عطیہ فیضی - اردو ڈائجسٹ

فاتح

لائبریرین
واہ واہ جناب کی ہی معلوماتی مضمون ارسال کیا ہے۔۔۔ میری نظر سے پوشیدہ رہا۔ اس وقت ایک میٹنگ کے لیے نکلنا ہے لیکن واپس آ کر اسے تو تفصیل سے پڑھتا ہوں۔ :)
 

غ۔ن۔غ

محفلین
بہت ہی زبردست شئیرنگ ہے جناب سید شہزاد ناصر صاحب
میں عطیہ فیضی کے نام سے علامہ اقبال کے خطوط میں ان کے تذکرے کے حوالے سے مختصرا واقف تو تھی لیکن آپ کی اس جامع تحریر سے ان کے بارے میں
تفصیلا جاننے کا موقع ملا تو بہت خوشی ہوئی
بہت شکریہ یہ ان کا مفصل تعارف شریکِ محفل کرنے کے لیے
خوش رہیں ہمیشہ
 
بہت ہی زبردست شئیرنگ ہے جناب سید شہزاد ناصر صاحب
میں عطیہ فیضی کے نام سے علامہ اقبال کے خطوط میں ان کے تذکرے کے حوالے سے مختصرا واقف تو تھی لیکن آپ کی اس جامع تحریر سے ان کے بارے میں
تفصیلا جاننے کا موقع ملا تو بہت خوشی ہوئی
بہت شکریہ یہ ان کا مفصل تعارف شریکِ محفل کرنے کے لیے
خوش رہیں ہمیشہ
پسند کرنے کا شکریہ :)
شاد و آباد رہیں
بیگم سرفراز اقبال کا نام سنا ہے؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عطیہ فیضی کا نام تو سن رکھا تھا اور کچھ حالات بھی پڑھے تھے مختلف رسائل وجرائد میں۔ بزرگوں سے بھی کچھ باتیں سنی تھیں لیکن آپ نے تو پوری تاریخ بیان کر دی۔ بہت بہت شکریہ سید عالی مقام۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
پسند کرنے کا شکریہ :)
شاد و آباد رہیں
بیگم سرفراز اقبال کا نام سنا ہے؟

جی نام تو سنا ہے ۔ ادبی حوالے سے ان کی پہچان اور خدمات ہیں لیکن کچھ زیادہ نہیں جانتی
امید ہے آپ اس سلسلے میں بھی کوئی تحریر شریکِ محفل کریں گے تو یقینا بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا:)
 
عطیہ فیضی کا نام تو سن رکھا تھا اور کچھ حالات بھی پڑھے تھے مختلف رسائل وجرائد میں۔ بزرگوں سے بھی کچھ باتیں سنی تھیں لیکن آپ نے تو پوری تاریخ بیان کر دی۔ بہت بہت شکریہ سید عالی مقام۔
پسند کرنے کا شکریہ محترم
شاد و آباد رہیں
 
جی نام تو سنا ہے ۔ ادبی حوالے سے ان کی پہچان اور خدمات ہیں لیکن کچھ زیادہ نہیں جانتی
امید ہے آپ اس سلسلے میں بھی کوئی تحریر شریکِ محفل کریں گے تو یقینا بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا:)
کھوج میں ہوں ان کے بارے میں کچھ ملے تو ضرور شریک محفل کروں گا
 

مغزل

محفلین
پسند کرنے کا شکریہ :)
شاد و آباد رہیں بیگم سرفراز اقبال کا نام سنا ہے؟
جی خدا غریق رحمت فرمائے اب تو نو دس برس ہو گئے انتقا ل کو ، اسلام آباد کی معروف ترین ادب شناس ہستی رہی ہیں۔اجمالاً شامل کرتا ہوں۔۔ اگلے مراسلے میں۔ بیگم صاحبہ کے حکم کی تعمیل میں۔:blushing:

-----
شکر ہے مجھ سے نہیں پوچھا آپ نے ہاہاہاہ وگرنہ بیگم صاحبہ نے ہمیں دنیا و مافیا سے بے غم کردینا تھا۔۔:dancing::biggrin:
شہزاد بھائی آپ اپنی بھاوج سے مخاطب ہیں۔۔ اوے پگلی چل جلدی ادھر آ اور سلام کرو جیٹھ جی کو دعائیں لو :):blushing:

پس نوشت:
شہزاد بھائی شکر ہے جب میں نے آپ کو بابا جانی سوم کہا تھا تب نہیں دیکھا تھا غزل نے ۔۔ ورنہ سسر جی کہلاتے آپ اور اپنے بڑھاپے پر خوب ہنستے ۔۔ ہاہاہاہ:laugh::biggrin::rollingonthefloor:
 
جی خدا غریق رحمت فرمائے اب تو نو دس برس ہو گئے انتقا ل کو ، اسلام آباد کی معروف ترین ادب شناس ہستی رہی ہیں۔اجمالاً شامل کرتا ہوں۔۔ اگلے مراسلے میں۔ بیگم صاحبہ کے حکم کی تعمیل میں۔:blushing:

-----
شکر ہے مجھ سے نہیں پوچھا آپ نے ہاہاہاہ وگرنہ بیگم صاحبہ نے ہمیں دنیا و مافیا سے بے غم کردینا تھا۔۔:dancing::biggrin:
شہزاد بھائی آپ اپنی بھاوج سے مخاطب ہیں۔۔ اوے پگلی چل جلدی ادھر آ اور سلام کرو جیٹھ جی کو دعائیں لو :):blushing:

پس نوشت:
شہزاد بھائی شکر ہے جب میں نے آپ کو بابا جانی سوم کہا تھا تب نہیں دیکھا تھا غزل نے ۔۔ ورنہ سسر جی کہلاتے آپ اور اپنے بڑھاپے پر خوب ہنستے ۔۔ ہاہاہاہ:laugh::biggrin::rollingonthefloor:
:laugh::laugh:
 

سید زبیر

محفلین
سرکار !
عطیہ فیضی کے بارے میں ایک اور اقتباس تشنگان علم کے لیے حاضر ہے
محمد یامین عثمان کے مضمون عطیہ فیضی کی نادر خود نوشت ’’زمانۂ تحصیل‘‘ مطبو عہ معیار: ۱
" عطیہ فیضی (۱۸۷۷ ؁ء- ۱۹۶۷ ؁ء) ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں جہاں ان کے والد حسن علی فیضی (۱۸۲۷ ؁ء - ۱۹۰۳ ؁ء )اروبار کی غرض سے مقیم تھے۔ ان کی والدہ امیر النساء بیگم (۱۸۴۹ ؁ء - ۱۹۰۸ ؁ء) نہ صرف ادبی ذوق کی حامل تھیں بلکہ صاحبِ تصنیف بھی تھیں اس خاندان کے بانی طیب علی نے جو طیب جی کے نام سے معروف ہوئے اردو کو اوّلین خود نوشت سوانح عمری سے نوازاطیب جی نے اپنی مادری زبان گجراتی کو ترک کر کے اردو کو اپنانے فیصلہ کیا اور اپنے خاندان میں روزنامچہ متعارف کرایا جسے ’’کتابِ اخبار‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس روزنامچے میں گھر کے تمام افراد اہم واقعات تاریخ وار درج کیاکرتے تھے اس روزنامچے کو بعد میں ان کی اولادوں نے جاری رکھا اور امیر النساء بیگم نے بھی جو طیب جی کی پوتی تھیں اپنے خاندان میں اس روزنامچے کو ’’اخبار نامہ قبیلہ طیبی‘‘ کے عنوان سے جاری کیاجس میں خاندان کے تمام افراد کے لیے کچھ نہ کچھ لکھنا لازم تھا عطیہ فیضی کی بڑی بہن زہرا بیگم (۱۸۶۶ ؁ - ۱۹۴۰ ؁ء) ’’تہذیبِ نسواں ‘‘ ، ’’خاتون‘‘ اور ’’عصمت‘‘ کی اشاعت کے آغازسے ہی ان رسائل میں مضامین لکھا کرتی تھیں۔ زہرا بیگم سے بھی علامہ شبلی نعمانی کے قریبی روابط تھے اور ان کے نام علامہ کے خطوط اس مجموعے میں شامل ہیں جو عطیہ بیگم کے نام علامہ کے خطوط پر مشتمل ہے۔ زہرا بیگم بھی صاحبِ تصنیف تھیں اور تعلیمِ نسواں کی تحریک کی اوّلین کارکنان میں شامل تھیں
عطیہ بیگم کی تیسری بہن محترمہ نازلی رفیعہ بیگم (۱۸۷۴ ؁ء- ۱۹۶۸ ؁ء) بھی صاحبِ تصنیف تھیں اور ان کا تحریر کردہ سفر نامہ ’’سیرِیورپ‘‘ اردو میں خواتین کے لکھے گئے اوّلین سفر ناموں میں شمار کیا جاتا ہے عطیہ فیضی کا خاندان، جس کا تعلق سلیمانی بوہرہ جماعت سے تھا ،بمبئی کے روشن خیال خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس خاندان نے اپنے تمام بچوں کو بلا تفریقِ جنس تعلیم کے مواقع فراہم کیے۔ عطیہ بیگم نے اپنے زمانے کی مسلم خواتین کے برخلاف پردے کی پابندی بھی نہیں کی اور اسی سبب سے انھیں مجلسی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی مِلا۔ نازلی رفیعہ، نواب صاحب جنجیرہ ۹؂ کی بیگم تھیں اور اس حوالے سے ان کے کئی ریاستوں کی شاہی خاندانوں سے قریبی مراسم تھے۔ یہ مراسم عطیہ بیگم کے لیے زیادہ سے زیادہ تقریبات میں شرکت اور حلقۂ احباب میں وسعت کا سبب بنے اور وہ اعلیٰ طبقے کے مجالس کے آداب اور نشست و برخاست سے پوری طرح واقف ہو گئیں۔ پردے کی پابندی نہ ہونے کے سبب وہ مردوں سے ملاقات اور گفت و شنید بھی کرتی تھیں جس نے ایک طرف ان کی معلومات کو وسعت دی اور دوسری طرف ان کے شخصی اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھیں اور تعلیمِ نسواں کی تحریک کو ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلتا ہوا دیکھنے کی خواہش مند بھی تھیں۔ جس کی ایک جھلک ۱۹۰۵ ؁ءمیں انھوں نے علی گڑھ میں دیکھی تھی جہاں وہ اپنی ہمشیرہ زہرا بیگم کے ساتھ لیڈیز کانفرنس کی کاروائی میں شرکت اور اس سے متعلق ایک نمائش کے انتظام کے لیے گئی تھیں۔ عطیہ بیگم کو ہندوستان کے طول و عرض میں سفر و سیاحت کے بے شمار مواقع مِلے ۔ ایسے ہی ایک موقع پر وہ کلکتہ بھی گئیں ۔ کلکتہ کے دورے میں انھیں رابندر ناتھ ٹیگور کے ہاں قیام کا موقع مِلا جہاں ٹیگور کی بھتیجی سرلا دیوی گھوشل سے ان کی دوستی ہوگئی ۔ سرلا دیوی حقوقِ نسواں کی پُر جوش علم بردار تھیں۔ ۱۱؂ عطیہ بیگم خود بھی تعلیمِ نسواں کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش مند تھیں۔ سرلا دیوی سے دوستی اور ملاقاتوں نے اس جذبے کو اور تقویت دی اور ان کے دل میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول ممکن بنانے اور تعلیمِ نسواں کو عام کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش تیز تر ہوگئی چناں چہ انھوں نے تربیتِ معلمی کے لیے سرکاری وظیفہ حاصل کیا تا کہ تربیت حاصل کرنے کے بعد وطن لوٹ کر خواتین کی تعلیم کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کچھ کر سکیں۔ "
 

حسینی

محفلین
بہت اچھی شراکت ہے سید بھائی۔
یقینا عطیہ فیضی ایک عجیب تاریخی کردار ہے جس نے بڑوں بڑوں کو نچایا۔۔۔۔
حضرت علامہ یقینا ان کو اپنے بہت سارے راز شیر کرتے تھے۔۔۔۔
اس حوالے سے شادی کی بات کو ظاہرا جاوید اقبال صاحب نے "زندہ رود" میں رد کیا ہے۔۔۔
علامہ کی رومانوی زندگی کے حوالے سے جرمنی کی ایک لڑکی "ایماوگے ناسٹ" بھی تو بہت مشہور ہے۔۔۔
اس حوالے سے کوئی مضمون ہے تو بھی ضرور شیر کیجیے گا۔
بہت شکریہ۔
 
بہت اچھی شراکت ہے سید بھائی۔
یقینا عطیہ فیضی ایک عجیب تاریخی کردار ہے جس نے بڑوں بڑوں کو نچایا۔۔۔ ۔
حضرت علامہ یقینا ان کو اپنے بہت سارے راز شیر کرتے تھے۔۔۔ ۔
اس حوالے سے شادی کی بات کو ظاہرا جاوید اقبال صاحب نے "زندہ رود" میں رد کیا ہے۔۔۔
علامہ کی رومانوی زندگی کے حوالے سے جرمنی کی ایک لڑکی "ایماوگے ناسٹ" بھی تو بہت مشہور ہے۔۔۔
اس حوالے سے کوئی مضمون ہے تو بھی ضرور شیر کیجیے گا۔
بہت شکریہ۔
اس سلسلے میں کچھ میسر ہوا تو ضرور شریک محفل کروں گا
 
Top