آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

سعادت

تکنیکی معاون
سُوزن کین کی Quiet: The Power of Introverts in a World That Can't Stop Talking۔

انسانی شخصیت کے اِنٹرووَرٹ اور ایکسٹرووَرٹ پہلوؤں کا احاطہ کرتی اور جدید نفسیاتی تحقیق سے استفادہ کرتی ایک اچھی اور دلچسپ کتاب ہے۔ اگر میری طرح آپ بھی خود کو انٹرووَرٹ گردانتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ :) (کتاب کا "ٹریلر" سوزن کین کی ٹیڈ ٹاک کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔)
 
آخری تدوین:
سُوزن کین کی Quiet: The Power of Introverts in a World That Can't Stop Talking۔

انسانی شخصیت کے اِنٹرووَرٹ اور ایکسٹرووَرٹ پہلوؤں کا احاطہ کرتی اور جدید نفسیاتی تحقیق سے استفادہ کرتی ایک اچھی اور دلچسپ کتاب ہے۔ اگر میری طرح آپ بھی خود کو انٹرووَرٹ گردانتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ :) (کتاب کا "ٹریلر" سوزن کین کی ٹیڈ ٹاک کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔)
محترمہ کی ٹیڈ ٹاک تو بہت عرصہ قبل سنی تھی اور کتاب بھی برقی لائبریری میں موجود ہے پتہ نہیں کبھی پڑھوں گا
 

قیصرانی

لائبریرین
The Ancestor's Tale by Richard Dawkins

AncestorsTale2.jpg
رچرڈ ڈاکنز کو بہت جگہ کوٹ ہوتے دیکھا ہے۔ بلائینڈ واچ میکر کو جب پڑھنا شروع کیا تو دل اچاٹ ہو گیا۔ کیا آپ اس کتاب کے بارے کچھ چنیدہ خلاصہ پیش کر سکتے ہیں؟ عین ممکن ہے کہ میرا پہلا تائثر غلط ہو؟
 

جیہ

لائبریرین
کل ہی میں عظمت ہما کے ایم فل مقالے "اردو اور پشتو کے نمائندہ افسانے ایک تقابلی جائزہ" سے پڑھ کر فارغ ہوئی ہوں۔ مقالہ نگار مرادن کالج کے لیکچرر ہیں۔ بڑی محنت سے لکھا ہے یہ مقالہ۔ پشتو اکیڈمی پشاور کے تعاون سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ مقالے کے مطابق اردو اور پشتو افسانہ نگاری کی ابتدا ایک وقت میں ہوئی مگر پشتو افسانہ بہت کم لکھا گیا ہے اور اتنا معیاری نہیں جتنا کہ اردو افسانہ تاہم یہ بھی نہیں کہ پشتو افسانے بالکل ہی غیر معیاری ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ راحت زاخیلی کا افسانہ "کونڈہ جینئی" یا بیوہ لڑکی پشتو کا پہلا افسانہ ہے جو 1917 میں لکھا گیا تھا مگر اس مقالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پشتو کا پہلا افسانہ نگار ایک انگریز ہے جو اپنے آپ کو لڑم فیرنگے (بچھو فرنگی) کہتا ہے۔ اس نے پشتو کی ایک بول چال کی کتاب لکھی تھی 1910 میں۔ اس میں ایک قصہ درج ہے جو افسانے کی فنی لوازمات پر تقریبا پورا اترتا ہے۔ اور یوں وہ پشتو کے پہلے افسانہ نگار بن جاتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کل ہی میں عظمت ہما کے ایم فل مقالے "اردو اور پشتو کے نمائندہ افسانے ایک تقابلی جائزہ" سے پڑھ کر فارغ ہوئی ہوں۔ مقالہ نگار مرادن کالج کے لیکچرر ہیں۔ بڑی محنت سے لکھا ہے یہ مقالہ۔ پشتو اکیڈمی پشاور کے تعاون سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ مقالے کے مطابق اردو اور پشتو افسانہ نگاری کی ابتدا ایک وقت میں ہوئی مگر پشتو افسانہ بہت کم لکھا گیا ہے اور اتنا معیاری نہیں جتنا کہ اردو افسانہ تاہم یہ بھی نہیں کہ پشتو افسانے بالکل ہی غیر معیاری ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ راحت زاخیلی کا افسانہ "کونڈہ جینئی" یا بیوہ لڑکی پشتو کا پہلا افسانہ ہے جو 1917 میں لکھا گیا تھا مگر اس مقالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پشتو کا پہلا افسانہ نگار ایک انگریز ہے جو اپنے آپ کو لڑم فیرنگے (بچھو فرنگی) کہتا ہے۔ اس نے پشتو کی ایک بول چال کی کتاب لکھی تھی 1910 میں۔ اس میں ایک قصہ درج ہے جو افسانے کی فنی لوازمات پر تقریبا پورا اترتا ہے۔ اور یوں وہ پشتو کے پہلے افسانہ نگار بن جاتے ہیں۔
اس فرنگی پہلے پشتو افسانہ نگار کا نام بھی بتا دیں
 

عثمان

محفلین
رچرڈ ڈاکنز کو بہت جگہ کوٹ ہوتے دیکھا ہے۔ بلائینڈ واچ میکر کو جب پڑھنا شروع کیا تو دل اچاٹ ہو گیا۔ کیا آپ اس کتاب کے بارے کچھ چنیدہ خلاصہ پیش کر سکتے ہیں؟ عین ممکن ہے کہ میرا پہلا تائثر غلط ہو؟
بلائینڈ واچ میکر تو اب تک نہیں پڑھی۔ اس لیے اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ تاہم امید ہے کہ دلچسپ ہوگی کہ ڈاکنز میرے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ہے۔

اگر آپ کو حیاتیاتی ارتقاء میں دلچسپی ہے اور اس سلسلے میں آپ کوئی مذہبی تعصبات بھی نہیں رکھتے تو The Ancestor's Tale آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ اس کتاب میں ڈاکنز نے انسان کا حیاتیاتی شجرہ نسب کھینچا ہے۔
انسان کی تمام معلوم انواع اور ان کے مشترکا آباء ، ... ان کا چمپنزی کے آباء کے ساتھ رشتہ.... پھر ممالیہ جانوروں میں انسان کی حیاتیاتی ارتقائی تاریخ اور اس طرح پیچھے چلتے چلتے زندگی کے نقطہ آغاز تک۔ کہ انسان اور اس کے آباء کہاں کہاں جا کر کن کن جانوروں سے ساڑھے چار ارب سال پر مشتمل زندگی کی تاریخ میں کب کب رشتہ جوڑتے ہیں۔
ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انسان سمیت کئی جانوروں کے حیاتیاتی ارتقاء کی بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز تفصیل ہے۔ مفصل بتایا ہے کہ کیسے وہ بظاہر معمولی نظر آنے والے ایسے عوامل ہیں جو فطری جبر کے تحت جانداروں کو ایک حالت سے دوسری حالت میں دھکیلتے ہیں یہاں تک کہ جانور اتنا تبدیل ہوجاتا ہے کہ آپ اسے ایک نئی "نوع" کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
دریائی گھوڑے کے متعلق بتایا ہے.... کہ کیسے اس کے قریب ترین رشہ دار نوع کوئی دوسرا چوپایا نہیں بلکہ سمندر کی وہیل مچھلی ہے۔ Seal کی تفصیل ہے کہ نر سیل مادہ سیل سے اتنا بھاری بھرکم کیوں ہے۔ کیسے مادہ مورنی انتخاب کے ذریعے خوبصورت پروں والے نر موروں کی نسل ترتیب دیتی ہے۔ کیسے وادی کیلفورنیا کی سالمندر کا حیاتاتی ارتقاء باقی جانوروں کے حیاتیاتی ارتقاء سے منفرد ہے۔ انسان دو پیروں پر کیونکر اٹھا ؟ تمام جانداروں میں انسان کا دماغ اس کے جسم کی مناسبت سے بڑا کیوں ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔کیا وجہ ہے کہ کچھ جانوروں کے خصیے بڑے اور کچھ کے چھوٹے ہیں ؟وہ کونسا ممالیہ جانور ہے جو انڈے دیتا ہے اور تھن کے بغیر دودھ پیدا کرتا ہے۔ اور وہ کیوں اس عجیب حالت کو پہنچا ؟ڈوڈو اور شتر مرغ نے اڑنا کیوں چھوڑا ؟ کیا سندباد جہازی کے دیوقامت پرندے "رخ" جیسا کوئی پرندہ کسی جزیرے پر وجود رکھتا تھا؟ کیسے زمین کی مسلسل بدلتی جغرافیائی ترتیب زندگی کی ترتیب پر اثر انداز ہوتی اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں ڈھالتی ہوئی نئی انواع پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بلائینڈ واچ میکر تو اب تک نہیں پڑھی۔ اس لیے اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ تاہم امید ہے کہ دلچسپ ہوگی کہ ڈاکنز میرے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ہے۔

اگر آپ کو حیاتیاتی ارتقاء میں دلچسپی ہے اور اس سلسلے میں آپ کوئی مذہبی تعصبات بھی نہیں رکھتے تو The Ancestor's Tale آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ اس کتاب میں ڈاکنز نے انسان کا حیاتیاتی شجرہ نسب کھینچا ہے۔
انسان کی تمام معلوم انواع اور ان کے مشترکا آباء ، ... ان کا چمپنزی کے آباء کے ساتھ رشتہ.... پھر ممالیہ جانوروں میں انسان کی حیاتیاتی ارتقائی تاریخ اور اس طرح پیچھے چلتے چلتے زندگی کے نقطہ آغاز تک۔ کہ انسان اور اس کے آباء کہاں کہاں جا کر کن کن جانوروں سے ساڑھے چار ارب سال پر مشتمل زندگی کی تاریخ میں کب کب رشتہ جوڑتے ہیں۔
ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انسان سمیت کئی جانوروں کے حیاتیاتی ارتقاء کی بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز تفصیل ہے۔ مفصل بتایا ہے کہ کیسے وہ بظاہر معمولی نظر آنے والے ایسے عوامل ہیں جو فطری جبر کے تحت جانداروں کو ایک حالت سے دوسری حالت میں دھکیلتے ہیں یہاں تک کہ جانور اتنا تبدیل ہوجاتا ہے کہ آپ اسے ایک نئی "نوع" کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
دریائی گھوڑے کے متعلق بتایا ہے.... کہ کیسے اس کے قریب ترین رشہ دار نوع کوئی دوسرا چوپایا نہیں بلکہ سمندر کی وہیل مچھلی ہے۔ Seal کی تفصیل ہے کہ نر سیل مادہ سیل سے اتنا بھاری بھرکم کیوں ہے۔ کیسے مادہ مورنی انتخاب کے ذریعے خوبصورت پروں والے نر موروں کی نسل ترتیب دیتی ہے۔ کیسے وادی کیلفورنیا کی سالمندر کا حیاتاتی ارتقاء باقی جانوروں کے حیاتیاتی ارتقاء سے منفرد ہے۔ انسان دو پیروں پر کیونکر اٹھا ؟ تمام جانداروں میں انسان کا دماغ اس کے جسم کی مناسبت سے بڑا کیوں ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔کیا وجہ ہے کہ کچھ جانوروں کے خصیے بڑے اور کچھ کے چھوٹے ہیں ؟وہ کونسا ممالیہ جانور ہے جو انڈے دیتا ہے اور تھن کے بغیر دودھ پیدا کرتا ہے۔ اور وہ کیوں اس عجیب حالت کو پہنچا ؟ڈوڈو اور شتر مرغ نے اڑنا کیوں چھوڑا ؟ کیا سندباد جہازی کے دیوقامت پرندے "رخ" جیسا کوئی پرندہ کسی جزیرے پر وجود رکھتا تھا؟ کیسے زمین کی مسلسل بدلتی جغرافیائی ترتیب زندگی کی ترتیب پر اثر انداز ہوتی اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں ڈھالتی ہوئی نئی انواع پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
شکریہ عثمان
مجھے بلائینڈ واچ میکر میں ڈاکنز کے نظریات کافی سطحی لگے۔ قریب قریب دو سال قبل پڑھنا شروع کی تھی۔ جب ابتداء میں امپریشن اچھا نہ بنے تو کتاب کو پڑھنے کا دل نہیں کرتا۔ ویسے بھی کنڈل میں اتنی کتب موجود ہیں کہ ہر ماہ خریدی جانے والی کتب کو مزید آگے کے لئے چھوڑ دیتا ہوں
اتنا تو آپ نے جان ہی لیا ہوگا کہ میں سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھنے کا قائل ہوں :) اس لئے نو ٹینشن
مجھے اس طرح کی کتب میں جو سب سے بڑا مسئلہ لگتا ہے وہ ہے ٹائم لائن۔ فاسلز سے کسی جاندار کی قدامت کا اندازہ لگانا اتنا فول پروف بھی نہیں۔ تاہم میں نے یہ کتاب کل خرید لی ہے۔ امید ہے کہ کل کے ٹرپ پر شاید اسے کچھ شروع کر لوں :)
 

عثمان

محفلین
شکریہ عثمان
مجھے بلائینڈ واچ میکر میں ڈاکنز کے نظریات کافی سطحی لگے۔ قریب قریب دو سال قبل پڑھنا شروع کی تھی۔ جب ابتداء میں امپریشن اچھا نہ بنے تو کتاب کو پڑھنے کا دل نہیں کرتا۔ ویسے بھی کنڈل میں اتنی کتب موجود ہیں کہ ہر ماہ خریدی جانے والی کتب کو مزید آگے کے لئے چھوڑ دیتا ہوں
اتنا تو آپ نے جان ہی لیا ہوگا کہ میں سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھنے کا قائل ہوں :) اس لئے نو ٹینشن
مجھے اس طرح کی کتب میں جو سب سے بڑا مسئلہ لگتا ہے وہ ہے ٹائم لائن۔ فاسلز سے کسی جاندار کی قدامت کا اندازہ لگانا اتنا فول پروف بھی نہیں۔ تاہم میں نے یہ کتاب کل خرید لی ہے۔ امید ہے کہ کل کے ٹرپ پر شاید اسے کچھ شروع کر لوں :)
سائنس تو سطحی نہیں ہوسکتی۔ شائد مصنف کی کوئی قیاس آرائی ہو جو کچھ بڑھ گئی ہو۔
فوسل سے قدامت کا اندازہ سطحی نہیں۔ پھر ریڈیو کاربن ڈیٹنگ ہے ، جو فزکس اور جیالوجی میں بھی رائج ہے۔ جس کی افادیت ثابت شدہ ہے۔ یہ بھی فوسل کی قدامت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔
پھر ایک جدید طریقہ مالیکیولر ڈیٹینگ کا ہے جو انتہائی نفیس ہے۔ جب مختلف طریقہ ہائے عمر ایک ہی عدد کی طرف اشارہ کرتے نظر آئیں تو فوسلز کا ثبوت مزید پختہ ہو جاتا ہے۔
ان تمام طریقہ کار اور مختلف فوسلز کا تفصیلی تذکرہ ڈاکنز نے اپنی ایک انتہائی دلچسپ اور معلوماتی کتاب The Greatest Show on Earth: The Evidence for Evolution میں کیا ہے۔ میرے خیال میں آپ کو سب سے پہلے اس کا مطالعہ بہت فائدہ دے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ آپ خریدتے جائیں اور پڑھ نہ پائیں۔ :)

The_Greatest_Show_on_Earth.JPG
 

قیصرانی

لائبریرین
سائنس تو سطحی نہیں ہوسکتی۔ شائد مصنف کی کوئی قیاس آرائی ہو جو کچھ بڑھ گئی ہو۔
فوسل سے قدامت کا اندازہ سطحی نہیں۔ پھر ریڈیو کاربن ڈیٹنگ ہے ، جو فزکس اور جیالوجی میں بھی رائج ہے۔ جس کی افادیت ثابت شدہ ہے۔ یہ بھی فوسل کی قدامت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔
پھر ایک جدید طریقہ مالیکیولر ڈیٹینگ کا ہے جو انتہائی نفیس ہے۔ جب مختلف طریقہ ہائے عمر ایک ہی عدد کی طرف اشارہ کرتے نظر آئیں تو فوسلز کا ثبوت مزید پختہ ہو جاتا ہے۔
ان تمام طریقہ کار اور مختلف فوسلز کا تفصیلی تذکرہ ڈاکنز نے اپنی ایک انتہائی دلچسپ اور معلوماتی کتاب The Greatest Show on Earth: The Evidence for Evolution میں کیا ہے۔ میرے خیال میں آپ کو سب سے پہلے اس کا مطالعہ بہت فائدہ دے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ آپ خریدتے جائیں اور پڑھ نہ پائیں۔ :)

The_Greatest_Show_on_Earth.JPG
فاسلز کے بننے کا طریقہ کار کچھ ایسا ہی ہے نا کہ اصل جانور کے جسم کے اجزاء کی جگہ دیگر اجزاء لے لیتے ہیں۔ کاربن ڈیٹنگ میں ایک تو کنٹیمی نیشن کا مسئلہ ہے اور پھر یہ بھی مسئلہ ہے یہ سو فیصد فول پروف نہیں۔ مالیکیولر ڈیٹنگ کو ابھی دیکھتا ہوں :)
 

عثمان

محفلین
فاسلز کے بننے کا طریقہ کار کچھ ایسا ہی ہے نا کہ اصل جانور کے جسم کے اجزاء کی جگہ دیگر اجزاء لے لیتے ہیں۔ کاربن ڈیٹنگ میں ایک تو کنٹیمی نیشن کا مسئلہ ہے اور پھر یہ بھی مسئلہ ہے یہ سو فیصد فول پروف نہیں۔ مالیکیولر ڈیٹنگ کو ابھی دیکھتا ہوں :)
اکثر فوسلز میں ہڈیوں اور دانتوں کا ڈی این اے محفوظ رہتا ہے۔ پھر بہت سے جانوروں کی ہڈیاں کروڑوں سالوں تک سلامت بھی رہتی ہیں جیسے ساڑھے چھ کروڑ پرانے ڈائنو سارس کی ہڈیاں محفوظ ہیں۔ اتنی اچھی حالت میں ہڈیوں اور فوسلز میں کنٹیمی نیشن کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ :)
 

نیلم

محفلین
من کی دنیا
( ڈاکٹر غلام جیلانی برق)
روح ،روحانیت کی حقیقت،روحانی قوت اور مذہب سے متعلق کتاب ہے یہ
،،
 
آخری تدوین:

نیلم

محفلین
بہت اعلی کتاب ہے یہ۔
اور کافی پہلے لکھی گئی تھی۔ اردو میں اس موضوع پر تحریر شدہ پہلی کتب میں سے تھی۔ اور ڈاکٹر صاحب مرحوم کی اپنی تحقیق پر مبنی تھی۔
جی بالکل ،،،
اور یہ کتاب مجھے ہماری مسجد کے قاضی صاحب کی وائف نے پڑھنے کے لیے دی ہے ۔ہماری محلے کی مسجد کے بڑے قاضی صاحب (جو کے اب حیات نہیں ہے وہ بھی بہت بڑے عالم تھے)ڈاکٹر صاحب کے خاص دوستوں میں سے تھے۔
 

نیلم

محفلین
خوشی ہوئی پڑھ کر۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنے وقت کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے، میرے خیال میں جن کی کما حقہ قدر افزائی نہیں ہو سکی۔
شاکرالقادری,
جی بالکل متفق ہوں میں آپ سے
میں اس کتاب میں سے کچھ شئیر کروں گی اُردو ویب پہ تاکہ سب لوگ استفادہ حاصل کر سکیں اس کتاب سے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
زر خیزپتھر اور جینے کا جرم

مشہور خاتون صحافی ش۔ فرخ کی یہ دونوں کتابیں اکٹھی ملی ہیں جن میں سے پہلی تو ان کا سفر نامۂ ہندوستان ہے اور دوسری ان کی خود نوشت ہے۔

دونوں ایک منفرد انداز سے تحریر کی گئی ہیں۔ پڑوسی ملک کے جو سفر نامے اب تک پڑھ چکا ہوں، زرخیز پتھر پڑھ کر میری معلومات میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے سفر کی روئداد میں کئی جگہ جزئیات کو بیان کرنے کے علاوہ مقامات کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت پر نہایت دلنشین طور پر روشنی ڈالی ہے۔

دوسری کتاب بھی ان کی حالات زندگی کے مختلف گوشوں مثلاً اسکول، کالج، یونیورسٹی میں تعلیمی مدارج اور حصول ملازمت کے مراحل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حلقۂ تعارف و رفاقت میں شامل شعر وادب، صحافت، سیاست اور ذاتی احباب، جن میں اکثرزیادہ تر ان میدانوں کے مشاہیر ہیں، کے بارے میں کئی ایسی معلومات دیتی ہے جو میری طرح کے کئی قارئین کے لئے نئی ہوں گی۔ لوگوں کے رویوں، نفسیات اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق بھی کافی کچھ لکھا ہے۔

سچائی اور خلوص پر مبنی ان کا انداز تحریر اتنا دلچسپ اور عام ڈگر سے ہٹ کر ہے کہ قاری کو مکمل گرفت میں لئے رکھتا ہے۔ 'جینے کا جرم' کو آج میں مسلسل ڈھائی گھنٹوں تک پڑھتا رہا لیکن مجھے وقت گذرنے کا احساس تک نہ ہوا۔

دونوں کتابیں سنگ میل پبلیکشنز، لاہور نے چھاپی ہیں۔ زرخیز پتھر 1996 میں چھپی تھی۔ اس وقت اس کی قیمت75 روپے تھی۔
'جینے کا جرم' 2013میں چھپی ہے اور اس کی قیمت 400 روپے ہے۔
 
آخری تدوین:
Top