مقفل مسجد میں بلند آواز میں آذان سے لوگ متحیر

سید ذیشان

محفلین
میں تو سوچ رہا تھا کہ مبادا آپ الف کو اضافی نہ قرار دے ڈالیں۔ ;)

بہت نازک صورت حال ہے۔
198788_237875326251128_3550954_n.jpg
 
آپ یہ دیکھیئے کہ ایک علاقے کے مسلمان ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ اب مسجد سے اگر اذان بفرضِ محال سنائی بھی تو کیا وہ ہندو فرقے والے جنہوں نے بزورِ طاقت مسلمانوں کو بھگا دیا ہے، وہ اس کی تشہیر کرنا پسند کریں گے کہ مسلمانوں کی مسجد سے اذان ہو رہی ہے؟ کیا اس سورس کی تصدیق کے لئے مزید بھی کوئی عقلی دلیل درکار ہے؟
جی درست فرمایا آپ نے، لیکن میری اس بات کے مخاطب دراصل وہ لوگ تھے جنہوں نے اس خبر کو مذاق میں اڑایا
 

arifkarim

معطل
لگے ہاتھوں ایک اور سوال میری طرفسے بھی خدا کے وجود کی سائنسی دلیل کیا ہے؟
خدا کے وجود کی کوئی سائنسی دلیل موجود نہیں ہے لیکن یہ زمین اور اسمیں موجود انتہائی ذہانت رکھنے والی مخلوق (انسان) کا خودکار طور پر لامتناہی قدرتی حادثات یا واقعات کے بعد وجود میں آجانا اور اپنے آپ کو قائم رکھنا سائنسی ریاضیاتی بنیادوں پر ناممکن ہے۔
http://pleaseconvinceme.com/2012/evidence-for-god-from-probability/
 

arifkarim

معطل
اس بات پر فلسفی ہزاروں سالوں سے لگے ہوئے ہیں۔ اکبر آلہ آبادی کے مطابق:

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
یہ کام فلسفی کا نہیں ماہر ریاضیات کا ہے۔ سائنس کی تھیوری غلط ہو سکتی ہے۔ ریاضیات کا احتمال نہیں۔
 

arifkarim

معطل
اگر فلسفی ہزاروں سالون سے اس قسم کہ سوالوں کی گھتیوں کو نہیں سلجھا سکے تےفیر اسیں سارے ایتھے انب لین لگے آں ؟؟؟ للوز
جناب یہ کام سرے سے فلسفیوں کا ہے ہی نہیں۔ سائنس فلسفانہ سوچ کو نہیں مانتی البتہ ریاضیات سے کام چل جائے گا۔
 

arifkarim

معطل
استاد محترم ایک سوال میرا بھی جسٹ فار حصول علم اگر گرمی انرجی ہے تو پھر سردی کیا ہے ؟؟؟ کیا وہ انرجی نہیں ؟ کیا اسے ہم انرجی نہیں کہہ سکتے اور یہ کہ گرمی یعنی انرجی کا اپوزٹ کیا ہے ؟؟ انرجی کا عدم وجود یعنی گرمی کا نہ ہونا یا پھر کچھ اور؟؟؟
سردی توانائی کا نہ ہونا ہے۔ یہ ایک ایسی طبیعاتی حالت ہے جسمیں ایٹم متحرک نہیں ہوتے اور اپنی قدرتی حالت میں ہوتے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Absolute_zero
 

arifkarim

معطل
ریاضی سے خدا کے وجود کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن ملحدین اور دہریوں کو باور کروایا جا سکتا تھا کہ انکی سوچ کس قدر غلط ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی محض قدرتی ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو زندگی ارب ہا سال کے خود مختار ارتقائی عمل کے بعد بہت ہیبت ناک شکل اختیار کر سکتی تھی لیکن اسنے انسان جیسی اشرف المخلوقات کو کیسے جنم دیا اسکا کوئی سائنسی اور ریاضیاتی جواب موجود نہیں ہے ان جاہلین کے پاس!
خدا کے وجود کو اگر سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا تو جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔
 

سید ذیشان

محفلین
ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن ملحدین اور دہریوں کو باور کروایا جا سکتا تھا کہ انکی سوچ کس قدر غلط ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی محض قدرتی ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو زندگی ارب ہا سال کے خود مختار ارتقائی عمل کے بعد بہت ہیبت ناک شکل اختیار کر سکتی تھی لیکن اسنے انسان جیسی اشرف المخلوقات کو کیسے جنم دیا اسکا کوئی سائنسی اور ریاضیاتی جواب موجود نہیں ہے ان جاہلین کے پاس!
خدا کے وجود کو اگر سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا تو جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔

پھر اس کا مطلب تو یہی ہے کہ سائنس اور ریاضی اس مقصد کے لئے مناسب ٹول نہیں ہے۔
 
جناب یہ کام سرے سے فلسفیوں کا ہے ہی نہیں۔ سائنس فلسفانہ سوچ کو نہیں مانتی البتہ ریاضیات سے کام چل جائے گا۔
ریاضی سے خدا کے وجود کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
تمہارے حسن میں سائنس کا بھی دل الجھتا ہے
کمر کو دیکھ کر و ہ خطِّ اقلیدس سمجھتا ہے۔۔۔۔:D
 

arifkarim

معطل
پھر اس کا مطلب تو یہی ہے کہ سائنس اور ریاضی اس مقصد کے لئے مناسب ٹول نہیں ہے۔
ایمان اور یقین کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے نہ کہ انکے پس پردہ حقائق سے۔ خدا، جنات، ارواح تو بہت لمبی بحث ہو جائے گی، ہم صرف یہاں مادی ظاہری و باطنی معاشی نظام کی بات کر لیتے ہیں۔ سارا زمانہ جانتا ہے کہ کاغذی نوٹ، کرنسی، اکاؤنٹ بیلنس محض فرضی اعداد ہیں۔ انکی اپنی ذات میں کوئی قدر مطلق نہیں ہے۔ لیکن اسکے باوجود چونکہ سارا زمانہ انکی بدولت معاش و تجارت کرتا ہے اسلئے ایک بالغ اور صحت مند انسان کیلئے یہ عجیب سی بات نہیں ہے کیونکہ وہ بچپن ہی سے اس غیر فطری چیز کا عادی ہوتا ہے۔ اگر انسان بالغ پیدا ہوتے اور انکو اس کاغذی ردی نوٹوں اور اے ٹی ایم کے استعمال پر مجبور کیا جاتا تو وہ پاگل ہو کر جنگلوں میں بھاگ جاتے! سائنس دانوں نے بندروں پر تجربات کرکے یہ ثابت کیا کہ کس طرح یہ معاشی نظام انسانیت کو تباہ کر رہا ہے جب ایک قسم کے بندروں کو کرنسی کا استعمال سکھایا گیا جسکے بعد ان کے معاشرہ میں انسانی معاشرے جیسا تہلکہ مچ گیا:
پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا، ارواح، جنات کے تصورات چونکہ بچپن ہی سے ہمارے معصوم اور کند ذہنوں میں ڈال دئے جاتے ہیں یوں بڑھتے بڑھتے بالغ ہونے تک ہمیں ان پر یقین کامل ہونے لگتا ہے اور ہم دانستہ سوچتے ہی نہیں کہ انکے پیچھے حقائق بھی ہیں یا نہیں۔
 

عثمان

محفلین
ایمان اور یقین کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے نہ کہ انکے پس پردہ حقائق سے۔ خدا، جنات، ارواح تو بہت لمبی بحث ہو جائے گی، ہم صرف یہاں مادی ظاہری و باطنی معاشی نظام کی بات کر لیتے ہیں۔ سارا زمانہ جانتا ہے کہ کاغذی نوٹ، کرنسی، اکاؤنٹ بیلنس محض فرضی اعداد ہیں۔ انکی اپنی ذات میں کوئی قدر مطلق نہیں ہے۔ لیکن اسکے باوجود چونکہ سارا زمانہ انکی بدولت معاش و تجارت کرتا ہے اسلئے ایک بالغ اور صحت مند انسان کیلئے یہ عجیب سی بات نہیں ہے کیونکہ وہ بچپن ہی سے اس غیر فطری چیز کا عادی ہوتا ہے۔ اگر انسان بالغ پیدا ہوتے اور انکو اس کاغذی ردی نوٹوں اور اے ٹی ایم کے استعمال پر مجبور کیا جاتا تو وہ پاگل ہو کر جنگلوں میں بھاگ جاتے! سائنس دانوں نے بندروں پر تجربات کرکے یہ ثابت کیا کہ کس طرح یہ معاشی نظام انسانیت کو تباہ کر رہا ہے جب ایک قسم کے بندروں کو کرنسی کا استعمال سکھایا گیا جسکے بعد ان کے معاشرہ میں انسانی معاشرے جیسا تہلکہ مچ گیا:
پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا، ارواح، جنات کے تصورات چونکہ بچپن ہی سے ہمارے معصوم اور کند ذہنوں میں ڈال دئے جاتے ہیں یوں بڑھتے بڑھتے بالغ ہونے تک ہمیں ان پر یقین کامل ہونے لگتا ہے اور ہم دانستہ سوچتے ہی نہیں کہ انکے پیچھے حقائق بھی ہیں یا نہیں۔
آپ کے عقیدہ کرنسی پر بات کرنے کو تو یہ دھاگہ موزوں نہیں۔ البتہ یہ کہتا چلوں کہ تصور خدا اور سپرنیچرل پر اعتقاد انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے میں یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
 

رانا

محفلین
تصور خدا اور سپرنیچرل پر اعتقاد انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے میں یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
آپ کی بات کو ہی قرآن کے حوالے سے تھوڑا آگے بڑھاؤں گا کہ قرآن میں ذکر ہے کہ میں نے روحوں سے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں تو انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ یعنی انسان کی فطرت میں ہی خدا کی طرف سے یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی جستجو کرے اور اسکا دماغ اس طرف متوجہ رہتا ہے کہ کوئی تو ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور دراز جزائر اور جنگلوں میں بھی آپ چلے جائیں جہاں جدید مذاہب کا تصور بھی نہ پہنچا ہو تو وہاں بھی رب کا تصور کسی نہ کسی رنگ میں پایا جاتا ہے۔
تُو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اُس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا
 
Top