پیشہ کےدوران جب آپ نے کٹھنائیوں کے باوجود ایمان داری سے کام کیا

میرا تعلق اصلآ اس طبقے سے ہے جس میں بچپن کے بعد بڑھایا آتا ہے۔ اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔
میں اپنے والدین آخری اولاد ہوں، سب سے چھوٹا اور لاڈلا۔ مگر مجھ پر جیسی کڑی گزری شاید میرے سارے بہن بھائیوں پر نہیں گزری ہو گی۔ ابا اپنے ایک قریبی رشتے دار کی سات یا نو ایکڑ زمین بٹائی پر کاشت کرتے تھے۔ جیب چھوٹی مگر دل بڑا پایا تھا۔ ’’گھر چل رہا ہے، بس ٹھیک ہے، بندہ خود کو گرنے کیوں دے!‘‘ ان کی زندگی کا فلسفہ ہی یہ تھا۔ میں نے غریبوں والے ٹاٹ سکول میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ اور پھر خستہ چوبی بنچوں والے ایک سکول سے دسویں کا امتحان دیا۔ سکول کے آدھے بچے بنچوں پر بیٹھتے تھے اور آدھے ٹاہلی اور کیکر کی گھنی چھاؤں میں کھلی زمین پر یا پھر سردیوں کی دلربا دھوپ کا مزہ شور زدہ گراؤند میں بیٹھ کر لیتے اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہتی۔
گاؤں سے سکول تک یہی کوئی پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔ روزانہ پیدل آنے جانے سے اس کے ایسے عادی ہوئے کہ وہ فاصلہ فاصلہ لگتا ہی نہیں تھا۔
مشکلیں اتنی پڑین مجھ پر کہ آساں ہو گئیں​
 
ابھی اور مشکلیں بھی راستے میں منتظر تھیں۔ اللہ کریم نے انسان کو مستقبل بینی کا علم نہ دے کر اس پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ صرف اس ایک احسان کی قدر پوری زندگی پر حاوی ہے۔ انہ کان علیما خبیرا
۔۔۔
میں ساتویں میں تھا کہ ابا کا بلاوا آ گیا۔ اس کا احوال ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ کے دیباچے میں پیش کر چکا ہوں۔ ماں نے لوگوں کا سوت کات کر یا جیسے بھی بن پڑا میرا دسوین جماعت تک کا خرچہ اٹھایا۔ میں خود بھی چھٹی کے دن یا گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں میں کوئی مزدوری مل جاتی تو کر لیتا۔ ایک آدھی کتاب کی قیمت نکل آتی تھی۔ میرے میٹرک کے امتحانات ہو گئے تو ماں نے کہہ دیا: ’’بیٹا بس! میں تھک گئی ہوں، اب تیری باری ہے۔‘‘ تب میری عمر ساڑھے پندرہ سال تھی۔
 

نایاب

لائبریرین
[quote="محمد یعقوب آسی, post: 1555849, member: 3774"]بور ہوں گے بہت لوگ، ناصر علی مرزا صاحب۔
بہر حال کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا رہوں گا، ان شاء اللہ۔[/quote]
استاد محترم آسی بھائی
مجھے اس قسم کی بوریت انتہا سے زیادہ پسند ہے ۔
التجا ہے کہ مجھے اس خوشی سے محروم نہ کریں ۔۔
کہیں گھی کے چراغ جلتے ہیں کہیں کڑوے تیل کے ۔۔۔۔
مسافر تو صرف روشنی سے راہ پاتے ہیں ۔
بہت دعائیں
 
[quote="محمد یعقوب آسی, post: 1555849, member: 3774"]بور ہوں گے بہت لوگ، ناصر علی مرزا صاحب۔
بہر حال کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا رہوں گا، ان شاء اللہ۔
استاد محترم آسی بھائی
مجھے اس قسم کی بوریت انتہا سے زیادہ پسند ہے ۔
التجا ہے کہ مجھے اس خوشی سے محروم نہ کریں ۔۔
کہیں گھی کے چراغ جلتے ہیں کہیں کڑوے تیل کے ۔۔۔ ۔
مسافر تو صرف روشنی سے راہ پاتے ہیں ۔
بہت دعائیں[/quote]
آپ کی کڑوے تیل والی بات مجھے اظہار کا ایک راستہ دے گئی، جنابِ نایاب! ممنون ہوں۔
 

نایاب

لائبریرین
استاد محترم آسی بھائی
مجھے اس قسم کی بوریت انتہا سے زیادہ پسند ہے ۔
التجا ہے کہ مجھے اس خوشی سے محروم نہ کریں ۔۔
کہیں گھی کے چراغ جلتے ہیں کہیں کڑوے تیل کے ۔۔۔ ۔
مسافر تو صرف روشنی سے راہ پاتے ہیں ۔
بہت دعائیں
آپ کی کڑوے تیل والی بات مجھے اظہار کا ایک راستہ دے گئی، جنابِ نایاب! ممنون ہوں۔[/quote]
استاد محترم
نیت کا حال رب جانے
عمل پہ دنیا ناقد
اپنی تو اک خواہش بس
علم کا سفر آگہی کے چراغ کے روشنی میں جاری رہے ۔
بہت دعائیں
 

فلک شیر

محفلین
آسی صاحب ! میری تجویز ہے کہ ان مراسلہ جات کو نئی لڑی میں منتقل کیا جائے، تاکہ مستقل تحریر ہو۔
 
آسی صاحب ! میری تجویز ہے کہ ان مراسلہ جات کو نئی لڑی میں منتقل کیا جائے، تاکہ مستقل تحریر ہو۔
میں بھی یہی سوچ ہی رہا تھا ،محترم آپ نے عمدہ تجویز دی ہے
محترم محمد یعقوب آسی صاحب،
تھوڑی الجھن اور مصروفیت ، پھر خاص تحریریں سوچ بچار اور ارتکاز توجہ مانگتی ہیں، تو ابھی تک آپ کی تحریر صحیح طور پر پڑھ نہیں پایا ہوں، کہ مقصد سیکھنا اور سمجھنا ہے اور سوالات بھی ہیں
 
میرے بڑے بھائی ابا کی زندگی میں ہی سکول چھوڑ چھاڑ کر فوج میں سپاہی بھرتی ہو گئے تھے۔ میرے رشتے کے بھائی جلو موڑ (لاہور) ہوتے تھے، محکمہ نہر میں بہت چھوٹے درجے کے ملازم تھے۔ انہوں نے اپنے کسی افسر کو کہہ کہلوا کر مجھے وہاں ایک ’’ورک چارج‘‘ یعنی دیہاڑی دارا پروگرام میں نوکری دلا دی۔ یہ 1968 کی بات ہے۔ وہاں مجھے ایک ایسے دفتر میں کام کرنا تھا جس کا کل عملہ میں خود تھا۔ اس کی روداد پھر کبھی سہی۔
 
آسی صاحب ! میری تجویز ہے کہ ان مراسلہ جات کو نئی لڑی میں منتقل کیا جائے، تاکہ مستقل تحریر ہو۔
میں بھی یہی سوچ ہی رہا تھا ،محترم آپ نے عمدہ تجویز دی ہے
محترم محمد یعقوب آسی صاحب،
تھوڑی الجھن اور مصروفیت ، پھر خاص تحریریں سوچ بچار اور ارتکاز توجہ مانگتی ہیں، تو ابھی تک آپ کی تحریر صحیح طور پر پڑھ نہیں پایا ہوں، کہ مقصد سیکھنا اور سمجھنا ہے اور سوالات بھی ہیں

جو مزاجِ ’’یاران‘‘ میں آئے۔
مطلوبہ تاگے نام میں تجویز کر دیتا ہوں۔ ’’سر پھرے کی سر گزشت‘‘
آپ دونوں میں سے کوئی صاحب تاگا کھول کر یہاں سے منتخب مندرجات وہاں منتقل کر دیں۔
یہ کام مجھے آتا نہیں ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
مطلوبہ تاگے نام میں تجویز کر دیتا ہوں۔ ’’سر پھرے کی سر گزشت‘‘
نہیں جناب، میں اس عنوان سے قطعآ متفق نہیں ہوں۔ اس عاجز کے ناقص خیال کے مطابق آپ جیسے اہل علم اور گوناگوں تجربات کی حامل ایک بھرپور زندگی جینے والی قابل احترام شخصیت کے لئے یہ عنوان ہرگز شایان شان نہیں ہے۔
عنوان تجویز کرنے والوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ کسی دوسرے عمدہ سے عنوان کے تحت تاگہ (لڑی) کا آاغاز کیا جائے۔
شکریہ۔
 

فلک شیر

محفلین
"کنعان نامہ" کیسا رہے گا؟
تلمیذ سر، آپ کچھ تجویز کریں ۔
"ایامِ یعقوب " بھی ہو سکتا ہے۔
"نالہ یعقوب "
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
سارے نام ہی اچھے لگ رہے ہیں۔ کبھی کوئ اچھا لگتا ہے کبھی کوئی۔ نالۂ یعقوب بھی اچھا ہے۔
 
آخری تدوین:
"کنعان نامہ" کیسا رہے گا؟
تلمیذ سر، آپ کچھ تجویز کریں ۔
"ایامِ یعقوب " بھی ہو سکتا ہے۔
"نالہ یعقوب "
نالہ نہیں صاحب۔ ۔۔۔۔۔۔ میں تو دوستوں کا شکریہ ادا نہیں کر پا رہا، اللہ کا شکر کیا ادا کر پاؤں گا!
سرپھرے کی سرگزشت کے لئے اجازت ہو تو جواز پیش کروں۔
ہمارے یہاں سرپھرا اپنے رسمی لغوی معانی سے قطعی مختلف معانی میں معروف ہے۔ فی زمانہ سچ بولنے سے بڑا پاگل پن اور کیا ہو گا۔ تو جو سچ بولتا ہے، وہ سرپھرا ہی تو ہے۔
دوسرے اس عنوان میں ایک کشش ہے، ایک غیر محسوس سی مقناطیسیت اس کو کہہ لیجئے۔ اس میں ادب کا لمس پایا جاتا ہے: مثلآ ۔۔۔ ’’آوارہ گرد کی ڈائری‘‘ معروف سفرنامہ ہے۔
تیسرے یہ کہ زندگی رونا دھونا ہی تو نہیں، وہ علامہ صاحب کی نظم ۔۔ شبے زور نالید ابرِ بہار۔۔!

چلئے میں ایک متبادل نام پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’غواصِ شوق‘‘ ۔ میرا ایک شعر سن لیجئے۔
درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غواصِ شَوق
موج خود کشتی بنی گرداب چپو کر دیے

بہت آداب
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
بھائی! یہ مکالمہ اُن کا تھا۔ اُن کے ہی الفاظ میں لکھا ہے۔:)
باقی آپ کو بتایا ہے کہ توہین نہیں ہے۔ آپ کے بتانے سے پہلے مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ مرزائی کا لفظ تحقیر کے لئے بولا جاتا ہے۔ میں نے فوراَََ درستگی کی اور قادیانی لکھا۔
باقی نیت کا حال اللہ جانتا ہے۔میرے کتنے ہی ملنے جلنے والے۔رشتہ دار قادیانی ہیں۔ لیکن بس احمدی نہیں کہہ سکتی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے نام میں تینوں نام ہیں۔ ہم نے اپنی سہولت/مرضی سے ایک یا دو لے لئے ہیں۔
چلیں بہرحال آپکی مرضی ہے۔ لیکن قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے کہ کسی کو اسی نام سے پکارا جائے جو اس نے اپنے لئے رکھا ہو۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اپنی جماعت کا نام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مباک نام "احمد" کی نسبت سے احمدی رکھا تھا۔ اسی نسبت سے ہم احمدی کہلاتے ہیں۔ آگے جس کا جو دل کرے ہم کسی کو کچھ کہہ تو نہیں سکتے۔ یہ بھی صرف آپ کی معلومات کے لئے مراسلہ لکھا ہے کہ ہمارا نام احمدی حضرت مرزا صاحب کی نسبت سے نہیں بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین

نایاب

لائبریرین
محترم تلمیذ بھائی
میرا ووٹ " سرپھرے کی سرگزشت " عنوان کے لیئے ہے ۔۔۔
حق و سچ کی صدائیں بلند کرنے والے ہی اصل میں " سر پھرے " ہوتے ہیں ۔
بہت دعائیں
 
محترم تلمیذ بھائی
میرا ووٹ " سرپھرے کی سرگزشت " عنوان کے لیئے ہے ۔۔۔
حق و سچ کی صدائیں بلند کرنے والے ہی اصل میں " سر پھرے " ہوتے ہیں ۔
بہت دعائیں
معذرت میں متفق نہیں ہوں، حق و سچ کی صدائیں بلند کرنے والے ہی اصل میں باشعور اور دانشور ہوتے ہیں
آپ کی نیت پہ شک نہیں کیا ، بلکہ انداز بیان پر اعتراض ہے
 

نایاب

لائبریرین
معذرت میں متفق نہیں ہوں، حق و سچ کی صدائیں بلند کرنے والے ہی اصل میں باشعور اور دانشور ہوتے ہیں
آپ کی نیت پہ شک نہیں کیا ، بلکہ انداز بیان پر اعتراض ہے
ایسوں کو " پاگل دیوانہ مجنون " کے بھی خطابات سے نوازا جاتا ہے میرے محترم بھائی
باشعور اور دانشور " مصلحت " کو اپنا رہنما بناتے ہیں ۔ جبکہ سر پھرے حق وسچ کی صدا لگا دار قبول کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔
کس کی مثال دیں گے جس نے " حق و سچ " کی صدا لگائی ہو اور " عوام " سے باشعور و دانشور کا خطاب پایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔؟
بہت دعائیں
 
Top