محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

قیصرانی

لائبریرین
آپ کو راز کی بات بتائیں!؟
آپ کی ’’پیرنی‘‘ اتفاق سے اس فقیر کی ’’برخوردارنی‘‘ واقع ہوئی ہیں، اور ان کی برخورداری کا یہی عالم رہا تو بہت جلد ’’ترقی پا کر‘‘ ’’پیرنی فقیرنی‘‘ کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہوں گی۔

انتباہ: اس بات کی ’’آر۔ ایف۔جی۔ ٹی وی‘‘ کو کانوں کاں خبر نہ ہونے پائے!
جزاک اللہ۔ پھر تو انتہائی زیادہ محترم ہوئے :)
 
تازہ غزل
(مگر ...مطلع کے بغیر) ۔۔۔

مطلع بھی شامل کر لیجئے

سپنے تو کجا، پوچھ کہ ہم سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟

اشعار کی ترتیب بعد میں سہی

کم مائیگئ حرفِ تشکر مجھے بتلا
یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے؟

ڈر تھا کہ وہ بچھڑا تو تبسم سے گئے ہم
کیا جانئے اِس ہجر میں اب رو بھی سکیں گے؟

اک بار کا اظہار، جو صد خونِ انا تھا
اُس داغِ تمنا کو کبھی دھو بھی سکیں گے؟

حاصل کی ہوا پالنے والے کبھی سوچیں
ایسی ہی سہولت سے اسے کھو بھی سکیں گے؟

جڑ سے تو اکھاڑیں گے چلو، بوڑھے شجر کو
ننھا سا نہال اس کی جگہ بو بھی سکیں گے؟


محمد یعقوب آسیؔ ..... ۱۸۔دسمبر۔ ۲۰۱۳ء
 
آخری تدوین:
1655773_423185284491602_661416343_o.jpg
 
کھوٹی دمڑی
(کتھا کسی کی، کہی کسی نے، لکھی ہم نے! قدیم اردوادب سے خوشہ چینی ۔ ایک داستان کا خلاصہ)

دوپہر ڈھل رہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں ایک نابینا فقیر کشکول سامنے رکھے چُپکابیٹھا تھا۔ اس نے کچھ گھوڑوں کی ٹاپ سنی اور کچھ لوگوں کی آوازیں، کان ادھر لگائے ہی تھے کہ ’’چھن ن ن ن‘‘ ایک سکہ اس کے کشکول میں گرا۔ فقیر نے اپنی بے نور آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا اور خود کلامی کے انداز میں بولا: ’’واہ بادشاہ! ایک دمڑی دی فقیر کو اور وہ بھی کھوٹی!!‘‘۔ کشکول میں دمڑی پھینکنے والا واقعی اس راجدھانی کا راجا تھا۔ وہ بہت حیران ہواکہ اندھے فقیر نے یہ کیسے جان لیا کہ میں راجا ہوں اور یہ دمڑی کھوٹی ہے۔ اس نے فقیر سے پوچھا: ’’تو نے کیوں کر جان لیا، اندھے؟‘‘۔ فقیر بولا: ’’ابھی تو جا، اکیلے میں بتاؤں گا‘‘۔

راجا کے حکم پر فقیر کو محل میں لے جا کر ایک کھولی میں بٹھادیا گیا۔ راجا اپنے چوبدار کے ساتھ کھولی میں داخل ہوا اور کہا: ’’اب بول اندھے! تو مجھے اکیلے میں کیا بتانے والا تھا‘‘۔
فقیر نے کہا: ’’اپنے اس چوبدار کو چلتا کر، پھر بتاتا ہوں‘‘۔ راجا کو شک گزرا کہ فقیر اندھا نہیں ہے بنا ہوا ہے۔ چپکے واپس مڑا تو فقیر بولا: ’’تجھے شک گزرا، نا؟ جب یقین ہو جائے تب آ جائیو‘‘ ۔ وہ بہت تلملایا، فقیر پر ایک نگران مقرر کیا اور تین چار دن تک فقیر کو نہ ملا، نہ دربار میں طلب کیا۔ اسے بتایا گیا کہ فقیر سچ مچ نابینا ہے تو وہ اکیلا کھولی میں آیا۔
فقیر نے کہا: ’’ سُن! کوئی فوجدار یا کوئی ریاست کا بڑا ہی ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ لاؤ لشکر اور لگامیں ہوں، سو میں جان گیا کہ تو کوئی بڑا طاقت والا ہے۔ تونے میرے سامنے کھوڑا روکا اور سکہ کشکول میں پھینکا، سو میں جان گیا کہ تو بہت گھمنڈی بھی ہے، طاقت اور گھمنڈ آج کے بادشاہوں کا خاصہ ہے، سو میں جان گیا کہ تو بادشاہ ہے۔ میری عمر گزری ہے لوگ میرے کشکول میں سکے ڈالتے ہیں، میں سکوں کی آوازوں سے بہت کچھ جان لیتا ہوں، سو میں جان گیا کہ یہ دمڑی ہے اور وہ بھی کھوٹی۔ بس اب جا اور لوگوں کو ڈراتا رہ کہ تجھے یہی ایک کام آتا ہے‘‘۔
راجا اور بھی حیران ہوا: ’’تُوتو اندھا ہے ۔تجھے کیسے پتا کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ ‘‘۔فقیر بولا: ’’جب تو سڑک پر رکا تھا تو سب رک گئے تھے، کسی نے ایک حرف نہیں بولا، تیرے ساتھ تیرا چوبدار تھا، سو چپ۔ مجھ پہ جو نگران تو نے رکھا، وہ جب بھی بولا، ڈرا سہما بولا۔ برتن تیرے گھر کے کھانا کسی اور کے گھر کا‘‘۔
راجا پھر حیران: ’’تو نے کیسے جانا؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میں کیسے جان گیا، تو اپنے کام میں لگا رہ اور مجھے جانے دے‘‘۔
راجا بولا: ’’اندھے! تو مجھے کام کا آدمی لگتا ہے، میں تجھ سے کوئی مشورہ مانگوں تو صحیح مشورہ دے گا؟‘‘۔ فقیر نے کہا: ’’ہاں، چاہے تجھے برا لگے۔‘‘ راجا نے فقیر کا پانچ روپلی مہینہ وظیفہ لگا دیا اور اس کو دربار میں بٹھایا۔ سارا دن وہ بیٹھا لوگوں کی باتیں سنتا اور رات کو کھولی میں آ جاتا۔ راجا اُس سے پوچھتا تو وہ بتا دیتا کہ فلاں نے سچ بولا، فلاں نے جھوٹ کہا۔ فقیر کی بہت باتیں سچی نکلتیں۔ راجا جس نے کبھی کسی سگے پر اعتبارنہ کیا تھا، فقیر کی بات کو جھٹک نہیں پاتا تھا، اندر ہی اندر ڈرتا بھی تھا۔
ایک دن راجا کو ایک گھوڑی پیش کی گئی، گھوڑی راجا کو بھا گئی، وہ اسے لے لینا چاہتا تھا، سوچا فقیر سے پوچھ لوں۔ بولا: ’’اندھے! بتا میں یہ گھوڑی لے لوں کہ نہ لوں؟‘‘ فقیر بولا: ’’مجھے گھوڑی تک لے چل‘‘۔ اسے گھوڑی تک لے جایا گیا، اس نے گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور بولا: ’’بادشاہ! یہ گھوڑی میدان میں دغا دے گی۔ لینی ہے تو لے لے۔‘‘ بولا: ’’آنکھوں والوں کو دِکھی نہیں کیا؟ تو کہتا ہے دغا دے گی! مجھے تیری بات کا ثبوت چاہئے!‘‘۔ فقیر بولا: ’’ایک حوض میں پانی بھر، کہ وہ گھوڑی کے پیٹ کو لگے، پھر گھوڑی کو اس میں اتار دے‘‘۔ گھوڑی کو حوض میں اتارا گیا تو اُس نے پانی سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ راجا بولا: ’’یہ اَڑ کیوں گئی اندھے!‘‘ فقیر بولا: ’’میں نے کہا تھا نہیں بتاؤں گا، پر چل! بتا دیتا ہوں۔تیری طرح ناز نخرے میں پلی ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا تو اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، میدان کی ہوتی تو کھال کو چھانٹتی! اَڑے گی نہیں تو کیا کرے گی؟‘‘۔ راجا خوش ہو کے بولا: ’’آدھی روپلی بڑھا دو اِس کا وظیفہ!‘‘
راجا کو ایک لڑکی پسند آ گئی وہ اسے محل سرا میں لانا چاہتا تھا۔ فقیر سے پوچھا تو بولا: ’’اُس لونڈیا سے کہہ میرے آگے سے گزر جائے۔‘‘ راجا بولا: ’’تجھے کون سا دِکھتا ہے، اندھے! کہ تو دیکھ کے بتائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’جو میں نے کہا وہ کر، نہیں تو جا اپنی مرضی کر‘‘۔ لڑکی کو فقیر کے آگے سے گزارا گیا۔ لڑکی چلی گئی تو فقیر نے بتایا ’’یہ ڈومنی کی چھوکری ہے، ساری عمر کوٹھے پہ گزری ہے اس کی، چاہے تو بیاہ لے چاہے تو ویسے رکھ لے، یہ کچھ برا نہیں منائے گی‘‘۔ راجا نے لڑکی کو آزمایا تو وہ سو جان سے قربان ہونے پہ تیار۔ تحقیق کرائی پتہ چلا، فقیر نے جو بتایا وہ سب سچ تھا۔ راجا نے پوچھا: تو کن لوگوں کے پیچھے پھرتا ہے اندھے! تو پہلے سے اس لڑکی کو جانتا تھا؟ پر نہیں تو کیسے جان سکتا ہے ۔ پر یہ تو نے کیسے جانا کہ وہ ڈومنی کی بیٹی ہے؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔ راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔
راجا فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا۔ ایک دن فقیر نے کہا: ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘ کہا: ’’بول‘‘ ، کہا: ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔ راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا: ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔
قسمت کا لکھا ہو کے رہتا ہے۔ ایک دن راجا کو سوچ آئی کہ میرا باپ کون تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا: ’’میری حقیقت کیا ہے‘‘۔ فقیر ذرا دیر کو چپ رہا، پھربولا: ’’یہی سوال ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ خیر، میں تجھے بتاؤں گا ضرور، پر میری ایک شرط ہے۔ مجھے اُسی ٹاہلی کے نیچے لے چل، اور صرف تو میرے ساتھ جائے گا‘‘۔ راجا کو مانتے ہی بنی۔
دوپہر ڈھل رہی تھی جب وہ ٹاہلی کے نیچے پہنچے۔ فقیر نے راجا کو سائے میں بیٹھنے کو کہا، اور خود ذرا ہٹ کے اپنے گرد حصار کھینچ لیا۔پھر بولا: ’’میں جو کہوں گا، اُسے سن کے تو باؤلا ہو جائے گا، اس لئے میں نے اپنے گرد حصار کھینچا ہے۔ اس میں گھسنے کی کوشش نہ کرنا نہیں تو بھسم ہو جائے گا۔‘‘ راجا بہت بھنایا اور بولا: ’’زیادہ بَڑ بَڑ نہ کر اندھے! مجھے بتا میرا باپ کون تھا‘‘۔ فقیر بولا: ’’تو کسی چمار کا بیٹا ہے جو تیرے ظاہری باپ کا نمک خوار تھا۔ اب جا اور جا کے پڑتال کر لے‘‘۔ راجا غصے سے حصار کی طرف بڑھا مگر ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا: ’’تو نے جو کہا، جھوٹ نکلا تو جان کہ تو مارا گیا، اور سچ نکلا تو بھی مارا گیا‘‘۔ فقیر بولا: ’’یہ تو میں جان گیا تھا کہ تو میری جان کو آئے گا، پر یہ کوئی نہیں جانتا کہ تو مجھ پر قابو بھی پا سکے گا کہ نہیں۔ اب جا!!‘‘۔
راجا نموشی کا بارکاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔ پہلے تو اپنی ماں کو خوب مارا پیٹا، وہ دہائی دیتی رہی پر کون ہوتا جو راجا کے منہ لگتا۔ ماں ادھ موئی ہو کے گری پڑی تھی تب اُس نے پوچھا: ’’بول میرا باپ کون تھا‘‘۔ بڑھیا جان گئی تھی کہ اب کچھ چھپائے نہ چھپے گا۔ بولی تو مَوجُو چمار کا بیج ہے جو مہاراجاکے زمانے میں اصطبل اور محل سرا کی صفائی کا نگران تھا۔ ایک بارمہاراجا جو شکار کو نکلا تو کئی دن لوٹ کے نہیں دیا۔ اُس پیچھے کچھ ایسا ہو گیا کہ موجو چمار کا ۔۔۔‘‘ راجا اس سے آگے کچھ نہ سن سکا۔ اُس نے تلوار کے ایک ہی وار میں اپنی ماں کی گردن اڑا دی اور لہو سے لتھڑی تلوار لئے آندھی طوفان کی طرح ٹاہلی تک جا پہنچا۔
فقیر ابھی تک حصار میں بیٹھا تھا۔ راجا نے اسی تلوار کا وار کیا، تو تلوار حصار کے اندر نہیں گئی، ٹن ن کی آواز سے واپس پلٹ آئی۔ راجا جھاگ اگل رہا تھا: ’’میں اُس کو مار کے آیا ہوں، اب تو مرے گا!‘‘ فقیر بولا: ’’وہ عورت تیری ماں تھی اور تو خود اس کا پاپ! ارے پاپ نے پاپن کو مارا تو کیا مارا!‘‘ راجا جان گیا تھا کہ وہ فقیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہیں ڈھے گیا اور ہارے ہوئے لہجے میں بولا: ’’اب تو بتادے کہ تو نے کیسے جان لیا؟‘‘
فقیر بولا: ’’ایک: تیرا وہ دان ایک کھوٹی دمڑی کا ایک اندھے فقیر کو، اور وہ بھی بڑے گھمنڈ سے؛ دوجا: تیرا ہر بات پر مجھے اَندھا کہہ کے بلانا؛ تیجا: تیرے لوگوں کا تجھ سے ڈرنا اور تیرا اُن پر اعتبار نہ کرنا؛چوتھا: تیرا خوش ہونے پر بجائے کوئی دھن دان کرنے کے وظیفہ بڑھانا، اور وہ بھی آدھی روپلی؛ پانچواں: تجھے گھوڑی گدھی کی پہچان نہ ہونا؛ چھٹا: بادشاہ ہو کے ڈومنیوں سے پیچ لگانا؛ اور ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔ یہ سارا کچھ کسی بادشاہ کا پوت نہیں کر سکتا۔ اور اُس کا ثبوت ہے تیرا اپنی ماں پر ہاتھ اٹھانا اور پھر اُس کو جان سے مار دینا جس نے تجھ حرامی کو اپنے لہو اور دودھ سے پالا۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے‘‘۔ راجا تو جیسے زمین میں گڑ گیا ہو، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛ ٹھوڈی سینے سے لگ گئی تھی۔ کتنے جتن سے اُس نے سر اٹھایا تو دیکھا، فقیر وہاں نہیں تھا، حصار سے باہر کشکول پڑا تھا، جس میں ایک دمڑی رکھی تھی، وہ بھی کھوٹی۔
سنا ہے اسی ٹاہلی کے نیچے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ہے؛ ہٹا کٹا، دیکھتا بھالتا، ہر ایک سے ایک کھوٹی دمڑی کا سوال کیا کرتا ہے۔کوئی دے دے تو اس کی طرف گھورتا ہے، نہ دے تو اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے اور اپنی زنگ بھری اسی تلوار سے زمین پر وار کرنے لگتا ہے جس کی دھار نے اس کی ماں کا لہو پیا تھا!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمدعلم اللہ اصلاحی
ماہی احمد
محمد خلیل الرحمٰن
فلک شیر
الف عین
محب علوی
سید شہزاد ناصر
محمد وارث
مدیحہ گیلانی
اور جملہ اہلِ نظر احبابِ محفل
 

ماہی احمد

لائبریرین
کھوٹی دمڑی
(کتھا کسی کی، کہی کسی نے، لکھی ہم نے! قدیم اردوادب سے خوشہ چینی ۔ ایک داستان کا خلاصہ)

دوپہر ڈھل رہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں ایک نابینا فقیر کشکول سامنے رکھے چُپکابیٹھا تھا۔ اس نے کچھ گھوڑوں کی ٹاپ سنی اور کچھ لوگوں کی آوازیں، کان ادھر لگائے ہی تھے کہ ’’چھن ن ن ن‘‘ ایک سکہ اس کے کشکول میں گرا۔ فقیر نے اپنی بے نور آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا اور خود کلامی کے انداز میں بولا: ’’واہ بادشاہ! ایک دمڑی دی فقیر کو اور وہ بھی کھوٹی!!‘‘۔ کشکول میں دمڑی پھینکنے والا واقعی اس راجدھانی کا راجا تھا۔ وہ بہت حیران ہواکہ اندھے فقیر نے یہ کیسے جان لیا کہ میں راجا ہوں اور یہ دمڑی کھوٹی ہے۔ اس نے فقیر سے پوچھا: ’’تو نے کیوں کر جان لیا، اندھے؟‘‘۔ فقیر بولا: ’’ابھی تو جا، اکیلے میں بتاؤں گا‘‘۔

راجا کے حکم پر فقیر کو محل میں لے جا کر ایک کھولی میں بٹھادیا گیا۔ راجا اپنے چوبدار کے ساتھ کھولی میں داخل ہوا اور کہا: ’’اب بول اندھے! تو مجھے اکیلے میں کیا بتانے والا تھا‘‘۔
فقیر نے کہا: ’’اپنے اس چوبدار کو چلتا کر، پھر بتاتا ہوں‘‘۔ راجا کو شک گزرا کہ فقیر اندھا نہیں ہے بنا ہوا ہے۔ چپکے واپس مڑا تو فقیر بولا: ’’تجھے شک گزرا، نا؟ جب یقین ہو جائے تب آ جائیو‘‘ ۔ وہ بہت تلملایا، فقیر پر ایک نگران مقرر کیا اور تین چار دن تک فقیر کو نہ ملا، نہ دربار میں طلب کیا۔ اسے بتایا گیا کہ فقیر سچ مچ نابینا ہے تو وہ اکیلا کھولی میں آیا۔
فقیر نے کہا: ’’ سُن! کوئی فوجدار یا کوئی ریاست کا بڑا ہی ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ لاؤ لشکر اور لگامیں ہوں، سو میں جان گیا کہ تو کوئی بڑا طاقت والا ہے۔ تونے میرے سامنے کھوڑا روکا اور سکہ کشکول میں پھینکا، سو میں جان گیا کہ تو بہت گھمنڈی بھی ہے، طاقت اور گھمنڈ آج کے بادشاہوں کا خاصہ ہے، سو میں جان گیا کہ تو بادشاہ ہے۔ میری عمر گزری ہے لوگ میرے کشکول میں سکے ڈالتے ہیں، میں سکوں کی آوازوں سے بہت کچھ جان لیتا ہوں، سو میں جان گیا کہ یہ دمڑی ہے اور وہ بھی کھوٹی۔ بس اب جا اور لوگوں کو ڈراتا رہ کہ تجھے یہی ایک کام آتا ہے‘‘۔
راجا اور بھی حیران ہوا: ’’تُوتو اندھا ہے ۔تجھے کیسے پتا کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ ‘‘۔فقیر بولا: ’’جب تو سڑک پر رکا تھا تو سب رک گئے تھے، کسی نے ایک حرف نہیں بولا، تیرے ساتھ تیرا چوبدار تھا، سو چپ۔ مجھ پہ جو نگران تو نے رکھا، وہ جب بھی بولا، ڈرا سہما بولا۔ برتن تیرے گھر کے کھانا کسی اور کے گھر کا‘‘۔
راجا پھر حیران: ’’تو نے کیسے جانا؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میں کیسے جان گیا، تو اپنے کام میں لگا رہ اور مجھے جانے دے‘‘۔
راجا بولا: ’’اندھے! تو مجھے کام کا آدمی لگتا ہے، میں تجھ سے کوئی مشورہ مانگوں تو صحیح مشورہ دے گا؟‘‘۔ فقیر نے کہا: ’’ہاں، چاہے تجھے برا لگے۔‘‘ راجا نے فقیر کا پانچ روپلی مہینہ وظیفہ لگا دیا اور اس کو دربار میں بٹھایا۔ سارا دن وہ بیٹھا لوگوں کی باتیں سنتا اور رات کو کھولی میں آ جاتا۔ راجا اُس سے پوچھتا تو وہ بتا دیتا کہ فلاں نے سچ بولا، فلاں نے جھوٹ کہا۔ فقیر کی بہت باتیں سچی نکلتیں۔ راجا جس نے کبھی کسی سگے پر اعتبارنہ کیا تھا، فقیر کی بات کو جھٹک نہیں پاتا تھا، اندر ہی اندر ڈرتا بھی تھا۔
ایک دن راجا کو ایک گھوڑی پیش کی گئی، گھوڑی راجا کو بھا گئی، وہ اسے لے لینا چاہتا تھا، سوچا فقیر سے پوچھ لوں۔ بولا: ’’اندھے! بتا میں یہ گھوڑی لے لوں کہ نہ لوں؟‘‘ فقیر بولا: ’’مجھے گھوڑی تک لے چل‘‘۔ اسے گھوڑی تک لے جایا گیا، اس نے گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور بولا: ’’بادشاہ! یہ گھوڑی میدان میں دغا دے گی۔ لینی ہے تو لے لے۔‘‘ بولا: ’’آنکھوں والوں کو دِکھی نہیں کیا؟ تو کہتا ہے دغا دے گی! مجھے تیری بات کا ثبوت چاہئے!‘‘۔ فقیر بولا: ’’ایک حوض میں پانی بھر، کہ وہ گھوڑی کے پیٹ کو لگے، پھر گھوڑی کو اس میں اتار دے‘‘۔ گھوڑی کو حوض میں اتارا گیا تو اُس نے پانی سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ راجا بولا: ’’یہ اَڑ کیوں گئی اندھے!‘‘ فقیر بولا: ’’میں نے کہا تھا نہیں بتاؤں گا، پر چل! بتا دیتا ہوں۔تیری طرح ناز نخرے میں پلی ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا تو اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، میدان کی ہوتی تو کھال کو چھانٹتی! اَڑے گی نہیں تو کیا کرے گی؟‘‘۔ راجا خوش ہو کے بولا: ’’آدھی روپلی بڑھا دو اِس کا وظیفہ!‘‘
راجا کو ایک لڑکی پسند آ گئی وہ اسے محل سرا میں لانا چاہتا تھا۔ فقیر سے پوچھا تو بولا: ’’اُس لونڈیا سے کہہ میرے آگے سے گزر جائے۔‘‘ راجا بولا: ’’تجھے کون سا دِکھتا ہے، اندھے! کہ تو دیکھ کے بتائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’جو میں نے کہا وہ کر، نہیں تو جا اپنی مرضی کر‘‘۔ لڑکی کو فقیر کے آگے سے گزارا گیا۔ لڑکی چلی گئی تو فقیر نے بتایا ’’یہ ڈومنی کی چھوکری ہے، ساری عمر کوٹھے پہ گزری ہے اس کی، چاہے تو بیاہ لے چاہے تو ویسے رکھ لے، یہ کچھ برا نہیں منائے گی‘‘۔ راجا نے لڑکی کو آزمایا تو وہ سو جان سے قربان ہونے پہ تیار۔ تحقیق کرائی پتہ چلا، فقیر نے جو بتایا وہ سب سچ تھا۔ راجا نے پوچھا: تو کن لوگوں کے پیچھے پھرتا ہے اندھے! تو پہلے سے اس لڑکی کو جانتا تھا؟ پر نہیں تو کیسے جان سکتا ہے ۔ پر یہ تو نے کیسے جانا کہ وہ ڈومنی کی بیٹی ہے؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔ راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔
راجا فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا۔ ایک دن فقیر نے کہا: ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘ کہا: ’’بول‘‘ ، کہا: ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔ راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا: ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔
قسمت کا لکھا ہو کے رہتا ہے۔ ایک دن راجا کو سوچ آئی کہ میرا باپ کون تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا: ’’میری حقیقت کیا ہے‘‘۔ فقیر ذرا دیر کو چپ رہا، پھربولا: ’’یہی سوال ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ خیر، میں تجھے بتاؤں گا ضرور، پر میری ایک شرط ہے۔ مجھے اُسی ٹاہلی کے نیچے لے چل، اور صرف تو میرے ساتھ جائے گا‘‘۔ راجا کو مانتے ہی بنی۔
دوپہر ڈھل رہی تھی جب وہ ٹاہلی کے نیچے پہنچے۔ فقیر نے راجا کو سائے میں بیٹھنے کو کہا، اور خود ذرا ہٹ کے اپنے گرد حصار کھینچ لیا۔پھر بولا: ’’میں جو کہوں گا، اُسے سن کے تو باؤلا ہو جائے گا، اس لئے میں نے اپنے گرد حصار کھینچا ہے۔ اس میں گھسنے کی کوشش نہ کرنا نہیں تو بھسم ہو جائے گا۔‘‘ راجا بہت بھنایا اور بولا: ’’زیادہ بَڑ بَڑ نہ کر اندھے! مجھے بتا میرا باپ کون تھا‘‘۔ فقیر بولا: ’’تو کسی چمار کا بیٹا ہے جو تیرے ظاہری باپ کا نمک خوار تھا۔ اب جا اور جا کے پڑتال کر لے‘‘۔ راجا غصے سے حصار کی طرف بڑھا مگر ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا: ’’تو نے جو کہا، جھوٹ نکلا تو جان کہ تو مارا گیا، اور سچ نکلا تو بھی مارا گیا‘‘۔ فقیر بولا: ’’یہ تو میں جان گیا تھا کہ تو میری جان کو آئے گا، پر یہ کوئی نہیں جانتا کہ تو مجھ پر قابو بھی پا سکے گا کہ نہیں۔ اب جا!!‘‘۔
راجا نموشی کا بارکاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔ پہلے تو اپنی ماں کو خوب مارا پیٹا، وہ دہائی دیتی رہی پر کون ہوتا جو راجا کے منہ لگتا۔ ماں ادھ موئی ہو کے گری پڑی تھی تب اُس نے پوچھا: ’’بول میرا باپ کون تھا‘‘۔ بڑھیا جان گئی تھی کہ اب کچھ چھپائے نہ چھپے گا۔ بولی تو مَوجُو چمار کا بیج ہے جو مہاراجاکے زمانے میں اصطبل اور محل سرا کی صفائی کا نگران تھا۔ ایک بارمہاراجا جو شکار کو نکلا تو کئی دن لوٹ کے نہیں دیا۔ اُس پیچھے کچھ ایسا ہو گیا کہ موجو چمار کا ۔۔۔ ‘‘ راجا اس سے آگے کچھ نہ سن سکا۔ اُس نے تلوار کے ایک ہی وار میں اپنی ماں کی گردن اڑا دی اور لہو سے لتھڑی تلوار لئے آندھی طوفان کی طرح ٹاہلی تک جا پہنچا۔
فقیر ابھی تک حصار میں بیٹھا تھا۔ راجا نے اسی تلوار کا وار کیا، تو تلوار حصار کے اندر نہیں گئی، ٹن ن کی آواز سے واپس پلٹ آئی۔ راجا جھاگ اگل رہا تھا: ’’میں اُس کو مار کے آیا ہوں، اب تو مرے گا!‘‘ فقیر بولا: ’’وہ عورت تیری ماں تھی اور تو خود اس کا پاپ! ارے پاپ نے پاپن کو مارا تو کیا مارا!‘‘ راجا جان گیا تھا کہ وہ فقیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہیں ڈھے گیا اور ہارے ہوئے لہجے میں بولا: ’’اب تو بتادے کہ تو نے کیسے جان لیا؟‘‘
فقیر بولا: ’’ایک: تیرا وہ دان ایک کھوٹی دمڑی کا ایک اندھے فقیر کو، اور وہ بھی بڑے گھمنڈ سے؛ دوجا: تیرا ہر بات پر مجھے اَندھا کہہ کے بلانا؛ تیجا: تیرے لوگوں کا تجھ سے ڈرنا اور تیرا اُن پر اعتبار نہ کرنا؛چوتھا: تیرا خوش ہونے پر بجائے کوئی دھن دان کرنے کے وظیفہ بڑھانا، اور وہ بھی آدھی روپلی؛ پانچواں: تجھے گھوڑی گدھی کی پہچان نہ ہونا؛ چھٹا: بادشاہ ہو کے ڈومنیوں سے پیچ لگانا؛ اور ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔ یہ سارا کچھ کسی بادشاہ کا پوت نہیں کر سکتا۔ اور اُس کا ثبوت ہے تیرا اپنی ماں پر ہاتھ اٹھانا اور پھر اُس کو جان سے مار دینا جس نے تجھ حرامی کو اپنے لہو اور دودھ سے پالا۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے‘‘۔ راجا تو جیسے زمین میں گڑ گیا ہو، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛ ٹھوڈی سینے سے لگ گئی تھی۔ کتنے جتن سے اُس نے سر اٹھایا تو دیکھا، فقیر وہاں نہیں تھا، حصار سے باہر کشکول پڑا تھا، جس میں ایک دمڑی رکھی تھی، وہ بھی کھوٹی۔
سنا ہے اسی ٹاہلی کے نیچے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ہے؛ ہٹا کٹا، دیکھتا بھالتا، ہر ایک سے ایک کھوٹی دمڑی کا سوال کیا کرتا ہے۔کوئی دے دے تو اس کی طرف گھورتا ہے، نہ دے تو اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے اور اپنی زنگ بھری اسی تلوار سے زمین پر وار کرنے لگتا ہے جس کی دھار نے اس کی ماں کا لہو پیا تھا!!۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محمدعلم اللہ اصلاحی
ماہی احمد
محمد خلیل الرحمٰن
فلک شیر
الف عین
محب علوی
سید شہزاد ناصر
محمد وارث
مدیحہ گیلانی
اور جملہ اہلِ نظر احبابِ محفل
:) بہت ہی خؤب۔
 

ابن رضا

لائبریرین
کھوٹی دمڑی
(کتھا کسی کی، کہی کسی نے، لکھی ہم نے! قدیم اردوادب سے خوشہ چینی ۔ ایک داستان کا خلاصہ)

دوپہر ڈھل رہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں ایک نابینا فقیر کشکول سامنے رکھے چُپکابیٹھا تھا۔ اس نے کچھ گھوڑوں کی ٹاپ سنی اور کچھ لوگوں کی آوازیں، کان ادھر لگائے ہی تھے کہ ’’چھن ن ن ن‘‘ ایک سکہ اس کے کشکول میں گرا۔ فقیر نے اپنی بے نور آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا اور خود کلامی کے انداز میں بولا: ’’واہ بادشاہ! ایک دمڑی دی فقیر کو اور وہ بھی کھوٹی!!‘‘۔ کشکول میں دمڑی پھینکنے والا واقعی اس راجدھانی کا راجا تھا۔ وہ بہت حیران ہواکہ اندھے فقیر نے یہ کیسے جان لیا کہ میں راجا ہوں اور یہ دمڑی کھوٹی ہے۔ اس نے فقیر سے پوچھا: ’’تو نے کیوں کر جان لیا، اندھے؟‘‘۔ فقیر بولا: ’’ابھی تو جا، اکیلے میں بتاؤں گا‘‘۔

راجا کے حکم پر فقیر کو محل میں لے جا کر ایک کھولی میں بٹھادیا گیا۔ راجا اپنے چوبدار کے ساتھ کھولی میں داخل ہوا اور کہا: ’’اب بول اندھے! تو مجھے اکیلے میں کیا بتانے والا تھا‘‘۔
فقیر نے کہا: ’’اپنے اس چوبدار کو چلتا کر، پھر بتاتا ہوں‘‘۔ راجا کو شک گزرا کہ فقیر اندھا نہیں ہے بنا ہوا ہے۔ چپکے واپس مڑا تو فقیر بولا: ’’تجھے شک گزرا، نا؟ جب یقین ہو جائے تب آ جائیو‘‘ ۔ وہ بہت تلملایا، فقیر پر ایک نگران مقرر کیا اور تین چار دن تک فقیر کو نہ ملا، نہ دربار میں طلب کیا۔ اسے بتایا گیا کہ فقیر سچ مچ نابینا ہے تو وہ اکیلا کھولی میں آیا۔
فقیر نے کہا: ’’ سُن! کوئی فوجدار یا کوئی ریاست کا بڑا ہی ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ لاؤ لشکر اور لگامیں ہوں، سو میں جان گیا کہ تو کوئی بڑا طاقت والا ہے۔ تونے میرے سامنے کھوڑا روکا اور سکہ کشکول میں پھینکا، سو میں جان گیا کہ تو بہت گھمنڈی بھی ہے، طاقت اور گھمنڈ آج کے بادشاہوں کا خاصہ ہے، سو میں جان گیا کہ تو بادشاہ ہے۔ میری عمر گزری ہے لوگ میرے کشکول میں سکے ڈالتے ہیں، میں سکوں کی آوازوں سے بہت کچھ جان لیتا ہوں، سو میں جان گیا کہ یہ دمڑی ہے اور وہ بھی کھوٹی۔ بس اب جا اور لوگوں کو ڈراتا رہ کہ تجھے یہی ایک کام آتا ہے‘‘۔
راجا اور بھی حیران ہوا: ’’تُوتو اندھا ہے ۔تجھے کیسے پتا کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ ‘‘۔فقیر بولا: ’’جب تو سڑک پر رکا تھا تو سب رک گئے تھے، کسی نے ایک حرف نہیں بولا، تیرے ساتھ تیرا چوبدار تھا، سو چپ۔ مجھ پہ جو نگران تو نے رکھا، وہ جب بھی بولا، ڈرا سہما بولا۔ برتن تیرے گھر کے کھانا کسی اور کے گھر کا‘‘۔
راجا پھر حیران: ’’تو نے کیسے جانا؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میں کیسے جان گیا، تو اپنے کام میں لگا رہ اور مجھے جانے دے‘‘۔
راجا بولا: ’’اندھے! تو مجھے کام کا آدمی لگتا ہے، میں تجھ سے کوئی مشورہ مانگوں تو صحیح مشورہ دے گا؟‘‘۔ فقیر نے کہا: ’’ہاں، چاہے تجھے برا لگے۔‘‘ راجا نے فقیر کا پانچ روپلی مہینہ وظیفہ لگا دیا اور اس کو دربار میں بٹھایا۔ سارا دن وہ بیٹھا لوگوں کی باتیں سنتا اور رات کو کھولی میں آ جاتا۔ راجا اُس سے پوچھتا تو وہ بتا دیتا کہ فلاں نے سچ بولا، فلاں نے جھوٹ کہا۔ فقیر کی بہت باتیں سچی نکلتیں۔ راجا جس نے کبھی کسی سگے پر اعتبارنہ کیا تھا، فقیر کی بات کو جھٹک نہیں پاتا تھا، اندر ہی اندر ڈرتا بھی تھا۔
ایک دن راجا کو ایک گھوڑی پیش کی گئی، گھوڑی راجا کو بھا گئی، وہ اسے لے لینا چاہتا تھا، سوچا فقیر سے پوچھ لوں۔ بولا: ’’اندھے! بتا میں یہ گھوڑی لے لوں کہ نہ لوں؟‘‘ فقیر بولا: ’’مجھے گھوڑی تک لے چل‘‘۔ اسے گھوڑی تک لے جایا گیا، اس نے گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور بولا: ’’بادشاہ! یہ گھوڑی میدان میں دغا دے گی۔ لینی ہے تو لے لے۔‘‘ بولا: ’’آنکھوں والوں کو دِکھی نہیں کیا؟ تو کہتا ہے دغا دے گی! مجھے تیری بات کا ثبوت چاہئے!‘‘۔ فقیر بولا: ’’ایک حوض میں پانی بھر، کہ وہ گھوڑی کے پیٹ کو لگے، پھر گھوڑی کو اس میں اتار دے‘‘۔ گھوڑی کو حوض میں اتارا گیا تو اُس نے پانی سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ راجا بولا: ’’یہ اَڑ کیوں گئی اندھے!‘‘ فقیر بولا: ’’میں نے کہا تھا نہیں بتاؤں گا، پر چل! بتا دیتا ہوں۔تیری طرح ناز نخرے میں پلی ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا تو اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، میدان کی ہوتی تو کھال کو چھانٹتی! اَڑے گی نہیں تو کیا کرے گی؟‘‘۔ راجا خوش ہو کے بولا: ’’آدھی روپلی بڑھا دو اِس کا وظیفہ!‘‘
راجا کو ایک لڑکی پسند آ گئی وہ اسے محل سرا میں لانا چاہتا تھا۔ فقیر سے پوچھا تو بولا: ’’اُس لونڈیا سے کہہ میرے آگے سے گزر جائے۔‘‘ راجا بولا: ’’تجھے کون سا دِکھتا ہے، اندھے! کہ تو دیکھ کے بتائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’جو میں نے کہا وہ کر، نہیں تو جا اپنی مرضی کر‘‘۔ لڑکی کو فقیر کے آگے سے گزارا گیا۔ لڑکی چلی گئی تو فقیر نے بتایا ’’یہ ڈومنی کی چھوکری ہے، ساری عمر کوٹھے پہ گزری ہے اس کی، چاہے تو بیاہ لے چاہے تو ویسے رکھ لے، یہ کچھ برا نہیں منائے گی‘‘۔ راجا نے لڑکی کو آزمایا تو وہ سو جان سے قربان ہونے پہ تیار۔ تحقیق کرائی پتہ چلا، فقیر نے جو بتایا وہ سب سچ تھا۔ راجا نے پوچھا: تو کن لوگوں کے پیچھے پھرتا ہے اندھے! تو پہلے سے اس لڑکی کو جانتا تھا؟ پر نہیں تو کیسے جان سکتا ہے ۔ پر یہ تو نے کیسے جانا کہ وہ ڈومنی کی بیٹی ہے؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔ راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔
راجا فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا۔ ایک دن فقیر نے کہا: ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘ کہا: ’’بول‘‘ ، کہا: ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔ راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا: ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔
قسمت کا لکھا ہو کے رہتا ہے۔ ایک دن راجا کو سوچ آئی کہ میرا باپ کون تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا: ’’میری حقیقت کیا ہے‘‘۔ فقیر ذرا دیر کو چپ رہا، پھربولا: ’’یہی سوال ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ خیر، میں تجھے بتاؤں گا ضرور، پر میری ایک شرط ہے۔ مجھے اُسی ٹاہلی کے نیچے لے چل، اور صرف تو میرے ساتھ جائے گا‘‘۔ راجا کو مانتے ہی بنی۔
دوپہر ڈھل رہی تھی جب وہ ٹاہلی کے نیچے پہنچے۔ فقیر نے راجا کو سائے میں بیٹھنے کو کہا، اور خود ذرا ہٹ کے اپنے گرد حصار کھینچ لیا۔پھر بولا: ’’میں جو کہوں گا، اُسے سن کے تو باؤلا ہو جائے گا، اس لئے میں نے اپنے گرد حصار کھینچا ہے۔ اس میں گھسنے کی کوشش نہ کرنا نہیں تو بھسم ہو جائے گا۔‘‘ راجا بہت بھنایا اور بولا: ’’زیادہ بَڑ بَڑ نہ کر اندھے! مجھے بتا میرا باپ کون تھا‘‘۔ فقیر بولا: ’’تو کسی چمار کا بیٹا ہے جو تیرے ظاہری باپ کا نمک خوار تھا۔ اب جا اور جا کے پڑتال کر لے‘‘۔ راجا غصے سے حصار کی طرف بڑھا مگر ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا: ’’تو نے جو کہا، جھوٹ نکلا تو جان کہ تو مارا گیا، اور سچ نکلا تو بھی مارا گیا‘‘۔ فقیر بولا: ’’یہ تو میں جان گیا تھا کہ تو میری جان کو آئے گا، پر یہ کوئی نہیں جانتا کہ تو مجھ پر قابو بھی پا سکے گا کہ نہیں۔ اب جا!!‘‘۔
راجا نموشی کا بارکاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔ پہلے تو اپنی ماں کو خوب مارا پیٹا، وہ دہائی دیتی رہی پر کون ہوتا جو راجا کے منہ لگتا۔ ماں ادھ موئی ہو کے گری پڑی تھی تب اُس نے پوچھا: ’’بول میرا باپ کون تھا‘‘۔ بڑھیا جان گئی تھی کہ اب کچھ چھپائے نہ چھپے گا۔ بولی تو مَوجُو چمار کا بیج ہے جو مہاراجاکے زمانے میں اصطبل اور محل سرا کی صفائی کا نگران تھا۔ ایک بارمہاراجا جو شکار کو نکلا تو کئی دن لوٹ کے نہیں دیا۔ اُس پیچھے کچھ ایسا ہو گیا کہ موجو چمار کا ۔۔۔ ‘‘ راجا اس سے آگے کچھ نہ سن سکا۔ اُس نے تلوار کے ایک ہی وار میں اپنی ماں کی گردن اڑا دی اور لہو سے لتھڑی تلوار لئے آندھی طوفان کی طرح ٹاہلی تک جا پہنچا۔
فقیر ابھی تک حصار میں بیٹھا تھا۔ راجا نے اسی تلوار کا وار کیا، تو تلوار حصار کے اندر نہیں گئی، ٹن ن کی آواز سے واپس پلٹ آئی۔ راجا جھاگ اگل رہا تھا: ’’میں اُس کو مار کے آیا ہوں، اب تو مرے گا!‘‘ فقیر بولا: ’’وہ عورت تیری ماں تھی اور تو خود اس کا پاپ! ارے پاپ نے پاپن کو مارا تو کیا مارا!‘‘ راجا جان گیا تھا کہ وہ فقیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہیں ڈھے گیا اور ہارے ہوئے لہجے میں بولا: ’’اب تو بتادے کہ تو نے کیسے جان لیا؟‘‘
فقیر بولا: ’’ایک: تیرا وہ دان ایک کھوٹی دمڑی کا ایک اندھے فقیر کو، اور وہ بھی بڑے گھمنڈ سے؛ دوجا: تیرا ہر بات پر مجھے اَندھا کہہ کے بلانا؛ تیجا: تیرے لوگوں کا تجھ سے ڈرنا اور تیرا اُن پر اعتبار نہ کرنا؛چوتھا: تیرا خوش ہونے پر بجائے کوئی دھن دان کرنے کے وظیفہ بڑھانا، اور وہ بھی آدھی روپلی؛ پانچواں: تجھے گھوڑی گدھی کی پہچان نہ ہونا؛ چھٹا: بادشاہ ہو کے ڈومنیوں سے پیچ لگانا؛ اور ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔ یہ سارا کچھ کسی بادشاہ کا پوت نہیں کر سکتا۔ اور اُس کا ثبوت ہے تیرا اپنی ماں پر ہاتھ اٹھانا اور پھر اُس کو جان سے مار دینا جس نے تجھ حرامی کو اپنے لہو اور دودھ سے پالا۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے‘‘۔ راجا تو جیسے زمین میں گڑ گیا ہو، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛ ٹھوڈی سینے سے لگ گئی تھی۔ کتنے جتن سے اُس نے سر اٹھایا تو دیکھا، فقیر وہاں نہیں تھا، حصار سے باہر کشکول پڑا تھا، جس میں ایک دمڑی رکھی تھی، وہ بھی کھوٹی۔
سنا ہے اسی ٹاہلی کے نیچے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ہے؛ ہٹا کٹا، دیکھتا بھالتا، ہر ایک سے ایک کھوٹی دمڑی کا سوال کیا کرتا ہے۔کوئی دے دے تو اس کی طرف گھورتا ہے، نہ دے تو اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے اور اپنی زنگ بھری اسی تلوار سے زمین پر وار کرنے لگتا ہے جس کی دھار نے اس کی ماں کا لہو پیا تھا!!۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محمدعلم اللہ اصلاحی
ماہی احمد
محمد خلیل الرحمٰن
فلک شیر
الف عین
محب علوی
سید شہزاد ناصر
محمد وارث
مدیحہ گیلانی
اور جملہ اہلِ نظر احبابِ محفل
دانائی بھری تحریر جو اول تا آخر طلسم قائم کیے ہوے ہے۔ کہ قاری پورے انہماک سے پڑھتا جاتا ہے اور تحریر دل و دماغ کو مسحور و منورکرتی جاتی ہے۔
بہت شکریہ سلامت رہیں
 
کیا کہنے استاد جی :)
آپکی تحریر نے اپنے طلسم میں ایسا اسیر کیا کہ اب تک اس کے سحر سے نکل نہیں پایا پڑھنے کے بعد ریٹنگ ہی دی تھی کہ بجلی دغا دے گئی اب بجلی آئی تو پھر دوبارہ پڑھا تحریر کیا ہے حکمت اوردانائی کے موتی ہیں :notworthy:
اللہ آپ کے قلم کی تابناکی کو اسی طرح قائم دائم رکھے آمین
 

قیصرانی

لائبریرین
استادِ محترم، اگر ناگوار نہ گذرے تو ایک الجھن تو رفع فرما دیجئے
فقیر کا ایک طرف تو بادشاہ سے ڈرنا کہ وہ کہیں یہ سوال نہ پوچھ لے، اور پھر اس کا اتنا باکمال ہونا کہ اس کے کھینچے ہوئے حصار سے بادشاہ کی تلوار نہ گذر پانا
 
استادِ محترم، اگر ناگوار نہ گذرے تو ایک الجھن تو رفع فرما دیجئے
فقیر کا ایک طرف تو بادشاہ سے ڈرنا کہ وہ کہیں یہ سوال نہ پوچھ لے، اور پھر اس کا اتنا باکمال ہونا کہ اس کے کھینچے ہوئے حصار سے بادشاہ کی تلوار نہ گذر پانا
فقیر لوگ ایسے ہی باوصف ہوتے ہیں۔ :)
 
استادِ محترم، اگر ناگوار نہ گذرے تو ایک الجھن تو رفع فرما دیجئے
فقیر کا ایک طرف تو بادشاہ سے ڈرنا کہ وہ کہیں یہ سوال نہ پوچھ لے، اور پھر اس کا اتنا باکمال ہونا کہ اس کے کھینچے ہوئے حصار سے بادشاہ کی تلوار نہ گذر پانا

بہت شکریہ جناب قیصرانی صاحب۔ آپ کا اشارہ یقیناً ان سطور کی جانب ہے۔

فقیر بولا: ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔ راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔
راجا فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا۔ ایک دن فقیر نے کہا: ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘ کہا: ’’بول‘‘ ، کہا: ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔ راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا: ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔


اس میں ڈر کی وہ کیفیت شاید نہیں ہے، جسے جان کا خوف کہتے ہیں (ہاں میرے الفاظ میں کمزوری ہو سکتی ہے) ۔ اندیشہ اسے اس بات کا تھا کہ بادشاہ اپنی ’’اصل‘‘ کو بھی جاننا چاہے گا، جس کا جواب (جو فقیر کے پاس ہے) کسی بھی شخص کو غصے میں اندھا کر سکتا ہے۔ جیسا کہ بعد میں ہوا بھی۔ ٹاہلی کے نیچے پہنچانے والی شرط اس اندیشے کے پیشِ نظر بھی ہو سکتی ہے، اور حصار کھینچنا ایک انداز میں دفاع سمجھ لیجئے۔ تاہم ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ فقیر اس کو ٹاہلی کے نیچے لا کر چھوڑنا چاہتا تھا؛ وہی مقام جہاں سے کہانی کی ابتدا ہوتی ہے۔

واقعاتی ترتیب کو میں نے اپنے (حافظے کی حد تک) رکھا اسی طرح ہے جس طرح وہ اصل داستان میں تھی۔ اب تو داستان گو کا نام بھی یاد نہیں رہا۔ میری ان گزارشات کو تاویل سمجھ لیجئے۔ توجہ کے لئے بارِ دگر ممنون ہوں۔
 
فقیر لوگ ایسے ہی باوصف ہوتے ہیں۔ :)

یہ بھی تو ممکن ہے کہ فقیر کو اپنی جان کے خوف سے زیادہ اس سوال کا خوف ہو جس کا جواب سن کر سائل خود اپنی نظروں سے گر جائے۔

داستان گو ہم میں موجود ہوتے تو ہم اپنی تشفی کے لئے بھی ان سے پوچھ لیتے۔:chicken2:
 
مزید ملاحظہ ہو ۔۔ فقیر کے (آخری) تفصیلی جواب کا یہ حصہ ۔۔

ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔ ۔۔۔۔۔۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
۱۸؍ جون ۲۰۰۲ء
حکمِ اذاں
(علامہ اقبال کی نظم ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا مطالعہ)

اس درخواست کے ساتھ کہ میری بات اگر حق کے اتباع اور تطابق میں ہے تو اس کو قبول کیجئے گا،
اور اگر حق کے خلاف جاتی ہے تو اسےبلاتردد رد کر دیجئے گا۔
اللہ کریم ہم سب کو سیدھی سوچ سے نوازے۔



حکیم الامّت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فن اور مقصد کو یوں یک جان کر دیا جیسا ان سے پہلے کسی سے نہ ہوا تھا۔ علامہ کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ عمیق افکار کا وہ رچاؤ پایا جاتا ہے جس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی خاص بات عالمانہ سلاست ہے۔فنِ شعر کی عمومی اصطلاح ’’سلاست‘‘ اقبال کے کلام پر یوں موزوں نہیں بیٹھتی کہ ان کے ہاں سادہ اور آسان فہم الفاظ کی بجائے فارسی کی بھاری بھرکم تراکیب زیادہ مستعمل ہیں۔ سحرطرازی کی بات یہ ہے قاری کو ان تراکیب کی ثقالت کا احساس تک نہیں ہوتا، اور وہ انہیں سلاست کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی تلمیحات ان کی دقیق بصیرت کا پتہ دیتی ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ تلمیحات استعارے بن جاتی ہیں۔ کلامِ اقبال کے اسی وصفِ خاص کو ہم نے ’’عالمانہ سلاست‘‘ کا نام دیا ہے۔

اقبال کا عرصۂ حیات وہ تھاجب پوری دنیا کی سیاسی بساط تغیر پذیر تھی اور بڑی بڑی عالمی سیاسی قوتوں پر تبدیلیوں کے سائے منڈلا رہے تھے۔ برطانوی سامراج، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتا، نوآبادیات پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے اثرات ابھی زوال پذیر بھی نہ ہوئے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے سائے لرزنے لگے۔ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ایک عرصہ بعد ہندوستان میں مغلیہ دور کا خاتمہ، پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریاں اور دوسری عالمی جنگ کے آثار،اسلامی دنیا کی بے حسی، چین میں سیاسی بیداری اور یورپی حکومتوں کا خلفشار، الغرض پوری دنیا بے چینی کا شکار تھی۔ ہندوستان کے اندر بھی سیاسی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور یہاں کے دونوں بڑے مذہبی گروہ ہندو اور مسلمان بدیسی تسلط کے خلاف نہ صرف متحرک ہو چکے تھے بلکہ گاندھی اور محمد علی جناح جیسی شخصیات میدانِ عمل میں آ چکی تھیں۔ ان کی کوششوں کا رخ اگرچہ مختلف تھا، تاہم ایک قدرِ مشترک یعنی انگریزی تسلط سے نجات کی کوشش ضرور موجود تھی۔ سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ بہت سے سماجی عوامل ایسے تھے جو کسی بھی صاحبِ دل کو بے چین کر دینے کے لئے کافی تھے۔ اقبال کی دور بین نگاہوں نے وہ مناظر بھی دیکھ لئے تھے جو عام ہندوستانی مسلمان کی نظر کی رسائی میں نہیں تھے۔ جستجو کا وہ مادہ جو ایک مردِ فقیر کی شخصیت کا خاصہ ہو سکتا ہے، ان کی تمام شاعری میں نمایاں ہے۔ اسی عنصر کی کارفرمائی تھی کہ علامہ نے فارس کی تہذیب پر مابعدالطبیعیات کا مطالعہ کیا اور مذہبی افکار کی تہذیبِ نو پر کام کیا۔ انہوں نے مولانا روم سے لے کر ابن عربی اور نطشے تک کے افکار کو دیکھا پرکھا۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا مطالعہ کیا تو امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پر تڑپ اٹھے۔ اقبال نے اسلامی دنیا کے مسائل کا عملی حل وہی پیش کیا جو قرونِ اولیٰ میں کامیاب ثابت ہو چکا تھا۔ اقبال کے پیغام کا خلاصہ اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہو گا کہ ’’مسلمانوں کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا!‘‘۔

اس پیغام کی ترسیل کے لئے فطرت نے اقبال کو نہ صرف حکیمانہ نظر عطا کی تھی بلکہ نوائے سروش سے بھی نوازا تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں اقبال کی شاعری بلا مبالغہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے پیرائے کا تتبع بھی کسی سے نہ ہو سکا، اور اگر کہیں کسی نے کوئی ایک آدھ شعر اس ڈھنگ میں کہہ بھی لیا تو عوام الناس نے اس شعر کو بھی اقبال کے حساب میں ڈال دیا۔

آج بھی ناقدین کی اکثر محفلوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: شاعری میں فن کو اولیت حاصل ہے یا مقصد کو؟ جب کہ کلامِ اقبال کی صورت میں اس سوال کا شافی جواب ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے، جہاں فن اور مقصد دونوں ایک دوسرے کو نکھارتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں کلامِ اقبال ایک سرمدی پیغام بن جاتا ہے۔ اقبال کی دوسری بہت بڑی خصوصیت ان کے ہاں روایت سے ایسا مضبوط رابطہ ہے جس سے جدتیں پھوٹتی ہیں۔ ان کے بہت سے معاصرین اور متقدمین کے ہاں یہ عمومی مسئلہ رہا ہے کہ بہتوں کی روایت نے جمود کی صورت اختیار کر لی اور اگر کہیں جدید تجربے ہوئے بھی تو ان میں ادبی چاشنی بری طرح متاثر ہوئی۔ موضوعات کے حوالے سے اقبال سے پہلے گنتی کے چند شعراء ایسے ہیں جنہوں نے گل و بلبل اور لب و عارض سے ہٹ کر موثر لہجے میں بات کی ہو۔ اقبال کا اعجازِ بیان یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلے سے رائج معروف تراکیب کو نئے معانی عطا کئے اور یہ کارنامہ محض نئے الفاظ یا افکار متعارف کرا دینے سے کہیں آگے ہے۔ ان کے ہاں ’’گل و بلبل‘‘ روایتی محب اور محبوب کے قالب سے نکل کر مابعدالطبعیاتی سطح پر پہنچ جاتے ہیں، ’’جنوں‘‘ منفی معانی کی گرفت سے آزاد ہو کر ایک نصب العین بن جاتا ہے، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ کلامِ اقبال کا خاصہ یہ ہے کہ دقیق موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کا انداز عالمانہ ہوتا ہے اور تعلقِ خاطر کے سادہ مضامین میں ان کے الفاظ نرم اور ملائم ہوتے ہیں۔ ان کا لہجہ مجموعی طور پر ’’دبنگ‘‘ ہونے کے باوجود، ان کے ہاں غزل کی نرماہٹ متاثر نہیں ہوتی اور نہ نظم کے بہاؤ میں کو رکاوٹ آتی ہے۔ ایسی کتنی ہی خصوصیات ہیں جو اقبال کے کلام کو اوروں سے ممتاز بناتی ہیں۔


خودی اقبال کا بہت بڑا موضوع ہے۔ آدمی جب مکمل عدل کے ساتھ خود شناسی اور خود نگہی کے عمل سے گزرتا ہے تو اسے اپنے اور اپنے خالق کے مابین حقیقی تعلق کا ادراک نصیب ہوتا ہے ۔ اللہ کی وحدانیت اور الوہیت اس کے لئے کوئی سربستہ راز نہیں رہتی اور ’’لا الٰہ الّااللہ ‘‘ کی تفسیر اس کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ یوں وہ عمومی عبدیت سے اٹھ کر نائب اللہ کے اس مقام پر فائض ہو جاتا ہے جو تخلیقِ انسان اور ’’فی الارض خلیفہ‘‘ کا حقیقی مقصد ہے۔ خلیفۃ اللہ کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ زمین میں ’’لا الٰہ الّااللہ ‘‘ کا قانون نافذ کرے اور یہی اسلام کی روح ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کائنات بے مقصد تخلیق نہیں کی گئی اور اس میں اللہ کا نائب فارغ البال رہنے کے لئے مقرر نہیں ہوا۔ فراغ کا تصور نائب اللہ کے مقام سے لگّا نہیں کھاتا، اسے اللہ کی بنائی ہوئی کائنات میں موثر کردار ادا کرنا ہے لہٰذا یہاں ’’تقدیر‘‘ کا انفعالی تصور ناقص قرار پاتا ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں ’’اقبال کا خودی کا تصور عین اسلام کا تصور ہے‘‘۔ اقبال کی نظم ’’لا الٰہ الااللہ‘‘ کا مطالعہ ہمارے اس موقف کی دلالت کرتا ہے۔

خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ​

الٰہ اور معبود کے معانی عموماً خلط ملط کر دئے جاتے ہیں حالانکہ یہ دو لفظ دو مختلف معانی رکھتے ہیں۔ معبود کے ساتھ جواز کی شرط نہیں ، جس شخص، شے، پتھر، مظہرِ فطرت وغیرہ کو لوگ پوجنے لگے وہ معبود ٹھہرا۔ ’’قل یا ایّہا الکٰفرون ۔ لا اعبدُ ما تعبدون ۔ ولا انتم عابدون ما اعبد ۔ ولا انا عابدٌ مّا عبدتّم ولا انتم عابدون ما اعبدُ ۔ لکم دینُکم و لِیَ دینِ‘‘ ۔ پوجنے والے اور پوجے جانے والے کہاں تک حق بجانب ہیں، یا ہیں بھی کہ نہیں؟ لفظ ’’معبود‘‘ اس پر بحث نہیں کرتا۔ اِلٰہ کے ساتھ جواز شرط ہے۔ اِلٰہ یا حقیقی معبود کامقام کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا، ماسوائے اس ہستی کے جو تمام تصورات سے بالاتر ہو،جو کسی بھی لحاظ سے کسی پر انحصار نہ کرے، جس کا وجود کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو، جو اپنے ارادے اور عمل میں کسی دوسرے کی منظوری یا نامنظوری سے مبرّا ہو، جو کسی دوسری ہستی کا عبادت گزار نہ ہو، جو زمان اور مکان کی یا کسی بھی دوسری قید سے آزاد ہو، جس کے لئے یہ لازم نہ ہو کہ وہ دوسروں پر عیاں ہے یا نہیں، جس کی ہر امکانی اور غیر امکانی شے تک نہ صرف رسائی ہو بلکہ وہ ایسی ہر شے پر قدرت بھی رکھتا ہو، اس کی عبادت کرنے والے اس کی مرضی، منشا اور ارادے کے ماتحت ہوں اور وہ ان کی مرضی، منشا اور ارادے سے بالاتر ہو، جس کا معبود ہونا اس امر کا مرہون نہ ہو کہ دوسرے اس کو معبود تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، بلکہ وہ فی نفسہٖ معبود ٹھہرے۔ غور طلب سوال ہے کہ انسانی عقل اور اس سے ماورا کائنات میں کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو ان تمام شرائط کو احاطہ کر سکے؟ جواب اثبات میں ہے! ہاں، ایسی صرف اور صرف ایک ہستی ہے اور وہ خود اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ مفہوم ہے ’’لا اِلٰہ اِلّا اللہ‘‘ کا کہ تمام آفریدہ اور نا آفریدہ جہانوں میں کوئی بھی اِلٰہ ہونے کی شرائط پر پورا نہیں اترتا ماسوائے اس ایک اللہ کے جس کے حکم کن پر فیکون کا عمل جاری و ساری ہے۔

اللہ کے اِلٰہ ہونے کا تصور، ماسواء اللہ کے اِلٰہ ہونے کی مکمل نفی کرتا ہے اور ایسے تمام تصورات اور عقائد کا بطلان کرتا ہے جو اُس ایک ذات کے سوا کسی بھی حوالے سے کسی دوسرے کو معبود کے مرتبے پر فائز کر سکے۔ انسان نے بسا اوقات ماسوای اللہ کو بھی الٰہ کے مقام پر فائز کر دیا، تاہم یاد رکھنے کی بات ہے کہ اللہ نے ایسے جھوٹے الٰہوں کے لئے جہاں بھی لفظ الٰہ فرمایا ہے وہاں طنز یا نفیِ قطعی ساتھ ہی کر دی ہے۔ گویا فطری طور پر انسانی تصور کو کسی ایسی تیغ کی ضرورت ہے جو الوہیت سے متعلقہ ایسے تمام عقائد اور تصورات کو کاٹ پھینکے جو ماسواء اللہ کی طرف جاتے ہوں۔ یہ وہی تیغ ہے جو ایک دین سے دوسرے ادیان کوقطع کرتی ہے، اسی کو اقبال نے ’’خودی‘‘ کا نام دیا ہے اور اس تیغ کو کارآمد اور آبدار رکھنے کے لئے اس فساں یا سان کی ضرورت باقی رہتی ہے جس میں الوہیت غیراللہ کے رد کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ معبود حقیقی کے تصور کا صحیح ادراک لاالٰہ الّااللہ کے راز سے آگہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ سربستہ راز ہے جو کسی کی عقل کے احاطے میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ خالق وہ ہے اور یہ مخلوق کے بس کی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ اپنے خالق کی حقیقت کو جان سکے۔ حفظِ خودی یا روحِ اسلام اسی سرِ نہاں کو تسلیم کرنا ہے اور اس کے سوا کسی بھی دوسرے کو الوہیت کے مقام پر رکھنے کی مکمل نفی ہے۔ اقبال کی اس نظم کا مطلع انہی افکار کا مظہر ہے۔

اللہ تعالیٰ کی الوہیت اصولاً اس بات کی متقاضی ہے کہ صرف اللہ کو معبود و مسجود تسلیم کیا جائے اور اسی کو دعا اور طلب کا مرجع بنایا جائے۔ اُس کے سوا کسی بھی دوسری ہستی کو معبود بنا لینا دو حوالوں سے ظلم قرار پاتا ہے : اول یہ کہ الوہیت اور عبودیت جو اللہ کا حق ہے کسی دوسرے کو دے دیا جب کہ وہ دوسرا اس مقام کا حقدار نہیں تھا لیکن اس پر فائز کر دیا گیا۔ دوم یہ کہ انسان جو اپنے ہبوط میں اللہ کا نائب ہے اور اس سے اوپر اللہ کے سوا کوئی نہیں، اس نے کسی دوسری شے کو معبود کی صورت میں خود سے افضل تسلیم کر لیا اور خود اپنے ساتھ ظلم کیا۔ یہ دوسری شے کوئی دوسرا انسان ہو، کوئی پتھر ہو، کوئی درخت، پانی کی موج، آگ کا لپکا، کوئی ستارہ ہو یا کوئی ایسی خواہش، محبت، اشتہاء، جذبہ ہوجس کی وجہ سے اللہ کا مقام الوہیت نظر سے اوجھل ہو جائے، صنم بن جاتا ہے۔ صنم کے لئے مادی وجود لازمی نہیں۔ جو شے بھی، خواہ مرئی ہو یا غیر مرئی، مادی ہو یا غیر مادی ، حقیقی ہو یا غیر حقیقی، جب عابد اور معبودِ حقیقی کے درمیان آ جائے اور اللہ اور بندے کی رابطہ لائن کو کاٹ دے، صنم ہے۔ صنم کو کاٹنے کے لئے خودی کی وہ تیغِ مبرّم درکار ہے جو لاالٰہ الّا اللہ کی فساں پر گھِس کر آبدار ہوئی ہو۔ تیغ بردار یقیناًوہ شخص ہو گا جو عقلی، فکری اور ایمانی سطح پر لاالٰہ الّا اللہ پر یقین رکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان عقلِ سلیم اور فکرِ راست کی ایک درخشاں مثال ہے۔ آپ علیہ السلام نے مشاہدہ کیا کہ لوگ گونگے بہرے اور بے دست و پا اصنام کو معبود بنائے بیٹھے ہیں، جو اپنا وجود برقرار رکھنے پر بھی قادر نہیں اور کوئی بھی انہیں توڑ کر ریزہ ریزہ کر سکتا ہے۔ خود نمرود اس وقت کا سب سے بڑا، جیتا جاگتا بت تھا جو معبود بنا بیٹھا تھا۔

ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کا اس دنیا میں آنے سے پہلے ایک عرصہ تک آسمانوں پر قیام رہا۔ آپ نے جنت میں سکونت رکھی، اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے فیض یاب ہوئے جو جیتے جی کسی اور کو نہ ملی ہوں گی۔آپ علیہ السلام کو جہنم کا بھی علم تھا، جنات اور فرشتوں کا بھی اور وہ علوم بھی آپ کو حاصل تھے جن کا مختصر حوالہ کتابِ مبین میں دیا گیا ہے۔ ابلیس کی چالوں سے آپ کو خبردار کر دیا گیا تھا۔ آپ کو پہلا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پہلا نبی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ زمین پر آ ئے تو آپ کی اولاد ہی آپ کی امت ٹھہری۔ یوں الٰہ کا تصور فطرت کا خاصہ بن گیا۔ خلیفۃ اللہ کی حیثیت سے بھی انسان کوایک اور صرف ایک الٰہ پر یقین رکھنا لازمی ہے۔ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ فطری طور پر انسان کو ایک معبود کی ضرورت ہے، اور وہ معبود ایسا نہیں ہو سکتا تھا جیسے معبود آپ نے دیکھے۔ آپ متلاشی تھے۔ ستارے کو دیکھا تو کہا کہ ہو نہ ہو یہ میرا رب ہے، یہ بلند، چمکدار اور متحرک ہے۔ مگر وہ ڈوب گیا۔ چاند کو دیکھا کہ یہ اُس سے بڑا ہے، زیادہ نورانی ہے، اس کی روشنی میں راحت کا احساس ہے، کہا: وہ نہیں یہ میرا رب ہے۔ وہ بھی ڈوب گیا! سورج کو دیکھا، کہا یہ ان دونوں سے بڑا ہے، اس کی روشنی میں حرارت اور زندگی ہے، کہا: یہ میرا رب ہے، مگر وہ بھی ڈوب گیا۔ حقیقی الٰہ کو زوال نہیں ہو سکتا! کہا: نہیں میرا رب زوال پذیر تو کیا زوال آمادہ بھی نہیں ہو سکتا، میرا رب تو وہ ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا۔ میں ان سب سے منہ موڑتا ہوں اس ہستی کی طرف جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا۔

قابلِ توجہ امر ہے کہ جب ایک معبودِ حقیقی موجود ہے تو ان اصنام کی پوجا کا کوئی جوازباقی نہیں رہتا، ان کو ختم ہو جانا چاہئے۔ کلہاڑا لیا اور ان جھوٹے معبودوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ پرسش ہوئی تو کہا: خود اپنے معبودوں سے پوچھ لو، کہ ان کا یہ حال کس نے کیا ہے۔بھٹکے ہوئے لوگوں کو خفت زدگی کے ساتھ تسلیم کرنا پڑا کہ یہ اصنام تو ہلنے بولنے پر قادر نہیں، توڑ پھوڑ کیسے کر سکتے ہیں؟ بوالعجبی یہی ہے کہ عابد تو سن سکتا ہے، بول سکتا ہے، حرکت کر سکتا ہے اور معبود میں یہ بھی سکت نہیں۔ظلم کی یہ بدترین صورت ہے!

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الّا اللہ​

اصنام آج بھی موجود ہیں، مگر ان کی صورت اور ہیئت میں کسی قدر تبدیلی واقع ہو گئی ہے۔ اقتدار، مال و منال، ہوائے دوام، لذت، لہوو لعب، ہوسِ جاہ اور ایسے بے شمار اصنام الٰہ اور انسان کے درمیان آ کھڑے ہوئے ہیں اور آج کے نام نہاد قائدینِ عالم ان بتوں کو پوجتے بھی ہیں اور اسی طرح حفاظت بھی کر رہے ہیں جیسے نمرود کے پجاری کیا کرتے تھے۔ یہاں ’’براہیم‘‘ ایک ایسے انداز فکر و عمل کی علامت ہے جو اِن سب بتوں کو توڑ کر ابنِ آدم کو لا الٰہ الااللہ پر جمع کرے۔ اور اللہ کے گھر کی اس مرکزی حیثیت کا احیاء کرے جہاں سے تمام عالم پر اللہ کا قانون عملاً نافذ کیا جائے۔یہ زمانہ کسی ایسے مردِ حق کا منتظر ہے، جو اِس امت میں کہیں پوشیدہ ہے جس کی نسبت براہیمی ہے اور جو ایک جہانِ نو کا معمار ہے۔ یہ ایک فرد بھی ہو سکتا ہے، اور ایک جماعت بھی، کوئی بندۂ صحرائی بھی اور کوئی مردِ قہستانی بھی۔ اقبال کو فی زمانہ ایسا کوئی فرد یا گروہ نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس وہ دیکھتے ہیں کہ جن کے اسلاف پیغمبرانہ صفات کے حامل تھے، وہ بت گری میں مشغول ہیں، اللہ سے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے ہچکچاتے نہیں۔ دورِ حاضر میں اللہ کا نام لینے والوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ حیات بعد الموت پر یقین نہیں رکھتے اوراس جہانِ آب و گِل کو جاوداں سمجھے بیٹھے ہیں، گویا یہ عالمِ فانی بھی ایک صنم ٹھہرا۔

غرور ہوا بھرے غبارے کی مانند ہے، ذرا کہیں ہوا خارج ہوئی تو سکڑ کر رہ گیا اور خارج نہ ہوئی تو بھک سے اُڑ گیا۔ متاعِ غرور یعنی عالمِ فانی کی کیفیت بھی یہی ہے۔ ایک تخیل ہے جو ہزاروں بت تراش لیتا ہے اور جیتی جاگتی ایک د نیا تخلیق کر لیتا ہے۔ پھر انسان اس کی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے، اور سود وزیاں کے اوہام کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ مومن کی اصل میراث کچھ اور ہے جس کا سب سے قیمتی جزو حفظِ خودی ہے۔ اس جوہر کے مقابلے میں متاعِ غرورکو ترجیح دینا کسی طرح بھی دانش مندی نہیں کہلا سکتا۔

کیا ہے تو نے غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الٰہ الا اللہ​

اصل متاع وہ جوہرِ خودی ہے جس کی بنیاد لاالٰہ الااللہ پر ہے۔ عقل شواہد کے تابع ہے اور اس دنیا کے شواہد اسی غبارے کا حصہ ہیں جس کی فسوں کاری کا کلی انحصار مقید ہوا پر ہے۔ عقل عالمِ حوادث سے آگے جا ہی نہیں سکتی، جب تک اسے ایقان و ایمان کا وسیلہ دستیاب نہ ہو۔ اِس کے پاس لے دے کر وہم و گمان کے کچھ بُت رہ جاتے ہیں۔ ایک بُت انسان کا انسان سے تعلق ہے، یہ دو بھائیوں کا بھی ہو سکتا ہے، میاں بیوی کا بھی، آقا اور غلام کا بھی، عابد اور معبود کا بھی، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ یہ تعلق بھی تب تک ہے جب تک متعلقین موجود رہیں اور تعلق قائم رہے۔ دوسرا بت متاعِ جہان ہے، مال و دولت جس کے لئے انسان انسان نہیں رہتا۔ اور مال و دولت حاصل کر بھی لے تو صورتِ قارون خزانے کے ساتھ زمین کا رزق ہو جانا ہی اس کا مقدر ہے۔

یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ​

زمان اور مکان کی حقیقت ایک حرف ’’کن‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ’’کن‘‘ کہنے والا ’’لاتکن‘‘ کہنے کا بھی مختار ہے۔ اُس نے اِس عالمِ حوادث سے پرے ایک عالمِ لاہوت بنایا ہے، کتنے ہی زمانے اور جہان ایسے ہیں جن کا ادراک تو کیا، نام تک خرد کو معلوم نہیں۔ کائنات کی تخلیق کرنے والا حرفِ ’’کن‘‘ ایک دوسرا جہان بھی رکھتا ہے، جو اس جہان سے صرف ایک برزخ کے فاصلے پر ہے۔ وہ جہان اتنا بڑا ہے کہُ اس کے مقابلے میں اِس جہان کی حیثیت صفر ہے، بایں ہمہ کہ اِس کائنات کی پہنائی انسان کو خوف زدہ کر دیتی ہے۔ عقل یا سائنس کے پاس وہی حوالے اور دلائل ہیں جو اسی کائنات سے ماخوذ ہیں۔ کائنات کی تسخیر، جس کا مژدہ خالقِ کائنات نے سنایا ہے، اُس تدبر اور فکرِ رسا کے بغیر ممکن نہیں جو مقامی حوالوں سے باہر نکل کر سوچے۔ افلا تتفکرون کا منشا اور مقصد یہی ہے اور حاصل لاالٰہ الا اللہ کا مرجع ہے۔

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الٰہ الا اللہ​

حالانکہ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت وہ سربستہ راز ہے جو مستور ہوتے ہوئے بھی مختلف انداز میں جلوہ گر رہتا ہے۔ اسی رازِ نہاں کے جلووں کی تلاش عشق ہے۔ازلی حقیقت یہی لاالٰہ الا اللہ ہے، اور اسے تسلیم کئے بغیر نہیں بنتی۔ لا الٰہ الا اللہ کا مفہوم پا لینا، آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے اور ایک سرمدی سکون بہم پہنچاتا ہے۔ انسان کے لئے یہ بات کم اطمینان کی تو نہیں کہ اُس سے بالا تر ایک اور صرف ایک اللہ ہے جو جتنا جبار اور قہار ہے اتنا ہی ستار اور غفار بھی ہے،جس کا شیوہ عدل ہے۔ ہاں اگر کوئی خودپر ظلم کرے تو اس کی ذمہ داری اس رحیم و کریم مالک پر عائد نہیں ہوتی۔ مناسب ہو گا کہ یہاں ’’ظلم‘‘ کا مفہوم واضح کر لیا جائے۔ جو نہیں ہونا چاہئے وہ واقع ہو، یا جو ہونا چاہئے وہ نہ ہو، یا ’ہونا چاہئے‘ اور’ نہیں ہونا چاہئے‘ کا فرق مٹ جائے تو یہ ظلم ہے۔ اسی بناء پر تیرگی کو ظلمت کہا گیا کہ وہاں یہ تمیز نہیں رہتی کہ کیا ہو رہا ہے۔ بالفاظِ دیگر حق دار کو اس کا حق نہ دیا جائے یا غیر مستحق کو حق دار بنا دیا جائے، یا حق دار اور غیر مستحق کا امتیاز باقی نہ رہے تو یہ ظلم ہے۔ عبدیت کی اصل روح یہ ہے کہ تمام محبتیں، خواہشات اور اعمال معبود کے لئے اور اس کی مرضی اور منشاء کے ماتحت ہو جائیں اور معبودِ حقیقی تمام ترجیحات پر اولیت حاصل کر لے۔ جب انسان نے اپنے سارے معاملات اپنے حقیقی مالک کی منشاء کے مطابق ڈھال لئے تو وہ نصیر و قدیر یقیناًاس پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا۔ اس سے بڑی مسرت اور کیا ہو گی؟

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ​

ہاں، یہ ضرور ہے کہ وہ آزماتا بھی ہے اور اپنے مقربین کو زیادہ آزماتا ہے۔ یہ آزمائش در اصل دوسروں کے لئے ہوتی ہے کہ دیکھو! میرا ذوق و شوق کیسی کیسی مشکلات کی نفی کر دیتا ہے۔ ورنہ وہ علیم و خبیر تو بخوبی جانتا ہے کہ اپنے کس بندے کو اس نے کتنا بڑا ظرف بخشا ہے۔ رہے دور ہٹ جانے والے تو یہ کھلی کھلی بات ہے کہ جو غبار کی چاہ میں اس سے دور ہو گیا، یا ذرا سی آزمائش پر پیچھے ہٹ گیا، اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایسا شخص یا ایسی جماعت اِس دارِ فانی میں عسرت سے گزارے یا عشرت سے، آخرش ایسوں کو خواری نصیب ہو گی اور ایسی خواری جس کا تصور بھی عقل کے بس کی بات نہیں۔ مردِ مومن کا وظیفہ یہ مقرر کیا گیا کہ عیش و آرام میں بھی اور محن و آلام میں بھی وہ لاالٰہ الا اللہ سے غافل نہ ہو۔

اب اس کا کیا کیجئے کہ بار بار کے انتباہ کے باوجود انسان عارضی لذتوں اور خسارے کی طرف دوڑتا ہے۔ ایک مردِ خدا اپنے زمانے کے بتوں کو توڑتا ہے تو بعد والے نئے بت تراش لیتے ہیں۔ کوئی پتھر کا بُت ہے، جس سے مرادیں مانگی جاتی ہیں، کوئی اقتدار کا بُت ہے جس سے امان طلب کی جاتی ہے، کوئی تخیلاتی دیوتا ہے، تو کوئی جیتا جاگتا دجال ہے جس کے شر کے خوف سے اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ کوئی جمہوریت کا بت ہے، کوئی اشتراکیت کا، کوئی ملوکیت کا اور کوئی فرعونیت کا۔ کوئی مفاد کا بت ہے، کوئی اشتہا کا اور کوئی خود فریبی کا۔ جماعت کی جمعیت ان بتوں کے دائروں میں بٹ چکی ہے، انسانیت محوِ خواب ہے۔

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذان لا الٰہ الا اللہ​

ایسے میں اصلاح کا بیڑا اٹھانا کوئی آسان کام نہیں۔ کم و بیش سوا لاکھ داعیانِ حق کرہِ ارض میں ہر جگہ دعوتِ خیر دے کر اپنی اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھا گئے اور یہاں پھر کسی ’’براہیم‘‘ کی ضرورت ہے، جو سوئی ہوئی انسانیت کو جگائے۔یہ دمِ فجر بھی ہو سکتا ہے کہ ظلمت کی رات چھٹنے والی ہے اور ازلی ابدی انسانی اقدار کی صبح طلوع ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں۔ اس کارِ براہیم کو تکمیل تک پہنچانا، اب ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں بہ آوازِ بلند، بغیر کسی خوف کے، پوری دنیا کو خبردار کرنا ہے کہ انسانیت کا مرجع وہ ایک اکیلا الٰہ ہے۔انسان کو بالآخر اس کی طرف لوٹنا ہو گا، فطرت کا اصول بھی یہی ہے کہ ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ رجوع الی اللہ کے اس کٹھن سفر میں ایمان اور یقین کی قوت میسر ہو جائے تو کوئی دوری دوری نہیں رہ جاتی۔ بقول علامہ اقبال:

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا

*******​
 
کھوٹی دمڑی
(کتھا کسی کی، کہی کسی نے، لکھی ہم نے! قدیم اردوادب سے خوشہ چینی ۔ ایک داستان کا خلاصہ)

دوپہر ڈھل رہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں ایک نابینا فقیر کشکول سامنے رکھے چُپکابیٹھا تھا۔ اس نے کچھ گھوڑوں کی ٹاپ سنی اور کچھ لوگوں کی آوازیں، کان ادھر لگائے ہی تھے کہ ’’چھن ن ن ن‘‘ ایک سکہ اس کے کشکول میں گرا۔ فقیر نے اپنی بے نور آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا اور خود کلامی کے انداز میں بولا: ’’واہ بادشاہ! ایک دمڑی دی فقیر کو اور وہ بھی کھوٹی!!‘‘۔ کشکول میں دمڑی پھینکنے والا واقعی اس راجدھانی کا راجا تھا۔ وہ بہت حیران ہواکہ اندھے فقیر نے یہ کیسے جان لیا کہ میں راجا ہوں اور یہ دمڑی کھوٹی ہے۔ اس نے فقیر سے پوچھا: ’’تو نے کیوں کر جان لیا، اندھے؟‘‘۔ فقیر بولا: ’’ابھی تو جا، اکیلے میں بتاؤں گا‘‘۔

راجا کے حکم پر فقیر کو محل میں لے جا کر ایک کھولی میں بٹھادیا گیا۔ راجا اپنے چوبدار کے ساتھ کھولی میں داخل ہوا اور کہا: ’’اب بول اندھے! تو مجھے اکیلے میں کیا بتانے والا تھا‘‘۔
فقیر نے کہا: ’’اپنے اس چوبدار کو چلتا کر، پھر بتاتا ہوں‘‘۔ راجا کو شک گزرا کہ فقیر اندھا نہیں ہے بنا ہوا ہے۔ چپکے واپس مڑا تو فقیر بولا: ’’تجھے شک گزرا، نا؟ جب یقین ہو جائے تب آ جائیو‘‘ ۔ وہ بہت تلملایا، فقیر پر ایک نگران مقرر کیا اور تین چار دن تک فقیر کو نہ ملا، نہ دربار میں طلب کیا۔ اسے بتایا گیا کہ فقیر سچ مچ نابینا ہے تو وہ اکیلا کھولی میں آیا۔
فقیر نے کہا: ’’ سُن! کوئی فوجدار یا کوئی ریاست کا بڑا ہی ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ لاؤ لشکر اور لگامیں ہوں، سو میں جان گیا کہ تو کوئی بڑا طاقت والا ہے۔ تونے میرے سامنے کھوڑا روکا اور سکہ کشکول میں پھینکا، سو میں جان گیا کہ تو بہت گھمنڈی بھی ہے، طاقت اور گھمنڈ آج کے بادشاہوں کا خاصہ ہے، سو میں جان گیا کہ تو بادشاہ ہے۔ میری عمر گزری ہے لوگ میرے کشکول میں سکے ڈالتے ہیں، میں سکوں کی آوازوں سے بہت کچھ جان لیتا ہوں، سو میں جان گیا کہ یہ دمڑی ہے اور وہ بھی کھوٹی۔ بس اب جا اور لوگوں کو ڈراتا رہ کہ تجھے یہی ایک کام آتا ہے‘‘۔
راجا اور بھی حیران ہوا: ’’تُوتو اندھا ہے ۔تجھے کیسے پتا کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ ‘‘۔فقیر بولا: ’’جب تو سڑک پر رکا تھا تو سب رک گئے تھے، کسی نے ایک حرف نہیں بولا، تیرے ساتھ تیرا چوبدار تھا، سو چپ۔ مجھ پہ جو نگران تو نے رکھا، وہ جب بھی بولا، ڈرا سہما بولا۔ برتن تیرے گھر کے کھانا کسی اور کے گھر کا‘‘۔
راجا پھر حیران: ’’تو نے کیسے جانا؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میں کیسے جان گیا، تو اپنے کام میں لگا رہ اور مجھے جانے دے‘‘۔
راجا بولا: ’’اندھے! تو مجھے کام کا آدمی لگتا ہے، میں تجھ سے کوئی مشورہ مانگوں تو صحیح مشورہ دے گا؟‘‘۔ فقیر نے کہا: ’’ہاں، چاہے تجھے برا لگے۔‘‘ راجا نے فقیر کا پانچ روپلی مہینہ وظیفہ لگا دیا اور اس کو دربار میں بٹھایا۔ سارا دن وہ بیٹھا لوگوں کی باتیں سنتا اور رات کو کھولی میں آ جاتا۔ راجا اُس سے پوچھتا تو وہ بتا دیتا کہ فلاں نے سچ بولا، فلاں نے جھوٹ کہا۔ فقیر کی بہت باتیں سچی نکلتیں۔ راجا جس نے کبھی کسی سگے پر اعتبارنہ کیا تھا، فقیر کی بات کو جھٹک نہیں پاتا تھا، اندر ہی اندر ڈرتا بھی تھا۔
ایک دن راجا کو ایک گھوڑی پیش کی گئی، گھوڑی راجا کو بھا گئی، وہ اسے لے لینا چاہتا تھا، سوچا فقیر سے پوچھ لوں۔ بولا: ’’اندھے! بتا میں یہ گھوڑی لے لوں کہ نہ لوں؟‘‘ فقیر بولا: ’’مجھے گھوڑی تک لے چل‘‘۔ اسے گھوڑی تک لے جایا گیا، اس نے گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور بولا: ’’بادشاہ! یہ گھوڑی میدان میں دغا دے گی۔ لینی ہے تو لے لے۔‘‘ بولا: ’’آنکھوں والوں کو دِکھی نہیں کیا؟ تو کہتا ہے دغا دے گی! مجھے تیری بات کا ثبوت چاہئے!‘‘۔ فقیر بولا: ’’ایک حوض میں پانی بھر، کہ وہ گھوڑی کے پیٹ کو لگے، پھر گھوڑی کو اس میں اتار دے‘‘۔ گھوڑی کو حوض میں اتارا گیا تو اُس نے پانی سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ راجا بولا: ’’یہ اَڑ کیوں گئی اندھے!‘‘ فقیر بولا: ’’میں نے کہا تھا نہیں بتاؤں گا، پر چل! بتا دیتا ہوں۔تیری طرح ناز نخرے میں پلی ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا تو اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، میدان کی ہوتی تو کھال کو چھانٹتی! اَڑے گی نہیں تو کیا کرے گی؟‘‘۔ راجا خوش ہو کے بولا: ’’آدھی روپلی بڑھا دو اِس کا وظیفہ!‘‘
راجا کو ایک لڑکی پسند آ گئی وہ اسے محل سرا میں لانا چاہتا تھا۔ فقیر سے پوچھا تو بولا: ’’اُس لونڈیا سے کہہ میرے آگے سے گزر جائے۔‘‘ راجا بولا: ’’تجھے کون سا دِکھتا ہے، اندھے! کہ تو دیکھ کے بتائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’جو میں نے کہا وہ کر، نہیں تو جا اپنی مرضی کر‘‘۔ لڑکی کو فقیر کے آگے سے گزارا گیا۔ لڑکی چلی گئی تو فقیر نے بتایا ’’یہ ڈومنی کی چھوکری ہے، ساری عمر کوٹھے پہ گزری ہے اس کی، چاہے تو بیاہ لے چاہے تو ویسے رکھ لے، یہ کچھ برا نہیں منائے گی‘‘۔ راجا نے لڑکی کو آزمایا تو وہ سو جان سے قربان ہونے پہ تیار۔ تحقیق کرائی پتہ چلا، فقیر نے جو بتایا وہ سب سچ تھا۔ راجا نے پوچھا: تو کن لوگوں کے پیچھے پھرتا ہے اندھے! تو پہلے سے اس لڑکی کو جانتا تھا؟ پر نہیں تو کیسے جان سکتا ہے ۔ پر یہ تو نے کیسے جانا کہ وہ ڈومنی کی بیٹی ہے؟‘‘ فقیر بولا: ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔ راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔
راجا فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا۔ ایک دن فقیر نے کہا: ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘ کہا: ’’بول‘‘ ، کہا: ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔ راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا: ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘ فقیر بولا: ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔
قسمت کا لکھا ہو کے رہتا ہے۔ ایک دن راجا کو سوچ آئی کہ میرا باپ کون تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا: ’’میری حقیقت کیا ہے‘‘۔ فقیر ذرا دیر کو چپ رہا، پھربولا: ’’یہی سوال ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ خیر، میں تجھے بتاؤں گا ضرور، پر میری ایک شرط ہے۔ مجھے اُسی ٹاہلی کے نیچے لے چل، اور صرف تو میرے ساتھ جائے گا‘‘۔ راجا کو مانتے ہی بنی۔
دوپہر ڈھل رہی تھی جب وہ ٹاہلی کے نیچے پہنچے۔ فقیر نے راجا کو سائے میں بیٹھنے کو کہا، اور خود ذرا ہٹ کے اپنے گرد حصار کھینچ لیا۔پھر بولا: ’’میں جو کہوں گا، اُسے سن کے تو باؤلا ہو جائے گا، اس لئے میں نے اپنے گرد حصار کھینچا ہے۔ اس میں گھسنے کی کوشش نہ کرنا نہیں تو بھسم ہو جائے گا۔‘‘ راجا بہت بھنایا اور بولا: ’’زیادہ بَڑ بَڑ نہ کر اندھے! مجھے بتا میرا باپ کون تھا‘‘۔ فقیر بولا: ’’تو کسی چمار کا بیٹا ہے جو تیرے ظاہری باپ کا نمک خوار تھا۔ اب جا اور جا کے پڑتال کر لے‘‘۔ راجا غصے سے حصار کی طرف بڑھا مگر ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا: ’’تو نے جو کہا، جھوٹ نکلا تو جان کہ تو مارا گیا، اور سچ نکلا تو بھی مارا گیا‘‘۔ فقیر بولا: ’’یہ تو میں جان گیا تھا کہ تو میری جان کو آئے گا، پر یہ کوئی نہیں جانتا کہ تو مجھ پر قابو بھی پا سکے گا کہ نہیں۔ اب جا!!‘‘۔
راجا نموشی کا بارکاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔ پہلے تو اپنی ماں کو خوب مارا پیٹا، وہ دہائی دیتی رہی پر کون ہوتا جو راجا کے منہ لگتا۔ ماں ادھ موئی ہو کے گری پڑی تھی تب اُس نے پوچھا: ’’بول میرا باپ کون تھا‘‘۔ بڑھیا جان گئی تھی کہ اب کچھ چھپائے نہ چھپے گا۔ بولی تو مَوجُو چمار کا بیج ہے جو مہاراجاکے زمانے میں اصطبل اور محل سرا کی صفائی کا نگران تھا۔ ایک بارمہاراجا جو شکار کو نکلا تو کئی دن لوٹ کے نہیں دیا۔ اُس پیچھے کچھ ایسا ہو گیا کہ موجو چمار کا ۔۔۔ ‘‘ راجا اس سے آگے کچھ نہ سن سکا۔ اُس نے تلوار کے ایک ہی وار میں اپنی ماں کی گردن اڑا دی اور لہو سے لتھڑی تلوار لئے آندھی طوفان کی طرح ٹاہلی تک جا پہنچا۔
فقیر ابھی تک حصار میں بیٹھا تھا۔ راجا نے اسی تلوار کا وار کیا، تو تلوار حصار کے اندر نہیں گئی، ٹن ن کی آواز سے واپس پلٹ آئی۔ راجا جھاگ اگل رہا تھا: ’’میں اُس کو مار کے آیا ہوں، اب تو مرے گا!‘‘ فقیر بولا: ’’وہ عورت تیری ماں تھی اور تو خود اس کا پاپ! ارے پاپ نے پاپن کو مارا تو کیا مارا!‘‘ راجا جان گیا تھا کہ وہ فقیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہیں ڈھے گیا اور ہارے ہوئے لہجے میں بولا: ’’اب تو بتادے کہ تو نے کیسے جان لیا؟‘‘
فقیر بولا: ’’ایک: تیرا وہ دان ایک کھوٹی دمڑی کا ایک اندھے فقیر کو، اور وہ بھی بڑے گھمنڈ سے؛ دوجا: تیرا ہر بات پر مجھے اَندھا کہہ کے بلانا؛ تیجا: تیرے لوگوں کا تجھ سے ڈرنا اور تیرا اُن پر اعتبار نہ کرنا؛چوتھا: تیرا خوش ہونے پر بجائے کوئی دھن دان کرنے کے وظیفہ بڑھانا، اور وہ بھی آدھی روپلی؛ پانچواں: تجھے گھوڑی گدھی کی پہچان نہ ہونا؛ چھٹا: بادشاہ ہو کے ڈومنیوں سے پیچ لگانا؛ اور ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔ یہ سارا کچھ کسی بادشاہ کا پوت نہیں کر سکتا۔ اور اُس کا ثبوت ہے تیرا اپنی ماں پر ہاتھ اٹھانا اور پھر اُس کو جان سے مار دینا جس نے تجھ حرامی کو اپنے لہو اور دودھ سے پالا۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے‘‘۔ راجا تو جیسے زمین میں گڑ گیا ہو، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛ ٹھوڈی سینے سے لگ گئی تھی۔ کتنے جتن سے اُس نے سر اٹھایا تو دیکھا، فقیر وہاں نہیں تھا، حصار سے باہر کشکول پڑا تھا، جس میں ایک دمڑی رکھی تھی، وہ بھی کھوٹی۔
سنا ہے اسی ٹاہلی کے نیچے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ہے؛ ہٹا کٹا، دیکھتا بھالتا، ہر ایک سے ایک کھوٹی دمڑی کا سوال کیا کرتا ہے۔کوئی دے دے تو اس کی طرف گھورتا ہے، نہ دے تو اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے اور اپنی زنگ بھری اسی تلوار سے زمین پر وار کرنے لگتا ہے جس کی دھار نے اس کی ماں کا لہو پیا تھا!!۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محمدعلم اللہ اصلاحی
ماہی احمد
محمد خلیل الرحمٰن
فلک شیر
الف عین
محب علوی
سید شہزاد ناصر
محمد وارث
مدیحہ گیلانی
اور جملہ اہلِ نظر احبابِ محفل
بہت ہی دلچسپ کتھا ۔حالانکہ ،مجھے ٹیگ ملا نہیں۔میں یہ دھاگہ دیکھ کے یہاں پہنچا ۔مزا آیا پڑھ کر اور چاچو ٹیگ کرنے کا بھی بے حد شکریہ ۔
چاچو! نموشی ۔۔۔۔۔۔شاید یہ ٹائپو ہے۔۔۔۔
 
بہت ہی دلچسپ کتھا ۔حالانکہ ،مجھے ٹیگ ملا نہیں۔میں یہ دھاگہ دیکھ کے یہاں پہنچا ۔مزا آیا پڑھ کر اور چاچو ٹیگ کرنے کا بھی بے حد شکریہ ۔
چاچو! نموشی ۔۔۔ ۔۔۔ شاید یہ ٹائپو ہے۔۔۔ ۔

بہت شکریہ حضرت!
اور یہ ’’ نموشی ‘‘ ٹائپو نہیں ہے، سچ مچ کا لفظ ہے، اگرچہ غیر مانوس ہے۔ پرانی اردو میں بھی تھا، اور اب پنجابی میں بھی مستعمل ہے۔
یہ غالباً ’’ ناموس ‘‘ سے بگڑ کر بنا ہے، اور اس کے معانی میں ’’ناموس کا مجروح ہونا‘‘ بھی شامل ہے۔ خود ذلتی کا شدید احساس؛ وغیرہ۔

اب اس جملے کو دیکھئے:
’’راجا نموشی کا بار کاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید شہزاد ناصر صاحب نے بھی یہ سوال اٹھایا تھا۔
 
آخری تدوین:
Top