چالاک خرگوش کے کارنامے

چالاک خرگوش کے کارنامے
ہنسی سے لوٹ پوٹ کر دینے والا بچوں کا ناول
معراج
نونہال ادب
ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی​

مکھّن چور
بہت دن گزرے جنگل کے سب جانور اکھٹّے رہا کرتے تھے۔ وہ سب ایک ہی تھالی میں کھانا کھاتے، ایک ہی چشمے میں پانی پیتے، گرمیوں میں مل جل کر کام کرتے اور سردیوں میں ایک ہی غار میں آرام کرتے۔ اُن دنوں سب جانوروں کو مکھّن کھانے کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ اُن کے مکھن کا ذخیرہ بھی ایک ہی تھا۔ جب کسی کو ضرورت ہوتی تو وہ تھوڑا سا مکھّن نکال کر کھا لیتا۔
ایک دن انہوں نے دیکھا کہ کسی نے بہت سا مکھن چرا لیا ہے۔ سب جانوروں کو بڑی تشویش ہوئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز ایک جانور ساری رات جاگ کر پہرا دے۔ پہلی باری ریچھ کی آئی۔ وہ مرتبان سامنے رک کر بیٹھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے ریچھ کی ٹانگیں درد کرنے لگیں۔ رات کے پچھلے پہر باہر کھُسر پھُسر کی آواز سنائی دی۔ ریچھ کے کان کھڑے ہوگئے۔ کوئی آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا، "بیری کے درخت والے چھتّے میں سوراخ ہو گیا ہے۔ سارا شہد بہا جا رہا ہے، بھیّا ریچھ ہوتے تو انہیں بتا دیتا۔"
ریچھ شہد کھانے کا بڑا شوقین تھا۔ وہ سب کچھ بھول بھال کر باہر کی طرف لپکا۔ اُدھر خرگوش اندر آیا اور مکھّن کا مرتبان نکال کر جی بھر کے مکھّن کھایا اور ریچھ کے آنے سے پہلے باہر چلا گیا۔ بےچارا ریچھ ناکام واپس لوٹا۔
اگلی صبح جانوروں نے مکھّن کم پایا تو انہوں نے ریچھ کو بہت برا بھلا کہا اور سزا کے طور پر سال بھر کے لیے اس کا مکھّن بند کر دیا۔
اگلے دن کتّے کی باری تھی۔ وہ دن بھر پہرا دیتے دیتے تھک گیا۔ رات کو پھر خرگوش آیا۔ اس نے کتّے کو زور سے سلام کیا، "ہیلو بھیّا بھوں بھوں! کیسے مزاج ہیں؟"
کتّا بولا، "صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا ہوں۔"
خرگوش بولا، "تو آؤ ذرا دوڑ لگائیں۔"
کتا دوڑنے کا بہت شوقین تھا۔ جھٹ تیار ہو گیا۔ خرگوش نے کہا، "میں گھاس میں دوڑتا ہوا لمبا چکّر کاٹ کر پل تک جاتا ہوں، تم سڑک سڑک جاؤ، دیکھیں پہلے کون ہاتھ لگا کر واپس لوٹتا ہے۔"
کتّا مان گیا۔ دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش گھاس میں کچھ دور دوڑا، پھر دُبک کر بیٹھ گیا۔ جب کتّا کافی دور نکل گیا، تب وہ اطمینان سے باہر نکلا اور اس نے گودام میں جا کر جی بھر کے مکھّن کھایا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔
اتنے میں کتّا دوڑ لگا کر واپس آ گیا۔ اس نے ہانپتے ہوئے آواز دی، "اے خرگوش بھیّا! کہاں ہو تم؟"
خرگوش نے گھاس سے سر نکالا اور جھوٹ موٹ ہانپتا ہوا باہر آیا اور کتّے سے ہاتھ ملا کر گھر کو چل دیا۔
اگلے دن بےچارا کتّا بھی سال بھر کے لیے مکھّن سے محروم کر دیا گیا۔
اب بھیڑیے کی باری تھی۔ وہ بھی دن بھر مرتبان سامنے رکھ کر بیٹھا رہا۔ رات کو خرگوش پھر آیا۔ اس نے بھیڑیے کو گدگداتے ہوئے کہا، "کتنے چور پکڑ لیے ہیں بھیڑیے خان؟"
بھیڑیا گدگدی کے مارے ہنسنے لگا۔ خرگوش نے اور زیادہ گدگداتے ہوئے کہا، "اتنا نہیں ہنسا کرتے بھیڑیے بھیّا!"
بھیڑیا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ اسے گدگدی بہت ہوتی تھی۔ خرگوش نے دونوں ہاتھوں سے گدگداتے ہوئے کہا، "جو زیادہ ہنستا ہے، وہی زیادہ روتا بھی ہے۔"
بھیڑیا ہنستے ہنستے اپنی کرسی سے لڑھک گیا اور زمین پر لوٹنے پوٹنے لگا۔ خرگوش نے اسے کرسی پر بٹھایا اور گرد جھاڑنے کے بہانے اس کی آہستہ آہستہ مالش کرنے لگا۔
بھیڑیا سو گیا۔ تب خرگوش اندر گیا۔ اس نے جی بھر کے مکھّن کھایا اور اپنے گھر کی راہ لی۔ اگلے دن بھیڑیے کا بھی وہی حشر ہوا۔ سال بھر کے لیے مکھّن بند!
اب لومڑ کی باری تھی۔ رات کو پھر خرگوش آیا۔
"اوہو! آج لومڑ بھیّا کی باری ہے۔" خرگوش نے کہا، "کتنے چور پکڑ لیے ہیں بھیّا جی؟"
لومڑ نے بیزاری سے کہا، "صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا ہوں۔"
خرگوش بولا، "تو آؤ آنکھ مچولی کھیلیں۔"
"اور اگر چور آ گیا تب؟"
خرگوش بولا، "ہم دونوں اس کا بھُرتا بنا دیں گے۔"
لومڑ مان گیا۔ دونوں درختوں کے پیچھے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں لومڑ اتنا تھک گیا کہ وہ آرام کرنے زمین پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔
اگلے دن اس کو بھی سزا ملی۔ سال بھر تک مکھّن بند۔
لومڑ ذرا ہوشیار جانور تھا۔ اس نے اپنا شبہ خرگوش پر ظاہر کیا۔ اب تو سب جانور باری باری اپنی آپ بیتی بیان کرنے لگے۔ سب کو یقین ہو گیا کہ خرگوش چالاکی سے مکھّن چُرا لیتا ہے۔ سب جانوروں نے اس دفعہ جنگل کے جاسوس بندر کو چور پکڑنے کے لیے مقرّر کیا۔
بندر مکھّن کا مرتبان نیچے رکھ کر اس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
رات کو خرگوش آیا، "ہیلو بھیّا بندر! کیسے مزاج ہیں؟"
"بہت برے۔" بندر نے رکھائی سے جواب دیا، "صبح سے سر درد اور زکام ہے۔"
"تو آئیے سیر کو چلیں۔" خرگوش بولا۔
"نہیں بھیّا! بالکل موڈ نہیں ہے۔" بندر رکھائی سے بولا۔
آنکھ مچولی بھی نہیں کھیلو گے؟" خرگوش نے اشتیاق سے پوچھا۔
بندر بولا، "نہیں، مجھے بچوں کے کھیل پسند نہیں آتے۔"
خرگوش نے حیرانی سے پوچھا، "تو پھر کونسا کھیل پسند ہے تمہیں؟"
بندر بولا، "رسّا کشی۔"
خرگوش مان گیا۔ بندر نے جھٹ پٹ خرگوش کی دُم سے رسّا باندھا۔ اس دوسرا سِرا درخت سے باندھ کر بولا، "کھینچیے رسّا۔"
اب خرگوش رسّا کھینچنے میں مصروف رہا۔ اُدھر بندر سب جانوروں کو بلا لایا۔ خرگوش انہیں آتے دیکھ کر چونکنا ہوا اور ساری بات بھانپ گیا۔ اس نے دُم چھڑانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔
بےچارا خرگوش پکڑا ہی گیا، جانوروں نے سزا کے طور پر اس کی دُم کاٹ ڈالی اور اس کے کانوں کو زور زور سے کھینچا۔ کہتے ہیں میاں خرگوش تب سے لنڈورے ہیں اور اس کے کان بھی لمبے ہیں۔ اس دن سے خرگوش جنگل کے جانوروں سے علیحدہ رہتا ہے۔

دانت گوند میں جم گئے!
بھیڑیے کے کھیت سے شکرقندی چُرانا کوئی آسان کام نہ تھا، کیوں کہ بھیڑیا بہت دبے پاؤں چلتا ہوا آتا اور چور کو پیچھے سے پکڑ لیتا تھا، لیکن خرگوش ہر روز بھیڑیے کے کھیت سے شکرقندی چُرا لاتا۔ وہ پہلے ایک بڑی سی ہڈی کھیت میں دبا دیتا، پھر شکرقندیاں اکھاڑ کر اپنے تھیلے میں بھرتا اور ٹہلتا ہوا کھیت سے باہر چلا جاتا۔
بھیڑیے کو بھی شکرقندیوں کی چوری کا پتہ چل گیا۔ ایک دن وہ چور کو پکڑنے کے لیے بھوسے کے ڈھیر کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر میں خرگوش بھی آ پہنچا۔ اس نے زمین کھود کے ہڈی دفن کی اور شکرقندی اکھاڑ کر تھیلے میں بھری اور سیٹی بجاتا ہوا چل دیا۔
جونہی وہ بھوسے کے ڈھیر کے پاس پہنچا، بھیڑیا جھٹ سے باہر نکلا اور اس نے خرگوش کو پکڑ لیا۔
"تم میرے کھیت میں کیوں آئے؟" بھیڑیے نے پوچھا۔
خرگوش نے کہا، "میں خود نہیں آیا۔ ہوا تیز تھی۔ اس نے مجھے اڑا کر تمھارے کھیت میں لا پھینکا!"
بھیڑیے نے پوچھا، "پھر تم نے میری شکرقندی کیوں توڑی؟"
خرگوش نے مسمسی صورت بنا کر کہا، "ہوا تیز تھی۔ میں سہارا لینے کے لیے شکرقندی کا پودا پکڑتا وہ جڑ سے اکھڑ جاتا۔"
بھیڑیا خرگوش کی چالاکی پر ہنسا اور بولا، "یہ شکرقندیاں تمھارے تھیلے میں کیسے آ گئیں؟"
خرگوش نے مسکینی سے کہا، "میں بھی اس پر غور کرتا ہوا جا رہا تھا کہ تم نے پکڑ لیا۔"
بھیڑیا چیخ کر بولا، "بس بس۔ اپنی بکواس بند کرو اور کان کھول کر سن لو کہ آج تمہارا قیمہ پکایا جائے گا۔"
خرگوش نے فوراً کہا، "تم بھی کان کھول کر سن لو کہ میں تمہیں ایک راز بتانے والا تھا، جو اب کبھی نہ بتاؤں گا۔"
"وہ کیا ہے بھلا؟" بھیڑیے نے اشتیاق سے پوچھا۔
خرگوش ہونٹ بھینچ کر بولا، "بالکل نہیں بتاؤں گا۔ بےشک تم میرا قیمہ بناؤ یا بوٹیاں اڑا دو۔"
اب بھیڑیے کا اشتیاق بڑھا۔ وہ جتنا پوچھتا، خرگوش اتنا ہی انکار کرتا رہا۔ آخر خرگوش نے کہا، "تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ان شکرقندیوں کی خاطر تمھارے کھیت میں آیا تھا۔ یہ بات بالکل نہیں ہے بھیّا جی!"
"تو پھر؟" بھیڑیے نے پوچھا۔
خرگوش نے کہا، "میں ڈائناسار کی ہڈیاں لینے تمھارے کھیت میں آیا تھا۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ تمھارے کھیت میں دفن ہیں۔"
بھیڑیے نے کہا، "میں نے تو کبھی ڈائناسار کا نام نہیں سنا۔ پتہ نہیں تم یہ کیا ذکر لے بیٹھے۔"
خرگوش نے حیرانی سے کہا، "ارے تو کیا تم ڈائناسار کا نام نہیں جانتے؟ بھیّا جو ان ہڈیوں کو کھا لیتا ہے، وہ اپنے سے سینکڑوں گنا طاقتور جانور کو مار گرا سکتا ہے۔"
ایسی کہانیاں سنا سنا کر خرگوش پہلے ہی بھیڑیے کو بےوقوف بنا چکا تھا۔ اسے خرگوش کی باتوں کا یقین نہ آیا۔ خرگوش نے پھر کہا، "نہ مانو، تمھاری مرضی! اگر مجھے مل گئیں تو سب سے پہلے تمہیں مار گراؤں گا۔ سمجھے!"
خرگوش نے لمبے لمبے سانس لیے اور جلدی سے بولا، "اوہ! ٹھہرنا ذرا! کیا تمہیں بھی کچھ خوشبو آئی بھیّا؟"
بھیڑیے نے بھی لمبے لمبے سانس لیے۔ اسے قریب ہی دفن کی ہوئی ہڈیوں کی خوشبو آئی جو صبح خرگوش نے دفن کی تھیں۔
وہ دونوں جلدی جلدی زمین کھودنے لگے۔ خرگوش نے اپنے قریب ہی دبی ہوئی ایک بڑی سی ہڈی نکالی اور چپکے سے اس پر گاڑھے گاڑھے گوند کی شیشی انڈیل دی اور جلدی سے بولا، "ارے یہ رہی۔ میں نے نکال لی ہے۔"
بھیڑیا بےصابری سے بولا، "لاؤ لاؤ! کہاں ہے؟ مجھے دو۔"
اس نے خرگوش کے ہاتھ سے ہڈی چھین لی اور چبانے کے لیے اس پر منہ مارا۔ لیکن اس کے دانت گوند میں گڑ کر جم گئے اور منہ چپک کر رہ گیا۔
"غرغر۔۔۔۔۔ خرخرخر۔۔۔۔۔" بھیڑیے نے خرگوش کو امداد کے لیے پکارنا چاہا، لیکن اس کے منہ سے کچھ بھی تو نہ نکل سکا۔
بےچارہ کبھی ایک ہاتھ سے ہڈی کھینچتا۔ کبھی دونوں ہاتھوں سے زور لگاتا۔ اس کوشش میں اس کی آنکھیں باہر اُبل آئیں۔ پسینے سے جسم شرابور ہو گیا اور آخر ہڈی منہ سے باہر نکل تو آئی، لیکن اس کے ساتھ بھیڑیے کے چار دانت بھی باہر آ رہے۔
خرگوش جو سب تماشا دیکھ رہا تھا، اب چپکے سے کھسک گیا۔
 
شلجموں کا تھیلا یا۔۔۔۔۔
خرگوش شلجموں کا تھیلا اٹھائے ریچھ کے کھیت سے گزر رہا تھا کہ ریچھ نے اُسے دیکھ لیا۔ اس نے چلّا کر کہا، "یہ کیا لیے جا رہے ہو تم؟"
خرگوش نے کہا، "شلجم ہیں بھیّا جی! کہیے تو دکھا بھی دوں آپ کو؟"
ریچھ جل کر بولا، "ارے! میرے ہی کھیت سے چرائے ہوں گے۔ چوری کرنا تو تمہاری عادت ہے۔"
خرگوش نے کہا، "نہ بھیّا جی! تمھارے کھیت سے نہیں چرائے۔ تمھارے کھیت سے گزر کر جا رہا تھا کہ تم مل گئے۔"
ریچھ نے پوچھا، "تم اتنے بہت سے شلجموں کا کیا کرو گے؟"
خرگوش نے کہا، "میں شلجموں کا اچار بناؤں گا اور گلشن بیگم کو اس کی سالگرہ پر پیش کروں گا۔ تمھاری تسلّی ہو گئی یا کچھ اور پوچھنا ہے؟"
ریچھ کو یقین نہیں آیا تھا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے گھر چل دیا، لیکن جب راستے میں اسے تازہ کھدا ہوا کھیت ملا تو وہ غصّے سے چیخنے لگا۔ وہاں کہیں کچھوا بھی سو رہا تھا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ اس نے پوچھا، "ہیں ہیں! کیا ہوا؟"
ریچھ چیخ کر بولا، "خرگوش نے چوری کی ہے۔ میں آج شام اس کے گھر سے اپنے شلجم اٹھا لاؤں گا۔"
کچھوا مسکرا کر بولا، "تو یہ بات ہے۔ میں سمجھا کہیں قیامت آ گئی ہے۔"
وہ رینگتا ہوا خرگوش کے گھر پہنچا اور اسے ساری بات کہہ سنائی۔
"اچھا! یہ بات ہے۔" خرگوش سر کھجا کر بولا، "میں نے ریچھ کے کھیت سے شلجم نہیں چرائے۔ وہ صبح بیگم ریچھ نے میرے سامنے خود نکالے تھے۔ تو آج ریچھ شلجم چرانے آئے گا۔ ہا ہا ہا! خوب تماشا رہے گا۔"
جیسے ہی اندھیرا چھایا، خرگوش ریچھ کے مکان پر گیا اور وہاں سے بیگم ریچھ کے جوتے، چھری کانٹے، پیالے پلیٹیں اور چینی کے برتن سب ایک تھیلے میں بھر کے اپنے گھر لے آیا۔
اس نے تھیلا باورچی خانے میں رکھا۔ کھڑکی کو کھول دیا اور خود کچھوے کے ساتھ دروازے کے پیچھے چھُپ کر کھڑا ہو گیا۔
کچھ دیر بعد ریچھ بھی آ پہنچا۔ اس نے کھلی ہوئی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، تھیلا فرش پر رکھا ہوا تھا۔ وہ چپکے سے اندر گھسا اور تھیلا اٹھا کر باہر لے آیا۔
"اوہ خدا! یہ کتنا بھاری ہے۔ کتنے بہت سے شلجم ہوں گے اس میں؟" ریچھ آہستہ سے بڑبڑایا۔
جونہی ریچھ گیا، دونوں دوست ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ خرگوش نے کہا، "بھیّا کچھوے! تم ذرا ٹھہرو۔ میں باقی ڈرامہ دیکھ کر ابھی آتا ہوں۔"
خرگوش ریچھ کے پیچھے پیچھے چھُپتا ہوا اس کے گھر پہنچا اور کھڑکی سے جھانکنے لگا۔
بیگم ریچھ چلّا چلّا کر کہہ رہی تھی، "آج میرے جہیز کے برتن، گلدان، جوتے سب چوری ہو گئے۔ تم ابھی جاؤ اور چور کو پکڑ لاؤ۔"
ریچھ نے کہا، "چور کا اتہ پتہ تو معلوم ہے نہیں، میں کسے پکڑ لاؤں؟"
بیگم ریچھ چلّانے لگی، "ارے تم تو ہمیشہ میرے میکے اور ان کی دی ہوئی چیزوں سے نفرت کرتے رہے۔ ہائے کتنی قیمتی چیزیں تھیں؟"
بیگم ریچھ رونے لگی۔ ریچھ نے گھبرا کر تھیلا زور سے زمین پر پٹخ دیا۔ ایک چھناکے کی آواز آئی اور بیگم ریچھ حیرانی سے تھیلے کو دیکھنے لگی۔ اس نے ریچھ سے پوچھا، "اس میں کیا ہے؟"
ریچھ بولا، "شلجم ہیں، جو صبح خرگوش اکھاڑ کر لے گیا تھا۔"
"لیکن شلجم تو صبح میں نے نکالے تھے۔"
بیگم ریچھ فوراً باورچی خانے سے چھری لائی اور اس نے رسّی کاٹ کر تھیلا الٹ دیا۔ برتنوں کا چورا اور چھری کانٹے سب زمین پر آ رہے۔
بیگم ریچھ ایک دم گرجنے لگی، "یہ شلجم ہیں؟ تم نے میری سب چیزوں کو خراب کر ڈالا۔ ہائے ہائے۔"
وہ ریچھ کی طرف جھپٹی اور اس نے ریچھ کو اس زور سے کاٹا کہ وہ درد سے چلّانے لگا۔
خرگوش نے گھر جا کر سب کہانی مزے لے لے کر کچھوے کو سنائی۔ دونوں دوست دیر تک ہنستے رہے۔

لومڑ نے آم کھائے
اگلے روز کچھوا خرگوش سے رخصت ہوا۔
موسم خوش گوار تھا۔ کچھوا ٹہلتے ٹہلتے دور جا نکلا، یہاں تک کہ وہ تھک کر سو گیا۔ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ کچھوا اپنا مکان اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ ایک درخت کے سائے میں پہنچ کر اس نے اپنے مکان کا دروازہ بند کر لیا اور سونے لگا۔ وہ دن ڈھلے تک سوتا رہا۔ اچانک کوئی اسے الٹنے پلٹنے لگا۔ کچھوے نے ذرا سا دروازہ کھول کر دیکھا۔۔۔۔۔ یہ لومڑ تھا!
کچھوا ایک زوردار قہقہہ مار کر بولا، "کسے پتہ تھا کہ بھیّا لومڑ کی بھی یہاں زیارت ہوگی اور تم بھی کیسے موقعے پر پہنچے ہو کہ مزہ آ گیا۔"
لومڑ جو اسے کھانے کا منصوبہ بنا رہا تھا، رُک گیا اور حیرانی سے بولا، "مجھے بھی تو بتاؤ کہ تم اتنے خوش کیوں ہو؟"
کچھوے نے کہا، "ارے بھیّا! کیا بتاؤں۔ صبح سے رسیلے مزیدار آم کھاتے کھاتے پیٹ پھول گیا۔ اتنے بہت سے کھا گیا ہوں کہ اب چلا بھی نہیں جاتا۔"
لومڑ کو آم بہت بھاتے تھے۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ کچھوا لہک لہک کر گانے لگا:
لطف پستے میں ہے نہ بادام میں
جو مزہ پایا ہے ہم نے آم میں
لومڑ نے تھوتھنی اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن اسے کہیں بھی آم نظر نہ آئے۔ اس نے حیرانی سے کہا، "بھئی مجھے تو کہیں نظر نہیں آئے۔ تم ہی بتا دو کہاں لگے ہیں؟"
کچھوا ہنس کر بولا، "پیڑ کے نیچے کھڑے ہو اور آم کا پتہ پوچھتے ہو۔ واہ بھئی واہ!"
لومڑ نے پھر غور سے دیکھا، لیکن اسے پتوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آیا۔
"سچ، مذاق نہ کرو۔ مجھے یہاں کچھ نظر نہیں آتا۔"
کچھوا بولا، "واہ بھیّا! تمھاری نظر کمزور ہو گئی ہے۔ میں تو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ یہ لو، یہ رہا ایک پکا ہوا پیلا آم، یہ دوسرا، یہ تیسرا۔"
کچھوا یوں ہی ہاتھ سے اشارے کرنے لگا۔
"ہاں ہاں ضرور ہوگا، لیکن یہ تم نے کیسے توڑے؟" لومڑ نے جلدی سے پوچھا۔
کچھوے نے اپنا دروازہ کھول دیا اور بولا، "آئے ہائے! یہ راز کی باتیں تم کیا جانو۔ میاں! اس کے لیے عمر چاہیے اور تجربہ! میں تمہیں ہرگز نہ بتاؤں گا۔"
"کیوں بھیّا! کیوں نہیں بتاؤ گے؟" لومڑ نے حیرانی سے پوچھا۔
کچھوے نے کہا، "اس لیے کہ تم جنگل کے جانوروں سے کہتے پھرو گے اور وہ سارے آم خود کھا جائیں گے۔"
لومڑ نے جلدی سے کہا، "قسم لے لو بھیّا! میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ اب تم جلدی سے بتا دو کہ تم نے کس طرح آم توڑے؟"
کچھوے نے کہا، خیر بتا دیتا ہوں۔ دیکھو میری طرح تم بھی زمین پر بیٹھ جاؤ۔ گردن اوپر اٹھاؤ پھر آنکھیں بند کر کے منہ کھول دو۔ تمہیں کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا۔ پھر آم جھپاک سے تمھارے منہ میں آ گرے گا۔"
لومڑ جلدی سے نیچے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے منہ کھول دیا اور آم گرنے کا انتظار کرنے لگا۔
ادھر کچھوا رینگتے رینگتے کافی دور نکل گیا۔ راستے میں اسے خرگوش مل گیا۔ کچھوے نے ہنس ہنس کر لومڑ کی کہانی سنائی۔
خرگوش ہنس کر بولا، "اچھا یہ بات ہے۔ ابھی ایک اور تماشا دیکھتے جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ اس جگہ پہنچا، جہاں لومڑ آم کے انتظار میں منہ کھولے ہوئے بیٹھا تھا۔
خرگوش نے ایک پتھر اٹھایا اور آہستہ سے لومڑ کے منہ میں پھینک دیا، جسے وہ آم سمجھ کر نگل گیا۔ پھر ایک اور پتھر اس کے منہ میں گیا۔ اسے بھی وہ آم سمجھ کر نگل گیا۔۔۔۔۔ پھر ایک اور۔۔۔۔۔ ایک اور۔۔۔۔۔ اور خدا جانے کتنے ہی پتھر لومڑ کے پیٹ میں پہنچ گئے۔ آخر میں خرگوش نے ایک بڑا سا پتھر جو مارا تو لومڑ کے دانت ہی ہل گئے۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ درد سے چلّانے لگا۔ سب سے پہلے اس کی نظر خرگوش پر پڑی، جو ہنس ہنس کر دوہرا ہوا جا رہا تھا۔ وہ خرگوش کو پکڑنے کے لیے لپکا، لیکن خرگوش ہاتھ کہاں آتا؟
 
مرہم یا بوٹ پالش
خرگوش نے شلجموں کا اچار اور مربّہ بنایا اور اسے گودام میں رکھ دیا۔ ریچھ تو تاک میں رہتا ہی تھا۔ ایک دن موقع پا کر کھڑکی کے راستے گودام میں گھُسا اور سات مرتبان چُرا کر لے گیا۔
اگلے دن جب خرگوش نے مرتبان کم دیکھے تو وہ بہت ناراض ہوا۔ وہ بہت سے کیکر کے کانٹے لایا اور چور کے انتظار میں چھُپ کر بیٹھ گیا۔
رات کے وقت ریچھ دبے پاؤں گودام میں داخل ہوا۔ اُدھر خرگوش نے جلدی سے جگہ جگہ کانٹے بکھیر دیے اور کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔
جب ریچھ مرتبان چُرا کر واپس ہوا تو اس کا پاؤں کسی کانٹے پر جا پڑا۔ ریچھ نے ایک چیخ ماری، جسے سن کر خرگوش ایک چھڑی ہاتھ میں لیے باہر کی طرف بھاگا اور اونچی آواز میں چلّانے لگا، "سانپ سانپ! میں ضرور اسے مار ڈالوں گا۔"
یہ آواز ریچھ کے کان میں پڑی۔ وہ سمجھا اسے سانپ ہی نے کاٹا ہے۔ وہ اور زور زور سے چلّانے لگا۔ خرگوش آواز سن کر ٹھہر گیا اور بولا، "یہاں کون ہے؟"
"میں ہوں بھیّا! مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔" ریچھ نے کراہتے ہوئے کہا۔
خرگوش نے پوچھا، "تم رات کو یہاں کیا کرتے پھر رہے ہو؟"
ریچھ بولا، "یہ بےکار باتوں کا وقت نہیں بھیّا! تم جا کر ڈاکٹر کو بُلا لو۔"
خرگوش نے پھر پوچھا، "پہلے بتاؤ کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
ریچھ کراہتے ہوئے بولا، ""میں تمھاری چٹنی کے مرتبان چُرا کر لے جا رہا تھا۔ اب مہربانی کر کے تم ڈاکٹر کو بُلا لاؤ، ورنہ میں یہیں مر جاؤں گا۔"
"مر ہی جاؤ تو اچھا ہے۔" خرگوش واپس جاتے ہوئے بولا۔
ریچھ دو چار قدم ہی چلا تھا کہ اسے پھر کانٹا چبھا اور وہ چلّانے لگا، "ارے! اس نے مجھے پھر کاٹ لیا ہے۔ بھیّا تم جا کر ڈاکٹر کو بلا لو۔ میں تمھارے مرتبان تمہیں لوٹا دوں گا۔"
خرگوش نے پوچھا، "اور کیا دو گے؟"
"سات شہد کے مرتبان۔" ریچھ نے کہا۔
"اور کچھ؟"
"سات ٹماٹر کی چٹنی کے مرتبان۔"
خرگوش نے کہا، "اچھا! تم یہاں ٹھہرو۔ میں ابھی آتا ہوں۔ اگر تم اچھلتے پھرے تو وہ سانپ تمہیں پھر کاٹ لے گا۔"
خرگوش بھاگتا ہوا ریچھ کے گھر گیا اور وہاں سے ٹماٹر کی چٹنی، اچار اور شہد کے مرتبان اٹھا لایا۔ ابھی تک بےچارہ ریچھ اپنا پاؤں پکڑے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا، "بھیّا! میری ٹانگیں سوج رہی ہیں اور زہر سارے جسم میں پھیل گیا ہے۔"
خرگوش ایک کالی پالش کی ڈبیا اور لالٹین لے آیا۔ اس نے بہت سی پالش ریچھ کے پاؤں میں لتھیڑ دی اور بولا، "یہ سانپ کے زہر کے لیے بہترین چیز ہے۔ اب تم صبح تک بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔"
ریچھ لنگڑاتا ہوا اپنے گھر کو چلا۔ خرگوش نے پھر کہا، "بھیا! جیسے ہی تم گھر پہنچو، فوراً سب مرہم چاٹ کر صاف کر دینا اور تازہ مرہم لگا لینا۔ پھر تمہیں ڈاکٹر کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔"
ریچھ نے اپنے گھر جاتے ہی اپنا پاؤں چاٹ چاٹ کر صاف کیا۔ اسے بوٹ پالش بہت بد ذائقہ لگی، لیکن وہ اسے چاٹتا ہی رہا۔
پھر اس نے مرہم لگانے کے لیے ڈبیا اٹھائی۔ اس پر لکھا ہوا تھا:
"بوٹ پالش۔"
ریچھ کو اعتبار نہ آیا۔ اس نے پھر غور سے پڑھا، "بوٹ پالش۔"
وہ غسل خانے کی طرف بھاگا۔ وہاں بہت دیر تک کُلّیاں کرتا رہا، لیکن زبان کی سیاہی بہت دنوں تک نہیں چھوٹی۔

بلّی نے لومڑ کی پٹائی کی
جنگل میں ایک نیک دل اور مہربان خاتون رہتی تھی، جس کا نام گلشن بیگم تھا۔ اس کی تین لڑکیاں تھیں۔ شبنم، چمپا اور نرگس۔ جنگل کے سب جانور گلشن بیگم اور اس کی لڑکیوں سے محبت کرتے تھے۔
گلشن بیگم کی سالگرہ پر جنگل کے سب جانور تحفے لے کر آئے۔ خرگوش نے بھی اپنے چٹنی اور اچار کے مرتبان تحفۃً پیش کیے۔
نئے مہمانوں میں ایک بی بطخ تھی، جس کی گفتگو سے گلشن بیگم اور اس کی لڑکیاں بہت خوش ہوئیں۔ خرگوش اور کچھوا بھی اس نئی دوست سے مل کر بہت خوش تھے، لیکن ریچھ، بھیڑیا اور لومڑ دل ہی دل میں اسے ہڑپ کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔
گپ شپ کا دور چلنے لگا۔ خرگوش مزے لے لے کر اپنے کارنامے سنانے لگا، جس سے ریچھ، بھیڑیا اور لومڑ سخت پیچ و تاب کھانے لگے۔
خرگوش نے ہنس کر کہا، "بھیّا ریچھ بہت اچھی پالش کرتا ہے اور پالش کرنے کے بعد زبان سے جوتے چاٹ چاٹ کر چمکاتا بھی ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو بھیّا ریچھ کی زبان دیکھ لے۔"
ریچھ خاموشی سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔ سب لوگ دیر تک ہنستے رہے۔ خرگوش نے پھر کہا، "بھیڑیا میرا پرانا خدمات گار ہے۔ کل ایک معمولی بات پر میں نے مکّہ مار کر اس کے دانت باہر نکال دیے۔ ذرا منہ کھول کر دکھانا بھیّا!"
بھیڑیا خاموشی سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔ خرگوش نے کہا، "آپ نے دیکھ لیا، میں کوئی معمولی جانور نہیں ہوں۔ جنگل کے بڑے بڑے جانور میرے پرانے خدمت گار ہیں۔ میں بہت عقلمند ہوں۔ میں ہر کام کر سکتا ہوں۔"
گلشن بیگم کو بہت دنوں سے چمٹے اور پھُکنی کی ضرورت تھی۔ موقع ہاتھ آ گیا۔ اس نے جھٹ سے کہا، "ہم تمھاری عقلمندی کو تب مانیں گے جب تم کہیں سے چمٹا اور پھُکنی لا کر دو۔"
خرگوش کے کان کھڑے ہوئے۔ گلشن بیگم نے بہت مشکل کام بتا دیا تھا۔ کیوں کہ چمٹا اور پھُکنی صرف میاں آدم جی کے ہاں ہی مل سکتی تھیں۔ خرگوش نے کہا، "ضرور ضرور لا دوں گا۔ بس دو چار دن کی بات ہے!"
باہر ہلکی ہلکی بوندیں پڑ رہی تھیں۔ خرگوش نے اپنا ہیٹ اور چھڑی اٹھائی اور چلنے کو تیار ہوا۔ وہ سب سے مل کر گلشن منزل سے نکلا ہی تھا کہ لومڑ اس کے پیچھے پیچھے آیا اور اسے کوٹ سے پکڑ کر بولا، "یہ کیا بدتمیزی کی تم نے۔ ریچھ اور بھیڑیے کو بھری محفل میں رُسوا کیا۔"
خرگوش فوراً بولا، "لیکن بھیّا! میں نے تمہاری کوئی برائی نہیں کی، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تم بہت دلیر اور بہادر ہو۔"
بےچارہ خرگوش بہت پریشان تھا کہ وہ لومڑ سے کیسے نجات حاصل کرے۔ اچانک لومڑ چلتے چلتے ٹھہر گیا اور غور سے سڑک دیکھنے لگا۔ اس نے بدحواسی میں کہا، "بھیّا خرگوش! جلدی بھاگو۔ دیکھتے نہیں کہ یہ مسٹر بھوں بھوں کے پنجے کے نشان ہیں۔"
خرگوش نے بھی جھُک کر غور سے دیکھا اور قہقہہ لگا کر بولا، "ارے بھیّا! یہ تو جنگلی بلّی کے قدموں کے نشان ہیں۔ عرصہ گزرا، اسے تمھارے بزرگوں نے گھر سے نکال دیا تھا۔ اب تم اپنی ملازمہ سے بھی ڈر گئے ہو بھیّا؟ ہا ہا ہا!"
وہ چلتے چلتے وہاں پہنچ گئے جہاں جنگلی بلّی ایک درخت سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ خرگوش نے کہا، "دیکھا، کیسی گستاخ ہے۔ اس نے تمہیں سلام تک نہیں کیا۔ تم اسے ٹھوکر لگاو، تاکہ اسے عقل آ جائے۔"
لومڑ چلتے چلتے رک گیا۔ خرگوش نے پھر اس کا حوصلہ بڑھایا، "شاباش بھیّا! آگے بڑھ اسے کر ایسی چپت لگاؤ کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔"
بلّی اکڑ کر کھڑی ہو گئی اور لومڑ پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے لگی۔ خرگوش نے پھر کہا، "گستاخ بلّی! تمہیں شرم نہیں آتی۔ ابھی بھیّا لومڑ تمھارے مزاج درست کر دے گا۔ ہاں شاباش بھیّا لومڑ! لگاؤ ایک چپت اِس کو۔"
لومڑ آگے بڑھا۔ اس نے بلّی کو ایک چپت مارا۔ جواب میں بلّی نے اسے ایسا پنجہ مارا کہ وہ لڑکھنی کھا کر دور جا گرا۔
خرگوش خوشی سے چیخ کر بولا، "شاباش لومڑ بھیّا! آگے بڑھ کر ایک ہاتھ دو اس بلّی کو۔ مزہ چکھا دو اسے۔"
ایک دفعہ پھر لومڑ آگے بڑھا۔ اس دفعہ بلّی نے اچھل کر لومڑ کی ناک پر اپنے دانت گاڑ دیے۔ بڑی مشکل سے لومڑ نے اپنی جان چھڑائی اور جنگل کی طرف بھاگا۔
 
ابھی تو صرف 25 فیصد کتاب ہوئی ہے بھائی۔
میں یہ کتاب خاص کر دو افراد کے لیے یونیکوڈ کر رہا ہوں۔
دونوں ہی لائبریری کے منتظم ہیں۔۔۔ اور دونوں ہی عرصے سے لاپتہ ہیں۔
یہ 25 فیصد کا زبردست ہے گویا ایسے تین اور باقی ہیں:)
یعنی قیصرانی بھائی اور سیدہ شگفتہ آپی:rolleyes:
 
یہ 25 فیصد کا زبردست ہے گویا ایسے تین اور باقی ہیں:)
یعنی قیصرانی بھائی اور سیدہ شگفتہ آپی:rolleyes:
اس کے بعد دوسری کتاب ہے۔ "چالاک خرگوش کی واپسی"
اس کے کچھ اسباق پہلے پوسٹ کر چکا ہوں۔ اب مکمل کر دوں گا۔ ویسے اس وجہ سے "آنائی کے آدم خور وحشی" کا کام کافی سست چل رہا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ابھی تو صرف 25 فیصد کتاب ہوئی ہے بھائی۔
میں یہ کتاب خاص کر دو افراد کے لیے یونیکوڈ کر رہا ہوں۔
دونوں ہی لائبریری کے منتظم ہیں۔۔۔ اور دونوں ہی عرصے سے لاپتہ ہیں۔
سکین شدہ دے دیں، میں سب سے پہلے اسے ہی کرتا ہوں :) اس کے بعد آنائی کے آدم خور وحشی اور ان کے ساتھ ساتھ لغت پر کام چلتا رہے گا :)
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کے بعد دوسری کتاب ہے۔ "چالاک خرگوش کی واپسی"
اس کے کچھ اسباق پہلے پوسٹ کر چکا ہوں۔ اب مکمل کر دوں گا۔ ویسے اس وجہ سے "آنائی کے آدم خور وحشی" کا کام کافی سست چل رہا ہے۔
آپ کتنا کام کر چکے ہیں؟ مجھے کچھ کہانیاں بتا دیں، میں ان پر ہاتھ صاف کرتا ہوں :)
 
غبارہ اور بطخ کا لباس
خرگوش تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ اپنے گھر کے نزدیک پہنچ کر رک گیا اور غور سے زمین کو دیکھنے لگا، جس پر ریچھ اور بھیڑیے کے قدموں کے تازہ نشان بنے ہوئے تھے۔
وہ آہستہ سے بڑبڑایا، "تو یہ لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ ہا ہا۔۔۔۔۔ خیر میں انہیں بھی دیکھ لوں گا۔"
وہ دبے پاؤں چلتا ہوا جھاڑیوں کے نزدیک پہنچا اور دُبک کر ان کی باتیں سننے لگا۔ ریچھ کہہ رہا تھا، "بہت دیر ہو گئی۔ پتہ نہیں کہاں مر گیا۔ اب تک تو اسے آ جانا چاہیے تھا۔"
خرگوش دل ہی دل میں ہنسا۔ بھیڑیے نے کہا، "آج رات کو بی بطخ کے ہاں نہ چلیں۔ اوہ خدایا! کتنی موٹی ہے وہ۔"
ریچھ بولا، "بالکل تر مال ہے۔ سنو! تم اسے اندر جا کر ختم کر دینا اور باہر پھینک دینا۔ پھر ہم دونوں اسے اٹھا کر لے جائیں گے۔"
خرگوش دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگا۔ اس نے بی بطخ کو بچانے کا ارادہ کر لیا۔
وہ آہستہ آہستہ سرک کر جھاڑیوں سے باہر نکلا اور پھر بھاگ کر مکان کے پیچھے گیا اور کھڑکی کے راستے اندر کود گیا۔ وہاں اس نے جلدی جلدی پانی گرم کیا اور کیتلی لے کر کھڑکی کے پاس پہنچا۔ ریچھ اور بھیڑیا ابھی تک نیچے بیٹھے ہوئے خرگوش کا انتظار کر رہے تھے۔
خرگوش نے اِدھر سے کہا، "اے بھیّا ریچھ اور بھیڑیے خان!"
دونوں نے حیرانی سے اپنی تھوتھنیاں اوپر اٹھائیں۔ خرگوش نے پانی کی کیتلی الٹ دی۔ "لو گرم گرم چائے پیو۔"
بھیڑیے اور ریچھ کے منہ پر کھولتا ہوا پانی گرا۔ وہ چیختے چلّاتے بھاگے۔ خرگوش کو یقین تھا کہ دونوں رات کو ضرور بی بطخ کے ہاں جائیں گے۔ اس نے بازار سے ربڑ کی بنی ہوئی بطخ خریدی اور بی بطخ کے ہاں پہنچا۔ بی بطخ نے تپاک سے اس کا خیر مقدم کیا۔
خرگوش بولا، "بی بطخ! تمھارے لیے ایک بری خبر لے کر آیا ہوں۔ آج رات ریچھ اور بھیڑیا تمہیں پکڑنے کے لیے آ رہے ہیں۔"
بطخ پریشان ہو کر بولی، "قیں قیں قیں۔ ہائے اب میں کیا کروں؟ مسٹر بھوں بھوں بھی گئے ہوئے ہیں۔ ورنہ ان سے مدد مانگتی۔"
خرگوش نے دلاسہ دیا اور بولا، "گھبراؤ نہیں۔ میں سب انتظام خود کر لوں گا۔ بس آج رات تم گلشن بیگم کے ہاں چلی جاؤ۔"
بی بطخ نے پر پھڑپھڑائے اور بولی، "بھیّا! تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟ میں آج ہی اپنا سامان باندھ کر رخصت ہوتی ہوں۔ یہ لوگ تو یہاں میرا جینا دشوار کر دیں گے۔"
خرگوش نے کہا، "بی بطخ! یہ بڑے لوگ ہمیشہ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح چھوٹے جانوروں کو چٹ کر جائیں۔"
بی بطخ نے جلدی جلدی کچھ سامان لیا اور گلشن بیگم کے گھر چلی گئی۔ خرگوش نے اپنی جیب سے غبارہ نکال کر اس میں ہوا بھری اور اسے بطخ کا لباس پہنا کر کمرے میں کھڑا کر دیا۔ پھر ایک ڈوری اس کی کمر میں باندھی اور ڈوری کا دوسرا سرا ہاتھ میں لے کر پلنگ کے نیچے چھُپ گیا۔
کچھ دیر بعد اس نے باہر کھسر پسر کی آواز سنی۔ پھر اس نے بھیڑیے کا سر بھی دیکھا، جو اندر جھانک رہا تھا۔ خرگوش نے ڈوری ہلائی اور نقلی بطخ کمرے میں گھومنے پھرنے لگی۔ خرگوش کو یہ منظر دیکھ کر اتنی ہنسی آئی کہ اسے اپنا پنجہ منہ میں دبانا پڑا۔
بھیڑیے نے کہا، "وہ کمرے میں چل پھر رہی ہے۔ اب وہ لیٹنے ہی والی ہے۔"
بھیڑیے نے ذرا سر نیچے کیا تھا۔ خرگوش نے جلدی سے نقلی بطخ کو پلنگ پر لٹا کر اس پر چادر ڈال دی۔
بھیڑیے نے پھر اندر جھانکا۔ بطخ کو سوتا دیکھ کر وہ چپکے سے اندر گھسا اور دبے پاؤں چلتا ہوا پلنگ کے نزدیک آیا۔ خرگوش نے جلدی سے ڈوری کھینچ کر بطخ کو پلنگ سے نیچے اتار لیا۔
بھیڑیے نے حیرانی سے کہا، "اچھا! تم مقابلہ کرنا چاہتی ہو بی بطخ؟ آ جاؤ۔"
اس نے غبارے کو ایک لکڑی سے چوٹ ماری۔ غبارہ اچھل کر الگ جا پڑا۔ بھیڑیا پھر آگے بڑھا۔ اس نے اس زور سے لکڑی ماری کہ غبارہ پھٹ گیا۔ ایک دھماکا ہوا اور کپڑے بھیڑیے پر گرے اور اس طرح وہ کپڑوں میں الجھ گیا۔ خرگوش جھٹ پلنگ سے باہر نکلا۔ وہ بھیڑیے کو لڑھکاتا ہوا کھڑکی تک لے گیا اور وہاں سے اُسے باہر دھکیل دیا۔
بھیڑیا دھم سے ریچھ پر گرا۔ وہ سمجھا بطخ گری ہے۔ وہ بھیڑیے کو اٹھا کر بھاگا۔
خرگوش نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ بھیڑیا ریچھ کی کمر پر گٹھری کی طرح لدا ہوا باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اور ریچھ اسے مضبوطی سے پکڑے بھاگا جا رہا تھا۔
ریچھ نے بطخ کی جگہ بھیڑیے کو بندھا جکڑا دیکھا۔ وہ یقین نہ کر سکا۔ اس نے بھیڑیے کو زمین پر پٹخا اور اسے گھورنے لگا۔ "اِس کا کیا مطلب؟ بی بطخ کہاں ہے؟"
"ٹھائیں۔ ٹھائیں۔" بھیڑیے نے غبارے کی آواز نکالی، "کیا تم نے آواز نہیں سنی تھی؟"
ریچھ خوف سے کانپنے لگا۔ بولا، "کیا بطخ کے پاس بندوق بھی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ بڑی خطرناک ہے۔"
دونوں نے آئندہ بطخ کو ستانے سے توبہ کر لی۔ بی بطخ اب تک جنگل میں ہے اور ہر طرح سے محفوظ ہے۔ خرگوش جب بھی اس سے ملنے جاتا ہے۔ وہ بی بطخ کو لومڑ، بھیڑیے اور ریچھ کے قصّے سناتا ہے۔ خود ہنستا ہے اور بطخ کو بھی ہنساتا ہے۔
 
Top