Nadir Khan Sargiroh
محفلین
انڈاسکوپی
(انڈے اور مُرغی پر ایک سیر حاصل بحث)
نادر خان سَرگِروہ
سعودی عرب
اَنڈا بھی ایک بے زبان جانور ہے۔ یہ اور بات ہے کہ چل پھر نہیں سکتا، لیکن اِس کو ذراسی گرمی دی جائے تو اِس میں سے کوئی چلتا پھرتا نظر آ سکتا ہے۔اَنڈے کی شکل بیضوی ہوتی ہے۔ یہاں ایک سوال قابلِ غور ہے کہ کیا اَنڈے کی بھی کوئی شکل ہوتی ہے ؟ ویسے ہم نے دیکھا ہے کہ اَنڈے پر دو آنکھیں ، ناک اور منہ بنا کر ایک شکل بنائی جاتی ہے، جس سے بد شکل چھپکلیوں کو ڈرانے کی کوشش کی جا تی ہے۔
مُرغی کے ہاں ہر روز ایک اَ نڈا پیدا ہوتا ہے۔اِس حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ آبادی اَنڈوں کی ہوئی۔ اگر دنیا کی بیشتر مرغیاں سونے کے اَنڈے دیتیں تو سونے کا بھاؤ انڈے کے برابر ہوجاتا اور اَنڈا سونے کے بھا ؤ بِکتا۔ اَنڈا کبھی اپنے بَل پرسیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا۔اُسے کہیں رکھو تو لُڑھک لُڑھک جاتا ہے۔اَنڈے کو اگر پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا جائے تو وہ صفر کا ہم شکل نظر آتا ہے، اسی لیے جب صفرکی بات نکلتی ہے تو انڈے کا ذکرِ خیر ہوتا ہے۔
پتا نہیں مُرغی کے پیٹ میں پیکنگ کا کون سا ایسا نظام ہوتا ہے جو وہ انڈے کو اِتنےخوبصورت اور نفیس کیپسول کی شکل میں بر آمد کرتی ہے۔ یہ اُس وقت سے ہو رہا ہے جب مُرغی کو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ انڈا کیا چیز ہوتی ہے۔ قدرت نے مُرغی کے بطن سے سیدھے مُرغی پیدا نہیں کی ۔ پہلے انڈا پیدا کر کے ہمیں یہ اختیار دیا کہ انڈا کھاؤ ! اگر انڈا کھانے کا موڈ نہیں توتھوڑا انتظار کرو اور مُرغی کھاؤ!
ہمارے دوست پُرجوش پُوری انڈوں کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں ۔ اُن کے’ انڈازے‘ کے مطابق، دنیا میں سب سے زیادہ انڈے ، انسان اور کوّ ے کھاتے ہیں ۔ ان کے بعد بے وزن شعرا اور بے سُرے گُلوکاروں کا نمبر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ، ’’ اسکول کے زمانے میں مجھے وقتاً فوقتاً مُرغا بننے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ لیکن افسوس ! استاد نے کبھی مجھے مُرغا نہیں جانا ۔ ہر بار اِتنی عمدگی سے مُرغا بننے کے باوجود وہ مجھے گدھا ہی سمجھتے تھے اورنتیجے میں کسی نہ کسی پرچے میں اَنڈا دیتے تھے۔
مُرغیوں کے مقابلے میں مُرغوں کے پاس کرنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یوں بھی پولٹری کی صنعت میں اِنہیں بے مصرف سمجھا جاتا ہے ۔یہ نہ انڈے دیتے ہیں نہ سیتے ہیں۔ نَر چُوزوں کو اُن کے پیدا ہونے کے ۷۲ گھنٹوں کے اندر ، گرائنڈر میں ڈال کر یا بجلی کے شاک کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مُرغے نہ ہوتے تو مُرغیاں بس کُڑُک بیٹھی رہتیں۔ مُرغے ؛ دو اَہم فرائض انجام دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ انڈے کی تخلیق میں اپنا فرض اور کرداراداکرتے ہیں۔ دُوسرے ۔۔۔ بانگ دینے کے فرض کو اپنے اوپر واجب کر لیتے ہیں ۔ گاؤں کے مُرغے جب بانگ دیتے ہیں تب ’اپنے اپنے ‘گھوڑے بیچ کر سورہے لوگوں کی آنکھیں کھلتی ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں اُٹھنا چاہیے۔اور شہروں میں ’ایک دوسرے کے ‘گھوڑے بیچ کر سو رہے لوگ جب آنکھیں کھولتے ہیں تو پولٹری شاپ کے مُرغے کہتے ہیں کہ اب ہمیں بانگ دینا چاہیے۔ لیکن کبھی کبھار بانگ دینا کچھ مُرغوں کی عادت بن جاتی ہے تو کچھ کو بانگ دینے کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ایسے مُرغوں کی ٹائیمنگ اَپ سیٹ ہو جاتی ہے۔ اُن کا جب دل کیا ، منہ اُٹھایا اور بانگ دے دی۔ ایسے مُرغوں کی ککڑوں کُوں سے تنگ آ کر لوگ اُن کے حلق پر چھری پھیرکر، اب کی، تب کی ۔۔۔ سب بانگوں کو اپنے حلق سے اُتار لیتے ہیں۔
مُرغی کا شمار جزوی طور پر پرندوں میں ہوتا ہے، جو پَردار ہونے کے باوجود اُڑ نہیں سکتی۔ غنیمت ہے، مُرغی اُڑ نہیں سکتی، ورنہ اُس کو دبوچنے میں انسان کی جان نکل جاتی۔جب کہ پُرپیچ خطوط پر جھپاجھپ دوڑنے والی مُرغی ہی ہمارے ہاتھ نہیں آتی۔اُسے پکڑنے جھکو تو ٹانگوں کے بیچ سے نکل نکل جاتی ہے۔ ایک مرتبہ پُرجوش پُوری مُرغی کے پیچھے دوڑ لگاتے ہوئے، جانے کہاں کہاں سے ہوتے ہوئے، بے خیالی میں بہت دُور نکل گئے ۔ جب تھک گئے تو دَم لینے کو رُکے ۔ ہانپتے ہوئے پُرجوش پُوری کو د یکھ کر مُرغی بھی رُک گئی اور اُن کی بڑی بڑی آنکھوں میں اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں ڈال کر سوچنے لگی کہ ’’یونہی اکیلے اکیلے دوڑ لگانے کا کیا فائدہ۔‘‘ پُوری جی کو ہم نے بارہا سمجھایا کہ مُرغی کو پکڑنے کے لیے دانہ ڈالنا پڑتا ہے۔ دانہ نہ ڈالو تو مُرغی گھاس نہیں ڈالتی۔
ویسے ۔۔۔ ایک منفرد ترکیب ہے ہمارے پاس ، وہ یہ کہ جب بھی آپ مرغیوں کے غول سے مرغی پکڑنا چاہیں تو کسی دوسری مرغی پر نگاہ رکھیں ، اِس طرح آپ کی مطلوبہ مرغی بلا مشقت آپ کے ہاتھ آجائے گی ۔(یہی دنیا کا اصول بھی ہے ، جس چیز کے پیچھے آپ دوڑ تے ہیں، وہی آپ کے ہاتھ نہیں آتی) ہاں تو ۔۔۔بتائے گئے اُصول کے تحت تمام مرغیاں پکڑ پکڑ کر ڈربے میں ڈالتے جائیں۔ پھر جب آخری مرغی کی باری آئے تو سرَ کھجاتے ہوئے سوچنے میں وقت ضائع نہ کریں۔ پہلے سے پکڑی گئیں مرغیوں میں سے ایک کو کھلا چھوڑ دیں اور آخری مرغی کو دبوچ لیں۔
ہر مُرغی کے سَر پر ایک کلغی ہوتی ہے اور گردن سے ایک جھالر لٹکی ہوتی ہے۔ایک مُرغی کی کلغی دوسری سے جدا ہوتی ہے، جس سے مرغیاں ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں۔ پُرجوش پُوری کہتے ہیں کہ ایسی ہی کلغیاں چینیوں کے بھی ہونی چاہیے، تاکہ پتا تو چلے کہ اُن میں ’ یہ چینی ‘کون ہے او ر ’وہ چینی‘ کون۔
مُرغی پانچ مہینے کی عمر سے ہی انڈے دینا شروع کر دیتی ہے۔ اُس کے پیٹ میں انڈے کی تخلیق کا عمل تقریباً بیس گھنٹو ں میں مکمل ہوتا ہے ۔ ہائے بے چاری مُرغی ! ایک انڈا دِیا نہیں کہ اَگلے کی تیاری شروع۔ اگر اُس کی پیشانی ہوتی تو ہمیں پتا چلتا کہ اُس کے ماتھے پر شِکن تک نہیںآتی۔اور یہ کہ وہ کتنی ’اَنڈا پیشانی‘ سے انڈا دیتی ہے۔ ( معاف کیجیے) وہ کتنی خندہ پیشانی سے انڈا دیتی ہے۔ (انڈے کا ذکر اِتنی کثرت سے ہو رہا ہے کہ بات بات پر منہ سے انڈا نکل رہا ہے) توجناب ! بے چاری مرغی معلوم ہی نہیں ہونے دیتی کہ اُس کے انڈا ہُوا بھی ہے۔ہمیں خود اُس کی تخلیق کو ’دریافت ‘کرنا پڑتا ہے کہ کدھر دیا ہے؟ کہاں دیا ہے؟
ایک زمانے تک ’ مَرغزار ‘ کو ہم ’ مُرغ زار ‘ پڑھتے تھے اور اِس کا مطلب پولٹری فارم سمجھتے تھے۔ بلکہ کئیموقعوں پر ہم نے یہ لفظ استعمال کر کے اپنی زبان دانی کا رُعب بھی جھاڑا ۔ رُعب بھی ایسا کہ اچھے اچھوں نے ہمارے آگے زانُوئے ’تلفُّظ‘ تہ کیا۔ لیکن جب ہمارے کلون پلانر کا ظہور ہوا تو پتا چلا کہ اِس لفظ کے صحیح معنی ہیں۔۔۔ سبزہ زار ، ایسی جگہ جہاں دُور دُور تک ہری گھاس اُگی ہو۔ لیکن پُرجوش پُوری نے ہمیں ایک بارگمراہ کرنے کی کوشش کی اور مَرغزار کے یہ معنی بتائے کہ ایسی جگہ جہاں دُور ۔۔۔ دُور تک ہری ہری گھاس اُگی ہو، اور وہاں ہزار مُرغیاں چُگ رہی ہوں۔
ہم تو کہتے ہیں ’مرغزار‘ پر مرغیوں کا حق زیادہ بنتا ہے۔ پولٹری فارم کے متبادل کے طور پر اِس لفظ کو مُرغیوں کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ہری گھاس کے پاس تو پہلے ہی سبزہ زار کا لفظ موجود ہے۔ کسی کے پاس دو ۔۔۔ دو اور کسی کے پاس ایک بھی نہیں۔ یہ ہے اُردو کی حالتِ زار۔انڈے سے ہوتے ہوئے بات اُردو کے مسئلے تک آپہنچی، جو دنیا کے اُن پیچیدہ اور ٹھوسیدہ (جیسے پیچ سے پیچیدہ، ویسے ہی ٹھوس سے ٹھوسیدہ ) مسائل میں سے ایک ہے، جن پر بات کرنا، انڈے اور مُرغی کی بحث کے مترادف ہے۔جو صفر سے شروع ہوتی ہے اورگھوم پھر کر صفر پر ہی لَوٹ آتی ہے۔
...................................................................................................................................................................................
’’ جو ختم ہو کسی جگہ ، یہ ایسا سلسلہ نہیں ‘‘
(جولائی، دو ہزار آٹھ)
نادر خان سَرگِروہ