کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ جہاد کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہا ہے !! خورشید ندیم

arifkarim

معطل
آپ کو اب یہ پتہ چلا ہے؟ :grin:
افغان ’’جہاد‘‘ روسیوں کو بھگانے کیلئے۔ ایران ’’جہاد‘‘ شاہ ایران کو۔ مصر ’’جہاد‘‘ سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو۔ لیبیا ’’جہاد‘‘ قذافی کا تختہ الٹنے کیلئے۔ فلسطین ’’جہاد‘‘ فلسطینی نیشنل لیڈر شپ کو مارنے کیلئے اور موجودہ شام کا ’’جہاد‘‘ صدر اسد کو بھگانے کیلئے! :laugh:
یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!
 

سویدا

محفلین
مجھے تو گذشتہ آٹھ سال سے یہ بات پتہ ہے لیکن چہ پدی اور چہ پدی کا شوربہ

خورشید ندیم کو اب پتہ لگا ہے
 

عسکری

معطل
فارن پالیسی میں قانون رحم انسانیت اور ضابطے ظاقت کی بنیاد پر طئے کیے جاتے ہیں جہاں مفاد ہو وہاں سب جائز ہوتا ہے ۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ کوئ تعجب کی بات نہيں ہے کہ کالم نگار نے اپنے بے بنياد فلسفے کی تشہير کے ليے چند واضح حقائق کو يکسر نظرانداز کر ديا ہے۔ شايد لکھاری کے ليے اس بات کی کوئ اہميت نہيں ہے کہ پرتشدد کاروائيوں اور دہشت گردی کے جس عفريت کی پشت پنائ، حمايت اور کنٹرول کرنے کا الزام امريکی حکومت پر لگايا گيا ہے اسی کے خلاف تگ ودو ميں افغانستان ميں ہزاروں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہيں۔ اگر کالم نگار کی سوچ کو درست مان ليا جائے تو پھر اس کا تو يہ مطلب نکلتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے شہريوں کی ہلاکت، دنيا بھر ميں ہمارے شہريوں کو لاحق مسلسل خطرات اور ہماری فوجی کاروائيوں کا معاشی بوجھ ہمارے "مطلوبہ مقاصد" گردانے جانے چاہيے۔ صرف يہی نہيں بلکہ کالم نگار اپنے پڑھنے والوں کو اس احمقانہ سوچ پر قائل کرنے کے ليے بضد ہيں کہ ہماری حکومت دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کی ہلاکت کے زيادہ سے زيادہ مواقع پيدا کرنے کی غرض سے تشدد کی لہر ميں مزيد اضافے کی متمنی ہے۔

اس ناقابل يقین نظريے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ امريکی حکومت اسلامی دنيا ميں تمام جہادی تحريکوں کو کسی طريقے سے کنٹرول کر رہی ہے، لکھاری کی جانب سے کوئ ايسی مربوط اور قابل فہم تھيوری پيش نہيں کی گئ جس سے يہ واضح ہو سکے کہ آخر امريکی حکومت کو دنيا بھر ميں موجود دہشت گرد تنظيموں کے ليے اپنے شہريوں اور فوجيوں کو براہراست نشانہ بنانے کی ترغيب دينے سے کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟

جہاں تک اس پرانے، دقيانوسی اور تيزی سے اہميت کھونے والے کھوکھلے الزام کا تعلق ہے، جس کی رو سے امريکہ مسلم ممالک کے وسائل پر قبضے کا متمنی ہے تو اس ضمن ميں تو ہمارے حاليہ معاشی بحران کا سرسری تجزيہ ہی کافی ہے جو ماہرين کے مطابق اپنی نوعيت کے اعتبار سے کئ دہائيوں کے بعد بدترين شمار کيا جا رہا ہے۔

اگر کالم نگار کے بے بنياد الزامات کے مطابق ہم واقعی اسلامی ممالک کے وسائل چوری کر رہے ہوتے تو پھر تو ہم ان چوری شدہ وسائل اور خزانوں کی بدولت معاشی استحکام اور خوشحالی کے دور سے گزر رہے ہوتے ليکن حقيقت تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے ثبوت کے ليے مجھے آپکو اعداد وشمار اور مختلف رپورٹس کے حوالے دينے کی ضرورت نہيں ہے۔ آپ امريکہ کے کسی بھی نشرياتی ادارے کی گزشتہ چند ماہ کی سرخياں ديکھ ليں۔ يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ موجودہ معاشی بحران نے امريکی معاشرے کے ہر طبقے اور کاروبار کو متاثر کيا ہے۔

ميں يہ نشاندہی بھی کر دوں کہ امريکہ کے پاس اس وقت توانائ کا چوتھا وسيح ترين ذخيرہ ہے۔

زمينی حقائق يہ ہيں کہ ان مشکل معاشی حالات ميں ہمارے مفادات دنيا بھر ميں دانستہ تشدد اور افراتفری کے متحمل ہی نہيں ہو سکتے۔ بلکہ ہماری جانب سے تو ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ اپنے شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنا کے اور افغانستان ميں اپنی فوجی کاروائياں مکمل کر کے خطے کی سيکورٹی کے معاملات کلی طور پر مقامی حکومت کے حوالے کيے جائيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

ساجد

محفلین
کالم میں ایک جگہ صاحبِ کالم کا فرمانا ہے کہ 'یہ مماثلت بھی حیرت انگیز ہے کہ مسلمانوں میں اُٹھنے والی آزادی کی قومی تحریکوں پر تدریجا مذہبی رنگ غالب آیا"۔
یہ بہت پتے کی بات ہے اور میرے خیال میں یہی وہ نکتہ ہے جس پر مسلمانوں کو استعمار کا مقابلہ کرتے ہوئے ذہن میں رکھنا چاہئیے۔ ہوتا دراصل یہ ہے کہ استعماری طاقتیں مذہب کے پیغامِ حریت اور جہاد کو تمام دستیاب ذرائع اور دولت کے استعمال سے قتل و غارت گری کے ہم پلہ قرار دلوا کر ایسے مسلح گروہ خود ہی پیدا کرتی ہیں جو اپنے عوام اور حکومتوں پر حملے کرتے ہیں جبکہ مذہب اس کام سے سختی سے منع کرتا ہے۔
یہ آج کی بات نہیں بلکہ خلافت کے اختتام کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے۔ مسلمانوں میں ایک مؤثر نظام تعلیم کی شدید کمی ہے ۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی تمام اقسام کی اقتصادی سے لے کر مذہبی مشکلات کا سبب ان کے تعلیمی نظام کا بے راہ رو ہونا ہے۔ مسلح اذہان مسلح ہاتھوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ ہم ہاتھوں کو مسلح کرتے ہیں اور ہمارے بد خواہ ذہنوں کو ، تو فائدے میں کون رہے گا یہ بتانے کی بات نہیں۔
 

سویدا

محفلین
برادرم فواد جس بات کو آپ مضحکہ خیز فرمارہے ہیں اس سے زیادہ تو آپ کی وضاحت قابل تبسم ہے
آسان سی بات یہ ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ چٹ بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی !!
 

شمشاد

لائبریرین
برادرم فواد جس بات کو آپ مضحکہ خیز فرمارہے ہیں اس سے زیادہ تو آپ کی وضاحت قابل تبسم ہے
آسان سی بات یہ ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ چٹ بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی !!


صرف قابل تبسم، میرا دل تو کُھل کر قہقہہ لگانے کو چاہ رہا ہے۔
 

سویدا

محفلین
امریکہ کی مثال اس مشرقی ساس کی سی ہے جس نے کرنی تو اپنی مرضی کی ہے لیکن دنیا کو دکھانا یہ ہے کہ وہ بیک وقت بہو اور بیٹی کے ساتھ یکساں عدل وانصاف کا معاملہ کررہی ہے اور بظاہر وہ تمام قانونی ضابطے پوری بھی کرتی ہے لیکن در حقیقت وہ صرف اپنی من مانی کررہی ہوتی ہے اور وہ بھی اس انداز سے کہ کوئی اس پر انگلی بھی نہ اٹھا سکے۔
مزید تفصیل کے لیے کئی حقائق کے علاوہ ناول افسانے اور ڈراموں کی طرف رجوع کیا جائے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
امریکہ کی منطق بھی نرالی ہے ۔
پاکستان میں
ڈرون حملے کرواتا ہے
اور ساتھ ہی کیبل پر امریکی امداد کے اشتہار چلاتا ہے
شاید امریکی پالیسی ساز انسانی نفسیات کی بنیادی تعلیم سے بے بہرہ ہیں

اگر کسی کے گھر ، شہر یا ملک میں امریکی بم تباہی مچائے گا تو وہ امریکہ زندہ باد کا نعرہ لگا کر یہ تو نہیں کہے گا شکر ہے میرا گھر ، شہر یا ملک تباہ ہو گیا لیکن دُنیا پہلے سے زیادہ پُر امن ہو گئی۔
بم گرانے والے کے خلاف مردہ باد کے نعرے ہی لگیں گے۔
فوادصاحب سے گزارش ہے کہ دُنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں ۔ امریکہ کو صرف مسلمان ممالک کے معاملات میں ہی دخل اندازی اور چڑھائی کا شوق ہے
امریکہ نے شاید ہی کبھی بیک وقت اتنے محاذوں پر جنگ چھیڑی ہو گی اس جنگ کے پسِ پردہ مقصد اگر صرف امریکیوں کی حفاظت ہے تو اپنی ہوم لینڈ سیکیو رٹی کا بجٹ بڑھا دیتا۔ دُنیا میں امریکیوں کی جان کو خطرہ ہے تو دُنیا میں نت نئی لڑائیاں مول لے کر نئے دشمن بنانے سے گریز کرے
 

Fawad -

محفلین
امریکہ کی منطق بھی نرالی ہے ۔
پاکستان میں
ڈرون حملے کرواتا ہے
اور ساتھ ہی کیبل پر امریکی امداد کے اشتہار چلاتا ہے
شاید امریکی پالیسی ساز انسانی نفسیات کی بنیادی تعلیم سے بے بہرہ ہیں

اگر کسی کے گھر ، شہر یا ملک میں امریکی بم تباہی مچائے گا تو وہ امریکہ زندہ باد کا نعرہ لگا کر یہ تو نہیں کہے گا شکر ہے میرا گھر ، شہر یا ملک تباہ ہو گیا لیکن دُنیا پہلے سے زیادہ پُر امن ہو گئی۔
بم گرانے والے کے خلاف مردہ باد کے نعرے ہی لگیں گے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

زرقا،

يہ دعوی بالکل غلط ہے کہ پاکستان ميں يو ايس ايڈ کے توسط سے جاری منصوبوں کے مقاصد، ان کی بنياد يا ان منصوبوں کی وسعت کا کوئ بھی تعلق دہشت گردی کے خلاف جاری مشترکہ عالمی يا علاقائ جدوجہد سے ہے اور نا ہی يہ يو ايس ايڈ کے منصوبے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مشروط ہيں۔

امريکہ اور پاکستان کے مابين ترقياتی منصوبوں کے حوالوں سے جاری شراکت داری کئ دہائيوں پرانی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس تعلق ميں وسعت اور بہتری آئ ہے۔ سال 1951 سے اب تک يو ايس ايڈ کی جانب سے مختلف ترقياتی منصوبوں کی مد ميں حکومت پاکستان کی 7 بلين ڈالرز سے زائد کی مدد فراہم کی گئ ہے۔

پاکستانی ميڈيا ميں يو ايس ايڈ کے حوالے سے جو اشتہاری مہم جاری ہے اس کا مقصد اس حقيقت کو اجاگر کرنا ہے کہ دونوں ممالک کے مابين مختلف شعبوں ميں طويل المدت بنيادوں پر جاری شراکت داری نا صرف يہ کہ پاکستان کے عام لوگوں کے مفاد ميں ہے بلکہ اس سے دونوں اسٹريجک اتحاديوں کے مابين تعلق ميں بہتری کے ساتھ پاکستانی عوام کے ليے بہتری معاشی مواقعوں کا حصول بھی ممکن ہے۔

جہاں تک آپ کا يہ نقطہ ہے کہ امريکہ عام پاکستانی شہريوں کے قتل ميں ملوث ہے اور اس بنياد پر پاکستانيوں کے دل و دماغ ہميشہ امريکہ مخالف سوچ پر يقين رکھتے رہيں گے تو ميرا آپ سے سوال ہے کہ پاکستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں دانستہ عام شہريوں کو نشانہ بنا کر امريکہ کو سياسی، سفارتی يا فوجی سطح پر کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ خطے ميں ہماری موجودگی نا صرف يہ کہ اقوام متحدہ سے منظور شدہ ہے بلکہ ہميں خطے ميں حکومت پاکستان سميت اپنے تمام اتحاديوں اور شراکت داروں کی حمايت، تائيد اور تعاون حاصل ہے۔

يقينی طور پر صورت حال يہ نہ ہوتی اگر اس غلط تاثر ميں کوئ بھی حقيقت ہوتی جسے آپ اپنی دليل کے طور پر پيش کر رہي ہيں۔

يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ خطے ميں ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی فوجی بھی اسی دشمن کے خلاف لڑ رہے ہيں جس نے انگنت پاکستانی فوجيوں اور شہريوں کو نشانہ بنايا ہے۔ جن دہشت گردوں کا ہم تعاقب کر رہے ہيں وہ پاکستان کے دوست يا خير خواہ ہرگز نہيں ہيں۔ بلکہ يہ تو وہ عناصر ہيں جنھوں نے برملا پاکستان کی نظرياتی اساس تک کو مسترد کر ديا ہے اور يہ تشدد کے ذريعے پاکستانيوں پر اپنا طرز زندگی مسلط کرنے کے درپے ہيں۔

يقينی طور پر آپ امریکہ پر اس نقطہ نظر سے تنقيد نہيں کر سکتے کہ ہم اس عفريت کے خلاف افواج پاکستان کی نا صرف يہ کہ مدد کر رہے ہيں بلکہ انھيں اپنے وسائل تک رسائ اور لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کر رہے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد
ہم امریکہ کی
carrot and stick policy
سے اچھی طرح واقف ہیں
ایک طرف امریکہ ہے جو اپنے کچھ شہریوں کی موت کا انتقام پوری مسلم دُنیا سے لے رہا ہے
اور دوسری جانب ہم ہیں

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

پاکستانی عوام ملک میں جاری فوجی آپریشن سے ناخوش ہیں ۔ یہ جنگ آپ کی مسلط کی ہوئی ہے ہماری جنگ نہیں ہے
امریکہ ہمارا پارٹنر نہیں اور نہ ہی کبھی تھا
امریکہ کو خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمارے تعاون کی ضرورت تھی اور اس کی وہ تھوڑی بہت قیمت ادا کرتا رہا ہے
مگر یہ قیمت وصول کرنا ہمیں بہت مہنگی پڑی
اس لئے عام پاکستانی اب امریکی مفادات کے تحفظ میں تعاون کرنے کا خواہشمند نہیں
امریکہ افغانستان سے باعزت واپسی چاہتا ہے اس کے لئے وہ طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے
پاکستان کو بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنے داخلی استحکام کے لئے بے مقصد جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر ے
 

سویدا

محفلین
سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ تمام دہشت گردی اور آئین اور قانون کے تحت کررہا ہے
 

Fawad -

محفلین
؎
مقصد اگر صرف امریکیوں کی حفاظت ہے تو اپنی ہوم لینڈ سیکیو رٹی کا بجٹ بڑھا دیتا۔ دُنیا میں امریکیوں کی جان کو خطرہ ہے تو دُنیا میں نت نئی لڑائیاں مول لے کر نئے دشمن بنانے سے گریز کرے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر ميں آپ کا نقطہ درست سمجھا ہوں تو اس کی بنياد پر پاکستان ميں ہونے والے ہر خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے بعد حکومت پاکستان کا ردعمل صرف يہی ہونا چاہیے کہ عام شہريوں کو محض يہ تنبہيہ کر دی جائے کہ اپنے گھروں اور عمارتوں کے باہر سيکورٹی کے انتظامات مزيد موثر کر کے چوکيداروں کی تعداد ميں اضافہ کر ديا جائے۔ اور ان مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے کوئ تردد نہيں کرنا چاہيے جو روزانہ عام شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔

دہشت گردی کے سدباب کے ليے يہ دليل نہ تو قابل عمل ہے اور نا ہی قابل فہم۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتی ہيں کہ ان مجمرموں کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے جو نا صرف يہ کہ مزيد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہيں بلکہ مزيد "فوجيوں" کو اپنی صفوں ميں شامل کر رہے ہيں؟

اس ميں کوئ شک نہيں کہ 911 کے واقعے کے بعد سے امريکی حکومت نے اپنی سرحدوں کے اندر سيکورٹی کے حوالے سے نظام کو پہلے سے کئ زيادہ فعال کرنے کے لیے کئ اقدامات کيے ہيں۔ ليکن القائدہ اس واقعے سے پہلے ہی دنيا بھر میں امريکی املاک پر حملے کر رہی تھی۔ اگر اس واقعے کے بعد بھی امريکہ کا ردعمل محض اپنی سرحدوں کی سيکورٹی فعال کرنے تک محدود رہتا اور ان مجرموں کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی تو وہ دنيا بھر ميں ايسے مزيد حملوں کے منصوبے تيار کرنے اور ان پر عمل کرنے کے ليے آزادانہ کاروائياں کرتے۔

آج ايک تنظيم کی حيثيت سے القائدہ بے وقعت اور شکست وريخت کا شکار ہے۔ اسامہ بن لادن سميت اس تنظيم کی دو تہائ سے زيادہ قيادت گرفتار يا ہلاک ہو چکی ہے اور اس کے بہت سے ممبران خود کو محفوظ کرنے کے ليے تگ و دو کر رہے ہيں۔ يہ سب کچھ اس ليے ممکن ہو سکا کيونکہ 911 کے حادثے کے بعد امريکہ نے تمام فريقين کے ساتھ اسٹريجک بنيادوں پر شراکت داری قائم کی اور اپنے دوستوں اور اتحاديوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے عفريت کے خلاف عالمی سطح پر کامياب تحريک شروع کی۔ تمام سرکردہ اسلامی ممالک سميت عالمی برادری نے ان کاوشوں ميں ہماری حمايت بھی کی اور ہمارے ساتھ بھرپور تعاون بھی کيا کيونکہ دہشت گردی کے اثرات اور اس سے لاحق خطرات صرف امريکہ تک محدود نہيں ہيں بلکہ دنيا بھر ميں عام شہريوں کی سيکورٹی اور حفاظت اس امر سے مشروط ہے کہ دہشت گردی کی اس لہر کو ہر صورت ميں روکا جائے۔

پاکستان سميت دنيا کے کئ ممالک ميں دہشت گردی کے سبب جو جانی اور مالی نقصانات ہو‎ئے ہيں اس سے يہ حقي‍ت واضح ہے کہ ان مجرموں کے خلاف کاروائ نہ کرنا کو‏ئ فعال يا قابل عمل آپشن نہيں ہے۔

http://s4.postimage.org/51e3idt6l/dehshatgardi_k_saye.jpg

http://s4.postimage.org/bmqti5919/shattered_Pakistan.jpg

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

سید زبیر

محفلین
Fawad -کبھی یہ بھی سوچا کہ اتنی عظیم قوت کو کن ممالک سے خطرہ رہا ۔اور کن ممالک کو اس نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔جاپان جیسی امن پسند قوم پر ایٹم بم کےوحشیانہ استعمال سے آج افغانستان جیسے پسماندہ اور غریب ملک تک اس نے کن کن کو اپنا نشانہ بنایا ۔اور کہاں اسے کیسے انجام کا سامنا کرنا پڑا ۔ویت نام کے واقعات کو بھول کر خود اپنا نقصان کر رہے ہیں ہم دشمنوں کا نہیں اپنی عوام کی آواز ہی سن لو ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد
بہت دن لگے امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو جواب سوچنے میں
وہ بھی پہلے مراسلے کے ایک نقطے کا جس کا جواب آپ پہلے دے چکے تھے
اگر امریکہ خارجی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئےداخلی سیکیورٹی سخت کرکے کامیاب ہو سکتا ہے تو ہم بھی ہوسکتے ہیں
پاکستان تو صرف افغان سرحد بند کرکے دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور نیٹو سپلائی سے بھی در پردہ دہشت گردوں کو کمک ملتی ہے ۔
ویسے امریکہ کو چاہیئے کہ وہ پہلے امریکی دہشت گردوں سے نمٹے جن کے ہاتھوں سکول کے بچے بھی محفوظ نہیں
رہی پاکستانیوں کی بات تو جنگ بندی کے بعد طالبان کے پاس حملوں کا کوئی ضواز نہیں ہو گا نہ ہی قبائلی علاقوں میں طاغوت کے خلاف لڑنے والوں کے لئے حمایت رہے گی
آپ نے فکر ہی کرنی ہے تو افغان مستقبل کی کیجیے کیونکہ امریکہ کے نکلتے ہی وہاں طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہو سکتی ہے
افغانستان میں امریکی مہم جوئی کو کل کا مورخ ویت نام سے بڑی ناکامی لکھے گا
امریکہ کا دوہرا معیار اس کے خلاف نفرت کا ایک بڑا سبب ہے
امریکہ خود تو افغانستان میں طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کا خواہشمند ہےتو پاکستان اپنے داخلی استحکام کے لئے بے مقصد جنگ سے کنارہ کشی کیوں نہیں کر سکتا؟؟؟
 

Fawad -

محفلین
یہ جنگ آپ کی مسلط کی ہوئی ہے ہماری جنگ نہیں ہے
امریکہ ہمارا پارٹنر نہیں اور نہ ہی کبھی تھا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ستم ظريفی يہ ہے کہ آپ کی رائے اس دن پوسٹ کی گئ ہے جس دن پاکستان کے تمام اہم اردو اخبارات ميں ٹی ٹی پی کے نمايندے کے اس پيغام کو جلی حروف ميں شائع کيا گيا ہے جس ميں اس تنظيم کی جانب سے حکومت پاکستان کو "راہ نجات" کے ليے اپنے مطالبات تسليم کرنے کی دھمکی دی گئ ہے۔ ان کی جانب سے پاکستان کے فوجيوں اور شہريوں کے خلاف خونی مہم جاری رکھنے کا عنديہ بھی ديا گيا ہے۔

کيا کوئ بھی ايمانداری کے ساتھ يہ سوچ سکتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو کيفر کردار تک پہنچائے بغير اور ان جاری کاوشوں کے بغير جسے آپ "بے مقصد" جنگ قرار دے رہی ہيں، حکومت پاکستان ملک ميں ديرپا امن قائم کر سکتی ہے يا پورے ملک پر اپنی رٹ نافذ کر سکتی ہے ؟

کيا اس مفروضے اور سوچ کی بنياد پر پاکستان ميں دہشت گردی اور متشدد سوچ کو پنپنے کی اجازت دينا قابل عمل حل قرار ديا جا سکتا ہے کہ "يہ تو سرے سے ہمارا مسلہ ہی نہيں ہے"؟

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان ميں سينکڑوں کی تعداد ميں ہونے والے خودکش حملے اس امر کا واضح ثبوت ہيں کہ دہشت گرد گروہ نا صرف يہ کہ پاکستان ميں اپنا وجود رکھتے ہيں بلکہ اگر ان کے خلاف موثر تاديبی کاروائ نا کی گئ تو ان کی کاروائيوں ميں اضافے کے ساتھ ساتھ ان تنظيموں کو مزيد تقويت بھی ملے گی۔

ان دہشت گردوں کی جانب سے براہراست پاکستانی شہريوں کو نشانہ بنانے سے يہ حقيقت تو سب پر عياں ہے کہ يہ پاکستان کے خيرخواہ يا دوست ہرگز نہيں ہيں۔

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے بہت سے معاملات پر ہم اختلاف رائے رکھ سکتے ہيں ليکن اس معاملے کو "کسی اور کا درد سر" قرار دينا نا تو دانشمندی ہے اور نا ہی اس سے معاملے کے حل ميں کوئ مدد مل سکتی ہے۔

http://s4.postimage.org/51e3idt6l/dehshatgardi_k_saye.jpg

http://s4.postimage.org/bmqti5919/shattered_Pakistan.jpg

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

سید زبیر

محفلین
ارے بابا Fawad - یہ ٹی ٹی پی بھی تو تمہارا ہی ہراول دستہ ہے ان کو ٹنوں کے حساب سے اسلحہ بارود ،جدید ڈبل کیبن گاڑیاں ،جدید مواشلاتی نظام تو تم ہی دے رہے ہو۔ کھیں ویت نام ، صومالیہ ،سوڈان تو نہیں دے رھے ریمنڈ ڈیوس تمہارا ہی رابطہ کار تھا جو ان کی سر پرستی کر ر ہا تھا اور تمہارے پالتو دیسی کتے ریمنڈ ڈیوس کو تحفظ فراہم کر رہے تھے اور پھر بھی تم کہتے ہو کہ دنیا میں ایک امریکہ ہی ہمارا ہمدرد ہے جب کہ ہم اسے اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ حملے امریکی فوج کرتی ہے اور امداد امریکی حکومت۔ اندرون خانہ دونوں ایک ہی ہیں :)
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد
میں یا میرے جیسے لوگ عام پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہیں جو یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نہ تو پاکستان کے مفاد میں کام کر رہی ہے نہ افغانستان کے اور نہ ہی اسلام کے
یہ اُس گروہ سے متعلقہ ہیں جنہیں امریکہ نے روس کے خلاف جہادی بنایا تھا۔ یہ آج بھی پیسے کے لئے لڑتے ہیں ۔ اور یہ پیسہ انہیں پاکستان نہیں دے رہا
امریکی انٹیلیجنس خوب واقف ہے کہ ٹی ٹی پی کس کے لئے کام کرتی ہے
امریکہ اب وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جو اُس نے ویس نام سے نکلتے وقت کئے تھے ۔ ﴿متحارب گروپوں کو لڑوا کر خود جنگ سے علیحدگی اختیار کرنا﴾
لڑائی سے بہتر ہے کہ ہم ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے کے عوض معاوضہ ، زمین یا روزگار کی پیشکش کریں اور انشا اللہ امن کے لئے ہم یہ قیمت ادا کر سکیں گے
 
Top