یاس پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا

غالب کے اسلوب میں:​

پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا​
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا​
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا​
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا​
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے​
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا​
شب کی شب مہماں ہے یہ ہنگامۂ عبرت سرا​
صبح تک سب نقشِ پائے کارواں ہو جائے گا​
چشمِ نا محرم کجا اور جلوۂ محشر کجا​
پردۂ عصمت وہاں بھی درمیاں ہو جائے گا​
اشک ٹپکے یا نہ ٹپکے دل بھر آئے گا ضرور​
آہ کرنے دیجئے آپ امتحاں ہو جائے گا​
سایۂ دیوار سے لپٹے پڑے ہو خاک پر​
اٹھ چلو ورنہ وہ کافر بد گماں ہوجائے گا​
یاسؔ اس چرخِ زمانہ ساز کا کیا اعتبار​
مہرباں ہے آج، کل نا مہرباں ہو جائے گا​
 
سایۂ دیوار سے لپٹے پڑے ہو خاک پر
اٹھ چلو ورنہ وہ کافر بد گماں ہوجائے گا

یہاں جناب فاتح صاحب اور جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کی توجہ چاہتا ہوں۔ (’’نہ‘‘ نافیہ کے معاملے میں)

میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیلِ گریہ سے گردوں کفِ سیلاب تھا

۔۔۔
ہوتا یہ آیا ہے کہ ’’نہ‘‘ نافیہ اکیلا لفظ شعر میں ’’یک حرفی‘‘ (بر وزنِ ’’نَ‘‘) ہی درست تسلیم کیا گیا۔ جہاں کسی نے دو حرفی (سببِ خفیف) باندھ دیا یار لوگوں نے پکڑ لیا۔ جہاں دو حرفی سے بچنا محال ہوا وہاں شاعر نے اس کو ’’نے‘‘ نافیہ کر دیا۔ چلئے، تسلیم!۔ اسی ’’نہ‘‘ نافیہ کے مرکبات یا مشتقات کہہ لیجئے، جیسے ’’ورنہ‘‘ اور ’’وگرنہ‘‘ مندرجہ بالا دو شعروں میں ہیں؛ یہاں یہی ’’نہ‘‘ نافیہ سببِ خفیف ہے اور اس کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔
اِس کو دوہرا معیار نہیں کہئے گا کیا؟
۔۔۔

جناب الف عین ، جناب محمد وارث ، جناب فرخ منظور ۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یاسؔ اس چرخِ زمانہ ساز کا کیا اعتبار​
مہرباں ہے آج، کل نا مہربان ہو جائے گا​
یہاں شاید ٹائپو ہو گیا ہے،​
مہرباں
ہو گا شاید۔​
 
ہوتا یہ آیا ہے کہ ’’نہ‘‘ نافیہ اکیلا لفظ شعر میں ’’یک حرفی‘‘ (بر وزنِ ’’نَ‘‘) ہی درست تسلیم کیا گیا۔ جہاں کسی نے دو حرفی (سببِ خفیف) باندھ دیا یار لوگوں نے پکڑ لیا۔ جہاں دو حرفی سے بچنا محال ہوا وہاں شاعر نے اس کو ’’نے‘‘ نافیہ کر دیا۔ چلئے، تسلیم!۔ اسی ’’نہ‘‘ نافیہ کے مرکبات یا مشتقات کہہ لیجئے، جیسے ’’ورنہ‘‘ اور ’’وگرنہ‘‘ مندرجہ بالا دو شعروں میں ہیں؛ یہاں یہی ’’نہ‘‘ نافیہ سببِ خفیف ہے اور اس کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔
اِس کو دوہرا معیار نہیں کہئے گا کیا؟
۔۔۔
ویسے استاد صاحب، آپ کی رائے میں اگر نائے نافیہ صوتی اعتبار سے سببِ خفیف ہی محسوس ہو کہ جو بول چال میں ہوتا بھی ہے تو اس کو سببِ خفیف باندھنے میں حرج کیا ہے؟ آیا 'ہ' یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا​
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا​
بہت خوب انتخاب مزمل بھائی۔ زبردست :)
 

الف عین

لائبریرین
میں سمجھتا ہوں کہ وگرنہ اور ورنہ دو نوں مختلف الفاظ ہیں۔ اگر یہ ور+نہ ہوتے تو ’نہ‘ کی تقطیع کا اصول اپنایا جاتا۔ لیکن یہ آزادانہ الگ لفظ ہے۔
 
یہ یاس یگانہ چنگیزی ہے نا؟ مزمل شیخ بسمل صاحب!
عمدہ انتخاب! بہت خوب!!!!

جی بالکل۔ استاد یاس یگانہ چنگیزی لکھنوی کی غزل ہے بر زمین غالب۔

یہاں جناب فاتح صاحب اور جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کی توجہ چاہتا ہوں۔ (’’نہ‘‘ نافیہ کے معاملے میں)

میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیلِ گریہ سے گردوں کفِ سیلاب تھا

۔۔۔
ہوتا یہ آیا ہے کہ ’’نہ‘‘ نافیہ اکیلا لفظ شعر میں ’’یک حرفی‘‘ (بر وزنِ ’’نَ‘‘) ہی درست تسلیم کیا گیا۔ جہاں کسی نے دو حرفی (سببِ خفیف) باندھ دیا یار لوگوں نے پکڑ لیا۔ جہاں دو حرفی سے بچنا محال ہوا وہاں شاعر نے اس کو ’’نے‘‘ نافیہ کر دیا۔ چلئے، تسلیم!۔ اسی ’’نہ‘‘ نافیہ کے مرکبات یا مشتقات کہہ لیجئے، جیسے ’’ورنہ‘‘ اور ’’وگرنہ‘‘ مندرجہ بالا دو شعروں میں ہیں؛ یہاں یہی ’’نہ‘‘ نافیہ سببِ خفیف ہے اور اس کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔
اِس کو دوہرا معیار نہیں کہئے گا کیا؟
۔۔۔

جناب الف عین ، جناب محمد وارث ، جناب فرخ منظور ۔۔

محترم یعقوب آسی صاحب۔ اس معاملے میں میری ذاتی تحقیق یہ ہے:
چونکہ شاعری اور نکاتِ سخن کے قوانین ریاضی یا الجبرا کی طرح کٹر اور پکے نہیں ہیں تو اس میں آپ جو معاملہ بھی لے لیجئے اس میں اختلاف کا پایا جانا کوئی بڑی بات نہیں۔
اس معاملے میں آپ کا جس مجتہد استاد کی طرف دل ٹھکے وہاں رخ کر لینا جائز ہے۔ اب دیکھیں میر تقی میر نے اس معاملے میں بہت لا پرواہی برتی ہے۔ جہاں چاہا ہائے مختفی والے الفاظ میں ”ہ“ کو حرف کے طور پر شمار کرلیا۔ جہاں چاہا گرا بھی دیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ”نہ“ کو یک حرفی باندھنا کسی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ اگر کوئی نہ کو سبب خفیف باندھے تو اس پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں اگر شاعری کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ”نہ“ کو سبب خفیف باندھنے کی مثالیں شاذ ہیں۔ اس احترام میں اگر کوئی سبب خفیف باندھنے سے پرہیز کرتا ہے تو یہ اس کا حسن ظن ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔ مگر اس سے اصول و قوانین، ثقات یا غیر ثقات کا کوئی لینا دینا نہیں۔ غالب نے ”نہ“ کو کبھی سبب خفیف نہیں باندھا، ہمیشہ یک حرفی ہی باندھا ہے۔ لیکن کیوں باندھا ہے؟ اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس اگر میں یہ شعر پڑھ کر سناؤں:
جو یہ کہے کہ ریختہ (ریختا) کیونکہ ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
اور سوال کروں کہ اس ہائے مختفی کو غالب نے یہاں اس شاعرانہ تعلی سے پر شعر میں کیوں شمار کیا تو اس کا کیا جواب ہوگا؟ ”نہ“، ”ورنہ“، ”ریختہ“ تینوں کے آخر میں ہائے مختفی ہے تو ریختہ اور ورنہ کے لئے معاملہ دوسرا کیوں؟
یقیناً اس بات کا کوئی جواب نہیں۔ اور یہ ہماری نہیں بلکہ گزری ہوئی صدیوں کے مجتہد شعراء کی ایک فضول اختراع ہے جو آج کے شاعروں کو بھگتنی پڑ رہی ہے (یعنی ”نہ“ کو نَ باندھنے پر اصرار)۔
اصول تو یہ ہے کہ ہر جگہ ہائے مختفی کو گرایا جائے۔ اور اسے تقطیع کے حروف کی فہرست میں ”مکتوبی غیر ملفوظی“ کا لقب دے کر اسی طرح خارج کر دیا جائے جیسا کہ ”بالکل“ میں ”الف“ خارج ہے۔ یا پھر جس طرح معاملہ چل رہا ہے چلتا رہے۔
 
ویسے استاد صاحب، آپ کی رائے میں اگر نائے نافیہ صوتی اعتبار سے سببِ خفیف ہی محسوس ہو کہ جو بول چال میں ہوتا بھی ہے تو اس کو سببِ خفیف باندھنے میں حرج کیا ہے؟ آیا 'ہ' یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے؟

بس ٹرینڈ کی وجہ سے یک حرفی باندھا جاتا ہے۔ ورنہ ”نہ“ کے بازؤوں میں بہت زور ہے پیارے۔ ;)
 
محترم یعقوب آسی صاحب۔ اس معاملے میں میری ذاتی تحقیق یہ ہے:
چونکہ شاعری اور نکاتِ سخن کے قوانین ریاضی یا الجبرا کی طرح کٹر اور پکے نہیں ہیں تو اس میں آپ جو معاملہ بھی لے لیجئے اس میں اختلاف کا پایا جانا کوئی بڑی بات نہیں۔
اس معاملے میں آپ کا جس مجتہد استاد کی طرف دل ٹھکے وہاں رخ کر لینا جائز ہے۔ اب دیکھیں میر تقی میر نے اس معاملے میں بہت لا پرواہی برتی ہے۔ جہاں چاہا ہائے مختفی والے الفاظ میں ”ہ“ کو حرف کے طور پر شمار کرلیا۔ جہاں چاہا گرا بھی دیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ”نہ“ کو یک حرفی باندھنا کسی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ اگر کوئی نہ کو سبب خفیف باندھے تو اس پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں اگر شاعری کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ”نہ“ کو سبب خفیف باندھنے کی مثالیں شاذ ہیں۔ اس احترام میں اگر کوئی سبب خفیف باندھنے سے پرہیز کرتا ہے تو یہ اس کا حسن ظن ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔ مگر اس سے اصول و قوانین، ثقات یا غیر ثقات کا کوئی لینا دینا نہیں۔ غالب نے ”نہ“ کو کبھی سبب خفیف نہیں باندھا، ہمیشہ یک حرفی ہی باندھا ہے۔ لیکن کیوں باندھا ہے؟ اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس اگر میں یہ شعر پڑھ کر سناؤں:
جو یہ کہے کہ ریختہ (ریختا) کیونکہ ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
اور سوال کروں کہ اس ہائے مختفی کو غالب نے یہاں اس شاعرانہ تعلی سے پر شعر میں کیوں شمار کیا تو اس کا کیا جواب ہوگا؟ ”نہ“، ”ورنہ“، ”ریختہ“ تینوں کے آخر میں ہائے مختفی ہے تو ریختہ اور ورنہ کے لئے معاملہ دوسرا کیوں؟
یقیناً اس بات کا کوئی جواب نہیں۔ اور یہ ہماری نہیں بلکہ گزری ہوئی صدیوں کے مجتہد شعراء کی ایک فضول اختراع ہے جو آج کے شاعروں کو بھگتنی پڑ رہی ہے (یعنی ”نہ“ کو نَ باندھنے پر اصرار)۔
اصول تو یہ ہے کہ ہر جگہ ہائے مختفی کو گرایا جائے۔ اور اسے تقطیع کے حروف کی فہرست میں ”مکتوبی غیر ملفوظی“ کا لقب دے کر اسی طرح خارج کر دیا جائے جیسا کہ ”بالکل“ میں ”الف“ خارج ہے۔ یا پھر جس طرح معاملہ چل رہا ہے چلتا رہے۔

ع: دل کو لگتی ہیں آپ کی باتیں

جناب مزمل شیخ بسمل ۔ دیکھئے دیگر بزرگ کیا فرماتے ہیں۔
 
Top