احمد ندیم قاسمی

شعیب اصغر

محفلین
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا ۔۔۔۔۔ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا ۔۔۔۔ اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لئے کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس "کچھ اور" کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست!
اے خداوندانِ ایوانِ عقائد!
زندگی کے نام پر بس اک عنائت چاہئیے
مجھے ان سارے جرائم کی اجازت چاہئیے۔

(احمد ندیم قاسمی)
 
بہترین انتخاب ہے جناب!
دو تصحیحات دیکھیے:
زندہ رہنے کے لیے "انسان" کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور
اور اس کچھ اور "بھی" کا تذکرہ بھی جرم ہے

سلامت رہیے :)
 
Top