ڈارون ازم کی تردید از فتح اللہ گولن

سید ذیشان

محفلین
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ جنہوں نے یہاں پر کمنٹ کیا ہے اور جنہوں نے آرٹیکل پوسٹ کیا ہے ان میں سے کتنے لوگوں نے ارتقا کی تھیوری سائنس کی کتاب سے پڑھ رکھی ہے؟ یا اس تھیوری کے ثبوتوں کے بارے میں جانتے ہیں؟ اور جنہوں نے پڑھا ہے تو ان کو اس پر کیا اعترازات ہیں؟

آرٹیکل تو انٹرنیٹ پر بہت موجود ہیں، جن کو میں گوگل پر سرچ کر سکتا ہوں۔ تو مہربانی کر کے آرٹیکل پوسٹ نہ کریں۔ اپنے خیالات بیان کریں۔
 
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ جنہوں نے یہاں پر کمنٹ کیا ہے اور جنہوں نے آرٹیکل پوسٹ کیا ہے ان میں سے کتنے لوگوں نے ارتقا کی تھیوری سائنس کی کتاب سے پڑھ رکھی ہے؟ یا اس تھیوری کے ثبوتوں کے بارے میں جانتے ہیں؟ اور جنہوں نے پڑھا ہے تو ان کو اس پر کیا اعترازات ہیں؟

آرٹیکل تو انٹرنیٹ پر بہت موجود ہیں، جن کو میں گوگل پر سرچ کر سکتا ہوں۔ تو مہربانی کر کے آرٹیکل پوسٹ نہ کریں۔ اپنے خیالات بیان کریں۔
آپ اپنے خیالات بیان کریں اعتراض آپ نے اٹھایا ہے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
معلوماتی تحریر ہے لیکن مسئلہ پھر وہیں آ جاتا ہے کہ جاندار کے جسم میں خلیئے کی اتنی اہمیت ہے تو ہمیں اس پر ایک لفظ بھی قرآن پاک میں کیوں نہیں ملتا؟ اسی طرح کروموسومز، ڈی این اے وغیرہ کے بارے بھی قرآن پاک خاموش ہے۔ کیا یہاں آن کر قرآن پاک نعوذ باللہ انجان ہو جاتا ہے؟ یا ہم سائنس اور قرآن پاک کو غلط انداز میں ملانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
 
معلوماتی تحریر ہے لیکن مسئلہ پھر وہیں آ جاتا ہے کہ جاندار کے جسم میں خلیئے کی اتنی اہمیت ہے تو ہمیں اس پر ایک لفظ بھی قرآن پاک میں کیوں نہیں ملتا؟ اسی طرح کروموسومز، ڈی این اے وغیرہ کے بارے بھی قرآن پاک خاموش ہے۔ کیا یہاں آن کر قرآن پاک نعوذ باللہ انجان ہو جاتا ہے؟ یا ہم سائنس اور قرآن پاک کو غلط انداز میں ملانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب ذرا فرصت کا متقاضی ہے کبھی فرصت میں اس موضوع پر بات کروں گا یہاں پشاور میں سائٹ پر کیا کر سکتا ہوں
 

سید ذیشان

محفلین
آپ سب نے اصرار کیا ہے تو میں پہلے پوسٹ پر اپنے خیالات بیان کر رہا ہوں۔ باقی پوسٹ بہت لمبے ہیں اس لئے ان پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ڈارون ازم کے غلط ثابت ہو چکنے کے باوجود اسے زندہ رکھنے کی کوششوں کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟

سب سے پہلی بات تو یہ صاحبِ تحریر فتح اللہ گولن سائنسدان نہیں ہیں، تو اگر وہ کسی بات میں کسی سائنسدان کا ریفرنس دیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ تو ان کی بات کو ان کا خیال سمجھا جائے گا جس کی سائنس میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

دوسری بات: "ڈارون ازم" نام کا کوئی سائنسی نظریہ نہیں ہے۔ "سوشل ڈارون ازم" ایک ترکیب ضرور ہے لیکن اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے تو میں اس پر بات نہیں کروں گا۔

ڈارون نے جو نظریہ پیش کیا وہ نظریہ ارتقا یا Theory of evolution کہلاتا ہے۔
اس کے سب سے اہم مفروضے یہ ہیں:
- تمام جانداروں کا مورث اعلیٰ(ancestor) مشترک ہے۔
- ایک ہی قسم کے جانداروں میں بھی مختلف individuals میں فرق ہوتا ہے، کوئی لمبا ہوتا ہے، کوئی زیادہ طاقتور ہوتا ہے وغیرہ۔ وہی جاندار زندہ رہتے ہیں جو ماحول سے زیادہ مطابقت رکھتے ہوں۔

ڈارون نے سمندری جہاز پر انیسویں صدی کے وسط میں جنوبی امریکہ کا سفر کیا اور وہاں پر بہت جانداروں کا تجزیہ کیا۔ اس میں Galapagos Islands جو کہ چند ایک جزیروں پر مشتمل سمندر میں واقعہ جزیروں کا ایک گروہ ہے۔ ان پر ڈارون کو پرندوں اور کچھوں کی ایسی اصناف ملیں جو ان سے بہت ملتی کلتی تھی جو اس نے جنوبی امریکہ کے جنگلوں میں دیکھی تھیں۔ لیکن وہ کچھ چیزوں میں کافی مختلف تھیں۔ یہ جزیرے خشکی سے اتنے دور ہیں کہ cormorant (پرندے کی قسم) پرندے اڑ کر وہاں پر نہیں جا سکتے۔ تو ایسے cormorant پرندے جو ان جزیروں پر کسی طرح سے (طوفانوں کے زریعے اڑ کر، یا لہروں پر) ان جزیروں پر پہنچ گئے، تو اب ان کے واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ڈارون نے دیکھا کہ حیرت انگیز طور پر جزیروں پر رہنے والے cormorant پرندے اڑنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان جزیروں پر پرندوں کو کھانے والے جاندار (بلیاں وغیرہ) نا پید تھیں تو ان کو اڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پرندے اڑنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہو گئے اور یہ ایک الگ Specy بن گئے۔
اس کے علاوہ یہاں پر کئی جزیرے تھے اور ہر جزیرے پر پودوں کی تعداد اور ان کی لمبائی مختلف تھی۔ تو ایسے خزیرے جہاں پر گھاس وافر مقدار میں میسر تھی وہاں کے کچھوں کی گردنیں چھوٹی تھیں، اور ایسے جزیرے جہاں گھاس ناپید تھیں اور پودے لمبے تھے وہاں کے کچھوں کی گردنیں لمبی تھیں۔
images
galapagos-tortoise_532_600x450.jpg



ڈارون ازم واحد نظریہ ہے،جسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اور اب اس پر جان کنی کی کیفیت طاری ہونے کے بعد اسے زندہ رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
یہ تو میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ڈارون ازم کسی سائنسی نظریے کا نام نہیں ہے۔ ڈارون اور والیس نے جو نظریہ پیش کیا اس کو نظریہ ارتقا کہتے ہیں۔ اور یہ نظریہ کبھی بھی مرا نہیں۔ سائنسدانوں میں یہ پہلے دن سے ہی مقبول تھا۔

ایک طرف بعض سائنس دان ڈارون کے نظریے کے دفاع کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو دوسری طرف بعض سائنس دان اس پر تنقید کے تباہ کن تیر پھینک کر اسے پرزہ پرزہ کر رہے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنا دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
ایسا کوئی سائنسدان نہیں جس نے کسی peer reviewed جریدے میں ایسا کوئی مضمون چھاپا ہو جو اس نظرئے کو پرزہ پرزہ کرے۔ یہ صاحب تحریر کی خام خیالی ہے۔

یہ بین الاقوامی علمی محافل کا موجودہ منظرنامہ ہے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ ایک مخصوص عرصے تک یہ نظریہ علمی دنیا میں اپنے وجود کو برقرار رکھے گا۔ ماضی میں اس موضوع پر مشرق و مغرب میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں،اب بھی لکھی جا رہی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی۔ہمیں آغاز میں ہی اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ آج مشرق و مغرب کی تہذیب مادہ پرستانہ فلسفے پر قائم ہے۔ امریکہ کی مادہ پرستی روس کی مادہ پرستی سے کچھ کم نہیں ہے۔آج کی مغربی تہذیب پر امریکی تہذیب کے گہرے اثرات ہیں۔جب ہم مشرق کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہمارا اشارہ جغرافیائی پہلو کی طرف ہوتا ہے۔فکری پہلو مراد نہیں ہوتا۔اس سے پہلے سوال کے جواب میں ہم یہ بات کہہ چکے ہیں کہ آج مشرق و مغرب کے درمیان جغرافیائی حدود مٹ چکی ہیں،اسی لیے ہم روس کو بھی مغرب ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
پہلے تو صاحب فرماتے ہیں کہ اکثر سائنسدان اس نظرئے کو تسلیم نہیں کرتے اور اب کہہ رہے ہیں کہ اپیکہ و روس مادہ پرست ہیں یعنی ان کی اکثریت اس نظرئے کو تسلیم کرتی ہے۔

دین اور سائنس کے بارے میں فریقین کا نظریہ تقریباً ایک جیسا ہے۔دین کے بارے میں مغرب کا نظریہ روسو اور رینان کا پیش کردہ نظریہ ہے،جس کے مطابق دین معاشرتی زندگی کی ایک چھوٹی مگر ناگزیر اکائی ہے،دوسرے لفظوں میں ان کے ہاں دین کو کبھی بھی مقصد اور ہدف کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی،بلکہ وہ اسے سعادت کے حصول کے متعدد ذرائع میں سے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے اسے اختیار کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔آج روس بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔(۱) اگرچہ اس نظریے کو روسی نظام کی ناکامی کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ہماری رائے میں یہ دین کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔
علم اور اس کی تمام فروع کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر ایک جیسا ہے۔ آج پوری دنیا کی یہی صورتحال ہے،لیکن اس کے باوجود یورپ اور امریکا میں مادہ پرستانہ نقطہ نظر کے حامل بہت سے سائنس دانوں نے ڈارون ازم پر شدید تنقید کی ہے اور اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جسے ہدفِ تنقید نہ بنایا ہو،تاہم روس میں ڈارون ازم پر تنقید کرنا بہت خطرناک اقدام سمجھا جاتا ہے اور اس قسم کی تنقید صرف خفیہ طور پر کی جاتی ہے۔
روس اور اس سے وابستہ ممالک اس نظریے پر اصرار اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔چونکہ ان ممالک کی فاسد نظریاتی بنیادیں تاریخی مادہ پرستی (Historical Materialism) پر استوار ہیں،اس لیے ان کے لیے نظریہ ارتقا کا درست ثابت رہنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جونہی مادہ پرستانہ فلسفہ اورتاریخی مادہ پرستی کی عمارت زمین بوس ہوگی فوراً ماورائے طبیعت مظاہر سامنے آ جائیں گے اور انسان معاشی اور مادی اقدار کی بہ نسبت روحانی اور معنوی اقدار کو زیادہ اہمیت دینے لگے گا،جس کا نتیجہ اس پر قائم فکری نظام کے ناکام ثابت ہونے کی صورت میں نکلے گا۔یہی وجہ ہے کہ وہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ڈارون ازم کو منظرعام پر لاتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک جاری رہے گا۔

نظریہ ارتقا ایک سائنسی نظریہ ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ترکی میں اس نظریے کا دفاع اور اسے عام کرنے والے جامعات کے بعض اساتذہ اور سررشتہ تعلیم کے بعض ارکان ہیں،جو‘‘علم حیاتیات’’کی تعلیم دیتے ہوئے اس نظریے کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کر کے خام ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔
پاکستان میں یہ نظریہ زیادہ زور و شور سے نہیں پڑھایا جاتا تو اکثر پڑھے لکھے لوگ اس کو نہیں مانتے۔

میں یہاں اس موضوع کا تفصیل کے ساتھ علمی جائزہ نہیں لوں گا۔میں اپنے ایک لیکچر میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں نیز بعض دوستوں نے عقیدے کی رو سے بھی اس کا جائزہ لیا ہے اور ان کی یہ کاوش مختلف کتابوں کی صورت میں منظرعام پر آچکی ہے،لہٰذا میں اس موضوع کی تفصیلات کے لیے ان کتابوں کی طرف مراجعت کا مشورہ دے کر یہاں صرف اسی پہلو کے ذکر پر اکتفا کروں گا جو سوال و جواب کی نشست کے لئے موزوں ہے۔

جی ٹھیک ہے۔

اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پانی میں موجود امینوں ترشے یک خلوی حیوانات مثلاً امیبا میں تبدیل ہوئے اور پھر ارتقا کے نتیجے میں مختلف شکلوں کے حیوانات وجود میں آئے پھر یہ حیوانات مزید ارتقائی مراحل سے گزر کر نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ جانوروں مثلاً بندروں یا جیسے کہ بعض کا خیال ہے کتوں کی صورت اختیار کر گئے اور پھر ارتقائی مراحل کی آخری کڑی کے طور انسان وجود میں آیا۔یہ لوگ بعض مقامات سے دریافت ہونے والے بعض ڈھانچوں کو اس مفروضے کی صحت کی دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
یہ نظریہ ارتقا کی بری ترین وضاحت ہو گی جو میں نے اب تک پڑھی ہے۔ سب سے پہلے پانی اور امینو اسیڈ والی بات جس کو abiogenesis کہتے ہیں نظریہ ارتقا کا حصہ ہی نہیں ہے۔ نظریہ ارتقا صرف یہ کہتا ہے کہ تمام جانداروں کا موروث اعلیٰ ایک ہے۔ اس میں زندگی کی شروعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ زندگی کی شروعات ایک پیچیدہ موضوع ہے اور اس پر بہت سی تھیوریاں ہیں لیکن کسی ایک تھیوری کو ہم ثبوت کی بنیاد پر کامیاب ترین نہیں کہہ سکتے۔ یہ نظریہ ارتقا کا سر درد ہی نہیں ہے۔ اس لئے اس پر تھوپا نہیں جا سکتا۔

انسان ارتقائی مراحل کی آخری کڑی نہیں ہے۔ کیونکہ انسان بھی ارتقائی منازل سے گذر رہا ہے۔ اور ہر جاندار جو ابھی زندہ ہے وہ بھی کسی نہ کسی طور پر ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔

ایک اور بات یہ کہ انسان کو بندروں کی ارتقائی شکل کہا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ حقیقت میں انسان اور apes (گوریلا اور چمپینزی جو بندروں سے مختلف ہیں) کا موروث اعلیٰ ایک تھا، اور ان دونوں سے مختلف تھا۔ اس کو Australopithecus کہا جاتا ہے۔

نیز انہوں نے ان ڈھانچوں کو جانوروں کی مختلف انواع و اقسام کی ابتدائی کڑیاں اور ان کے اسلاف قرار دیا ہے،مثلاًانہوں نے ان میں سے بعض کو گھوڑوں کے اسلاف قرار دیا ہے تو بعض کو جیلی فش(Jellyfish) اور کائی (Algae) کے آباء واجداد ٹھہرایا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ان حیوانات نے ہزاروں سال کے بعد موجودہ شکل و صورت اختیار کی ہے۔ لیکن جدیدترین سائنسی انکشافات اس خیال کی تردید کرتے ہیں،چنانچہ حشرات الارض جنہیں سائنس دان سخت جان حیوانات تصور کرتے ہیں ساڑھے تین سو ملین سال پہلے اپنے ظہور سے لے کر اب تک ایک ہی شکل و صورت کے حامل ہیں۔

ان ڈھانچوں کی تقسیم اور شجرہ اپنی مرضی سے نہیں بنایا گیا بلکہ ان کو ان ادوار کے مطابق بنایا گیا ہے جن میں ان کے fossil ملے ہیں۔ fossil جانداروں کی لاشیں ہوتی ہیں جو لاکھوں سالوں سے زمین میں دبنے کی وجہ سے پتھر بن جاتی ہیں۔ ان پر مختلف سائنسی طریقے لگا کر ان کی عمر معلوم کی جاتی ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کونسا جاندار کتنا قدیم ہے۔ مثلاً انسان یعنی homo sapiens کا قریم ترین ڈھانچہ دو لاکھ سال پرانا ہے۔ اس سے پہلے انسان نما مخلوق کے ڈھانچے بھی ملے ہیں مثلاً homo erectus وغیرہ اور کچھ fossil تو بیس لاکھ سال پرانے ہیں۔ فوسیلز کی جانچ پرکھ اور ان کی ومر کا تعین کرنا اور ان کی صحیح طرح سے شناخت کرنا سائنس کا ایک حصہ ہے اور اس کو Paleontology کہتے ہیں۔

حشرات،رینگنے والے حیوانات اور سمندری بچھوؤں کی آج بھی بالکل وہی شکل و صورت ہے،جو پانچ سو سال پہلے ان کے ڈھانچوں کی تھی۔ماہرین حیوانات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق موجود نہیں۔

جیسے کہ میں بیان کر چکا ہوں نظریہ ارتقا کا مفروضہ ہے کہ جاندار اپنے ماحول کے مطابق تبدیل ہوتا ہے۔ اگر کوئی بہت لمبے عرصے سے تبدیل نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ جاندار مختلف ماحولوں میں رہنے کے قابل ہے ہا پھر جیسا کہ سمندری مخلوق میں ہوتا ہے کہ سمندر کے کچھ حصوں کے ماحول میں خاطر خواہ تبدیلی بہت کم آتی ہے اس لئے جاندار کو تبدیل ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

جب اتنے چھوٹے جانداروں میں بھی کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا تو ڈارون ازم کے حامیوں کا یہ دعوی کہ گھوڑے کے سموں میں تغیر ہوا ہے درست نہیں۔انسٍان بھی اپنی تخلیق کے وقت سے آج تک اپنی شکل و صورت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ایک طرف ڈارون ازم کے حامی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہزاروں قسم کے جانداروں میں تغیروتبدل ہوا ہے، لیکن دوسری طرف ہمارے سامنے پانچ سو ملین سال پرانے جاندار زندہ موجود ہیں اور ان لوگوں کے دعوے کو زبانِ حال سے جھٹلا کر کہہ رہے ہیں: ‘‘ہرگزنہیں ... ہم میں کسی قسم کا تغیروتبدل اور ارتقا نہیں ہوا۔‘‘
ارتقا ہر جاندار میں ہوتا ہے لیکن بعض میں بہت زیادہ ہوتا ہے اور بعض میں کم۔ تو کچھ مچھلیاں ایسی ہیں جن میں بہت کم ارتقا ہوا ہے، لیکن ہوبہو ویسی نہیں ہیں جس طرح 500 ملین سال پہلے تھیں۔

نظریہ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ حیوانات کا ارتقا اور ان میں تبدیلی مصادفت کے طور پر ایک لمبے عرصے میں بہت سست رفتاری سے رونما ہوتی ہے اور کسی بھی جاندار کا ارتقا اور تغیر اس کے ماحول اور حالات پر موقوف ہوتا ہے،مثلاً زمین کا سورج سے تعلق،اس سے دوری یا نزدیکی،اس کے گرد گردش اور اس گردش کے نتیجے میں پیداہونے والی موسمی تبدیلیاں فطرت پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل ہیں،لہٰذا حالات کے مطابق تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں،مثلاً لاکھوں سال پہلے گھوڑا ایک چھوٹا سا جانور ہوتا تھا،جس کے پاؤں میں پانچ ناخن ہوتے تھے،لیکن مرورِزمانہ سے اس کی جسامت بڑھ گئی اور اس کا ایک سم رہ گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے دعوے پر کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ وہ زمانہ ماضی کی ایک مخلوق کے بارے میں گھوڑا ہونے کا دعوی کرتے ہیں،حالانکہ اس مخلوق کا گھوڑے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو پیدا فرمایا اور پھر ایک مخصوص عرصے کے بعد اس کی نسل کو ختم فرما دیا،چنانچہ آج کل اس کی نسل کا کوئی جانور موجود نہیں ہے۔ہم یہ بات کیوں تسلیم کریں کہ وہ مخلوق گھوڑا ہی تھی؟اللہ تعالیٰ نے اُس دور میں اس حیوان کو پیدا فرمایا اور پھر اس کے صدیوں بعد گھوڑے کو پیدا فرمایا۔آخر ہم ان دو مختلف حیوانوں کے درمیان تعلق جوڑ کر ان میں سے ایک کو دوسرے سے کیوں منسوب کرتے ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ماننا زیادہ بعید از عقل ہے کہ تخلیق کا عمل دنیا میں کروڑوں مرتبہ ظہور پزیر ہوا یا پھر یہ کہ ایک مرتبہ تخلیق کا ومل ہوا اور پھر اس میں تنوع آتا گیا؟ ظاہری بات ہے کہ اگر تخلیق کا عمل اتنا ہی وافر مقدار میں ہوتا رہا کی ہر طرح کے ڈھانچے جو ہمیں ملے وہ سب نئی تخلیق کا نتیجہ ہے تو انسان کو باشعور ہوئے 8000 سال کے قریب ہو گئے ہیں تو ہمیں اسی تخلیق کے عمل کا کوئی مظہر نظر آ جاتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔

دس کروڑ سال پہلے بھی شہد کی مکھی اور شہد کے پائے جانے کے شواہد مل چکے ہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شہد کی مکھی دس کروڑ سال پہلے بھی اسی انداز سے شہد بناتی اور اسے مسدس ڈبوں میں محفوظ کرتی تھی جیسے آج کرتی ہے،دوسرے لفظوں میں دس کروڑ سال گزرنے کے باوجود شہد کی مکھی میں کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا اور وہ ایک ہی طریقے سے شہد بنا رہی ہے۔اس دوران اس کے دماغ یا دیگر اعضاء میں کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ ہی شہد بنانے کا طریقِ کار بدلا۔اگر تغیر ہوا ہے تو کہاں ہوا ہے؟ اس قسم کے تغیر کی نشاندہی ہونی چاہیے،جس کی ذمہ داری نظریہ ارتقا کے حامیوں پر عائد ہوتی ہے۔
شہد کی مکھی کی آج بھی ہزاروں اقسام ہیں، اور ہر قسم دوسری سے کسی نہ کسی طرح مختلف ہے۔ شہد کی مکھی ایک فیملی کا نام ہے جو کی اپنے جسم میں ایک میٹھی رطوبت بنانے کے قابل ہو۔ اس طرح تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنکھیں تو کروڑوں سال پہلے وجود میں آ گئی تھیں اور اب بھی ہیں، ان میں تبدیلی کیا آئی؟

کئی سال پہلے نیو ڈارون ازم کے ایک حامی نے دنیا کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ اس نے ایک ایسی کھوپڑی دریافت کی ہے جس میں انسان اور بندر دونوں کے اوصاف پائے جاتے ہیں اور اس نے اس کھوپڑی کو بندر سے انسان کی طرف منتقلی کی دلیل کے طور پر پیش کیا،لیکن کچھ ہی سالوں کے بعد اس دعوے کی اصل حقیقت کھل گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ اس کھوپڑی کا نیچے والا جبڑا درحقیقت کسی بندر کی کھوپڑی کا حصہ ہے،جسے کسی حقیقی انسان کی کھوپڑی کے ساتھ جوڑا گیا ہے،گویا دو کھوپڑیوں کو ملا کر ایک کھوپڑی تیار کی گئی تھی۔اس کھوپڑی کو قدیم ظاہر کرنے کے لیے مخصوص مدت تک تیزاب میں رکھا گیا،اس کے دانتوں اور مسوڑھوں کو رگڑا گیا اور پھر اسے بندر اور انسان کی درمیانی کڑی کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ جعل سازی ایسی مہارت سے کی گئی تھی کہ قریب تھا کہ علمی حلقے اس کے دھوکے میں آجاتے۔(۲) تاہم بعض سائنس دانوں کو اس جعل سازی کا علم ہو گیا اور انہوں نے اخبارات اور رسائل میں اس کی تشہیر کر دی۔ترکی کے اخبارات پر بھی اس واقعے کے اثرات پڑے اور یہاں بھی اس موضوع پر مختلف مقالات شائع ہوئے۔

ایک آدمی نے جعل سازی کی شہرت کے لئے یا پھر کسی اور وجہ سے تو یہ پوری سائنسی برادری کی سازش ہو گئی؟ سائنسدان تو اس معاملے میں بہت سخت ہوتے ہیں اور اگر جعل سازی ثابت ہو جائے تو اس شخص کا سائنسی کیرئر فوراً ختم ہو جاتا ہے۔

جہاں تک حسبی تغیر (Mutation) کا تعلق ہے تو اس نظریے کے مطابق اگر کسی جاندار کو حسبی تغیرات کا سامنا ہو تو ان کی نسل میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور یہی تبدیلیاں جانداروں کی مختلف انواع کی بنیاد فراہم کرتی ہیں،لیکن دورِحاضر میں علم جینیات اور حیاتیاتی کیمیا (Biochemistery) کی ترقی کی بدولت یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الل ٹپ اتفاقات پر مبنی حسبی تغیرات جانداروں کے ارتقا، تکمیل اور بہتری کا باعث نہیں بن سکتے،لہٰذا اس قسم کے دعوے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
برسہا برس تک کبوتروں اور کتوں کی مخلوط نسلیں پیدا کرنے کی کوششیں اور اس بارے میں تجربات کئے جاتے رہے،لیکن کتے کتے ہی رہے۔اگرچہ ان میں بعض جسمانی تبدیلیاں رونما ہوئیں،مثلاً ناک یا منہ کی شکل تبدیل ہوئی،لیکن کتے گدھے نہیں بنے اور نہ ہی کبوتر کسی اور پرندے کی نسل میں تبدیل ہوئے،بلکہ کبوتر ہی رہے۔ سائنس دانوں نے اس سے پہلے پھلوں کی ’’ڈروسوفیلا‘‘ نامی مکھی پر بھی متعدد تجربات کیے،لیکن وہ مکھی ہی رہی اور جب ان تجربات کرنے والوں کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے مایوس ہو کر اس کوشش کو چھوڑ دیا۔
مکھی کی کیا بات کرتے ہیں آجکل تو بائو ٹیکنولوجی اور بائو کیمسٹری کے سبب ایسی گائے بنائی گئی ہے جس کے دودھ میں ریشم نکلتا ہے۔ ریشم بنانے والی مکڑی کے جینز کو گائے کی جینز سے ملا کر ایسی گائے بنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے بیکٹیریا بنائے گئے ہیں جو الکوحل کی جگہ ڈیزل بناتے ہیں۔

تاہم ان تجربات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سائنس دانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ جانداروں کا ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیل ہونا ممکن نہیں،کیونکہ ان کے درمیان ناقابل عبور وسیع خلا ہے،نیزدرمیانی کڑیاں ہمیشہ بانجھ ہوتی ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ خچر نر ہوتا ہے اور نہ مادہ،یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے اپنی نسل جاری رکھنا ممکن نہیں،لہٰذا اس طرح کی درمیانی کڑیوں سے حسبی تغیرات کے ذریعے انسان کا وجود میں آناکیسے ممکن ہے؟قیامت تک باقی رہنے والی ایسی ممتاز مخلوق کیونکر وجود میں آئی؟یہ بات نہ صرف غیرمعقول ہے،بلکہ دورازقیاس بھی ہے اور اس کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی جا سکتی ۔



سائنس دانوں کو جزیرہ مڈغاسکر کے قریب ایک مچھلی کا ڈھانچہ ملا۔تحقیقات کے بعد ثابت ہوا کہ یہ ڈھانچہ چھ کروڑسال پرانا ہے اور انہوں نے فوراً اسے معدوم النسل مچھلیوں میں سے قرار دے دیا،لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایک مچھیرے نے اسی جزیرے کے پاس سے اسی مچھلی کی نسل کی ایک مچھلی شکار کی،جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کی نسل ناپید ہوچکی ہے۔سائنس دانوں نے دیکھا کہ یہ مچھلی چھ کروڑ سال پہلے پائی جانے والی مچھلی سے سو فیصد مشابہت رکھتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی،یہاں بھی نظریہ ارتقا کے حامیوں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور زندہ مچھلی نے مچھلی کے ڈھانچے سے متعلق نظریہ ارتقا کے حامیوں کے مفروضے کو غلط ثابت کر دیا۔

معلوم نہیں کونسی خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی باتیں تو بہت ہوتی ہیں اس میں خفت والی کیا بات ہے۔

لیکن اس کے باوجود چونکہ نظریہ ارتقا تاریخی مادہ پرستی کی اہم بنیاد،اس کا لازمی عنصر اور مادہ پرستی کا سہارا ہے،اس لیے مارکس اور اینجلز کو اس نظریے کو قبول کرنے پر شدت سے اصرار ہے۔یہی وجہ ہے سائنس سے متصادم ہونے کے باوجود مادہ پرست اس کی بے دھڑک حمایت کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی اس سے دستبردار نہ ہوں گے۔
اگر اس نظریے میں اتنی خرابیاں ہیں تو پھر صاحب تحریر اپنا نظریہ پیش کریں۔ اگر وہ کہیں کہ سب کچھ اللہ نے ایک ساتھ تخلیق کیا۔ تو اگلا سوال ہوگا کہ کیسے کیا؟ اور اگر ایک ساتھ کیا تو ان کو ڈھانچے مختلف ادوار میں کیوں پائے جاتے ہیں اور کچھ جاندار دنا سے ختم کیوں ہو گئے ہیں۔ انسانی ذہن سوالات کرتا ہے اور اس کے تسلی بخش جواب ڈھونڈھتا ہے۔ یہ بات کافی نہیں کہ اللہ نے تخلیق کیا۔ اس طرح تو تحقیق کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے۔ ہمیں معلوم کرنا ہے کہ کونسے طریقے سے تخلیق کا عمل وجود میں آیا۔ اور اس کے لئے سب سے بہتر وضاحت نظریہ ارتقا ہی کر سکتا ہے۔

نظریہ ارتقا کے حامی ہر مسئلے کا مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے حل پیش کرنا چاہتے ہیں۔وہ کبھی بھی اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ چونکہ ہم اس مسئلے کی وضاحت نہیں کر سکتے،اس لیے ضرور کوئی خارجی روحانی طاقت موجود ہے۔ان کی تمام تر کوششیں اس اعتراف سے بچنے کے لیے ہیں،لیکن ان کی یہ مایوس کن کوششیں انہیں معقولیت،دانش مندی اور اعتدال پسندی سے اس قدر دور لے گئی ہیں کہ انہیں جعل سازی،دھوکادہی اور سائنسی شعبدہ بازیوں کا راستہ اختیار کرنا پڑا،جو نہ صرف اہل علم بلکہ عام انسان کو بھی زیب نہیں دیتا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی انہیں خفت اٹھانی پڑتی ہے تو وہ منہ چھپانے کے لیے کسی نہ کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض خام ذہن ان کے فریب میں آ جاتے ہیں،لیکن جھوٹ کا کوئی سرپاؤں نہیں ہوتا اور ان لوگوں کی حالت تو اس سے بھی گئی گزری ہے۔کہاوت ہے کہ ایک بے وقوف کنویں میں پتھر پھینک کر چالیس عقلمندوں کو اسے نکالنے کی کوشش میں مصروف کر سکتا ہے،لیکن وہ پھر بھی اسے نہیں نکال سکتے۔یہی بات نظریہ ارتقا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔
اب ان باتوں کا کوئی کیا جواب لکھے۔ یعنی ہزاروں لاکھوں سائنسدان جو اس نظرئے کو مانتے ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں دھوکے باز، جھوٹے اور مکار ہیں۔ بہت عجیب و غریب بات ہے۔ ان کو آپ غلط کہہ سکتے ہو لیکن جھوٹا اور مکار کہنا کافی فضول بات ہے۔

تاہم ڈارون نے غیرشعوری طور پر دنیائے علم کو فائدہ بھی پہنچایا ہے،کیونکہ جانداروں کی مختلف انواع کی تقسیم اور ترتیب کی دریافت اسی کی تحقیقات کا نتیجہ ہے اور یہ تقسیم دوسرے بہت سے دلائل کی طرح کائنات میں موجود حیرت انگیز ہم آہنگی اور نظم ونسق کی ایک دلیل ہے۔اس سے کائنات کے بے مثال نظام کے خالق کی قدرت کی عظمت بھی ثابت ہوتی ہے۔ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ڈارون کی تحقیقات سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا،لیکن وہی تحقیقات اس کی گمراہی کا باعث بنیں۔
ربط
http://pk.fgulen.com/index.php?opti...catid=18:islam-and-contemporary&Itemid=100005


پرانے مسلمان سائنسدان نظریہ ارتقا کے بارے میں کیا کہتے ہیں: ربط
 

زیک

مسافر
ایک اور بات یہ کہ انسان کو بندروں کی ارتقائی شکل کہا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ حقیقت میں انسان اور apes (گوریلا اور چمپینزی جو بندروں سے مختلف ہیں) کا موروث اعلیٰ ایک تھا، اور ان دونوں سے مختلف تھا۔ اس کو Australopithecus کہا جاتا ہے۔
آسٹریلوپیتھکس فاسل 2 سے 4 ملین سال پرانے ملے ہیں جبکہ انسان اور چمپینزی کا مورث اعلی 6 سے 8 ملین سال پہلے تھا۔ اگر گوریلا کو بھی شامل کر لیا جائے تو مورث اعلی شاید 10 ملین سال پہلے
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
دوسری بات: "ڈارون ازم" نام کا کوئی سائنسی نظریہ نہیں ہے۔ "سوشل ڈارون ازم" ایک ترکیب ضرور ہے لیکن اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے تو میں اس پر بات نہیں کروں گا۔
ڈارون ازم ایک سائنسی تھیوری ہے جس میں حیاتیاتی ارتقاء پر بات کی گئی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ڈارون ازم ایک سائنسی تھیوری ہے جس میں حیاتیاتی ارتقاء پر بات کی گئی ہے۔

سائنسدان اس کو تھیوری آف آیوولوشن ہی کہتے ہیں۔ چونکہ ڈارون کے بعد یہ تھیوری کافی تبدیل ہو چکی ہے، اس لئے اس کو ڈارونزم کہنا غلط ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
سائنسدان اس کو تھیوری آف آیوولوشن ہی کہتے ہیں۔ چونکہ ڈارون کے بعد یہ تھیوری کافی تبدیل ہو چکی ہے، اس لئے اس کو ڈارونزم کہنا غلط ہے۔
ماڈرن تھیوری کے دو اہم ستون ڈارون کی نیچرل سیلکشن کی تھیوری اور مینڈل کا جینز پر کام ہیں۔
 
Top