تنقیدی نشست 2

ایوب ناطق

محفلین
بعد از سلام ۔۔۔
تازہ غزل تنقید کے لئے حاضر ہے ۔۔۔ یہ بتانا ضروری تو نہیں کہ تنقید ہر پہلو سے کی جا سکتی ہے کہ یہ نہ صرف میرے لیے بلکہ بہت سے دوسرے دوستوں کے لیے سیکھنے کا بہترین زریعہ ہو سکتا ہے ۔۔ جیسے عروض اور اس کا معنویاتی استعمال' ابلاغ اور اس کی سطحیں( ابلاغ کی مختلف سطحوں کا جو حوالہ محترم محمد یعقوب آسی صاحب نے دیا تھا' مجھ جیسوں کے لیے نکتہ آفرینی ہے)' زبان و محاورہ' تعقید اور دوسرے سقم ۔۔۔ اور مفرد الفاظ کا استعمال ۔۔۔۔ غرض کھل کر بات کیجیے
بحر ہے خفیف مسدس سالم مخبون محجوف ارکان فاعِلاتن مَفاعِلن فِع یا فاعلاتن مفاعلاتن یا فاعلن فاعلن فعولن
جناب الف عین صاحب محترم محمد یعقوب آسی صاحب محمد وارث صاحب جناب مزمل شیخ بسمل جناب @ابن سعید @محمد اسامہ سَرسَری ابن رضا @سید عاطف علی @خالد محمود چوہدری @مہدی نقوی حجاز @فاتح @سید شہزاد ناصر نوید رزاق بٹ اور دوسرے تمام احباب

ٹوٹنے کے لیے بنا ہوں
تیرے آگے جھکا ہوا ہوں

یہ بھی تیری طلب ہے شاید
میں تجھے بھولنے لگا ہوں

تیری آواز آ رہی ہے
ورنہ میں تو بھٹک چکا ہوں

سچ کہوں تیری آرزو میں
خود سے مایوس ہو گیا ہوں

دیکھنا یوں بھی ہے کہ اس کو
آج کتنا میں دیکھتا ہوں

خواہشِ ناتمام بن کر
حسرتوں میں پلا بڑھا ہوں

کر کے پھر اعتبار تیرا
اپنی نظروں سے گر رہا ہوں

مجھ سے مایوس ہونے والے
میں تری آخری دعا ہوں

ایک بھولی ہوئی صدا ہوں
تجھ کو پھر یاد آگیا ہوں
 
آخری تدوین:
ایک بھولی ہوئی صدا ہوں
تجھ کو پھر یاد آگیا ہوں

ابتدائی اشعار کے دونوں مصرعے اگر قافیہ بند ہوں تو انھیں مطلع کہا جاتا ہے، آخری شعر اگر ایسا ہو تو کیا اس کا کوئی اصطلاحی نام ہے؟
 

ایوب ناطق

محفلین
عروضی لحاظ سے بھی تری ہی ہے ۔۔۔ میں فا تری علا آ تن خری مفا دعا علن ہوں فع ۔۔۔۔ ٹایپو کے لیے معذرت اور نشاندہی کا شکریہ
 

ایوب ناطق

محفلین
محمد اسامہ سرسری صاحب کے استفسار پر۔۔۔۔
محترم محمد یعقوب آسی نے ایک جگہ فرمایا ہے اور (خوب کہا ہے) کہ غزل کے ہر شعرکا نفسِ مضمون الگ ہو سکتا ہے اور مجموعی لحاظ سے بھی ایک تاثر ہوسکتا ہے ۔۔۔(یا ہونا چائیے)۔۔۔ یہ پڑھ کر کافی غور کیا کہ مجموعی تاثر موضوعاتی تو نہیں ہو سکتا (غزل مسلسل کو چھوڑ کر) تو پھر وہ کیا مشترک صورتیں ہو سکتی ہیں۔۔۔۔ ؟
بحر ' قوافی اور ردیف ۔۔۔۔ سرسری نظر سے ان کا اشتراک دیکھائی دیتا ہے ' سوال یہ ہے کہ اساتذہ نے ان کو غزل کا لازمی حصہ کیوں قرار دیا ؟ جب ہر شعر ایک اکائی ہے تو قوافی اور دریف کا اتنا سخت اہتمام کیوں اور پھر کسی بھی بحر میں چند مزاحف کے سوا باقی کو ناجائز کیوں قرار دیا گیا ؟ پھر دواوین کی اس قدر سخت اور کسی حد تک آورد یا 'استادی' والی حروف تہجی کے لحاظ سے ترتیب' جس سے غالباً پہلی بغاوت اقبال نے کی؟ (اساتذہ تصحیح فرمائیں) آخر اس کا راز کیا تھا ؟
محترم محمد یعقوب آسی کے اس جملے نے ذہن میں موجود کہی سوالوں کو جیسے زبان دے دی ۔۔۔ احباب شریک گفتگو ہو تو مزہ آ جائے
 
محمد اسامہ سرسری صاحب کے استفسار پر۔۔۔ ۔
محترم محمد یعقوب آسی نے ایک جگہ فرمایا ہے اور (خوب کہا ہے) کہ غزل کے ہر شعرکا نفسِ مضمون الگ ہو سکتا ہے اور مجموعی لحاظ سے بھی ایک تاثر ہوسکتا ہے ۔۔۔ (یا ہونا چائیے)۔۔۔ یہ پڑھ کر کافی غور کیا کہ مجموعی تاثر موضوعاتی تو نہیں ہو سکتا (غزل مسلسل کو چھوڑ کر) تو پھر وہ کیا مشترک صورتیں ہو سکتی ہیں۔۔۔ ۔ ؟

اس ایک تاثر سے مراد یہ ہے کہ شاعر جب کوئی غزل عشق پر کرے تو وہ عشق پر ہو، محبوب کی تعریف کہے تو تاثر تعریف کے ماحول کی نمائندگی کرے۔ جب غم لکھے تو اس میں رنگینیاں نہ ہوں، جب صوفیانہ مضامین غزل میں باندھے تو پوری غزل کا تاثر عشق حقیقی پر مبنی ہو۔ جب ہجر لکھے تو ایسا نہ ہو کہیں کسی شعر سے لگے کہ شاعر غزل کے شروع میں ہجر کو جھیل رہا تھا درمیان میں وصل کی خوش بیانی آگئی۔ کہیں وصال کی خوشی لکھے تو ہجر کا درد غزل میں محسوس نہیں ہو۔
یہ ساری وہ باتیں ہیں جو شاعر یا کسی بھی مصنف کو خیال کرنا ضروری ہیں۔ تخلیق کار کے لیے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ اپنے "سچ" (یعنی وہ سچ جو اس نے اپنی تخلیق میں ایجاد کیا ہے) اس سے متضاد بات نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ایک ہی غزل، یا کسی دوسری نگارش میں اپنی اوپر کہی ہوئی بات کی مکمل طور پر نفی کردے۔ آپ کی ایک تخلیق آپ کا ایک سچ ہے۔ اگلی تخلیق میں آپ اپنا "سچ" یکثر بدل بھی سکتے ہیں۔ لیکن ایک تخلیق میں مطابقت ضروری ہے۔

بحر ' قوافی اور ردیف ۔۔۔ ۔ سرسری نظر سے ان کا اشتراک دیکھائی دیتا ہے 'سوال یہ ہے کہ اساتذہ نے ان کو غزل کا لازمی حصہ کیوں قرار دیا ؟ جب ہر شعر ایک اکائی ہے تو قوافی اور دریف کا اتنا سخت اہتمام کیوں اور پھر کسی بھی بحر میں چند مزاحف کے سوا باقی کو ناجائز کیوں قرار دیا گیا ؟ پھر دواوین کی اس قدر سخت اور کسی حد تک آورد یا 'استادی' والی حروف تہجی کے لحاظ سے ترتیب' جس سے غالباً پہلی بغاوت اقبال نے کی؟ (اساتذہ تصحیح فرمائیں) آخر اس کا راز کیا تھا ؟
محترم محمد یعقوب آسی کے اس جملے نے ذہن میں موجود کہی سوالوں کو جیسے زبان دے دی ۔۔۔ احباب شریک گفتگو ہو تو مزہ آ جائے

بحر قوافی اور ردیف در اصل کسی بھی زبان کی شاعری میں ضروری یا کلیات کے طور پر نہیں۔ البتہ "بحر" اور "قافیہ" فارسی اور سنسکرت سے ہندی اور اردو میں آیا ہے۔ اور اب اردو کا اس طرح سے مزاج بن گیا ہے کہ اس کے بغیر کوئی غزل غزل نہیں۔ اصل میں کوئی بھی صنف شاعری کسی خاص قیاسی پابندیوں کی حامل ہوتی ہے۔ اردو نے جو مزاج پایا ہے وہ کسی اور زبان میں حتی کہ ہندی میں بھی نہیں پایا جاتا۔ جو حضرات ان معاملات کو دوسری زبان کی شاعری سے مقابلہ کرتے ہیں ان کے لیے ضرور ہے کہ اردو کا مزاج بدل ڈالیں۔ آپ اردو کے استعارات، اردو کی تشبیہات اور اس کے ابہام اور ایہام اس کی صنعتیں دوسری زبان میں کہاں سے لائیں گے؟خاص کر مغربی شاعری کی مثالیں میرے حساب سے فضول ہیں۔ کیونکہ ہماری شاعری اس کی متحمل نہیں۔ مغربی شاعری کی ایک حد ہے۔ جس سے وہ آگے نہیں نکل سکتی۔ ہمارے یہاں حد کوئی نہیں۔ مغرب قدرت کو دیکھ کر شاعری کرتا ہے۔ اردو (یا مشرقی) شاعری قدرت کو بھی خود تخلیق کرتی ہے۔
 

ایوب ناطق

محفلین
خدا نہ کرے کہ میں قوافی' ردیف یا عروض کہ جن سے ہماری علمی و فکری دنیا صدیوں سے آباد اور مزین ہے' کی اہمیت کا انکار کر کے اپنی بنیادوں کو کھوکھلا قرار دوں' نہیں بالکل نہیں
اور اگر ایسا ہو بھی تو ۔۔۔ سوچیے ہمارا کل علمی و فکری سرمایہ بمشکل آٹھ دس آزاد نظمیں رہ جاتی ہیں (بیشتر راشد کی) اور شاید ان میں بھی کوئی ایک دو ہی اس پائے کی ہو گی کہ اسے ہم براوننگ کی معرکہ آرا نظموں یا واسٹ لینڈ کی ہم سر قرار دے سکے ۔۔۔ شاید حسن گوزہ گر یا" ہم"۔
نہیں ہرگز نہیں ہمارا علمی و فکری سرمایہ اس سے بدرجہ ہا بالاتر ہے ' بلکہ دنیا کے کسی بھی عظیم ادب سے کسی صورت کمتر نہیں ۔۔۔ (یہاں میں فارسی ادبی سرمایے کو اس "ہمارا کا حصہ سمجھتا ہوں)' زیادہ مثالوں کی ضرورت ہی نہیں' مثنوی معنوی کا ذکر ہی کافی و شافی ہے۔
سوال قوافی ' ردیف اور بحر کا اس مجموعی تاثر (بقولِ آسی صاحب) یا مزاج (بقولِ بسمل صاحب) میں حصہ یا کنٹریبوشن ڈھونڈنے کا ہے ۔۔ اور دواوین کی حروفِ تیجی کے لحاظ سے ردیف وار ترتیب کا جواز ڈھونڈ نکالنے کا ہیں ۔۔۔ وہ ترتیب جسے کسی زمانے میں دیکھ کر مجھے وحشت ہوتی اور کھردری زمینوں کی غزلیں پڑھنے کی بھی خود میں ہمت نہ پاتا۔۔۔
لیکن اس کی تفہیم سے پہلے اس کا فیصلہ بے حد اہم اور ضروری ہے کہ وہ مجموعی مزاج ہے کیا جس کا ذکر جناب بسمل صاحب نے اوپر فرمایا ہے جس کے بغیر غزل غزل نہیں رہتی (یہ بسمل صاحب کے الفاظ ہیں)۔۔۔ یقیناً بحر ردیف اور قوافی کے بغیر غزل غزل کہلانے کی حقدار نہیں ہو سکتی لیکن مزاج ؟؟ تاثر ؟؟ یا چلے اسے غزلیت کہہ لیجیے کیا اس بارے میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے ۔۔۔؟؟
 
ایک شعر پیش کرتا ہوں:
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے​
مزید بعد میں عرض کروں گا۔
 
جناب ایوب ناطق کے نکات کے حوالے سے چند گزارشات

اول:
جناب مزمل شیخ بسمل نے بہت مناسب گفتگو کی ہے اور ایسا بہت کچھ بیان کر دیا ہے جو اگر وہ نہ کہتے تو میں کہہ دیتا۔

دوم:
آپ کی گفتگو میں بنیادی حوالہ غزل کا ہے۔ میں نے ایک بات چیت میں غزل کو ’’اردو شاعری کا عطر‘‘ قرار دیا تھا (احباب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ غزل میں شعری فنیات اپنے نفیس ترین صورت میں واقع ہوتی ہیں (یا کم از کم : ’’ہونی چاہئیں‘‘)۔
 
سوم:
ادب میں زبان کا نکھار بہت اہمیت کا حامل ہے، اور شعر کے تقاضے اس پر مستزاد ہیں، پھر غزل! یہ اس پر ’’ہل من مزید‘‘ کی متقاضی ہوتی ہے، مگر کیوں؟ یہ ہے اصل سوال۔
 
چہارم:
دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو بھی اپنا ایک انفرادی مزاج رکھتی ہے اور اس کے پیچھے ارتقاء، تشکیل اور روایات کا عظیم سرمایہ ہے۔ ادب میں آ کر زبان کی ’’تہذیب‘‘ کی جاتی ہے اور اس کا جمالیاتی پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ جمالیات پر میری گزارشات احباب کے علم میں ہیں۔ جناب محمد اسامہ سَرسَری نے ان کو ایک مقام سے لے کر کسی دوسرے مقام پر نقل بھی کیا تھا۔ اگر وہ اس کو یہاں بھی نقل کر سکیں تو مجھے بات کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔
 
پنجم:
جمالیات انسانی فطرت کا حصہ ہے، اور ہر خوش ذوق شخص کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کو فطرت کے اس خاص عنصر سے حتی المقدور مستفیض ہو تا کہ اس کے کلام میں حسن پیدا ہو سکے۔ یہ حسن کسی بھی ذمہ دار اور باصلاحیت غزل گو کے ہاں نمایاں ہوتا ہے۔ ردیف، قافیہ، اوزان اور دیگر مناسبات کا اہتمام کیا ہی اس لئے جاتا ہے۔ اور یہی صنائع اور عناصر مل کر شاعری کو نثر سے ممتاز کرتے ہیں اور غزل کو شاعری کی دیگر اصناف سے۔

ششم:
روایت میرے نزدیک زبان کا وہ تہذیبی اور لفظیاتی ورثہ ہے جس سے ہم نسل در نسل مانوس ہو چکے ہوتے ہیں۔ تشبیہ، استعارہ، علامت، تلمیح، ضرب المثل، محاورہ، روزمرہ (اور بہت کچھ)؛ یہ ہماری زبان کا تہذیبی اور لفظیاتی ورثہ ہے۔ اس سب کچھ کو ہم روایت سے منسلک رہ کر جس کر عمدگی سے کام میں لا سکیں ہمارا کہا ہوا اس قدر حسین اور مؤثر قرار پائے گا۔مذکورہ بالا جملہ عناصر اور صنعتیں ہماری شعری روایات کا حصہ ہیں، ہمیں اگر شعر کہنا ہے (بالتخصیص غزل کہنی ہے) تو ہمیں ان روایات کا پاس تو کرنا ہوگا۔
 
ہفتم:
روایت اور جمود میں فرق ہے۔ میں یہ بات عدیم ہاشمی کی کتاب ’’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘‘ کی اولین تعارفی تقریب میں اپنے ایک تعارفی مضمون ( جدتوں کی روایت) میں عرض کر چکا ہوں۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے​
 
ہشتم:
ہم ایک شاعر کو ’’استاد‘‘ تسلیم کرتے ہیں، ایک کو نہیں کرتے، کیوں؟ کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوتی ہے نا! بلکہ وجوہات ہوتی ہیں اور آپ صاحبان اس سے بخوبی آگا ہ ہیں۔

وہ الگ بات کہ کبھی کبھار مجھ جیسا کم علم اور کم مایہ شخص بھی دوستوں کی محبتوں کے طفیل یہ لقب پا لے۔ (جملہ معترضہ)۔
 

ایوب ناطق

محفلین
دوم:
آپ کی گفتگو میں بنیادی حوالہ غزل کا ہے۔ میں نے ایک بات چیت میں غزل کو ’’اردو شاعری کا عطر‘‘ قرار دیا تھا (احباب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ غزل میں شعری فنیات اپنے نفیس ترین صورت میں واقع ہوتی ہیں (یا کم از کم : ’’ہونی چاہئیں‘‘)
بے شک و شبہ غزل ہماری شاعری کا عطر ہے (ہماری سے مراد اردو اور فارسی دونوں) ۔۔۔ آپ کا ارشاد کہ غزل میں شعری فنیات اپنے نفیس ترین صورت میں واقع ہوتی ہیں (یا کم از کم : ’’ہونی چاہئیں‘‘) ۔۔۔ لاجواب ہے ۔۔۔ سرسری نظر سے دیکھتے ہوئے اس کا مفہوم یہ نکل سکتا ہے کہ دوسری اصناف نفیس ترین صورت میں شعری فنیات کے استعمال سے عاری ہیں اور اگر عاری نہیں تو وہ بھی غزل کے ہم پلہ ہو گی۔۔۔
لیکن غور کرنے سے نکتہ آفرینی ہوتی ہے کہ غزل کا ایجاز واختصار' صرف دو مصرعوں میں ایمائیت اور علامت نگاری اور دوسری فنیات حقیقتاً نفیس ترین اور جامع ترین شکل میں ہوتی ہے یا ہونی چائیے جو اسے مشکل ترین صنفِ سخن بناتی ہے
لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ اگر یہ ایجاز و اختصار' ایمائیت' علامت نگاری ' اور دوسری فنیات اگر اپنی اعلٰی ترین سطح پر نظم میں واقع ہو اور مواد کا تنوع اور ہمہ جہتی شریک کار ہو کہ تو اس تخلیق کی سطح غزل سے بھی بہت اوپر اٹھ سکتی ہے ۔۔۔ مثال کے طور پر بلکہ اسے میرا دعوٰی سمجھ لیجیے کہ اردو ادب کی کوئی بھی غزل مسجدِ قرطبہ کی سطح سے بلند تو کجا اس کے ہم سر بھی نہیں ۔۔۔ (یا احباب مجھے غلط ثابت کرتے ہوئے ایسی کسی غزل کو یہاں نقل کردے یا حوالہ دے )
 

ایوب ناطق

محفلین
سوم اور چہارم۔۔۔۔ حرف بہ حرف متفق۔۔۔ بس سرسری صاحب کا انتظار ہے۔۔۔۔ بس اس ایک جملے پر آکر رک سا گیا۔۔۔
"ادب میں آ کر زبان کی ’’تہذیب‘‘ کی جاتی ہے اور اس کا جمالیاتی پہلو اجاگر ہوتا ہے"۔۔۔۔ لفظ تہذیب کی شائستگی میرا ذہن ظفر اقبال صاحب کی "ایجادات" کی طرف تو جانے سے روک رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تقسیم کے بعد سے ایسا ہے؟ کیا ہمارے محاوروں میں اضافہ ہو سکا ہیے یا ہونے دیا گیا ہےاور جدید روزمرہ کو غزل میں قبولیت حاصل ہو سکی ہے؟' کیا اب اچھے شاعروں کے استعمال میں آنے والے الفاظ کو سند مانا جاتا ہیں؟؟؟۔۔۔۔
 

ایوب ناطق

محفلین
پنجم اور ششم ۔۔۔ یہاں استاد محترم کا لفظ لفظ اپنی دیانت پر گواہ ہے ۔۔۔ ہفتم کاش اس مضمون سے ہم بھی مستفید ہو سکے ۔۔۔
 

ایوب ناطق

محفلین
اس ایک تاثر سے مراد یہ ہے کہ شاعر جب کوئی غزل عشق پر کرے تو وہ عشق پر ہو، محبوب کی تعریف کہے تو تاثر تعریف کے ماحول کی نمائندگی کرے۔ جب غم لکھے تو اس میں رنگینیاں نہ ہوں، جب صوفیانہ مضامین غزل میں باندھے تو پوری غزل کا تاثر عشق حقیقی پر مبنی ہو۔ جب ہجر لکھے تو ایسا نہ ہو کہیں کسی شعر سے لگے کہ شاعر غزل کے شروع میں ہجر کو جھیل رہا تھا درمیان میں وصل کی خوش بیانی آگئی۔ کہیں وصال کی خوشی لکھے تو ہجر کا درد غزل میں محسوس نہیں ہو۔
 

ایوب ناطق

محفلین
یہ ساری وہ باتیں ہیں جو شاعر یا کسی بھی مصنف کو خیال کرنا ضروری ہیں۔ تخلیق کار کے لیے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ اپنے "سچ" (یعنی وہ سچ جو اس نے اپنی تخلیق میں ایجاد کیا ہے) اس سے متضاد بات نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ایک ہی غزل، یا کسی دوسری نگارش میں اپنی اوپر کہی ہوئی بات کی مکمل طور پر نفی کردے۔ آپ کی ایک تخلیق آپ کا ایک سچ ہے۔ اگلی تخلیق میں آپ اپنا "سچ" یکثر بدل بھی سکتے ہیں۔ لیکن ایک تخلیق میں مطابقت ضروری ہے۔
 
Top