قلب سلیم ، کلمہء عشق اور مکتب عشق ۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
اللہ عزوجل سورۃ الشعراء میں ارشاد فرماتا ہے۔

يَوْمَ لا يَنْفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ ، إِلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ۔
سورة الشعراء : آیت ٨٨،٨٩۔

جس دن نہ کسی کو مال نفع دے گا اور نہ اولاد ، مگر وہی شخص ( نفع مند ہوگا ) جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہو۔۔۔

یہ دل جو بظاہر ایک مٹھی بھر عضو نظر آتا ہے ۔ اس کے باطن میں قدرت نے عجیب وغریب صلاحیتیں رکھی ہیں۔ اور یہی وہ باطنی قلب ہے کہ جس کی وسعت و گہرائی کے سامنے صحرا و سمندر بھی شرما جاتے ہیں۔۔۔ وہ سب کچھ جو ہمارے وہم و گمان کی دسترس میں نہیں آ سکتا اس قلب میں سما جاتا ہے۔۔۔ سبحان اللہ۔
اوپر بیان کی گئی آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالٰی نے ہماری کامیابی کا دارومدار بھی اسی قلب پر رکھا ہے۔۔۔ کہ جو صاف ، پاکیزہ اور سلامتی بھرا دل لے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ وہ کامیاب ہے۔۔۔
اعضائے بدن کا بادشاہ بھی یہی قلب ہے اور کائنات عشق ومحبت کا مرکز و محور بھی یہی قلب ہے۔ محبت و پیار کی ساری کہانیاں اسی قلب سے شروع ہو کر اسی پر مُک جاتی ہیں۔۔۔ بلکہ دیکھا جائے تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتیں۔ اندر خانے چلتی ہی رہتی ہیں۔۔۔
آقا علیہ الصلاہ والسلام کا فرمان ہے کہ : سن لو۔۔۔ اس بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ سنور جائے تو پورا بدن سنور جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو پورا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ تو جان لو۔۔۔ کہ گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔۔۔
جب ہماری تمام تر کامیابیوں کا انحصار اسی قلب کی صفائی اور پاکیزگی پر رکھ دیا گیا ہے تو اب اس دل کو سنوارنے کے لئے کیا کیا جائے کہ یہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کئے جانے کے قابل بن جائے۔۔۔
تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کا یہ کام کوئی آسان کام نہیں۔۔۔ قلب سے قلب سلیم حاصل کرنے تک کا یہ سفر ایک کٹھن سفر ہے۔ اس سفر کے مسافر روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔۔۔ اسی لئے تو اس کام کو جہاد اکبر کا نام دیا گیا ہے۔۔۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

کام جتنا مشکل اور کٹھن ہو اس کو انجام دینے کے لئے اتنی ہی زیادہ طاقت اور مضبوط جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہم جیسے کمزور لوگ اس بھاری کام کو کیسے انجام دیں۔۔۔ اور خاص طور پر اس دور میں کہ جب ہم باہر نکلتے ہیں تو نظر اٹھاتے ہی بے شرمی اور بے حیائی کے سارے سامان اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ اب تو باہر نکلنے کی بھی حاجت نہیں رہی۔ یہ سب خرافات ہمیں ہمارے گھروں کے بند کمروں میں دستیاب ہیں۔۔۔ غالباً یہ وہی وقت ہے جس کے بارے میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ میں فتنوں کو بارش کے اولوں کی طرح مسلمانوں کے گھروں پر گرتا دیکھ رہا ہوں۔۔۔ اب ان حالات میں ہم جیسے کمزور لوگ اپنے قلب و نظر کی حفاظت اور دل کی صفائی کا کٹھن کام کیسے کریں۔۔۔ کوئی ایسی زبردست طاقت ملے کہ جو اس دنیا کی محبت کو اس کی تمام تر گندگیوں کے ساتھ ہمارے قلوب سے نکال دے۔۔۔ کوئی ایسا طریقہ ہو کہ یہ مشکل سفر منزل بہ منزل آسانی سے کٹتا جائے۔۔۔
جی ہاں اس کا ایک گُر ہے۔ اور یہ وہی گُر ہے جس کی طاقت سے ہمارے اسلاف نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ جنہیں سن کر عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔۔۔ جی ہاں یہ وہی گر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے کہ کس طرح نمرود کی بھڑکتی ہوئی آگ کو اپنی مسکراہٹ سے ٹھنڈا کر کے خلیل اللہ بنتے ہیں۔۔۔ یہ وہی گر ہے جو ہمیں حضرت سمیّہ رضی اللہ عنہا نے سکھایا کہ کس طرح مشرکین مکہ کے مظالم سہتے سہتے ابو جہل کی برچھیوں کو اپنے نازک بدن پر روک کر اسلام کی پہلی شہیدہ کا لقب حاصل کرتے ہیں۔۔۔ یہ وہی گر ہے جو ہمیں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ کس طرح تپتے انگاروں پر لیٹ کر احد احد کا لاہوتی نغمہ گاتے ہیں۔۔۔ یہی گر سیکھ لینے کے بعد اسیران جمال مصطفٰے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ابروئے محبوب کے اشارے کے منتظر رہتے تھے کہ اشارہ ہو اور وہ اپنی گردن کٹا دیں۔۔۔ جی ہاں یہ ایک ایسا ہی گر ہے کہ اس کے حاصل ہو جانے کے بعد جان دے دینا تو ایک معمولی سا کام لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ایک جان تو کیا دونوں جہاں لٹا دیں۔ بلکہ صدا اٹھتی ہے کہ
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں۔۔۔

اور اس گُر ، اس جذبے اور اس طاقت کا نام ہے۔۔۔۔ عشق ۔۔۔۔

جس کسی نے بھی لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو سمجھ کر پڑھ لیا ، عشق کی یہ چنگاری اس کے دل میں پیوست کر دی جاتی ہے۔۔۔ اس کلمے اور جذبہ عشق کے درمیان ایک بڑا لطیف اور مضبوط رشتہ ہے۔ بلکہ اگر اس کلمے کو کلمئہ عشق کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ جس طرح عشق آپ کو خود آپ کی ذات سے الگ کر دیتا ہے اسی طرح یہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد بھی آپ اپنے نہیں رہتے ، کسی اور کے ہو جاتے ہیں۔۔۔
ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ زمانے کی سرد ہوا اس عشق کی چنگاری پر راکھ ڈالتی رہے اور ہمیں بظاہر ایسا نظر آئے کہ کسی کے دل کی یہ چنگاری ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ لیکن جب تک اس کلمے کا اثر دل میں موجود ہے یہ چنگاری بجھتی نہیں، اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے۔ اور پھر جب کبھی مدینے کی خوشبودار ہوا کا جھونکا اس چنگاری سے ٹکراتا ہے تو یہ بھڑک اٹھتی ہے۔ اور پھر ہم اس بھڑکتی ہوئی چنگاری کو کبھی غازی علم دین کا نام دے دیتے ہیں اور کبھی غازی عبدالقیوم کہنے لگتے ہیں۔ اور کبھی یہ بخاری بن کر گرجتی ہے اور کبھی چیمہ بن کر چھا جاتی ہے۔۔۔
جس طرح حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے مدینہ منورہ کو ایک بھٹی کی مانند قرار دیا ہے کہ جو اپنے اندر کسی قسم کی گندگی یا غلاظت برداشت نہیں کرتی اور تمام آلائشوں کو جلا کر نکال باہر کرتی ہے اسی طرح جب قلب میں عشق کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے تو دل کی صفائی اور پاکیزگی کا مشکل اور کٹھن کام بہت آسانی سے بلکہ لطف سے ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ جب نفس کا پُر غرور سر ، تسلیم و رضا کی تلوار کے نیچے آتا ہے تو ہر رگ کٹتے کٹتے ایسا لطف دے جاتی ہے کہ جس سے ہم پہلے آشنا ہی نہیں ہوتے۔۔۔

اس خنجر تسلیم سے یہ جان حزیں بھی
ہر لحظہ شہادت کے مزے لوٹ رہی ہے

اور پھر قلب اپنے تمام داغ دھبوں سے پاک ہو کر کندن کی طرح چمکنے لگتا ہے۔ اور اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔۔۔ لیکن تصفیہ قلب ، تزکیہ نفس اور کلمئہ عشق میں فنا ہو جانے کی یہ تربیت مکتب عشق میں داخلہ لئے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔۔۔
-
مکتب عشق کی کچھ خصوصیات:۔
ممکن ہے کہ مکتب عشق کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہو۔ لیکن دراصل یہ کوئی نیا مکتب نہیں ہے۔ بلکہ صدیوں سے اس مکتب کی کلاسیں جاری ہیں۔ اور بے شمار طالب علم اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس مکتب سے فیض پا کر ساری زندگی اپنے محبوب کا نام روشن کرتے رہے ہیں۔۔۔ جی ہاں۔ یہ اس مکتب کی خصوصیت ہے کہ یہاں کے طالب علم اپنے نام کی بجائے اپنے محبوب کے نام کو روشن کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اور جب یہ اپنا کام پورا کر لیتے ہیں تو پھر ان کا محبوب فاذکرونی اذکرکم کے وعدے کے مطابق رہتی دنیا تک ان کے نام کے ڈنکے بجاتا ہے۔۔۔اور اگر دیکھا جائے تو اس مکتب کی داغ بیل تخلیق کائنات سے بھی پہلے کی ڈالی ہوئی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ
۔
لو لاک لما خلقت الافلاک۔۔۔ اے محبوب۔۔۔ اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ کائنات بھی پیدا نہ کی جاتی۔۔۔

اور اسی بات کی تشریح مکتب عشق کے ایک طالب علم نے ان الفاظ میں کی ہے۔۔۔
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا۔۔۔ لوح و قلم تیرے ہیں

جس طرح ہر مکتب میں کچھ سینئرز ، کچھ جونیئرز، کچھ سینئر موسٹ، کچھ ذہین و فطین، کچھ سنجیدہ ، کچھ شرارتی اور کچھ ہم جیسے نکمے طالب علم ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس مکتب میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ یہاں بعض ایسے طلباء بھی ملتے ہیں جو شروع میں شرارتی تھے لیکن مکتب عشق سے تعلق استوار ہونے کے بعد ایسے سنجیدہ اور ہونہار طالب علم بنے کہ نئے آنے والوں کے لئے لائق تقلید ہو گئے۔۔۔
مکتب عشق کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس مکتب میں کوئی استاد نہیں۔۔۔ سب کے سب طالب علم ہیں۔۔۔ ہے نا عجیب و غریب بات۔۔۔ اور استاد نہ ہونے کی وجہ ایک طالب علم نے یوں بیان کی ہے کہ

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا۔۔۔
میر تقی میر

کہ عشق و محبت کا کورس ایسا کورس ہے کہ جس کو مکمل کرنے کے لئے ایک تو کیا کئی زندگیاں بھی کم ہیں اور جب کسی کا کورس ہی مکمل نہیں ہوا تو استاد کون بنے گا۔۔۔ ہاں اس مکتب کے ایک ہی استاد ہیں۔۔۔ محمد الرسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم، کہ جن کو خود بانئ مکتب نے یہ منصب عطا فرمایا ہے اور قرآن مجید میں ان کی شان معلم یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ

ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکّیھم۔۔۔
اور وہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ فرماتے ہیں۔۔۔ سبحان اللہ۔

اب ان کے بعد کوئی دوسرا اس منصب پر نہیں بٹھایا گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام ہی اس مکتب کے آخری اور کمال درجہ کے استاد ہیں۔۔۔ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

مکتب عشق میں عقل کی نشست۔۔۔

بے شک عقل اللہ عزوجل کی عطا کی ہوئی انمول نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کی عشق کے ساتھ کوئی خاص نہیں بنتی۔۔۔ عشق جب آگ میں چھلانگ لگا دیتا ہے تو یہ کنارے پہ کھڑی روکتی رہ جاتی ہے۔۔۔ اسی لئے مکتب عشق کے ایک طالب علم نے کہا تھا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔۔۔

اور ساتھ ہی اس طالب علم نے یہ صلاح بھی دے دی کہ
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ڈاکٹر محمد اقبال

اسی لئے عقل کی نشست مکتب عشق میں گیٹ کے پاس لگائی جاتی ہے۔۔۔ چونکہ اس مکتب کی بعض باتیں عقل کو عجیب و غریب یا غریب و عجیب لگ سکتی ہیں اس لئے کلاس میں آتے وقت عقل کو دروازے پر رکھی اس کی نشست پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ورنہ وہ کلاس میں شور مچاتی ہے اور سب کو ڈسٹرب کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ گیٹ کے آس پاس ہی رہے زیادہ ادھر ادھر نہ جائے تاکہ بوقت ضرورت اس سے انٹر کام پر رابطہ کیا جا سکے۔۔۔
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
ڈاکٹر محمد اقبال
داخلے کی اہلیت۔۔۔

ہر وہ شخص جو ذوق لطیف و جمیل اور فطرت سلیمہ رکھتا ہے اس مکتب میں داخلے کے لئے کوالیفائیڈ ہے۔ اس میں مرد و زن ، چھوٹے بڑے اور تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ کی کوئی قید نہیں۔۔۔

مکتب عشق سے چھٹی کا مسئلہ۔۔۔

اب مکتب عشق میں چھٹی کا بڑا مسئلہ رہتا ہے۔ کیونکہ یہاں بار بار چھٹی نہیں ملتی۔۔۔ شرارتی اور نکمے سٹوڈنٹس تو ڈنڈی مار کے چھٹی کر لیتے ہیں۔ لیکن ذہین سٹوڈنٹس جس قدر ہوشیار اور سنجیدہ سٹوڈنٹ بنتے جاتے ہیں اور اپنے تمام اسباق یاد کر کے ان کو رو بہ عمل لاتے جاتے ہیں ، ان کے چھٹی لینے کے چانسز اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں۔۔۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
-
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سنجیدہ طالبعلموں کے دل میں چھٹی کی خواہش نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ چھٹی کرنے اور چھٹی ملنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس لئے ذہین طالب علم چھٹی کرتے تو نہیں لیکن چھٹی ملنے کی ایک خواہش ان کے دل میں ضرور موجود ہوتی ہے۔ اور چھٹی کی یہ خواہش اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ کچھ دیر دنیا کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا تو ان پر پہلے ہی بہت بھاری ہو چکی ہوتی ہے۔ بلکہ چھٹی ملنے کی خواہش اس لئے ہوتی ہے کہ انہوں نے جان لیا ہوتا ہے کہ چھٹی دینے والا چھٹی دینے کے بعد ان کو ان کے گھر نہیں بھیجتا۔۔۔۔۔ بلکہ اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتا ہے۔۔۔ اور چونکہ وہ واپس اپنے گھر نہیں جانا چاہتے بلکہ " اُس " کے پاس جانا چاہتے ہیں اس لئے وہ چھٹی ملنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔۔۔
الموت جسر ۔۔۔ یوصل الحبیب الی الحبیب۔۔۔ موت ایک پل ( بریج ) ہے جو محبوب کو محبوب سے ملاتا ہے۔۔۔
۔
اور یہ ذہین اور سنجیدہ طالب علم کہ جو اپنی پوری زندگی مکتب عشق کے ٹاٹ پر بیٹھ کر اپنے محبوب کو یاد کرنے ، اس کو منانے اور راضی کرنے اور اس کے ہجر و پیار میں روتے ہوئے گزار دیتے ہیں ، جب ان کی چھٹی کا وقت آتا ہے تو کچھ اس طرح کی ایک صدا آتی ہے۔۔۔

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ، ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ۔۔۔
سُورة الْفَجْر ، آیت ٢٧ ،٢٨۔
اے اطمینان پا جانے والے نفس، لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔۔۔

اے کاش کہ جب ہماری چھٹی کا وقت آئے تو یہی صدا ہمارے کانوں میں بھی رس گھول رہی ہو۔۔۔ اے کاش۔۔۔۔۔ کہ ایسا ہو ۔۔۔

۔۔۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر الشفاء صاحب
اقبالؒ کے اشعار کا حوالہ نثر کے بیان کو بہت مضبوط کر رہا ہے۔
ایک فکر انگیز تحریر۔
داد قبول کریں۔

بہت شکریہ بلال بھائی۔۔۔

بجا فرمایا آپ نے کہ ڈاکٹر صاحب کا کلام تحریر کا لطف دوبالا کر دیتا ہے۔۔۔

جزاک اللہ خیراً کثیرا۔۔۔
 
Top