تنقیدی نشست 2

ایوب ناطق

محفلین
مکمل اتفاق ۔۔۔ بلکہ میرا کہنا کچھ یوں ہے کہ اگر ہم کسی عیب کو کامل ہنر مندی سے بھرتے تو وہ عیب ہی نہ رہے جیسا کے اس نشست کے ابتدائی پیراگراف میں میں نے کہا تھا کہ
یہ بتانا ضروری تو نہیں کہ تنقید ہر پہلو سے کی جا سکتی ہے ۔۔۔۔ جیسے عروض اور اس کا معنویاتی استعمال' ابلاغ اور اس کی سطحیں۔۔۔۔ زبان و محاورہ' تعقید اور دوسرے سقم ۔۔۔ اور مفرد الفاظ کا استعمال ۔۔۔
ہیاں"عروض کے معنویاتی استعمال" سے میری مراد قریب قریب یہی تھی (اس پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے' کہ یہ بھی میری اختراع ہی ہے' لیکن پہلے عیب و ہنر کی بات ہو جائے)۔۔۔
وضاحت کے لیے بہتر ہے کہ اپنی ایک پرانی کوشش کا حوالہ دوں۔۔۔۔ تنافر ایک عیب ہے لیکن یہاں صاحبِ نظر غور فرمائے
درد دل سے جدا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
یہاں دکھ کی دوا کی درخواست کرنے کے بجائے مسیحا کو چیلنج دی جاتی ہے کہ یہ ناممکن کام کر دکھائو۔۔۔۔ چونکہ درد دل سے جدا ہو ہی نہیں سکتا ۔۔اس لیے دونوں کو تنافر کے اہتمام کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے کہ اس کے الفاظ تک جڑے ہوئے ہیں۔۔۔ یا شاید میری کوشش یہاں بہتر نہ رہی ہو لیکن بات کی وضاحت مطلوب تھی جو یقیناً ہو گئی ہو گی ۔۔۔ احباب کی آراء کا منتظر
آپ کی شریک حیات کے لئے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔۔۔ اس حوالے سے شعر کی تعریف ممکن نہیں ۔۔۔ ویسے پورے غزل کی فضا ہی اس کی غماز ہے۔۔۔ محمد یعقوب آسی صاحب
 
آخری تدوین:
آپ کو ایک دل چسپ بات بتاؤں تنافر ایک صنعت ہے۔ کہ ایک ایسے ساکن حرف کے فوراً بعد جو کسی سبب خفیف کا حصہ نہ ہو، وہی حرف یا اس کا کوئی بہت قریب المخرج حرف متحرک واقع نہ ہو؛ صنعتِ تنافر ہے، یعنی الگ الگ رکھنا، یا الگ الگ کر دینا۔ جہاں ایسا ہو رہا ہو، جیسے ’’درد دل سے جدا کرے کوئی‘‘ ’’ستیزہ کار رہا ہے ۔۔‘‘ اس کو عیبِ تنافر کہتے ہیں۔ یعنی تنافر میں عیب واقع ہو جانا۔
یہ تو اساتذہ کے ہاں بھی پایا جاتا ہے، اور کئی بڑے شعراء کے ہاں بھی۔ مثال فوری طور پر ایک ہی ذہن میں آئی تھی، سو بیان کر دی۔ ویسے جہاں تک میرا اپنا معاملہ ہے میں اس صورت سے احتراز کا قائل ہوں۔
وجہ؟ میں خاص طور پر غزل میں (لفظی، صوتی، اسلوبیاتی ہر سطح پر) ملائمت کا قائل ہوں ۔ غزل کے لہجے میں ملائمت اور متانت ہو اور اس کی قرات میں بھی ثقالت واقع نہ ہو۔ با ایں ہمہ میرے شعروں میں بھی ایسی صورتیں موجود ہو سکتی ہیں، وہاں یوں کہہ لیجئے کہ میری صلاحیت ہی وہاں تک تھی۔
 
آپ کو ایک دل چسپ بات بتاؤں تنافر ایک صنعت ہے۔ کہ ایک ایسے ساکن حرف کے فوراً بعد جو کسی سبب خفیف کا حصہ نہ ہو، وہی حرف یا اس کا کوئی بہت قریب المخرج حرف متحرک واقع نہ ہو؛ صنعتِ تنافر ہے، یعنی الگ الگ رکھنا، یا الگ الگ کر دینا۔ جہاں ایسا ہو رہا ہو، جیسے ’’درد دل سے جدا کرے کوئی‘‘ ’’ستیزہ کار رہا ہے ۔۔‘‘ اس کو عیبِ تنافر کہتے ہیں۔ یعنی تنافر میں عیب واقع ہو جانا۔
یہ تو اساتذہ کے ہاں بھی پایا جاتا ہے، اور کئی بڑے شعراء کے ہاں بھی۔ مثال فوری طور پر ایک ہی ذہن میں آئی تھی، سو بیان کر دی۔ ویسے جہاں تک میرا اپنا معاملہ ہے میں اس صورت سے احتراز کا قائل ہوں۔
وجہ؟ میں خاص طور پر غزل میں (لفظی، صوتی، اسلوبیاتی ہر سطح پر) ملائمت کا قائل ہوں ۔ غزل کے لہجے میں ملائمت اور متانت ہو اور اس کی قرات میں بھی ثقالت واقع نہ ہو۔ با ایں ہمہ میرے شعروں میں بھی ایسی صورتیں موجود ہو سکتی ہیں، وہاں یوں کہہ لیجئے کہ میری صلاحیت ہی وہاں تک تھی۔

تنافر کی عمدہ سے عمدہ مثال:
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
 
آپ کے ایک ضمنی سوال کے جواب میں :
آپ نے لکھا ہے: ’’۔۔۔ ویسے پوری غزل کی فضا ہی اس کی غماز ہے‘‘
میں غزل کی اسی ’’فضا‘‘ کی بات اکثر کیا کرتا ہوں کہ غزل کی فضا ایک ہونی چاہئے۔
ابھی بجلی کا کچھ پتہ نہیں۔ باقی پھر سہی۔
 

ایوب ناطق

محفلین
بے شک و شبہ ۔۔۔۔ اس قسم کی آوازوں کا تکرار ایک عیب ہے اور اس سے بچنا ہی بہتر' لیکن بات یہاں اس کے' ایسے استعمال سے ہے کہ عیب میں معنویت پیدا ہوجائے' ایسی صورت میں کم از کم میں عیب کو ہنر سجمھتا ہوں۔۔۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ میرے شعر کے محاسن اور عیوب سب کا مدعا ہو' عیوب بھی میری بات کی وضاحت کرے تو کیا بات ۔۔۔ ایسے کھیل تو میں عروض کے ساتھ بھی کھیلنا روا سمجھتا ہوں ۔۔۔۔(آزاد نظم میں)
 
بے شک و شبہ ۔۔۔ ۔ اس قسم کی آوازوں کا تکرار ایک عیب ہے اور اس سے بچنا ہی بہتر' لیکن بات یہاں اس کے' ایسے استعمال سے ہے کہ عیب میں معنویت پیدا ہوجائے' ایسی صورت میں کم از کم میں عیب کو ہنر سجمھتا ہوں۔۔۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ میرے شعر کے محاسن اور عیوب سب کا مدعا ہو' عیوب بھی میری بات کی وضاحت کرے تو کیا بات ۔۔۔ ایسے کھیل تو میں عروض کے ساتھ بھی کھیلنا روا سمجھتا ہوں ۔۔۔ ۔(آزاد نظم میں)
خوب ارشاد فرمایا۔۔۔۔ یہ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ :)
 
تنافر کی عمدہ سے عمدہ مثال:
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
شیخ صاحب کے ارشاد سے بات کھل گئی کہ وہی حروف یا اصوات جو ساکن ہونے کی صورت میں عیب ہیں، متحرک ہو جائیں تو صنعت ہے۔ مثلاً:
دردِ دل، مرغکِ کم پر، جہانِ نو، دار و رسن (واوِ عطفی کے اخفا کے ساتھ) وغیرہ۔
کیا میں صحیح سمجھا؟
 
بے شک و شبہ ۔۔۔ ۔ اس قسم کی آوازوں کا تکرار ایک عیب ہے اور اس سے بچنا ہی بہتر' لیکن بات یہاں اس کے' ایسے استعمال سے ہے کہ عیب میں معنویت پیدا ہوجائے' ایسی صورت میں کم از کم میں عیب کو ہنر سجمھتا ہوں۔۔۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ میرے شعر کے محاسن اور عیوب سب کا مدعا ہو' عیوب بھی میری بات کی وضاحت کرے تو کیا بات ۔۔۔ ایسے کھیل تو میں عروض کے ساتھ بھی کھیلنا روا سمجھتا ہوں ۔۔۔ ۔(آزاد نظم میں)

اختیار آپ کا ہے صاحب! جس سے چاہے کھیلیے۔ ;)
 

ایوب ناطق

محفلین
میں اپنے شعر سے تو شاید وضاحت نہ کر پایا' چلیے اساتذہ کو سنتے ہیں اور تنافر کے جلوے دیکھتے ہیں
آتش کہتے ہیں کہ میں جس سمت دیکھتا ہوں مجھے صورتیں ہی صورتیں نظر آتی ہیں' اب جبکہ ہر سو صورتیں ہی صورتیں ہیں تو تنافر نے الفاظ کو باندھ سا لیا ۔۔۔ کہ صورت اور سمت میں کچھ دوری نہ رہے
نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو ( آتش)
چلیے اسے ایسا پڑھتے ہیں کہ
نظر آتی ہیں مجھ کو صورتیں ہی صورتیں ہر سو
عیب دور ہوا ' لیکن اب میرے دل کو کچھ بھا نہیں رہا' عام سی بات ہے
یہ دیکھیے
نہیں بھولا میں مزہ میوہ ء صحرائی کا ۔۔۔۔۔آتش
یہاں مجھے تنافر پسند نہیں آیا کہ شعر کو کوئی معنویت نہیں دے رہا
اب یہ بھی
ایسی وحست نہیں دل کو کہ سنبھل جائوں گا۔۔۔۔آتش
کوئی خاص فائدہ نہ ہوا اس لیے عیب
تڑپتے دیکھ کرمجھ کو کہا ہنس کر یہ اس بت نے۔۔۔۔آتش
معنویت نہ سہی' ناگوار بھی نہیں

کیونکر کریں نہ ناز وہ حسن و جمال پر
کبر و غرور رکھتے ہیں اہلِ دول تمام۔۔۔۔آتش
معنویت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے پسندیدہ
لیکن یہ ناقابلِ برداشت مثال دیکھیے
کچھی شیریں نہ دل سے کوہ کن نے کوہ کو کاٹا
محبت یہ نہیں ہے زورِ بازو اس کو کہتے ہیں۔۔۔ ذوق
اور یہ بھی خوشگوار نہیں
کوئی تو دل کی آنکھ پہ پنکھا سا جھل گیا۔۔۔۔مومن
ہووے ہرہر قطرہ داغ افزائے گلخن آب میں۔۔۔مومن
کیا ابتدائے حسن میں میں تجھ پہ مر گیا
خلقت کا تیری دن' مرا روزِ وفات ہے۔۔۔۔ مومن
اب بیٹھ کے کونے میں بھی رویا نہ کریں گے۔۔۔مومن
چلیے اب ایک شعر سناتا ہوں غور کیجیے گا

کوئی طوفان آیا یا ہمارے کان بجتے ہیں
ذرا اے بندگانِ ناخدا ہشیار ہوجانا۔۔۔۔۔ یگانہ
کہیے کیا بات دھیان میں آئی ؟
کتنا برا لگ رہا ہے نا؟ لیکن سوچیے کان بجنا 'گونج کا پردہ سماعت پر دستک بن جانا' قبیح ہی محسوس ہوتا ہے' تکرار ہی ہوتی ہے تنافر ہی ہوتا ہے ۔۔۔
لیکن یہاں میں میں کی تکرار بہتر نہیں لگ رہی
اس جشن میں میں بھی شامل ہوں
نوحوں سے بھرا کشکول لیے۔۔۔احمد فراز
 
شیخ صاحب کے ارشاد سے بات کھل گئی کہ وہی حروف یا اصوات جو ساکن ہونے کی صورت میں عیب ہیں، متحرک ہو جائیں تو صنعت ہے۔ مثلاً:
دردِ دل، مرغکِ کم پر، جہانِ نو، دار و رسن (واوِ عطفی کے اخفا کے ساتھ) وغیرہ۔
کیا میں صحیح سمجھا؟
تنافر لفظی معیوب و غیر معیوب کی جامع تعریف درکار ہے۔
اساتذۂ کرام محمد یعقوب آسی ، الف عین ، مزمل شیخ بسمل
 
تنافر لفظی معیوب و غیر معیوب کی جامع تعریف درکار ہے۔
اساتذۂ کرام محمد یعقوب آسی ، الف عین ، مزمل شیخ بسمل
بہت مشکل سوال ہے جناب ۔۔۔ میں کوئی حوالہ نہیں دے سکوں گا؛ سو، جو کچھ یہاں عرض کرنے چلا ہوں، اسے میری اور صرف میری رائے جانئے گا۔

تعریف:
تنافر ایک صنعت ہے جسے غلطی سے عیب سمجھ لیا گیا ہے۔ یعنی یکے بعد دیگرے واقع ہونے والی اصوات کا ایک دوسرے سے ایسے ممتاز ہونا کہ ان کی ادائی میں کوئی رکاوٹ، دباؤ، اختلاط وغیرہ واقع نہ ہو۔ مذکورہ رکاوٹ، دباؤ، اختلاط وغیرہ کا ہونا عیبِ تنافر کہلائے گا، نہ کہ تنافر۔
 
عیبِ تنافر کی مثالیں ۔۔
اس کے دو بیٹے ہیں، ایک کراچی میں رہتا ہے۔ (۔۔اے ک ک را چی۔۔)
ارے یار، کباب بھگو دیا! (۔۔ ک با ب بھ گو ۔۔)
دیکھو، مجھ سے دور رہو ۔ (۔۔ دو ر ر ہو۔۔)
گلو کا باپ بڑا سیانا تھا۔ (۔۔ با پ ب ڑا ۔۔)
وہ مجھے ہاتھ دکھا گیا۔ (۔۔ ہا تھ د کھا ۔۔)
 
رہی بات معیوب کی تو جناب! عیب تو عیب ہے! ہاں کہاں تک قابلِ برداشت یا قابلِ قبول ہے اور کہاں تک نہیں؟
یہاں میرا آپ کا انفرادی ذوق فیصلہ کرتا ہے، ہم کوئی خطِ تقسیم نہیں کھینچ سکتے۔ مثلاً تعقیدِ لفظی یا معنوی میں ہوتا ہے کہ شعر میں تعقیدِ لفظی کسی نہ کسی سطح پر ہوتی ضرور ہے۔ اب، وہ کہاں جا کر ابلاغ یا معانی میں مسئلہ پیدا کر سکتی ہے یا کرتی ہے؟ اس میں محمد یعقوب آسی ، جناب الف عین ، اور جناب مزمل شیخ بسمل کی آراء بھی انفرادی ہو سکتی ہیں۔
 
محمد یعقوب آسی صاحب نے عیبِ تنافر اور صنعتِ تنافر کی وضاحت کردی ہے۔
عیب تنافر کے لیے ایک اصول یاد رکھیں۔ شعر میں کسی بھی جگہ اگر ایک ہی حرف کا ظہور بلافاصلہ ایک سے زیادہ مرتبہ "عروضی طور پر" اس طرح ہورہا ہے کہ وہ حرف تمام جگہ متحرک ہے تو یہ عیبِ تنافر ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک سے زیادہ مرتبہ ایک ہی حرف جو "عروضی متحرک" مانا جائے وہ روانی کو مجروح کرتا ہے۔
عیبِ تنافر کی عمدہ مثال میں غالب کا شعر میں پیش کیا کرتا ہوں:

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو، ستم گر ورنہ
کیا قسم ہے تِرے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں.

یہاں کاف کو دیکھیں تو مسلسل تین مرتبہ "عروضی متحرک" بلافاصلہ واقع ہوا ہے۔
باقی بات وہی ہے کہ عیب کا جواز تو اس کا حسن و جمال طے کرے گا، آپ کا ذوق ہی پیمانہ ہوگا بقول محترم یعقوب آسی صاحب۔
 
محمد یعقوب آسی صاحب نے عیبِ تنافر اور صنعتِ تنافر کی وضاحت کردی ہے۔
عیب تنافر کے لیے ایک اصول یاد رکھیں۔ شعر میں کسی بھی جگہ اگر ایک ہی حرف کا ظہور بلافاصلہ ایک سے زیادہ مرتبہ "عروضی طور پر" اس طرح ہورہا ہے کہ وہ حرف تمام جگہ متحرک ہے تو یہ عیبِ تنافر ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک سے زیادہ مرتبہ ایک ہی حرف جو "عروضی متحرک" مانا جائے وہ روانی کو مجروح کرتا ہے۔
عیبِ تنافر کی عمدہ مثال میں غالب کا شعر میں پیش کیا کرتا ہوں:

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو، ستم گر ورنہ
کیا قسم ہے تِرے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں.

یہاں کاف کو دیکھیں تو مسلسل تین مرتبہ "عروضی متحرک" بلافاصلہ واقع ہوا ہے۔
باقی بات وہی ہے کہ عیب کا جواز تو اس کا حسن و جمال طے کرے گا، آپ کا ذوق ہی پیمانہ ہوگا بقول محترم یعقوب آسی صاحب۔
بہت آداب جنابِ شیخ! محبت ہے آپ کی۔
 
Top