ناسمجھ

عثمان

محفلین
آمین اور جزاک اللہ
اچھا سوال ہے۔ پھر شاید سکون رہے کچھ عرصہ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مزید مسئلوں اور خواہشات سے واسطہ پڑے۔
لیکن وہ نہیں آ سکتے تو کبھی سوچا نہیں اس بارے میں :)
کیا دیس میں مسائل اور خواہشات نہیں ہونگی ؟
آپ صرف اپنے والدین کو مس کر رہے ہیں۔ چاہے وہ دوسرے شہر میں ہوں یا دوسرے ملک میں۔ دیس ، پردیس کا تو مسئلہ ہی نہیں۔ :)
 

زبیر مرزا

محفلین
سلمان پردیسیوں کے احساسات کی بہت عمدہ ترجمانی کی ہے آپ نے - بہت سی باتیں مشترک ہوتی ہیں
گھر پہ کوئی فون اُٹھانے میں دیر کردے تو دل حلق میں اٹکنے لگتا ہے - صائمہ شاہ نے تو جو لکھا
میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں تھا - کسی ایک بار پوچھا تھا گھر والوں کو مس کرتے ہو؟ تو جواب دیا تھا گھر والے
تو گھر والے میں اپنے شہر کے گلی کوچوں تک کو مس کرتا ہوں ۔ائیرپورٹ سے گھراتے گلی کا چوکیدار اپنی مخصوص کرسی
پر دیکھ کر شکر ادا کرتے ہیں - سبزی والی کی گلی میں آواز ہو یا مسجد سے آتی موذن کی صدائے اذان کیا کیا نہیں مس کرتے
پردیسی - ویسے صد شکر کہ میں یہ تحریر پاکستان میں بیٹھ کے پڑھ رہا ہوں ورنہ سلمان میاں نے تو اُداس کرنے کا پکا ارادہ کیا تھا:)
 

شمشاد

لائبریرین
"ہم پردیس میں بیٹھے ہوئے آزاد نہیں ہوتے"۔

یہ بات میں نے واٹس ایپ پر اس سے پچھلے آدھے گھنٹے سے جاری تحریری بحث کے دوران لکھی تھی۔
لیکن وہ اپنی بات پر بضد تھا، اسے بھی جرمنی آنا تھا اور میری طرح آزاد پنچھی بن کر یورپ کی پرکیف فضاؤں میں اڑان بھرنی تھی۔

"تم آزاد نہیں ہو تو کہاں قید ہو؟ کسی جیل میں؟ میں تو فیس بک پر آئے دن تمہاری تصاویر دیکھتا ہوں اور ہر تصویر نت نئے بیک گراؤنڈ کے ساتھ تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ لیے ہوتی ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تم وہاں بہت خوش ہو۔" اس کی جنجھلاہٹ اس کے میسیج سے جھلک رہی تھی۔

میں اس کو سمجھانا چاہتا تھا لیکن مجھے قوی امکان تھا کہ میرے ہر میسیج پر وہ طنزیہ ہنسے گا اور پھر لکھے گا کہ یہ کتابی باتیں اپنے پاس رکھو، اگر گھر والے اتنا یاد آتے ہیں تو وہاں کیوں ٹھہرے ہو۔ اتنا ہی شوق ہے والدین کی خدمت کا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس کیوں نہیں آ جاتے۔ ہر سال چکر لگا کے جاتے ہو، وہاں اور یہاں دونوں جگہوں کے مزے لوٹ رہے ہو، اب تو روپے بھی بھیجنے لگے ہو جن کو تھام کر امی رونے لگتی ہیں اور سب کو خوشی سے بتاتی ہیں کہ میرے بیٹے نے اپنی تنخواہ ملنے پر بھیجے ہیں اور ظاہر ہے میں پاکستان میں رہ کر ان کو روپے دوں بھی تو وہ یوروز کے مقابلے میں کس کھاتے میں لکھے جائیں گے۔ تم جو خدمت کرنا چاہتے ہو وہ وہاں بیٹھ کر بھی کر سکتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔

موبائیل کے لرزنے پر میں ان "کتابی سوچوں" سے باہر نکل آیا۔ میرے پاس اس کی ابھی تک جاری اس ضد کا کوئی حل نہیں تھا سو میں نے "اچھا" لکھ کر بات ختم کردی۔

میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا واقعی امی میرے بھیجے روپے لے کر جو آنسو بہاتی ہیں وہ خوشی کے ہوتے ہیں؟ کیا وہ ان روپوں کو تھام کر اپنے لاڈلے بیٹے کا لمس محسوس کرتی ہیں؟ کیا مجھے دیکھ دیکھ کر جینے والی میری ماں کو ہر ماہ موصول ہونے والی رقم سے مطلوبہ آکسیجن مل جاتی ہے؟ کیا میری یہ خدمت ان کے لیے کافی ہے؟ میں جانتا تھا کہ وہ یقیناً اثبات میں جواب دے گا اور ساتھ ہی روپے پیسے کی افادیت پر لمبا چوڑا میسیج لکھے گا۔ لیکن میں اس کی بات کیسے مان لوں جبکہ میری ماں روز فون پر روتے ہوئے ایک ہی بات دہرائے جاتی ہے کہ تو میرا لاڈلا تھا، میں نے بڑے پیار سے تجھے پالا تھا اور تو ہی اتنی دور چلا گیا۔ ماں کے آنسو تو جھوٹ نہیں بولتے نا۔

لیکن وہ میری بات سمجھ نہیں سکتا تھا کیوںکہ وہ جرمنی میں نہیں تھا اور ناسمجھ بھی تھا۔

میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ جب میں گھر کے نمبر پر فون کروں اور روز جو فون پہلی گھنٹی پر اٹھا لیا جائے وہ کسی دن کوئی نہ اٹھائے تو کیسے بھیانک خیال آنے لگتے ہیں، کیسے کانپتی انگلیوں سے باری باری سب بھائیوں کو فون ملاتا ہوں اور ایک ایک کر کے جس دن کوئی بھی جواب نہ دے تو پھر ٹانگیں بھی لرزنے لگتی ہیں اور صوفے پر ڈھے جاتا ہوں۔
ابو کے بیمارہو کر بستر پر پڑ جانے کی خبر گلے میں پھانس کی طرح اٹکتی ہے۔ اور پھر پچھلے سال ان کو دل کا دورہ پڑنے کی خبر تم لوگوں کے مجھ سے چھپا لینے کے باوجود کزن سے پتہ چلی تو کیا قیامت ٹوٹی تھی مجھ پر۔

اسے بتانا چاہتا تھا کہ آج جب ایک دوست کا فون یہ بتانے کے لیے آیا تھا کہ علی کے ابو کی پاکستان میں ڈیتھ ہو گئی ہے تو کیسے میری آواز بند ہو گئی تھی۔

"علی کی کیا حالت ہے؟" میری آواز بمشکل نکلی تھی تو میرا دوست ٹھنڈی آہ بھر کر بولا تھا کہ پچھلے دو دن سے وہ ہسپتال میں تھے اور اس کے گھر والے بار بار کہہ رہے تھے کہ علی آ جا پاکستان مگر اس کو عید کے رش کے وجہ سے ٹکٹ نہیں ملی اور آج دوپہر کو ان کا انتقال ہو گیا۔ کل کی ٹکٹ ملی ہے اسے لیکن جنازہ آج شام میں ہو جائے گا۔

میں ویسے ہی کانپنے لگا تھا جیسے پردیس میں بیٹھ کر دماغ میں آنے والے طرح طرح کے وسوسے مجھے رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کیا علی اپنے باپ کی شکل بھی نہیں دیکھ پائے گا؟ وہ باپ جس نے علی کے پہلی بار آنکھیں کھولتے ہی اسے گود میں بھر لیا ہو گا کیا علی اس باپ کی بند آنکھیں چوم بھی نہیں سکے گا؟

"یہ خبر علی پر قیامت بن کر ٹوٹی تھی یار"۔ دوست فون پر روہانسا ہو رہا تھا۔

"ہم سب ایسی ہی ایک خبر کے منتظر ہیں میرے دوست۔ جلد یا بدیر، ایسا فون تو ہم سب کو آنا ہے۔ دعا کر کہ وقت پر پہنچ پائیں ورنہ یہ ڈوری جس سے ہم سب بندھے ہوئے ہیں یہ ہمیں کبھی آزاد نہیں ہونے دے گی۔"

میں صرف اتنا ہی کہہ پایا تھا اور فون بند کر دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا دوست میری بات سمجھ گیا ہو گا کیونکہ وہ پچھلے تین سال سے جرمنی میں تھا اوروہ ناسمجھ بھی نہیں تھا۔


نوٹ- یہ تحریر ایک دوست علی کے والد کے انتقال کی اطلاع ملنے پر لکھی گئی ہے۔ ہر پڑھنے والے سے گزارش ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ ساتھ دوست کے گھر والوں کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی دعا بھی کر دیجئے گا۔ شکریہ
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔

سلمان بھائی آپ نے پردیسیوں کی بہت اچھی ترجمانی کی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تو آپ نے کچھ بھی نہیں کہا۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔
 
Top