(۱) قمروعیار کی زنبیل
’’ارے قمروعیار! کہاں جارہے ہو؟‘‘ قمرو عیار کو زنبیل کندھے پر لٹکائے جاتا دیکھ کر اس کے بھائی نے پوچھا۔
’’تراویح پڑھنے۔‘‘ قمروعیار کے اس سنجیدہ جواب سے گھر کے تمام افراد حیران رہ گئے۔
’’کیا۔۔۔!!‘‘ سب ایک ساتھ بولے۔
نام تو اس کا قمرزمان تھا، مگر اس کی شرارتوں اور چالاکیوں کی وجہ سے سب اسے ’’قمرو عیار‘‘ کہتے تھے، ’’قمروعیار‘‘ کو بچپن سے کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا، اسی کا اثر تھا کہ اس نے اپنے پاس ایک زنبیل رکھی ہوئی تھی، یہ الگ بات تھی کہ اس کی زنبیل کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ کسی کام کی نہیں۔
قمرو عیار نمازیں تو پڑھ لیتا تھا، مگر تراویح سے اس کی جان جاتی تھی، آج جب اس نے کہا کہ تراویح پڑھنے جارہا ہوں تو سب گھر والے حیران رہ گئے۔
’’امی! وہ ۔۔۔اصل میں۔۔۔ بات یہ ہے کہ آج اوپر چھت پر ختم ۔۔۔‘‘ قمروعیار نے وضاحت کرنی چاہی۔
’’اچھا، تو اس لیے آج حضرت تراویح کے لیے بڑے شوق سے جارہے ہیں!‘‘ ابو بولے۔
’’آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں، ان لوگوں کو میری زنبیل کی ضرورت پڑ گئی ہے، اس میں مٹھائی رکھ کر بانٹنی ہے۔‘‘
’’میں تو کہتی ہوں، مٹھائی بانٹنا کوئی ضروری تو نہیں۔‘‘ قمرو عیار کی بڑی بہن نے کہا۔
*****
’’اٹھ جاؤ قمرو۔۔۔!‘‘ قمرو عیار کو اس کی امی کی آواز سنائی دی۔
’’اٹھ جا منیر!‘‘ ان کی امی سب کو اٹھاتی رہیں، مگر سب گہری نیند میں تھے۔
’’نمرہ بیٹی! دیکھنا تو وقت کیا ہوا ہے؟ کہیں سحری کا وقت نہ نکل جائے۔‘‘
’’اف خدایا۔۔۔!‘‘ نمرہ کی چیخ سن کر سب گھر والے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔
’’کیا ہوا نمرہ!‘‘ ابو نے گھبرا کر پوچھا۔
’’امی۔۔۔ ابو۔۔۔!‘‘ وہ پھر چیخی۔
’’ہوا کیا ہے بھئی! کچھ بتاؤ تو سہی۔‘‘
’’وہ۔۔۔ سحری کا وقت۔۔۔ ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی ہیں۔‘‘
’’کیا۔۔۔!‘‘ ان سب نے امی کی چیخ سنی۔
’’ہائے اللہ! اب کیا کریں۔۔۔ میں کہتی بھی ہوں کہ رات کو جلدی سوجایا کرو۔۔۔ یہ قمرو عیار بھی رات کو ختم میں گیا تھا۔۔۔ ایک بجے واپس آیا۔۔۔ اس کی وجہ سے میں بھی جاگتی رہی۔۔۔‘‘ ان کی امی بڑبڑاتے ہوئے ادھر سے ادھر دوڑی جارہی تھیں، کبھی باورچی خانے کی طرف، کبھی فریج کے پاس۔
اس ہبڑ دبڑ میں تین منٹ اور نکل گئے۔
’’سات منٹ بچے ہیں۔‘‘ ان کے ابو نے بتایا۔
سب جلدی جلدی پانی پینے لگے۔
’’نہ کچھ بناسکتے ہیں، نہ نیچے سے منگوانے کا وقت ہے۔‘‘نمرہ بولی۔
’’نیچے کچھ ملے گا بھی نہیں اس وقت۔‘‘ قمروعیار کے بھائی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’مگر ایک چیز ہے۔‘‘ قمروعیار نے فخر سے کہا۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘ سب نے ایک ساتھ پوچھا۔ اب صرف چھ منٹ رہ گئے تھے۔
’’میری زنبیل۔۔۔!!‘‘ وہ کندھے اکڑا کر بولا۔
’’ارے بھاڑ میں گئی تمھاری زنبیل۔۔۔!‘‘ امی نے جھلا کر کہا، ابو بھی اسے غصے سے دیکھ رہے تھے۔ اب صرف پانچ منٹ رہ گئے تھے، سب یہی سوچ کر پریشان ہورہے تھے کہ اتنا بڑا دن ہے، بھوک کیسے برداشت کریں گے۔
اتنے میں قمرو عیار کمرے سے اپنی زنبیل لے آیا، سب اسے حیرت اور غصے سے دیکھنے لگے، اس نے اپنی زنبیل میں ہاتھ ڈالا اور جب وہ ہاتھ باہر آیا تو سب نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ ہے، اس نے وہ پیکٹ ابو کو دے دیا۔
پھر اس نے ایک ایک پیکٹ نکالا اور سب کو ایک ایک دینے لگا۔
’’یہ کیا ہے بھئی!؟‘‘ ابو نے حیرت اور مسرت سے پوچھا۔
اب ان سب کا غصہ کافور ہوچکا تھا۔
’’ٹرنگواسنیکس!‘‘ قمروعیار نے سے بتایا۔
’’رات کو ختم میں بچوں کو بجائے مٹھائی کے یہ دیے گئے تھے، چوں کہ میری زنبیل استعمال ہوئی تھی، اس لیے بٹوانے والے نے بچے کھچے سب مجھے دے دیے۔‘‘
’’واہ۔۔۔ یہ تو بڑے مزے کے ہیں۔‘‘ نمرہ نے خوش ہوکر کہا۔
اور پھر سب نے مزے لے لے کر ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ سے سحری کی۔
ہر ایک نے دو دو پیکٹ چار منٹ میں چٹ کرلیے، ماشاء اللہ بہت معیاری اور صحت بخش اسنیکس ہیں۔ امی! میرا تو پیٹ بھر گیا۔‘‘ نمرہ نے کہا۔
پھر سب نے جلدی جلدی پانی پیا اور پھر فوراً ہی اذان شروع ہوگئی۔
 
آخری تدوین:
(۲) آسمانی گفٹ
’’ٹرنگو اسنیکس۔۔۔ ٹرنگو اسنیکس۔۔۔ مزے مزے کے ٹرنگو اسنیکس۔۔۔ اچھے، عمدہ، معیاری اور سستے ٹرنگو اسنیکس۔۔۔!‘‘ ایک چھوٹا سا بچہ ہاتھوں میں بڑا سا تھیلا اٹھائے آواز لگاتا جارہا تھا۔
’’السلام علیکم۔۔۔!‘‘ بچے نے پاس سے گزرتے گیس کے غبارے فروخت کرنے والے کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!‘‘ غبارے والے نے جواب دیا۔
سیٹھ اشرف صاحب دونوں کو محبت سے دیکھنے لگے، وہ بہت نرم دل اور دریادل انسان تھے، عمر پچاس سے پچپن کے درمیان رہی ہوگی، سفید لباس، خوب صورت سفید ریش، ان کے سخاوت کے انداز بھی بڑے نرالے تھے، غریب لوگوں سے منہ مانگے داموں کے عوض ان کی چیزیں خریدکر فقیروں میں تقسیم کردینا تو ان کا عام معمول تھا، مگر آج ان کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انھوں نے ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ بیچنے والے بچے کو اور غبارے بیچنے والے کو روک کر سلام کیا اور تمام ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ اور تمام غباروں کی قیمت معلوم کرکے ان دونوں کو مکمل قیمت ادا کرنے لگے۔
دونوں ہکا بکا رہ گئے، مگر اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، دونوں نے راضی خوشی وہ قیمت لے لی، دوسری حیرانی ان دونوں کو وہ جملہ پڑھ کر ہوئی جو سیٹھ اشرف صاحب نے ایک کاغذ پر لکھ کر ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ کے تھیلے میں ڈال دیا۔ دونوں نے حیرت اور مسرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مگر اگلا لمحہ ان کے لیے اس سے بھی زیادہ حیران کن ثابت ہوا جب سیٹھ صاحب نے تمام غباروں کو ٹرنگو اسنیکس کے تھیلے سے باندھ کر فضا میں اڑنے کے لیے چھوڑدیا، گیس کے غبارے ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ کے تھیلے کو لے کر فضا میں اڑنے لگے، راہ چلتے لوگ حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ان غباروں نے ہوا کے رخ کی مناسبت سے ایک انجانی منزل کی جانب غیر متعین مدت کا سفر شروع کردیا۔
*****
’’آؤ بچو! میں آج آپ سب کو ذوق و شوق کی مزے مزے کی کہانیاں سناؤں۔‘‘ ابو کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ عابد، عاطف، شازمہ اور ننھی فاطمہ بھاگے بھاگے آئے اور کھلے آسمان کے نیچے بچھی چارپائی پر لیٹے ابو کے گرد جمع ہوگئے۔
’’آج تو بہت گرمی لگ رہی ہے ابو!‘‘ عاطف نے اپنے گرمی دانوں پر کھجاتے ہوئے کہا۔
’’اے اللہ! دھماکا ہو اور بارش ہوجائے۔‘‘ فاطمہ نے عادت کے مطابق دعا مانگی، ان کے ابو نے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگتے تھے، مگر فاطمہ کے دعا مانگنے میں دو باتیں سب سے الگ تھیں، ایک تو یہ کہ دعا میں اس کا تکیہ کلام تھا: ’’دھماکا ہو‘‘۔ نہ جانے اس نے یہ جملہ کہاں سے سیکھ لیا تھا اور دوسری خاص بات یہ تھی کہ اس کی دعا عام طور فورا قبول ہوتی تھی اور حیرت کی بات یہ تھی کہ دھماکے کی مناسبت سے کوئی نہ کوئی زور دار آواز بھی ضرور آتی تھی۔
اسی وقت زور دار آواز سے بادل گرجے اور ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی، پھر بارش رک گئی مگر تیز ہوا چلتی رہی، وہ سب مسکرا کر انس کو دیکھنے لگے۔
’’رافع نظر نہیں آرہا؟‘‘ ابو نے پوچھا، ان کی چاہت یہ ہوتی تھی کہ جب وہ کہانی سنائیں تو سب بچے پاس موجود ہوں۔
’’یا اللہ! ۔۔۔ دھماکا ہو۔۔۔ اور رافع آجائے۔‘‘ فاطمہ نے پھر اپنے مخصوص انداز میں دعا مانگی، اسی وقت جوس کا ڈبا زور سے پھٹنے کی آواز سنائی، سب نے مڑ کر دیکھا تو رافع بھاگتا ہوا ان کی طرف آرہا تھا۔۔۔ جوس کا ڈبا اس کے پیروں تلے آکر دبنے کی وجہ سے زور سے پھٹا تھا۔
ایک بار پھر سب مسکرائے اور پھر ابو انھیں ذوق و شوق کی کہانیاں سنانے لگے۔
پھر جب ابو نے انھیں ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ کی کہانی سنائی تو سب کے منہ میں پانی آگیا، عابد کہنے لگا:
’’ابو! یہ ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ ملتے کہاں ہیں ؟ جب بھی اس کہانی کو سنتے ہیں تو اتنا دل ہوتا ہے کہ ہم بھی اسے کھائیں۔‘‘
’’تو بیٹا! اللہ سے مانگونا۔‘‘ ابو نے کہا۔
’’یا اللہ!۔۔۔ دھماکا ہو۔۔۔ اور ہمارے پاس ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ آجائیں۔‘‘ فاطمہ نے پھر اپنے مخصوص انداز میں دعا مانگی۔
’’اب بار بار تو تمھارے کہنے پر دھماکے ہونے سے رہے۔‘‘ شازمہ نے جل کر کہا۔
’’نہیں بیٹا! ایسے نہیں کہتے۔۔۔‘‘ ابو شازمہ کو سمجھانے لگے۔ ’’ضروری تو نہیں ہے نا کہ ہر دعا فوراً قبول ہوجائے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ۔۔۔‘‘ ابو کے الفاظ بیچ میں رہ گئے، کیوں کہ اسی وقت ان سب نے اپنے اوپر کچھ فاصلے پر ایک غبارہ پھٹنے کی آواز سنی، سب نے آواز کی سمت اوپر دیکھا تو انھیں عجیب منظر نظر آیا۔۔۔ بہت سے غبارے آسمان میں ان کی طرف اڑتے ہوئے آرہے تھے، ایک چیل ہوا میں غوطے لگانے کے انداز میں ان سرخ غباروں پر چونچ مار رہی تھی۔۔۔ پھر دوسرا غبارہ پھٹا۔۔۔ پھر تیسرا۔۔۔ پھر چوتھا۔۔۔ اور پھر ایک بڑا سا تھیلا ان کے قریب آکر زور دار آواز سے گرا، عاطف نے بھاگ کر وہ تھیلا اٹھایا اور ابو کے پاس لے آیا، ابو نے تھیلا کھولا تو اس میں سے ایک کاغذ برآمد ہوا، اس پر لکھی تحریر پڑھ کر ابو پہلے تو بہت حیران ہوئے، پھر ننھی فاطمہ کو گود میں اٹھا کر شفقت اور عقیدت کی ملی جلی کیفیت میں اس کی پیشانی کے بوسے لینے لگے۔
کاغذ پر یہ جملہ لکھا تھا:
’’یہ معیاری ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ ہیں، جن صاحب کو ملیں وہ انھیں میری طرف سے ’’آسمانی گفٹ‘‘ سمجھ کر قبول کرلیں۔‘‘
 
آخری تدوین:
(۳) سالانہ سرپرائز
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!‘‘ معاذ نے موبائل پر حنظلہ کے سلام کا جواب دیا۔
’’معاذ! میں نے ایک نئی تفریح سوچی ہے۔‘‘ حنظلہ نے بڑے فخر سے معاذ، انس اور الیاس کو بتایا۔
آپ یہ سوچ کر پریشان نہ ہوں کہ ایک ساتھ تین کو موبائل پر کیسے بتایا؟ بھئی! یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کے ساتھ ساتھ کانفرنس کال بھی طبیعت کی خوش حالی کا سبب بنی ہوئی ہے۔
’’لو اور سنو، نئی تفریح سوچی ہے انھوں نے، مجھے یقین ہے کوئی اوٹ پٹانگ بات ہی سوچی ہوگی۔‘‘ الیاس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’اونٹ پٹانگ۔۔۔ یعنی اس نے سوچا ہوگا کہ اونٹ پہ ٹانگ رکھ کر زمین پر کھڑا رہے گا۔۔۔ واقعی یہ تو نئی تفریح ہوگی ہمارے لیے۔‘‘ انس نے شرارت بھرے لہجے میں کہا تو چاروں خوب زور زور سے ہنسنے لگے۔
’’اوہو۔۔۔ بھئی! حنظلہ کو اپنی بات تو مکمل کرلینے دو۔‘‘ معاذ ان میں قدرے سنجیدہ تھا، اس کی یہ بات سن کر حنظلہ کو کچھ حوصلہ ملا تو وہ گویا ہوا:
’’میں نے سوچا ہے کہ تم تینوں آج شام میرے گھر آجاؤ، تمھارے لیے ’’سالانہ سرپرائز‘‘ ہے۔‘‘ حنظلہ نے جلدی جلدی اپنی بات مکمل کرڈالی۔
’’سرپرائز۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ارے یار! تمھارے گھر کے باہر تو صرف ایک دکان ہے، اس میں بھی بچوں کی ٹافیاں وغیرہ ہی ملتی ہیں۔‘‘ الیاس نے مذاق اڑانا چاہا، مگر معاذ بولا:
’’نہیں الیاس! کسی کا اس طرح مذاق نہیں اڑانا چاہیے، ممکن ہے حنظلہ کا کوئی اور پروگرام ہو۔‘‘
’’مگر یہ ’’سالانہ سرپرائز‘‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘ انس حیرت سے بولا۔ ’’بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ حنظلہ ہمیں ہر سال ایک سرپرائز دیتا ہے۔‘‘
’’مگر مجھے تو یاد نہیں کہ اس نے ہمیں کبھی سرپرائز دیا ہو۔‘‘ الیاس کہنے لگا۔
’’میرے خیال میں حنظلہ نے نیت کرلی ہے کہ اب ہمیں یہ ہر سال سرپرائز دے گا۔‘‘
’’جو چاہو اندازہ لگالو، مگر آج شام میرے گھر آجانا شرافت سے۔‘‘ حنظلہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور سلام کرکے فون بند کردیا۔
شام کو وہ تینوں حنظلہ کے گھر آگئے۔
’’بھئی حنظلہ! میں تو تھک گیا ہوں سوچ سوچ کر تمھارے اس ’’سالانہ سرپرائز‘‘ کے متعلق۔‘‘معاذ نے بے چینی سے کہا۔
’’اور میرے خیال میں انس نے ’’سالانہ سرپرائز‘‘ کے اب تک سو ڈیڑھ سو مطلب تو سوچ ہی لیے ہوں گے۔‘‘ الیاس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’تمھاری بات ڈیڑھ سو فی صد غلط ہے، جب مجھے سمجھ میں آگیا ہے کہ وہ سرپرائز کیا ہے تو میں مزید کیوں سوچوں گا؟‘‘ انس مسکراتے ہوئے بولا۔
’’بتانا ذرا کیا سوچا تم نے؟‘‘
’’بھئی! صاف سی بات ہے، تم نے ہمارے لیے ’’ذوق و شوق‘‘ کا ایک ایک عدد خاص نمبر منگوالیا ہے۔‘‘
’’یہ ۔۔۔ یہ تو پھر۔۔۔‘‘ الیاس نے گھبرا کر کہا۔
’’ارے بھئی! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ سرپرائز کا تعلق کھانے سے ہے۔‘‘ حنظلہ کی بات سن کر الیاس کی جان میں جان آئی۔
حنظلہ انھیں ڈرائنگ روم میں ہنستا مسکراتا چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف چلاگیا۔ تینوں کافی دیر تک ہنسی مذاق میں مصروف رہے، پھر انھیں حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب انھوں نے حنظلہ کی رونی صورت دروازے پر دیکھی، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
’’حنظلہ۔۔۔!‘‘ معاذ نے پریشان لہجے میں کچھ پوچھنا چاہا، مگر حنظلہ نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا تووہ اٹھ کر دوڑتا ہوا حنظلہ کے پاس جا پہنچا، حنظلہ اسے لے کر باورچی خانے کی جانب بڑھ گیا، جب کہ الیاس اور انس ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے، تقریباً دس منٹ بعد حنظلہ اور معاذ مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے، حنظلہ کے ہاتھ میں ٹرے تھی، ٹرے میں چار چائے کے کپ اور کچھ پیکٹس رکھے ہوئے تھے۔
حنظلہ نے وہ ٹرے دسترخوان پر رکھی، تینوں کے آگے چائے کا کپ رکھا اور ہر ایک کو ایک ایک پیکٹ تھمانے لگا، انھوں نے دیکھا کل آٹھ پیکٹ تھے، یعنی ہر ایک کے دو دو۔
’’واہ۔۔۔ کیا ذائقہ ہے یار! ان اسنیکس کا۔‘‘ انس نے الیاس کی طرف دیکھا، مگر اسے جواب دینے کی فرصت ہی نہیں تھی۔
’’ٹرنگو اسنیکس۔‘‘ انس اپنے خالی پیکٹ کو غور سے دیکھتے ہوئے زیر لب بڑبڑانے لگا۔ ’’ماشاء اللہ بھئی! اس کا ذائقہ تو بہت عمدہ ہے، کہاں سے ملتا ہے یہ؟‘‘
’’وہ نیچے ہمارے علاقے میں جو اکلوتی دکان ہے نا۔۔۔ وہاں سے۔‘‘ حنظلہ نے فخر سے بتایا۔
’’ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی حنظلہ!‘‘ انس نے حنظلہ کی طرف دیکھا۔
’’کیا۔۔۔!‘‘ حنظلہ مسکرایا، کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ اب انس کیا سوال کرے گا۔
’’تم دروازے پر آکر گھبراہٹ کی ایکٹنگ کرکے معاذ کو اپنے ساتھ باورچی خانے کیوں لے گئے تھے؟‘‘
’’میں بتاتا ہوں۔‘‘ معاذ کہنے لگا۔ ’’اصل میں یہ وہ سرپرائز نہیں جو حنظلہ نے ہمارے لیے تیار کیا تھا، بل کہ ’’سالانہ سرپرائز‘‘ تو کچھ اور تھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔!!‘‘ انس اور الیاس حیران رہ گئے۔
’’جی ہاں۔۔۔ واقعہ یہ ہوا کہ حنظلہ نے ہمارے لیے سالانہ سرپرائز کے طور پر آم سوچے تھے، مگر چوں کہ آم کا نیا نیا موسم ہے، اس لیے یہ حضرت دھوکا کھاگئے، جب انھوں نے ہمارے لیے آم کاٹے تو وہ سب کے سب کھٹے نکلے، تب ان کی ہوگئی سٹی گم اور انھوں نے مجھے بلالیا، میں نے تمام صورتِ حال کو سمجھ کر ان کا ہاتھ تھاما اور علاقے کی اکلوتی دکان کی طرف اللہ کا نام لے کر چل پڑا، مگر وہاں ہمیں کچھ نہیں ملا، ہم دونوں کا موڈ خراب ہوگیا، اپنا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے ہم نے اس دکان سے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ یہ سوچ کر خریدلیے کہ گھر آکر تم دونوں کی جلی کٹی سننے سے پہلے کچھ کھا پی لیں، مگر جب ہم نے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ چکھے تو یہ اتنے لاجواب تھے کہ ۔۔۔، اس طرح یہی سالانہ سرپرائز ہو گیا۔‘‘
تفصیل سن کر سب کے لبوں پر مسکراہٹ ناچنے لگی۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
یہ تو بہت مزے مزے کی کہانیاں ہیں، بالکل ٹرنگو اسنیکس کی طرح، لیکن ہمیں ٹرنگو اسنیکس کب ملیں گے؟
 
یہ تو بہت مزے مزے کی کہانیاں ہیں، بالکل ٹرنگو اسنیکس کی طرح، لیکن ہمیں ٹرنگو اسنیکس کب ملیں گے؟
جزاکم اللہ خیرا شمشاد بھائی۔ تعریف اور پسندیدگی کا بہت شکریہ۔۔۔ ٹرنگواسنیکس ہمیں بھی ایک ہی بار ملے کھانے کو بہت ذائقے دار ہوتے ہیں۔
 
(۴) بے چارہ بکرا
’’کیا کہا انھوں نے؟‘‘ سب نے بیک وقت پوچھا۔
سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، بے چینی اور پریشانی سے سب انھیں دیکھنے لگے، سب کے چہروں پر ایک ہی بات لکھی تھی کہ وہ جلدی سے جواب دیں اور وہ بھی ’’ہاں‘‘ میں۔ یہ سوچ کر ہی سب کی جان نکلی جارہی تھی کہ کہیں ان کا جواب ’’نہیں‘‘ میں نہ ہو۔
’’نہیں…!‘‘ انھوں نے بجھے ہوئے انداز میں کہا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔
’’یہ کیا…اب کیا ہوگا امی!‘‘ شازمہ نے روہانسی صورت بنا کر کہا۔
دراصل عابد، عاطف، رافع، شازمہ اور فاطمہ کے ابو نے اس دفعہ ان سب کے اصرار پر قربانی کے لیے بکرا خریدا تھا، پہلے تو انھوں نے خوب منع کیا کہ میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ سستے سے سستا بکرا بھی خرید سکوں،، مگر ان کے پانچوں بچے اس بار مصر تھے کہ ہمیں ایک بکرا لاکر ہی دیں، یہ پانچوں اپنے اس فیصلے پر اتنے بضد تھے کہ پانچوں نے عید الفطر کے موقع پر جمع شدہ عیدی کی ساری رقم اپنے ابو کے حوالے کردی، چناں چہ ان کے ابو نے ان کی دی ہوئی رقم میں اپنے پاس موجود تمام رقم ملائی اور کچھ قرضہ لے کر بالآخر ایک بکرا لے ہی آئے۔
بکرا کیا آیا سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ان پانچوں بھائی بہنوں کا تو جیسے ان دنوں بکرے کی دیکھ بھال کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔
مگر پھر عید سے تین دن پہلے صبح صبح پتا چلا کہ بکرا بہت بیمار ہے اور کھا پی کچھ نہیں رہا، پانچوں بھائی بہن پریشان ہوگئے، خوب کوششیں کیں، مگر بکرا کچھ کھا کر ہی نہیں دے رہا تھا، یہ لوگ ہر قسم کی گھاس لے آئے، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
اب یہ پانچوں سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور لگے سوچنے کہ بکرے کو کیسے کھانے پر راضی کیا جائے۔
’’میں تو کہتا ہوں اسے بریانی پکا کر کھلاتے ہیں۔‘‘ رافع نے رائے پیش کی۔
’’پاگل ہوگئے ہو کیا؟ یہ بکرا ہے۔‘‘ عاطف بولا۔
’’تو میں کب کہہ رہا ہوں کہ یہ گدھا ہے۔‘‘
’’یار! الٹی سیدھی ہانکنے کے بجائے کوئی اچھی بات سوچو یا کم از کم خاموش رہو تاکہ ہم کچھ سوچ سکیں۔‘‘ ان کا سب سے بڑا بھائی عابد جھلا کر بولا۔
اور پھر وہ سب دوبارہ سوچ میں گم ہوگئے، اچانک فاطمہ جو سب سے چھوٹی تھی اس کی آواز آئی:
’’میرے ذہن میں ایک تقریب آگئی…!!‘‘
’’تقریب…؟!‘‘ سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’تقریب نہیں، ترکیب۔‘‘ شازمہ نے تصحیح کی۔
’’ہاں وہی… میں جب امی کو کھانا کھانے سے منع کرتی ہوں تو امی مجھ سے کہتی ہیں کہ کھانا کھالوگی تو تمھیں چیز ملے گی، ایسا کرتے ہیں ہم بکرے…‘‘
’’بس،بس، سمجھ گئے۔‘‘ عابد نے اسے چپ کرادیا اور سب برے برے سے منہ بنا کر اسے دیکھنے لگے۔
’’آئیڈیا…!!‘‘ یہ شازمہ کی آواز تھی۔
’’دیکھو شازمہ! اگر تم نے کوئی ڈھنگ کی بات نہ کی تو میں یہاں سے چلا جائوں گا۔‘‘ عاطف جھنجلا کر بولا۔
’’بھائی جان! پہلے سن تو لیں… میں یقین سے کہتی ہوں کہ میرے آئیڈیے پر آپ سب عمل کرنے پر مجبور ہوجائیں گے… آئیڈیا یہ ہے کہ ہم اپنے اس … پیارے سے… بکرے کو…‘‘ شازمہ آرام سے اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی اور مسکراتے ہوئے سب کو ایسے دیکھنے لگی جیسے پوچھ رہی ہو بتائو میں نے کیا آئیڈیا سوچا ہے۔
’’جلدی بولو نا… کیا کریں بکرے کو؟‘‘ رافع بھی بالآخر جھنجلا ہٹ میں مبتلا ہو ہی گیا۔
’’ہم اس … پیارے… بے چارے… بکرے کو ایک بار پھر چارہ کھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
’’واہ … واہ… کیا آئیڈیا دیا ہے… واہ…! ارے بے وقوف! وہ تو ہم صبح سے کر ہی رہے ہیں۔‘‘
آخر تنگ آکر انھوں نے مزید کوشش کی، مگر بکرا تھا کہ منہ کھولنے کا بھی نام نہیں لے رہا تھا، پورا دن بھوکا رہا… رات کو بھی وہ سب اس کے غم میں سو نہ سکے… اگلے دن ان کے ابو نے بھی ان کے ساتھ مل کر خوب کوشش کی، مگر اگلا پورا دن بھی بکرا بھوکا ہی رہا اور اتنا کم زور ہوگیا کہ اس کی زندگی انھیں خطرے میں محسوس ہونے لگی، انھوں نے اسے چلانا چاہا تو وہ تھوڑا سا چل کر کم زوری کی وجہ سے نڈھال ہوکر گر گیا۔
ایک پڑوسی نے یہ صورتِ حال دیکھ کر ایسی بات کہی کہ ان پانچوں بہن بھائیوں سمیت ان کے امی ابو کے بھی اوسان خطا ہوگئے، اس نے کہا:
’’میرے خیال میں تو آپ کسی مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھ لیں کہ ایسے جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟‘‘
’’ٹھیک ہے، میں آج ہی دارالافتاء جاکر مفتی صاحب سے یہ مسئلہ پوچھ کر آتا ہوں۔‘‘ ان کے ابو نے پڑوسی سے کہا۔

٭٭٭٭٭
’’یہ کیا…اب کیا ہوگا امی!‘‘ شازمہ نے روہانسی صورت بنا کر کہا۔ وہ سب بہت زیادہ پریشان ہوگئے تھے، اچانک فاطمہ کی آواز سنائی دی:
’’میری تقریب بھی تو سن لیں۔‘‘فاطمہ بولی۔
’’اچھا بابا! سنائو اپنی ’’تقریب‘‘، تم بھی اپنا شوق پورا کرلو۔‘‘ عابد نے جھلا کر فاطمہ سے کہا۔
’’تقریب یہ ہے کہ بکرے کو یہ کھلائو، پھر گھاس کھلائو۔‘‘سب نے دیکھا اس کے ہاتھ میں ٹرنگو اسنیکس تھے، سب کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی اور پھر جب انھوں نے وہ ٹرنگو اسنیکس بکرے کے آگے رکھے تو پہلے تو وہ صرف سونگھتا رہا، پھر اچانک اس نے کھانے شروع کردیے، عابد نے چپکے سے ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ کے ساتھ ساتھ اسے چارہ کھلانا بھی شروع کردیا، شازمہ اور فاطمہ بھاگ کر بہت سے ٹرنگو اسنیکس کے پیکٹ لے آئیں، اب صورتِ حال یہ تھی کہ چارے میں کافی سارے ٹرنگواسنیکس مکس کردیے گئے تھے اور بکرا بڑے شوق سے چارہ کھائے جارہا تھا، پھر اس نے جی بھر کر پانی پیا، رات کو بھی خوب کھایا، اگلے دن صبح تک وہ چلنے پھرنے بھی لگا، ان کے ابو نے مفتی صاحب کو فون کرکے یہ صورتِ حال بتائی تو انھوں نے فرمایا:
’’ہاں جی، اب اس کی قربانی آپ کرسکتے ہیں۔‘‘
 
آخری تدوین:
(5) چوری
حبیبہ نے گھر میں داخل ہوکر سب کو سلام کیا اور پھر اس کے ابو، امی اور بھائی جان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ اپنے سلام کا جواب سنے بغیر کمرے میں چلی گئی اور الماری کھول کر جلدی سے اس میں کچھ رکھ دیا۔
امی نے ابو کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولے:
’’پتا ہے اس نے الماری میں کیا رکھا ہے؟‘‘
’’کیا…؟‘‘ بھائی جان اور امی نے ایک ساتھ پوچھا۔
’’ٹرنگواسنیکس۔‘‘وہ مسکراکر بولے۔
’’کیا…!!‘‘ دونوں حیرت سے بولے، کیوں کہ حبیبہ ایک سمجھ دار بچی تھی اور باہر کی غیر معیاری چیزیں بالکل نہیں کھاتی تھی، مزے کی بات یہ کہ اسے کسی بھی قسم کے اسنیکس پسند نہیں تھے، مگر آج اس کے ہاتھ میں ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کی موجودگی نے ان سب کو سوچنے پر مجبور کردیا، پھر ان تینوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے دل میں سوچا کہ اس ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ کو چیک کرنا چاہیے۔
اور پھر یہی ہوا، پہلے اس کے ابو نے جاکر ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ کو چیک کیا، پھر امی نے، پھر بھائی جان نے، مگر جس طرح چائے کو اگر تین مرتبہ ٹھنڈی ہونے پر تینوں مرتبہ چولھے پر پکایا جائے تو اس کا صرف ذائقہ تبدیل، بل کہ خراب ہوجاتا ہے، اسی طرح حبیبہ کے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ پر اس کے تین بزرگوں نے ہاتھ صاف کیا تو آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کا کیا حشر ہوا ہوگا۔
٭٭٭٭٭​
’’ام…می…!!‘‘ حبیبہ کی چیخ سن کر ابو، امی اور بھائی جان تینوں دوڑتے ہوئے اس کمرے میں پہنچے۔
’’کیا ہوا میری بچی کو؟‘‘ امی گھبراکربولی۔
’’کیا ہوا بیٹا! کیوں چیخ رہی ہو؟‘‘ ابو اور بھائی جان نے بھی پوچھا۔
انھوں نے دیکھا، اس کے ہاتھ میں ’’ٹرنگو اسنیکس‘‘ کا خالی ریپر ہے۔
’’امی! کسی نے میرے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کھالیے۔‘‘ وہ رونی صورت بناکر بولی، پھر اس کے شک کی سوئی سب سے پہلے بھائی جان پر جاکر رکی تو وہ ایک دم سے بوکھلاگئے۔
’’تت…تم… میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟‘‘ بھائی جان نے بڑی مشکل سے یہ جملہ ادا کیا۔
’’بھائی جان! آپ اتنے بڑے ہیں اور اپنی اتنی ننھی سی بہن کی کھانے کی چیزیں چوری کرتے ہیں!!‘‘ حبیبہ نے بڑے دکھ سے کہا۔
’’نن… نہیں…مم… میں بھلا تمھاری چیزیں کیوں چرانے لگا…اور… اس میں تو صرف توس کا چورا رکھا ہوا تھا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ آپ نے میری الماری کھول کر ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کا یہ پیکٹ کھول کر دیکھا تھا۔‘‘ حبیبہ بھائی جان کو گھورنے لگی۔
’’ہاں… مم… مگر میرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ …‘‘ بھائی جان اپنا عذر بتانا چاہ رہے تھے، مگر حبیبہ چیخ کر بولی:
’’اس میں توس کا چورا نہیں، اسنیکس تھے اسنیکس…اور بھائی جان! اگر اس میں توس کا چورا تھا تو وہ کہاں گیا؟ اسے زمین ہڑپ کرگئی یا آسمان لے اڑا؟‘‘ حبیبہ نے دادی اماں سے سنا ہوا ایک محاورہ بھی غصے غصے میں خراب کر ڈالا۔
’’وہ میںنے کھالیے۔‘‘ بھائی جان کی ہلکی سی آواز آئی۔
’’لیکن بیٹا! تمھیں وہ چورا نہیں کھانا چاہیے تھا، میں نے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کے پیکٹ میں وہ چورا حبیبہ کے لیے رکھا تھا۔‘‘ امی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’اوہ… تو اس کا مطلب… چوری آپ نے کی ہے امی جان!؟‘‘ حبیبہ کا ریڈار امی کی طرف گھوم گیا۔
’’نہیں بیٹا! میں کیوں چوری کروں گی تمھاری چیزیں، اصل میں مجھے تمھاری صحت کا خیال تھا، کل تمھیں موشن ہورہے تھے اور آج میں نے تمھارے اس پیکٹ میں چلغوزے دیکھے، میں نے سوچا وہ تمھیں گرم نہ لگ جائیں، اس لیے وہ نکال کر ان کی جگہ میں نے توس کا چورا بھردیا۔‘‘ امی نے وضاحت کی۔
’’افّوہ…!!‘‘ حبیبہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور جھنجلاکر بولی:
’’مگر امی جان! اس میں چلغوزے نہیں… اسنیکس تھے اسنیکس… میرے بیسٹ اسنیکس… مجھے وہ بہت پسند ہیں… مگر آپ نے وہ کیوں کھالیے؟‘‘
’’ارے بیگم! تمھیں وہ چلغوزے اس میں سے نہیں نکالنے چاہیے تھے، اب حبیبہ کی طبیعت ٹھیک ہوگئی ہے اور اسے چلغوزے بہت پسند ہیں، میں نے ہی اسے خوش کرنے کے لیے اس کے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کے پیکٹ میں وہ چلغوزے رکھے تھے۔‘‘ ابو تفصیل بتاتے ہوئے مسکرا رہے تھے، مگر حبیبہ کی پیشانی کے بل ڈبل ہوچکے تھے۔
’’اچھا تو ابوجی…! آپ ہیں میرے ’’ٹرنگواسنیکس‘‘ کے اصل ہڑپ کرنے والے۔‘‘ حبیبہ نے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھ کر دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’ہاں، میں ہی اصل مجرم ہوں۔‘‘ ابو نے سر جھکا کر کہا، ان کے دونوں ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ’’میں صرف یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ تم نے اتنی غیرمعیاری چیزیں کھانی کب سے شروع کردی ہیں، مگر جوں ہی میں نے چیک کرنے کے لیے تمھارے ٹرنگواسنیکس چکھے، ان کا ذائقہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ بے اختیار میں سارے اسنیکس کھاگیا، پھر مجھے تمھاری ناراضی کا خیال آیا تو میں نے اس میں تمھاری پسند کے چلغوزے ڈال دیے، اب مجھے کیا پتا تھاکہ تمھاری امی تمھارے پیٹ کے خراب ہونے کے ڈر سے وہ چلغوزے نکال کر ان کی جگہ توس کا چورا بھردیں گی، پھر بھائی جان نے وہ توس کا چورا ہی کھالیا تو یوں تمھارے نصیب میں یہ خالی ریپر رہ گیا، مگر…‘‘ ابو نے معنی خیز انداز میں اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’مگر کیا ابو…؟‘‘ حبیبہ اور بھائی جان ایک ساتھ بولے۔
’’یہ دیکھو۔‘‘ انھوں نے ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھوں کو ان کے سامنے کردیا تو وہ تینوں یہ دیکھ کر خوشی اور حیرت سے اچھل پ۔ڑے کہ ابو کے ہاتھ میں ٹرنگواسنیکس کے چار پیکٹ تھے۔

رائٹر: محمد اسامہ سَرسَرؔی
 
ماشاءاللہ اچھی کہانیاں ہیں۔ البتہ میری بیگم ہر بار ٹرنگو سنیکس کی کہانی دیکھ کے یہی کہتی ہے اس بندے کو اور کوئی کام نہیں ہے جو کہانیاں لکھنے بیٹھ گیا۔ اب یہ معلوم نہیں ساری کہانیاں آپ کی ہی ہوتی ہیں یا نہیں۔
 
ماشاءاللہ اچھی کہانیاں ہیں۔ البتہ میری بیگم ہر بار ٹرنگو سنیکس کی کہانی دیکھ کے یہی کہتی ہے اس بندے کو اور کوئی کام نہیں ہے جو کہانیاں لکھنے بیٹھ گیا۔ اب یہ معلوم نہیں ساری کہانیاں آپ کی ہی ہوتی ہیں یا نہیں۔
جو یہاں پیش کی ہیں وہ میری لکھی ہوئی ہیں ، ان کے علاوہ باقی میرے ایک دوست نے لکھی ہیں۔
بھابھی کا اشکال درست ہے ، مگر ہم تو مزدور لوگ ہیں ، لوگ اپنا کام کرواتے ہیں ، کوئی قابل اشکال بات نہیں ہوتی تو ہم حق الخدمت لے کر کردیتے ہیں۔ :)
 
Top