"یہ سارے مرد ہی کیوں ملتے ہیں ہمیں،،،، کوئی شاعر کیوں نہیں ملتا" ووٹ ضرور دو پر کچھ بدلے گا نہیں

السلام علیکم،

بڑا خوش فہم تھا میں کہ شاید اس بار کچھ تبدیلی آ جائے، ہر بل سے ڈسے جانے کے بعد عمران خان سے امیدیں تھیں کہ تبدیلی کا نعرہ لگا ہے انشاءاللہ تبدیلی کی امید ہے۔
پھر یکسر منظرنامے بدلنا شروع ہو گئے، روایتی تقریری انداز کی یہ دلیل سامنے آئی کہ عوام خوش اسی طرح ہوتی ہے۔
دوسروں کو لعن طعن کرنے کی استفسار ہوا تو یہی جواب آیا کہ ماحول میں بڑا اِن ہے یہ ٹرینڈ کہ مخالف کی ذات کو ہدفِ تنقید بناؤ اور عوام کا ووٹ لو۔
اب کل جو محفلین سے فیصل مسجد اسلام آباد میں جو ملاقات طے تھی اس کے بعد گھر جانا ہوا تو مت پوچھیں کیا حال تھا سڑکوں کا۔
ستارہ مارکیٹ جی 7 پی ٹی آئی کا جلسہ تھا، ایک روڈ پہ کرسیاں لگی تھیں اور ایک روڈ پہ پجیروز وغیرہ کھڑی تھیں۔ اور جھنڈا بردار جو دوسری سڑک (یعنی یک طرفہ سڑک جو کہ دونوں طرف کے لیے اب استعمال ہو رہی تھی) اس پہ بھی شوروغل مچاتے ہوئے جھوم رہے تھے۔ کسی کو اتنا خیال نہیں تھا کہ ذرا کوشش کر کے ٹریفک جام کو کھولنے کی کوشش کی جائے۔
گاڑی میں کچھ سواریوں نے جب گاڑی والے سے بری امام اور بارہ کہو جانے کا پوچھا جو کہ آب پارہ چوک سے آگے آتے ہیں تو گاڑی والے نے کہا بھائی نواز شریف کا جلسہ ہے آب پارہ میں اس لیے وہ راستے بند ہیں اور گاڑی صرف لال مسجد تک جائے گی۔

دوستوں کو بتاتا چلوں کہ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جس میں ہر سیکٹر تو کیا ہر بلاک میں بچوں کے کھیلنے کے پارکس، اور وسیع گرین بیلٹس ہیں۔

میرا گھر ۔7تھ ایوینیو پہ ہے۔ اور ساتھ ہی ال حبیب مارکیٹ ہے۔ آپ کو کیا بتاؤں کہ پی پی پی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، سبھی کے جلسے ہوئے لیکن کسی پارک میں نہیں کسی گراؤنڈ میں نہیں، کسی گرین بیلٹ میں نہیں بلکہ مصروف شاہراہوں پہ۔ صرف اور صرف عوام کو تکلیف اور اذیت دینے کے لیے۔

آب پارہ کے ساتھ وسیع و عریض "روز اینڈ جیسمین" گارڈن ہے جس میں لائٹس کا بھی بہت اعلیٰ انتظام ہے پھر ساتھ ہی پاکستان اسپورٹس کمپلیکس ہے۔ آخر نواز شریف صاحب دیہاڑی داروں کے گھر پہنچنے کی راہ میں کیوں رکاوٹ بنے۔ انہوں نے روڈ پہ ہی جلسہ کیوں کیا۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ چلو باقی جماعتیں تو پرانے لوٹوں کھسوٹوں، چوہدریوں جاگیرداروں اور عوام دشمنوں پر مشتمل ہیں لیکن عمران خان کی جماعت تو پڑھی لکھی اور معزز لوگوں پر مشتمل تھی آخر انہوں نے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا کہ اسلام آباد میں اپنے تمام جلسے سڑکوں کے بجائے پارکوں یا گرین بیلٹس پہ کرتے۔
اور ہر جلسے میں یہ بھی بتا دیتے کہ "ہم چاہتے تو تعداد اور موجودگی دکھانے کو سڑکوں پہ جلسے کر سکتے تھے لیکن ہمیں عوام کی سہولت اور سکون عزیز ہے اس لیے ہم باقیوں کی تقلید نہیں کریں گے اور عوام کی بھلائی کو ہر حال میں مقدم رکھیں گے"
تو کیا عوام کے دلوں میں اور جگہ اور تکریم نہ پیدا ہوتی۔ صرف عمران خان کے لیے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ پارٹی جداگانہ حثیت کا دعویٰ کرتی ہے۔ تو کسی تھنک ٹینک، کسی انٹلیکچوئل کو ایسے خیال کیوں نہیں آتے جس سے ڈائریکٹ عوام کو کوئی سہولت ہوتی ہو۔

بس کیا کہیں جی فی الحال تو ایک فلم "صاحب بیوی اور گینگسٹر" کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے۔
"یہ سارے مرد ہی کیوں ملتے ہیں ہمیں،،،، کوئی شاعر کیوں نہیں ملتا"
 
پہلے عوام سڑکوں فٹ پاتھوں زیبرا کراسنگ کا فرق تو سمجھ لیں پھر آگے کی دیکھی جائے گی
ہر ملک میں چھوٹی سے چھوٹی شہری آگاہی کے لیے کچھ نہ کچھ انفراسٹرکچر موجود ہے۔ وہ عوام جو کل تک گاؤں کے کھلے ماحول میں تھی آج جب شہر میں زیبرا کراسنگ دیکھے گی تو یہی سمجھے گی کہ شاید گاڑیوں کے لیے لائن لگائی گئی ہے۔ لیکن اسے یہ کون بتائے گا کہ یہ تمہارے لیے ہے تمہارا حق روڈ پہ جتانے کے لیے۔
الہام قطعی نہیں ہو گا حضور۔
 
اس قوم میں بہترین صلاحیتیں ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ بس نظم و ضبط ہی کی کمی ہے
بالکل ٹھیک کہا آپ نے،
نظم و ضبط بھی آج آ جائے بس کوئی ہاتھ پکڑنے والا تو ہو۔ کوئی حوصلہ افزائی کرنے والا تو ہو،
انفرادی عمل انفرادی عمل کہا تو جاتا ہے لیکن ایسے انفرادی عمل والوں کو اذیت کے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا یہ سبھی جانتے ہیں۔ تو کون کرے ایسے انفرادی عمل کی ابتداء۔
کچھ تو حکام کا فرض بنتا ہےکہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔
 

عسکری

معطل
ہر ملک میں چھوٹی سے چھوٹی شہری آگاہی کے لیے کچھ نہ کچھ انفراسٹرکچر موجود ہے۔ وہ عوام جو کل تک گاؤں کے کھلے ماحول میں تھی آج جب شہر میں زیبرا کراسنگ دیکھے گی تو یہی سمجھے گی کہ شاید گاڑیوں کے لیے لائن لگائی گئی ہے۔ لیکن اسے یہ کون بتائے گا کہ یہ تمہارے لیے ہے تمہارا حق روڈ پہ جتانے کے لیے۔
الہام قطعی نہیں ہو گا حضور۔
اب اس کے لیے بھی ایک پروگرام بنانا پڑے گا؟ ارے میرے بھائی باہر کے ملکوں میں جب ڈرائیونگ لائسنس بنانے جاتے ہیں تو ایک چھوٹا سا مینئیول ملتا ہے جس پر ہر نشان ہوتا ہے ٹریفک کا ساتھ میں لکھا ہوتا ہے کہ کیوں ہے یہ نشان جب امتحان لیا جاتا ہے تو یہ بھی پوچھا جاتا ہے اس طرح ساری عوام جانتی ہے ان نشانات کو۔
 
اب اس کے لیے بھی ایک پروگرام بنانا پڑے گا؟ ارے میرے بھائی باہر کے ملکوں میں جب ڈرائیونگ لائسنس بنانے جاتے ہیں تو ایک چھوٹا سا مینئیول ملتا ہے جس پر ہر نشان ہوتا ہے ٹریفک کا ساتھ میں لکھا ہوتا ہے کہ کیوں ہے یہ نشان جب امتحان لیا جاتا ہے تو یہ بھی پوچھا جاتا ہے اس طرح ساری عوام جانتی ہے ان نشانات کو۔
یہاں ڈرائیونگ لائسنس کتنے لوگوں کے پاس ہے بھائی۔ میرے پاس نہیں :LOL:
 

ساجد

محفلین
ماحولیاتی آلودگی آج کی دنیا کے سنگین مسائل میں سے ایک ہے اور شور ماحولیاتی آلودگی کی ایک خطرناک قسم ہے جس سے شدید قسم کے نفسیاتی و جسمانی عوارض پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس سے آگاہی کے لئے مہمیں چلائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کے پڑھے لکھے بلکہ ترقی پذیر ممالک کے ان پڑھ بھی شور کی تباہیوں سے آشنا ہو رہے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کا ہر فرد خود کو حکیم لقمان سے بھی زیادہ عقلمند سمجھتا ہے وہ اس سے نا بلد ہے وہ طبقہ ہے پاکستانی سیاستدانوں کا۔ صبح سویرے سے رات کے دو بجے تک گاڑیوں پر دیو ہیکل سپیکر رکھے اور جنریٹر چلا کر شور کی سنگینی کو دوچند کرتے ہوئے یہ طبقہ فُل والیوم کے ساتھ سڑکوں ، با زاروں اور گلی محلوں میں لوگوں کا بچا کھچا سکون برباد کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ کوئی دل کا مریض سکون کا طالب ہے تو ان کی بلا سے ، کوئی طالب علم پڑھ رہا ہے تو انہیں کیا ، کوئی عبادت کر رہا ہے تو یار لوگوں کو کیا پرواہ کیوں کہ یہ شور ہمارے بہتر مستقبل کے لئے ہی تو مچایا جا رہا ہے۔ عوام کی تقدیر شور کرنے سے ہی بدل سکتی ہے ۔ چونکہ عوام سوئی ہوئی ہے اس لئے لازمی ہے کہ پہلے خوب شور کیا جائے تا کہ یہ جاگ جائے اور جب جاگ جائے تو اسے وعدوں کی گولی دے کر پھر سلا دیا جائے اور تب اپنی حکمت کے تجربے کا کامیابی کا اعلان کرنے کے لئے اگلے 5 برس تک بڑی خاموشی سے "اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے" کا کھیل کھیلا جائے اور 5 برس مکمل ہوتے ہی کھیل میں روند مارنے کا الزام لگا کر پھر سے سڑکوں ، بازاروں اور گل محلوں میں عوام کو جگانے کے لئے شور مچایا جائے ۔ اور وعدوں کی گولی بھی ساتھ رکھی جاتی ہے کہ کہیں یہ عوام جاگتے ہی نہ رہ جائیں ، کہیں ان شور کرنے والوں کو ہمیشہ واسطے چُپ کرانے کے لئے عوام بیلٹ کی بجائے بُلٹ لے کر نہ آ جائیں۔
 
ماحولیاتی آلودگی آج کی دنیا کے سنگین مسائل میں سے ایک ہے اور شور ماحولیاتی آلودگی کی ایک خطرناک قسم ہے جس سے شدید قسم کے نفسیاتی و جسمانی عوارض پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس سے آگاہی کے لئے مہمیں چلائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کے پڑھے لکھے بلکہ ترقی پذیر ممالک کے ان پڑھ بھی شور کی تباہیوں سے آشنا ہو رہے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کا ہر فرد خود کو حکیم لقمان سے بھی زیادہ عقلمند سمجھتا ہے وہ اس سے نا بلد ہے وہ طبقہ ہے پاکستانی سیاستدانوں کا۔ صبح سویرے سے رات کے دو بجے تک گاڑیوں پر دیو ہیکل سپیکر رکھے اور جنریٹر چلا کر شور کی سنگینی کو دوچند کرتے ہوئے یہ طبقہ فُل والیوم کے ساتھ سڑکوں ، با زاروں اور گلی محلوں میں لوگوں کا بچا کھچا سکون برباد کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ کوئی دل کا مریض سکون کا طالب ہے تو ان کی بلا سے ، کوئی طالب علم پڑھ رہا ہے تو انہیں کیا ، کوئی عبادت کر رہا ہے تو یار لوگوں کو کیا پرواہ کیوں کہ یہ شور ہمارے بہتر مستقبل کے لئے ہی تو مچایا جا رہا ہے۔ عوام کی تقدیر شور کرنے سے ہی بدل سکتی ہے ۔ چونکہ عوام سوئی ہوئی ہے اس لئے لازمی ہے کہ پہلے خوب شور کیا جائے تا کہ یہ جاگ جائے اور جب جاگ جائے تو اسے وعدوں کی گولی دے کر پھر سلا دیا جائے اور تب اپنی حکمت کے تجربے کا کامیابی کا اعلان کرنے کے لئے اگلے 5 برس تک بڑی خاموشی سے "اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے" کا کھیل کھیلا جائے اور 5 برس مکمل ہوتے ہی کھیل میں روند مارنے کا الزام لگا کر پھر سے سڑکوں ، بازاروں اور گل محلوں میں عوام کو جگانے کے لئے شور مچایا جائے ۔ اور وعدوں کی گولی بھی ساتھ رکھی جاتی ہے کہ کہیں یہ عوام جاگتے ہی نہ رہ جائیں ، کہیں ان شور کرنے والوں کو ہمیشہ واسطے چُپ کرانے کے لئے عوام بیلٹ کی بجائے بُلٹ لے کر نہ آ جائیں۔
بالکل صحیح کہا آپ نے ساجد بھائی،
یہ المیہ بھی المیوں کی بیل کا ایک بڑا کانٹا ہے۔
 

عمران ارشد

محفلین
یہاں ڈرائیونگ لائسنس کتنے لوگوں کے پاس ہے بھائی۔ میرے پاس نہیں​

اگر آپ بغیر
ڈرائیونگ لائسنس​
کے​
ڈرائیونگ کرتے ہیں تو دوسروں کے کیسے الزام دے رہے ہیں؟؟ آپ بھی حسبِ استطاعت قانون کی پابندی نہیں کر رہے۔​
 

پردیسی

محفلین
ساجد بھائی جی اس کے معاملے میں زیادہ نہ سوچا کریں ۔۔ کیونکہ زیادہ سوچنے سے بندہ خود کو ہی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔۔اصل میں ہم عوام کو اس سلسلے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔اور آگاہی بھی تبھی آتی جب دوسرے سمجھدار ہوں ، اور سمجھداری کے لئے تعلیم بے حد ضروری ہے۔
تو بھرا جی جب تک ہمارے ہاں بچپن سے ہی اچھی تعلیم و تربیت نہیں دی جائے گی ہمارا معاشرہ نہیں سدھر سکتا
 

زبیر مرزا

محفلین
ہمیں سیاست دان ہی ملتے ہیں عوام کا ہمدرد کوئی نہیں ملتا وجہ ہمارا من حیث القوم
دوسروں کی پرواہ نہ کرنے اورخودغرض رویہ ہے - کسی کی تکلیف کا احساس
کرتے ہوئے کچھ غیرضروری کاموں سے اجتناب کی عادت نہیں رہی- ہم حقوق کا رونا روتے ہیں
انسانی فلاح اور ماحول کی بہتری کے لیے انفرادی اقدام اور اپنے فرائض سے بے خبر رہتے ہیں
 
اگر آپ بغیر
ڈرائیونگ لائسنس​
کے​
ڈرائیونگ کرتے ہیں تو دوسروں کے کیسے الزام دے رہے ہیں؟؟ آپ بھی حسبِ استطاعت قانون کی پابندی نہیں کر رہے۔​
مجھے کسی قسم کی گاڑی چلانی نہیں آتی، میں 100٪ ماحول دوست ہوں:goodluck: :islandwithpalmtree:
 
وہ پانی سے چلنے والی گاڑی آپ ہی کے لئے تو بنائی جا رہی تھی لیکن افسوس کہ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا :)
اس لیے میں ابھی تک پیڈل والی بوٹ اور چپو والی کشتی چلا چکا ہوں اور سائیکل بھی۔ انشاءاللہ اسی سال پیرا گلائیڈنگ کا اپنا شوق پورا کروں گا۔
 
Top