السلام علیکم،

اپنے خیالات و جذبات پیش کر رہا ہوں اگرچہ کوئی دس بارہ سال پہلے کی نظم ہے پر اب تک پختگی نہیں آ سکی تحریر میں دعاکرتا ہوں کہ آپ سب دوستوں کو پسند آئے، نیز اصلاح بھی ممکن ہو۔

اب کوئی خواب نہیں دیکھوں گا

اپنی شکست کے اسباب نہیں دیکھوں گا
اب کوئی خواب نہیں دیکھوں گا

خواب تو سارے فریب ہیں بھول ہیں
دلِ ویراں میں اُڑتی دھول ہیں

خواب تو شکستگئِ دل کے آثار ہیں
ادھوری خواہشوں کے بازار ہیں

خواب تو بس چند لمحے جھوٹ کے
اور پھر آنکھ کُھل جاتی ہے

نہ جانے بنی بنائی منزل کیوں
پَل بھر میں گُھل جاتی ہے

ایسا میں عذاب نہیں دیکھوں گا
اب کوئی خواب نہیں دیکھوں گا

امجد میانداد​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خیالات تو خوب ہیں۔ اب اگر اس عرصے میں عروض کی شد بد آ گئی ہو تو ذرا دیکھ لو خود ہی۔ بعد میں میں دیکھتا ہوں۔
 
Top