مسلم قوم کا ایجنڈا کیا ہو؟ از: ازڈاکٹر ظفرالاسلام خان

مسلم قوم کا ایجنڈا کیا ہو؟
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
آزاد ہندوستان میں جہاں ساری قومیں آگے بڑھی ہیں، وہیں مسلمان دھیرے دھیرے رجعت قہقری کرتے ہوئے آج ساری قوموں سے پیچھے کھڑے ہیں۔ جہاں حکومت اور ہندوتوادی طاقتوں کا اس نتیجے میں حصہ رہا ہے،و ہیں ہم خود بحیثیت فرد اور ملت بھی ذمہ دار ہیں۔
ہمارے تنزل کا آغاز ہندوستان کی آزادی کے ساتھ نہیں شروع ہوا ہے بلکہ بہت پہلے انگریز کے غلبہ کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ ہم انگریز دشمنی میں نئے زمانے اور اس کے ساتھ آنے والے سائنسی اور ٹکنالوجیکل انقلاب کوسمجھنے میں نا کام رہے۔ نئی سائنسی زبان (انگریزی) کو ہم صرف سامراجیوں کی زبان سمجھتے رہے۔ سرسید، حالی اور اقبال جیسے دوراندیشوں کے دردمند پیغام کو ہم نے سمجھنے سے انکار کردیا جبکہ ہمارے ہم وطنوں نے نئے دور کو سمجھا اور نئی تعلیم کے معاملے میں ہم سے کم از کم سو سال آگے چلے گئے۔ یہ خلا اتنا بڑا تھا کہ مشن کے طور پر ہی مہم چلا کر اس کو ختم کیا جاسکتا تھا اور ہم تھے سست اور آرام پسند ۔
ہم میں سے ایک اقلیت نے نئے زمانے کو ضرور سمجھا لیکن تقسیم کے بعد ان میں سے بھی کافی لوگ آباء و اجداد کے وطن کو چھوڑ کر ایک نئے ملک میں آباد ہوگئے اور بہت بڑا خلا پیچھے چھوڑ گئے۔ بہر حال ہمیں اس بات سے خوشی ہے کہ کم از کم آج ہندوستانی مسلمان تعلیم کی اہمیت سے واقف ہو چکاہے حالانکہ عمدہ تعلیم اب پرائیویٹ اداروں کے آجانے کی وجہ سے بہت مہنگا سودا بن چکی ہے۔
آزادی کے بعدزراعت پر قائم ہمارا اقتصادی نظا م بھی درہم برہم ہوا جبکہ ہم ابھی نئے دور کے تقاضوں کے لئے تیار نہیں تھے۔ تجارت اورصنعت میں ہم پہلے ہی بہت پیچھے تھے اور جیسے جیسے ان میادین میں گھسنے اور جگہ بنانے کے لئے مزید سے مزید تر سرمایہ درکار ہونے لگا ہم ان سے دورہوتے گئے ۔آزادی کے بعد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمتیں تعصب کہ وجہ سے ہمیںملنی بند ہوگئیں ۔ اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم چھوٹے چھوٹے کاروبار کرکے اپنے پیر وںپر کھڑے ہوں گے۔ ہم اس فیصلہ میں کامیاب رہے اور آج ہندوستانی معاشرہ میں آزاد پیشہ لوگوں میں مسلمان سرفہرست ہیں۔
۱۹۷۳ کے پیٹرول امبارگو کے بعد جب تیل کے دام راتوں رات کئی گنا بڑھ گئے تو ہمارے لئے خلیجی ممالک کا بھی راستہ کھلا اور اس کی وجہ سے بھی مسلم معاشرہ میں کافی خوشحالی آئی۔ یوں مجموعی طور پر ہماری معاشی حالت کافی سدھری ہے، اگرچہ اب بھی ہم دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہیں۔
معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر اخلاقی تنزل بھی شدت سے آیا۔ مسلمان نہ صرف دین سے بہت دور ہوئے بلکہ ان میں اسلامی اخلاق اور اعلی قدروں کا بھی شدید بحران پیدا ہوا۔ آج عام مسلمان ان اعلی اخلاقی صفات سے مزین نہیں ہے جن کا اسلام اپنے پیرؤں سے مطالبہ کرتاہے۔ جھوٹ، بددیانتی، چغلخوری، وعدہ خلافی، حسد جیسے امراض آج مسلم معاشرہ کو کھوکھلا کر رہے ہیں ۔ دکھاوے ، مثلا شادی بیاہ اور اجتماعی رسوم کے لئے ،ہم بے دریغ بلکہ قرضے لیکر خرچ کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں جبکہ ہمارے ادارے ، مدارس، مساجد، یتیم خانے اور مسافر خانے وغیرہ قوم کی بے حسی کا مرثیہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ہمارے علاقے غلاظتوں کا ڈھیر ہیں۔دوسرے علاقوں کے برعکس ہم آپس میں مل کر اپنے رہائشی علاقوں کے انتظام اور صفائی کرنے پر یقین نہیں رکھتے ۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے لیکن زکاۃ اور صدقات دینے والوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ ملی گزٹ کے ایک سروے میں ہم نے پایا کہ دلی کے مسلم علاقہ اوکھلا میں صرف دس فیصد ایسے لوگ زکاۃ دیتے ہیں جن پر زکاۃ واجب ہے اور یہ لوگ بھی مستحقین کو تلاش نہیں کرتے ہیں بلکہ جوبھی ان کے دروازے پر آتا ہے اُسے دے دیتے ہیں۔
جب تک ہماری دینی اور اخلاقی حالت نہیں بدلے گی ہم دنیا کا احترام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے۔ یہ ذمہ داری ،جو ہم پر خود لاگو ہوتی ہے اور جسے صرف ہم پورا کر سکتے ہیں، ہمارا مستقل ایجنڈا ہونا چاہئے۔
سیاسی طور پر اپنی طاقت بنائیں
آزادی کے فوراً بعد ہم نے مسلم لیگ کو توڑ کر سیاسی طور سے پوری قوم کو یتیم بنالیا۔ کیرالا کے لوگوں نے اس جلد باز اور ناعاقبت اندیش فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور آجتک اپنے صحیح فیصلے کے فوائد حاصل کررہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہر سیاسی پارٹی نے ہمیں جھوٹے وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ الیکشن سے پہلے کچھ چھوٹا موٹا کام ہوجاتاہے اور بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن الیکشن ہوتے ہی اگلے پانچ سال کے لئے سب کچھ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں سب سیکولر پارٹیاں کمیونسٹوں سمیت یکساں ہیں ۔آزادی کے بعد مسلمانوں کی سب سے بری درگت مغربی بنگال میں لیفٹ حکومتوں کے دور میں ہوئی ہے۔ آبادی میں تناسب کے لحاظ سے پارلیمنٹ میں ہمیں ۸۰۔۹۰ سیٹیں ملنی چاہئیں لیکن زیادہ سے زیادہ اس کی آدھی تعداد ہی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی پہنچ پائی ہے ۔ بالعموم ۳۰ مسلم ممبروں سے زیادہ پارلیمنٹ میں ہماری موجودگی نہیں ہوتی ہے اور وہ بھی ان پارٹیوں کے طفیل میں جنہیں ہمارے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ہمارے سماج کے ممبران گونگوں اور بہروں کی طرح بیٹھتے ہیں۔ ایسی حالت میں حل صرف یہ ہے کہ ہمارے ممبران اپنی شناخت کے ساتھ منتخب ہوں اور اپنی پارٹیوں کے بل بوتے پر جائیں تاکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ہماری آواز بن سکیں اور جب بجٹ، حکومتی پالیسیوں اور قوانین پر بحث ہوتو کھل کر اپنی بات رکھ سکیں۔ کیرالا میں مسلم لیگ نے اس کا عمدہ تجربہ پیش کیا ہے اوراس نے وہاں مسلم سماج کو اٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں کئی پارٹیاں مسلم پس منظر میں بنی ہیں اگرچہ آسام کے علاوہ کہیں کسی کو خاص کامیابی ابتک نہیں ملی ہے۔ اس لئے کوشش ہونی چاہئے کہ جہاں بھی ہمارے ووٹروں کی معتدبہ تعداد ہو،وہاں سے ہمارے نمائندے خود اپنی پارٹیوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں آئیں۔
دوسرے مطالبات
اب آتے ہیں ان امور کی طرف جن کا ہم سیاسی پارٹیوں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں۔ ان مطالبات کی دوشقیںہے: ایک عمومی جن کے ہم بحیثیت ہندوستانی شہری حقدار ہیں اور دوسری خصوصی جن کا ہم بطور ملت مسلمہ مطالبہ کرتے ہیں۔

سیکولر پارٹیوں سے مطالبات
سیکولر پارٹیوں سے ہمارے مطالبات دونوعیت کے ہیں :
ؔألف۔ عمومی مسائل:
جو سیاسی پارٹیاں ہماری تایید چاہتی ہیں وہ مرکزی اور علاقائی دوسطحوں پر وعدہ کریں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ گاؤں ؍وارڈ؍بلاک میں آبادی میں تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں کو تمام سرکاری ویلفیرا سکیموں میں عادلانہ حصہ ملے گا جیسے رہائش، علاج، تعلیم، غذا اور کام کی ا سکیمیںوغیرہ ۔ اس مقصد کے لئے گاؤں؍وارڈ؍بلاک کی سطح پر انتظامی اور نگرانی کی میکینزم بننا ضروری ہے تاکہ آبادی میں تناسب کے ساتھ مسلمانوں کو انکا حصہ مل سکے۔ جہاں بھی ممکن ہو اسکیمیں تمام غربا اور مستحقین کے لئے بنائی جائیں، مثلا صحت اور زندگی کے حق کی اسکیمیں صرف اقلیت کے لئے نہیں بلکہ پوری آبادی کے مستحقین کے لئے ہوں۔

ب۔ مسلم سماج کے مخصوص مسائل:
عمومی نوعیت کی ضروریات اور سہولتوں کے ساتھ ساتھ مسلم سماج کے کچھ اپنے الگ مسائل بھی ہیں جن کے بارے میں سیکولر سیاسی پارٹیاں وعدہ کریں کہ وہ مرکزیا صوبے میں اقتدار میں آنے پر دو سال کے اندر اپنے دائرئہ اختیار میں یہ مسائل حل کریں گی ۔ ایسے واضح اور لکھے ہوئے وعدے کی بنیاد پر ہم ان کو اگلے الیکشن میں ووٹ دیں گے۔ ہمارے مخصوص مسائل اور مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ بارہویں پنچ سالہ پلان میں اقلیتوں کے بارے میں سفاشارت کا مکمل اور ایماندارانہ نفاذ۔
۲۔ فساد مخالف بل کو بغیر کسی تبدیلی اور تخفیف کے لاگو کرنا، جسمیں فساد کرانے والے افراد اور سیاسی پارٹیوں کے الیکشن لڑنے پر پابندی کی شق بھی شامل ہو نیز نچلی سطح کی انتظامیہ اور پولیس کی ذمہ داری بھی طے ہو۔
۳۔ جسٹس سچر کمیٹی اور جسٹس مشرا کمیشن کی سفارشات کا مکمل نفاذ۔
۴۔ دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو شیڈولڈ کاسٹ ریزرویشن میں دستور کی دفعہ ۳۴۱ کے تحت شامل کرنا اور اس کے لئے ۱۹۵۰ میں صادر ہونے والے صدر جمہوریہ کے غیر دستوری اور ظلم پر مبنی حکم کو واپس لینا۔
۵۔ یواے پی اے اور افپسا جیسے قانونوں کو ختم کرنا اور اس بات کا وعدہ کرنا کہ ان قانونوں کی ظالمانہ شقوں کو چپکے سے کسی اور قانون میں نہیں داخل کیا جائے گا اور تعذیب کو ہر صورت میں غیر قانونی قرار دینا۔
۶۔ (ألف): دہشت گردی کے نام پر گرفتار معصوم مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی اگر ۱۸۰ دنوں میں چارج شیٹ فائل نہیں ہوتی ہے،ان کے خلاف الزامات کو واپس لینا اگر دوسال میں کیس فائل نہیں ہوتا ہے، اوران کے خلاف کیس کو واپس لینا اگرچار سال میں کیس عدالت میں ثابت نہں ہوتاہے۔ اس کام کے لئے ٹاڈا کی طرح سے اسکرینینگ کمیٹی قائم کی جائے۔
(ب) دہشت گردی میں ماخوذ تمام ملزمین کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام اس شرط کے ساتھ کہ عدالتوں سے متعلق ججوں پر دوسرے کیسوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔
(ج) دہشت گرد ی کے جن ملزمین کی باعزت رہائی ہوتی ہے ان کو قید کے ہر سال پر پانچ لاکھ روپیہ ہرجانہ۔
(د) جو افسران باعزت بری ہونے والے ملزمین کو پھنسانے میں ملوث تھے اورجنہوں نے تعذیب کے ذریعہ ان سے اعتراف نامے حاصل کئے تھے، ان کی بر طرفی اور ان پر مقدمات قائم کرنا۔
۷۔ شیڈولڈ کاسٹ کے لئے رزرو کردہ مسلم اکژیتی پارلیمنٹری اور اسمبلی سیٹوں کو رزرویشن سے نکالا جائے اور اس مقصد کے لئے اول فرصت میں ڈیلیمیٹیشن کمیٹی کا انعقاد کرایا جائے کہ متعین مدت میں یہ کام انجام دے۔
۸۔ بجٹ کے اندرشیڈولڈ کاسٹ کے طرز پر مسلمانوں کے لئے بھی سب پلان بنایا جائے جسمیں آبادی میں تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں کے لئے بجٹ مختص کیا جائے۔
۹۔ تمام وقف جائدادوں کو متعلقہ وقف بورڈوں کے حوالے کیا جائے اور قابل احترام مسلم علماء اور شخصیات کو وقف بورڈوں کا ممبر بنایا جائے۔
۱۰۔ مدرسہ ا سکیموں کی تشہیر ہو اور مدارس کی سندوں کو اسکولوں اور کالجوں کی سندوں کے مساوی تسلیم کیا جائے تاکہ مدارس کے فضلا کو ملازمتیں اور یونیورسٹیوں میں داخلے مل سکیں۔
۱۱۔ اسلامی یا اخلاقی بینکنگ اور فائننس کو جلد از جلد نافذ کیا جائے جیسا کہ فائننشیل ریفارم کے لئے رگھورام راجن کمیٹی نے مشورہ دیا ہے۔
۱۲۔ اردو میڈیم اسکولوں کی اجازت اور اردو دان لوگوں کو ملازمتوں کی سہولتیں ۔
۱۳۔ قابل احترام مسلم شخصیات کی سرکاری عہدوں، مثلا کمیشنوں، بورڈز اور گورنروں، پر تعیناتی اور پدماانعامات میں ان کی شمولیت ۔
۱۴۔ سامراجی عہدکے ظالمانہ پولیس ایکٹ کو ختم کرکے اس کی جگہ عوام دوست پولیس ایکٹ لایا جائے جس کے تحت پولیس عوام کی خادم ہو۔ نیز پولیس کو فرقہ پرستی سے پاک کیا جائے اور مسلمانوں کو پولیس فورس میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔

ملی اور سیاسی زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے یہ ہمارا مجوزہ ایجنڈا ہے۔ اگر اس پر ایمانداری سے عمل کیا جائے تو ملت بھی آگے بڑھے گی اور ملک بھی ترقی کرے گا کیونکہ ایک بڑی اقلیت کو نظر انداز کرنے سے پوراملک پیچھے رہ جائے گا جس میں نہ ملک کا فائدہ ہے اور نہ اس طبقہ کا جو مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتا ہے۔
(مضمون نگار آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر ہیں)
 
بہت خوب

میرے خیال میں یہ اچھی رائے ہے۔ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں مگر ایک اچھی طاقت ہیں۔ یاد رکھیں سیاسی طاقت حاصل کرنے کے جو راستے ہندوستان میں کھلے ہیں ان پر چل کر مسلم کبھی بھی بھرپور طاقت حاصل نہیں کرسکیں گے۔ ایک طاقتور تعصبی اکثریت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ مسلم لیگ جیسی سیاسی قوت کی تشکیل ہو۔ اگر ہو بھی تو بالاخر اس کا مقصد ایک الگ مسلم ریاست قائم کرنا ہوجائے گا۔ یہ مقصد اس تعصبی اکثریت کی مخالفت کی وجہ سے تشدد کا شکار ہوکر کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ لہذا راستہ کچھ اور ہے۔

سب سے پہلے تو ا س بات پر میں متفق ہوں کہ کسی بھی معاشرہ ، قوم، اور قومیت یا گروہ کی ترقی تعلیم سے منسلک ہے۔ یہ بہرحال مسلم قوم کی ایک ترجیح ہونی چاہیے ۔ اس لیے بہت ہی مختلف اقسام کے تعلیمی ادارے ضروری ہے۔ اگرچہ حیدراباد اور کیرالہ اس معاملے میں اچھے ہیں۔ کم از کم میری معلومات کے مطابق۔ مگر اس میدان میں اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ کا م کا یہی میدان ہے۔

جاری
 

arifkarim

معطل
بہت خوب

میرے خیال میں یہ اچھی رائے ہے۔ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں مگر ایک اچھی طاقت ہیں۔ یاد رکھیں سیاسی طاقت حاصل کرنے کے جو راستے ہندوستان میں کھلے ہیں ان پر چل کر مسلم کبھی بھی بھرپور طاقت حاصل نہیں کرسکیں گے۔ ایک طاقتور تعصبی اکثریت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ مسلم لیگ جیسی سیاسی قوت کی تشکیل ہو۔ اگر ہو بھی تو بالاخر اس کا مقصد ایک الگ مسلم ریاست قائم کرنا ہوجائے گا۔ یہ مقصد اس تعصبی اکثریت کی مخالفت کی وجہ سے تشدد کا شکار ہوکر کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ لہذا راستہ کچھ اور ہے۔


دو الگ بھارتی مسلمان اکثریت ریاستیں پاکستان اور بنگلہ دیش کا انجام آپکے سامنے ہے۔ اب کیا مزید کا ارادہ ہے؟
 
بہت خوب

میرے خیال میں یہ اچھی رائے ہے۔ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں مگر ایک اچھی طاقت ہیں۔ یاد رکھیں سیاسی طاقت حاصل کرنے کے جو راستے ہندوستان میں کھلے ہیں ان پر چل کر مسلم کبھی بھی بھرپور طاقت حاصل نہیں کرسکیں گے۔ ایک طاقتور تعصبی اکثریت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ مسلم لیگ جیسی سیاسی قوت کی تشکیل ہو۔ اگر ہو بھی تو بالاخر اس کا مقصد ایک الگ مسلم ریاست قائم کرنا ہوجائے گا۔ یہ مقصد اس تعصبی اکثریت کی مخالفت کی وجہ سے تشدد کا شکار ہوکر کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ لہذا راستہ کچھ اور ہے۔

سب سے پہلے تو ا س بات پر میں متفق ہوں کہ کسی بھی معاشرہ ، قوم، اور قومیت یا گروہ کی ترقی تعلیم سے منسلک ہے۔ یہ بہرحال مسلم قوم کی ایک ترجیح ہونی چاہیے ۔ اس لیے بہت ہی مختلف اقسام کے تعلیمی ادارے ضروری ہے۔ اگرچہ حیدراباد اور کیرالہ اس معاملے میں اچھے ہیں۔ کم از کم میری معلومات کے مطابق۔ مگر اس میدان میں اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ کا م کا یہی میدان ہے۔

جاری

لہذا مسلم قومیت کو ہندوستان میں ہنگامی بنیاد پر تعلیم کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس کام کی بنیاد فلاحی ہونی چاہیے نہ کی سیاسی۔ یعنی درد رکھنے والے مسلمان جمع ہوں اور مسلم قومیت کے نوجوانوں کو تیار کریں کہ اپنے مخصوص اکثریتی والے علاقوں میں فلاحی تنظیموں کی تشکیل کریں جن کا کام پسماندہ علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی ہو۔ خوش قسمتی سے بعضے ریاستوں میں حکومتی مدد موجود ہے مگر اکثر علاقوں میں مخالفت کی فضا ہے۔ لہذا ان فلاحی تنظیمیوں کی بنیاد اپنی مدد اپ پر ہو۔ سب سے پہلے ہندوستان کی یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں موجود طالب علموں کو ان ہی اداروں میں پہلے پڑھے ہوئے افراد سے رابطہ مضبوط کرکے لائحہ عمل طے کرنا پڑے گا۔

جاری
 
دو الگ بھارتی مسلمان اکثریت ریاستیں پاکستان اور بنگلہ دیش کا انجام آپکے سامنے ہے۔ اب کیا مزید کا ارادہ ہے؟
پاکستان اور بنگلہ دیش کے باسی بھارتی نہیں ہیں، بلکہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی ہیں۔ بھارت کا وجود 15 اگست 1947 کو عمل میں آیا۔ جہاں اس وقت بھارت واقع ہے۔
مجموعی طور پر پاکستانیوں کے حالات عموماً بھارتیوں سے اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے بالخصوص بہت بہتر ہیں ۔ ثبوت کے طور پر آپ گلوبل ہنگر انڈیکس کے اعداد شمار پر نظر دوڑا سکتے ہیں۔
 
بھارتی مسلمانوں کے لئے آپس میں اتحاد سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اگر مسلم لیگ کے نام سے انکے لئے کوئی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کسی اور نام سے ایک جماعت بنائی جاسکتی ہے جو مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرے۔
 

arifkarim

معطل
پاکستان اور بنگلہ دیش کے باسی بھارتی نہیں ہیں، بلکہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی ہیں۔ بھارت کا وجود 15 اگست 1947 کو عمل میں آیا۔ جہاں اس وقت بھارت واقع ہے۔
مجموعی طور پر پاکستانیوں کے حالات عموماً بھارتیوں سے اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے بالخصوص بہت بہتر ہیں ۔ ثبوت کے طور پر آپ گلوبل ہنگر انڈیکس کے اعداد شمار پر نظر دوڑا سکتے ہیں۔

بھارت، ہندوستان ، انڈیا کا وجود 1947 میں نہیں آیا۔ یہ علاقہ، ملک، وطن ہزاروں سال سے قائم و دائم ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_India

مسلمانوں، عیسائیوں وغیرہ کے یہاں آنے جانے سے یہاں کے باسی بدل نہیں سکتے۔ لوگ تو وہی ہیں۔ بس مذہب ہی تو تبدیل ہوا ہے اتنے ہزار سالوں میں۔
 
بھارت، ہندوستان ، انڈیا کا وجود 1947 میں نہیں آیا۔ یہ علاقہ، ملک، وطن ہزاروں سال سے قائم و دائم ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_India

مسلمانوں، عیسائیوں وغیرہ کے یہاں آنے جانے سے یہاں کے باسی بدل نہیں سکتے۔ لوگ تو وہی ہیں۔ بس مذہب ہی تو تبدیل ہوا ہے اتنے ہزار سالوں میں۔
یار ہندوستان کے بارے کہ سکتے ہزاروں سال، مگر بھارت 1947 سے :)
 
Top