضور اکرمؐ نے من رانی فرمایا ہے، پھر اس بے وفا تم کب تک حجاب میں رہے گا۔

از رموز سر حق آگہ نئی، لا جرم کوری و مرد رَہ نئی

معنیٰ: تم اسرار الہیٰ سے واقف نہیں ہو۔ اور اس لیے اندھا اس راستے سے ناآشنا ہے۔

مصطفیٰ آمد دریں رہ بانشان، ہر زبان از راہ دادہ صد نشان

معنیٰ: مصطفیٰ ﷺاس راہ سے بالکل باخبر ہیں۔ اور ہر وقت اس کی تمام خبریں دیتے رہتے ہیں۔

مصطفیٰ آ مد دریں رہ نور پاک، جملہ ظلمات را کردہ ہلاک

معنیٰ: مصطفیٰ ﷺاس راہ میں پاکیزہ نور ہیں۔ جس نے تمام تاریکیوں کو ختم کردیا۔

مصطفیٰ آمد دریں رہ پیر راہ، دامن اور گیرتا گردی تو شاہ

مصطفیٰ ﷺاس راہ میں حقیقی مرشد ہیں۔ تو ان کا دامن تھام لے گا تو بادشاہ ہوجائے گا۔

مصطفیٰ آمد دریں راہ رازداں، دیدہِ خود رابہ معنیٰ باز داں

محمد مصطفیٰ ﷺاس راہ کے اسرار رموز سے آگاہ ہیں۔ تو بصیرت کی آنکھیں کھول کر اس حقیقت کو سمجھ لے۔

مصطفیٰ آمد دریں راہ ذات حق، از دو عالم بردہ ور معنیٰ سبق

محمد مصطفیٰﷺ اس راہ میں راز الہیٰ ہیں ، اور در حقیقت دونوں جہانوں سے آگے ہیں۔

مصطفیٰ راہ حق بدان و حق ببیں، تاشوی تو شیر راہ مرد دین

معنیٰ: محمد مصطفیٰﷺ کو دیکھ اور حق جان، تاکہ تو حق کی راہ میں شیر مرد بن جائے۔

مصطفیٰ راہ حق ببیں بداں، تاشوی در ہر دو عالم بانشان

معنیٰ: محمد مصطفیٰﷺ کو دیکھ اور حق جان تاکہ تو دنیا و عقبیٰ میں سرخرو و سرفراز ہو۔

مصطفیٰ حق بود و حق بود مصطفیٰ، بشنو ایں معنیٰ تو پاک باز اے باصفا

معنیٰ: محمد مصطفیٰﷺ حق ہے اور حق مصطفیٰﷺ ہے۔ اے پاک باطن اس حقیقت کو اچھی طرح سے سُن اور سمجھ۔ یعنیٰ اللہ اور محمد ایک ہے۔

مصطفیٰ راہ نورحق میدان یقین، تارسی در قرب ربّ العالمین

محمدمصطفیٰﷺ کو اللہ کا نور سمجھ اور اس پر یقین کر تاکہ تو پروردگار عالم کا قرب حاصل کرسکے۔

سرخود باانبیا گفتہ تمام، بر محمدختم کردہ والسلام

معنیٰ: اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو اپنا راز بتایا ہے۔ اور حضور پر نور کی ذات بابرکات پر تمام اسرار منکشف کرکے اس معاملہ کو ختم کردیا۔

سچل سرمستٌ
 

محمد وارث

لائبریرین
فرض و سُنّت بتماشائے تو از یادم رفت
پردہ بر رُوئے فگن یا ز من ایماں مَطَلب


نظیری نیشاپوری

تیرے دیدار کی وجہ سے میں فرض و سنت سب بھول گیا، یا تو اپنے چہرے پر پردہ ڈال دے یا پھر مجھ سے ایمان طلب نہ کر۔
 

حسان خان

لائبریرین
شنیده‌ام سخنی خوش، که پیرِ کنعان گفت
فراقِ یار نه آن می‌کند که بتوان گفت
(حافظ شیرازی)

میں نے پیرِ کنعاں (حضرت یعقوب ع) سے ایک خوب و دل پذیر بات سنی ہے کہ اُنہوں نے کہا: "فراقِ یار وہ کام نہیں کرتا کہ بیان ہو سکے۔" یعنی دوسرے لفظوں میں، یار کا فراق وہ حال کرتا ہے جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔

مزن ز چون و چرا دم که بندهٔ مُقبِل
قبول کرد به جان هر سخن که جانان گفت
(حافظ شیرازی)

معشوق کی خواہش کے مقابل بحث و مباحثہ اور چون و چرا مت کرو، کیونکہ خوش قسمت بندہ وہ ہے جس نے یار کی کہی ہر بات کو دل و جان سے قبول کر لیا۔

بنمای رخ که باغ و گلستانم آرزوست
بگشای لب که قندِ فراوانم آرزوست
(مولانا جلال الدین رومی)

اپنا چہرہ دکھاؤ کہ مجھے باغ و گلستان کی آرزو ہے؛ اپنے لب کھولو کہ مجھے بہت ساری مٹھاس کی آرزو ہے۔

ما قصهٔ سکندر و دارا نخوانده‌ایم
از ما بجز حکایتِ مهر و وفا مپرس
(حافظ شیرازی سے منسوب)

ہم نے (یونان کے بادشاہ) سکندر اور (ایران کے بادشاہ) دارا کا قصہ نہیں پڑھا ہے۔ ہم سے سوائے عشق و وفا کی حکایت کے کچھ اور مت پوچھو۔
 
Top